عربی زبان و ادب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عربی زبان و ادب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

عربی سیکھنے کی مشکلات ۔ عبیر حیدر

عربی سیکھنے کا سفر: کچھ باآسانی کیوں سیکھ لیتے ہیں جبکہ دوسرے مشکلات کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟

کیوں کچھ طالب علم چند مہینوں میں عربی زبان پر مہارت حاصل کر لیتے ہیں، جبکہ دوسرے کئی سالوں کے بعد بھی سادہ مکالمہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں؟ کیا اس کا راز زبان سیکھنے کی فطری صلاحیت میں ہے، تدریسی طریقہ کار میں ہے، یا کچھ ایسے مخفی عوامل ہیں جو بعض طلبہ کے لیے عربی سیکھنے کے عمل کو ہموار کر دیتے ہیں، جبکہ دوسروں کے لیے یہ ایک دشوار گزار پہاڑی پر چڑھنے کے مترادف ہو جاتا ہے؟

عربی زبان کے غیر ملکی طالب علموں کو سکھانے کے تجربے کی روشنی میں، میں نے مختلف پس منظر اور قومیتوں کے طلبہ سے بات چیت کی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ کچھ طلبہ آسانی سے زبان میں ضم ہو جاتے ہیں، جبکہ دوسروں کو مایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ فرق اتفاقی نہیں بلکہ کچھ بنیادی عوامل کے باعث ہے جو عربی سیکھنے میں کامیابی کا تعین کرتے ہیں، جیسے: مادری زبان کا اثر، تدریسی حکمت عملی، ثقافتی فرق، اور ردِ عمل (فیڈ بیک) دینے کے طریقے۔

اس مضمون میں، میں اپنے تجربے سے یہ وضاحت کروں گی کہ یہ عوامل عربی سیکھنے پر کس طرح اثر ڈالتے ہیں اور ہم، بطور اساتذہ، اس تجربے کو سب کے لیے زیادہ مؤثر اور کامیاب کیسے بنا سکتے ہیں۔

1۔ مادری زبان کا اثر: کیا عربی پہلے سے جانی پہچانی ہے یا بالکل نئی؟

طالب علم کی مادری زبان اس بات کا تعین کرتی ہے کہ عربی سیکھنا اس کے لیے کتنا آسان یا مشکل ہوگا۔ وہ طلبہ جو ایسی زبانیں بولتے ہیں جن میں عربی کے الفاظ اور جملے موجود ہیں، انہیں فائدہ ہوتا ہے، جبکہ وہ جو بالکل مختلف زبانوں سے آتے ہیں، انہیں زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں۔

  • ترک طلبہ: ان کے ذخیرۂ الفاظ میں عربی کے بے شمار الفاظ پہلے سے شامل ہوتے ہیں، جیسے "مدرسہ" (Mektep)، "اقتصاد" (Iktisat)، "حضارت" (Medeniyet)، جس کی وجہ سے انہیں نئے الفاظ یاد رکھنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔
  • فارسی بولنے والے: ان کے لیے تعلیمی زبان میں عربی کے الفاظ جیسے "تجارت" (Tejarat) اور "جامعہ" (Daneshgah) عام ہیں، اس لیے وہ علمی زبان کو جلد سمجھ سکتے ہیں۔
  • جاپانی اور چینی طلبہ: ان کے لیے عربی سیکھنا زیادہ چیلنجنگ ہوتا ہے کیونکہ ان کی زبانوں میں الفاظ، جملوں کی ترتیب، اور تحریری نظام بالکل مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً عربی جملہ "أنا طالب في الجامعة" کو جاپانی گرامر کے مطابق مکمل طور پر دوبارہ ترتیب دینا پڑتا ہے، جو عربی سیکھنے کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

2۔ روایتی تدریسی طریقے: کیا استاد کا انداز سیکھنے میں رکاوٹ بنتا ہے؟

عربی سکھانے کے حوالے سے سب سے بڑی مشکلات میں سے ایک یہ ہے کہ کئی اساتذہ پرانے روایتی طریقوں پر قائم رہتے ہیں، جو برسوں پہلے ان کے خود سیکھنے کے تجربے پر مبنی ہوتے ہیں۔

  • بعض اساتذہ گرامر کی براہِ راست وضاحت پر زور دیتے ہیں، حالانکہ زبان سیکھنے کے لیے عملی مشق اور گفتگو زیادہ مؤثر ہے۔
  • کچھ اساتذہ سخت لہجے میں غلطیاں درست کرتے ہیں، جو کہ نرم مزاج ثقافتوں (جیسے جاپانی اور کوریائی طلبہ) کے لیے پریشان کن ہو سکتا ہے۔
  • کئی اساتذہ طلبہ کی انفرادی تعلیمی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے سب کو ایک ہی رفتار اور طریقے سے پڑھاتے ہیں، جو سیکھنے کے عمل کو مزید مشکل بنا دیتا ہے۔

3۔ ثقافتی فرق اور سیکھنے کا دورانیہ: کچھ طلبہ کو زیادہ وقت کیوں درکار ہوتا ہے؟

میرے تدریسی تجربے کے دوران، میں نے محسوس کیا کہ کچھ قومیتوں کے طلبہ کو عربی سیکھنے میں زیادہ وقت اور تحمل درکار ہوتا ہے، جیسے:

  • کوریائی اور جاپانی طلبہ عام طور پر بولنے میں محتاط رہتے ہیں اور آہستہ آہستہ سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
  • یورپی طلبہ فوراً نئی زبان میں گفتگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے ان کی بول چال میں غلطیاں ہوں۔
  • کچھ ثقافتیں گروپ میں سیکھنے اور مباحثے کو پسند کرتی ہیں، جبکہ بعض تنہا سیکھنے اور تحریری مشق پر زور دیتی ہیں۔

4۔ ردِ عمل (فیڈ بیک): کیا اساتذہ درست طریقے سے رہنمائی فراہم کرتے ہیں؟

کچھ اساتذہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ردِ عمل دینے کے مختلف طریقے مختلف ثقافتوں پر مختلف اثرات ڈالتے ہیں۔

  • جرمنی اور مشرقی یورپ کے طلبہ براہِ راست اور واضح فیڈ بیک کو ترجیح دیتے ہیں، چاہے وہ سخت کیوں نہ ہو۔
  • جاپانی اور کوریائی طلبہ نرمی اور نجی طور پر تصحیح کو زیادہ پسند کرتے ہیں، کیونکہ عوامی سطح پر کی جانے والی تنقید ان کے لیے باعثِ شرمندگی ہو سکتی ہے۔

نتیجہ: کیا عربی سیکھنا آسان ہے یا مشکل؟

اس سوال کا کوئی سیدھا سادہ جواب نہیں، کیونکہ عربی سیکھنے کا عمل زبان سیکھنے والے کی مادری زبان، تدریسی طریقہ، سیکھنے کی لگن، ثقافتی پسِ منظر اور ملنے والی رہنمائی پر منحصر ہوتا ہے۔

تاہم، اگر ہم ان عوامل کو سمجھیں، تو ہم اساتذہ کے طور پر سیکھنے کے تجربے کو بہتر بنا سکتے ہیں، اور عربی کو سب کے لیے آسان اور دل چسپ بنا سکتے ہیں۔ ہمیں تدریسی طریقوں میں لچک پیدا کرنی ہوگی، طلبہ کے اختلافات کو مدِنظر رکھنا ہوگا، اور ایک ایسا تعلیمی ماحول فراہم کرنا ہوگا جو سیکھنے کے شوق کو پروان چڑھائے۔

اگر ہم تدریسی طریقوں کو بہتر بنائیں تو ہم طلبہ کی مشکلات کم کر سکتے ہیں اور عربی سیکھنے کے عمل کو ایک خوشگوار اور نتیجہ خیز تجربہ بنا سکتے ہیں۔

ںوٹ: ( یہ مضمون مکہ نیوز پیپر میں ۱۱ مارچ ۲۰۲۵ کو رحلة تعلم العربية: لماذا يبحر البعض بسلاسة بينما يغرق الآخرون؟ کے عنوان سے شائع ہوا )

مقدرات کے مبنیٰ و معاونین ۔ ساجد حمید

مبنیٰ ۱؂


مقدر مقدمات کا استعمال تمام زبانوں میں سماجی، ذہنی، لسانی اور اخلاقی مبانی پر منحصر رہتے ہوئے ہوتا ہے۔ یعنی مقدرات ہمارے تسلیم شدہ مقدمات پرمبنی ہوتے ہیں۔ مقدرات کے یہ مبنیٰ ہم نے عرض کیا تھا کہ آفاقی (universal) بھی ہوتے ہیں اور علاقائی (local) بھی۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ مقدرات کبھی الل ٹپ نہیں ہوتے، بلکہ وہ ہمارے اکتسابی و جبلی علم و تصورات پر قائم ہوتے ہیں۔ آفاقی تصورات تمام انسانوں کے مشترکہ محسوسات اور مشترکہ جبلی امور پر قائم ہوتے ہیں ۔
مصنف: ساجد حمید

مثلاً، ہماری علمی فطرت میں تقابل و موازنہ ایک عمومی طرز تجزیہ و فکر ہے۔ بلکہ حکما اسے ایک جملے میں یوں بیان کرتے ہیں کہ ’تعرف الأشیاء بأضدادہا‘۔ مردوعورت، زمین وآسمان، ظلمت و نور، گھٹیا و اعلیٰ اسی طرح کے تقابل کا بیان ہیں۔ تقابل کے طریقے کا مطلب یہ ہے کہ دو چیزیں باہم مقابلے و موازنے میں لائی جائیں، خواہ متضاد ہوں خواہ ہم آہنگ۔ مثلاً قلم وقرطاس تحریر کے میدان میں دو ہم آہنگ مقابل ہیں، جب کہ آگ اور پانی عام زندگی میں دو متضاد مقابل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ہماری فطرت کا علمی شعبہ دیگرطریقوں کے ساتھ ساتھ موازنے کے طریقے پر بھی چیزوں کو سمجھتا ہے ۔اسی سے زبان و کلام میں تقابل کا اسلوب جنم لیتا ہے۔ہر بولنے والا اس جبلت کے سہارے پر چیزوں کو مقابل میں پیش کرتا اور بلاتبصرہ ہماری جبلت کو دعوتِ موازنہ دے دیتا ہے ۔ اسی طرح تمام مقدرات ایسے ہی مسلّم مقدمات اور طریقوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ غوروفکر کے طریقے کی طرح زبان میں بھی تقابل ایک بین الالسنۃ مانا ہوا لسانی اسلوب ہے۔ صنعتِ تضاد ۲؂ کی اصطلاح اسی طرح کے ایک اسلوب کو بیان کرتی ہے۔

درج ذیل سطور میں ہم قرآن سے چند مثالیں دیکھیں گے اور کوشش کریں گے کہ ان کے اندر کے مقدمات کی لسانی اور علمی و فکری بنیادیں واضح کریں۔
پہلی مثال

قرآن نے کلمۂ طیبہ کو شجرِ طیبہ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے:
کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ.(ابراہیم ۱۴: ۲۴)
’’شجر طیبہ کے مانند جس کی جڑ — استقرار پائے ہوئے ہے اور جس کی شاخ آسمان میں — ہے۔‘‘

ترجمہ میں خالی جگہوں پر غور کریں۔ جڑیں کہاں استقرار پائے ہوئے ہیں، مذکور نہیں ہے۔ تمام انسان اپنے تجربات سے جانتے ہیں کہ ہر درخت کی جڑیں زمین میں گڑی ہوئی ہوتی ہیں۔یہ آفاقی حسی مشاہدہ ہے جو مقدر کا کردار ادا کررہا ہے۔ لہٰذا اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔دوسری خالی جگہ میں بھی غور کریں کہ درخت کا تنااور شاخیں آسمان میں بلند ہوتی ہیں۔ بالکل معلوم و معروف بات ہے۔ لہٰذا بیان نہیں کیا۔ اب اسی آیت کے مفہوم کو میں یوں لکھوں تو غلط نہیں ہوگا:
شجر طیبہ کے مانند جس کی جڑ زمین میں استقرار پائے ہوئے ہے اورجس کی شاخ آسمان میں اٹھی ہوئی ہے۔

کلام کی ایک اہم خوبی: مقدرات ۔ ساجد حمید

نومبر ۲۰۱۷ء کے اشراق کے شمارہ میں ہمارا ایک مضمون نظمِ قرآن کے حوالے سے شائع ہوا تھا۔ ہم نے اس میں مقدر مقدمات کو نظم قرآن کی کلید قرار دیا تھا۔ اس کے بارے میں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مقدمات کو مقدر کیوں رکھا، کلام کو بسیط کیوں نہیں بنایا کہ نظم کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا؟

اس کا ایک پہلو تو وہ ہے کہ جسے ہم نے عربوں کے طرز تخاطب کا پسندیدہ ترین وصف قرار دیا تھا کہ ’خیر الکلام قل ودل‘، اس لیے ان کے لیے موثر کلام وہی ہوسکتا تھا جو ان کے اس اسلوب پر بہ حسن و خوبی پورا اترتا ہو۔ ذیل میں ہم ایک مثال سے بات کو سمجھاتے ہیں، جس میں عربوں کا کلام مختصر کرنے کے طریقے کی ندرت شاید کچھ واضح ہوگی:
وَاِنْ تَجْھَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی.(طٰہٰ ۲۰: ۷)

’’اور اگر تم قول کو بلند آواز سے کہو، تو وہ مخفی، بلکہ مخفی تر باتوں کو جانتا ہے۔‘‘

اس آیت کا میں نے صرف ترجمہ کردیا ہے۔ترجمہ میں دیکھیے کہ ہم اردو مذاق لوگوں کو ایک خلا سا نظر آئے گا۔ یعنی پہلے کہا گیا کہ اگر تم بلند آواز میں بولو، پھر کہا گیا کہ اللہ پوشیدہ اور مخفی باتوں کو جانتا ہے۔ یہ بتایا ہی نہیں کہ وہ بلند آواز سے کہی گئی بات کو جانتا ہے یا نہیں۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ مخفی بات آ کہاں سے گئی؟ اس لیے کہ بات تو بلند آواز سے کہے گئے قول کے بارے میں ہو رہی تھی۔ جملہ تو یوں ہونا چاہیے تھا کہ اگر تم بلند آواز سے بولو تو اللہ اس کو جانتا ہے۔ یہ خلا ہمیں اس لیے نظر آرہے ہیں کہ ہم عربوں کے اسلوب میں بات نہیں کرتے۔لیکن اردو میں ہم ایک ملتا جلتا اسلوب رکھتے ہیں، لیکن وہ عموماًجملوں کے اختتام پر آتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں: ’’کل سے میں نے نہ کھانا کھایا اور نہ پانی‘‘۔ یعنی ہم پانی کے بعد ’’پیا‘‘ کا فعل حذف کردیتے ہیں، اس لیے کہ پچھلے کلام اور ’’پانی‘‘ کے لفظ سے واضح تھا۔ تو پورا جملہ یوں تھا: ’’کل سے میں نے نہ کھانا کھایا اور نہ پانی پیا‘‘۔ جس طرح ہم نے اردو کا جملہ پورا کیا ہے،ایسے ہی قرآن کا جملہ مکمل کردیں تو وہ یوں ہو گا:
اگر تم بلند آواز سے بات کرو، تو اللہ اسے جانتا ہے، اور اگر مخفی طریقے سے کرو تو اللہ تمھاری مخفی باتوں کو بھی جانتا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کرمخفی باتوں کو بھی جانتا ہے۔

تعددِ معنی اور دلالتِ لسانی ۔ ڈاکٹر ساجد حمید

زبان اپنے معنی کی ادائیگی میں کامیاب ہے یا نہیں ، اس کا فیصلہ عالم عمل میں ہونا چاہیے، نہ کہ مجرد عالمِ عقل میں۔ صدیوں سے ہم افلاطون کے طرزِ فکر کے اسیر ہیں۔اس کا منہج یہ تھا کہ ہماری عقل علم کاماخذِ کُل ہے اورہمارا حسی تجربہ، یعنی ہمارے حواس خطا کار ہیں۔ اس طرز فکر نے صدیوں تک انسان کو علوم میں ترقی سے روکے رکھا۔انسان کی اس طرز فکر میں جو ترقی ہوئی، وہ ایک طرف اہل فلسفہ کی عقلی موشگافیاں تھیں اور دوسری طرف تصوف کی وجدانی خود فریبیاں۔ علم اسی میدان میں پھنسا رہا، اور اقبال کے الفاظ میں اس دانشِ برہانی نے حیرت کے سوا ہمیں کچھ عطا نہیں کیا۔

اس منہج کی تاثیر اور گرفت اتنی زیادہ تھی کہ کوئی حتمی سے حتمی چیز بھی جب اس کے معیار پر پوری نہ اتری تو بے وقعت قرار پائی۔ مثلاً ان کے مطابق وحی محض ظاہریت اورمعیار میں پست ٹھیری، تجربات پر مبنی علم محض دنیوی اور سفلی سے شاید کچھ بڑا درجہ پا کر علم آلی قرار پایا۔ لہٰذا، نہ فہمِ وحی کے لیے ذہین عناصرآگے بڑھے اور نہ مادی علوم کے لیے۔ لہٰذا امت کے بڑے اذہان فلسفہ و تصوف کی بھینٹ چڑھ کر خانقاہوں اور فلسفیانہ مدارس کی روح و رواں بن کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وحی پر اعتماد کرنے والے بے وزن ٹھیرے۔پھرامام رازی وغیرہ نے وحی کو اس معیار پر پورا دکھانے کے لیے ’’التفسیر الکبیر‘‘ جیسی تفاسیر لکھی۔ بالکل اسی طرح، جس طرح ہمارے عہد میں سرسید وغیرہ نے قرآن کو سائنس کے میعار پر دکھانے کے لیے تفسیر یں لکھیں۔

عقلی منہج اور حقیقتِ واقعہ


افلاطونی طرز فکر کا اصل طریقہ یہ ہے کہ حقائقِ واقعہ (ground realities) سے ہٹ کر خالص ذہنی بنیادوں پر ایک نظریہ بنائیں گے اور پھر اسی کے نتائج و عواقب عقل کی بھٹی سے کشید کرکے دکھائیں گے۔ مثلاً ایک عقلی مقدمہ قائم ہوگا، کہ کوئی چیز عدم سے وجود میں نہیں آسکتی۔تو سوال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کہاں سے آئے؟ جواب آیا کہ چیزیں دو قسم کی ہیں: ایک واجب الوجود (necessary being)اور ایک حادث یا ممکن الوجود (contingent)۔ واجب الوجودوہ ہے جو بس از خود ہے ، اس کا کوئی آغاز نہیں ہے اور اس کا وجود ہی حقیقی وجود ہے ۔ ممکن الوجود وہ ہے جو اصلاً نہیں ہے، مگر وجود میں آ سکتا ہے۔ جب یہ عقلی مقدمات مان لیے گئے تو سوال پیدا ہوا کہ کائنات ممکن الوجود ہے کہ واجب الوجود؟ ایک گروہ نے اپنے خیال میں اسے واجب الوجود مانا اور دوسرے نے حادث۔جس نے حادث مانا، اس کے نزدیک یہ حقیقی وجود نہیں تھا۔ لہٰذا ہر چند کہیں کہ ہے ،نہیں ہے کی صورت پیدا ہوگئی۔چنانچہ کائنات کا ہونا محض خواب، واہمہ یا عکس و تجلی قرار پایا، یعنی ایک ٹھوس حقیقی دنیا اس عقلی فریب میں بے وجود قرار پائی۔چنانچہ صدیوں بعد ڈیکارٹ نے منوایا کہ کم از کم اپنے آپ کے ہونے کو تو مانا جائے۔ ڈیکارٹ نے ذاتِ خویش کی موجودگی اندھوں کو نہیں منوائی تھی، بلکہ ان دانا و بینا لوگوں کومنوائی تھی جو فلاسفر کہلاتے اور ذہین ترین عناصر سمجھے جاتے ہیں۔۱؂ اگر آپ اس پر سوال اٹھائیں گے کہ حضور،حقیقت واقعہ تو یہ ہے کہ یہ دنیا موجود ہے، کیا آپ کو دکھائی نہیں دیتی ؟ آپ کس طرح کی باتیں کررہے ہیں! تو یہ افلاطونی طرز کا فلسفی آپ کو ظاہر پرست اور عقلی اعتبار سے پست قرار دے دے گا۔کبھی آپ کو کہے گا کہ یہ حواس کا دھوکا ہے اور کبھی آپ کو کہے گا کہ آپ کی عقل اتنی بالیدہ نہیں ہے کہ ہماری بات سمجھ سکیں، وغیرہ۔ایسا وہ اس لیے کہتے ہیں کہ اپنے عقلی موشگافی کے سوا ان کے پاس ہوتا ہی کیا ہے ۔۲؂

لسانی میدان میں بھی یہی حرکت ہوئی۔ حقیقی دنیا میں اس کی دلالت دیکھنے کے بجاے ، کچھ اسی طرح کے عقلی مقدمات قائم کرلیے گئے۔پھر ان سے کچھ تصورا ت کشید کیے گئے۔ حالاں کہ عملی میدان میں زبان ان نظریات کو ویسے ہی جھٹلاتی ہے، جیسے کائنات کو واہمہ قرار دینے والوں کو کائنات کا وجود جھٹلاتا ہے۔

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟ غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟ ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟

غالب کے اشعار کا یہی وہ تحیر ہے جسے اقبال نے حیرت کی فراوانی کہا ہے:

ہے دانش برہانی حیرت کی فروانی

جس طرح وہم کا مریض اپنے وہم کو حقیقی سمجھ رہا ہوتا ہے، بالکل اسی طرح فلسفی اپنے عقلی وہموں کو حق سمجھ رہا ہوتا ہے اور حقیقی باتوں کو وہم۔گویا کچھ لوگوں کی آنکھوں اور حواس کو وہم لاحق ہوتا ہے تو کچھ کی عقلوں کو ۔افلاطون کو لاکھ قائل کرلیں کہ جناب آپ کا عالم امثال آپ کے ذہن کی اختراع ہے اور بس! لیکن وہ اپنے نظریے کوترک نہیں کرے گا، کیونکہ اس کی عقلی تُک بندیوں نے یہی سجھایا ہے۔ وہ عقل کے اس فریب سے باہر نہیں نکلے گا۔ایسے فلسفیوں کو دنیا بھر کی مانی ہوئی موجود چیزیں غیرموجود اور غیر موجود چیزیں موجود لگتی ہیں۔

قرآن کا تصور ِقومی زبان (تحقیقی مقالہ ) محمداسلام نشتر

Abstract:

The Quran is the last message of Allah to mankind. Its glorious language is eloquent Arabic fully guaranteed through Divine knowledge (Louh-e-Mahfooz). Quranic Arabic played the pivotal role to become the language of Arab Nation exemplary. The Quran drew enlightened and moderated concepts, standards and parameters for a national language first time to humankind. This research paper deals with those Quranic linguistic dimensions, parameters and basic ideas through which any national language of the world can acquire and adopt principles and guidelines. At the end all conceptual aspects has been studied with reference of our National Language, Urdu, as a case study.

ابتدائیہ

قرآن حکیم خالق کائنات ۱ﷲ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے جو عربی زبان میں محمدﷺعربی پر نازل ہوئی۔ بادی النظر میں اس کا کوئی مخصوص موضوع نہیں مگر عمیق نظری میں اس کا موضوع انسان ہے۔ گویا ا س میں کائنات کے ہر موضوع پر انتہائی اختصار مگر کامل جامعیت سے نہایت سادہ ترین الفاظ، اصطلاحات اور مثالوں سے کی گئی رہنمائی پورے اصول و ضوابط کے ساتھ مل جاتی ہے۔ اسی لیے انسان پندرہ صدیاں بعد آج بھی آیات قرآنی کی اپنے زمانے کے مطابق تفسیر کررہا ہے۔ صدیوں کی تحقیق بتاتی ہے کہ بات انسان اور اُس کی زبان کے موضوع پر ہو اور نطقِ انسانی کلام اﷲ کے بوسے نہ لے، یہ ناممکن ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خالق کائنات نے قرآن میں انسان کی ہدایت کے لیے اس کی اپنی زبان کا انتخاب کیا اور اس کے لیے پورے نظام فطرت کو لیس و آراستہ کردیا ۔ فرد سے قوم اور قوم سے عربی و عجمی اقوام و ملل کی زبانوں کو اﷲ کی نشانیاں قرار دیا۔ زبان کو ایسا تحفظ دیا کہ قرآن لوح محفوظ پر رقم کردیااور اس کی حفاظت کا ذمہ خود لے لیا۔ اس ذات باری نے قرآن کی مختصر اور طویل، ہر دو، آیات میں ان حقیقتوں کو بیان فرمادیا تاکہ انسان سمجھ لے اور اﷲ کے رازوں کو تلاش کرکے پالے۔ بِلاشبہ ایسا صرف اور صرف اسی زبان میں ہوسکتا تھا جو انسان کے اپنے معاشرے میں روزمرہ مشترکہ طور پر بولی جاتی ہے۔ اگرچہ ابتداً تو ایسا ماں بولی یعنی مادری زبان میں ہوسکتاہے مگر وقت کے ساتھ انسانی زندگی کے وسیع ہوتے لسانی دائروں کے تقاضے قومی زبان ہی پورے کرسکتی ہے۔ اسی لیے ہر نبی کو اس کی قوم کی ہی زبان میں بھیجنے کا قرآنی اصول انسان کے سامنے رکھ دیا گیا تاکہ کسی بھی مرحلے پر وہ مشکلات کا شکار نہ ہو۔ یہ سب کچھ عملاً وقوع پذیر ہونے کے لیے فطرت نے کون کون سے اسباب پیدا کیے اور انسان کی کیا ذمہ داریاں مقرر کی گئیں؟

اس موضوع پر قرآن کی رہنمائی سے پہلے نہایت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قوم، زبان، قومی زبان اور زبان عامہ پر کچھ بات کرلی جائے تاکہ ہم مطلوبہ موضوع پر تفصیلات حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اس کے اگلے مرحلے کے طور پر ہم قرآن سے استنباط کرکے قرآنی عربی کے بحیثیت قومی زبان کے موضوع کو آگے بڑھائیں گے جس میں اس کے مختلف پہلوؤں پر بات کی جائے گی۔ اس میں قرآن کے تقابل لسان کے اصول پر بالواسطہ بات ہوگی۔ مباحث میں بعض آیات مبارکہ ایک سے زیادہ مقامات پر مکرر زیربحث آئی ہیں۔ ایسا زیربحث موضوعات کی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق کیاگیا ہے۔

محمد کاظم : عربی زبان و ادب کی معروف شخصیت کون ہیں؟

محمد کاظم کی پیدائش 14 اگست 1926ء کو احمد پور شرقیہ (ضلع بہاولپور) میں ہوئی ، ان کی وفات 9 اپریل 2014ء کو لا ہور میں  ہوئی۔ 
محمد کاظم عربی زبان و ادب
کی معروف شخصیت 

محمد کاظم صاحب کے بارے میں  ان کے دوست مسعود اشعر  معروف کالم نگار  کا یہ کالم پڑھیں !

میں انہیں سیّد محمد کاظم کہتا تو فوراً میری اصلاح کرتے ’’میں اپنے نام کے ساتھ سیّد نہیں لکھتا۔‘‘ بہت ہی شریف آدمی تھے ،اور ہر شریف آدمی کی طرح شرمیلے بھی ۔ 

بہت بڑے عالم تھے ،اور بڑے عالموں کی طرح منکسرالمزاج بھی ۔ شہرت کے پیچھے کبھی نہیں بھاگے ۔محفل باز نہیں تھے مگر محفلوں میں خوش بھی ہو تے تھے ۔البتہ ادبی تقریبوں سے بچتے تھے۔

 جب تک ان کی صحت نے اجازت دی وہ ہر منگل کو گھر سے نکلتے ۔ پہلا پڑائوگارڈن ٹائون میں مشعل کا دفتر ہو تا ۔ گھنٹہ آدھ گھنٹہ یہاں بیٹھتے۔ نہایت بے تکلفی سے ہر موضوع پر باتیں ہو تیں ۔اردو ادب ، عربی ادب، انگریزی ادب ،اسلام کی فکری اور علمی تاریخ، نئی اور پرانی کتابیںاور موسیقی۔ہاں،موسیقی بھی مغرب کی کلاسیکی موسیقی ۔ شایدمغرب کی کلاسیکی موسیقی کا چسکا انہیں اپنے جرمنی کے قیام میں لگا تھا ۔

 لیکن وہ اس موسیقی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بھانجے اقبال مصطفےٰ کا ذکر کرتے اور افسردہ ہو جا تے ۔ کہتے اقبال مصطفےٰ کی پر اسرار موت کے بعدان کے ساتھ موتزارٹ اور بیتھو ون سننے والا کو ئی نہیں رہا ۔ مشعل سے اٹھتے توفیروز پور روڈ پر سید بھائیز کے ضمیر احمد خاں کے پاس چلے جا تے ۔ضمیر احمد خاں سے واپڈا کے زمانے کی دوستی تھی ۔ 

واپڈا کے ہی ایک اور ریٹائرڈ انجینئر جمیل صاحب کے پاس بھی ہفتے میںایک بار ضرور جاتے۔ کہتے جمیل صاحب کو کتا بیں پڑھنے کا بہت شوق ہے ۔ میں ان کے لئے کتابیں لے کر جا تا ہوں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب حیات تھے تو ہم ہفتے دو ہفتے میں مشعل سے اٹھ کر مجلس ترقی ادب کے دفتر چلے جا تے ۔وہاں بھی ادب اور کتابیں ۔

عرب دنیا کی عربی زبان و ادب کی سرکاری اکیڈمیوں کا تعارف

مجمع اللغة العربية - قاھرہ 

 مجمع اللغۃ العربیۃ  14 شعبان 1351 ھ،  بمطابق 13 دسمبر 1932ء مصر کے بادشاہ  فواد اول کے عہد حکومت میں قائم ہوا۔  اس میں بقاعدہ کام 1934ء سے شروع ہوا۔ 

اس کے کل ممبران 20  ہیں، 10 مصری ہوتے ہیں اور 10 عرب اور غیر عرب۔ ارکان کے لیے کسی مذہبی پس منظر رکھنے کی ضرورت نہیں صرف علمی اور لسانی مہارت ہی بنیادی شرط ہے ۔ 

پچھلے نصف صدی میں درج ذیل شخصیات نے اس کی صدارت کی ہے: 

1- محمد توفيق رفعت (1934 - 1944)
2- أحمد لطفي السيد (1945 -1963)
3- الدكتور طه حسين (1963 - 1973)
مجمع اللغة العربية - القاهرة  
4- الدكتور إبراهيم مدكور (1974 - 1995)
5- الدكتور شوقي ضيف (1996 -2005)
6- الدكتور محمود حافظ (2005 -2011)
7- الدكتور حسن محمود عبد اللطيف الشافعي فروری 2012م سے رئیس ہیں۔

مجمع مین بطور نائب  رئیس  خدمات انجام دینے والوں کے اسمائے گرامی :  

الأستاذ الدكتور طه حسين
الأستاذ زكى المهندس
الأستاذ الدكتور أحمد عمار
الأستاذ الدكتور محمد مهدى علام
الأستاذ الدكتور شوقى ضيف
الأستاذ الدكتور محمود حافظ

المعجم الكبير- مجمع اللغة العربية - القاهرة ، فری ڈاؤن لوڈ کریں

 المعجم الكبير  
مجمع اللغة العربية - القاهرة   
 المعجم الکبیر، عربی زبان کی سب سے بڑی ڈکشنری ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں دنیا کی سب سے ضخیم اور کثیر الالفاظ ڈکشنری کہنا جاہئے۔  یہ  ڈکشنری عربی الفاظ کے  صرف معانی اور خصوصیات ہی پر مشتمل نہیں بلکہ ان الفاظ کے بارے میں مکمل تاریخ بھی بتاتی ہے۔  کس دور میں کس کس معانی کے لیے وہ الفاظ استعمال ہوتے تھے یا مخلتف ادوار میں کس کس عرب شاعر اور قبیلہ نے ان  الفاظ کو اپنے کلام میں  استعمال کیا ۔  

مجمع اللغۃ العربیۃ قاھرہ کا یہ سب سے بڑا پراجیکٹ ہے ۔ پہلے اس کے بارے میں یہ خیال تھا کہ اس کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی " آکسفورڈ ڈکشنری" کے طرز تیار کیا جائے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی پالیسی میں تبدیلى آتى گئ ۔ 

1970 سے 2022ء تک اس کی کل 8 جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔- اب تک صرف حرف (ا) سے حرف (ص) تک کے الفاظ پر کام مکمل ہوا ہے۔ جو تقریبا بندرہ حصوں پر مستمل ہیں ۔  پندرہویں حصہ  کا پہلا ایڈیشن، حرف (ص ) کے لیے مختص ہے ، جو جون 2022 میں شائع ہوا۔

اس کے لیے لسانیات اور لغت کے ماہرین کی ایک خصوصی کمیٹی مختص  ہے ان کی نگرانی میں مندرجہ ذیل خصوصیات کے ساتھ کام جاری ہے : 

اس میں عربی لسانیات کے بارے میں  مکمل معلومات ہیں جیسے  زبان، ادب، علم الصرف، وعلم النحو، علم البلاغۃ اور اسی طرح  تاریخ، جغرافیہ، نفسیات، فلسفہ، انسانی علوم، معاشرتی علوم ، تہذیب، اور تمدن کے بارے میں تمام اصطلاحات شامل ہیں، اس کے ساتھ جدید سائنسی اور تکنیکی اور تحقیقاتی اصطلاحات بھی شامل ہیں۔ 

درج ذیل لنک سے فری ڈاؤن لوڈ کریں !

المعجم الكبير المجلد الأول



یہ بھی ڈاؤن لوڈ کریں !

سنہرا اسلامی دور: عربوں نے کس طرح یورپ میں کاغذ متعارف کروایا ؟

(28 اگست 2020 بی بی سی اردو )

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہر بار جب آپ ’رِم‘ سے کاغذ نکال کر کمپیوٹر پرنٹر میں ڈالتے ہیں تو اس ایک عمل کے دوران ایک اعتبار سے آپ خطاطی یا لکھائی کی لگ بھگ دو ہزار سال پر محیط تاریخ کا سفر طے کر لیتے ہیں۔

کاغذ دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے چین میں ایجاد ہوا تھا۔ لیکن کاغذ کے لیے مستعمل انگریزی زبان کا لفظ ’پیپر‘ فرانسیسی، جرمن اور ہسپانوی زبانوں کی طرح مصر میں پائے جانے والے ایک آبی پودے یا سرکنڈے کے یونانی اور لاطینی نام ’پپائرس‘ سے نکلا ہے۔

جبران خلیل جبران : معروف لبنانی نژاد امریکی آرٹسٹ، عربی شاعر و ادیب

جبران خلیل جبران 
خلیل جبران (اصل نام: جبران خلیل جبران بن میکائیل بن سعد )  جو لبنانی نژاد امریکی فنکار، شاعر اور مصنف تھے۔ خلیل جبران جدید لبنان کے شہر بشاری میں پیدا ہوئے جو ان کے زمانے میں سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ وہ نوجوانی میں اپنے خاندان کے ہمراہ امریکا ہجرت کر گئے اور وہاں فنون لطیفہ کی تعلیم کے بعد اپنا ادبی سفر شروع کیا۔ خلیل جبران اپنی کتاب The Prophet کی وجہ سے عالمی طور پر مشہور ہوئے۔ یہ کتاب 1923ء میں شائع ہوئی اور یہ انگریزی زبان میں لکھی گئی تھی۔ یہ فلسفیانہ مضامین کا ایک مجموعہ تھا، گو اس پر کڑی تنقید کی گئی مگر پھر بھی یہ کتاب نہایت مشہور گردانی گئی، بعد ازاں 60ء کی دہائی میں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی شاعری کی کتاب بن گئی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جبران ولیم شیکسپئیر اور لاؤ تاز کے بعد تاریخ میں تیسرے سب زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔ 

جبران مسیحی اکثریتی شہر بشاری میں پیدا ہوئے۔ جبران کے والد ایک مسیحی پادری تھے۔ جبکہ جبران کی ماں کملہ کی عمر 30 سال تھی جب جبران کی پیدائش ہوئی، والد جن کو خلیل کے نام سے جانا جاتا ہے کملہ کے تیسرے شوہر تھے۔ غربت کی وجہ سے جبران نے ابتدائی اسکول یا مدرسے کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ لیکن پادریوں کے پاس انھوں نے انجیل پڑھی، انھوں نے عربی اور شامی زبان میں انجیل کا مطالعہ کیا اور تفسیر پڑھی۔

ڈاکٹر طہ حسین کی کتاب " الوعد الحق " کا تعارف - ڈاكٹرماہر شفيق فريد

ڈاکٹر طہ حسین 
(الوعد الحق: وعدہ برحق) طہ حسین (1889- 1973) كى اہم اسلامی کتابوں میں سے ايكـ ہے- (الوعد الحق: وعدہ برحق) 1949ء میں شا‏‏ئع ہوئی- انكى اسلامى كتابوں ميں (على ہامش السيرة)، (الشيخان)، (الفتنة الكبرى) اور (مرآة الإسلام) وغیرہ شامل ہيں۔ عربی ادب کے سرخیل پہلی صدی ہجری (ساتویں صدی عیسوی) میں انسانی فراخ دلی کے نقطۂ نظر سے اسلامی تاریخ کا پہلو پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہر نظریے اور مذہب کے قاری سے مخاطب ہونا ممکن ہوسکتا ہے، یہ پہلو مشترکہ انسانی اقدار، بھائی چارے کی پختگی، انصاف اور بھلائی پر مشتمل ہے۔

طہ حسین ہمہ پہلو فکری تحریک کے اس حصے میں جسے مصر نے بیسویں صدی نصف اول میں پہچانا- طہ حسین کے علاوہ روشن خيالات، تفسير قرآن كريم كے رجحانات اور اسلامى فكر كى تجديد كرنے ميں عباس محمود عقاد، محمد حسین ہیکل «في منزل الوحي»، ابراھیم المازنی «رحلة إلى الحجاز»، احمد حسن الزیات «ميگزين الرسالة»، امین خولی، توفیق حکیم، خالد محمد خالد وغيره جيسے اہم ادباء اور روشن خيال مفكرين نے بہت اہم رول ادا كيا-

یہ تمام ادباء اپنے افکار وخيالات، بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی کی مذمت، رواداری، ميانہ روى اور اعتدال پسندى کی روایات کی پختگی کے سفر میں عرب دنيا کے دوسرے حصوں میں اپنے ہم عصروں کے ساتھ مشترک ہیں ۔ (وعد الحق) یعنی وعدہ برحق صرف ناول نگاری نہیں بلکہ یہ تاریخ کی ساخت میں کہانی نویسی کا اسلوب ہے جو کبھی ڈرامائی انداز اختیار کر لیتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب اس شخص کے اندر پرانے خيالات اور جدید دین کے مابین رسہ کشی کا تصور پیش کرتا ہے یا مشرکین اور مؤمنین کے مابین گفتگو یا تاریخی واقعات- مثال کے طور پر حبشہ کے بادشاہ ابرہہ کا خانۂ کعبہ شریف کو منہدم کرنے کی کوشش اور اس عمل میں اس کی ناکامی۔

امام ابن تیمیہ (عربی موی )



شیخ الاسلام امام ابن تيمیہ ؒ کا مختصر تعارف​


شيخ الاسلام تقي الدين ابو العباس احمد بن عبد الحليم بن عبد السلام بن عبد اللہ بن الخضر بن محمد بن الخضر بن علي بن عبد اللہ ابن تيميہ نميرى ، حرانى، دمشقى ، حنبلى ، عہد مملوكى كے نابغہ روزگار علماء ميں سے تھے ۔ اللہ تعالى نے انہيں ايك مجدد كى صلاحيتوں سے نوازا تھا ۔آپ نے عقائد ، فقہ، رد فرق باطلہ، تصوف اور سياست سميت تقريبا ہر موضوع پر قلم اٹھايا اور اہل علم ميں منفرد مقام پايا ۔ آپ بہت فصيح اللسان اور قادر الكلام تھے ۔ علم وحكمت، تعبير وتفسير اور علمِ اصول ميں انہيں خاص مہارت حاصل تھي ۔اپنے والد كى وفات كے بعد دمشق كے دارالحديث السكرية كى مسندِ حديث پر جب آپ نے پہلا درس ديا، اس وقت آپ كى عمر بيس سال كے قريب تھي، اس ميں قاضي القضاة اور ديگر مشايخ زمانہ موجود تھے ۔آپ نے صرف بسم اللہ الرحمن الرحيم كے بارے ميں اتنے نكات بيان كيے کہ سامعين دنگ رہ گئے ۔ شيخ الاسلام تاج الدين فزارى شافعى ( م 690 ہجرى) نے ان كا پورا درس حرف بحرف قلم بند كر كے دارالحديث السكرية كے كتب خانہ ميں محفوظ كروا ديا ۔

ذہانت اور علمى قابليت كے ساتھ ساتھ آپ کي زندگي جہدِ مسلسل سے عبارت تھي ۔ آپ نے اپنے دور كے كئى علماء كے ساتھ علمى مناظرے بھي کيے اور حكومتِ وقت كے ساتھ مل كر تاتاريوں اور باغيوں کے خلاف عملى جہاد ميں بھي حصہ ليا ۔

نفاذِ شريعت كى كوششوں كے سلسلہ ميں آپ كو كئى تجاويز وشكايات لے كر وفود كے ساتھ حكام كے پاس جانے كا موقع بھي ملا۔ آپ كا انداز محققانہ اور محتاط تھا ۔ ايك مرتبہ آپ كو قاضى كا عہدہ بھي پيش كيا گيا مگر آپ نے حكومتى شرائط سے متفق نہ ہونے كى وجہ سے اسے قبول نہيں کيا۔

موصوف كى انسانيت دوستى كا يہ عالم تھا کہ شام كے جنگي قيديوں كى رہائي كے ليے تاتارى مسلمان بادشاہ غازان كے پاس جا پہنچے ۔ اس نے آپ کے احترام ميں صرف مسلمان قيديوں كى رہائي كا اشارہ ديا تو آپ اس پر راضى نہ ہوئے اور يہ کہہ كر سب قيديوں كى رہائي پر اصرار كيا كہ يہودي اور نصرانى بھي ہماري رعايا ہيں اور ان كے جان ومال كى حفاظت ہم پر ضرورى ہے چنانچہ سبھي كو رہا كر ديا گيا ۔

آپ  اس قدر بےباك تھے كہ 27 ربیع الاول 699 ہجرى كو جب شام كے شہر حمص اور سلميہ کے درميان وادى خازندار ميں تاتارى سلطان غازان اور سلطانِ مصر ملك ناصر محمدبن قلاؤن كے درميان سخت لڑائي كے نتيجے ميں بہت تباہي ہوئي ، مصرى اور شامى فوجوں كا بہت نقصان ہوا اور ملك ناصر بھي فرار ہو كر قاہرہ پہنچ گئے تو امام ابن تيميہ رحمہ اللہ مشائخ دمشق كو لے كر 3 ربيع الثاني 699 ہجري كو بعلبك كے قريب تاتارى بادشاہ غازان سے ملاقات كرنے پہنچ گئے ۔ انہوں نے بادشاہ کے سامنے بہت پر حوش انداز ميں عدل وانصاف كى خوبياں بيان كيں اور اس كے آباؤ اجداد كے مظالم كے ساتھ ساتھ ان كے بعض اصولوں اور وفائے عہد كا تذكرہ كيا ۔ غازان اگرچہ اس سے قبل ہي مسلمان ہو چکا تھا مگر تاتارى اور غيرتاتارى كى لڑائي تسلسل سے جارى تھي ۔ آپ كى تقريريں اس قدر سخت اور جملے اس قدر تندوتيز تھے كہ پورے وفد كو آپ کے قتل ہو جانے كا يقين ھو چلا تھا ۔ غازان نے انہيں قتل كرنے كى بجائے اپنے امراء كے سامنے ان كى بےباكى اور شجاعت كى تعريف كى اور ان سے دعاؤں كى درخواست كى ۔ امام ابن تيميہ رحمه اللہ نے اس كے ليے يہ دعا كى :

" اے اللہ اگر تو جانتا ہے كہ غازان تيرا كلمہ بلند كرنے كے ليے لڑ رہا ہے اور وہ تيرى راہ ميں جہاد کے ليے نكلا ہے تو تو اس كى مدد كر ۔اور اگر تيرے علم ميں ہے کہ وہ مال ودولت حاصل كرنے كے ليے نكلا ہے تو اس كو اس كى پوري جزا عطا كر ۔"

غازان اس پوري دعا پر آمين كہتا رہا !

آپ كى حق گوئي اور بے نفسى كا يہ عالم تھا كہ غازان نے آپ كے وفد كے ليے دسترخوان لگوايا مگر آپ نے وہاں كھانے سے انكار كرديا اور كہا: "ميں يہ کھانا كيسے کھا سکتا ہوں جب كہ اس كو لوٹ کھسوٹ كے مال سے تيار كيا گيا ہے ؟"

امام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے كسى کے خوف اور دباؤ كي پرواہ كيے بغير اپني منفرد علمى تحقيقات كى اشاعت كى ۔ اپنے بعض علمى مباحثوں اور فتووں كى وجہ سے آپ كو ايك مدت تك قيد وبند كى صعوبتيں بھي برداشت كرنا پڑيں، حتى كہ جب داعئ اجل كو لبيك كہنے كا وقت آيا تو آپ زندگي كى آخرى قيد برداشت كر رہے تھے اور آپ كا جنازہ جيل ہي سے نكلا ۔ آپ كى كل مدت قيد سوا چھ سال بنتى ہے ۔

خير الدين زركلى نے دُرر كے حوالہ سے لکھا ہے كہ آپ كى تصانيف چار ہزاراجزاء سے متجاوز ہيں ۔ فوات الوفيات ميں ان كى تعداد تين سو مجلد منقول ہے ۔ آپ کے مشہور فتاوے بھی ہیں ،  الجوامع، السياسة الشرعية ، الجمع بين العقل والنقل، الصارم المسلول على شاتم الرسول، رفع الملام عن الأئمة الأعلام، مجموعة الرسائل والمسائل آپ کی اہم تحقیق اور تحریروں میں سے ہيں ۔

آپ کے حالات زندگي پر ابن قدامہ نے العقود الدرية في مناقب شيخ الإسلام أحمد بن تيمية ، شيخ مرعى حنبلى نے الكوكب الدرية ، سراج الدين عمر البزار نے الأعلام العلية في مناقب ابن تيمية ، عبدالسلام حافظ نے الإمام ابن تيمية ، شيخ محمد ابو زہرہ نے ابن تيمية ؛ حياته وعصره_ آراؤه وفقهه، اور اسى طرح شہهاب الدين أحمد بن يحيى بن فضل الله العمري، ابو عبدالله محمد بن أحمد بن عبدالهادي الحنبلي، وغيره كئى اہل علم نے عليحدہ عليحدہ كتابيں لکھيں ۔اردو ميں آپ كى سوانح پرڈاکٹر غلام جيلانى برق كى كتاب امام ابن تيميہ، افضل العلماء محمد يوسف كوكن عمرى كى مبسوط كتاب امام ابن تيميہ، اور مولانا ابو الحسن على ندوى كى كتاب تاريخ دعوت وعزيمت جلد دوم بہت مفيد ہيں۔

اللقاء 1، الأدب العربي الحديث، د. أحمد صلاح البنا

اللقاء 7، الأدب العربي الحديث، د. عبد الرحمن الشناوي

اللقاء 6، الأدب العربي الحديث، د. عبد الرحمن الشناوي

اللقاء 5، الأدب العربي الحديث، د. عبد الرحمن الشناوي

اللقاء 4، الأدب العربي الحديث، د. عبد الرحمن الشناوي

اللقاء 3، الأدب العربي الحديث، د. عبد الرحمن الشناوي