" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
علامہ عنایت اللہ خان مشرقی رحمۃ اللہ علیہ - مولانا امین احسن اصلاحی
علامہ عنایت اللہ مشرقی |
ترکی میں حدیث کی تدوین جدید – جاوید احمد غامدی
علم حدیث کی نوعیت اور اُس کی جمع و تدوین (۲)
سید منظور الحسن
احادیث اور صحابہ کے بعد کا زمانہ
صحابۂ کرام سے آگے یہ احادیث تابعین، تبع تابعین ، تبع تبع تابعین اور بعد کے محدثین کے سلسلۂ روایت سے ہم تک پہنچی ہیں۔ ۱۱؎
دوسری صدی ہجری میں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے کم و بیش ایک سو سال بعد علما میں حدیث کی جمع و تدوین کا شوق نمایاں ہونا شروع ہو گیا۔چنانچہ انھوں نے احادیث کو حاصل کرنے کے لیے دور دراز کے سفر بھی کیے۔ لوگوں میں اس علمی رحلت کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ ۱۲؎
حدیث کے طالب علموں کے یہ سفر جہاں اُن کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے اکتساب فیض کے شوق کو نمایاں کرتے ہیں، وہاں اِس حقیقت کو بھی واضح کرتے ہیں کہ محدثین کی یہ کاوشیں اصل دین کے حصول کے لیے نہیں تھیں۔ وہ اُن کے پاس قرآن و سنت کی صورت میں موجود تھا۔ ان کا مقصد ازدیادعلم تھا، دین کی تفہیم مزید تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر عمل، یعنی اسوۂ حسنہ سے فیض یاب ہونا تھا۔ اگر اصل دین کے حصول کو ان کاوشوں کا محرک سمجھا جائے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہونے کے سو ڈیڑھ سوسال تک مکمل دین یا اُس کی ضروری معلومات معاذ اللہ لوگوں تک نہیں پہنچ سکی تھیں۔ یہ ماننا، ظاہر ہے کہ قرآن مجید کےبھی خلاف ہے اور تاریخی شہادت کے بھی مطابق نہیں ہے۔
احادیث کی جمع و تدوین کا اہتمام
حکومت و ریاست کی سرپرستی میں احادیث کی جمع و تدوین کا کام سب سے پہلے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے انجام دیا۔ وہ تابعی تھے اور خود بھی محدث تھے۔ اُن کا شمار حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے تلامذہ میں ہوتا ہے۔ وہ ۹۹ھ میں خلیفہ بنے اور اُنھوں نے مختلف علاقوں کے علما و محدثین کو احادیث جمع کرنے کےکام پر مامور کیا۔ اُنھیں ڈر تھا کہ کبار تابعین کی وفات سے حدیث کا علم ضائع نہ ہو جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جن شخصیات کو اس کام پر مقرر کیا ،اُن میں سب سے نمایاں نام ابن شہاب زہری کا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز صرف دو سال اقتدار میں رہنے کے بعد ۱۰۱ ھ میں وفات پا گئے۔ ۱۳؎
علم حدیث کی نوعیت اور اُس کی جمع و تدوین (۱)
سید منظور الحسن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبارآحاد کو ’’حدیث‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ وہ روایات ہیں جو خبر واحد کے ذریعے سے اور روایت بالمعنیٰ کے طریقے پر ہم تک پہنچی ہیں، یعنی لوگوں نے اِنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سماعت کی حد تک سنا ہے ، اپنی یادداشت کی حد تک یاد رکھا ہے ، اپنے فہم کے مطابق سمجھا ہے ، اپنے الفاظ میں ترتیب دیا ہے اوراپنی صواب دید سے منتقل کیا ہے۔اِس طریقے سے حاصل ہونے والے علم کے بارے میں مسلم ہے کہ یہ درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا۔ اِس سے ظن غالب یا قوی گمان حاصل ہوتا ہے، جسے یقینیات کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا ۔ درجۂ یقین کو وہی علم پہنچتا ہے جو اجماع و تواتر سے منتقل ہوا ہو۔ قرآن مجید اور سنت کا یہی معاملہ ہے۔ یہ دونوں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے ملے ہیں اور ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہوتے ہیں۔ اِن کے مقابل میں احادیث کی روایات اخبار آحاد میں محصور ہیں، یعنی نہ وہ صحابۂ کرام کے اجماع اور قولی تواتر سے ملی ہیں اور نہ ہر زمانے میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہوتی ہیں، لہٰذا اِن سے حاصل ہونے والے علم کو اصل اور ضروری قرار دینے کے بجاے بالعموم شرح و فرع تک محدود سمجھا جاتا ہے، یعنی اس کی نوعیت دین کی تفہیم و تبیین کی ہے۔ ۱؎
یہ علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایات کی صورت میں موجود ہے۔انھیں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے متعدد صحابۂ کرام نے اپنی انفرادی حیثیت میں روایت کیا ہے اور علما اور محدثین کی ایک جماعت نے اسے مرتب کر کے آگے منتقل کیا ہے۔
احادیث اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم
احادیث کے بارے میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ زمانۂ نزول قرآن میں احادیث کو لکھنے اور جمع کرنے پر پابندی عائد رہی ہے۔ اِس کا مقصد کلام الہٰی کو بالکل متعین اور ممیز رکھنا تھا۔تاہم بعد ازاں یہ پابندی اٹھا لی گئی اور لوگ اپنی خواہش سے احادیث لکھنے اور جمع کرنےلگے۔ ۲؎
حدیث و سنت کی حجیت: جناب جاوید احمد غامدی کا موقف
سید منظور الحسن
[ یہ تحریر راقم کے ایم فل علوم اسلامیہ کے تحقیقی مقالے سے ماخوذ ہے۔ ’’حدیث و سنت کی حجیت پر مکتب فراہی کے افکار کا تنقیدی جائزہ‘‘ کے زیر عنوان یہ مقالہ جی سی یونیورسٹی لاہور کے شعبۂ عربی و علوم اسلامیہ کے تحت ۲۰۱۲ء - ۲۰۱۴ء کے تعلیمی سیشن میں مکمل ہوا۔]
جناب جاوید احمد غامدی رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی اطاعت اور دین میں آپ کے مقام و مرتبے کے حوالے سے اُسی موقف پرقائم ہیں جس پرتمام علماے سلف کھڑے ہیں۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو کمال انسانیت کا مظہر اتم اور زمین پر خدا کی عدالت کہتے، آپ کی ہستی کو عقیدت اور اطاعت، دونوں کا مرکز مانتے اور آپ کے احکام کی بے چون و چرا تعمیل کو لازم قرار دیتے ہیں۔وہ دین کو آپ کی ذات میں منحصر سمجھتے اور اِس بنا پر آپ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کو قیامت تک کے لیے حجت تسلیم کرتے ہیں۔ ماخذ دین کی بحث میں اُنھوں نے ’دین کا تنہا ماخذ‘ کی جو منفرد تعبیر اختیار کی ہے،اُس سے حصول دین کا سارا رخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور آپ کے وجود پر دین کا انحصار رائج تعبیرات کے مقابلے میں زیادہ نمایاں اور زیادہ مرتکز ہو کر سامنے آیا ہے۔[1] دین اسلام پر اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے اُنھوں نے لکھا ہے:
’’دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اُس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اِس کے بعد اُس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔ اِس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اِس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔‘‘[2]