کاروان زندگی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کاروان زندگی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

امام احمد رضا خاں بریلوی ؒ

مولانا الیاس عطار قادری

اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے محلہ جسولی میں 10 شوال 1272 ھ بمطابق 14 جون 1856ء کو ہوئی۔ آپؒکا نام مبارک محمد رکھا گیا اور آپؒ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ عموماً ہر زمانے کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل بچوں کا ہے کہ سات آٹھ سال تک تو انہیں کسی بات کا ہوش نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کسی بات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں مگر اعلیٰ حضرتؒ کا بچپن بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کم سنی، خرد سالی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ ساڑھے چار سال کی ننھی سی عمر میں قرآن مجید ناظرہ مکمل پڑھنے کی نعمت سے باریاب ہو گئے۔

 چھ سال کے تھے کہ ربیع الاوّل کے مبارک مہینے میں منبر پر جلوہ افروز ہو کر میلاد النبیؐ کے موضوع پر ایک بہت بڑے اجتماع میں نہایت پُرمغز تقریر فرما کر علمائے کرام اور مشائخ عظام سے تحسین و آفرین کی داد وصول کی۔ نماز سے تو عشق کی حد تک لگائو تھا، چنانچہ نماز پنج گانہ باجماعت تکبیر اولیٰ کا تحفظ کرتے ہوئے مسجد میں جا کر ادا فرمایا کرتے، جب کبھی کسی خاتون کا سامنا ہوتا تو نظریں نیچی کرتے ہوئے سر جھکا لیا کرتے۔

 سات سال کے تھے کہ ماہ رمضان المبارک میں روزے رکھنے شروع کر دئیے تھے۔ آپؒ نے صرف تیرہ سال دس ماہ چار دن کی عمر میں تمام مروجہ علوم کی تکمیل اپنے والد ماجد رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان سے کر کے سند فراغت حاصل کر لی۔ فتویٰ صحیح پا کر آپؒکے والد ماجد نے مسندِ اِفتا آپؒکے سپرد کر دی اور آخر وقت تک فتاویٰ تحریر فرماتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو بے اندازہ علوم جلیلہ سے نوازا تھا۔

سید قطب الشھید (عربی )


شیخ الحدیث مولانا محمد زكريا کاندھلوی،

شیخ الحدیث مولانا محمد زكريا کاندھلوی، اكابرین علمائے ديوبند ميں سے تھے۔ محمد یحیی کاندھلوی کے بیٹے، بانی تبلیغی جماعت محمد الیاس کاندھلوی کے بھتیجے اور محمد یوسف کاندھلوی کے چچا زاد بھائی ہیں۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی 

ان کی مشہور تصنیف فضائل اعمال ہے۔ یہ کتاب تبلیغی جماعت کا تبلیغی نصاب (فضائل اعمال) ہے۔ اس کتاب میں اعمال اسلامی کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ جنہیں تبلیغی جماعتیں گھر، محلہ، مسجد اور تبلیغی سفر میں بطور خاص اس کی تعلیم کرتے ہیں۔

 تعلیم 

مظفر نگر کے ایک نیک صالح بزرگ ڈاکٹر عبد الحی سے قاعدہ بغدادی پڑھا۔ اپنے والد ماجد محمد یحیی کاندھلوی سے قرآن حفظ کیا۔ مولانا زکریا فرماتے ہیں کہ قرآن یاد کرانے کا والد صاحب کا طریقہ انوکھا تھا کہ ایک صفحہ یاد کرنے کو دے دیتے اور فرماتے کہ 100 مرتبہ پڑھو پھر چھٹی۔ اس طرح مولانا نے قرآن پاک حفظ کر لیا۔

1328ھ یعنی 12 یا 13 سال کی عمر تک گنگوہ میں قیام رہا، اس دوران اردو کے دینی رسائل بہشتی زیور وغیرہ اور فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھ لیں جو زیادہ تر شفیق اور بزرگ چچا مولانا محمد الیاس نے پڑھائیں۔

علامہ شبلی ؒ کا مکتب فکر - احمد طیب

 ؒ علامہ شبلی 
علامہ شبلی نعمانی ؒ  کی پیدائش ضلعہ  اعظم گڑھ کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں 1857ء میں ہوئی- ابتدائی تعلیم گھر پر  مولوی فاروق چڑیاکوٹی سےحاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ تھی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔  یہیں پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم ، مصر اورشام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔

علامہ شبلی ؒ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب قومی زوال نے ہر حساس مسلمان کو بے قرار کر رکھا تھا  ۔انیسویں صدی میں مغربی تہذیب و ثقافت جب عالم اسلام پر حملہ آور ہوئے تو برصغیر کے مسلمانوں نے  سب سے زیادہ اس کی مزاحمت کی ۔ اس  جد وجہد میں دو گروہ  شامل تھے۔  ایک گروہ کا تعلق تحریک دیوبند سے تھا اور دوسرے کا   تحریک علی گڑھ   سے۔ 

یہ دونوں گروہ دو  انتہاوں پر تھے ۔ایک طرف سر تا پا قدامت پسندی اور دوسری طرف سرتا پا   الحاد اور  لادین جدت پسندی۔ ان دونوں کے درمیان امتزاج اور مصالحت کے لیے  عالم اسلام کو عظیم شخصیات کی ضرورت تھی ۔  اس سلسلہ میں اگر کسی  ہستی کا  نام سب سے  پہلے آتا  ہے تو  وہ  شیخ المشرق سید جمال الدین افغانیؒ  ہیں ۔ اس دور میں  وہ  پہلے شخص تھے جنھوں نے اسلام کو بحیثیت ایک نظامِ فکر پیش کیا ۔ اُنھوں نے  مغرب کے سرمایہ دارانہ  اور اشتراکی نظام کی سخت  مخالفت کی اور خدا کی زمین پر خدا کا نظام نافذ کرنے کے لیے "جمعیت العروۃ الوثقٰی" کے نام سے جماعت  تشکیل دی  ۔  دنیاے اسلام میں  بعدکے زمانوں میں جتنی بھی اصلاحی  تحریکیں اُٹھیں اُن سب کا تعلق  اسی  سے جا  ملتا ہے۔ 

اُنھوں نے  پہلی مرتبہ اسلامی قومیت کا نظریہ  پیش کیا۔   خانقاہی قدامت پسندوں   کے طریقہ تعلیم و تربیت پر  شدید تنقید کی  اور دوسری طرف  الحاد اور لادین جدت پسندوں کے نظام تعلیم   کی بھی مخالفت کی۔  ساتھ ہی  مسلمانوں کو جدید علوم کی اہمیت  کی طرف متوجہ کیا  اور اسلامی علوم کی تشکیل جدیدکی جد وجہد کی ۔  مغربی ادب و صحافت کی یلغار کا جواب  اسلامی  ادب و صحافت سے دیا  ۔  
علامہ اقبال نے ان  کو گزشتہ صدی کا مجدّ داعظم قرار دیا ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا"..........زمانۂ حال میں میرے نزدیک اگر کوئی شخص مجدّد کہلانے کے مستحق ہیں تو وہ صرف اور صرف جمال الدین افغانی ہیں۔ مصر، ایران، ترکی اور ہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا  تو اُسے سب سے پہلے عبدالوھّاب نجدی اور بعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہوگا۔ موخرالذکر ہی اصل میں مجدّد ہیں زمانۂ حال کے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا ۔ اگر قوم نے اُن کو عام طور پر مجدّد نہیں کہا یا اُنھوں نے خود اس کا دعویٰ نہیں کیا، تو اس سے اُن کے کام کی اہمیت میں کوئی فرق اہلِ بصیرت کے نزدیک نہیں آتا"۔ (ذکر اقبال، صفحہ ۲۶۵)
نیز جاوید نامہ کے روحانی سفر میں افلاک میں کسی مقام پر نمازِ فجر کا وقت ہوتا ہے تو وہ نماز بھی اسی امامِ مشرق کی امامت میں ادا کی جاتی ہے ۔ یہ گویا ایک تمثیل ہے۔نمازِ فجر سے مراد اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی صبح ہے اور جمال الدین افغانی کا بحیثیت امام منتخب کرنا اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے بانی اوراپنے زمانے کے مجد اور امام  سید جمال الدین افغانی ہیں۔

1880ء سے 1882ء تک جمال الدین افغانی ہندوستان میں مقیم تھے۔ اس دوران برصغیر میں سب سے پہلے علامہ شبلی ؒ کو  سید جمال الدین افغانی ؒ   کی روشن خیال سحر انگیز شخصیت نے متاثر کیا ۔اُن کی ذات سے شبلی کا ابتدائی تعارف اسی زمانے میں ہوا ۔  پیرس سے  سید افغانی کا   عربی رسالہ ’’ العروۃ الوثقٰی‘‘  علی گڑھ کالج کی لائبریری میں آیا کرتا تھا اور اس  میں شائع ہونے والے عربی مضامین کا اُردو ترجمہ ہفت روزہ ’’دارالسلطنت‘‘ کلکتہ اور ماہنامہ ’’مشیرِ قیصر‘‘ لکھنؤ میں  شائع ہوتا رہا ۔ العروہ میں شائع ہونے والے  فکر  انگیز مقالات کے مطالعہ کے بعد شبلی کے لیے علی گڑھ میں رہنا  محال  ہوگیاتھا ۔ 1892ء میں وہ مصر چلے گئے۔ وہاں اُنھوں نے جمال الدین افغانی کے شاگردِ خاص مفتی محمد عبدہ کی صحبت اختیار کی۔مصر سے آپ 1893ء میں ترکی چلے گئے اور وہاں جیل میں  سید جمال الدین افغانی سے بالمشافہ  ملاقات کا شرف حاصل کیا اور واپس ہندوستان آگئے۔ وطن واپسی پر اِس طویل دورہ کے بارے میں اُنھوں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا: 
’’سفر بے شبہ ضروری تھا۔ جو اثر اس سفر سے میرے دل پر ہوا، وہ ہزاروں کتابوں سے نہیں ہوسکتا تھا‘‘۔ (سفر نامہ مصر و روم و شام۔ شبلی)

برصغیر میں  اُنھوں نے جمال الدین افغانی کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے باقاعدہ  علمی  و فکر ی تحریک کا آغاز کیا۔دارالعلوم  ندوۃ العلما اور دارالمصنفین  اس کی زندہ مثالیں ہیں ۔ علامہ  شبلی کے زیرِ اثر جن لوگوں نے تربیت پائی ،اُن میں چار نام بہت اہم ہیں۔ سید سلیمان ندوی، عبدالماجد دریا آبادی، ابوالکلام آزاد، حمید الدین فراہی۔علامہ شبلی نے وفات سے تین دن پہلے ان تینوں حضرات  کو ایک ہی مضمون کے تار دیے کہ وہ آئیں تو سیرت نبوی اور دار المصنفین  کی سکیم کا کچھ انتظام ہوجائے ۔

علامہ شبلی کو خدا نے غیر معمولی صلاحیتیں عطا کی تھیں ۔ ان کے پش نظر بقول سید سلیمان ندویؒ ان کے طائر ہمت کو ایک آشیان بلند کی تلاش تھی ۔  ان  کی زندگی اور ان کے کارناموں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حصول  علم میں بے حد حریص تھے ، اگرچہ  ان کی تعلیم پرانے اصولوں پر ہوئی لیکن اس کی تکمیل کے لئے اس زمانے میں جہاں جہاں مشہور اساتذہ تھے وہان گئے اور فیض حاصل کیا ۔  ان کے  حصول علم کا یہ  سلسلہ عمر بھر جاری رہا ۔  اس وقت  بر صغیر میں ان کے معاصر ین میں  ان  جیسے جامع الصفات کوئی ہستی نہ تھی ،   اگرچہ ابتدائی تعلیم نے انہیں طبقہ علماسے وابستہ کردیا تھا،  لیکن حصول علم  کے لئے علی گڑھ ، حیدر آباد ، بمبئی ، لکھنو کے قیام میں ان کا قسم قسم کے لوگوں سے رابطہ پڑا اور ان  سے خوب  فائدہ اٹھایا ۔ 

علامہ شبلی کو علی گڑھ تحریک کا سب سے بڑا مخالف کہا  جا سکتا ہے ۔ علی گڑھ سے  وہ مایوس تھے ۔علی گڑھ کا پست علمی معیار انہیں سخت  نا پسند تھا ۔  ان کو اندازہ تھا کہ علی گڑھ  نے نہ تو کوئی  اعلی  سکالر اور مصنف  پیدا  کیا اور  نہ ہی  کوئی علمی  و فکری روایت قائم کی ۔  1883ء کے  ایک خط میں لکھتے ہیں  "  معلوم ہوا کہ انگریزی خوان قوم نہایت مہمل فرقہ ہے ، مذہب کو جانے دو ، خیالات کی وسعت، سچی آزادی ، بلند ہمتی ، ترقی کا جوش برائے نام نہیں ۔ یہاں ان چیزوں کا ذکر نہیں آتا ۔ بس خالی کوٹ پتلون کی نمائش گاہ ہے" 
اسی طرح   عمر کے آخری سال  1914 کے ایک خط میں لکھتے ہیں " علمی سطح باکل گرچکی اور انگریزی تعلیم بھی جہل کے برابر بن گئی " 
خود سر سید احمد خان کو بھی اس کا احساس تھا ۔ وہ  1890ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں " تعجب یہ ہے کہ جو تعلیم پاتے جاتے ہیں اور جن سے قومی بھلائی کی امید تھی وہ شیطان اور بد ترین قوم ہوتے جاتے ہیں " (بحوالہ موج کوثر، شیخ محمد اکرام  ص 228) 

علامہ شبلی نواب محسن الملک کی وفات پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں " جدید تعلیم ایک مدت سے جاری ہے اور آج سینکڑوں ، ہزاروں تعلیم یافتہ بڑی بڑی خدمات پر مامور ہیں ، لیکن قومی علم ابھی ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے ، جنھوں نے کالجوں کے ایوانوں میں نہیں بلکہ مکتب کی چٹائیوں پر تعلیم پائی ہے " اس حقیقت کے اظہار کے باجود  وہ تحریک دیوبند سے مطمئن نہیں تھے ۔  انہوں نے اس کا اظہار ندوۃ العلما کے اجلاس منعقدہ  1894 میں ایک تقریر کے دوران  کیا ۔ 

" اے حضرات ! جس زمانے میں یہاں اسلامی حکومت قائم تھی ، اس وقت قوم کی دینی اور دنیوی دونوں قسم کے معاملات علما کے ہاتھ میں تھے ۔ نماز ، روزہ و غیرہ کے احکام بتانے  کے علاوہ ، علما ہی ان کے مقدمے فیصل کرتے تھے ۔ علما ہی جرائم پر حد و تعزیر کی سزا دیتے تھے ۔ علما ہی قتل و قصاص کے احکام صادر کرتے تھے ۔ غرض قوم کی دین و دنیا دونوں کی عنان اختیار علماہی کے ہاتھ میں تھی ۔ اب جبکہ انقلاب ہوگیا اور دنیوی معاملات گورنمنٹ کے قبضہ اختیار میں آگئے تو ہم کو دیکھنا چاہیے کہ قوم سے علما کا کیا تعلق باقی ہے یعنی گورنمنٹ نے کس قدر اختیارات  اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں اورکس قدر  باقی رہ گئے ہیں جو دراصل علما کا حق ہے اور جس میں دست اندازی کرنی خود گورنمنٹ کو مقصود نہیں ۔  "  آگے اسی تقریر میں مزید کہا   " علما جب تک قوم کے اخلاق، قوم کے خیالات، قوم کے دل و دماغ، قوم کی معاشرت ،قوم کا تمدن غرض قومی زندگی کے تمام بڑے بڑے حصوں کو اپنے قبضہ اختیار میں نہ لیں قوم کی ہر گز ترقی نہیں ہو سکتی "  (بحوالہ موج کوثر ص 233)

غرض ان کے نزدیک مسلمانوں کی ترقی کے لیے سب سے بڑی چیز یہ تھی کہ مسلمانوں کی تعلیم  وتربیت کا ایسا نصاب ترتیب دیا جائے جس میں ایک طرف یورپ کے تمام جید علوم وفنون کی تعلیم ہو اور دوسری طرف خالص اسلامی علوم کی کی تعلیم اور ساتھ ہی  طریقہ  تعلیم و تربیت اور درس گاہوں کا ماحول تمام تر مذہبی ہو ، اگر ساری قوم کی تعلیم ک کا یہ بندوبست نہ تو کم از کم عربی درس گاہوں میں ایسی اصلاح کی جائے کہ یونان کے بوسیدہ علوم کا سارا دفتر ہٹ کر اس کی جگہ نئے علوم و فنون کی تعلیم لے لے اور خالص مذہبی علوم اپنی جگہ پر رہیں ۔ اور نصاب میں متاخرین کی شروح و حواشی کے بدلے قدما کی اصلی کتابیں جو فن کی جان ہیں پڑھائی جائیں ، درس گاہیں عالیشان رہے، کمرے صاف ستھرے اور ترتیب ایسی ہو کہ طلبہ میں اولوالعزمی حوصلہ مندی بلند نظری اور خود داری پید ہو  یہ چیز ان کو نہ قسطنطنیہ (موجودہ استنبول )میں ملی نہ شام میں اور نہ مصر میں سفرنامہ میں لکھتے ہیں " اس سفر میں جس چیز کا تصور میری تمام مسرتوں اور خوشیوں کو برباد کردیتا تھا وہ اسی قدیم تعلیم کی ابتری تھی ہندوستان میں تو اس خیال سے صبر آجاتا تھا کہ جو چیز گورنمنٹ کے سایہ عاطفت میں نہ ہو  اس کی بے سرو سامانی قدرتی بات ہے ۔ لیکن قسطنطنیہ شام اور مصر میں یہ حالت دیکھ کر سخت رنج ہوتا تھا ۔ ( حیات شبلی ص  190 ، سلیمان ندوی ) 

علامہ شبلی نہ صرف میدان علم  وفکر کے شہسوار  تھے بلکہ اردو ادب میں بھی ان کو بلند مسند حاصل ہے ۔ اس کا اظہا ر اردو کے  معروف نقاد ڈاکٹر سید عبدالحق نے ان الفاظ میں کیا  "شبلی کو اردو ادب میں جو بلند مسند اور مقام حاصل ہے اسکی بنا علمی بھی ہے اور ادبی بھی ۔ مگر جو چیز ان کے لیے بقائے دوام کا باعث ہوگئی وہ ان کا اسلوب بیان ہے ۔ وہ اپنے علمی انکشاف اور تاریخی رازوں کی پردہ کشائی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے تند و تیز ، زہریلے اور چبھتے ہوئے ، گہرے زخم لگاتے ہوئے ، دماغوں کو مفلوج کرتے ہوئے ، دلوں میں جوش و ہیجان پیدا کرتے ہوئے طرز بیان کی وجہ سے اردو نثرمیں بلند مقام حاصل کرچکے ہیں ۔ اور یہی وہ چیز ہے جو انہیں اردو کے باقی صاحب طرز انشابرداز وں سے ممتاز کر تی ہے ۔" (شبلی کا اسلوب بیان ، ڈاکٹر سید عبداللہ ) 

سید جمال الدین افغانی اور ان کی تحریک کے اثرات اور ان کا مکتب فکر! - سید ابوالحسن علی ندوی ؒ

 ؒ سید جمال الدین افغانی 
جمال الدین افغانی(سید جمال الدین افغانی کے حالات کے لئے ملاحظہ ہو: ’’زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث‘‘ مؤلفہ ڈاکٹر احمد امین۔) عالمِ اسلام میں ایک ممتاز ذہن و دماغ اور طاقتور شخصیت کے مالک تھے، انہوں نے مغرب کو مطالعہ و سیاحت کے ذریعہ خوب پہچانا، لیکن ان کی شخصیت پر عظیم شہرت و مقبولیت کے باوجود کچھ ایسا پردہ پڑا ہوا ہے کہ ان کی شخصیت بھی بعض حیثیتوں سے معمہ بن گئی ہے، اور ان کی طرف متضاد رجحانات اور اقوال منسوب کئے جانے لگے ہیں، ان کی گفتگو، خطبات اور تحریروں کا جتنا حصہ محفوظ ہے، اور ان کے شاگرد و عقیدت مند ان کے حالات و اخلاق اور علم کے متعلق جو واقعات بیان کرتے ہیں، ان سے وضاحت کے ساتھ ان کے قلبی واردات اور حقیقی خیالات کا اور ان کی ذاتی زندگی کا حال نہیں معلوم ہوتا اور نہ اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی تہذیب اور اس کے افکار و اقدار کے بارے میں ان کی ذاتی رائے اور تاثر کیا تھا، ( پچھلے چند برسوں سے عربی میں ایسے مضامین، خطبات اور کتابوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے جنہوں نے سید جمال الدین افغانی اور ان کے تلمیذ رشید مفتی محمد عبدہٗ کی شخصیتوں، عقائد و سیاسی مقاصد اور تعلقات کے بارے میں سنگین شکوک وشبہات پیدا کردئیے ہیں، ان میں ڈاکٹر محمد محمد حسین (صدر شعبۂ عربی اسکندریہ یونیورسٹی) کے لیکچر جو انہوں نے کویت میں دئیے اور غازی التوبہ کی کتاب ’’الفکر الاسلامی المعاصر‘‘ کا نام خاص طور پر لیا جاسکتا ہے، شیخ محمد عبدہٗ کے خطوط کا جو عکسی مجموعہ حال میں ایران سے شائع ہوا ہے، ان سے ان شبہات کی تقویت ہوتی ہے۔ مغربی تہذیب اور اس کے مادی فلسفوں کا مقابلہ کرنے، ان پر تنقید کرنے اور مشرق کو مغرب کے فکری اقتدار واثر سے محفوظ رکھنے کی ان میں کتنی صلاحیت تھی، اس کے متعلق یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے، ان کی مختصر کتاب ’’الرد علی الدھریین‘‘ سے اس کا اندازہ کرنا دشوار ہے، لیکن علامہ اقبال کا ان کے متعلق بہت بلند خیال تھا، ان کے نزدیک مغربی تہذیب کے ارتقاء نے عالم اسلام میں جو ذہنی انتشار پیدا کردیا تھا، اس کو دور کرنے اور ایک طرف اسلام کے قدیم اعتقادی، فکری و اخلاقی نظام، دوسری طرف عصرِ جدید کے نظام کے درمیان جو وسیع خلا پیدا ہوگیا تھا، اس کو پر کرنے کے کام کے لئے سید جمال الدین افغانی کی شخصیت بہت مفید اور مؤثر ثابت ہوسکتی تھی، اور ان کا وسیع اور اخاذ ذہن اس کی فطری صلاحیت رکھتا تھا، علامہ اقبالؒ نے اپنے ایک خطبہ میں غالباً اسی بات کو پیش نظر رکھ کر فرمایا: 

سید جمال الدین افغانی اور اقبال - ڈاکٹر معین الدین عقیل


(مشمولہ اقبال ریویو، حیدر آباد، جمال افغانی نمبر)

 ؒ سید جمال الدین افغانی 
جمال الدین افغانی کے عہد کا عالم اسلام بہ حیثیت مجموعی افتادگی و پژمردگی کا شکار تھا، لیکن یہی دَور عالم انسانی تہذیب کے لئے نہایت انقلاب افزا اور تحریک آمیز بھی ہے۔ اس میں سائنس کی ایجادات اور اس کی ترقیوں کے سبب زمان و مکان کی وسعتیں سمٹ جاتی ہیں اور قوائے فطرت کی تسخیر سے انسان اپنی زندگی کو نئے انداز سے ترتیب دینے لگتا ہے۔ یورپ کا صنعتی انقلاب سیاست اور معاشرے کی بنیادیں تبدیل کر دیتا ہے۔ فرانسیسی انقلاب کی وجہ سے قومیت،آزادی اور جمہوریت کے تقاضوں کے زیر اثر سیاست اور معاشرت کی پرانی قدریں اور پرانا طرز فکر سرنگوں ہو جاتا ہے۔ علمی ترقی کی رفتار آئے دن تیز سے تیز تر ہوتی جاتی ہے۔ ‘‘ لیکن اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں بھی اولاً مسلمان اپنے عہد گذشتہ کی حکایتوں میں کھوئے ہوئے بیٹھے تھے یا آنے والے تصوراتی عہد کے انتظار میں زندگی کے حقائق سے فرار حاصل کر لیتے تھے اور کبھی تصوف کے دامن میں پناہ تلاش کرتے تھے۔ ان کی اکثریت نے اپنی غفلت اور جمود کی وجہ سے اس انقلاب اور تغیر کی طرف کوئی توجہ ہی نہ دی جس کا ظہور یورپ میں ہو رہا تھا۔ اب یہ فطری امر تھا کہ یورپ اپنی اس نئی حاصل شدہ قوت کو اپنے استعماری منصوبوں میں استعمال کرنا شروع کرتا۔ محض ایک محدود تعداد ایسے مسلمانوں کی تھی جنہوں نے اس تغیر و انقلاب کے اثرات محسوس کئے کہ ان کے ممالک یکے بعد دیگرے مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں جا رہے ہیں۔ ہندوستان میں ہزار سالہ حکومت انگریزوں کے قبضے میں چلی گئی۔ مصر بھی برطانوی تسلط میں آ گیا۔ ایران اور وسط ایشیا کے بعض علاقے روس نے ہضم کر لئے، فرانس شمالی افریقہ کے بیشتر علاقوں پر اپنی عملداری قائم کر رہا تھا۔ اسلامی دنیا کے ایک حساس طبقے نے اس زوال کو محسوس کیا۔ ہندوستان میں سید احمد خان اور ان کے رفقاء ترکی میں مدحت پاشا، سلطان محمود خان اور ان کے وزراء مصر میں محمد علی پاشا اور مصطفے ٰ کامل،تیونس میں خیر الدین پاشا، طرابلس میں امام محمد بن سنوسی، روس میں مفتی عالم جان، الجیریا میں امیر عبدالقادر،نجد میں عبدالوہاب کے حلقۂ فکر کے اکابر مسلمانوں کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جسے اسلامی ممالک کے اس سیاسی زوال اور انحطاط کا حد درجہ قلق تھا۔ ان افراد نے اپنے اپنے مخصوص سیاسی حالات اور معاشی مسائل کے مطابق تھا۔ ان اکابر کی نظر میں مسلمانوں کی اس پستی کا علاج سیاسی اصلاح میں مضمر تھا کہ جب تک یہ ظہور پذیر نہ ہو کوئی کوشش ان کی بیداری کے لئے سود مند نہیں ہو سکتی۔ عالمِ اسلام میں اس نقطۂ نظر کے سب سے بڑے داعی سید جمال الدین افغانی تھے۔

تیسرے امیر تبلیغی جماعت حاجی عبد الوھاب ؒ کا مختصر تعارف

راؤ محمد عبد الوہاب (1 جنوری 1923ء - 18 نومبر 2018ء) پاکستان کی تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر تھے۔


ابتدائی زندگی

حاجی عبد االوھاب ؒ  سابق امیر تبلیغی جماعت 
1922ء کو ان کی پیدائش دہلی میں ہوئی۔  آپ کا آبائی گاؤں گمتھلہ راؤ تحصیل تھانیسر ضلع کرنال انبالہ ڈویژن ہے۔ آپ کا تعلق راجپوت خاندان سے ہے۔ تقسیم ہند سے قبل انہوں نے بطور تحصیلدار فرائض سر انجام دیے۔ ۔ ہجرت کے بعد آپ پاکستان میں ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا کے چک نمبر 331/EB ٹوپیاں والا میں آباد ہوئے۔

تعلیم

ابتدائی تعلیم انبالہ کے سکولوں میں حاصل کی۔ گریجوایشن اسلامیہ کالج، لاہور سے کی جہاں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی آپ کے استاد رہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ تحصیلدار بھرتی ہوگئے۔

زندگی

تبلیغی جماعت

1944ء کے آغاز میں تبلیغی مرکز بستی حضرت نظام الدین انڈیا میں موسسِ تبلیغ حضرت جی مولانا محمد الیاس کاندھلوی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہی کے ہو رہے۔ اصلاحی تعلق مولانا عبدالقادر رائے پوری علیہ الرحمہ سے تھا اور ان سے خاندانی تعلق بھی تھا۔ آپ پاکستان میں حاجی محمد شفیع قریشی صاحب، حاجی محمد بشیر صاحب اور مولانا ظاہر شاہ صاحب کے بعد چوتھے نمبر پر تبلیغی جماعت کے امیر بنائے گئے۔ تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر مولانا محمد انعام الحسن کاندھلوی کی وفات پر تبلیغی جماعت میں شورائی نظام نافذ ہونے کے بعد سے عبدالوہاب صاحب عالمی تبلیغی مرکز رائے ونڈ کی شوریٰ کے امیر اور مرکزی شوریٰ تبلیغی مرکز بستی حضرت نظام الدین دہلی کے رکن ہیں۔ 1944 سے لے کر 2018 تک 75 سال تحریکِ تبلیغ میں سرگرمی سے گزارنے کے بعد راؤ محمد عبدالوہاب صاحب نے آج 18 نومبر 2018 کو رائے ونڈ میں 96 سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ کسی مذہبی تحریک کے ساتھ کامل یکسوئی سے پورے 75 سال گزار دینے کی کوئی اور مثال ہمارے زمانے میں نہیں ملتی۔

پاکستان امن مذاکرات
اکتوبر 2013ء کو تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان کے درمیان میں امن مذاکرات کے لیے محمد عبد الوہاب کا نام بطور سربراہ لویہ جرگہ تجویز کیا گیا تھا۔ فروری 2014ء میں طالبان نے محمد عبد الوہاب،سمیع الحق،ڈاکٹر عبد القدیر خان کا نام تجویز کیا تھا کہ وہ پاکستان اور طالبان کے درمیان میں امن مذاکرات میں بطور سہولت کار کردار ادا کریں۔

وفات

18 نومبر 2018ء کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ تبلیغی مرکز رائے ونڈ اعلامیہ کے مطابق مولانا حاجی عبد الوہاب نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔

---------------
یہ بھی پڑھیں !

بانی تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ 

تبلیغی جماعت کا تعارف

محمد الیاس کاندھلوی کی قائم کردہ ایک اسلامی اصلاحی تحریک جو 1926ء میں قائم کی گئی۔ بنیادی طور پر فقہ حنفی کے دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ برصغیر پاک و ہند کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں بھی سرگرم ہے۔


تبلیغی جماعت کے اصول:

(انہیں چھ باتیں، چھ صفات اور چھ نمبر بھی کہا جاتا ہے)

1- ایمان
2- نماز
3- علم و ذکر
4- اکرام مسلم
5- اخلاص نیت
6- دعوت و تبلیغ اور لایعنی امور سے اجتناب۔

جماعت

جماعت اس تحریک کی ایک مخصوص اصطلاح ہے جو اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب کئی افراد ایک مخصوص مدّت کے لیے دین سیکھنے اور سکھانے کی خاطر کسی گروہ کی شکل میں کسی جگہ کا سفر کرتے ہیں ان کے دورے کی مدّت تین دن، چالیس دن، چار ماہ اور ایک سال تک ہو سکتی ہے۔ یہ افراد اس دوران علاقے کی مسجد میں قیام کرتے ہیں۔

گشت

کسی بھی جگہ کے دورے میں اپنے قیام کے دوران یہ افراد گروہ کی شکل میں علاقے کا دورہ کرتے اور عام افراد خصوصاً دکان دار حضرات کو دین سیکھنے کی دعوت دیتے ہوئے مسجد میں مدعو کیا کرتے ہیں۔ اس عمل کو جماعت کی اصطلاح میں 'گشت' کہا جاتا ہے۔

تعلیم

عموماً چاشت کے وقت اور ظہر کی نماز کے بعد مسجد میں تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد ایک کونے میں مرتکز ہوجاتے ہیں اور کو‎ئی ایک فرد فضا‎ئل اعمال کا مناسب آواز میں مطالعہ کرتا ہے تاہم اس امر کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ نماز و تلاوت میں مشغول افراد کے انہماک میں خلل نہ پڑے۔

فضائل اعمال کی تعلیم کا مقصد: اس كتاب کے تعلیم کے مندرجہ ذیل مقاصد ہیں۔ 1۔ فضائل سن سن کر اعمال کا شوق پیدا ہو جائے۔ 2۔ علم اور عمل میں جوڑ پیدا ہو جائے۔ 3۔ مال سے ہٹ کر اعمال پر یقین بن جائے۔ 4۔ سب کے دل قرآن و حدیث سے اثر لینے والے بن جائیں۔

فضا‎ئل اعمال

( تفصیلی مضمون کے لیے فضائل اعمال (کتاب) ملاحظہ کریں۔)

امام احمد رضا اور ردِّ بدعات ومُنکَرات

مفتی منیب الرحمن 

روزنامہ دنیا ، 31 اکتوبر 2018

امام احمد رضا قادری نَوَّراللہ مَرقدَہٗ کثیرالجہات ‘ جامع العلوم اور جامع الصفات شخصیت ہیں۔ وہ اپنے عہد کے عظیم مُفسِّر ‘ محدِّث ‘ فَقِیہہ ‘ متَکلِّم ‘ مؤرّخ اور مُصلح تھے‘ خانہ ساز تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ان پر شرک وبدعت اور فروغِ منکرات کاالزام لگا ‘ طَعن وتَشنیع کا نشانہ بنایا گیا‘ لیکن یہ سب اِتِّہامات واِلزَامات مفروضوں کی بنیاد پر عائدکیے گئے ‘ نہ کوئی حوالہ دیا گیا اور نہ ہی اُن کے فتاویٰ اور تصانیف کو پڑھنے کی کوشش کی گئی‘گویا:

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات  اُن  کو  بہت  ناگوار  گزری ہے

اہلسنت وجماعت کو قبوری اور قبر پرست کہا جاتارہا۔امام احمد رضاقادری لکھتے ہیں: ''مسلمان! اے مسلمان!اے شریعتِ مصطفوی کے تابعِ فرمان! جان کہ سجدہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے روانہیں ‘ اس کے غیر کو سجدۂ عبادت تو یقینا اجماعاً شرک ِ مَھین وکفرِ مُبین اور سجدہ تَحِیَّۃ (تعظیمی )حرام وگناہِ کبیرہ بالیقین ‘ اس کے کفر ہونے میںاختلافِ عُلمائے دین ‘ایک جماعتِ فُقہاء سے تکفیر منقول‘‘۔
سجدۂ عبادت تو بہت دور کی بات ہے ‘ اُنہوں نے سجدۂ تعظیمی کے حرام ہونے پر قرآن وسنت کی نُصوص سے استدلال کرکے ''اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہ لِتَحْرِیْمِ السُّجُوْدِ التَّحِیََّۃ‘‘ کے نام سے ایک باقاعدہ رسالہ لکھا ۔آپ نے فقہِ حنفی کے مُسلّمہ فتاویٰ واَئِمَّۂ اَحناف کے حوالے سے لکھا : '' عالموں اور بزرگوں کے سامنے زمین چُومنا حرام ہے اور چُومنے والا اور اس پر راضی ہونے والا دونوں گناہگار ‘ کیونکہ یہ بت پرستی کے مُشابہ ہے‘‘‘مزید لکھتے ہیں :'' زمین بوسی حقیقۃً سجدہ نہیں کہ سجدے میں پیشانی رکھنا ضرور ہے ‘ جب یہ اس وجہ سے حرام اور مُشابِہِ بت پرستی ہوئی کہ صورۃً قریبِ سجود ہے ‘ تو خود سجدہ کس درجہ سخت حرام اور بت پرستی کا مُشابہ ِ تامّ ہوگا ‘ وَالْعَیَاذُبِاللّٰہ تَعَالٰی ‘‘ ۔ 

فواد سیزگینؒ، ایک عظیم اسکالر

سلیم منصور خالد

پروفیسر فواد سیزگین
پروفیسرفواد سیزگین (Fuat Sezgin )موجودہ زمانے کے ایک عظیم محقق اور اسلامی اسکالر تھے۔ مقصد سے لگن، کام کے حجم اور حددرجہ محنت کے حوالے سے ان کا مقام و مرتبہ ناقابلِ فراموش رہے گا۔افسوس کہ وہ بر صغیر پاک و ہند میں معروف نہیں تھے، جس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جرمن زبان میں لکھتے تھے اور ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ عربی اور فارسی سے بے بہرہ اور انگریزی کی حاکمیت سے مرعوب ہیں، اس لیے انگریزی کے علاوہ دیگرزبانوں میں علوم تک رسائی نہیں رکھتے۔

فواد سیزگین ۲۴؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کو مشرقی ترکی کے صوبے بطلیس میں پیدا ہوئے۔ انٹرسائنس تک تعلیم اناطولیہ کے شہر ارض روم (Erzurum ) میں حاصل کی۔ ۱۹۴۲ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انجینیرنگ فیکلٹی استنبول یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ اسی دوران میں ایک واقعے نے زندگی کا دھارا بدل دیا، اور وہ انجینیرنگ کے بجاے دوسرے عظیم ترین میدان کی طرف چلے آئے۔ ان دنوں ایک مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر ہیلمیٹ ریٹر (۱۸۹۲ء-۱۹مئی۱۹۷۱ء) اورینٹل فیکلٹی استنبول یونی ورسٹی میں پڑھا رہے تھے، جنھیں عربی، فارسی اور ترکی زبان پر دسترس حاصل تھی۔ وہ تصوف اور فلسفے پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ ایک روز فواد کے قریبی عزیز نے کہا کہ: ’کسی روز یونی ورسٹی میں ہیلمیٹ نامی جرمن ماہر علوم اسلامیہ کا لیکچر سنو‘۔ اس ہدایت پر فواد نے ہیلمیٹ کے ایک سیمی نار میں شرکت کی۔ دورانِ گفتگو پروفیسر ہیلمیٹ نے کہا کہ: ’’اسلامی تاریخ اور عربی ادب کی عظمتوں اور وسعتوں کا کوئی حساب نہیں۔ مسلمانوں نے سائنس میں جو کارنامے انجام دیے ہیں، ان سے دُنیا ناواقف ہے، کاش! کوئی اس طرف توجہ دے؟‘‘فواد نے متاثرکن استاد کی یہ بات سن کر اسی وقت دل میں عہد کیا: ’’میں یہ کام کروں گا‘‘ اور اگلے روز انجینیرنگ چھوڑ کر اورینٹل فیکلٹی میں داخلے کے لیے درخواست دے دی، اور یہ سوچا تک نہ کہ داخلے کی تاریخ ختم ہوچکی ہے۔ پھر پروفیسر ہیلمیٹ سے التجا کرکے داخلہ لے لیا۔ استاد نے کہا: ’’عربی سیکھنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔ لیکن جب شاگرد کو پُرعزم پایا تو استاد نے فواد کو سب سے پہلے قدیم عربی میں دسترس کی طرف متوجہ کیا، جو واقعی ایک مشکل کام تھا۔ تاہم وفورِشوق میں فواد نے ۱۷، ۱۷ گھنٹے عربی سیکھنے پر صرف کیے۔

بانی درس نظامی ملا نظام الدین ؒ کے والد ماجد ملا قطب الدین سہالویؒ

احمد قاسمی

(بہت کم علما وٖطلباکے علم میں یہ بات ہوگی کہ ایشیا کے زیادہ تر مدارس اسلامیہ میں رائج نصاب "درس نظامی" کے بانی ملا نظام الدین سہالوی ابن ملاقطب الدین سہالوی ہندوستان کےصوبہ اتر پردیش ضلع بارہ بنکی کے ایک قصبہ سہال سےتعلق رکھتے تھے۔ایک مدت سے خاندان شہید قطب کے حالات وواقعات کی جستجو تھی ۔اللہ کے فضل ہے کتاب" بانی درس نظامی "جو کمیاب ہے دستیاب ہوئی ہے ۔کتاب ہذا سے پہلی قسط ہدیہ ناظرین ہے ۔ )

"لٹا ہوا کنبہ جن کا مورث اور سر پرست ،اشقیا کی اچانک یلغار میں اپنے گھر کے اندر گھر والوں کی نگاہوں کے سامنے شہید ہو چکا تھا جب دارالبوار سے مسکن عافیت کی طرف جارہا تھا تو اس میں ایک چودہ سالہ یتیم بھی تھا جو اپنے بڑے بھائی ،والدہ اور چھوٹے بھائی اور بھتیجوں کے ساتھ ایسی سمت گامزن تھا جن کی منزل مقصود خواہ طے پا چکی ہو ،لیکن اس ہجرت اور ترکِ وطن کا مستقبل دھندلے میں تھا ۔

اس یتیم کی، اس آوارہ وطن قافلہ میں اس سے زیادہ کیا اہمیت ہو سکتی تھی کہ ایک مضلوم خاندان کا ایک بچہ جس کا مستقبل پورے خاندان کے مستقبل کی طرح غیر واضح اور غیر یقینی ہے ۔ یہ لٹا ہوا کنبہ ملا قطب الدین شہید سہالوی کاتھا۔

ملا قطب الدینؒ کی شہادت ۱۹ر جب ۱۱۰۳؁ھ(مطابق ۲۷ مارچ ۱۶۹۲ ؁ء کو قصبہ سہالی ضلع بارہ بنکی میں اُس وقت ہوئی جب وہ طلوعِ آفتاب کے بعد اپنی محلسرا کے دیوان خانہ میں جو مدرسہ کہلاتا تھا، درس وتدریس کے لئے بیٹھے تھے ،اور طلباء کی محدود تعداد اُس وقت تک حاضر ہو پائی تھی۔"روزآنہ کے معمول کے مطابق ملاقطب الدینؒ فجر کی نماز اور وظائف سے فارغ ہو کر اپنے مدرسہ میں آئے اور حاضرِ خدمت فاضلین کو درس دینے میں مشغول ہوگئے ، جب دو گھڑی دن گزر چکا تھا اچانک اسداللہ جو آس پاس کے زمیندار ہیں ،آئے اور ملا صاحب کےمکان کا محاصرہ کر لیا ،چاروں طرف سے دیواروں میں نقب لگا کر گھر کے اندر گھس آئے ،ملا صاحب کو "تبر" کا ایک زخم ، گولی کا ایک زخم اور چہرے پر تلوار کے سات زخم پہنچائےاور ان کو شہید کر ڈالا ، زبدۃ الاولیاء بندگی شیخ نظام الدین ساکن امیٹھی کی اولاد میں شیخ غلام محمد اور سندیلہ کے شیخ عزت اللہ بھی جو فاتحۃ الفراغ پڑھنے کے لئے حاضر خدمت تھے ، مذکورہ ظالموں کے ہاتھ شہید ہوئے ، پرگنہ سہالی کے چو دھری محمد آصف جو ملا صاحب کی مدد کیلئے ایک جماعت کے ساتھ آئے تھے اپنے ہمرائیوں سمیت شہید ہوئے ، فدوی محمد سعید (فرزند دوم ، ملا قطب الدین شہید ) اور کچھ طلباء نیز پر گنہ سہالی کے قاضی عبد اللہ کے بھائی اور نائب فضل اللہ بھی اس ہنگامہ میں زخمی ہوئے"

حسن صہیب مراد: وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا

شاہد صدیقی 

روزنامہ دنیا ، 

تاریخ اشاعت : 18 ستمبر 2018

حسن صہیب مراد 
کبھی کبھی گھر سے ہم اپنی منزل کا تعین کرکے نکلتے ہیں‘ لیکن راستے میں ہمیں کوئی نادیدہ آواز پکارتی ہے اورہمارے قدم بے اختیار اس کی طرف اٹھناشروع ہوجاتے ہیں۔اس دن بھی ایساہی ہوا تھا۔ ان دنوں میں کراچی میں آغاخان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشنل ڈیویلپمنٹ میں پڑھاتا تھا۔ تین سال یہاں پڑھانے کے بعد میرا انتخاب کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں ہوگیا تھا۔ یہ1999ء کے سال کا ایک روشن دن تھا۔ اُس روز ہمدرد یونیوسٹی کی کانوکیشن تھی۔ کیسااتفاق تھاکہ میرے ساتھ والی نشست حسن صہیب مراد کی تھی۔ یہ حسن بھائی کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی۔ ابتدائی تعارف کے بعد جب انہیں معلوم ہوا میرا انتخاب کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں ہوگیاہے ‘توانہوں نے بڑی سنجیدگی سے مجھے کہا: آپ ہمارے پاس لاہورکیوں نہیں آجاتے؟ یادرہے یہ دودہائیوں پہلے کاذکر ہے ‘اُس وقت حسن بھائی انسٹی ٹیوٹ آف لیڈرشپ اینڈ مینجمنٹ چلارہے تھے۔ نا جانے اُن کی گفتگو میں کیاتاثیرتھی یااُن کی دلاویز مسکراہٹ میں کیاسحرتھا کہ میں نے جدہ جانے کاارادہ ترک کردیا اورحسن بھائی کے قافلے میں شریک ہوگیا۔اس ابتدائی قافلے میں عابدشیروانی‘ حبیب واحدی‘ عبدالغفار غفاری‘شاہین رشید اور زاہد وڑائچ بھی شامل تھے۔ سلیم منصور خالد کے گراں قدر مشورے بھی شامل ِحال تھے۔

سیّد مودودیؒ : ایک مجاہد راہِ حق

مصباح الاسلام فاروقی 

 ترجمہ و تلخیص :رفیع الدین ہاشمی

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ،
 شمارہ، ستمبر 2018

ذیل میں مصباح الاسلام فاروقی مرحوم کی کتاب Introducing Maududi کی تلخیص پیش کی جارہی ہے۔ یہ مختصر سی کتاب ادارہ مطبوعاتِ طلبہ کراچی نے ۱۹۶۸ء میں شائع کی تھی۔
فاروقی صاحب قیامِ لاہور کے زمانے میں جماعت اسلامی پاکستان کے شعبۂ نشرواشاعت سے وابستہ رہے۔ بعدازاں کراچی چلے گئے اور تقریباً دس برس ادارہ معارف اسلامی کراچی میں بطور تحقیق کار کام کیا۔ مولانا کی شخصیت اور کارناموں پر متعدد ملکی اور غیرملکی مصنّفین نے قلم اُٹھایا ہے لیکن مولانا کے کارناموں کو جس پُرخلوص محبت اور ذوق و شوق سے مصباح الاسلام فاروقی نے اُجاگر کیا ہے، وہ دیگر مصنّفین کے ہاں ناپید ہے۔ قارئین ترجمان کے لیے،فاروقی صاحب کی اس تحریر کا اُردو خلاصہ، دل چسپی کا باعث ہوگا۔ خیال رہے کہ یہ تحریر مولانا کی حیات ہی میں ۱۹۶۸ء میں لکھی گئی تھی۔ (ادارہ)

ایسے شخص کے بارے میں قلم اٹھانا، جس نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب، اُسوہ اور دعوت کی طرف اُمت کی راہ نمائی کی ہو اور جو دینِ حق کے قیام کی کوشش کرنے والی ایک تحریک کا سربراہ بھی ہو ، کوئی آسان کام نہیں۔
ایک نظر دیکھا جائے تو مولانا مودودی کی ذات میں قدرت نے بعض ایسی صلاحیتیں جمع کردی ہیں جو تاریخ عالم کی بہت کم شخصیتوں میں ملتی ہیں۔ وہ جس محنت اور تندہی سے کام کر رہے ہیں، وہ عدیم النظیر ہے۔ انھوں نے احیاے اسلام کی ایک عظیم الشان تحریک اٹھائی ہے۔ چناں چہ جب تک دین کے لیے کام پر لوگوں کا ایمان باقی ہے، جماعت اسلامی کو ان کے ذہنوں سے محو نہیں کیا جا سکتا۔

سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ۔۔۔ ایک نادر شخصیت



ڈاکٹر عمر فاروق احرار

سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ 
حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی انمول یادوں کے تذکرے جس طرح اہلِ اسلام کے دلوں میں تازہ ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ شاہ صاحب اب بھی ہم میں موجود ہیں، حالانکہ انہیں اس عالم سے رخصت ہوئے نصف صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے، مگر اُن کی یادوں کی خوشبو آج بھی سروسمن کی وسعتوں سے دارو رسن کی حدوں تک پھیلی ہوئی ہے۔سید عطاء للہ شاہ بخاری 23؍ ستمبر 1892ء میں صوبہ بہار (انڈیا) کے علاقہ پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ خاندانی نجیب الطرفینی ان کا مقدر بنی۔ اوائل عمری میں ہی اردو زبان وبیان کے رموز سے بہرہ ور ہوئے۔ علم کی پیاس پٹنہ سے امرتسر کے مردم خیز خطّے میں لے آئی۔ تعلیم تکمیل کو پہنچا ہی چاہتی تھی کہ ہندوستان میں تحریک خلافت کا آغاز ہوگیا۔ امرتسر ان دنوں سیاست کا مرکز تھا۔ شاہ صاحب بھی سیاست کی تپش سے محفوظ نہ رہ سکے۔ تعلیم کا سلسلہ موقوف کیا اور سامراج کے تُرک مسلمانوں پرظلم وزیادتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ شعلہ بار خطابت کا ملکہ قدرت نے وافر مقدار میں مہیا کر رکھا تھا۔ بس اسے آگ دکھانے کی دیر تھی۔ خلافت عثمانیہ کے نحیف و نزار وجود کو انگریزوں نے روند ڈالا تو سید عطاء اللہ شاہ بخاری برصغیر کے چپے چپے میں پہنچے اور انہوں نے اپنی آتشیں تقریروں سے فرنگی سرکار کے خلاف عوام الناس کے دِلوں میں بغاوت کے شعلے بھڑکا دئیے۔ اسی تحریک خلافت میں ہی وہ پہلی مرتبہ عین عالم شباب میں جیل کی آزمائشوں میں ڈ الے گئے اور قید و بند کا یہ سلسلہ ایسا مضبوط ہوا کہ پھران کی ساری زندگی ’’ریل اور جیل‘‘ سے عبارت ہوگئی۔

کامیابی کیلئے چند اصول

 وارن ایڈورڈ بفٹ
(Warren Edward Buffett)
کامیابی پہلے ہی دن کسی کو نہیں مل جاتی، ہر کامیابی کے پیچھے جہد مسلسل کی ایک طویل داستان ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ناکامی کو اپنی قسمت جان کر ساری عمر اسے کوستے رہنے میں گزار دیتے ہیں اور کچھ اسی ہار کو پتھر مان کر قلعے تعمیر کر دیتے ہیں۔ ہر کامیاب انسان محنت اور جدوجہدکے معنی ومطالب سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے اور یہی دو چیزیں ان کی زندگی کےلیے کچھ اصول متعین کرتی ہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ کامیاب لوگ بااصول اور منظم ہوتے ہیں، جن پر چلتے ہوئے وہ مرحلہ وار پر عزم سفر کو طے کرتے ہیں اور کامیابی کی سند پالیتے ہیں۔ وارن بفٹ، دنیا کی سب سے بڑی ملٹی نیشنل کمپنی تشکیل دینے والے، بیسویں صدی کے سب سے کامیاب سرمایہ کار،انسان دوست شخصیت ،بااثر ترین فرد اور دنیا کے امیر ترین اشخاص میں سے ایک ہیں ۔ وارن بفٹ ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ 

کون جانتا تھا کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں آنکھ کھولنے والا،اسکول بریک میں بچوں میں ٹافیاں اور بسکٹ فروخت کرنے والا یہ بچہ بڑا ہوکر دنیا کا کامیاب سرمایہ کار اور امیر ترین آدمی بن جائے گا۔ وارن بفٹ کی کامیاب زندگی کا اپنا فلسفہ حیات ہے اور اس کے کچھ اصول ہیں، جسے وہ ہر مڈل کلاس،آمدنی میں اضافےکے متلاشی اور خوش حال زندگی گزارنے کے خواہش مند افراد کے لیے بھی وضع کرتے ہیں۔ جو اصول وارن بفٹ کی کاروباری زندگی کا نچوڑ ثابت ہوئےوہ ایک عام شخص کی زندگی میں بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

کفایت شعاری

گزشتہ برس کی ایک رپورٹ کے مطابق وارن بفٹ کے اثاثوں کی کُل مالیت 83ارب ڈالر ہےلیکن اس کے باوجود وارن بفٹ آج بھی اسی گھر میں رہتے ہیں جو انھوں نے1958ء میں31ہزار500ڈالر میں خریدا تھا۔ وارن بفٹ وسائل بڑھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زائد آمدنی کو خرچ کرنے کے بجائےایمرجنسی صورتحال کے لیے محفوظ رکھنا چاہیے۔ جو لوگ کفایت شعاری اپناتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ اپنے کاروبار میں انویسٹ کرسکتے ہیں۔ وارن بفٹ کا کہنا ہے کہ انسان خرچ کرنے کے بعد بچ جانے والے پیسوں کو بچت سمجھتا ہے جبکہ بچت کا اصل تصور تو یہ ہے کہ جو بچت نکالنے کے بعد خرچ کیے جائیں۔

مولانا محمد علی جوہر،حیات و خدمات

تحریک خلافت
مولانا محمد علی جوہر
 یہ سن نوے کے عشرے کی بات ہے میں جب بھی انڈیا آفس لائبریری جاتا جو اس وقت دریائے ٹیمز کے کنارے اوربٹ ہاؤس کی عمارت میں واقع تھی تو دارالمطالعہ میں ایک صاحب کو ایک میز پر فائلوں کے ڈھیر کے پیچھے نہایت جانفشانی اور لگن کے ساتھ نوٹس لیتا دیکھتا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہال میں بڑے نمایاں انداز سے رکھی ہوئی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سربراہ کی سرخ مخمل والی شاہانہ کرسی کی طرح یہ صاحب بھی اس ہال کی ایک مستقل تنصیب ہیں۔
ان صاحب سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ صابر ارشاد عثمانی ہیں جو مولانا محمد علی جوہر کی زندگی اور ان کی خدمات کے بارے میں ایک کتاب کے لیے تحقیق کر رہے ہیں۔

دس برس کی تحقیق اور مطالعہ کے بعد عثمانی صاحب کی کتاب مقتدرہ قومی زبان پاکستان نے شائع کی ہے اور انہوں نے واقعی ایک ہشت پہلو کارنامہ انجام دیا ہے۔

یوں تو مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت اور ان کی خدمات کے بارے میں اب تک بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن عثمانی صاحب کی یہ کاوش کئی اعتبار سے منفرد ہے۔ انہوں نے مولانا کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو خود ان کی تحریروں اور تقاریر سے اجاگر کیا ہے اور انہی کی زبانی بہت سے ایسے ان سوالات کا جواب دیا ہے جو مولانا کی شخصیت اور ان کی سیاست کے ضمن میں بہت سے لوگوں کے ذہن میں ابھرتے رہے ہیں۔

علم کے سایے میں

مریم جمیلہ

(معروف نومسلمہ اور مصنفہ : 1934-1912) 

چھوٹی سی تھی، جب میں اسکول میں داخل ہوئی۔ میرے مطالعے کا آغاز اسی زمانے میں ہوا۔ چھے برس کی عمر میں کچھ پڑھ لینے کے قابل ہونے سے قبل ابّا ، امی اور باجی سونے سے قبل مجھے بلند آواز میں کہانیاں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ اس چھوٹی عمر میں مجھے جانوروں کی کہانیاں خاص طور پر رڈیارڈ کیپلنگ کی ’جنگل کہانی ‘ بے حد پسند تھی۔ جوں جوں میں بڑی ہوتی گئی، مجھے دنیا کے مختلف ممالک کے بچوں کی کہانیاں پسند آنے لگیں۔ دس برس کی عمر میں مجھ میں سوانح عمریاں اور تاریخ کے مطالعے کا ذوق پیدا ہوا۔

کالج کے زمانے میں دیکھا کہ میری امی کو انگریزی ادبیات سے والہانہ لگائو تھا، لیکن میری طبیعت کا رجحان ابّا کے ذوق، یعنی غیر ادبی چیزوں کی طرف تھا ۔ اگرچہ مجھے مطالعے کی پیاس لگی رہتی تھی، تاہم اسکول میں انگریزی ادبیات کا مضمون مجھے پہاڑ معلوم ہوتا تھا ۔ بچپن ، بلوغت اور جوانی کے زمانوں میں کبھی نظم یا نثر میں انگریزی کلاسیکی ادب کا مطالعہ مجھ سے نہ ہو سکا ۔ استادوں کے مجبور کرنے سے پڑھنے کا معاملہ ایک مختلف بات ہے۔ انگریزی کا کلاسیکی ادب مجھے بیزار کن ، بے معنی اور اپنی دل چسپیوں سے غیر متعلق نظر آتا اور تھوڑا بہت جو کچھ میں پڑھتی وہ بھی میرے حافظے میں جڑ نہ پکڑتا ۔ چاسر، شیکسپیئر ، کیٹس ، شیلے اور دوسرے کلاسیکی انگریز ادیب نہ تو میرے لیے دل چسپی کا کوئی سامان فراہم کر سکے اور نہ میں ان کے بارے میں کچھ جان ہی سکی۔ ان کی زبان اور ان کے خیالات دونوں میرے لیے اجنبی اور ناقابل فہم تھے۔ آپ یوں سمجھ لیجیے کہ انگریزی کے کلاسیکی ادب کی مجھے ہوا تک نہیں لگی۔

سید مودودیؒ کی فکری کاوشوں کی عصری معنویت

ڈاکٹر محمد رفعت 


معروف اسلامی مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۱۹۰۳ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۷۹ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ گویا بیسویں صدی کے بڑے حصے پر آپ کی زندگی محیط ہے۔ اس زمانہ کا مطالعہ کریں تو سید مودودیؒ کی فکری کاوشوں کی معنویت سمجھی جاسکتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اللہ کی ہدایت پر مبنی فکر وپیغام کو خود سمجھنا اور دنیا کے سامنے پیش کرنا اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے۔ دینی فکر کسی شخص کی طرف منسوب نہیں، بلکہ اس کا موزوں نام فکر اسلامی ہے۔ یعنی وہ فکر جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے دین پر ہے۔ اس کو سمجھنے اور اس کی تشریح کرنے میں مسلمانوں کے اہلِ علم نے اہم رول ادا کیا ہے۔ وحی الٰہی پر مبنی اس فکر کی مستند تشریح خود نبی کریمؐ نے فرمائی ہے۔ آپ کے بعد امت کی ہر نسل اسلامی فکر کو سمجھنے کی، اسے ترقی دینے کی اور اس کا انطباق کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ امت کے اہلِ علم میں اپنا نمایاں مقام رکھتے ہیں اور انھوں نے بھی اسلامی فکر کے ارتقاء میں حصہ لیا ہے۔

کچھ عرصے سے بعض دوستوں نے ’فکر مودودیؒ‘ کی اصطلاح کا استعمال شروع کردیا ہے۔ یہ اصطلاح مناسب نہیں۔ جس فکر کو داعیانِ حق کو پیش کرنا ہے، وہ ’فکر مودودی‘ نہیں بلکہ فکر اسلامی ہے۔ اس کو سمجھنا، فروغ دینا اور دنیا کے سامنے پیش کرنا مقصود ہے۔ ہر صاحبِ علم کی طرح سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بڑا کارنامہ یقیناً انجام دیا ہے۔ اس کی قدر کی جانی چاہیے۔ انھوں نے اسلامی فکر کو سمجھنے اور اس کی تشریح کرنے میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔