برصغیر کی تاریخ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
برصغیر کی تاریخ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جب انڈیا کی مدد سے بندوق کے سائے تلے ’بنگلہ دیش‘ کی پہلی عبوری حکومت قائم ہوئی

ریحان فضل

بی بی سی ہندی، دہلی

پانچ دن گھوڑے پر اور پیدل چلنے کے بعد 31 مارچ 1971 کی شام عوامی لیگ کے رہنما تاج الدین احمد اور امیر الاسلام انڈیا کی سرحد کے قریب ایک پل کے پاس بیٹھے تھے۔ دونوں ننگے پاؤں تھے۔ ان کا ایک قاصد سرحد پار رابطہ قائم کرنے گیا تھا-

بنگلہ ديش کى پہلى عبورى حکومت

جیسے ہی اندھیرا ہوا، ان کو جوتوں کی آواز سنائی دی۔ تھوڑی ہی دیر میں مسلح سپاہیوں کا ایک چھوٹا گروپ ان کے سامنے تھا۔ ان کی قیادت بارڈر سیکورٹی فورس کے ایک اعلیٰ افسر گولوک مجمدار کر رہے تھے۔

تاج الدین نے عوامی لیگ کے رہنماؤں اور قومی اسمبلی کے اراکین کی ایک فہرست ان کے حوالے کی۔ 30 اور 31 مارچ کی رات 12 بجے بارڈر سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل کے ایف رستم جی تاج الدین احمد سے ملنے دہلی سے کلکتہ پہنچے۔ گولوک مجمدار نے ان کا استقبال کیا اور انھیں ایئرپورٹ کے باہر کھڑی ایک جیپ تک لائے جس میں تاج الدین احمد بیٹھے تھے۔

کاش کہ ایسا ہو تا !!

 انیس باقر

21 جنوری 2016  روزنامہ ایکسپریس 

کاس کہ ایسا ہوتا !

مغرب نے دو جنگ عظیم میں سبق یہ سیکھا کہ یورپی یونین بنا لی، ایک سکہ یورو بنا لیا، ایک نہیں کئی راہداریاں بنا لیں اور یورپ کو آشتی کا گہوارہ بنا لیا، بس یونان کے ساحل پر اترنے کی دیر ہے کہ ایک راستہ سربیا، ہنگری، آسٹریا ہوتا ہوا جرمنی، دوسری راہداری مقدونیہ، البانیہ، کروشیا، چیکوسلواکیہ، آسٹریا ہوتا ہوا جرمنی اور پھر جرمنی، ہالینڈ، فرانس، نہ بندشیں، نہ روک ٹوک، نہ نسلی اور مذہبی فسادات کا ڈر، نہ لوٹ مار، نہ ٹرینیں جلائے جانے کا خوف۔ یورپ سے خوف کا ڈر 1946ء سے گزر گیا اور بہتر سے بہتر وقت آتا گیا جب کہ 1946ء سے برصغیر میں بھی ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔

1955 تک تو دونوں ملکوں کے درمیان پاسپورٹ بھی نہ تھا بلکہ گاندھی جی اور جناح صاحب میں اتنے اچھے تعلقات تھے کہ اثاثوں کی تقسیم کے لیے گاندھی جی نے پاکستان کے حق میں مرن برت رکھا اور حیدر آباد دکن کے اثاثہ جات تقسیم ہوئے۔ اگر آج جیسے حالات ہوتے تو تقسیم ہند آسان نہ ہوتی۔ ہندو مسلم فساد انگریز کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی، وہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان دراڑیں ڈالنا اور کشمیر کی لکیر مرکز رزم گاہ بنا رہا۔ 40 لاکھ کی آبادی کے علاقے نے ڈیڑھ ارب کی آبادی کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ آنیوالی نسلوں میں میل ملاپ کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔

تمام تر سائنسی ترقی محض جنگ کی جستجو میں گزر رہی ہے۔ پنڈت نہرو نے ہندوستان کو سیکولر ملک قرار دیا۔ ہمارے ملک کا موازنہ تو کر کے دیکھیں کہ پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض احمد فیض کو ملک کے حکمرانوں نے کوئی بھی انعام نہ دیا، فیض صاحب کے علاوہ، حبیب جالب، احمد فراز اور بلوچی شاعر گل خان نصیر اور پشتو کے شاعر اجمل خٹک کو کوئی مقام نہ مل سکا البتہ زندگی کے اختتام پر ان کی پذیرائی ہوئی البتہ اجمل خٹک کو موت کے بعد بھی شہرت نہ مل سکی کیونکہ انھوں نے سیاست میں رقم نہ کمائی کیونکہ اسفند یار ولی نے ولی خان کی سیاست کو جاری نہ رکھا اور نہ اجمل خٹک نے اردو شاعری کی اور ان کا پشتو کلام چھپوانے پر کوئی تیار ہوا۔ ممکن ہے کہ اب کوئی صاحب ذوق سامنے آئے جو امن کے گیت چھپوا سکے۔

تقسیم کی لکیر (1885-1947) -

اشلین کور ،  بی بی سی اردو 

نو آبادیاتی ہندوستان کا نقشہ 1911ء

یہ کہانی ہے 70 سال پہلے کی جب انگریزوں کے جانے کے ساتھ ہی ایک بھارت دو حصوں میں بٹ گیا اور دو آزاد ممالک کا جنم ہوا انڈیا اور پاکستان۔ تقسیمِ ہند کی تاریخ سے جڑی کچھ اہم تاریخوں پر ایک نظر۔

دسمبر 1885 میں انڈین نیشنل کانگریس کا پہلا اجلاس ممبئی میں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے 20 برسوں میں کانگریس کو آزادی یا سیلف گوورننس کی تشہیر میں خاص دلچسپی نہیں تھی۔

تاہم 1905 میں پہلی تقسیمِ بنگال کے بعد کانگریس نے اصلاحات کا مطالبہ تیز کر دیا اور آخرکار برطانیہ سے مکمل آزادی کے لیے جدوجہد شروع کی۔

فروری 1938 میں مہاتماگاندھی اور قائد اعظم نے ملک میں مذہبی کشیدگی کا حل نکالنے کے لیے بات چیت شروع کی لیکن یہ بات چیت جولائی میں ناکام ہو گئی۔ دسمبر میں مسلم لیگ نے کانگریس کے مسلمانوں کے ساتھ برے سلوک کی شکایات کی تحقیق کے بارے میں ایک کمیٹی قائم کی۔

قیامِ پاکستان کی تحریک میں ایک اہم پڑاؤ 23 مارچ 1940 کو آیا۔ اسی دن برطانوی راج کے خلاف بھارت میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی مسلم لیگ نے لاہور میں ایک تجویز پیش کی جسے قرارداد پاکستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کے تحت مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک پوری طرح آزاد اور خودمختار ملک کی تشکیل کی تجویز پیش کی گئی۔

وہیں وائسرائے لنلتھگو نے اگست کی پیشکش کا اعلان کیا، جس میں ایک ایگزیکیٹو کونسل اور وارایڈوائزری کونسل میں بھارتی نمائندوں کی تعیناتی کا اعلان ہوا۔ کانگریس اور مسلم لیگ نے یہ پیشکش مسترد کر دی اور سترہ اکتوبر کو کانگریس نے انگریز راج کے خلاف عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی۔