عالم اسلام کے حالات اور واقعات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عالم اسلام کے حالات اور واقعات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی

طوفان الاقصی کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی
مقام / زیر اہتمام:
دارالعلوم نقشبندیہ امینیہ، ماڈل ٹاؤن، گوجرانوالہ
تاریخ بیان:
۶ نومبر ۲۰۲۳ء

عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کے زیر اہتمام مسئلہ فلسطین پر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کے مشترکہ اجتماع سے گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں عالمی ادارہ تنظیم الاسلام، محترم مولانا پیر محمد رفیق احمد مجددی اور مولانا سعید احمد صدیقی کا شکرگزار ہوں کہ فلسطینی تنظیم حماس کے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن کے بعد بیت المقدس اور غزہ کی صورتحال کے حوالے سے مجھے اس اجتماع میں حاضری اور کچھ باتیں عرض کرنے کا موقع دیا۔ ہر طرف غم کا ماحول ہے لیکن ان بچوں کو سامنے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ یہ ہماری مستقبل کی قیادت ہے، اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائیں۔ ابھی محترم مولانا سعید احمد صدیقی امتِ مسلمہ کی بات کر رہے تھے تو میرے ذہن میں ایک حدیث مبارکہ آ گئی وہ عرض کر دیتا ہوں۔

حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کہتے ہیں کہ غزوۂ خندق کے موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ’’اکتبوا لی من تلفظ بالاسلام‘‘ یعنی کلمہ پڑھنے والوں کی تعداد معلوم کرو کتنی ہے۔ یہ پہلی مردم شماری تھی جو غزوہ خندق کے موقع پر ہوئی تھی۔ جب مسلمان گنے گئے تو چھوٹے بڑے ملا کر پندرہ سو کے لگ بھگ تھے۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نے رپورٹ اس طرح پیش کی کہ یا رسول اللہ! جب ہم تین سو تیرہ تھے تو کافر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے تھے، آج تو ہم پندرہ سو ہیں۔ اس پر ہم ذرا غور کریں کہ آج دنیا میں کتنے مسلمان ہیں اور ان کی کیا حالت ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ایمان ہو تو پندرہ سو دنیا پر حاوی ہو جاتے ہیں، اور ایمان کمزور ہو تو وہی ہوتا ہے جو آج ہمارا حال ہے۔

معاشی مقاطعہ کی شرعی حیثیت

از مفکراسلام مولانازاہدالراشدی صاحب 

حوالہ: 

روزنامہ اوصاف، اسلام آباد

تاریخ اشاعت: 

۱۳ نومبر ۲۰۲۳ء

فلسطینی مظلوم بھائیوں کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت و درندگی کے خلاف احتجاج کے طور پر امت مسلمہ کے بہت سے حلقے اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں اور شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی اسے ایک بیان میں ایمانی غیرت اور قومی حمیت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے۔ یہ معاشی مقاطعہ قوموں کے درمیان جنگ کا ایک حصہ ہوتا ہے اور جہادِ اسلامی کا بھی اہم شعبہ ہے ۔آج کی گفتگو میں دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی صورتحال کے حوالے سے ایک دو واقعات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ معاشی کشمکش، بائیکاٹ اور ناکہ بندی وغیرہ قوموں کی باہمی آویزش کا ہمیشہ سے حصہ چلی آ رہی ہے، جناب نبی اکرمؐ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد دس سالہ مدنی دور میں ستائیس کے لگ بھگ جنگوں میں خود شرکت فرمائی ہے اور اس دوران معاشی محاصرہ، ناکہ بندی اور بائیکاٹ کے بہت سے واقعات تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں جن میں دو پیش کر رہا ہوں۔


انصار کے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ رسول اکرمؐ کی ہجرت کے بعد اور بدر کے معرکہ سے قبل عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو قریش کے سردار ابوجہل نے انہیں دیکھ کر یہ کہہ کر ان سے الجھنے کی کوشش کی کہ تم نے ہمارے دشمنوں کو پناہ دی ہے اور ان کی مسلسل حمایت و نصرت کر رہے ہو، تم اتنے آرام اور اطمینان سے مکہ مکرمہ آکر عمرہ کیسے کر سکتے ہو؟ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت سعد بن معاذؓ نے ابوجہل کو اس کا سختی سے جواب دیا اور فرمایا کہ اگر تم نے مجھ سے الجھنے کی کوشش کی تو یہ یاد رکھنا کہ تمہارے قریش کے تجارتی قافلے شام جاتے اور آتے ہیں جس کے راستے میں ہم رہتے ہیں، ہم نے اگر راستہ بند کر دیا تو شام کے ساتھ تمہاری تجارت کا ماحول باقی نہیں رہے گا۔ ابوجہل یہ سن کر رک گیا اور اسے مزید کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ جبکہ حضرت سعد بن معاذؓ اطمینان کے ساتھ عمرہ ادا کر کے واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے، ان کی معاشی ناکہ بندی کی دھمکی کام کر گئی اور اس نے ابوجہل کے قدم روک لیے۔

بالفور اعلامیہ: سادہ کاغذ پر لکھے گئے 67 الفاظ جنھوں نے مشرق وسطیٰ کی تاریخ بدل ڈالی

بی بی سی اردو ۲نومبر ۲۰۲۳م 

ایک سادہ کاغذ پر لکھے 67 الفاظ نے مشرق وسطی میں ایک ایسے تنازع کا آغاز کیا جو اب تک حل نہیں ہو سکا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع کے دوران، جس میں 1400 اسرائیلی اور ساڑے آٹھ ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، بالفور اعلامیہ کے 106 سال بیت چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی دستاویز تھی جس نے اسرائیل کو جنم دیا اور مشرق وسطی کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

دو نومبر 1917 کو پہلی عالمی جنگ کے دوران لکھی جانے والی اس تحریر میں پہلی بار برطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے کے بعد فلسطین پر برطانیہ کنٹرول حاصل کر چکا تھا۔

عرب اس دستاویز کو ’برطانوی دغا‘ سمجھتے ہیں کیوں کہ سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے میں انھوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ بالفور اعلامیہ کے بعد تقریباً ایک لاکھ یہودی فلسطین پہنچے تھے۔



اس اعلامیے میں کیا کہا گیا؟


یہ اعلامیہ اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر بالفور نے بیرن لیونیل والٹر روتھس چائلڈ کو بھجوایا تھا جو برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے ایک رہنما تھے۔

اس اعلامیہ میں لارڈ روتھس چائلڈ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا:

طیب اردوغان: لیموں پانی اور بیگل بریڈ فروخت کرنے والا نوجوان ترکی کا طاقتور سربراہ کیسے بنا؟

بی بی سی اردو ۲۹ مئی ۲۰۲۳م

طیب اردوغان ترکی کا طاقتور سربراہ کیسے بنا ؟
ایک عام زندگی سے آغاز کرنے کے بعد رجب طیب اردوغان آج ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ 20 سال سے ترکی کی قیادت کر رہے ہیں اور انھوں نے جدید ترک جمہوریہ کے بانی مصطفی کمال اتاترک کے بعد کسی بھی رہنما سے زیادہ اپنے ملک کی تشکیل نو کی ہے۔

اردوغان کے دو دہائیوں سے جاری اقتدار کو مئی 2023 میں ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ایک طاقتور سیاسی اتحاد کے خلاف کانٹے دار مقابلے کا سامنا تھا لیکن صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں کامیابی کے بعد اب ان کے اقتدار کا سفر تیسری دہائی تک بڑھ رہا ہے۔

فروری 1954 میں پیدا ہونے والے اردوغان کے والد ساحلی محافظ (کوسٹ گارڈ) تھے۔ جب رجب طیب اردوغان 13 سال کے تھے تو اُن کے والد نے اپنے پانچ بچوں کی بہتر پرورش کی امید میں استنبول منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔

نوجوان اردوغان نے پیسے کمانے کے لیے لیموں پانی اور تلوں والے بیگلز فروخت کیے جنھیں ترکی میں ’سمیت‘ کہا جاتا ہے۔ استنبول کی مرمرہ یونیورسٹی سے مینجمنٹ میں ڈگری حاصل کرنے سے پہلے انھوں نے ایک اسلامی سکول سے تعلیم حاصل کی۔

ان کی یونیورسٹی ڈگری اکثر تنازعات کا باعث رہی ہے، حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس یونیورسٹی کی مکمل ڈگری نہیں ہے بلکہ یہ ایک کالج ڈپلومہ کے برابر ہے۔ اردوغان نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی ہے۔

کھیل سعودی عرب کے وژن 2030 کا ایک اہم پہلو

 کھیل سعودی عرب کے وژن 2030 کا ایک اہم پہلو

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو قطر ورلڈ کپ کے دوران کئی بار فیفا کے سربراہ جی وی انفینٹینو کے ساتھ دیکھا گیا۔ سنہ 2016 میں محمد بن سلمان کے ’وژن 2030‘ کے تحت کھیلوں کو ترجیحات میں شامل کیا گیا تھا۔

اس کے بعد سعودی عرب میں کھیلوں کے حوالے سے بڑی تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔

وژن 2030 میں کھیلوں کے متعلق تین اہداف طے کیے گئے ہیں اور اس کے تحت سنہ 2030 تک کھیلوں میں عوام کی شرکت کو 40 فیصد تک بڑھانا، بیرون ملک سعودی کھلاڑیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور کھیلوں کی معیشت کو فروغ دینا ہے۔

فٹبال صحافی اوری لیوی کے مطابق رونالڈو کا سعودی عرب پہنچنا بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ انھوں نے محمد بن سلمان کی ایک ویڈیو ٹویٹ کی ہے جس میں سعودی ولی عہد کہہ رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ اب نیا یورپ بنے گا۔

ویڈیو میں ولی عہد کا کہنا ہے کہ ’اگلے پانچ سالوں میں سعودی عرب بالکل مختلف ہو جائے گا، بحرین بالکل مختلف ہو گا، کویت۔۔۔ یہاں تک کہ قطر بھی۔۔۔ ساتھ ہمارے اختلافات کے باوجود بھی۔۔۔ ان کی معیشت مضبوط ہے اور اگلے پانچ سالوں میں بالکل مختلف نظر آئیں گے۔ متحدہ عرب امارات، عمان، لبنان، اردن، مصر، عراق اور یہاں جو مواقع ہیں۔۔۔ اگر ہم اگلے پانچ سالوں میں کامیاب رہے تو بہت سے ممالک ہمارے نقش قدم پر چلیں گے۔‘

ولی عہد کا کہنا ہے ’اگلے 30 سالوں میں مشرق وسطیٰ میں نیا عالمی نشاۃ ثانیہ ہوگا۔ یہ سعودی کی جنگ ہے۔ یہ میری جنگ ہے اور میں اس لڑائی میں اس وقت تک مرنا نہیں چاہتا جب تک میں مشرق وسطیٰ کو دنیا کی قیادت کرتے ہوئے نہ دیکھوں۔ ہدف صد فیصد حاصل ہو کر رہے گا۔‘

فلسطین پر اقوام متحدہ کی قرارداد پر اسرائیل برہم، انڈیا کا کیا موقف تھا؟

 بی بی سی اردو 

تاریخ اشاعت :1 جنوری 2023ء 

 اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انڈیا نے مشرقی یروشلم اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے سے متعلق قرارداد کے مسودے سے خود کو الگ کر لیا ہے۔

قرارداد کے مسودے میں فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے غیر قانونی ’طویل قبضے‘ اور اس کی علیحدگی کے قانونی نتائج پر عالمی عدالت انصاف سے رائے مانگی گئی ہے۔

قرارداد کا مسودہ یہ تھا ۔ 'مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینی عوام کے انسانی حقوق کو متاثر کرنے والی اسرائیلی سرگرمیاں‘۔

اس میں بین الاقوامی عدالت انصاف سے درخواست کی گئی تھی کہ ’اسرائیل کی طرف سے فلسطینی سرزمین پر قبضے، آباد کاری اور یلغار کے ذریعے 1967 سے فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کی خلاف ورزی کے قانونی نتائج کےبارے میں رائے دی جائے۔‘

اس مسودے میں اسرائیل کے یروشلم کے آبادیاتی ڈھانچے، کرداراورحیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنے اور امتیازی قوانین اپنانے کی بات بھی کی گئی ہے۔

اس تجویز کے حق میں 87 اور مخالفت میں 26 ووٹ اور 53 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

امریکہ اور اسرائیل نے قرارداد کے مسودے کے خلاف ووٹ دیا جب کہ بھارت، برازیل، جاپان، میانمار اور فرانس نے ووٹ نہیں دیا۔

اسرائیل کا دعوی ہےکہ بیت المقدس یا یروشلم اس کا غیر منقسم دارالحکومت ہے جبکہ فلسطینی عوام مشرقی بیت المقدس کو اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت سمجھتے ہیں۔ 

امریکہ اور روس کا بنگلہ دیش میں نیا مورچہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟

اقبال احمد 

بی بی سی اردو 

24 دسمبر 2022ء 

یوکرین کے حوالے سے روس اور امریکہ تو پہلے سے ہی آمنے سامنے ہیں لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ روس اور امریکہ نے بنگلہ دیش میں ایک اور محاذ کھول لیا ہے۔

بدھ کو بنگلہ دیش میں روسی سفارت خانے کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک کارٹون پوسٹ کیا گیا۔ اس کارٹون کے ذریعے بظاہر روس نے امریکہ اور مغربی ممالک کو نشانہ بنایا ہے۔

بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ

کارٹون میں ایک بڑے پرندے کو کھمبے کے اوپر بیٹھا دکھایا گیا ہے۔ اس پرندے کے ساتھ امریکی جھنڈا بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بڑے پرندے کا مطلب امریکہ ہے۔ امریکہ کے نیچے بیٹھا پرندہ برطانیہ کے طور پر دکھایا گیا ہے، اس کے نیچے یورپی یونین ہے اور سب سے نیچے یوکرین کو پیش کیا گيا ہے۔

کارٹون میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین سب مل کر یوکرین پر گندگی گرا رہے ہیں۔لیکن اس کا مطلب سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ بنگلہ دیش میں پچھلے دو ہفتوں میں کیا ہوا ہے۔ 

معاملہ کیا ہے؟

رواں ماہ بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) اور اس کے اتحادیوں نے 10 دسمبر کو حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔

مسلم عالمی تنظیموں میں مولانا مودودی کا کردار

 الطاف حسن قریشی 

ہم سب ، تاریخ اشاعت : 23 دسمبر 2022ء 

موتمر عالم اسلامی کی ابتدا 1926 ء میں اس طرح ہوئی کہ مکہ مکرمہ کے فرمانروا شاہ عبدالعزیز، جنہوں نے آگے چل کر 1931 ء میں مملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی، انہوں نے 1926 ء میں مسلمانوں کو درپیش مسائل پر غور و خوض کے لیے مکہ مکرمہ میں پورے عالم اسلام سے دو درجن کے لگ بھگ مسلم اکابرین کو دعوت دی۔

ہندوستان سے علی برادران، سید سلیمان ندوی اور مفتی کفایت اللہ شامل ہوئے۔ فلسطین سے مفتی اعظم سید امین الحسینی شریک ہوئے۔ ترکی سے بھی اہم شخصیتوں نے حصہ لیا۔ یہ عالی شان اجلاس مسائل کی نشان دہی اور ان کا حل تلاش کرنے کے بعد ختم ہو گیا۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ پانچ سال گزرے، تو مفتی اعظم فلسطین نے بیت المقدس کے مقام پر 1931 ء میں مسلم اکابرین کو مدعو کیا اور موتمر عالم اسلامی کی باقاعدہ تنظیم قائم کی، مگر اس نے کوئی قابل ذکر کام سرانجام نہیں دیا۔

قیام پاکستان کے بعد 1949 ء میں وزیراعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خاں کی سرپرستی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی میزبانی میں اس تنظیم کا تیسرا اجلاس کراچی میں ہوا۔ اس وقت سید ابوالاعلیٰ مودودی جیل میں تھے۔ مولانا ظفر احمد انصاری اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے اس اہم اجلاس کی کامیابی کے لیے دن رات کام کیا۔ اس تنظیم میں آگے چل کر چودھری نذیر احمد خاں بہت فعال کردار ادا کرتے رہے اور انھوں نے مسلمانوں کی دولت مشترکہ قائم کرنے کا تصور پیش کیا۔ اسی طرح موتمر عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل انعام اللہ اتحاد عالم اسلامی کے لیے ملک ملک جاتے اور تنظیمی قوت میں اضافہ کرتے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد یہ عالمگیر تنظیم پس منظر میں چلی گئی ہے۔

قطر فٹ بال ورلڈکپ 2022 ء کى کچھ منفرد خصوصيات

قطر فٹ بال ورلڈ کپ 2022ء کی منفرد خصوصیات 
قطر نے فٹ بال ورلڈکپ دوہزار بائیس کی تیاریوں کے سلسلے میں کچھ ایسے کام کیے ہیں جنھیں سراہا جانا چاہیے۔

تصویر نمبر 1,2

جگہ جگہ پر فرامینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم انگریزی اور عربی میں آویزاں کیے گئے ہیں۔


تصویر نمبر 3

ہوٹل کے کمروں میں بارکوڈ چسپاں کیے گئے ہیں۔ جنھیں موبائل فون سے سکین کرنے پر آپ کو اسلام کی تعلیمات،قران و سنت کی بنیادی معلومات سے آگہی ملے گی

تصویر نمبر 4

سٹیڈیمز کے قریب جتنی مساجد ہیں ان میں انتہائی خوبصورت لہجے والے موذنین کو مقرر کیا گیا ہے۔اذان کی آواز اسٹیڈیم میں سنانے کے لیے مائیکروفون لگائے گئے ہیں۔

تصویر نمبر 5

مرکز ضیوف قطر (Qatar Guest Center) نے 2000 سے زائد مبلغین اسلام کو تیار کیا ہے جو مختلف مقامات پر احسن انداز سے اسلام کی تبلیغ کریں گے۔اس مقصد کے لیے 10 بڑی گاڑیاں اور 10 بڑے خیمے بھی مختلف مقامات پر مہیا کیے گئے ہیں۔

تصویر نمبر 6

کسی ورلڈکپ میں پہلی بار اسٹیڈیم میں نماز پڑھنے اور وضو کرنے کی جگہیں مختص کی گئی ہیں

تصویر نمبر 7

قطر نے اسلامی ثقافتی نمائش کا اہتمام بھی کیا ہے۔ جس میں مساجد،اسلامی اقدار،ایمان وغیرہ کا تعارف دنیا کی کئی زبانوں میں کروایا جائے گا

ہم جنسوں کے جھنڈے لہرانے پر پابندی، نامناسب لباس پر پابندی،اسٹیڈیم کے قریب شراب کی فروخت پر پابندی،تلاوت کے ساتھ اسٹیڈیم کی افتتاحی تقریبات اور اپنی اسلامی ثقافت کی ترویج قابل تعریف ہے-

جديد دور میں علماء اسلام کی اصل ذمہ داری

علماء کی ذمہ داری
"علما کے لیے اب یہ وقت نہیں ہے کہ وہ الہیات اور مابعد الطبیعیات اور فقہی جزئیات کی بحثوں میں لگے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب تھا یا نہ تھا؟ خدا جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں؟ رسولؐ کا نظیر ممکن ہے یا نہیں؟ ایصالِ ثواب اور زیارتِ قبور کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آمین بالجہر و رفع یدین کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ مسجد میں منبر و محراب کے درمیان کتنا فاصلہ رکھا جائے؟ یہ اور ایسے ہی بیسیوں مسائل جن کو طے کرنے میں آج ہمارے پیشوایانِ دین اپنی ساری قوتیں ضائع کر رہے ہیں‘ دنیا کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور ان کے طے ہو جانے سے ہدایت و ضلالت کی اس عظیم الشان لڑائی کا تصفیہ نہیں ہوسکتا جو اس وقت تمام عالم میں چھڑی ہوئی ہے۔ آج اصلی ضرورت ان مسائل کے سمجھنے کی ہے جو ناخدا شناسی اور لا دینی کی بنیاد پر علم اور تمدن کے صدیوں تک نشو و نما پاتے رہنے سے پیدا ہوگئے ہیں۔ ان کی پوری پوری تشخیص کر کے اصول اسلام کے مطابق ان کا قابل عمل حل پیش کرنا وقت کا اصلی کام ہے۔ اگر علمائے اسلام نے اپنے آپ کو اس کام کا اہل نہ بنایا‘ اور اسے انجام دینے کی کوشش نہ کی تو یورپ اور امریکہ کا جو حشر ہوگا، سو ہوگا، خود دنیائے اسلام بھی تباہ ہو جائے گی، کیونکہ وہی مسائل جو مغربی ممالک کو درپیش ہیں تمام مسلم ممالک اور ہندستان میں پوری شدت کے ساتھ پیدا ہو چکے ہیں اور ان کاکوئی صحیح حل بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے مسلم اور غیر مسلم سب کے سب ان لوگوں کے الٹے سیدھے نسخے استعمال کرتے چلے جارہے ہیں جو خود بیمار ہیں۔ اب یہ معاملہ صرف یورپ اور امریکہ کا نہیں بلکہ ہمارے اپنے گھر اور ہماری آئندہ نسلوں کا ہے۔"

امريکى صدر جو بائيڈن کى طرف سے طالبان حکومت سے بات چيت کا اشارہ

بى بى سے اردو کے مطابق پير 19 سبتمبر 2022 کو طالبان نے ایک امریکی انجینیئر کو رہا کر دیا ہے جسے انھوں نے 2020 سے یرغمال بنا رکھا تھا جبکہ اس رہائی کے بدلے میں امریکہ نے سنہ 2005 سے اپنی حراست میں رکھے گئے ایک افغان قبائلی رہنما کو رہا کیا ہے۔

 امریکی بحریہ کے سابق افسر مارک فریرچ کو پیر کے روز کابل ہوائی اڈے پر امریکہ کے حوالے کیا گیا۔

بدلے میں طالبان کے اتحادی بشیر نورزئی کو طالبان کے حوالے کیا گیا ہے۔ نورزئی منشیات کی سمگلنگ کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

اس پر امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکی انجینیئر کی رہائی کے بدلے میں ’مشکل فیصلے کرنے‘ پڑے ہیں۔

صدر بائیڈن نے جنوری (2022) میں کہا تھا: ’اگر طالبان چاہتے ہیں کہ اُن کی حکومت کو تسلیم کرنے پر غور کیا جائے تو انھیں مارک کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے۔ اس کے بغیر کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔‘

60 سالہ مارک  فریرچ کو طالبان نے افغانستان پر اگست 2021 میں دوبارہ قبضے سے ایک سال قبل  يعنى 2020 میں اغوا کیا تھا۔  

مارک فريرچ اور بشير نورزئى

مارک فریرچ گذشتہ 10 سال سے سول انجینئر کے طور پر کابل میں رہ رہے تھے اور وہیں کام کرتے تھے۔

نورزئی طالبان کے بانی ملا عمر کے قریبی ساتھی اور دوست تھے اور انھوں نے 1990 کی دہائی میں طالبان کی پہلی حکومت کی مالی مدد کی تھی۔

نورزئی ہیروئن کی سمگلنگ کے الزام میں 17 سال تک امریکی حراست میں رہ چکے ہیں۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے ملک کے جنوب میں طالبان کے روایتی گڑھ صوبہ قندھار میں افیون کی کاشت کا ایک وسیع آپریشن چلایا۔

دوروزہ اسلامی اتحاد تنظیم (او آئی سی) کا 48 واں وزرائے خارجہ اجلاس 2022ء

اوآئی سی وزرائے خارجہ اجلاس 22، 23، مارچ  2022 ء،  پاکستان 

پاکستان کے وزیر اعظم عمران نے منگل کو اسلامی اتحاد تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم فلسطین اور کشمیر پر ناکام ہوچکے ہیں۔ عمران خان کے مطابق ’ہم تمام ممالک کی اپنی خارجہ پالیسیاں ہیں مگر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح فلسطین میں دن دیہاڑے ڈکیتی ہورہی ہے، اگر ہم متحد نہ ہوئے اور ایک مؤقف نہ رکھا تو ہم کہیں کے نہیں رہ جائیں گے۔‘


او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ او آئی سی اجلاس پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ہورہا ہے، اور او آئی سی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی آمد پر ان کا مشکور ہوں۔


خیال رہے کہ پاکستان میں ہونے والے اس 48 ویں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل اجلاس میں 57 مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ، مبصرین اور مہمان شریک ہیں۔

سعودی ولی عہد کے امریکی جریدے 'دی اٹلانٹک' کو دیئے گئے اہم انٹرویو

سعودى ولى عہد کا اہم انٹرويو
 
بی بی سی اردو 27 فروری 2022ء 

سعودی ولی عہد کے امریکی جریدے 'دی اٹلانٹک' کو دیئے گئے انٹرویو کو سعودی پریس ایجنسی نے بھی شائع کیا ہے۔

اس انٹرویو میں ولی عہد محمد بن سلمان نے اسلام، وہابیت، قرآن، اسرائیل اور امریکہ سمیت بہت سے مسائل پر تفصیل کے ساتھ بات کی۔


اٹلانٹک نے ولی عہد سے پوچھا کہ کیا وہ سعودی عرب کو اس قدر جدید کریں گے کہ اس کی اسلامی شناخت کمزور ہو جائے؟

اس سوال کے جواب میں ولی عہد نے کہا کہ 'دنیا کے ہر ملک کا قیام مختلف نظریات اور اقدار کی بنیاد پر عمل میں آیا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ جمہوریت، آزادی اور آزاد معیشت جیسی اقدار پر قائم ہے۔ لوگ ان اقدار کی بنیاد پر متحد رہتے ہیں۔ لیکن کیا تمام جمہوریتیں اچھی ہیں؟ کیا تمام جمہوریتیں ٹھیک طریقے سے کام کر رہی ہیں؟ یقینی طور پر نہیں۔


'ہمارا ملک اسلام کی اقدار اور نظریات کی بنیاد پر بنا ہے۔ اس میں قبائلی ثقافت ہے، عرب ثقافت ہے۔ سعودی ثقافت اور عقائد بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ ہماری روح ہے۔ اگر ہم نے اسے چھوڑ دیا تو ملک تباہ ہو جائے گا۔


سعودی ولی عہد نے کہا کہ ہمارے لیے سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کو ترقی اور جدیدیت کے صحیح راستے پر کیسے ڈالا جائے۔ اسی طرح کے سوالات امریکہ کے لیے ہیں کہ جمہوریت، آزاد منڈیوں اور آزادی کو صحیح راستے پر کیسے رکھا جائے۔ یہ سوال اہم ہے کیونکہ وہ غلط راستے پر جا سکتے ہیں۔'

اقوام متحدہ کے 76 برس: کیا اقوام متحدہ ایک کامیاب ادارہ ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے؟

اقوام متحدہ کے 76 برس
بی بی سی اردو : 24اکتوبر 2021

اقوامِ متحدہ کا قیام دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر عمل میں آیا۔ اس سے قبل اسی قسم کی عالمی تنظیم لیگ آف دی نیشنز کی ناکامی دنیا دیکھ چکی تھی۔ اقوامِ متحدہ کو تشکیل دیتے ہوئے اس کے چارٹر میں اس کا جو بنیادی مقصد بیان کیا گیا تھا وہ تھا 'آنے والی نسلی کو جنگ کی لعنت سے محفوظ رکھنا۔'

مگر اقوام متحدہ کے 24 اکتوبر سنہ 1945 کے قیام سے لے کر اب تک گذشتہ 76 برسوں میں ڈھائی سو سے زیادہ جنگیں ہو چکی ہیں۔ اس کا دوسرا بڑا مقصد اقتصادی اور سماجی ترقی بھی لانا تھا۔

تاہم ایک بات اپنی جگہ اب بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ اقوام متحدہ کے قیام سے قبل دو عالمی جنگیں دیکھ چکی تھی جن میں کروڑوں انسان ہلاک ہوئے تھے۔ اگرچہ اس دوران دنیا ایک سرد جنگ میں مسلسل مبتلا رہی ہے، اقوام کے قیام کے بعد تیسری عالمی جنگ تاحال نہیں ہوئی ہے۔

ابھی یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ آیا تیسری عالمی جنگ اقوام متحدہ کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے یا اس کے نہ ہونے کی وجہ ایٹم بم کی تباہی کا باہمی خوف ہے، یا یہ دونوں عوامل کارفرما ہیں یا کوئی اور وجہ ہے۔

اقوام متحدہ یا 'یونائیٹڈ نیشنز' کا نام سب سے پہلے امریکی صدر فرینکلِن رُوزویلٹ نے سنہ 1941 میں استعمال کیا تھا۔ جب سنہ 1945 میں اس ادارے کے قیام کے لیے 50 ممالک نے دستخط کیے تھے (پولینڈ نے کچھ عرصے بعد دستخط کیے تھے)۔ اور آج اس کے 193 ممالک ارکان ہیں اور دو غیر ریاستی ارکان ہیں۔

اقوام متحدہ کے قیام کے وقت اس کے چھ بنیادی ادارے بھی وجود میں آئے، یعنی جنرل اسمبلی، اکنامک اینڈ سوشل کونسل، سکیورٹی کونسل، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، ٹرسٹی شپ کونسل، سیکریٹریٹ۔

اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک جنرل اسمبلی کے ارکان ہیں۔ اس میں فیصلے سادہ اکثریت یا بعض اوقات اہم معاملات میں دو تہائی اکثریت سے لیے جاتے ہیں۔ اس کا اجلاس ہر برس ستمبر میں ہوتا ہے۔

سلامتی کونسل کے 15 ارکان ہیں، ان میں پانچ مستقل ارکان ہیں (چین امریکہ، روس، برطانیہ اور فرانس) باقی ارکان کو ایک علاقائی ترتیب کے مطابق جنرل اسمبلی منتخب کرتی ہے۔ سکیورٹی کونسل میں فیصلے اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں، تاہم مستقل ارکان میں سے اگر کوئی ایک بھی مخالفت کر دے تو اسے ویٹو سمجھا جاتا ہے چاہے باقی تمام ارکان بھی اُس فیصلے کے حامی ہوں۔

اقوامِ متحدہ میں انگریزی، چینی، فرانسیسی، روسی، ہسپانوی اور عربی کو سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کا لوگو اولیور لنکن لنکوئیسٹ کی زیرِ قیادت ایک ٹیم نے تشکیل دیا تھا۔

طالبان نے افغانستان میں نئی عبوری حکومت کا اعلان کردیا

 عبوری حکومت اور کابینہ کے افراد

 منگل 7 ستمبر 2021 ، کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کی نئی عبوری حکومت کے وزیراعظم محمد حسن اخوند ہوں گے جبکہ ملا عبدالغنی برادر ان کے نائب ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ملا برادر عبدالغنی اور مولانا عبدالسلام دونوں مولانا محمد حسن کے معاون ہوں گے جبکہ ملا عمر کے صاحبزادے محمد یعقوب مجاہد عبوری وزیر دفاع ہوں گے۔ افغانستان کی عبوری حکومت میں اہم وزراتیں مندرجہ ذیل افراد کے پاس ہوں گی:

افغانستان میں امارات اسلامی کی عبوری حکومت کا اعلان

  • ملا محمد حسن اخوند وزیراعظم
  • ملا عبدالغنی نائب وزیراعظم
  • ملا یعقوب وزیردفاع سرپرست
  • سراج الدین حقانی وزیرداخلہ سرپرست
  • ملا امیر خان متقی وزیرخارجہ سرپرست
  • شیخ خالد دعوت ارشادات سرپرست
  • عباس ستانکزئی نائب وزیر خارجہ
  • ذبیح اللہ مجاہد وزیر اطلاعات مقرر
  • فصیح الدین بدخشانی افغانستان آرمی چیف
  • ملا ہدایت اللہ وزیر مالیات
  • محمد یعقوب مجاہد عبوری وزیر دفاع
  • اسد الدین حقانی عبوری وزیر داخلہ
  • ملا امیر خان متقی وزیر خارجہ
  • مولوی عبدالسلام حنفی ریاست الوزرا معاون

انہوں نے مزید  بتایا کہ اس کے علاوہ شیخ مولوی نور محمد ثاقب وزیر برائے حج و اوقاف، ملا نور اللہ نوری وزیر سرحد و قبائل، ملا محمد یونس اخوندزادہ وزیر معدنیات، حاجی ملا محمد عیسیٰ وزیر پیٹرولیم اور ملا حمید اللہ اخوندزادہ وزیر ٹرانسپورٹ ہوں گے۔ اور خلیل الرحمٰن حقانی وزارت مہاجرین اور تاج میر جواد ریاستی امور کے وزیر ہوں گے۔ اور  ملا عبدالطیف منصور کو وزارت پانی و بجلی، نجیب اللہ حقانی کو برقی مواصلات، عبدالباقی حقانی کو وزارت تعلیم، عبدالحق وثیق کو وزارت انٹیلی جنس کی ذمے داریاں دی گئی ہیں۔ 

افغان طالبان کون ہیں: طالبان کے عروج، زوال اور اب دوبارہ عروج کی داستان

 16 اگست 2021  ,  BBC URDU 

سنہ 2001 میں امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج کے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے بعد ملک پر طالبان کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے وقت کے ساتھ ساتھ طالبان کی طاقت میں دوبارہ اضافہ ہوا اور اب غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز کے چند ماہ بعد ہی اس گروپ نے پھر سے دارالحکومت کابل سمیت افغانستان کے بیشتر علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور ایک مرتبہ پھر افغانستان میں برسرِاقتدار آنے والے ہیں۔
افغان طالبان کون ہیں ؟ طالبان کے عروج و زوال کی داستان


افغانستان میں تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے طالبان جنگجوؤں نے گذشتہ دو ماہ میں جتنے علاقوں پر قبضہ کیا ہے اتنا وہ سنہ 2001 میں اقتدار سے علیحدہ کیے جانے کے بعد سے کبھی نہیں کر سکے تھے۔

طالبان نے دو دہائیوں پر محیط جنگ کے بعد مئی 2021 سے ایک مربوط طریقے سے دوبارہ افغان فوج کی چوکیوں، قصبوں، بڑے شہروں سے متصل دیہات اور صوبائی ہیڈکوارٹروں کو قبضے میں لینا شروع کیا اور اگست کے مہینے میں ان کی پیش قدمی میں ایسی تیزی آئی کہ عسکری ماہرین ہوں یا دفاعی تجزیہ کار وہ سب کے اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے 15 اگست کو کابل میں داخل ہو چکے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان سنہ 2018 میں براہ راست بات چیت کا آغاز ہوا تھا اور فروری 2020 میں دونوں فریقین کے درمیان دوحہ امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت امریکہ نے افغانستان سے انخلا کو یقینی بنانے جبکہ طالبان نے امریکی فوجیوں کو حملوں سے بچانے کی ذمہ داری لی تھی۔

افغانستان میں 20 سال تک لڑی جانے والی جنگ سے متعلق 10 اہم سوالوں کے جوابات

افغانستان میں دو دہائیوں تک لڑی جانے والی جنگ سے متعلق
10 اہم سوالوں کے جوابات
بی بی سی اردو ،  12 جولائی 2021

امریکہ نے نائن الیون کے واقعے کے بعد القاعدہ کے خاتمے کے
 لیے افغانستان پر حملہ کیا تھا ، بیس برسوں کی جنگ کے بعد امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا ہو گیا ہے۔ کابل کے قریب بگرام کا فوجی اڈّہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے طالبان اور القاعدہ کے خلاف فوجی کارروائیوں کا مرکز تھا۔

امریکہ کی قیادت میں مغربی افواج افغانستان میں دسمبر سنہ 2001 میں داخل ہوئی تھیں، اور بگرام کے فوجی اڈے کو ایک بہت ہی بڑے اور جدید فوجی اڈے کے طور پر جس میں دس ہزار فوجیوں کو رکھنے کی گنجائش تھی، اس کی تعمیر بعد میں کی گئی۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے گیارہ ستمبر تک افغانستان سے مکمل انخلا کے اعلان کے بعد اب امریکیوں نے یہ اڈہ خالی کر دیا ہے۔ اس دوران طالبان افغانستان بھر میں مختلف ضلعوں پر قبضہ کرتے ہوئے تیزی سے پیش رفت کر رہے ہیں۔

امریکہ اسرائیل کو اتنی امداد کیوں دیتا ہے ؟ اور یہ پیسے کہاں استعمال ہوتے ہیں ؟

 بی بی سی  اردو، 25 مئی 2021 

امریکہ ، اسرائیل تعلقات

امریکی صدر جو بائیڈن کو اپنی ہی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی میں سے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو امداد کے حوالے سے سوالات کا سامنا ہے۔

سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا ہے کہ امریکہ کو اس پر 'سخت نظرِثانی' کرنی چاہیے کہ یہ پیسہ کیسے استعمال ہو رہا ہے۔

تو اسرائیل کو امریکہ سے کیا ملتا ہے اور یہ پیسہ کس لیے استعمال ہوتا ہے؟

اسرائیل کے لیے امریکی امداد

سنہ 2020 میں امریکہ نے اسرائیل کو اوباما دور میں کیے گئے ایک طویل مدتی سالانہ وعدے کے تحت 3.8 ارب ڈالر کی امداد دی۔ یہ امداد تقریباً مکمل طور پر عسکری مقاصد کے لیے تھی۔

سابق صدر باراک اوباما نے سنہ 2016 میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت اسرائیل کو 2017 سے 2028 کے درمیان کُل 38 ارب ڈالر کی امداد دی جانی تھی۔

جنگ عظیم اول : سلطنت عثمانیہ کی شکست، جدید ترکی اور نیا ترکی 2023 کا خواب

سلطنت عثمانیہ کی شکست اور معاہدہ سیورے: 

معاہدہ سیورے (انگریزی:Treaty of Sevres) جنگ عظیم اول کے بعد 10 اگست 1920ء کو اتحادی قوتوں اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان طے پانے والا امن معاہدہ تھا۔ اس معاہدے پر عثمانی سلطنت نے دستخط کر دیے تھے لیکن اسے ترکی کی جمہوری تحریک نے مسترد کر دیا اور اس معاہدے پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ مصطفیٰ کمال اتاترک کی زیر قیادت اس تحریک نے معاہدے کے بعد ترکی کی جنگ آزادی کا اعلان کر دیا اور قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں بادشاہت کو ختم کرکے ترکی کو جمہوریہ بنادیا۔

عثمانی حکومت کی جانب سے
 معاہدے پر دستخط کرنے والے
 نمائندے، بائیں سے دائیں جانب
رضا توفیق، فرید پاشا، ہادی پاشا
اور رشید خالص
معاہدے سیورے  کو سلطنت عثمانیہ کی ایک عظیم شکست سمجھا جاتا ہے جو اپریل 1920ء میں اتحادیوں کے درمیان سان ریمو کانفرنس کے بعد طے پانے والے معاہدوں کی ایک کڑی تھا۔ اس کے بعد سلطنت عثمانیہ تحلیل کر دی گئی۔ 

معاہدہ سیورے کے اہم نکات:


معاہدے میں سلطنت عثمانیہ کی سرحدات کا تعین کیا گیا، جس میں سلطنت عثمانیہ کا رقبہ موجودہ ترکی کے رقبے سے کم تھا۔ متعدد جزائر جیسے جزیرہ امبروز وغیرہ یونان کی حوالے کر دیے گئے، ترکی عسکری طور پہ اٹلی، فرانس اور برطانیہ کے زیر قبضہ آ گیا۔ سلطنت عثمانیہ کی سابقہ ولایت، عراق اور مصر برطانیہ کے قبضے میں، شام، تیونس اور الجزائر فرانس کے قبضے میں اور لیبیا اٹلی کے قبضے میں چلے گئے۔ سعودی عرب شریف مکہ کے زیر تسلط سلطنت حجاز قرار پائی۔