برصغیر کی تاریخ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
برصغیر کی تاریخ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بر صغیر کے 1000 سے 2020 تک کے اہم تاریخی واقعات جو برصغیر کی تاریخ کو تشکیل دینے والے اہم موڑ ثابت ہوئے۔

 1000 سے 2020 تک کے برصغیر کے اہم تاریخی واقعات کی ایک جامع فہرست جس میں ان سیاسی، سماجی، اور ثقافتی واقعات کو شامل کیا گیا ہے جو برصغیر کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوئے۔

1000–1200: غزنوی سلطنت اور سلطنت دہلی کی بنیاد

  • 1025: محمود غزنوی کا ہندوستان پر حملہ اور سومنات کے مندر کو توڑنا۔
  • 1192: محمد غوری کی پتے پتھار کی جنگ میں راجہ پرتاپ سنگھ کو شکست، سلطنت دہلی کی بنیاد۔

1200–1500: سلطنت دہلی کا عروج اور زوال

  • 1206: قطب الدین ایبک نے سلطنت دہلی کی بنیاد رکھی۔
  • 1256: سلطان شمس الدین التمش کا اقتدار اور سلطنت دہلی کا عروج۔
  • 1320: تغلق خاندان کا اقتدار۔
  • 1398: تیمور کا ہندوستان پر حملہ اور دہلی کی تباہی۔
  • 1451: سلطنت دہلی میں لودھی خاندان کا قیام۔

1500–1600: مغل سلطنت کا آغاز

  • 1526: پانی پت کی پہلی جنگ میں بابر کی فتح اور مغل سلطنت کی بنیاد۔
  • 1556: ہمایوں کا دوبارہ تخت پر قبضہ اور اکبر کا اقتدار سنبھالنا۔
  • 1582: اکبر نے دینِ الہی کا آغاز کیا۔
  • 1605: جہانگیر کا اقتدار کا آغاز اور مغل سلطنت کا عروج۔

1600–1700: مغل سلطنت کا عروج اور زوال

  • 1628: شاہجہان کا تخت پر قبضہ اور تاج محل کی تعمیر۔
  • 1658: شاہجہان کا تخت سے محروم ہونا اور اورنگزیب کا اقتدار سنبھالنا۔
  • 1675: سکھوں کے پانچویں گرو، گووند سنگھ کی شہادت۔
  • 1707: اورنگزیب کی وفات کے بعد مغل سلطنت کا زوال شروع۔

1700–1800: برطانوی اثرات کا آغاز اور دیگر سلطنتوں کا زوال

  • 1717: مرہٹوں کی سلطنت کا عروج اور جنگوں کا آغاز۔
  • 1757: پلاسی کی جنگ میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے سراج الدولہ کو شکست دی۔
  • 1761: پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں شکست۔
  • 1799: ٹیپو سلطان کی شہادت اور ریاست میسور کا انگریزوں کے زیر اثر آنا۔

1800–1857: برطانوی راج کا آغاز

  • 1806: سکھ سلطنت کا عروج اور رنجیت سنگھ کا حکمران بننا۔
  • 1857: غدر کی تحریک (ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی)۔
  • 1858: برطانوی راج کا آغاز، ہندوستان میں براہ راست حکومت برطانیہ کے ہاتھوں میں آنا۔

مولانا ابوالکلام آزاد جنھوں نے 1946 میں ’بنگلہ دیش‘ کے قیام کی پیشگوئی کی

 عارف محمد خان
عہدہ,بی بی سی ہندی کے لیے
22 فروری 2022

مولانا ابوالکلام آزاد 11 نومبر 1888 کو سعودی عرب کے شہر مکہ میں ایک ہندوستانی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ہندوستان میں سنہ 1857 کی ناکام بغاوت کے بعد ان کا خاندان مکہ چلا گیا تھا۔

ان کے والد مولانا خیرالدین سنہ 1898 کے دوران اپنے خاندان سمیت ہندوستان لوٹے اور کلکتہ میں رہنے لگے۔ آزاد کو بچپن سے ہی کتابوں کا شوق تھا۔ جب وہ 12 سال کے تھے تو انھوں نے بچوں کے رسالوں میں مضامین لکھنا شروع کر دیے تھے۔

سنہ 1912 میں آزاد نے ’الہلال‘ کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا۔ یہ رسالہ اپنے انقلابی مضامین کی وجہ سے کافی زیر بحث رہا اور برطانوی حکومت نے دو سال کے اندر اندر اس کی سکیورٹی منی یعنی حفاظتی رقم ضبط کر لی اور بھاری جرمانے لگا کر اسے بند کر دیا۔

آزاد کو سنہ 1916 تک بنگال چھوڑنے کا حکم دیا گیا اور انھیں آج کی ریاست جھاڑکھنڈ کے شہر رانچی میں نظر بند کر دیا گیا۔

دو قومی نظریے کے مخالف اور قومی یکجہتی کے حامی


سیاسی منظرنامے میں ابھرنے کے بعد آزاد نے قومی اتحاد کو آزادی کا سب سے اہم ہتھیار قرار دیا تھا۔ سنہ 1921 میں آگرہ میں اپنی ایک تقریر کے دوران انھوں نے الہلال کے بنیادی مقاصد کا ذکر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا پہلا مقصد ہندو مسلم اتحاد ہے۔ میں مسلمانوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ان کا فرض ہے کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم کریں تا کہ ہم ایک کامیاب قوم کی تعمیر کر سکیں۔‘

مولانا آزاد کے لیے قوم کا اتحاد آزادی سے بھی زیادہ اہم تھا۔ سنہ 1923 میں کانگریس کے خصوصی اجلاس سے اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا تھا کہ ’آج بھی اگر کوئی دیوی آسمان سے اتر کر یہ کہے کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے بدلے 24 گھنٹے کے اندر اندر ہمیں آزادی دلائے گی تو میں اسے مسترد کر دوں گا۔‘

صفر سے فلسفہ حیات تک: انڈیا کی قدیم نالندہ یونیورسٹی جس نے دنیا بدل کر رکھ دی

 

سگاتو مکھرجی
عہدہ,بی بی سی نیوز
26 فروری 2023
یہ سردیوں کی ایک صبح ہے۔ ہر طرف گہری دھند چھائی ہوئی ہے۔ ہماری گاڑی سڑک پر بہار کی مشہور سواری تانگوں کے پیچھے سے گزرتی ہے۔ تیز بھاگتے گھوڑے اور خاص پگڑی میں کوچوان سفید دھند میں ’سائے‘ کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔

انڈیا کے ’بودھ گیا‘ قصبے، جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں گوتم بدھ نے معرفت حاصل کی تھی، میں رات گزارنے کے بعد میں اس صبح نالندہ کے لیے روانہ ہو گیا۔ یہ وہ یونیورسٹی ہے جس کی سرخ رنگ کی اینٹوں کے کھنڈرات ابھی تک قدیم دنیا کے سب سے بڑے علمی مراکز میں سے ایک ہیں۔

انڈیا کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے وہ اقدامات جنھوں نے انڈیا کو بدل کر رکھ دیا

ابھینو گویل
عہدہ,بی بی سی ہندی، نئی دہلی

سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ سنہ 2004 سے 2014 تک انڈیا کے وزیر اعظم رہے۔ انھیں اگر دنیا بھر میں اقتصادی ماہر کے طور پر دیکھا جاتا ہے تو انڈیا میں انھیں اقتصادی لبرلائزیشن کے ہیرو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

منموہن سنگھ کو سنہ 1991 میں اس وقت کے وزیر وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کی قیادت والی کانگریس پارٹی کی حکومت میں وزیر خزانہ بنایا گیا تھا۔

سنہ 1999 اور 2004 میں انھوں نے لوک سبھا کے انتخابات میں بطور کانگریس امیدوار شرکت کی لیکن انھیں کامیابی نہ مل سکی تاہم جب اکثریت حاصل کرنے والی کانگریس پارٹی کی رہنما سونیا گاندھی نے وزیر اعظم بننے کی دوڑ سے کنارہ کشی اختیار کر لی تو یہ ذمہ داری ڈاکٹر منموہن سنگھ کو سونپی گئی۔

ان کے دس سالہ دور میں کئی بڑے فیصلے کیے گئے جو سنگ میل ثابت ہوئے۔ ہم یہاں ان کے سات اہم کاموں کا ذکر کر رہے ہیں۔

1۔ معلومات کا حق


معلومات کا حق یعنی رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں 12 اکتوبر سنہ 2005 کو ملک میں نافذ کیا گیا۔

اس قانون کے تحت انڈین شہریوں کو سرکاری اہلکاروں اور اداروں سے معلومات حاصل کرنے کا حق ملا۔

یہ وہ حق ہے جو شہریوں کو باخبر فیصلے کرنے اور مرضی کے مطابق طاقت استعمال کرنے والوں سے سوال کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

آر ٹی آئی کا اثر پنچائیت سے لے کر پارلیمنٹ تک ثابت ہو چکا ہے۔ اس سے نہ صرف افسر شاہی کو ہٹانے میں مدد ملی بلکہ بیوروکریسی کے تاخیر کرنے والے رویے کو بھی دور کرنے میں مدد ملی۔

وہ دور جب ہندوستانی روپے نے خلیجی ریاستوں میں سونے کے سکوں کے مقابلے میں اپنی جگہ بنائی

وقار مصطفیٰ | بی بی سی اردو | 16 جولائی 2024

عربی میں حرف ’پ‘ نہیں، سو ہندوستانی روپے کو تو گھونگھوں سے موتی نکالتے خلیج کے عرب مچھیروں نے روبیا کہہ لیا لیکن اس کا کیا کیجیے کہ برطانوی حکمران کی تصویر والے کاغذ کے اس ٹکڑے میں نہ سونے کے عثمانی سکے جیسی چمک تھی نہ چھونے، گننے اور جمع کر کے رکھنے میں ویسا مزہ اور اعتماد اور بھیگ گیا تو ضائع۔
ہندوستانی روپیہ

موتیوں کے عرب تاجروں کے بیان میں لنڈا شلچر لکھتی ہیں کہ سونے کے سکے نہ صرف زر مبادلہ کا ذریعہ تھے بلکہ دولت اور تحفظ کی علامت بھی تھے۔

’سونے کے سکوں کی گنتی ہوتی اور ہر لین دین میں وزن کیا جاتا، سامان خریدنے سے لے کر قرضوں کے تصفیہ تک۔‘

خلیجی ریاستوں کی معیشتوں کی تبدیلی کا احاطہ کرتی اپنی تحریر میں انتھونی بی ٹوتھ بتاتے ہیں کہ کیسے ابوظہبی کے ایک چھوٹے تجارتی مقام پر احمد نامی تاجر ایک برطانوی افسر سے روپے لینے سے انکار اور سونے کے سکوں پر اصرار کرتے ہیں۔افسر ان کی ہچکچاہٹ کو سمجھتے ہوئے احمد کے سامنے دوسرے تاجروں سے روپے کے بدلے سامان خریدتے ہیں۔

اس مظاہرے سے قائل ہو کر ہی احمد نے کاغذی کرنسی پراعتماد کیا۔

یہی مسئلہ بیسویں صدی کے اوائل میں دبئی کے موتیوں کے ایک تاجرعبداللہ کا بھی تھا، جن کی کہانی ان زبانی روایات میں سے ایک ہے جو دبئی میوزیم آرکائیوز نے جمع کی ہیں۔

عثمانی سونے کے سکوں میں تجارت کرنے کے بعد عبداللہ کو ابتدائی طور پر نئی کاغذی کرنسی ہندوستانی روپے پر شک تھا۔ ایسی ہی ہچکچاہٹ بہت سے اور تاجروں میں بھی تھی جنھیں خدشہ تھا کہ کاغذی کرنسی سونے جیسی قیمتی نہیں۔

ایک دن عبداللہ کو اپنے موتیوں کے بدلے ایک اہم پیشکش ملی لیکن ادائیگی ہندوستانی روپے میں تھی۔ نئی کرنسی کو قبول کرنے یا معاہدہ کھونے کے انتخاب کا سامنا کرتے ہوئے انھوں نے ہچکچاتے ہوئے اس پر اتفاق کر لیا۔ آہستہ آہستہ دوسرے تاجر بھی ان کی پیروی کرنے لگے۔

جب انڈیا کی مدد سے بندوق کے سائے تلے ’بنگلہ دیش‘ کی پہلی عبوری حکومت قائم ہوئی

ریحان فضل

بی بی سی ہندی، دہلی

پانچ دن گھوڑے پر اور پیدل چلنے کے بعد 31 مارچ 1971 کی شام عوامی لیگ کے رہنما تاج الدین احمد اور امیر الاسلام انڈیا کی سرحد کے قریب ایک پل کے پاس بیٹھے تھے۔ دونوں ننگے پاؤں تھے۔ ان کا ایک قاصد سرحد پار رابطہ قائم کرنے گیا تھا-

بنگلہ ديش کى پہلى عبورى حکومت

جیسے ہی اندھیرا ہوا، ان کو جوتوں کی آواز سنائی دی۔ تھوڑی ہی دیر میں مسلح سپاہیوں کا ایک چھوٹا گروپ ان کے سامنے تھا۔ ان کی قیادت بارڈر سیکورٹی فورس کے ایک اعلیٰ افسر گولوک مجمدار کر رہے تھے۔

تاج الدین نے عوامی لیگ کے رہنماؤں اور قومی اسمبلی کے اراکین کی ایک فہرست ان کے حوالے کی۔ 30 اور 31 مارچ کی رات 12 بجے بارڈر سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل کے ایف رستم جی تاج الدین احمد سے ملنے دہلی سے کلکتہ پہنچے۔ گولوک مجمدار نے ان کا استقبال کیا اور انھیں ایئرپورٹ کے باہر کھڑی ایک جیپ تک لائے جس میں تاج الدین احمد بیٹھے تھے۔

کاش کہ ایسا ہو تا !!

 انیس باقر

21 جنوری 2016  روزنامہ ایکسپریس 

کاس کہ ایسا ہوتا !

مغرب نے دو جنگ عظیم میں سبق یہ سیکھا کہ یورپی یونین بنا لی، ایک سکہ یورو بنا لیا، ایک نہیں کئی راہداریاں بنا لیں اور یورپ کو آشتی کا گہوارہ بنا لیا، بس یونان کے ساحل پر اترنے کی دیر ہے کہ ایک راستہ سربیا، ہنگری، آسٹریا ہوتا ہوا جرمنی، دوسری راہداری مقدونیہ، البانیہ، کروشیا، چیکوسلواکیہ، آسٹریا ہوتا ہوا جرمنی اور پھر جرمنی، ہالینڈ، فرانس، نہ بندشیں، نہ روک ٹوک، نہ نسلی اور مذہبی فسادات کا ڈر، نہ لوٹ مار، نہ ٹرینیں جلائے جانے کا خوف۔ یورپ سے خوف کا ڈر 1946ء سے گزر گیا اور بہتر سے بہتر وقت آتا گیا جب کہ 1946ء سے برصغیر میں بھی ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔

1955 تک تو دونوں ملکوں کے درمیان پاسپورٹ بھی نہ تھا بلکہ گاندھی جی اور جناح صاحب میں اتنے اچھے تعلقات تھے کہ اثاثوں کی تقسیم کے لیے گاندھی جی نے پاکستان کے حق میں مرن برت رکھا اور حیدر آباد دکن کے اثاثہ جات تقسیم ہوئے۔ اگر آج جیسے حالات ہوتے تو تقسیم ہند آسان نہ ہوتی۔ ہندو مسلم فساد انگریز کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی، وہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان دراڑیں ڈالنا اور کشمیر کی لکیر مرکز رزم گاہ بنا رہا۔ 40 لاکھ کی آبادی کے علاقے نے ڈیڑھ ارب کی آبادی کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ آنیوالی نسلوں میں میل ملاپ کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔

تمام تر سائنسی ترقی محض جنگ کی جستجو میں گزر رہی ہے۔ پنڈت نہرو نے ہندوستان کو سیکولر ملک قرار دیا۔ ہمارے ملک کا موازنہ تو کر کے دیکھیں کہ پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیض کو ملک کے حکمرانوں نے کوئی بھی انعام نہ دیا، فیض صاحب کے علاوہ، حبیب جالب، احمد فراز اور بلوچی شاعر گل خان نصیر اور پشتو کے شاعر اجمل خٹک کو کوئی مقام نہ مل سکا البتہ زندگی کے اختتام پر ان کی پذیرائی ہوئی البتہ اجمل خٹک کو موت کے بعد بھی شہرت نہ مل سکی کیونکہ انھوں نے سیاست میں رقم نہ کمائی کیونکہ اسفند یار ولی نے ولی خان کی سیاست کو جاری نہ رکھا اور نہ اجمل خٹک نے اردو شاعری کی اور ان کا پشتو کلام چھپوانے پر کوئی تیار ہوا۔ ممکن ہے کہ اب کوئی صاحب ذوق سامنے آئے جو امن کے گیت چھپوا سکے۔

تقسیم کی لکیر (1885-1947) -

اشلین کور ،  بی بی سی اردو 

نو آبادیاتی ہندوستان کا نقشہ 1911ء

یہ کہانی ہے 70 سال پہلے کی جب انگریزوں کے جانے کے ساتھ ہی ایک بھارت دو حصوں میں بٹ گیا اور دو آزاد ممالک کا جنم ہوا انڈیا اور پاکستان۔ تقسیمِ ہند کی تاریخ سے جڑی کچھ اہم تاریخوں پر ایک نظر۔

دسمبر 1885 میں انڈین نیشنل کانگریس کا پہلا اجلاس ممبئی میں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے 20 برسوں میں کانگریس کو آزادی یا سیلف گوورننس کی تشہیر میں خاص دلچسپی نہیں تھی۔

تاہم 1905 میں پہلی تقسیمِ بنگال کے بعد کانگریس نے اصلاحات کا مطالبہ تیز کر دیا اور آخرکار برطانیہ سے مکمل آزادی کے لیے جدوجہد شروع کی۔

فروری 1938 میں مہاتماگاندھی اور قائد اعظم نے ملک میں مذہبی کشیدگی کا حل نکالنے کے لیے بات چیت شروع کی لیکن یہ بات چیت جولائی میں ناکام ہو گئی۔ دسمبر میں مسلم لیگ نے کانگریس کے مسلمانوں کے ساتھ برے سلوک کی شکایات کی تحقیق کے بارے میں ایک کمیٹی قائم کی۔

قیامِ پاکستان کی تحریک میں ایک اہم پڑاؤ 23 مارچ 1940 کو آیا۔ اسی دن برطانوی راج کے خلاف بھارت میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی مسلم لیگ نے لاہور میں ایک تجویز پیش کی جسے قرارداد پاکستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک پوری طرح آزاد اور خودمختار ملک کی تشکیل کی تجویز پیش کی گئی۔

وہیں وائسرائے لنلتھگو نے اگست کی پیشکش کا اعلان کیا، جس میں ایک ایگزیکیٹو کونسل اور وارایڈوائزری کونسل میں بھارتی نمائندوں کی تعیناتی کا اعلان ہوا۔ کانگریس اور مسلم لیگ نے یہ پیشکش مسترد کر دی اور سترہ اکتوبر کو کانگریس نے انگریز راج کے خلاف عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی۔