شہدائے اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
شہدائے اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر سید ابوالاعلی مودودی ؒ کے تاثرات

میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر
سید ابوالاعلی مودودی کے تاثرات  
میجر راجا عزیز بھٹی 6 اگست 1923 کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے جہان ان کے والد راجہ عبد اللہ بھٹی اپنی ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔  دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یہ گھرانہ واپس لادیاں، ضلع گجرات چلا آیا جو ان کا آبائی گائوں تھا۔ راجہ عزیز بھٹی قیام پاکستان کے بعد 21 جنوری 1948ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں انہیں شہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا پھر انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور 1956ء میں ترقی کرتے کرتے میجر بن گئے۔ 

6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کررہے تھے۔ 12 ستمبر 1965 کو لاہور محاز پر بھارت سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے -  26 ستمبر 1965ء کو صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجیوں کو 1965 کی جنگ میں بہادری کے نمایاں کارنامے انجام دینے پر مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا۔  ان اعزازات میں سب سے بڑا تمغہ نشان حیدر تھا جو میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو عطا کیا گیاتھا۔ راجہ عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔ 

 مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ نے میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر ان کے والد محترم کے نام خط لکھا، اس میں انہونے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، عزیز بھٹی کو  پاکستان یعنی "دارالاسلام" کے محافظ ،اور اسلام کے جانباز کا خطاب دیا،   اور ان کے حق میں دعا فرماتے ہوئے لکھا کہ اللہ تعالی "ان کو شہدائے بدر و احد کی معیت کا شرف بخشے" ،  یہاں ان کا اصل خط ملاحظہ کریں !

میر انیس اور ان کے مرثیوں کا مختصر فنّی جائزہ

 میر انیس 
ببر علی انیس۔ اردو مرثیہ گو۔ میر مستحسن خلیق کے صاحبزادے تھے اور معروف مثنوی سحر البیان کے خالق میر غلام حسین حسن ان کے دادا تھے۔ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ خاندانِ سادات سے تعلق تھا۔

تعلیم

مولوی حیدر علی اور مفتی حیدر عباس سے عربی، فارسی پڑھی۔ فنونِ سپہ گری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ فنِ شہسواری سے بخوبی واقف تھے۔

شاعری و مرثیہ گوئی

شعر میں اپنے والد سے اصلاح لیتے تھے۔ پہلے حزیں تخلص تھا۔ شیخ امام بخش ناسخ کے کہنے پر انیسؔ اختیار کیا۔ ابتدا میں غزل کہتے تھے۔ مگر والد کی نصیحت پر مرثیہ کہنے لگے اور پھر کبھی غزل کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس خاندان میں شاعری کئی پشتوں سے چلی آتی تھی۔ آپ کے مورثِ اعلیٰ میر امامی شاہ جہاں کے عہد میں ایران سے ہند میں آئے تھے اور اپنے علم و فضل کی بنا پر اعلیٰ منصب پر متمکن تھے۔ ان کی زبان فارسی تھی لیکن ہندوستانی اثرات کے سبب دو نسلوں کے بعد ان کی اولاد فصیح اردو زبان بولنے لگی۔ میر انیس کے پردادا اور میر حسن کے والد میر غلام حسین ضاحک اردو کے صاحبِ دیوان اور غزل گوشاعر تھے۔ گویا میر انیس کے گھر انے کی اردو شاعری کا معیار تین نسلوں سے متقاضی تھا کہ وہاں میر انیس جیسا صاحب سخن پروان چڑھے اور تا قیامت اہلِ ادب اُسے خدائے سخن کے نام سے پکارتے رہیں۔

غزل سے مرثیے تک

میر انیس ابتدا میں غزل کہتے تھے مگر والد کی نصیحت پر صرف سلام اور مرثیہ کہنے لگے اور پھر ایسے منہمک ہوئے کہ کبھی غزل کہنے پر توجہ ہی نہیں دی۔ محمد حسین آزاد نے کیا خوبصورت تبصرہ فرمایا ہے کہ

والد کی فرماں برداری میں غزل کو ایسا چھوڑا کہ بس غزل کو سلام کر دیا۔
ناصر لکھنوی نے خوش معرکہء زیبا (مرتّبہ مشفق خواجہ کراچی ) میں لکھا ہے کہ غزلیں انہوں نے دانستہ ضاِئع کر دی تھیں مگر پندرہ سولہ غزلیں جو محققین کو دستیاب ہوئی ہیں وہ انیس کی غزل گوئی پر فنی قدرت کی واضح ترین دلیل ہیں۔ چند شعر دیکھیے

شہید قدسی، محمد مرسی - عبد الغفار عزیز

شہید قدسی محمد مرسی 

جب سے مصر کے واحد منتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد مرسی کی شہادت کی خبر ملی، تو دنیا میں ان کے آخری لمحات کی تفصیل کا انتظار تھا۔ الحمدللہ، شہید کی اہلیہ محترمہ نجلاء محمد مرسی سے فون پر گفتگو ہوئی، اور پھر ان کے صاحبزادے احمد محمد مرسی سے بھی رابطہ ہوا،وہ بتارہے تھے کہ:

’’ ہمیں والد صاحب کی وفات کے دس گھنٹے بعد جیل میں ان کی میت کے پاس لے جایا گیا اور چہرے پر پڑی چادر ہٹائی گئی، تو ہم سب کو ایک دھچکا لگا، اور چہرے پر شدید تناؤ، غصّے اور بیماری کے اثرات نمایاں تھے۔ ہم نے مغفرت کی دُعائیں کرتے ہوئے، وہاں بڑی تعداد میں موجود فوجی اور پولیس افسروں سے کہا کہ وہ تجہیز و تکفین کے لیے اہل خانہ کو ان کے ساتھ اکیلے چھوڑ دیں، جسے انھوںنے مان لیا۔ اس ربّ کی قسم! جس نے یہ کائنات پیدا کی جیسے ہی جنرل سیسی کے      وہ گماشتے کمرے سے نکلے، ہم سب حیران رہ گئے کہ ابّو کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔ تناؤ کی بجاے سکون اور پیلاہٹ کے بجاے نور طاری ہونے لگا۔ یہ کوئی ابّو کی کرامت نہیں، اللہ کی طرف سے ہم سب کے لیے بشارت اور ڈھارس کا سامان تھا۔ گویا ابّو نے صرف  اپنی حیات ہی میں ان جابروں کے سامنے جھکنے سے انکار نہیں کیا تھا، اپنی وفات کے بعد بھی وہ ان کے مظالم پر احتجاج کررہے تھے‘‘۔

اخوان المسلمون: عزیمت کی ۹۰ سالہ داستان

منیر احمد خلیلی 

پندرہ روزہ معارف،  کراچی 
اسلامک ریسرچ اکیڈمی ،  کراچی 
تاریخ اشاعت : 16 جولائی 2018 

حسن البناءؒ کی تحریک الاخوان المسلمون کی تاسیس کو گزرے مارچ میں ۹۰ برس ہوگئے ہیں۔ ۱۹۲۸ء میں قائم ہونے والی عالم عرب کی اس بے نظیر دینی تحریک جسے معروف معنوں میں سیاسی جماعت بھی کہا جاسکتا ہے، کے پس منظر میں ہمیں خلافتِ عثمانیہ کا شکستہ ڈھانچہ پڑا نظر آتا ہے۔ ۱۹۲۴ء میں خلافت کے ادارے کا انہدام ہوا تو اس پر ماتمی نوحے برصغیر پاک و ہند میں بھی بلند ہوئے اور مصر میں بھی سنائی دے رہے تھے۔ مصر میں اس ماتم کی فضا میں احیاء خلافت کی ایک مہین سی کوشش ہوئی تھی لیکن اس ادارے کو ختم کرنے والوں نے خوب سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا تھا کہ اب اسے زندہ کرنے کی کوئی کوشش بارآور نہیں ہوگی۔ چنانچہ مصر میں ہونے والی یہ کوشش جلد ہی دم توڑ گئی تھی۔ مصر کو پوے عالم عرب میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔ علم و عرفان، تعلیم و تدریس، تصنیف و تالیف، شعر و ادب، طباعت و اشاعت یہاں تک کہ فلم اور ڈرامہ کی صنف تک کے جو چشمے سارے شرقِ اوسط کو سیراب کرتے تھے اور آج بھی کر رہے ہیں ان کا منبع مصر ہی تھا۔ ترک مدتوں تک میدانِ جنگ کے معرکوں میں الجھے رہے چنانچہ علمی و فکری روشنی ترکی سے زیادہ مصر ہی میں پھیلی رہی۔ فاطمی عہد کی یادگار الازہر جیسی قدیم اور عظیم علمی درسگاہ ایک ہزار سال سے زیادہ مدت سے مصر کے ماتھے کا جھومر چلی آرہی ہے۔ مصر میں مغرب پرستی، لبرل ازم اور سیکولرازم کی ان لہروں کا تذکرہ آگے آرہا ہے جنہوں نے گویا ایک دینی تحریک کی برپائی کو وقت کی پکار بنا دیا تھا۔ انیسویں صدی کے وسطِ اول میں مصر کے فکری افق پر جدیدیت کا طلوع ہونے والا ایک بڑا نام رفاعۃ طہطاوی ہے۔ طہطاوی مصری قوم پرست، مصنف، معلم، مترجم اور احیائے علوم کے علمبردار تھے۔ انہوں نے فورٹ ولیم کالج کی طرز پر ایک ادارے کی بنیاد ڈالی تھی تاکہ مغربی علوم کے عربی میں اور عربی علم وادب کے مغربی زبانوں میں ترجمے کیے جائیں۔ وہ روشن خیالی اور سیکولرازم کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ ان لوگوں نے لبرل ازم اور سیکولر ازم کے جو بیج بوئے تھے حسن البناءؒ کے اخوان کی تشکیل کے وقت تک وہ اگ آئے تھے اور ان کی فصل خوب پھل پھول لارہی تھی۔ اس چمن کے بڑے پیڑوں میں ہمیں مفتی محمد عبدہٗ، احمد لطفی سید، احمد امین، قاسم امین، محمد مصطفی ہیکل، طٰحٰہ حسین، عباس محمود العقاد، توفیق الحکیم اور عبدالمتعال الصعیدی کے علاوہ خالد احمد خالد کے نام خاص طور پر نمایاں نظر آتے ہیں۔ شام میں شیخ عبدالرحمن الکوا کبی بھی اسی عرصے کے اس فکر کے نمائندہ بنے تھے۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے وسط تک فرانسیسی ادب، ثقافت اور آزادی نسواں کے تصورات کی لذت آشنا نازلی فاضل کے قائم کردہ ’’صالون‘‘ میں مفتی محمد عبدہٗ سمیت علم و ادب کی علامتیں سمجھی جانے والی بڑی بڑی شخصیات اس ثقافت کی دلدادگی کا ثبوت دینے پر حاضر ہوتی تھیں۔ نازلی کے اس صالون نے لبرل فکر کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے آگے پیچھے مصر میں جو بہت بڑے ادبی معرکے برپا تھے ان میں اس صدی کے جاحظ شمار ہونے والے مصطفی صادق الرافعی اور عباس محمود عقاد کے مابین عرصہ تک جاری رہنے والے معرکے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کی ایک خصوصیت یہ تھی سید قطب شہیدؒ اس وقت تک سیکولر نظریات کے نامور ادیب عباس محمود عقاد کے خاص ’شاگردوں‘ اور عقاد کے دفاع میں ’لڑنے‘ والے قلم کاروں میں شمار ہوتے تھے۔ عباس محمود عقاد سید قطبؒ کو بہت قدر و اہمیت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ دونوں کا یہ تعلق سید قطبؒ کے حسن البناءؒ کی تحریک کا ایک عظیم سالار بننے تک برقرار رہا تھا۔ معروف داعی اور مبلغ شیخ علی طنطاوی کا تعلق تھا تو شام سے لیکن عباس محمود عقاد اور مصطفی صادق الرافعی کے ادبی معرکوں میں وہ الرافعی کی اسلامی فکر کے موئید اور ان کے حق میں معرکہ آرا تھے۔ یوں گویا بعد میں دین حق کی یکساں آواز بن جانے والے دونوں نامور ادیب، سید قطب اور علی طنطاوی، اپنے ’استادوں‘ کے لشکری بن کر ایک دوسرے کے خلاف بھی صف آراء رہے۔

خلافت کے اِلغا کے بعد ادب کے محاذ کے علاوہ مذہبی اور سیاسی افکار کے میدان میں بھی بڑی گرما گرمی پیدا ہوگئی تھی۔ عثمانی خلافت کے خاتمے کے اگلے ہی سال الازہر کے ایک شیخ علی عبدالرزاق (۱۹۶۶۔۱۸۸۸) کی کتاب ’الاسلام و اصول الحکم‘ نے دین و سیاست اور ریاست اور دین کے تعلق کے بارے میں ایک زبردست جدل اٹھا دیا تھا۔ یہ گویا الازہر کے اندر سے سیکولرازم کے حق میں اٹھنے والی ایک اور مضبوط آواز تھی۔ بعض لوگوں کاخیال تھا کہ شیخ علی عبدالرزاق نے شیخ محمد عبدہٗ کے ایما اور انگیخت پر یہ کتاب لکھی تھی۔ شیخ علی عبدالرزاق کا رجحان کچھ صوفی ازم کی طرف تھا اور کچھ نمایاں اثرات اس فکر کے تھے جس کا ظہور حالیہ عرصے میں ہمارے ہاں اس بیانیے کی صورت میں ہوا ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ سیاست اور دین دو مختلف دائرے ہیں۔ مذہب کو سیاست میں دخل دینے کا حق نہیں ہے۔اسلام فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ یہ فرد کی اصلاح اور تزکیہ و تربیت کی ایک خدائی اسکیم ہے۔ خلافت کے نام پر مذہب کے اجتماعی زندگی کے دائروں اور اداروں تک پھیلاؤ کی کتاب و سنت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اگرچہ ایک روایت ہے کہ زندگی کے آخری عرصے میں شیخ علی عبدالرزاق نے اپنی اس متنازع کتاب میں پیش کیے گئے خیالات سے رجوع کرلیا تھا۔ ان کی کتاب کے رد میں ۱۹۲۶ء میں شیخ علامہ محمد الخضر حسین کی کتاب ’نقص کتاب الاسلام و اصول الحکیم‘ اور اسی سال مفتی مصر محمد بخیت المطیعی کی ’حقیقۃ الاسلام و اصول الحکم‘ اور عبدالرزاق سنھوری کی کتاب ’اصول الحکم فی الاسلام‘ منصہ شہود پر آئیں۔ الازہر نے شیخ علی کے ان نظریات کی بنا پر ان کی ازہری مشیخت واپس لے لی تھی۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس کتاب کی وجہ سے اسلامی اور لبرل اور سیکولر فکر کے درمیان برپا کشمکش میں شدت آگئی تھی۔ اس کشمکش کا آغاز اصل میں اسی وقت ہوگیا تھا جب انیسویں صدی کے وسطِ آخر (۱۸۹۵ء) میں وطن پارٹی (الحزب الوطنی) کی تاسیس ہوئی تھی۔ اس پارٹی کا منشور ہی لادینی سیاست پر مبنی تھا۔

دین کے معاملے میں اس وقت سیاسی قیادت ہی جہل اور بے حسی کا شکار نہیں تھی بلکہ مجموعی دینی فراست پر بھی گہرا جمود طاری تھا۔ نوجوان حسن البناءؒ نے حلقہ ہائے صوفی و ملا کی ایک ایک زنجیر ہلائی۔ ایک ایک کے درِ دل پر دستک دی، ایک ایک کے کانوں میں اذانیں دیں، ایک ایک کو بیداری کے لیے جھنجھوڑا۔ لیکن ان حلقوں پر چھایا ہوا سکوتِ مرگ نہ ٹوٹا۔ دوسری طرف اسلام مخالف قوتیں اپنے مغربی آقاؤں کی سرپرستی میں مسلسل پیش قدمی کر رہی تھیں۔ مارچ ۱۹۲۸ء تک کے یہ وہ حالات جنہوں نے حسن البناءؒ کو دین کے دفاع میں تنہا اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ انہوں نے ایک نئی تحریک کا آغاز کیا اور ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ ابتدا میں یہ تحریک ایک دعوتی، تبلیغی اور اصلاحی پروگرام کے ساتھ متحرک ہوئی لیکن اس کے اسلامی فہم کی رو سے اسلام ایک کامل اور مثالی نظامِ زندگی ہے جس کی تعلیمات اور اصول و قواعد فرد کی نجی اور عائلی زندگی سے لے کر تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت اور سیاست و ریاست سمیت ہر گوشہ حیات کے لیے ہیں۔ یہ اصول و قواعد اور تعلیمات مسلمانوں کا اختیاری معاملہ نہیں بلکہ وہ مکلف ہیں کہ ساری اجتماعیت کو اسلام کے تابع لائیں۔ اسلام کو اگر اجتماعی شعبوں سے بے دخل کردیا جائے تووہ وقت آجاتا جب گھر اور مسجد میں بھی اجنبی بن کر رہ جاتا ہے۔ ۱۹۳۶ء سے اخوان نے سماجی خدمات اور معاشرتی اصلاح کی سرگرمیوں کے ساتھ بھرپور سیاسی جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا۔ حسن البناءؒ ملوک و حکام کو باور کرا رہے تھے کہ اسلامایک مکمل ضابطۂ حیات اور نظامِ زندگی ہے۔ انہوں نے حکومت سے نفاذ شریعت کا مطالبہ کر دیا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اسلامی ملک مصر میں لادینی نظریات کے تحت دین و ریاست میں جو فاصلے پیدا کر دیے گئے انہیں مٹانا لازم ہے۔ سیکولر ریاستی قوتیں حسن البناءؒ کے اس تصورِ دین کو اپنی موت سمجھتی تھیں۔ چنانچہ ابتدا ہی میں ایک طرف مصری ملوکیت کے کان کھڑے ہوگئے۔ دوسری طرف وہ مغربی قوتیں جنہوں نے نپولین کے حملے سے لے کر برطانوی تسلط تک بڑی محنت سے مصر میں اپنے فکری اور ثقافتی نقوش ثبت کیے تھے ان کو بھی یہ گوارا نہیں تھا کہ یہ تہذیبی و ثقافتی اور فکری نقوش مٹ جائیں اور مصر کے طاقت و اقتدار کے ایوانوں میں اسلام کی آواز گونجنے لگے۔ نفاذِ شریعت کے مطالبے کے علاوہ دل ابلیس میں اخوان اور امام حسن البناءؒ کے کانٹے کی طرح کھٹکنے کی دوسری وجہ اسرائیل کی مخالفت تھی جسے عربوں کے سینے میں ایک خنجر کی طرح پیوست کردیا گیا تھا۔ ۱۹۴۸ء کی پہلی عرب اسرائیل جنگ میں حسن البناءؒ نے اخوانی دستوں کی خود قیادت کی تھی۔ اخوانی مجاہدوں نے اس جنگ میں شجاعت و بسالت اور استقامت کا جو مظاہرہ کیا اس نے اسرائیل کے سرپرستوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ دارالمرکز العام میں فلسطین کے مسئلے پر ایک کانفرنس میں اخوان کے مرشدِ عام حسن البناءؒ نے اعلان کیا تھا کہ فلسطین کی آزادی کے لیے اخوان المسلمون دس ہزار مجاہد رضاکار فراہم کرنے کی ذمہ داری لیتی ہے۔ یہیں سے گویا طے کرلیا گیا تھا کہ اس تنظیم کو مصرمیں آزادی سے اپنا سیاسی، دعوتی اور اصلاحی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ پہلے مغرب پرست شاہ فاروق مہرہ بنا۔ مصر کی خفیہ پولیس کے کارندوں نے ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کو حسن البناءؒ کو گولی کا نشانہ بنایا۔ وہ اپنے گھر کی دہلیز پر شہید کر دیے گئے۔

۱۹۴۵ء میں مصر اور سوڈان (اس وقت تک مصر اور سوڈان ایک تھے) کی فوج کے جونیئر افسروں نے حرکۃ الضباط الاحرار (Free Officers Movement) کے نام سے ایک قوم پرست خفیہ تحریک شروع کی جس کا مقصد شاہ فاروق کا تختہ الٹنا تھا۔ مصر کے شاہ فاروق نے قومی خودمختاری اور وقار برطانیہ کے ہاتھ رہن رکھا ہوا تھا۔ اس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی کی تھی۔ اس صورتحال پر فوج کے نوجوان افسر قوم پرستی کے جذبے کے تحت ناخوش تھے اور اخوان دینی غیرت کے سبب ملکی وقار کی اس بے حرمتی پر نالاں تھے۔ یوں دونوں میں ملوکیت کے اس ناسور کے خلاف یکساں منفی جذبات پائے جاتے تھے۔ حرکۃ الضباط الاحرار کے نمایاں اور زیادہ سرگرم افسر اخوان کی افرادی قوت اور معاشرے میں اس کے پھیلتے ہوئے اثرات کو محسوس کررہے تھے۔ اخوان تحریک کے بانی حسن البناءؒ کی شہادت کے پیچھے شاہ فاروق کا خون آلود ہاتھ چھپا ہوا نہیں تھا۔ اس لیے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حکومت کی زبردست کوتاہیوں بلکہ مجہول و مشکوک کردار کی وجہ سے اخوان میں شاہ فاروق سے نفرت کے ابھرتے ہوئے جذبات میں اپنے مرشد کی شہادت پر غم و غصہ بھی شامل ہو گیا تھا۔ اوپر سید قطبؒ کا ادب کے محاذ پر ایک shining star کے طورپر تذکرہ ہو چکا ہے جو عباس محمود عقاد کی سبد ادب کا ایک مہکتا ہوا پھول اور عقاد کے ادبی معرکوں میں اس کے دفاع میں لڑنے والے ایک جری سپاہی تھے۔ اخوان تحریک سے نظریاتی رشتہ جوڑا تویہاں کے فکری و نظریاتی دستے کے سالار بن گئے۔ پہلے عرب اسرائیل جنگ میں شانہ بشانہ لڑتے ہوئے اخوان سے ’’فری آفیسرز‘‘ اچھی طرح متعارف ہوگئے تھے۔ ملوکیت مخالف جذبات بھی دونوں میں یکساں تھے۔ دونوں ملکی خودمختاری اور وقار کی بازیابی کے خواہاں تھے۔ اخوان کے اندر جو مخلص مگر کسی قدر جذباتی گروہ ان قوم پرست فوجی افسروں کے بہت قریب ہوگیا تھا سید قطبؒ بھی اس میں نمایاں طور پر شامل تھے۔ یہ اخوانی گروہ ان افسروں میں سے جمال عبدالناصر جیسے لوگوں کی چھپی ہوسِ اقتدار اور خود غرضی کو بھانپ نہ سکا۔ نجیب محفوظ چار سال بعد یعنی ۱۹۴۹ء ان افسروں کے جتھے میں شامل ہوا اور ۱۹۵۲ء کے انقلاب کی قیادت اسی نے کی تھی۔ لیکن جمال عبدالناصر کے مکروہ ارادے اسے نجیب کے تابع نہیں رہنے دے رہے تھے۔ اس نے زمامِ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اب جمال ناصر کے اشتراکی نظریات اور حقیقی عزائم اخوان سے پوشیدہ نہ رہے تھے۔

مایوسی کبھی ہاتھ پاؤں توڑ کر گرا دیتی ہے اور کبھی کسی انتہائی اقدام کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ ان ’’فری آفیسرز‘‘ کی صحیح قومی مقاصد سے بے وفائی کی وجہ سے مذکورہ اخوانی گروہ میں شدید ردعمل پیدا ہوا۔ مرشدِ اول کی شہادت کے بعد حسن الہضیبیؒ منصب ارشاد پر فائز ہوچکے تھے۔ وہ کشیدگی کی زیر سطح لہروں کو محسوس کر رہے تھے۔ وہ انتہا پسندانہ نظریاتی رویے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اصل میں جس مقدس کارواں کا میر کارواں تھے اسے کسی بڑی آزمائش سے بچانے کے خواہاں تھے۔ ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ایک اخوانی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ناصر کو اخوان المسلمون پر ہاتھ ڈالنے کا بہانہ مل گیا۔ یہاں سے اخوان المسلمون کی تاریخ عزیمت کا ہولناک باب شروع ہوا۔ قہر و جبر کے انتقامی آگ کے شعلے پہلے عبدالقادر عودہ، شیخ محمد فرغلی، یوسف طلعت، ابراہیم الطیب، ہنداوی دویر، محمود عبداللطیف جیسی نادرِ روزگار ہستیوں کی طرف لپکے۔ پھر ۲۹ ؍اگست ۱۹۶۶ء کو سید قطبؒ جیسے بے بدل ادیب اور ممتاز دانشور، ماہر تعلیم، مضطرب داعی، مخلص مصلح، عظیم مفکر اور روح پرور مفسر کو تختہ دار پر کھینچا گیا۔ ہزاروں اخوانی کارکنوں کی مظلومانہ شہادت ہوئی۔ ہزاروں جیلوں کی صعوبتیں سہتے ہوئے اور ایذا و اذیت کے وحشیانہ برتاؤ میں جان سے گزر گئے۔ سیکڑوں کا کیریئر تباہ ہوا اور سیکڑوں کا ٹیلنٹ خاک میں مل گیا۔ بے شمار کی قوم ووطن کے کام آنے والی تخلیقی صلاحیتیں برباد ہوئیں، گھر بار اور کاروبار تباہ ہوئے، ملازمتیں چھنیں، تب سے لے کر اب تک قہر و جبر کا یہ لرزہ خیز باب ۶۶ سال پر پھیلا ہوا ہے۔ کمیونزم جیسے سفاک نظام میں بھی کسی طبقے کو اپنے عقیدہ و نظریہ کی بناء پر اس قدر طویل عرصہ جوروستم کا نشانہ نہیں بنایا گیا تھا جس قدر چار مسلسل آمریتوں میں اخوان المسلمون کو بنایا گیا ہے۔ اپنے ایمان کی جیسی قیمت اللہ کے ان بندوں کو دینی پڑ رہی ہے ایسی فرعونیوں اور نمرودوں کے دور میں بھی کسی نے نہ چکائی ہوگی۔

اگر اخوان المسلمون نے اپنے کارکنوں کے لیے تربیت کی بھٹی گرم نہ رکھی ہوتی اور تزکیہ نفس، اصلاح باطن، تعمیر اخلاق اور تشکیل کردار کی صنعت گری نہ کی ہوتی تو عزم و ہمت اور عزیمت و صبر کی یہ داستان رقم نہ ہو پاتی۔ یہ تعلق باللہ اور توکل علی اللہ کی کیفیات ہی ہیں جو ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آنے دیتیں۔ زخم کھا کر گرتے ہیں اور گر کر اٹھتے ہیں۔ وحشی صفت آمریت کی کمان میں تیر ختم ہو جاتے ہیں مگر تیر کھانے والے سینے ختم نہیں ہوتے۔ اخوان المسلمون کے منصب قیادت کے لیے گویا معیار ہی یہ ٹھہر گیا کہ کس نے سب سے زیادہ قید کاٹی اور مظالم برداشت کیے۔ مصر کی آمریت کا نیا چہرہ عبدالفتاح السیسی پانچ سال پہلے تاریخ کے اسٹیج پر فرعونی کردار ادا کرنے کے لیے نمودار ہوئے۔ خیر و شر کی کشمکش کی اس داستان میں نئے خونیں اوراق کا اضافہ ہونے لگا۔ السیسی نے بربریت، خساست اور شقاوت میں ناصر کے ریکارڈ بھی توڑ دیے۔ منتخب صدر محمد مرسی کی معزولی پر احتجاج کے لیے ہزاروں اخوانی کارکن مسجد رابعہ العداویہ کے جوار میں میدان میں اور سڑکوں اور چوراہوں پر جمع تھے۔ مصری فوج اور پولیس نے ان پر یلغار کردی۔ صرف گولیوں کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ ان پر بلڈوزر اور ٹینک چڑھا دیے۔ چھ سات سو افراد ایک ہی وقت میں ایک ہی مقام پر لقمہ اجل بنے۔ ساڑھے چار ہزار زخمی ہوئے۔ منتخب پارلیمنٹ کے ارکان سمیت اخوان المسلمون کی ساری قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔ مرشد عام محمد بدیع کا جواں سال بیٹا یہاں شہید ہوا۔ معروف اخوانی رہنما محمد البلتاجی کی جوان بیٹی اسماء بلتاجی یہیں مظلومیت کا استعارہ بنی۔ ہزاروں کارکن جیلوں میں ٹھوس دیے گئے۔ معمر اور مریض مرشد عام محمد بدیع تو اپنے منصب کی وجہ سے نشانہ انتقام ہیں۔ لیکن سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف جو اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے منصب ارشاد سے مستعفی ہو چکے تھے ان کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ جیل کی تکلیفوں نے ان کی حالت صحت کو مزید دگرگوں کر دیا تھا۔ گزشتہ سال کے اواخر ستمبر میں ان کی موت ایک لحاظ سے جیل ہی میں ہوئی۔ کبھی گولیوں کے سامنے سینہ تانے، کبھی تاریک زندانوں میں، کبھی تختہ دار پر، کبھی سیاست کی تنہائیوں میں اور کبھی نااہلی اور کالعدمی کے عدالتی فیصلوں کی زَد میں، کبھی پابندیوں کی لپیٹ میں اور کبھی اندر اور باہر سے پرنفرت پروپیگنڈے کی بوچھاڑ میں، کبھی بڑی عالمی طاقتوں کے غیض و غضب اور کبھی اسرائیل جیسے دائمی دشمن کی ریشہ دوانیوں اور دسیسہ کاریوں کی آندھیوں میں یہی وہ قافلہ ہے جس کے بارے میں اقبالؒ نے کہا تھا:

کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے
عشق       بلاخیز       کا       قافلۂ       سخت جاں!

یہ دوچار برس کی بات نہیں بلکہ ۹۰ سالہ المناک داستان عزیمت ہے۔ اگر اللہ سے تعلق نہ ہو اور یہ شعور نہ ہو کہ لمحوں کی کربلا میں اٹھتے قدم اس کی راہ میں اور اسی کی رضا کے لیے اٹھ رہے ہیں تو ایسی استقامت دکھانا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ کے ان سپاہیوں میں سے ہر سپاہی کی کیفیت یہ ہے:

مردِ سپاہی ہے وہ، اس کی زرہ ’لااِلٰہ‘
سایۂ شمشیر میں اس کی پنہ ’لااِلٰہ‘

قصیدۃ اخی انت حر وراء السدود ۔۔۔۔۔ سید قطب شہید

مصر کے معروف مصنف اور اخوان المسلمون کے شہید رہنما سید قطب نے قید کے آخری ایام میں ایک خوبصورت ایمان افروز نظم تحریر کی تھی، جس کا دلکش اردو ترجمہ محترم خلیل احمد حامدی صاحب نے قطب شہید کی تصنیف "معالم فی الطریق" کے اردو ترجمہ "جادہ و منزل" میں کیا ہے ۔

أخي أنت حر وراء السدود۔۔۔۔۔۔۔۔ أخي أنت حر بتلك القیود
إذا كنت باللہ مستعصما۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فماذا يضيرك كيد العبيد

اے میرے ہمدم تو طوق و سلاسل کے اندر بھی آزاد ہے 
اے میرے دمساز! تو آزاد ہے، رکاوٹوں کے باوجود
اگر تیرا اللہ پر بھروسہ ہے 
 تو اِن غلام فطرت انسانوں کی چالیں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں

مفکر اسلام سید قطب شھید

سید قطب شہید 
سید قطب کا اصل نام سید ہے جبکہ قطب ان کا خاندانی نام ہے۔ ان کے آباء واجداد اصلاً جزیرۃ العرب کے رہنے والے تھے۔ ان کے خاندان کے ایک بزرگ وہاں سے ہجرت کرکے بالائی مصر کے علاقے میں آباد ہو گئے تھے۔ سید قطب کی پیدائش 9 اکتوبر 1906ء میں مصر کے ضلع اسیوط کے موشا نامی گاؤں میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں اور بقیہ تعلیم قاہرہ یونیورسٹی سے حاصل کی اوربعد میں یہیں پروفیسر ہو گئے۔ کچھ دنوں کے بعد وزارت تعلیم کے انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز ہوئے اور اس کے بعد ’’اخوان المسلمین‘‘سے وابستہ ہو گئے اور آخری دم تک اسی سے وابستہ رہے
سید قطب شہید مصری معاشرے کے اندر ایک ادیب لبیب کی حیثیت سے ابھرے۔ سیاسی اور اجتماعی نقاد کے عنوان سے انہوں نے نام پیدا کیا۔ ان کی اہم ترین تصنیف قرآن کریم کی تفسیر ہے جو ’’فی ظلال القرآن‘‘کے نام سے عربی میں لکھی 
گئی ہے اور اس کا ترجمہ بشمول اردو کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔


جمال ناصر کے تاریک دور آمریت میں کئی بار آپ کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اخوان المسلمین سے آپ کی وابستگی مصری حکومت کو بہت کھٹکتی تھی۔

محمد قمرالزمان شہید ؒ (1952ء - 2015ء )

محمد قمرالزمان شہید ؒ  (1952ء - 2015ء ) 



بنگلہ دیش میں ظلم کی سیاہ رات کب تک مسلط رہے گی۔ اللہ ہی اس راز کو جانتا ہے مگر فطرت کا تقاضا ہے کہ رات کتنی ہی لمبی ہو، سحر طلوع ہو کر رہتی ہے۔ تین سال قبل 11 اور 12 اپریل (2015ئ) کی درمیانی شب بنگلہ دیش کے مقامی وقت کے مطابق 10 بجے عظیم مجاہد، مردِ درویش، عالم اور سیاسی رہنما جناب محمد قمر الزمان کو ڈھاکہ کی سنٹرل جیل میں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ابھی آسمان کی بلندیوں پر قمرِ فلک طلوع نہیں ہوا تھا کہ اس ماہتابِ ارضی کو موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ وہ اپنے ماں باپ اور خاندان کا ایک روشن ستارہ تھا۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ہر لیڈر اور کارکن کے نزدیک ایک چمکتا ہوا چاند تھا اور سچی بات یہ ہے کہ اس کی روشنی بنگلہ دیش تک محدود نہیں تھی، وہ پوری دنیا میں اپنی کرنوں سے نور بکھیرتا تھا۔ اللہ اس کی قبر کو منور فرمائے اور اسے جنت کی وسعتوں میں بدل دے۔ آمین! 
محمد قمر الزمان شہید پر بھی اسی طرح لغو اور جھوٹے الزامات لگائے گئے تھے، جس طرح جماعت کے تمام رہنماؤں پر لگائے گئے۔ عبدالقادر مُلاّؒ 12 دسمبر 2013ء کو اس منزل سے گزر چکے تھے۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے مولانا اے کے ایم یوسفؒ (9 فروری 2014ئ) اور پروفیسر غلام اعظمؒ (23 اکتوبر2014ئ) اپنی جان کا نذرانہ راہِ حق میں پیش کرکے سرخرو ہو چکے تھے۔ اب یہ سعادت اس عظیم فرزنداسلام کے حصے میں آئی۔ اللہ اس کی شہادت کو قبول فرمائے اور ظلم کی دیوی کو اپنی گرفت میں لے لے۔ وہ قادر مطلق دیرگیر ہے، مگر ظالم اس کی پکڑ سے بھاگ نہیں سکتے۔ قمر الزمان کے بیٹے اقبال حسن نے اپنے باپ کی شہادت پر کہا تھا کہ ظلم کے یہ فیصلے ہمارے سر نہیں جھکا سکتے۔ ہم نے اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں دائر کر دیا ہے اور وہاں حق و انصاف کے فیصلے ہوں گے۔ عظیم والد کے عظیم بیٹے کا یہ عزم قافلۂ حق کے لیے بہت بڑا پیغامِ عمل اور ہر قسم کے حالات میں پُرامید رہنے کی تلقین کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
راقم کو محمد قمر الزمان سے ذاتی تعلقات اور تعارف کا اعزاز حاصل تھا۔ وہ انتہائی شائستہ، نرم گو اور مضبوط ارادے اور اعصاب کا مالک تھا۔ جسم مضبوط اور طاقت سے بھرپور، سوچ و فکر پاکیزہ اور قلب و نظر پاکیزہ تر! شہید کی پیدائش ایک دیہاتی علاقے مودی پارہ میں 4 جولائی1952ء کو ہوئی۔ اس زمانے میں یہ گاؤں ضلع میمن سنگھ میں آتا تھا‘ اب نئی تقسیم کے بعد یہ ضلع شیرپور میں واقع ہے۔ اس کا تعلق علاقے کے معروف و معزز مسلم گھرانے سے تھا۔ محمد قمر الزمان نے قریبی گاؤں کامری کالی تولہ کے گورنمنٹ پرائمری سکول سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا اور پھر ڈھاکہ یونیورسٹی سے 1976ء میں صحافت و ابلاغ عامہ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔ اپنی تعلیم کی ابتدا سے لے کر آخری مدارج تک قمر الزمان نہ صرف سکالر شب ہولڈر رہا بلکہ اس نے کئی تمغے بھی جیتے۔
دورِ طالب علمی میں قمر الزمان جماعت اسلامی کے ایک رہنما قاضی فضل الرحمن مرحوم کے ذریعے اسلامی جمعیت طلبہ (نیا نام اسلام چھاترو شبر) سے متعارف ہوئے۔ قاضی فضل الرحمن جماعت کے نمایاں بزرگان میں سے تھے۔ بعد میں ان کی بیٹی رشیدہ خاتون جماعت کی طرف سے پارلیمنٹ کی ممبر بھی رہیں۔ قمر بھائی اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شبر) کے مقامی نظم سے لے کر نظامتِ اعلیٰ تک مختلف ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ ان پر جس دور میں قتل و تشدد اور آتش زنی کے جرائم کا مرتکب ہونے کے الزامات لگائے گئے‘ اس وقت ان کی عمر 18 سال تھی۔ جھوٹے اور لچر الزامات لگانے والوں کو ذرا شرم نہیں آئی کہ کل اللہ کو وہ کیا جواب دیں گے۔ اور پھر نام نہاد ٹریبونلز اور جعلی عدالتوں کا حال بھی پوری دنیا کے سامنے طشت از بام ہو چکا ہے۔ 
قاضی فضل الرحمن صاحب کی تربیت کے نتیجے میں قمر الزمان نے اوائل عمری ہی میں اپنے پورے خاندان کو بھی تحریک اسلامی سے متعارف و روشناس کرا دیا۔ اپنے دورِ طالب علمی میں قمر الزمان (1974ء سے 1977ء تک) ڈھاکہ کی مقامی جمعیت کے ناظم اور مرکزی شوریٰ کے رکن رہے۔ 1977ء سے 1978ء تک وہ جمعیت کے مرکزی سیکرٹری جنرل رہے، جبکہ جلد ہی انہیں قائم مقام ناظم اعلیٰ کی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑیں۔ اس کے بعد وہ دو مرتبہ 1978ء اور 1979ء میں جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اپنی نظامت اعلیٰ کے دور میں قمر الزمان نے ملک بھر میں جمعیت کو منظم اور فعال بنایا۔ اس دور میں انہوں نے ایک بہت عظیم یوتھ کیمپ کا انعقاد کیا، جس میں دنیا بھر سے طلبہ تنظیموں اور انجمن ہائے نوجوانان کے نمائندوں کو دعوت دی گئی۔ بنگلہ دیش کی تاریخ میں وہ یوتھ کنونشن آج تک یادگار ہے۔
قمر الزمان نے تعلیم سے فراغت کے بعد شعبۂ صحافت میں قدم رکھا۔ مختلف اخبارات میں اہم ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد قمر الزمان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ 1980ء میں بنگلہ زبان کے معروف ادبی رسالے ڈھاکہ ڈائجسٹ کے مدیر مقرر ہوئے۔ یہ مجلہ پہلے بھی بہت معروف تھا، مگر ان کی ادارت میں بہت زیادہ مقبول ہوا۔ 1983ء میں بنگلہ زبان میں عالمی شہرت کے حامل ہفت روزہ ''سونار بنگلہ‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ بطور صحافی ان کے بنگلہ دیش ہی میں نہیں، بنگلہ دیش کے باہر بھی عالمی شہرت کی حامل شخصیات سے بہت قریبی تعلقات قائم ہوئے۔ ان کو دی جانے والی جعلی ٹریبونل سزا پر پورے عالم اسلام ہی نہیں، مشرق و مغرب کے بے شمار اداروں اور نامور شخصیات نے بنگلہ دیشی حکومت اور نام نہاد ٹریبونلز کی شدید ترین مذمت اور اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ جو لوگ شہید کو ذاتی طور پر جانتے ہیں، انہیں اعتراف ہے کہ اس کی شخصیت میں بے پناہ کشش تھی۔ شہید نے پروفیسر غلام اعظم سے خصوصی تربیت حاصل کی تھی۔ انہوں نے بنگلہ زبان میں بہت اچھی کتب لکھیں۔ 
حسینہ واجد جب دوسری بار برسر اقتدار آئی تو بھارت کے ایما پر اس نے اپنے مخالفین بالخصوص جماعت اسلامی کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے 1971ء کی پٹاری کھولی۔ جعلی ٹریبونلز اور جھوٹے الزامات کا طوفان بدتمیزی برپا کر دیا گیا۔ 29جولائی 2010ء کو محمد قمر الزمان کو انہی جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کرکے ڈھاکہ جیل میں بند کر دیا گیا۔ شروع میں ان پر الزام یہ تھا کہ ان کی تحریروں میں مذہبی منافرت پائی جاتی ہے۔ اسی دوران جماعت کے دیگر قائدین کے ساتھ ان کو بھی جھوٹے الزامات کے تحت جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا گیا اور ان پر 2 اکتوبر 2010ء کو فردِ جرم عائد کر دی گئی۔ محمد قمر الزمان ان جھوٹے الزامات سے ایک لمحے کے لیے بھی گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئے۔ اللہ نے قمر الزمان کو بڑا دل گردہ دیا تھا۔ انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تو انہوں نے ٹریبونل کے سامنے مسکراتے ہوئے یہ کہا ''جھوٹ کی بنیاد پر دی جانے والی یہ سزا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں رکھتی۔ نہ ہی یہ سزائیں ہمارا سر باطل کے سامنے جھکا سکتی ہیں‘‘۔ اپنے وکیلوں کے مشورے سے قمر الزمان نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کے لیے اپیل کی۔ انہیں معلوم تھا کہ سپریم کورٹ سے کیا فیصلہ صادر ہونا ہے۔ اس کے باوجود اتمام حجت کے لیے انہوں نے اپنے وکلا کا مشورہ قبول کر لیا۔ حسب توقع سپریم کورٹ نے ان کی اپیل مسترد کر دی۔
توقعات کے مطابق نظر ثانی کی یہ درخواست بھی مسترد ہو گئی۔ شہید کے وکیل مسٹر اکانڈا نے کہا کہ اب بھی محمد قمر الزمان اپنے بارے میں ذرہ برابر تشویش میں مبتلا نہیں، البتہ انہوں نے بہت دکھ اور کرب کے ساتھ یہ کہا ہے کہ وطن عزیز سے ظالم حکمران اسلام کا نام و نشان مٹانا چاہتے ہیں۔ تحریک اسلامی ان کی آنکھوں میں اس لیے کھٹکتی ہے کہ یہ اس دیس کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہے؛ تاہم مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ ان آزمائشوں سے تحریک سرخرو ہو کر نکلے گی اور ظلم کی سیاہ رات ڈھل جائے گی۔ دو مجسٹریٹ جیل میں ان سے 10 اپریل کو ملنے کے لیے آئے اور انہوں نے قافلۂ مودودیؒ و حسن البناؒ کے اس صاحبِ عزیمت راہی کو سمجھایا کہ رحم کی اپیل کر دینی چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ کہا کہ آپ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا اعتراف کر لیں تو جان بخشی کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔ مرد مومن قمر الزمان اس احمقانہ نصیحت پر کان دھرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھا۔ فرمایا ''بنگلہ دیش کے صدر اور دنیا کی کسی طاقت کے پاس موت و زندگی کے فیصلوں کا اختیار نہیں ہے۔ میں راہِ حق میں جان قربان کرنے کے لیے بالکل تیار ہوں‘‘۔
11 اپریل کو محمد قمر الزمان شہید کے اہل وعیال اور قریبی عزیزوں سے ان کی ملاقات کرائی گئی۔ ان کے بیوی بچوں کے علاوہ دیگر عزیز بھی ملاقات کے لیے آئے۔ کل 21 افراد کو ملاقات کی اجازت ملی۔ ایک گھنٹہ اور دس منٹ سے زائد اس ملاقات میں ایک لمحہ بھی خاندان کو اپنے محبوب قمر الزمان کے پاس ٹھہرنے کی اجازت نہ دی گئی۔ اس آخری ملاقات میں فرمایا ''چند لمحات کے بعد ان شاء اللہ، اللہ کے دربار میں حاضر ہو جاؤں گا اور مجھے اس کی رحمت سے امید ہے کہ وہ رحیم و کریم مجھے اپنی رحمتوں کے سائے میں شہدا کی جماعت میں لے جائے گا۔ میرے اٹھ جانے کے بعد تم میں سے کوئی بھی نہ حوصلہ ہارے، نہ شکوہ شکایت کرے۔ اللہ کے دین کا کام ہم اللہ کی رضا کے لیے کر رہے ہیں۔ کوئی دنیوی مفاد ہمارے پیش نظر نہیں۔ ہم نے جو سودا کیا ہے اس میں نفع ہی نفع ہے‘‘۔ مرحوم نے اپنے پیچھے بیوہ نور النھار، ایک بیٹی عطیہ نور اور چار بیٹے احمد حسن، حسن امام، اکرام حسن اور اقبال حسن چھوڑے ہیں۔ اللہ ان سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین!

(حافظ محمد ادریس  ، روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت : 10 اپریل 2018) 

سید نا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی قربانی

سید نا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی قربانی 


ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی 


سیدنا امام حسینؓ کی زندگی میں مسلمان ریاست کی وسعتوں میں آئے دن اضافہ ہو رہا تھا، جنگی فتوحات نے مسلمانوں کے دن پھیر دیے تھے، ہر جگہ دولت کی بہتات کھلی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیدنا حسینؓ اس صورتِ حال پر فخر کرتے اور اللہ کا شکر بجا لاتے لیکن انھوں نے جیسے ہی محسوس کیا کہ خلافت کے ادارے میں ملوکیت کی پیوندکاری ہونے لگی اور اسلامی ریاست کا مزاج تبدیل ہونے لگا ہے اور اسلامی مملکت کی بنیادی اقدار خطرے میں ہیں تو انھوں نے وہی کچھ کیا جو اسلامی تعلیم کا عین تقاضا ہے اور اپنی قربانی سے اس کو اتنا نمایاں کردیا کہ اب ہزار تاویلوں سے بھی اس کو چھپایا نہیں جا سکتا۔
دْنیا میں کسی شخص سے بھی چاہے وہ پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ، شہری ہو یا دیہاتی، اگر یہ پوچھا جائے کہ اللہ کی سب سے بڑی نعمت کون سی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے اور اگر جان نہیں تو جہان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ جہان یعنی دنیا میں بے شمار نعمتیں ہیں۔ مطعومات کی کمی ہے نہ مشروبات کی، ملبوسات کا شمار ممکن ہے نہ باقی اسباب زندگی کا اور اس کے علاوہ موسموں کی نیرنگی، پھولوں کی خوشبو، دریاؤں کا زیروبم، آبشاروں کا گرنا، چشموں کا ابلنا، تودوں کا پگھلنا، گھنگھور گھٹاؤں کا جھوم کر اْٹھنا، پربت پر چھائی ہوئی بادلوں کی چھاؤنی، چیڑوں کے گڑے ہوئے جھنڈے، سرسوں کے پھولے ہوئے کھیت، مسکراتی ہوئی کشت زعفران، گندم کی روپہلی فصل۔ ایسی بے شمار نعمتیں اللہ نے انسان کے لیے پیدا کر رکھی ہیں لیکن ان سب کا تعلق حیاتِ انسانی سے ہے۔
جب تک زندگی ہے تو ایک نعمت سے فائدہ اٹھانے کا امکان باقی ہے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ہر نعمت بیش بہا ہے لیکن زندگی ان سب سے بڑھ کر انمول ہے۔ اس لیے کوئی شخص بھی بقائمی ہوش و حواس اپنا سر کٹوانا پسند نہیں کرتا۔ لیکن اس عقدے کا آخر کیا حل ہے کہ جتنے پاکیزہ ترین لوگ اس دنیا میں آئے ہیں اور جن کی عظمتوں سے انسانیت کا نام روشن ہے۔ ان میں سے کوئی شخصیت گزری کہ جس نے کبھی زندگی سے پیار کیا ہو اور جس نے اپنا مقصدِ حیات محض زندہ رہنا قرار دیا ہو۔
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
حالات جدھر آدمی کو کھینچے پھرتے ہیں آدمی اْدھر کو چلتا ہے۔ یہ وہ حیوانی زندگی ہے کہ جو اللہ کی پسندیدہ شخصیتوں کی زندگی سے مختلف ہے۔ وہ زندگی کو اللہ کی نعمت سمجھ کر شکر ادا کرتے ہیں۔ وہ زندگی کو مقصد نہیں بلکہ مقصد حیات کی ادائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ جب کہیں مقصد حیات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو مقصد حیات کو بچانے کے لیے زندگی کو قربان کرنا پڑے تو ایک لمحے کے لیے تامل نہیں کرتے۔
سیدنا علیؓ پر جب قاتلانہ حملہ ہوا اور تلوار نیچے تک اْتر گئی اور آپ نے محسوس کیا کہ اب بچنا مشکل ہے تو بے ساختہ آپ کی زبان سے نکلا ’’فزت برب الکعبۃ‘‘ ربّ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔ جنگ موتہ میں یکے بعد دیگرے سیدنا زیدبن حارثہؓ، سیدنا جعفر طیارؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ زخموں سے گھائل ہو کر گرے تو ہر ایک کی زبان سے یہی جملہ لوگوں نے سْنا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مقصد حیات کے مسافر اپنے سفر کو اس قدر دراز سمجھتے ہیں کہ جس کا ایک سرا دْنیا کے ساتھ وابستہ ہے تو دوسرا آخرت سے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ زندگی کا سفر راستے میں ختم ہوجاتا ہے اور یہ مسافر اپنے سفر پر آگے نکل جاتے ہیں۔
ان کے پیشِ نظر بجز اس کے اور کوئی ارمان نہیں ہوتا کہ یہ زندگی جو اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس دین کی سربلندی کے کام آجائے جو اس سے بھی بڑی نعمت ہے۔ چنانچہ جب اس کا موقع پیدا ہوتا ہے تو وہ اسے اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اعلیٰ اقدار اور انسانیت کی بقاء کے لیے مقصدحیات جسے دوسرے لفظوں میں دین کہا جاتا ہے (اور دین درحقیقت تمام اچھائیوں، تمام حقائق اور تمام صداقتوں کا مجموعہ ہے) سب سے قیمتی چیز ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے جتنے عظیم بندے دنیا میں آئے ہیں۔ چاہے وہ اللہ کے نبی و رسول ہوں یا چاہے اس کے راستے پر چلنے والے لوگ وہ ہمیشہ انسانیت کے سرمائے کی حفاظت اور انسانیت کی بقاء کے لیے ہمیشہ اس راز کو اپنی قربانیوں کے ذریعے منکشف کرتے آئے ہیں۔ سیدنا حسینؓ نے بھی یہی احسان امت مسلمہ پر کیا اور مسلمانوں پر اس حقیقت کو واضح کیا کہ تمھارا اصل سرمایہ وہ ہے جو اس وقت خطرے میں ہے۔