" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
سید ابوالحسن علی ندویؒ: فکری امتیازات و خصائص ۔ ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
سانحہ غزہ: ضمیرِ انسانی کی بیداری اور اسلام کی نئی بازگشت
تاریخ کے جبر نے ایک بار پھر انسانیت کو آئینہ دکھایا ہے۔ غزہ کے زخمی چہروں، معصوم لاشوں، ملبے تلے سسکتی ماؤں اور اجڑی ہوئی بستیوں نے نہ صرف مسلم دنیا کو دہلا دیا، بلکہ اُس مغربی ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جو صدیوں سے انسانی حقوق، آزادی اور تہذیبی اقدار کے نعرے لگاتا آیا ہے۔
یہ بیداری محض وقتی احتجاج یا مظاہروں کی صورت میں نہیں بلکہ ایک گہری فکری بےچینی، ضمیر کی خلش اور صداقت کی تلاش کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ انہیں پہلی بار شدت سے یہ احساس ہوا ہے کہ تہذیب کا مطلب صرف تکنیکی ترقی یا سیاسی بالادستی نہیں، بلکہ اس کا اصل جوہر عدل، رحم، اور انسانی وقار کی حفاظت ہے — جو چیز مغربی تہذیب اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود غزہ میں مہیا نہ کر سکی۔
مسلم دنیا کی سیاسی و مذہبی قیادت کا فکری تضاد اور اس کا حل
مسلم دنیا اس وقت فکری، سیاسی اور تہذیبی بحران سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف مغربی تہذیب و تعلیم سے متاثر حکمران طبقہ ہے، جو اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہے، اور دوسری طرف عوام میں اثر و رسوخ رکھنے والے علما ہیں، جن کا دینی علم تو مضبوط ہے مگر وہ عصر حاضر کی ریاستی و عالمی سیاست کے تقاضوں سے اکثر ناآشنا ہیں۔ ان دونوں طبقات کے درمیان ایک فکری خلیج حائل ہے، جس نے مسلم معاشروں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ نتیجتاً، نہ تو اسلامی نظامِ حیات نافذ ہو سکا، اور نہ ہی مغربی ماڈل سے کوئی پائیدار ترقی حاصل ہوئی۔
نوآبادیاتی دور کے بعد مسلم دنیا میں جو قیادت ابھری، وہ مغربی تعلیمی اداروں سے تربیت یافتہ تھی۔ ان کے نزدیک ترقی کا پیمانہ صرف صنعتی ترقی، مغربی جمہوریت، سیکولر قانون، اور مغربی طرزِ معیشت تھا۔ انہوں نے اسلامی تاریخ، تمدن، اور فقہ کو دقیانوسیت سمجھا اور مذہب کو نجی زندگی تک محدود کر دیا۔ انہوں نے ریاستی ڈھانچے، عدلیہ، تعلیم، معیشت اور میڈیا کو مغرب کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی، جس سے مسلم معاشروں کی تہذیبی شناخت مجروح ہوئی۔
دوسری جانب علمائے کرام کا طبقہ ہے، جو اگرچہ اسلامی علوم میں مہارت رکھتا ہے، مگر اکثر جدید ریاستی نظام، گلوبل پالیٹکس، معیشت، ٹیکنالوجی اور سائنس سے ناآشنا ہے۔ ان کی اکثریت نے صرف روایتی مذہبی اداروں میں تعلیم حاصل کی، جس سے وہ ایک محدود دائرے میں مؤثر ضرور ہیں، مگر ریاستی سطح پر وہ فیصلہ سازی میں شامل نہیں۔ ان کی اپروچ ماضی پرست اور اجتہادی فکر سے خالی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے جدید نسل ان سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
یہ فکری خلیج مسلم معاشرے کو دو انتہاؤں میں بانٹ چکی ہے: ایک طرف مذہب سے بیزار، مغرب زدہ اشرافیہ؛ اور دوسری طرف روایت زدہ، جدیدیت سے ناآشنا دینی طبقہ۔ اس تقسیم نے امت کی اجتماعی قوت کو زائل کر دیا ہے۔ ریاستیں ظاہری ترقی کے باوجود کرپشن، ظلم، بدامنی اور غربت کا شکار ہیں۔ نہ اسلامی عدل میسر ہے، نہ مغربی خوشحالی۔
ایک افغان پناہ گزین کا سوال : "کیا پاکستان میں ہمارے لیے کوئی حقوق نہیں؟"
1. تاریخی تناظر:
پاکستان نے 1979ء سے لے کر اب تک لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو اپنی سرزمین پر جگہ دی۔ یہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک تاریخی فیصلہ تھا، جو اسلامی اخوت، مشترکہ ثقافت، اور ہمسائیگی کے جذبے سے سرشار تھا۔ مگر وقت کے ساتھ یہ جذبہ کمزور ہوتا گیا اور پالیسیوں نے انسانی فطرت سے زیادہ سیاسی و سیکورٹی خدشات کی صورت اختیار کرلی۔
2. قانونی حیثیت کی کمی:
پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے 1951 کے Refugee Convention اور 1967 کے Protocol پر دستخط نہیں کیے۔ نتیجتاً، پاکستان میں پناہ گزینوں کے حقوق کو قانونی تحفظ حاصل نہیں۔ افغان پناہ گزینوں کی حیثیت اکثر ایک مبہم، غیر مستحکم، اور عارضی درجے کی رہی ہے، جس میں ان کی بنیادی انسانی ضروریات — تعلیم، صحت، روزگار، اور نقل و حرکت — کو مکمل تسلیم نہیں کیا گیا۔
3. پالیسیوں کا تضاد:
افغان پناہ گزینوں کے ساتھ پاکستان کا رویہ کئی دہائیوں میں تبدیل ہوتا رہا۔ کبھی ریاستی سرپرستی میں ان کی امداد کی گئی، تو کبھی "واپسی" کے اعلانات اور زبردستی اخراج کی خبریں سامنے آئیں۔ یہ تضاد خود پناہ گزینوں کی نفسیاتی اور معاشی حالت کو مزید غیر مستحکم کرتا ہے۔
مسئلہ فلسطین کی بدلتی ہوئی جہتیں(Dynamics): ایک جائزہ
مسئلہ فلسطین محض ایک علاقائی تنازع نہیں، بلکہ ایک کثیرالجہتی، پیچیدہ اور تاریخی سانحہ ہے جو گزشتہ ایک صدی سے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا محور بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے کی کئی جہتیں (ڈائنامکس) ہیں ان کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے تاریخی پس منظر، زمینی حقائق، عالمی سیاست، اور حالیہ پیش رفتوں کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔ آج جب دنیا ایک نئی عالمی صف بندی کی طرف بڑھ رہی ہے، مسئلہ فلسطین کے ڈائنامکس بھی نئے رخ اختیار کر رہے ہیں۔
تاریخی تناظر: نوآبادیاتی سازش کا تسلسل
مسئلہ فلسطین کی بنیاد 1917ء کے اعلانِ بالفور اور پھر 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ رکھی گئی۔ برطانوی سامراج کی سرپرستی میں یہودی آبادکاری کے لیے فلسطینی سرزمین پر ظلم کی ایک منظم داستان رقم کی گئی۔ فلسطینیوں کی زمینیں، گھر، ثقافت اور وجود ایک منظم منصوبے کے تحت چھینے گئے۔ اس عمل نے صرف ایک ریاست کو جنم نہیں دیا، بلکہ مشرق وسطیٰ میں دائمی کشمکش کا بیج بویا۔
جغرافیائی اور اسٹریٹیجک ڈائنامکس
فلسطین محض ایک قوم یا زمین کا نام نہیں، بلکہ یہ خطہ بحیرہ روم، مصر، اردن، لبنان اور شام جیسے اہم ممالک کے سنگم پر واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیے ہوئے ہے۔
غزہ اور مغربی کنارے کی تقسیم، یہودی بستیوں کی مسلسل توسیع، القدس کی حیثیت کو بدلنے کی کوششیں — یہ سب جغرافیائی اور سیاسی ڈائنامکس کا حصہ ہیں جو زمین پر قبضے اور حقِ خود ارادیت کے درمیان جنگ کو مسلسل بڑھا رہے ہیں۔
امت مسلمہ کی تعمیر نو: فکری بیداری سے سیاسی آزادی تک مسلم دانشوروں کا کردار
1. فکری تجدید اور نظریاتی احیاء
1.1 اسلامی ورلڈ ویو کی تشکیل نو
مغربی فکر نے دنیا کو مادیت، فردیت، اور سیکولرازم کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ مسلم دانشوروں کا اولین فریضہ ہے کہ وہ قرآنی تصورِ انسان، توحیدِ ربوبیت، اور عدلِ اجتماعی کو ایک مربوط نظامِ فکر کے طور پر پیش کریں۔ اس فکر کا مرکز بندے اور رب کے تعلق کی بحالی اور "اُمۃ وسطاً" کی ذمہ داری کا شعور ہونا چاہیے۔
مسئلہ فلسطین : انسانی حقوق کا مغربی بیانیہ بے نقاب
ہم اگر امریکہ کے کردار کا غیر جانب دار اور تجزیاتی انداز میں مطالعہ کریں تو کئی پہلو سامنے آتے ہیں جو نہ صرف اس کی پالیسیوں کی منافقت کو بے نقاب کرتے ہیں، بلکہ عالمی ضمیر، حقوقِ انسانی کے دعوے، اور اقوام متحدہ کے اداروں کی ساکھ کو بھی سوالیہ نشان بناتے ہیں۔
1. امریکہ کی واضح جانبداری:
اسرائیل کی غیر مشروط حمایت:
-
امریکہ مالی، عسکری، سفارتی، اور سیاسی ہر میدان میں اسرائیل کا سب سے بڑا حامی ہے۔
-
حالیہ جنگ میں ہزاروں فلسطینیوں کے بے گناہ قتل، بچوں کی شہادت، اسپتالوں اور امدادی قافلوں پر حملے جیسے مظالم کے باوجود، امریکہ نے اقوام متحدہ کی سیزفائر قراردادوں کو ویٹو کیا۔
-
یہ واضح کرتا ہے کہ امریکہ کے نزدیک "اسرائیلی مفاد" ہی اصل ترجیح ہے، چاہے اس کی قیمت انسانیت ہی کیوں نہ ہو۔
مسئلہ فلسطین : یورپ امریکہ کی منافقت اور چین روس کی خاموشی حکمت یا مصلحت ؟
دنیا ایک بار پھر تاریخ کے اُس موڑ پر کھڑی ہے جہاں انصاف، حقوقِ انسانی، اور تہذیبِ انسانی کے دعوے دار بے نقاب ہو چکے ہیں۔ غزہ کی سرزمین پر بہنے والا ہر قطرۂ خون، صرف ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ مغربی اخلاقی بیانیے کی شکست کا اعلان ہے۔ اور اس بحران میں، امریکہ کا کردار سب سے زیادہ متنازع، منافقانہ اور غیر اخلاقی نظر آ رہا ہے۔
مگر اس پوری صورتحال میں دو بڑی طاقتیں – چین اور روس – ایک خاص طرزِ سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے: کیا یہ خاموشی بزدلی ہے؟ یا حکمت؟ اور کیا واقعی یہ دونوں طاقتیں امریکہ کی زوال پذیر قیادت کے بعد دنیا کو ایک نئے عالمی نظام کی طرف لے جا سکتی ہیں؟
امریکہ: آزادی اور انصاف کا منافقانہ علمبردار
امریکہ جو خود کو عالمی "مسیحا"، جمہوریت کا پرچم بردار، اور حقوقِ انسانی کا محافظ کہتا ہے، اس وقت فلسطینی نسل کشی پر اسرائیل کا غیر مشروط حامی بنا کھڑا ہے۔
-
ہزاروں بچوں کی شہادت،
-
اسپتالوں، اسکولوں اور امدادی قافلوں پر حملے،
-
اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو ویٹو کرنا،
یہ سب کچھ دنیا کو بتا رہا ہے کہ امریکی اخلاقیات کی بنیاد طاقت، مفاد اور نسل پرستی پر کھڑی ہے۔
مسلم حکمران اور امت کی زبوں حالی — ایک تنقیدی تجزیہ
یہ وہ طبقہ ہے جو اقتدار کو امانت کے بجائے دولت، طاقت اور ذاتی مفاد کا ذریعہ سمجھ بیٹھا ہے۔ ان کے اندر بددیانتی، علمی و فکری جہالت، اخلاقی پستی، ظلم و جبر، کرپشن، اقربا پروری، عوامی رائے کے استحصال، اور آزادی اظہار کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ قوموں کے لیے جو قیادت بصیرت، صداقت، عدل، خدمت اور قربانی کی علامت ہوتی ہے، مسلم دنیا میں وہی قیادت بدنامی، ظلم اور خوف کی علامت بن چکی ہے۔
آج جب فلسطین کے نہتے عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، جب ماؤں کی گود اجڑ رہی ہے، جب معصوم بچوں کی لاشیں زمین پر بکھری پڑی ہیں، تو ایسے میں ۵۵ سے زائد مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بے حسی، بزدلی اور منافقت امت کے لیے کسی زخم سے کم نہیں۔ زبانی مذمتوں، رسمی بیانات اور اقوام متحدہ کے کمرے میں چند لمحوں کی خاموشی سے نہ فلسطینیوں کے زخم بھر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے شہداء کو انصاف مل سکتا ہے۔
امتِ مسلمہ: ایک جاں، ہزار قالب
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ہم ایک خواب کی کرچیاں چن رہے ہیں… ایک ایسا خواب جسے تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں کہیں سجا کر رکھ دیا گیا ہو۔
"إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ..." (الأنبیاء: 92)
کیا امت مسلمہ کا تصور ختم ہو چکا ہے؟
غزہ کے جلتے چہروں، ٹوٹتے خوابوں اور معصوم لاشوں کے ساتھ صرف انسانیت ہی نہیں، امت مسلمہ کے تصور پر یقین رکھنے والوں کا دل بھی چکناچور ہو چکا ہے۔ اس المناک منظرنامے نے جہاں ظالموں کے چہرے بےنقاب کیے، وہیں ایک کربناک سوال بھی جنم دیا:
یہ سوال ایک فرد کی مایوسی نہیں، ایک پوری نسل کے سوالات کی بازگشت ہے۔
❓ امت مسلمہ: حقیقت یا خیال؟
-
قرآن سے نکلا ہے:
"إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُونِ" (الأنبیاء: 92) -
نبی ﷺ کی سنت سے جڑا ہے:
"المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً" (بخاری و مسلم)
یعنی امت مسلمہ کا تصور نظریاتی، روحانی، اور فطری حقیقت ہے، جسے کسی سیاسی زوال یا معاشی مفادات سے مٹایا نہیں جا سکتا۔
بدلتا عالمی منظرنامہ اور تنازعات: 2024 کی جنگوں نے نئی دشمنیاں کیسے پیدا کیں اور 2025 میں کیا ہو گا؟
ہماری دہلیز پر جاری یورپ کی جنگ
شام میں اسد خاندان کے 50 سالہ دور کا ’ایک ہفتے میں‘ خاتمہ
شام کی تاریخی حیثیت
افغانستان کا دریائے آمو جہاں تیل اور گیس کی تلاش میں چین اور روس پیش پیش ہیں۔
افغانستان میں روسی سرمایہ کاری
عرب کہاں ہیں؟ فلسطین کے مسلم ہمسائے ماضی کی طرح اس کی حمایت کیوں نہیں کر رہے؟
بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ : جیونیوز جرگہ میں سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی کا اہم تجزیہ
طالبان کا تین سالہ دور اور اقوام متحدہ کی رپورٹ ۔ ڈاکٹر محمد اقبال خلیل | اگست ۲۰۲۴ | اخبار اُمت
ترقیاتی اُمور:
نوبل انعام یافتہ محمد یونس بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ مقرر
