عالم اسلام کے حالات اور واقعات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عالم اسلام کے حالات اور واقعات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

امتِ مسلمہ: ایک جاں، ہزار قالب

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ہم ایک خواب کی کرچیاں چن رہے ہیں… ایک ایسا خواب جسے تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں کہیں سجا کر رکھ دیا گیا ہو۔

مگر نہیں، یہ خواب نہیں، یہ ایک روحانی حقیقت ہے… ایک عقیدہ، ایک احساس، ایک رشتہ، جو دلوں کو جوڑتا ہے، آنکھوں کو نم کرتا ہے، اور اذان کے ہر ترنم میں بازگشت دیتا ہے کہ:

"إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ..."  (الأنبیاء: 92)

یہ امتِ مسلمہ ہے...
نہ قوم کی قید میں، نہ رنگ و نسل کی زنجیروں میں...
بلکہ سجدوں کی روانی میں، روزوں کی تھکن میں، اور حج کے لباسِ سفید میں سمٹی ہوئی ایک جیتی جاگتی اکائی۔

کیا امت مسلمہ کا تصور ختم ہو چکا ہے؟

غزہ کے جلتے چہروں، ٹوٹتے خوابوں اور معصوم لاشوں کے ساتھ صرف انسانیت ہی نہیں، امت مسلمہ کے تصور پر یقین رکھنے والوں کا دل بھی چکناچور ہو چکا ہے۔ اس المناک منظرنامے نے جہاں ظالموں کے چہرے بےنقاب کیے، وہیں ایک کربناک سوال بھی جنم دیا:

"کیا واقعی امت مسلمہ کا تصور محض ایک خیالی، کتابی بات ہے؟"

یہ سوال ایک فرد کی مایوسی نہیں، ایک پوری نسل کے سوالات کی بازگشت ہے۔

❓ امت مسلمہ: حقیقت یا خیال؟

یہ کہنا کہ امت مسلمہ کا تصور ختم ہو چکا ہے، ایک سطحی، وقتی اور جذباتی نتیجہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ کا تصور:

  • قرآن سے نکلا ہے:

    "إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُونِ"   (الأنبیاء: 92)

  • نبی ﷺ کی سنت سے جڑا ہے:

    "المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً"  (بخاری و مسلم)

یعنی امت مسلمہ کا تصور نظریاتی، روحانی، اور فطری حقیقت ہے، جسے کسی سیاسی زوال یا معاشی مفادات سے مٹایا نہیں جا سکتا۔

بدلتا عالمی منظرنامہ اور تنازعات: 2024 کی جنگوں نے نئی دشمنیاں کیسے پیدا کیں اور 2025 میں کیا ہو گا؟


فرینک گارڈنر
عہدہ,بی بی سی نامہ نگار برائے سکیورٹی
1 جنوری 2025
سنہ 2001 میں جب نائین الیون حملوں کے بعد میں نے بی بی سی کے لیے گلوبل سکیورٹی کے نامہ نگار کے طور پر کام کرنا شروع کیا تب سے لے کر اب تک یہ سال سب سے زیادہ ہنگامہ خیز رہا ہے۔

شام میں صدر بشارالاسد کی اچانک معزولی، شمالی کوریا کے فوجیوں کا روس کے لیے جنگ لڑنا، یوکرین کا برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے بھیجے گئے میزائلوں سے روس پر حملہ، روس کو ایرانی میزائلوں کی فراہمی، امریکی اسلحے سے مسلح اسرائیل کے غزہ اور لبنان پر فضائی حملے، یمن سے اسرائیل پر میزائلوں کا داغا جانا۔

تنازعات کا ایک جال دکھائی دیتا ہے جس میں سب پھنسے نظر آتے ہیں: اس ساری صورتحال کے پیشِ نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں جاری تنازعات اور جنگیں پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ آپس میں منسلک ہیں۔

لیکن اس سب سے پہلے ایک چیز واضح کرتے چلیں کہ یہ تیسری عالمی جنگ نہیں ہے۔ حالانکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن مغربی ممالک کو یوکرین کو مزید اسلحہ فراہم کرنے سے باز رکھنے کے لیے تیسری عالمی جنگ سے ڈرا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ 

تاہم یہ بات تو واضح ہے کہ دنیا میں چل رہے بیشتر تنازعات کا ایک عالمی تناظر ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساری چزیں ایک دوسری سے کیسے جڑی ہوئی ہیں۔

اس کے لیے ہم مشرقی یورپ میں فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے چل رہی جنگ سے شروع کرتے ہیں۔

ہماری دہلیز پر جاری یورپ کی جنگ


’ان کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ یہاں مرنے آ رہے ہیں۔ یہ ان کے لیے بہت بڑا سر پرائز ہوگا۔‘ یہ کہنا تھا یوکرینی فوج کے رستم نوگودین کا۔یوکرین میں میدانِ جنگ سے ایسی میڈیا رپورٹس سامنے آئیں کہ روس کی جانب سے لڑنے کے لیے آنے والے شمالی کوریا کے بیشر فوجی انٹرنیٹ پر پورن دیکھنے میں مگن ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جو ان کو اپنے ملک میں دستیاب نہیں۔

تاہم ان سب خبروں سے ہٹ کر جو بات سب سے زیادہ قابل غور ہے وہ یہ کہ شمالی کوریا کے فوجیوں کی اس جنگ میں شرکت نے اس تنازع کو نیا رخ دے دیا ہے۔ ان کی آمد کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے یوکرین سے پابندی ہٹالی کہ وہ ان کے فراہم کردہ دور تک مار کرنے والے میزائلوں سے روس کی حدود کے اندر حملہ نہیں کر سکتا۔

شمالی کوریا سے آنے والے فوجیوں کی تعداد 10 ہزار سے 12 ہزار کے درمیان ہے۔ تاہم اتنی تعداد بھی یوکرین جیسے ملک کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے جسے افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے۔

اگلے مورچوں پر موجود یوکرینی کمانڈر رستم نوگودین کہتے ہیں کہ شمالی کوریا سے آنے والے فوجی اتنے اچھے نہیں لیکن اس کے باوجود 10 ہزار فوجی تقریباً دو بریگیڈ کی مشترکہ تعداد ہوتی ہے۔ ’یاد رکھیے کہ محض دو بریگیڈ نے روس کو خارکیو سے پیچھے دھکیل دیا تھا۔‘

شام میں اسد خاندان کے 50 سالہ دور کا ’ایک ہفتے میں‘ خاتمہ

بی بی سی اردو 

ایک ہفتہ قبل تک شام کے حکمران بشار الاسد کا تختہ اُلٹنا ناقابل تصور تھا۔ اس وقت باغیوں نے شمال مغربی شام میں ادلب کے گڑھ سے اپنی جارحانہ مہم شروع کی تھی۔

یہ شام کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ ان کے والد نے 29 تک ملک پر حکمرانی کی تھی اور اپنے بیٹے کی طرح ملک پر آہنی کنٹرول رکھتے تھے۔

بشار الاسد کو وراثت میں ہی ایک ایسا ملک ملا جہاں حکومت کا کنٹرول سخت رہتا تھا اور ایسا سیاسی نظام تھا جس کے بارے میں ناقدین مخالفین کو دبانے کا الزام لگاتے تھے۔ کسی قسم کی اپوزیشن کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔

پہلے یہ امید تھی کہ چیزیں مختلف ہوں گی، سب کام شفافیت سے ہوں گے اور ظلم کم ہوگا۔ مگر یہ توقعات دیر تک قائم نہ رہ سکیں۔اسد کو ہمیشہ ایک ایسے آدمی کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے اپنی حکومت کے خلاف 2011 میں پُرامن مظاہرین پر تشدد کر کے انھیں منتشر کیا۔ اس صورتحال نے خانہ جنگی کو جنم دیا جس میں پانچ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور 60 لاکھ بے گھر۔روس اور ایران کی مدد سے اسد باغیوں کو کچل کر اپنے دور اقتدار کو وسعت دینے میں کامیاب رہے۔ روس نے اپنی فضائی طاقت استعمال کی جبکہ ایران نے شام میں اپنے فوجی معاون بھیجے۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ نے شام میں تربیت یافتہ جنگجو تعینات کیے۔

شام کی تاریخی حیثیت

شام یا لیونت (انگریزی: The Levant) مشرق وسطٰی کے ایک بڑے علاقے کے لیے استعمال ہونے والی ایک غیر واضح تاریخی اصطلاح ہے۔ یہ علاقہ مغرب میں بحیرہ روم، مشرق میں صحرائے عرب کے شمالی حصوں اور بالائی بین النہرین اور شمال میں کوہ ثور کے درمیان واقع ہے۔ لیونت میں کوہ قفقاز، جزیرہ نما عرب یا اناطولیہ کا کوئی حصہ شامل نہیں سمجھا جاتا۔

یہ اصطلاح انگریزی میں پہلی بار 1497ء میں استعمال ہوئی جس کا مطلب "وینیٹیا کے مشرق میں بحیرہ روم کی سرزمین" کو واضح کرنا تھا۔ لیونت قرون وسطٰی کی فرانسیسی زبان کے لفظ سے نکلا ہے جس کا مطلب "ابھرنا" ہے اور اس ضمن میں اس خطے کو ابھرتے سورج کا علاقہ سمجھا جا سکتا ہے اور اسے عربی کے لفظ مشرق کا متبادل سمجھا جا سکتا ہے یعنی وہ علاقہ جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے۔

19 ویں صدی کے سفرناموں میں یہ اصطلاح سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں مشرقی علاقوں کے لیے استعمال ہونے لگی۔

لیونتیائی باشندوں کی اصطلاح خاص طور پر اطالویوں کے لیے استعمال ہوتی ہے خصوصاً وینس اور جینووا، فرانسیسی اور دیگر جنوبی یورپی نسل کے باشندوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو صلیبی جنگوں، بازنطینی سلطنت اور عثمانی سلطنت کے ادوار میں ترکی یا بحیرہ روم کے مشرقی ساحلوں پر رہتے تھے۔ ان افراد کے آبا و اجداد دراصل بحیرہ روم کی بحری مملکتوں کے رہنے والے تاجر تھے۔

1920ء سے 1946ء تک فرانس کے زیر قبضہ سوریہ اور لبنان لیونت ریاستیں (بلاد شام) کہلاتے تھے۔

آج کل لیونت کی اصطلاح ماہرین آثار قدیمہ اور تاریخ دان خطے کی قبل از تاریخ، قدیم اور قرون وسطٰی کی تاریخ کے حوالے سے استعمال میں رہتی ہے خصوصاً جب وہ صلیبی جنگوں کا ذکر کرتے ہیں۔

افغانستان کا دریائے آمو جہاں تیل اور گیس کی تلاش میں چین اور روس پیش پیش ہیں۔



بی بی سی اردو 24 نومبر 2024 
خطے کے دو طاقتور ترین ممالک روس اور چین ان دنوں افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں میں تعاون کے لیے مصروف عمل دکھائی دے رہے ہیں، جس کی تازہ ترین مثال ان دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کا حال ہی میں افغانستان کا دورہ ہے۔

چند روز قبل روسی سرمایہ کاروں کے ایک وفد نے کابل کا دورہ کر کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں اور اس دوران افغانستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق طالبان کے زیرِ انتطام افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل نے 17 نومبر کو ایک رپورٹ میں کہا کہ ’نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر نے کابل میں روسی اور افغان سرمایہ کاروں کے ایک گروہ سے ملاقات کی ہے۔

روسی سرمایہ کاروں نے ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ روس مختلف شعبوں میں افغانستان میں نہ صرف سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے بلکہ اپنے تجربات بھی ان کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہے۔روسی سرمایہ کاروں نے توانائی، صنعت، تجارت، نقل و حمل، زراعت، ریلوے اور صحت سمیت بنیادی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’اجلاس میں روسی تاجروں کی جانب سے انفراسٹرکچر، صنعت، تجارت، ٹرانسپورٹ، زراعت، ریلوے اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔‘

رپورٹ کے مطابق عبدالغنی برادر نے کہا کہ طالبان حکومت روسی سرمایہ کاروں کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی اور ملک میں پُرامن ماحول ان کی سرگرمیوں کے لیے سازگار ثابت ہو گا۔

یاد رہے کہ افغانستان میں چین کی کمپنی افچین کی جانب سے دریائے آمو کے بیسن (طاس) میں تیل کے مزید 18 کنوؤں کی کھدائی اور گیس کی تلاش کی تلاش کا کام بھی شروع کیا جا چکا ہے۔

افغانستان میں روسی سرمایہ کاری

ایک ایسے وقت میں جب ایک چینی کمپنی کی مدد سے شمالی افغانستان میں خام تیل نکالنے کا کام جاری ہے، چین کی طرح روس بھی اس بات کا خواہاں ہے کہ افغانستان میں گیس، تیل اور توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے۔

روس نے اس مد میں ذرائع نقل و حمل، زراعت اور صنعت کے شعبوں اور افغانستان میں سابق سوویت یونین کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں بھی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

ان منصوبوں سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ روس افغانستان کے ساتھ اقتصادی شراکت دار اور جغرافیائی سیاسی اتحادی دونوں کی طرز پر تعلقات کو وسعت دینے پر آمادہ ہے۔

عرب کہاں ہیں؟ فلسطین کے مسلم ہمسائے ماضی کی طرح اس کی حمایت کیوں نہیں کر رہے؟

پولا روساس،  عہدہ,بی بی سی نیوز ورلڈ،  30 اکتوبر 2024


’عرب کہاں ہیں؟ عرب کہاں ہیں؟‘

یہ وہ فقرہ ہے جو اسرائیلی بمباری سے تباہ حال عمارتوں کے ملبے سے زندہ بچ نکلنے والے، اپنے ہاتھوں میں مردہ بچے اٹھائے اور بے بسی سے کیمرے کے سامنے چیختے غزہ کے ہر شخص کے منھ سے ادا ہوتا ہے۔

غزہ کے باسی بار بار پوچھ رہے ہیں اور اس بات پر حیران ہیں کہ ان کے عرب ہمسایہ ممالک اسرائیلی بمباری کے خلاف ان کا دفاع کیوں نہیں کر رہے؟

گذشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے تمام نظریں مشرق وسطیٰ پر لگی تھیں اور سب کے ذہن میں یہ سوال تھے کہ اسرائیل کی جانب سے ردعمل کتنا شدید اور طویل ہو گا؟ اور خطے کے عرب ممالک کے عوام اور حکومتیں کیا ردعمل دیں گی؟آج تک پہلے سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں مل سکا: اسرائیلی بمباری نے غزہ کی پٹی میں تباہی برپا کر دی اور اب تک 42500 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں لیکن اس کے تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

دوسرے سوال کے جواب کا کچھ حصہ واضح ہے، اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ عرب دنیا کے دارالحکومتوں میں بڑے پیمانے پر احتجاج یا مظاہرے ہوں گے تو انھیں مایوسی ہو گی۔ اگرچہ عرب ممالک کی آبادی کی بڑی تعداد کی حمایت اور جذبات فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے ہیں لیکن ان ممالک میں مظاہروں کو محدود رکھا گیا۔

قاہرہ میں امریکی یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنس کے پروفیسر ولید قاضیہ نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’جہاں تک عرب ممالک کی حکومتوں کا تعلق ہے تو ان کا ردعمل یا تو بہت کمزور یا مایوس کن رہا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اسرائیل پر روایتی تنقید یا قطر اور مصر کی حکومتوں کی جانب سے اس تنازعے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کے علاوہ کسی نے بھی فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا۔

بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ : جیونیوز جرگہ میں سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی کا اہم تجزیہ

انہوں نے درج ذیل سوالات کا تجزیہ کیا : 

1- امریکہ کیلئے  بڑا خطرہ چین یا روس ؟ 
2- کیا پاکستان کو بنگلہ دیش جیسے حالات کا سامنا ہوسکتا ہے ؟
3-  اسرائیلی لابی امریکہ میں اتنی مضبوط کیوں ہے ؟ 






 

طالبان کا تین سالہ دور اور اقوام متحدہ کی رپورٹ ۔ ڈاکٹر محمد اقبال خلیل | اگست ۲۰۲۴ | اخبار اُمت


جب ۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو تحریکِ طالبان افغانستان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کا انتظام سنبھالا تو یہ ایک محیرالعقول واقعہ تھا۔ اس سے پہلے کم و بیش پورے افغانستان پر ان کا قبضہ ہوچکا تھا ۔تمام بڑے شہر ،ایئرپورٹوں اور اہم عسکری تنصیبات پر وہ ’امارت اسلامی‘ کے جھنڈے گاڑ چکے تھے۔ نیٹو افواج اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ افغانستان سے رخصت ہوچکی تھیں۔ ساڑھے تین لاکھ افغانوں پر مشتمل فوج، جس کو امریکا نے اربوں ڈالر خرچ کر کے تیار اور بہترین اسلحے سے لیس کیا تھا، طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔امریکی کٹھ پتلی صدر اشرف غنی سمیت اُن کی پوری کابینہ ملک سے فرار ہو گئی اور بغیر جنگ لڑے طالبان کابل میں داخل ہو گئے۔ گذشتہ تین سال میں ایک طویل عرصے کےبعد افغانستان میں امن و امان بحال رہا۔ ’داعش‘ تنظیم نے متعدد مقامات پر کئی خودکش حملے کیے، جس سے سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ لیکن اب وہ سلسلہ بھی تھم چکا ہے۔ داعش کی بیش تر قیادت ملک سے باہر نکل گئی ہے اور دیگر ممالک میں سرگرمِ عمل ہے ۔

ترقیاتی اُمور:


گذشتہ تین برسوں میں امارت اسلامی کے نمایاں ترقیاتی اُمور یہ ہیں:

۱-ملک میں مکمل امن و امان کی بحالی، جنگ کا خاتمہ، عوام کا تحفظ ،شاہراؤں کی حفاظت۔

۲- حکومتی رٹ کا قیام، کابل کی مرکزی حکومت کا پورے افغانستان پر مکمل کنٹرول ہے۔ ملک کے ۳۴ صوبوں اور ۴۰۰ اضلاع میں ایک ہی حکومت ہے۔ تمام صوبوں کے والی، اور بڑے چھوٹے اضلاع کے حکام اس کے سامنے جواب دہ ہیں، اور اس کا حکم پورے ملک میں نافذ ہوتا ہے۔

۳- قانون کی بالادستی اور لاقانو نیت کے خاتمے کے بعد پورے ملک میں شرعی قوانین نافذ ہیں۔ عدالتیں قائم ہیں اور وہ روزمرہ کے مسائل اور تنازعات کا بروقت فیصلہ کرتی ہیں۔ عالمی ادارے نے کابل کو اس خطے کا سب سے محفوظ شہر قرار دیا ہے جہاں جرائم کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

۴- بدعنوانی اورکرپشن کا ہر سطح پر سد باب کردیا گیا ہے۔ رشوت ستانی ،بھتہ خوری، کمیشن وغیرہ جیسے مسائل جو گذشتہ حکومتوں میں عام تھے، ناپید ہیں۔ تمام حکومتی محصولات کی وصولی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ بجلی کے بل اور دیگر خدمات پر ادائیگی پوری طرح لی جاتی ہے، جس سے حکومت کو مستحکم بنانے میں بہت مدد ملی ہے ۔

۵- ملک میں اقتصادی ترقی، تجارت کے فروغ اور معاشی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ افغان کرنسی کو عالمی بینک نےاس خطے کی مضبوط ترین کرنسی قرار دیا ہے۔ افغان تاجر بغیر کسی روک ٹوک کے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر آزادانہ طور پر کاروبار کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی کمپنیاں اور کاروباری افراد بھی افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

۶- ملک میں بلاامتیاز یکساں طور پر ترقیاتی کام زور و شور سے جاری ہیں ۔ پہلے سال چھوٹے پیمانے پر کاموں کا آغاز ہوا،لیکن اب پورے ملک میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ شاہراؤں کی تعمیر ہو رہی ہے، ڈیم بن رہے ہیں اور سالانگ ٹنل کی تعمیرِ نو ہو چکی ہے۔ ۲۸۰کلومیٹر طویل قوش ٹپہ نہر بن رہی ہے، جو کہ شمالی صوبوں کی لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام ترقیاتی کام خود انحصاری کی بنا پر کیے جا رہے ہیں۔ کوئی غیر ملکی قرضہ نہیں لیا گیا۔ بیرونی ممالک مثلاً چین اگر کسی منصوبے میں شریک ہے، تو وہ امداد کے طور پر کام کر رہا ہے۔

۷- مرکزی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے ملک کی ترقی اور معاشی کنٹرول میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، خاص طور پر قیمتوں کے کنٹرول اور درآمدات و برآمدات پر نظر رکھتے ہیں اور جو اقدام ضروری ہے وہ کرتے ہیں۔ غیر ملکی کرنسی کی آمد اور خروج پر بھی دسترس ہے ۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ملک میں بینکاری کا نظام جاری ہے اور سودی نظام کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

نوبل انعام یافتہ محمد یونس بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ مقرر



بنگلہ دیش میں نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو مُلک کا عبوری سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ 84 سالہ محمد یونس کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر کے طور پر تقرری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایک روز قبل حسینہ واجد کئی ہفتوں سے جاری بدامنی کے بعد ملک چھوڑ کر روانہ ہو گئی تھیں۔

اگرچہ پروفیسر یونس کو مائیکرو لونز کے استعمال پر سراہا جاتا رہا ہے، لیکن حسینہ واجد نے انھیں عوام دشمن قرار دیا اور حال ہی میں ایک مقامی عدالت نے انھیں سیاسی محرکات پر مبنی کیس میں قید کی سزا سنائی۔

مسلم امہ ، عالمی منظر اور داخلی تضادات ۔ ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی

 اس بات پر مجھے بہت خوشی ہے کہ جماعتِ اسلامی سے وابستہ اپنے بھائیوں اور بہنوں سے ملاقات کا موقع مل رہا ہے۔ میرے لیے علّامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے شہر لاہور میں آنا بھی بے پناہ خوشی کا باعث ہے، کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنھیں علّامہ اقبال کے سیکڑوں اشعار کا عربی ترجمہ زبانی یاد ہے۔ اسی دوران مجھے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مرقد پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، جن سے مجھے بے حد محبت ہے اور میں نے ان کی کتب اور ملفوظات سے بہت فیض حاصل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سیّدی مودودی کی قبر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، آمین!
ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی

مَیں چونکہ بین الاقوامی تعلقات کی کلاسیں پڑھاتا ہوں، لہٰذا ذرا گہرائی میں جا کر موجودہ عالمی سیاسی منظرنامہ کے اندر اُمتِ مسلمہ کی صورت حال پر عمومی بات کروں گا۔ دورِ حاضر میں ہم دُنیا میں زمینی سطح پر اور سمندروں میں بڑی طاقت ور عالمی قوتوں کے درمیان ایک تاریخی کش مکش کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ موجودہ عالمی سیاست میں بَرّی طاقتوں سے مراد چین، روس اور ہندستان جیسے مشرقی ممالک ہیں،جب کہ بحری طاقتوں سے مراد امریکا اور یورپ ہیں۔

عالمی منظرنامہ


گذشتہ چند عشروں میں کارفرما یک قطبی (Uni-polar)عالمی سیاست میں بین الاقوامی نظام کی باگ ڈور بلاشرکت غیرےامریکا کے ہاتھ میں رہی ہے۔ اب ہم بین الاقوامی نظام میں ایک نئی ٹوٹ پھوٹ کا مشاہدہ کررہے ہیں، اور عالمی طاقت مغرب سے مشرق کی طرف بالخصوص چین کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تزویراتی مفکرین کی اکثریت آج چین کی اُبھرتی ہوئی طاقت کے ظہور کی بات کر رہی ہے۔ ’چین کا طلوع‘ (Rise of China) ایک ایسی اصطلاح ہے، جس کی تکرار مغربی مفکرین،روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے سامنے عالمی میدان میں ایک مسابقت اور ایک کش مکش کو پروان چڑھتا دیکھ رہے ہیں، جسے سردجنگ (Cold War) کی نئی شکل بھی کہا جا سکتاہے، اوراسے پہلے سے قائم سپر پاورزاور ’نئی اُبھرتی سپرپاورز‘ (Emerging Powers )کے درمیان ہمیشہ رہنے والے ٹکراؤ سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ۔

آج ایک طرف چین اور روس کی ابھرتی طاقتیں ہیں اور دوسری طرف امریکا و یورپ روایتی سپرپاورز کے درمیان ٹکراؤ چل رہا ہے ۔اس ٹکراؤ اور کش مکش کو سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا مسلم دُنیا کے ایک ایک فرد کےلیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ان دونوں بَرّی طاقتوں اور بحری قوتوں کے درمیان پس رہے ہیں، موجودہ سپرپاورز اور نئی اُبھرتی ہوئی پاورز کے درمیان پس رہےہیں۔

بنگلہ دیش میں کرفیو: فوج بلانے کے انتہائی اقدام کی ضرورت کیوں پڑی؟

اکبر حسین
,بی بی سی بنگلہ | 21 جولائی 2024

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکمران سیاسی جماعت کے کارکنوں کے درمیان ہونے والی جھڑپیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔

یہ بنگلہ دیش کی تاریخ کے بدترین مظاہرے ہیں جن میں اتنے کم عرصے میں ایک سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس ملک میں سیاسی حالات پر قابو پانے کے لیے کرفیو لگانا یا پرتشدد مظاہرے کوئی نئی بات نہیں۔ جب جب تشدد بڑے پیمانے پر پھیلتا ہے تب تب حکومت کرفیو کو آخری حربہ تصور کرتی آئی ہے۔

ملک میں آخری کرفیو 2007 میں نگراں حکومت کے دورِ میں لگایا گیا تھا اور اس وقت بھی وہ بھی طلبہ کے احتجاج پر قابو پانے کے لیے تھا۔

ملک بھر میں جاری حالیہ مظاہرے مزید شدت اختیار کر گئے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔

مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پہلے دن صرف پولیس کو تعینات کیا گیا تھا لیکن ایک موقع پر بارڈر گارڈ فورس بی جی بی کو بھی ان کی مدد کے لیے بلایا گیا۔ اس کے باوجود حالات قابو میں نہیں آ سکے اور اب کرفیو لگا کر فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

حکمران جماعت عوامی لیگ کے جنرل سکریٹری عبیدالقادر کے مطابق ’یہ یقینی طور پر کرفیو ہے جس میں قواعد پر عمل کیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔‘

ڈھاکہ میں 14 جماعتوں کے اجلاس کے بعد کرفیو نافذ کرنے اور فوج کی تعیناتی کے فیصلے کے بارے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’مختلف مقامات پر حملے کئے گئے ہیں اور اہم ریاستی ڈھانچوں کو تباہ کر دیا گیا۔‘

افغان پولیس افسر اور طالبان کمانڈر کی دشمنی دوستی میں کیسے بدلی ؟

یماں بریز
طالبان کمانڈر بریگیڈؑ یئرحضرت محمود  اور
سابق افغان پولیس آفیسر ناصر خان سلیمان زئی
بی بی سی  افغانستان
10 جولائی 2024

’ہم اب بھائیوں کی طرح ہیں‘: افغان پولیس افسر اور طالبان کمانڈر کی دشمنی دوستی میں کیسے بدلی

20 سال تک یہ دونوں ایک دوسرے کے حریف تھے، ہر وقت مسلح اور قتل کرنے کو تیار۔

لیکن اب 50 سالہ طالبان کمانڈر حضرت محمد محمود اور ناصر خان سلیمان زئی، جو افغان پولیس میں اعلی عہدے پر فائز ہوا کرتے تھے، کابل کی پولیس اکیڈمی میں اکھٹے کام کرتے ہیں۔

چمکتے دمکتے یونیفارم میں ملبوس بریگیڈیئر محمود نے اپنے ساتھی کے ہمراہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اب ہم بھائیوں کی طرح ہیں۔‘

یہ دو ایسے افراد کے درمیان حیران کن حد تک قربت کا تعلق بن چکا ہے جو کبھی ایک دوسرے کے دشمن ہوا کرتے تھے۔افغانستان میں دو دہائیوں کی خون ریزی کے بعد وہ ایک ہی یونیفارم پہنتے ہیں، ایک دفتر میں بیٹھتے ہیں، پولیس کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہیں اور روزانہ چائے کے وقفے میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر خوش گوار لمحات کا لطف اٹھاتے ہیں۔

جدید ایران کا سیاسی نظام

ایران کا سیاسی نظام کسی کے لیے پیچیدہ ہے تو کسی کے لیے غیر معمولی۔ اس میں جدید دینی طرز حکومت کو جمہوریت کے ساتھ ایک منفرد انداز میں ملایا گیا ہے۔ایران میں صدر اور پارلیمان کو تو لوگ ہی منتخب کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ غیر منتخب شدہ اداروں کا ایک نیٹ ورک قائم ہے جس کی سربراہی رہبر اعلیٰ کرتے ہیں۔


سپریم لیڈر (رہبر اعلیٰ)

ایران کے سیاسی نظام میں سب سے طاقتور عہدہ رہبر اعلیٰ یا سپریم لیڈر کا ہے اور اس عہدے پر آج تک صرف دو لوگ ہی آ سکے ہیں۔ پہلی بار یہ عہدہ سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ روح اللہ خمینی کو ملا تھا اور ان کے بعد اس پر موجودہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای آئے تھے۔

ایرانی حکمران رضا شاہ پہلوی کی حکومت گِرانے کے بعد خمینی ؒنے اس عہدے کو ایرانی سیاسی ڈھانچے میں سب سے اہم منصب بنایا تھا۔ سپریم لیڈر ایرانی دفاعی فورسز کا کمانڈر اِن چیف بھی ہوتے ہیں اور ملک میں سکیورٹی کے معاملات پر نگرانی رکھتے ہیں۔ وہ عدلیہ کے سربراہ، اثر و رسوخ رکھنے والی نگہبان شوریٰ کے نصف ممبران، نماز جمعہ کے امام اور سرکاری ٹی وی و ریڈیو نیٹ ورکس کے سربراہان کو تعینات کرتے ہیں۔ اس رہبر اعلیٰ کے کنٹرول میں ایسے اربوں ڈالرز کے خیراتی ادارے بھی ہوتے ہیں جو ایرانی معیشت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ سنہ 1989 میں خمینی کی موت کے بعد علی خامنہ ای سپریم لیڈر بنے تھے۔ گذشتہ عرصے میں انھوں نے اپنی پوزیشن اور طاقت کو مستحکم کیا ہے اور حکمرانی کے اس نظام کو درپیش چیلنچز کو دبا کر رکھا ہے۔

صدر

ایران میں ایک صدر کو چار سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، اور کوئی بھی شخص مسلسل ادوار کے بعد تیسری بار صدر نہیں بن سکتا۔ آئین میں اس عہدے کو ملک میں دوسرا سب سے بڑا عہدہ قرار دیا گیا ہے۔ ایرانی صدر ایگزیکٹیو (امور کی انجام دہی کے ذمہ داران) کا سربراہ ہوتا ہے۔ صدر کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں آئین کی عملداری یقینی بنائی جائے۔ مقامی پالیسی اور خارجی اُمور پر صدر کا اثر و رسوخ ہوتا ہے لیکن تمام ریاستی معاملات پر سپریم لیڈر کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ تمام صدارتی امیدواروں کو نگہبان شوریٰ سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ یہ عالم دین اور قانونی ماہرین پر مبنی ایک ادارہ ہے جس میں 12 ممبران ہوتے ہیں۔ سنہ 2021 میں ہونے والے ایرانی صدارتی انتخاب کے لیے 590 افراد نے امیدوار بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر صرف سات افراد کے کاغذات نامزدگی کو منظور کیا گیا۔ خواتین کو صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ملی۔

شیعہ مراجع کی تاریخ، مذہبی حیثیت اور سیاسی اثرورسوخ

علی عثمان قاسمی اور سیمون وولف گانگ فوکث
محقق و مورخ
5 جون 2020 بی بی سی اردو 

آیت اللہ خمینی کے بعد جہاں ایران میں آیت اللہ خامنہ ای مقبول مرجع ہیں وہیں عراق کے آیت اللہ سیستانی کو ملک اور ملک سے باہر شیعوں میں مقبول مرجع تسلیم کیا جاتا ہے

لاہور کے اُردو بازار میں یوں تو بیشتر دوکانیں مدارس اہل سُنت کی کُتب نصاب، تفاسیر، قرآن اور شروحِ حدیث کی خرید و فروخت کا مرکز ہیں مگر چند ایک دکانیں ایسی بھی ہیں جہاں شیعہ فقہ، تاریخ اور تفسیر و حدیث سے متعلق کتب بھی دستیاب ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر وہ اُردو تراجم ہیں جو 1980 کی دہائی کے بعد پاکستان میں قائم ہونے والے شیعہ مدارس اور تحقیقاتی مراکز سے منسلک علما نے کیے ہیں۔ ان علما کی غالب اکثریت ایرانی شہر قُم سے فارغ التحصیل ہے۔

اگر آپ شیعہ کُتب کے تاجر سے توضیح المسائل، جو روزمرّہ کے معاملات، کاروبار، نجاست و پاکیزگی کے مسائل کے حوالے سے فقہی آرا کا مجموعہ کہلاتی ہے، طلب کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ دکاندار آپ سے دو سوالات پوچھے: آپ کِس کی تقلید میں ہیں۔ یعنی فقہی معاملات میں کِس مجتہد کے پیروکار ہیں۔

کتابی تعریف کے مطابق ہر اثناعشری شیعہ کا کِسی زندہ مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے۔ (اگرچہ کچھ ترامیم اور اضافے کے ساتھ اُس مجتہد کی تقلید بھی جاری رکھی جا سکتی ہے جو وفات پا چکا ہو)۔

اگر آپ کِسی کے مقلد ہیں جیسے کہ آیت اللہ سیستانی تو دکان دار آپ کو ان کی توضیح المسائل ہاتھ میں تھما دے گا اور اگر آپ کِسی کی تقلید میں نہیں تو دکان دار اگلا سوال پوچھے گا کہ آیا آپ کو کِسی کٹر مجتہد کی فقہی آرا درکار ہیں یا معتدل کی! اگر جواب کٹر مجتہد ہے تو پھر آپ کو ایران کے آیت اللہ خمینی یا آیت اللہ خامنہ ای کی توضیح المسائل دی جائے گی۔

’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی

طوفان الاقصی کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی
مقام / زیر اہتمام:
دارالعلوم نقشبندیہ امینیہ، ماڈل ٹاؤن، گوجرانوالہ
تاریخ بیان:
۶ نومبر ۲۰۲۳ء

عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کے زیر اہتمام مسئلہ فلسطین پر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کے مشترکہ اجتماع سے گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں عالمی ادارہ تنظیم الاسلام، محترم مولانا پیر محمد رفیق احمد مجددی اور مولانا سعید احمد صدیقی کا شکرگزار ہوں کہ فلسطینی تنظیم حماس کے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن کے بعد بیت المقدس اور غزہ کی صورتحال کے حوالے سے مجھے اس اجتماع میں حاضری اور کچھ باتیں عرض کرنے کا موقع دیا۔ ہر طرف غم کا ماحول ہے لیکن ان بچوں کو سامنے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ یہ ہماری مستقبل کی قیادت ہے، اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائیں۔ ابھی محترم مولانا سعید احمد صدیقی امتِ مسلمہ کی بات کر رہے تھے تو میرے ذہن میں ایک حدیث مبارکہ آ گئی وہ عرض کر دیتا ہوں۔

حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کہتے ہیں کہ غزوۂ خندق کے موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ’’اکتبوا لی من تلفظ بالاسلام‘‘ یعنی کلمہ پڑھنے والوں کی تعداد معلوم کرو کتنی ہے۔ یہ پہلی مردم شماری تھی جو غزوہ خندق کے موقع پر ہوئی تھی۔ جب مسلمان گنے گئے تو چھوٹے بڑے ملا کر پندرہ سو کے لگ بھگ تھے۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نے رپورٹ اس طرح پیش کی کہ یا رسول اللہ! جب ہم تین سو تیرہ تھے تو کافر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے تھے، آج تو ہم پندرہ سو ہیں۔ اس پر ہم ذرا غور کریں کہ آج دنیا میں کتنے مسلمان ہیں اور ان کی کیا حالت ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ایمان ہو تو پندرہ سو دنیا پر حاوی ہو جاتے ہیں، اور ایمان کمزور ہو تو وہی ہوتا ہے جو آج ہمارا حال ہے۔

معاشی مقاطعہ کی شرعی حیثیت

از مفکراسلام مولانازاہدالراشدی صاحب 

حوالہ: 

روزنامہ اوصاف، اسلام آباد

تاریخ اشاعت: 

۱۳ نومبر ۲۰۲۳ء

فلسطینی مظلوم بھائیوں کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت و درندگی کے خلاف احتجاج کے طور پر امت مسلمہ کے بہت سے حلقے اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں اور شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی اسے ایک بیان میں ایمانی غیرت اور قومی حمیت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے۔ یہ معاشی مقاطعہ قوموں کے درمیان جنگ کا ایک حصہ ہوتا ہے اور جہادِ اسلامی کا بھی اہم شعبہ ہے ۔آج کی گفتگو میں دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی صورتحال کے حوالے سے ایک دو واقعات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ معاشی کشمکش، بائیکاٹ اور ناکہ بندی وغیرہ قوموں کی باہمی آویزش کا ہمیشہ سے حصہ چلی آ رہی ہے، جناب نبی اکرمؐ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد دس سالہ مدنی دور میں ستائیس کے لگ بھگ جنگوں میں خود شرکت فرمائی ہے اور اس دوران معاشی محاصرہ، ناکہ بندی اور بائیکاٹ کے بہت سے واقعات تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں جن میں دو پیش کر رہا ہوں۔


انصار کے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ رسول اکرمؐ کی ہجرت کے بعد اور بدر کے معرکہ سے قبل عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو قریش کے سردار ابوجہل نے انہیں دیکھ کر یہ کہہ کر ان سے الجھنے کی کوشش کی کہ تم نے ہمارے دشمنوں کو پناہ دی ہے اور ان کی مسلسل حمایت و نصرت کر رہے ہو، تم اتنے آرام اور اطمینان سے مکہ مکرمہ آکر عمرہ کیسے کر سکتے ہو؟ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت سعد بن معاذؓ نے ابوجہل کو اس کا سختی سے جواب دیا اور فرمایا کہ اگر تم نے مجھ سے الجھنے کی کوشش کی تو یہ یاد رکھنا کہ تمہارے قریش کے تجارتی قافلے شام جاتے اور آتے ہیں جس کے راستے میں ہم رہتے ہیں، ہم نے اگر راستہ بند کر دیا تو شام کے ساتھ تمہاری تجارت کا ماحول باقی نہیں رہے گا۔ ابوجہل یہ سن کر رک گیا اور اسے مزید کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ جبکہ حضرت سعد بن معاذؓ اطمینان کے ساتھ عمرہ ادا کر کے واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے، ان کی معاشی ناکہ بندی کی دھمکی کام کر گئی اور اس نے ابوجہل کے قدم روک لیے۔

بالفور اعلامیہ: سادہ کاغذ پر لکھے گئے 67 الفاظ جنھوں نے مشرق وسطیٰ کی تاریخ بدل ڈالی

بی بی سی اردو ۲نومبر ۲۰۲۳م 

ایک سادہ کاغذ پر لکھے 67 الفاظ نے مشرق وسطی میں ایک ایسے تنازع کا آغاز کیا جو اب تک حل نہیں ہو سکا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع کے دوران، جس میں 1400 اسرائیلی اور ساڑے آٹھ ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، بالفور اعلامیہ کے 106 سال بیت چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی دستاویز تھی جس نے اسرائیل کو جنم دیا اور مشرق وسطی کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

دو نومبر 1917 کو پہلی عالمی جنگ کے دوران لکھی جانے والی اس تحریر میں پہلی بار برطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے کے بعد فلسطین پر برطانیہ کنٹرول حاصل کر چکا تھا۔

عرب اس دستاویز کو ’برطانوی دغا‘ سمجھتے ہیں کیوں کہ سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے میں انھوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ بالفور اعلامیہ کے بعد تقریباً ایک لاکھ یہودی فلسطین پہنچے تھے۔



اس اعلامیے میں کیا کہا گیا؟


یہ اعلامیہ اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر بالفور نے بیرن لیونیل والٹر روتھس چائلڈ کو بھجوایا تھا جو برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے ایک رہنما تھے۔

اس اعلامیہ میں لارڈ روتھس چائلڈ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا: