" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
لا إله إلا الله، محمد رسول الله: امت کی فکری وحدت کا منشور
اختلافِ رائے یا طوفانِ بدتمیزی؟
مسئلہ فلسطین کی بدلتی ہوئی جہتیں(Dynamics): ایک جائزہ
مسئلہ فلسطین محض ایک علاقائی تنازع نہیں، بلکہ ایک کثیرالجہتی، پیچیدہ اور تاریخی سانحہ ہے جو گزشتہ ایک صدی سے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا محور بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے کی کئی جہتیں (ڈائنامکس) ہیں ان کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے تاریخی پس منظر، زمینی حقائق، عالمی سیاست، اور حالیہ پیش رفتوں کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔ آج جب دنیا ایک نئی عالمی صف بندی کی طرف بڑھ رہی ہے، مسئلہ فلسطین کے ڈائنامکس بھی نئے رخ اختیار کر رہے ہیں۔
تاریخی تناظر: نوآبادیاتی سازش کا تسلسل
مسئلہ فلسطین کی بنیاد 1917ء کے اعلانِ بالفور اور پھر 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ رکھی گئی۔ برطانوی سامراج کی سرپرستی میں یہودی آبادکاری کے لیے فلسطینی سرزمین پر ظلم کی ایک منظم داستان رقم کی گئی۔ فلسطینیوں کی زمینیں، گھر، ثقافت اور وجود ایک منظم منصوبے کے تحت چھینے گئے۔ اس عمل نے صرف ایک ریاست کو جنم نہیں دیا، بلکہ مشرق وسطیٰ میں دائمی کشمکش کا بیج بویا۔
جغرافیائی اور اسٹریٹیجک ڈائنامکس
فلسطین محض ایک قوم یا زمین کا نام نہیں، بلکہ یہ خطہ بحیرہ روم، مصر، اردن، لبنان اور شام جیسے اہم ممالک کے سنگم پر واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیے ہوئے ہے۔
غزہ اور مغربی کنارے کی تقسیم، یہودی بستیوں کی مسلسل توسیع، القدس کی حیثیت کو بدلنے کی کوششیں — یہ سب جغرافیائی اور سیاسی ڈائنامکس کا حصہ ہیں جو زمین پر قبضے اور حقِ خود ارادیت کے درمیان جنگ کو مسلسل بڑھا رہے ہیں۔
مسلم حکمران اور امت کی زبوں حالی — ایک تنقیدی تجزیہ
یہ وہ طبقہ ہے جو اقتدار کو امانت کے بجائے دولت، طاقت اور ذاتی مفاد کا ذریعہ سمجھ بیٹھا ہے۔ ان کے اندر بددیانتی، علمی و فکری جہالت، اخلاقی پستی، ظلم و جبر، کرپشن، اقربا پروری، عوامی رائے کے استحصال، اور آزادی اظہار کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ قوموں کے لیے جو قیادت بصیرت، صداقت، عدل، خدمت اور قربانی کی علامت ہوتی ہے، مسلم دنیا میں وہی قیادت بدنامی، ظلم اور خوف کی علامت بن چکی ہے۔
آج جب فلسطین کے نہتے عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، جب ماؤں کی گود اجڑ رہی ہے، جب معصوم بچوں کی لاشیں زمین پر بکھری پڑی ہیں، تو ایسے میں ۵۵ سے زائد مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بے حسی، بزدلی اور منافقت امت کے لیے کسی زخم سے کم نہیں۔ زبانی مذمتوں، رسمی بیانات اور اقوام متحدہ کے کمرے میں چند لمحوں کی خاموشی سے نہ فلسطینیوں کے زخم بھر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے شہداء کو انصاف مل سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت: انسانی عظمت کا مظہر یا پر خطر چیلنج؟ – ایک قرآنی تجزیہ
ہم جس عہد میں جی رہے ہیں، وہ ٹیکنالوجی، علم، اور رفتار کا عہد ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) اس تیز رفتاری کا نقطۂ عروج بن چکا ہے۔ آج ایک فرد واحد لاکھوں صفحات، خیالات، تحقیق، اور گفتگوؤں سے چند لمحوں میں فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بعض لوگ اس ترقی سے خوفزدہ ہیں کہ AI انسان کو مغلوب نہ کر دے، مگر ایک فکر رکھنے والا مؤمن جانتا ہے کہ AI، انسان کی عقل، سعی، اور الٰہی عطا کردہ علم کا ہی مظہر ہے — نہ کہ اس کا نعم البدل۔
قرآن کا انسان: عقل، علم، اور خلافت کا پیکر
قرآن انسان کو محض مٹی کا پتلا قرار نہیں دیتا بلکہ اسے ایسی مخلوق کہتا ہے جسے علم، شعور، عقل، اور روح سے ممتاز کیا گیا۔ ارشادِ ربانی ہے:
﴿لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ فِيٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ﴾"یقیناً ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا۔" (التين: 4)
﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيٓ آدَمَ وَحَمَلْنَـٰهُمْ فِي ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ وَرَزَقْنَـٰهُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَـٰتِ وَفَضَّلْنَـٰهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًۭا﴾"اور ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی و تری میں سوار کیا، اور پاکیزہ رزق دیا، اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں برتری دی۔" (الإسراء: 70)
انسان کو علم کی فضیلت: AI اسی علم کا عکس
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیگر مخلوقات پر فضیلت علم کی بنیاد پر دی۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَعَلَّمَ آدَمَ ٱلْأَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ فَقَالَ أَنۢبِـُٔونِى بِأَسْمَآءِ هَـٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ﴾"اور (اللہ نے) آدم کو تمام نام سکھا دیے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ۔" (البقرة: 31)
یہ آیت انسان کی ادراکی، لسانی، اور سیکھنے کی صلاحیت کا اعلان ہے، اور یہ صلاحیت ہی AI کی تخلیق کا سرچشمہ بنی۔
کرغیزستان کی ڈاکٹر ساز منڈی
وہ پانچ سوال جن کا جواب سائنس آج تک نہیں دے سکی
۱۴ جنوری ۲۰۲۴
دنیا میں کچھ ایسی
چیزیں بھی ہیں جو قدرت کے راز جاننے سے زیادہ دلچسپ ہیں اور ان کے بارے میں جاننا
صرف ذہین لوگوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ یہ وہ لطف ہے جو ہر کسی کو میسر ہے۔
ان میں سے کچھ سوال ہمیشہ سے تھے اور کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے علم میں اضافے کے بعد سامنے آئے ہیں۔ یہ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے آپ کسی چیز کے بارے میں جتنا جانتے جاتے ہیں آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس متعلق اتنا ہی کم جانتے ہیں۔
لہٰذا سائیکل کس
طرح سیدھی رہتی ہے سے لے کر ناقابل فہم نایاب پرائم نمبرز تک ایسے نامعلوم سوالات
کا ایک وسیع سمندر ہے۔
یہ بہت اچھی بات ہے، انسان کے پاس سوالات کبھی ختم نہیں ہونے چاہیے، اور وہ صرف اس لیے نہیں کہ اس سے جواب ملنے کی امید رہتی ہے بلکہ یہ انسانی ذہن کی جبلت ہے جیسا کہ فلسفی تھامس ہابز نے کہا تھا کہ سوال انسانی دماغ کی حرص ہے۔
لیکن قدرت کے ان
ان گنت سوالوں میں سے کون سے پانچ سوال ایسے ہیں جو ہمیشہ سے انسان کے لیے ایک
کسوٹی بنے رہے ہیں۔
1.
کائنات کس چیز سے بنی ہے؟
کائنات بذات خود سوالوں کا ایک گڑھ اور ذریعہ ہے جیسا کہ اس کے وجود سے پہلے کیا تھا، کیا یہ لامحدود، بہ پناہ اور لامتناہی ہیں، کیا یہ منفرد ہے اور ایسے بہت سے سوالات۔
مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ سائنسدان آج تک اس کائنات کے صرف پانچ فیصد حصے کے متعلق جان سکے ہیں۔ اگرچہ یہ جاننا بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
اصلاح و تجدید کی ضرورت اور تاریخ اسلام میں ان کا تسلسل - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی
زندگی متحرک ہے اور تغیر پذیر ہے:
اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے، اور کامل و مکمل طور پر دنیا کے سامنے آچکا ہے، اور اعلان کیا جاچکا ہے کہ الْيَوْمَ
أَكْمَلْتُ
لَكُمْ
دِينَكُمْ
وَأَتْمَمْتُ
عَلَيْكُمْ
نِعْمَتِي
وَرَضِيتُ
لَكُمُ
الْإِسْلَامَ
دِينًا
ۚ
(المائدہ-3)ترجمہ: آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور دین کی حیثیت سے اسلام کو تمہارے لیے پسند کرچکا۔ ایک طرف تو اللہ کا دین مکمل ہے، دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ زندگی متحرک اور تغیر پذیر ہے، اور اس کا شباب ہر وقت قائم ہے۔
جاوداں،
پیہم
دواں،
ہردم
جواں
ہے
زندگی
اس رواں دواں اور سداجواں زندگی کا ساتھ دینے اور اس کی رہنمائی کے لئے اللہ تعالٰے نے آخری طور پر جس دین کو بھیجا ہے، اس کی بنیاد اگرچہ"ابدی عقائدوحقائق"پر ہے مگر وہ زندگی سے پُر ہے، اور حرکت اسکی رگ و پے میں بھری ہوئی ہے، اس میں اللہ تعالٰی نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ہر حال میں دنیا کی رہنمائی کرسکے، اور ہر منزل میں تغیر پذیر انسانیت کا ساتھ دے سکے، وہ کسی خاص عہد کی تہذیب یا کسی خاص دور کا فن تعمیر نہیں ہے جو اس دور کی یادگاروں کے اندر محفوظ ہو اور اپنی زندگی کھوچکا ہو، بلکہ ایک زندہ دین ہے جو علم و حکیم صانع کی صنعت کا
بہترین نمونہ ہے۔
ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
﴿الانعام:٩٦﴾
یہ ہے اندازہ غالب اور علم رکھنے والے
کا۔
صُنْعَ اللَّـهِ الَّذِي أَتْقَنَ
كُلَّ شَيْءٍ ۚ ﴿النمل:٨٨﴾
کاریگری اللہ کی جس نے ہر چیز کو محکم
کیا۔
اُمتِ اسلامیہ کا زمانہ سب سے زیادہ
پُر از تغیرات ہے
یہ دین چونکہ آخری اور عالمگیر دین ہے اور یہ امت آخری اور عالمگیر اُمت ہے اس لئے یہ بالکل قدرتی بات ہے کہ دنیا کے مختلف انسانوں اور مختلف زمانوں سے اس امت کا واسطہ رہے گا اور ایسی کشمکش کا اس کو مقابلہ کرنا ہو گا، جو کسی دوسری امت کو دنیا کی تاریخ میں پیش نہیں آئی۔ اس امت کو جو زمانہ دیا گیا ہے، وہ سب سے زیادہ پُر از تغیرات اور پُر از انقلابات ہے اور اس کے حالات میں جتنا تنوع ہے، وہ تاریخ کے کسی گذشتہ دور میں نظر نہیں آتا۔