" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
امام زین العابدین ؒ، عظیم عرب شاعر فرزدق اور قصیدہ البطحاء
عربی سیکھنے کی مشکلات ۔ عبیر حیدر
کیوں کچھ طالب علم چند مہینوں میں عربی زبان پر مہارت حاصل کر لیتے ہیں، جبکہ دوسرے کئی سالوں کے بعد بھی سادہ مکالمہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں؟ کیا اس کا راز زبان سیکھنے کی فطری صلاحیت میں ہے، تدریسی طریقہ کار میں ہے، یا کچھ ایسے مخفی عوامل ہیں جو بعض طلبہ کے لیے عربی سیکھنے کے عمل کو ہموار کر دیتے ہیں، جبکہ دوسروں کے لیے یہ ایک دشوار گزار پہاڑی پر چڑھنے کے مترادف ہو جاتا ہے؟
عربی زبان کے غیر ملکی طالب علموں کو سکھانے کے تجربے کی روشنی میں، میں نے مختلف پس منظر اور قومیتوں کے طلبہ سے بات چیت کی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ کچھ طلبہ آسانی سے زبان میں ضم ہو جاتے ہیں، جبکہ دوسروں کو مایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ فرق اتفاقی نہیں بلکہ کچھ بنیادی عوامل کے باعث ہے جو عربی سیکھنے میں کامیابی کا تعین کرتے ہیں، جیسے: مادری زبان کا اثر، تدریسی حکمت عملی، ثقافتی فرق، اور ردِ عمل (فیڈ بیک) دینے کے طریقے۔
اس مضمون میں، میں اپنے تجربے سے یہ وضاحت کروں گی کہ یہ عوامل عربی سیکھنے پر کس طرح اثر ڈالتے ہیں اور ہم، بطور اساتذہ، اس تجربے کو سب کے لیے زیادہ مؤثر اور کامیاب کیسے بنا سکتے ہیں۔
1۔ مادری زبان کا اثر: کیا عربی پہلے سے جانی پہچانی ہے یا بالکل نئی؟
طالب علم کی مادری زبان اس بات کا تعین کرتی ہے کہ عربی سیکھنا اس کے لیے کتنا آسان یا مشکل ہوگا۔ وہ طلبہ جو ایسی زبانیں بولتے ہیں جن میں عربی کے الفاظ اور جملے موجود ہیں، انہیں فائدہ ہوتا ہے، جبکہ وہ جو بالکل مختلف زبانوں سے آتے ہیں، انہیں زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں۔
- ترک طلبہ: ان کے ذخیرۂ الفاظ میں عربی کے بے شمار الفاظ پہلے سے شامل ہوتے ہیں، جیسے "مدرسہ" (Mektep)، "اقتصاد" (Iktisat)، "حضارت" (Medeniyet)، جس کی وجہ سے انہیں نئے الفاظ یاد رکھنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔
- فارسی بولنے والے: ان کے لیے تعلیمی زبان میں عربی کے الفاظ جیسے "تجارت" (Tejarat) اور "جامعہ" (Daneshgah) عام ہیں، اس لیے وہ علمی زبان کو جلد سمجھ سکتے ہیں۔
- جاپانی اور چینی طلبہ: ان کے لیے عربی سیکھنا زیادہ چیلنجنگ ہوتا ہے کیونکہ ان کی زبانوں میں الفاظ، جملوں کی ترتیب، اور تحریری نظام بالکل مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً عربی جملہ "أنا طالب في الجامعة" کو جاپانی گرامر کے مطابق مکمل طور پر دوبارہ ترتیب دینا پڑتا ہے، جو عربی سیکھنے کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
2۔ روایتی تدریسی طریقے: کیا استاد کا انداز سیکھنے میں رکاوٹ بنتا ہے؟
عربی سکھانے کے حوالے سے سب سے بڑی مشکلات میں سے ایک یہ ہے کہ کئی اساتذہ پرانے روایتی طریقوں پر قائم رہتے ہیں، جو برسوں پہلے ان کے خود سیکھنے کے تجربے پر مبنی ہوتے ہیں۔
- بعض اساتذہ گرامر کی براہِ راست وضاحت پر زور دیتے ہیں، حالانکہ زبان سیکھنے کے لیے عملی مشق اور گفتگو زیادہ مؤثر ہے۔
- کچھ اساتذہ سخت لہجے میں غلطیاں درست کرتے ہیں، جو کہ نرم مزاج ثقافتوں (جیسے جاپانی اور کوریائی طلبہ) کے لیے پریشان کن ہو سکتا ہے۔
- کئی اساتذہ طلبہ کی انفرادی تعلیمی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے سب کو ایک ہی رفتار اور طریقے سے پڑھاتے ہیں، جو سیکھنے کے عمل کو مزید مشکل بنا دیتا ہے۔
3۔ ثقافتی فرق اور سیکھنے کا دورانیہ: کچھ طلبہ کو زیادہ وقت کیوں درکار ہوتا ہے؟
میرے تدریسی تجربے کے دوران، میں نے محسوس کیا کہ کچھ قومیتوں کے طلبہ کو عربی سیکھنے میں زیادہ وقت اور تحمل درکار ہوتا ہے، جیسے:
- کوریائی اور جاپانی طلبہ عام طور پر بولنے میں محتاط رہتے ہیں اور آہستہ آہستہ سیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
- یورپی طلبہ فوراً نئی زبان میں گفتگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے ان کی بول چال میں غلطیاں ہوں۔
- کچھ ثقافتیں گروپ میں سیکھنے اور مباحثے کو پسند کرتی ہیں، جبکہ بعض تنہا سیکھنے اور تحریری مشق پر زور دیتی ہیں۔
4۔ ردِ عمل (فیڈ بیک): کیا اساتذہ درست طریقے سے رہنمائی فراہم کرتے ہیں؟
کچھ اساتذہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ردِ عمل دینے کے مختلف طریقے مختلف ثقافتوں پر مختلف اثرات ڈالتے ہیں۔
- جرمنی اور مشرقی یورپ کے طلبہ براہِ راست اور واضح فیڈ بیک کو ترجیح دیتے ہیں، چاہے وہ سخت کیوں نہ ہو۔
- جاپانی اور کوریائی طلبہ نرمی اور نجی طور پر تصحیح کو زیادہ پسند کرتے ہیں، کیونکہ عوامی سطح پر کی جانے والی تنقید ان کے لیے باعثِ شرمندگی ہو سکتی ہے۔
نتیجہ: کیا عربی سیکھنا آسان ہے یا مشکل؟
اس سوال کا کوئی سیدھا سادہ جواب نہیں، کیونکہ عربی سیکھنے کا عمل زبان سیکھنے والے کی مادری زبان، تدریسی طریقہ، سیکھنے کی لگن، ثقافتی پسِ منظر اور ملنے والی رہنمائی پر منحصر ہوتا ہے۔
تاہم، اگر ہم ان عوامل کو سمجھیں، تو ہم اساتذہ کے طور پر سیکھنے کے تجربے کو بہتر بنا سکتے ہیں، اور عربی کو سب کے لیے آسان اور دل چسپ بنا سکتے ہیں۔ ہمیں تدریسی طریقوں میں لچک پیدا کرنی ہوگی، طلبہ کے اختلافات کو مدِنظر رکھنا ہوگا، اور ایک ایسا تعلیمی ماحول فراہم کرنا ہوگا جو سیکھنے کے شوق کو پروان چڑھائے۔
اگر ہم تدریسی طریقوں کو بہتر بنائیں تو ہم طلبہ کی مشکلات کم کر سکتے ہیں اور عربی سیکھنے کے عمل کو ایک خوشگوار اور نتیجہ خیز تجربہ بنا سکتے ہیں۔
ںوٹ: ( یہ مضمون مکہ نیوز پیپر میں ۱۱ مارچ ۲۰۲۵ کو رحلة تعلم العربية: لماذا يبحر البعض بسلاسة بينما يغرق الآخرون؟ کے عنوان سے شائع ہوا )
مقدرات کے مبنیٰ و معاونین ۔ ساجد حمید
مبنیٰ ۱
![]() |
مصنف: ساجد حمید |
کلام کی ایک اہم خوبی: مقدرات ۔ ساجد حمید
تعددِ معنی اور دلالتِ لسانی ۔ ڈاکٹر ساجد حمید
عقلی منہج اور حقیقتِ واقعہ
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟ غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟ ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟
ہے دانش برہانی حیرت کی فروانی
قرآن کا تصور ِقومی زبان (تحقیقی مقالہ ) محمداسلام نشتر
Abstract:
The Quran is the last message of Allah to mankind. Its glorious language
is eloquent Arabic fully guaranteed through Divine knowledge (Louh-e-Mahfooz).
Quranic Arabic played the pivotal role to become the language of Arab Nation
exemplary. The Quran drew enlightened and moderated concepts, standards and
parameters for a national language first time to humankind. This research paper
deals with those Quranic linguistic dimensions, parameters and basic ideas
through which any national language of the world can acquire and adopt
principles and guidelines. At the end all conceptual aspects has been studied
with reference of our National Language, Urdu, as a case study.
ابتدائیہ
قرآن حکیم خالق کائنات ۱ﷲ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے جو عربی زبان میں محمدﷺعربی پر نازل ہوئی۔
بادی النظر میں اس کا کوئی مخصوص موضوع نہیں مگر عمیق نظری میں اس کا موضوع انسان
ہے۔ گویا ا س میں کائنات کے ہر موضوع پر انتہائی اختصار مگر کامل جامعیت سے نہایت سادہ
ترین الفاظ، اصطلاحات اور مثالوں سے کی گئی رہنمائی پورے اصول و ضوابط کے ساتھ مل
جاتی ہے۔ اسی لیے انسان پندرہ صدیاں بعد آج بھی آیات قرآنی کی اپنے زمانے کے مطابق
تفسیر کررہا ہے۔ صدیوں کی تحقیق بتاتی ہے کہ بات انسان اور اُس کی زبان کے موضوع
پر ہو اور نطقِ انسانی کلام اﷲ کے بوسے نہ لے، یہ ناممکن ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں
کہ خالق کائنات نے قرآن میں انسان کی ہدایت کے لیے اس کی اپنی زبان کا انتخاب کیا
اور اس کے لیے پورے نظام فطرت کو لیس و آراستہ کردیا ۔ فرد سے قوم اور قوم سے عربی
و عجمی اقوام و ملل کی زبانوں کو اﷲ کی نشانیاں قرار دیا۔ زبان کو ایسا تحفظ دیا
کہ قرآن لوح محفوظ پر رقم کردیااور اس کی حفاظت کا ذمہ خود لے لیا۔ اس ذات باری نے
قرآن کی مختصر اور طویل، ہر دو، آیات میں ان حقیقتوں کو بیان فرمادیا تاکہ انسان
سمجھ لے اور اﷲ کے رازوں کو تلاش کرکے پالے۔ بِلاشبہ ایسا صرف اور صرف اسی زبان میں
ہوسکتا تھا جو انسان کے اپنے معاشرے میں روزمرہ مشترکہ طور پر بولی جاتی ہے۔ اگرچہ
ابتداً تو ایسا ماں بولی یعنی مادری زبان میں ہوسکتاہے مگر وقت کے ساتھ انسانی
زندگی کے وسیع ہوتے لسانی دائروں کے تقاضے قومی زبان ہی پورے کرسکتی ہے۔ اسی لیے
ہر نبی کو اس کی قوم کی ہی زبان میں بھیجنے کا قرآنی اصول انسان کے سامنے رکھ دیا
گیا تاکہ کسی بھی مرحلے پر وہ مشکلات کا شکار نہ ہو۔ یہ سب کچھ عملاً وقوع پذیر
ہونے کے لیے فطرت نے کون کون سے اسباب پیدا کیے اور انسان کی کیا ذمہ داریاں مقرر
کی گئیں؟
اس موضوع پر قرآن کی رہنمائی سے پہلے نہایت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قوم، زبان، قومی زبان اور زبان عامہ پر کچھ بات کرلی جائے تاکہ ہم مطلوبہ موضوع پر تفصیلات حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اس کے اگلے مرحلے کے طور پر ہم قرآن سے استنباط کرکے قرآنی عربی کے بحیثیت قومی زبان کے موضوع کو آگے بڑھائیں گے جس میں اس کے مختلف پہلوؤں پر بات کی جائے گی۔ اس میں قرآن کے تقابل لسان کے اصول پر بالواسطہ بات ہوگی۔ مباحث میں بعض آیات مبارکہ ایک سے زیادہ مقامات پر مکرر زیربحث آئی ہیں۔ ایسا زیربحث موضوعات کی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق کیاگیا ہے۔
محمد کاظم : عربی زبان و ادب کی معروف شخصیت کون ہیں؟
عرب دنیا کی عربی زبان و ادب کی سرکاری اکیڈمیوں کا تعارف
مجمع اللغة العربية - قاھرہ
مجمع اللغۃ العربیۃ 14 شعبان 1351 ھ، بمطابق 13 دسمبر 1932ء مصر کے بادشاہ فواد اول کے عہد حکومت میں قائم ہوا۔ اس میں بقاعدہ کام 1934ء سے شروع ہوا۔
اس کے کل ممبران 20 ہیں، 10 مصری ہوتے ہیں اور 10 عرب اور غیر عرب۔ ارکان کے لیے کسی مذہبی پس منظر رکھنے کی ضرورت نہیں صرف علمی اور لسانی مہارت ہی بنیادی شرط ہے ۔
پچھلے نصف صدی میں درج ذیل شخصیات نے اس کی صدارت کی ہے:
1- محمد توفيق رفعت (1934 - 1944)2- أحمد لطفي السيد (1945 -1963)4- الدكتور إبراهيم مدكور (1974 - 1995)5- الدكتور شوقي ضيف (1996 -2005)6- الدكتور محمود حافظ (2005 -2011)7- الدكتور حسن محمود عبد اللطيف الشافعي فروری 2012م سے رئیس ہیں۔
مجمع مین بطور نائب رئیس خدمات انجام دینے والوں کے اسمائے گرامی :
الأستاذ الدكتور طه حسين
الأستاذ زكى المهندس
الأستاذ الدكتور أحمد عمار
الأستاذ الدكتور محمد مهدى علام
الأستاذ الدكتور شوقى ضيف
الأستاذ الدكتور محمود حافظ
المعجم الكبير- مجمع اللغة العربية - القاهرة ، فری ڈاؤن لوڈ کریں
![]() |
المعجم الكبير مجمع اللغة العربية - القاهرة |
مجمع اللغۃ العربیۃ قاھرہ کا یہ سب سے بڑا پراجیکٹ ہے ۔ پہلے اس کے بارے میں یہ خیال تھا کہ اس کو انگریزی زبان کی سب سے بڑی " آکسفورڈ ڈکشنری" کے طرز تیار کیا جائے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی پالیسی میں تبدیلى آتى گئ ۔
1970 سے 2022ء تک اس کی کل 8 جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔- اب تک صرف حرف (ا) سے حرف (ص) تک کے الفاظ پر کام مکمل ہوا ہے۔ جو تقریبا بندرہ حصوں پر مستمل ہیں ۔ پندرہویں حصہ کا پہلا ایڈیشن، حرف (ص ) کے لیے مختص ہے ، جو جون 2022 میں شائع ہوا۔
اس کے لیے لسانیات اور لغت کے ماہرین کی ایک خصوصی کمیٹی مختص ہے ان کی نگرانی میں مندرجہ ذیل خصوصیات کے ساتھ کام جاری ہے :
اس میں عربی لسانیات کے بارے میں مکمل معلومات ہیں جیسے زبان، ادب، علم الصرف، وعلم النحو، علم البلاغۃ اور اسی طرح تاریخ، جغرافیہ، نفسیات، فلسفہ، انسانی علوم، معاشرتی علوم ، تہذیب، اور تمدن کے بارے میں تمام اصطلاحات شامل ہیں، اس کے ساتھ جدید سائنسی اور تکنیکی اور تحقیقاتی اصطلاحات بھی شامل ہیں۔
درج ذیل لنک سے فری ڈاؤن لوڈ کریں !
المعجم الكبير المجلد الأول
سنہرا اسلامی دور: عربوں نے کس طرح یورپ میں کاغذ متعارف کروایا ؟
(28 اگست 2020 بی بی سی اردو )

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہر بار جب آپ ’رِم‘ سے کاغذ نکال کر کمپیوٹر پرنٹر میں ڈالتے ہیں تو اس ایک عمل کے دوران ایک اعتبار سے آپ خطاطی یا لکھائی کی لگ بھگ دو ہزار سال پر محیط تاریخ کا سفر طے کر لیتے ہیں۔
کاغذ دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ پہلے چین میں ایجاد ہوا تھا۔ لیکن کاغذ کے لیے مستعمل انگریزی زبان کا لفظ ’پیپر‘ فرانسیسی، جرمن اور ہسپانوی زبانوں کی طرح مصر میں پائے جانے والے ایک آبی پودے یا سرکنڈے کے یونانی اور لاطینی نام ’پپائرس‘ سے نکلا ہے۔
جبران خلیل جبران : معروف لبنانی نژاد امریکی آرٹسٹ، عربی شاعر و ادیب
![]() |
جبران خلیل جبران |
ڈاکٹر طہ حسین کی کتاب " الوعد الحق " کا تعارف - ڈاكٹرماہر شفيق فريد
![]() |
ڈاکٹر طہ حسین |