گوشہ علامہ اقبال ؒ (1877ء ۔ 1938ء)


ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

علامہ محمد اقبال برصغیر کے عظیم فلسفی، شاعر اور مفکر تھے جنہوں نے مسلمانوں کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی بیداری کے لیے اپنی تحریروں اور افکار کے ذریعے بے شمار خدمات انجام دیں۔ ان کی شاعری نہ صرف ادبی لحاظ سے بلند پایہ ہے، بلکہ انہوں نے اسلامی احیاء کے لیے ایک نئی سوچ اور تحریک کا آغاز کیا۔

علامہ اقبال کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے انسان کی خودی (selfhood) اور خوداعتمادی پر زور دیا۔ ان کا پیغام تھا کہ انسان کو اپنی داخلی طاقت کو پہچاننا چاہیے اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ ان کی مشہور نظم "شکوہ" اور "جواب شکوہ" میں انہوں نے مسلمانوں کے زوال اور ان کے عروج کے امکانات پر گہرائی سے بات کی ہے۔

ان کی فکری جدوجہد نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کو نئی رہنمائی فراہم کی بلکہ اسلامی دنیا کے لیے بھی ایک جدید فکر کی بنیاد رکھی۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلایا کہ وہ اپنی تقدیر خود بدل سکتے ہیں اور ایک جدید اسلامی ریاست قائم کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ پیغام تحریک پاکستان میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

علامہ اقبال کو "شاعر مشرق" کے لقب سے نوازا گیا اور ان کی خدمات کا اعتراف نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر کیا گیا۔ ان کی تصنیفات میں "جاوید نامہ"، "بانگِ درا"، "ضربِ کلیم" اور "اسرارِ خودی" شامل ہیں، جو آج بھی علم و حکمت کا خزانہ سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی سوچ اور افکار نے نہ صرف فلسفہ اور ادب کی دنیا کو متاثر کیا بلکہ مسلمانوں کی عالمی سیاست میں بھی ایک نئی سمت دی۔

---------------------------------