محمد متولی الشعراوی (15 اپریل 1911ء / 17 ربیع الأول 1329ھ - 17 جون 1998ء / 22 صفر 1419ھ) ایک معروف مفسر، عالم دین اور مصر کے وزیر اوقاف تھے۔ وہ اپنی مخصوص انداز کی قرآنی تفسیر "خواطر" کے ذریعے مشہور ہوئے، جس میں انہوں نے قرآن کریم کے مفاہیم کو سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کیا، جس کی وجہ سے وہ عرب اور اسلامی دنیا کے لاکھوں مسلمانوں تک پہنچے۔ بعض لوگوں نے انہیں "امام الدعاۃ" (داعیوں کا امام) کا لقب دیا۔
![]() |
شیخ محمد متولی الشعراوی |
پیدائش
محمد متولی الشعراوی 15 اپریل 1911ء کو مصر کے صوبہ دقہلیہ کے ضلع مِیت غمر کے ایک گاؤں "دقادوس" میں پیدا ہوئے۔
تعلیم
انہوں نے گیارہ برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔ 1922ء میں وہ الزقازيق کے ابتدائی مدرسہ ازہریہ میں داخل ہوئے اور شروع ہی سے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل طالبعلم ثابت ہوئے۔ 1923ء میں انہوں نے ابتدائیہ ازہریہ کی سند حاصل کی اور ثانویہ ازہریہ میں داخلہ لیا۔ وہاں ان کی دلچسپی شعر و ادب میں مزید بڑھ گئی اور ان کے ساتھیوں نے انہیں طلبہ یونین اور "جمعیت الأدباء" (ادباء کی انجمن) کا صدر منتخب کیا۔ اس دور میں ان کے ہم عصر افراد میں ڈاکٹر محمد عبدالمنعم خفاجی، شاعر طاہر ابو فاشا، استاد خالد محمد خالد، ڈاکٹر احمد ہیكل اور ڈاکٹر حسن جاد شامل تھے، جو اپنی تحریریں انہیں دکھاتے اور ان سے اصلاح لیتے۔
شیخ الشعراوی کی زندگی میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب ان کے والد نے انہیں جامعہ ازہر، قاہرہ بھیجنا چاہا، جبکہ وہ گاؤں میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیتی باڑی کرنا چاہتے تھے۔ والد کے اصرار پر انہوں نے ایک چال چلی اور بہت ساری علمی و دینی کتابوں کی فرمائش کی تاکہ والد ان کے اخراجات سے گھبرا جائیں اور انہیں گاؤں میں رہنے دیں، مگر والد نے ان کی چال سمجھ لی اور تمام کتابیں خرید کر دے دیں، اور کہا: "بیٹے! میں جانتا ہوں کہ یہ کتابیں تمہارے نصاب میں شامل نہیں ہیں، مگر میں چاہتا ہوں کہ تم ان سے علم حاصل کرو۔"
1937ء میں انہوں نے جامعہ ازہر میں کلیہ اللغہ العربیہ (عربی زبان کی فیکلٹی) میں داخلہ لیا اور اس دوران قومی تحریکوں میں بھی سرگرم رہے۔ 1919ء کی برطانوی سامراج کے خلاف تحریک ازہر شریف سے اٹھی تھی اور الشعراوی بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مظاہروں میں شریک ہوتے اور خطبے دیتے، جس کی پاداش میں انہیں کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔ 1934ء میں وہ طلبہ یونین کے صدر بھی منتخب ہوئے۔
خاندانی زندگی
شیخ الشعراوی کی شادی ان کے والد کے انتخاب سے ہوئی، جبکہ وہ ابھی ثانویہ ازہریہ میں تھے۔ انہوں نے اس فیصلے کو قبول کیا اور اس ازدواجی زندگی سے ان کے تین بیٹے: سامی، عبد الرحیم، اور احمد اور دو بیٹیاں: فاطمہ اور صالحہ پیدا ہوئیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کامیاب ازدواجی زندگی کی بنیاد باہمی محبت، رضا مندی اور ہم آہنگی پر ہوتی ہے۔
پیشہ ورانہ زندگی
1940ء میں انہوں نے جامعہ ازہر سے گریجویشن مکمل کیا اور 1943ء میں تدریس کی اجازت کے ساتھ عالمیہ کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد انہیں طنطا کے دینی مدرسے میں معلم مقرر کیا گیا۔ پھر وہ الزقازيق اور اسکندریہ کے مدارس میں بھی تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1950ء میں وہ سعودی عرب گئے اور جامعہ ام القری میں شریعت کے استاد مقرر ہوئے۔
سعودی عرب میں انہیں عقائد کی تدریس کرنی پڑی، جبکہ ان کی اصل تخصص عربی زبان میں تھی، مگر انہوں نے اپنی غیرمعمولی تدریسی صلاحیتوں سے اس مضمون میں بھی کمال حاصل کیا۔ 1963ء میں جب صدر جمال عبدالناصر اور سعودی بادشاہ سعود کے درمیان سیاسی اختلافات پیدا ہوئے تو عبدالناصر نے الشعراوی کو مصر واپس بلا لیا اور انہیں جامعہ ازہر کے شیخ حسن مأمون کے دفتر کا ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔
بعد ازاں وہ الجزائر میں ازہری تعلیمی مشن کے سربراہ کے طور پر بھیجے گئے، جہاں انہوں نے سات سال تک خدمات انجام دیں۔ اسی دوران 1967ء میں عرب-اسرائیل جنگ (جسے مصر میں "نكسة" یعنی شکست کہا جاتا ہے) ہوئی، جس پر الشعراوی نے سجدہ شکر ادا کیا۔ بعد میں انہوں نے وضاحت کی کہ اس شکرانے کا سبب یہ تھا کہ مصر کو ایک ایسی حالت میں فتح نہیں ملی جب وہ سوویت کمیونزم کے زیر اثر تھا، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو دین کے خلاف فتنہ پیدا ہو سکتا تھا۔
مصر واپسی پر انہیں وزارت اوقاف میں مختلف ذمہ داریاں دی گئیں، جن میں مغربی مصر کے محکمہ اوقاف کے ڈائریکٹر، تبلیغ اور فکر کے نائب سیکرٹری، اور جامعہ ازہر کے نائب سیکرٹری کے عہدے شامل تھے۔ بعد ازاں وہ سعودی عرب لوٹ گئے اور جامعہ عبد العزیز میں تدریس کرنے لگے۔
1976ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ممدوح سالم نے انہیں اپنی کابینہ میں وزیر اوقاف اور امور ازہر کا قلمدان سونپ دیا، جہاں وہ 1978ء تک رہے۔
اہم خدمات اور مناصب
طنطا، اسکندریہ اور الزقازيق کے دینی مدارس میں تدریس
1950ء میں سعودی عرب میں جامعہ ام القری کے مدرس
1960ء میں معہد طنطا ازہری کے ناظم
1961ء میں وزارت اوقاف میں تبلیغی امور کے ڈائریکٹر
1964ء میں جامعہ ازہر کے شیخ کے دفتر کے ڈائریکٹر
1966ء میں الجزائر میں ازہری مشن کے سربراہ
1970ء میں جامعہ عبد العزیز (مکہ مکرمہ) میں مہمان استاد
1972ء میں جامعہ عبد العزیز میں اعلیٰ تعلیمات کے شعبے کے صدر
1976ء میں وزیر اوقاف و امور ازہر
1980ء میں مجلس شورٰی کے رکن
1987ء میں مجمع اللغہ العربیہ (عربی زبان و ادب کی اکادمی) کے رکن
طنطا، اسکندریہ اور الزقازيق کے دینی مدارس میں تدریس
1950ء میں سعودی عرب میں جامعہ ام القری کے مدرس
1960ء میں معہد طنطا ازہری کے ناظم
1961ء میں وزارت اوقاف میں تبلیغی امور کے ڈائریکٹر
1964ء میں جامعہ ازہر کے شیخ کے دفتر کے ڈائریکٹر
1966ء میں الجزائر میں ازہری مشن کے سربراہ
1970ء میں جامعہ عبد العزیز (مکہ مکرمہ) میں مہمان استاد
1972ء میں جامعہ عبد العزیز میں اعلیٰ تعلیمات کے شعبے کے صدر
1976ء میں وزیر اوقاف و امور ازہر
1980ء میں مجلس شورٰی کے رکن
1987ء میں مجمع اللغہ العربیہ (عربی زبان و ادب کی اکادمی) کے رکن