کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ہم ایک خواب کی کرچیاں چن رہے ہیں… ایک ایسا خواب جسے تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں کہیں سجا کر رکھ دیا گیا ہو۔
"إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ..." (الأنبیاء: 92)
" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ہم ایک خواب کی کرچیاں چن رہے ہیں… ایک ایسا خواب جسے تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں کہیں سجا کر رکھ دیا گیا ہو۔
"إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ..." (الأنبیاء: 92)
غزہ کے جلتے چہروں، ٹوٹتے خوابوں اور معصوم لاشوں کے ساتھ صرف انسانیت ہی نہیں، امت مسلمہ کے تصور پر یقین رکھنے والوں کا دل بھی چکناچور ہو چکا ہے۔ اس المناک منظرنامے نے جہاں ظالموں کے چہرے بےنقاب کیے، وہیں ایک کربناک سوال بھی جنم دیا:
یہ سوال ایک فرد کی مایوسی نہیں، ایک پوری نسل کے سوالات کی بازگشت ہے۔
قرآن سے نکلا ہے:
"إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُونِ" (الأنبیاء: 92)
نبی ﷺ کی سنت سے جڑا ہے:
"المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً" (بخاری و مسلم)
یعنی امت مسلمہ کا تصور نظریاتی، روحانی، اور فطری حقیقت ہے، جسے کسی سیاسی زوال یا معاشی مفادات سے مٹایا نہیں جا سکتا۔
![]() |
ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی |
از مفکراسلام مولانازاہدالراشدی صاحب
حوالہ:
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت:
۱۳ نومبر ۲۰۲۳ء
فلسطینی مظلوم بھائیوں کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت و درندگی کے خلاف احتجاج کے طور پر امت مسلمہ کے بہت سے حلقے اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں اور شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی اسے ایک بیان میں ایمانی غیرت اور قومی حمیت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے۔ یہ معاشی مقاطعہ قوموں کے درمیان جنگ کا ایک حصہ ہوتا ہے اور جہادِ اسلامی کا بھی اہم شعبہ ہے ۔آج کی گفتگو میں دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی صورتحال کے حوالے سے ایک دو واقعات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ معاشی کشمکش، بائیکاٹ اور ناکہ بندی وغیرہ قوموں کی باہمی آویزش کا ہمیشہ سے حصہ چلی آ رہی ہے، جناب نبی اکرمؐ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد دس سالہ مدنی دور میں ستائیس کے لگ بھگ جنگوں میں خود شرکت فرمائی ہے اور اس دوران معاشی محاصرہ، ناکہ بندی اور بائیکاٹ کے بہت سے واقعات تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں جن میں دو پیش کر رہا ہوں۔
انصار کے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ رسول اکرمؐ کی ہجرت کے بعد اور بدر کے معرکہ سے قبل عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو قریش کے سردار ابوجہل نے انہیں دیکھ کر یہ کہہ کر ان سے الجھنے کی کوشش کی کہ تم نے ہمارے دشمنوں کو پناہ دی ہے اور ان کی مسلسل حمایت و نصرت کر رہے ہو، تم اتنے آرام اور اطمینان سے مکہ مکرمہ آکر عمرہ کیسے کر سکتے ہو؟ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت سعد بن معاذؓ نے ابوجہل کو اس کا سختی سے جواب دیا اور فرمایا کہ اگر تم نے مجھ سے الجھنے کی کوشش کی تو یہ یاد رکھنا کہ تمہارے قریش کے تجارتی قافلے شام جاتے اور آتے ہیں جس کے راستے میں ہم رہتے ہیں، ہم نے اگر راستہ بند کر دیا تو شام کے ساتھ تمہاری تجارت کا ماحول باقی نہیں رہے گا۔ ابوجہل یہ سن کر رک گیا اور اسے مزید کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ جبکہ حضرت سعد بن معاذؓ اطمینان کے ساتھ عمرہ ادا کر کے واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے، ان کی معاشی ناکہ بندی کی دھمکی کام کر گئی اور اس نے ابوجہل کے قدم روک لیے۔