مغربی فلسفہ اور ادب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مغربی فلسفہ اور ادب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مقدرات کے مبنیٰ و معاونین ۔ ساجد حمید

مبنیٰ ۱؂


مقدر مقدمات کا استعمال تمام زبانوں میں سماجی، ذہنی، لسانی اور اخلاقی مبانی پر منحصر رہتے ہوئے ہوتا ہے۔ یعنی مقدرات ہمارے تسلیم شدہ مقدمات پرمبنی ہوتے ہیں۔ مقدرات کے یہ مبنیٰ ہم نے عرض کیا تھا کہ آفاقی (universal) بھی ہوتے ہیں اور علاقائی (local) بھی۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ مقدرات کبھی الل ٹپ نہیں ہوتے، بلکہ وہ ہمارے اکتسابی و جبلی علم و تصورات پر قائم ہوتے ہیں۔ آفاقی تصورات تمام انسانوں کے مشترکہ محسوسات اور مشترکہ جبلی امور پر قائم ہوتے ہیں ۔
مصنف: ساجد حمید

مثلاً، ہماری علمی فطرت میں تقابل و موازنہ ایک عمومی طرز تجزیہ و فکر ہے۔ بلکہ حکما اسے ایک جملے میں یوں بیان کرتے ہیں کہ ’تعرف الأشیاء بأضدادہا‘۔ مردوعورت، زمین وآسمان، ظلمت و نور، گھٹیا و اعلیٰ اسی طرح کے تقابل کا بیان ہیں۔ تقابل کے طریقے کا مطلب یہ ہے کہ دو چیزیں باہم مقابلے و موازنے میں لائی جائیں، خواہ متضاد ہوں خواہ ہم آہنگ۔ مثلاً قلم وقرطاس تحریر کے میدان میں دو ہم آہنگ مقابل ہیں، جب کہ آگ اور پانی عام زندگی میں دو متضاد مقابل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ہماری فطرت کا علمی شعبہ دیگرطریقوں کے ساتھ ساتھ موازنے کے طریقے پر بھی چیزوں کو سمجھتا ہے ۔اسی سے زبان و کلام میں تقابل کا اسلوب جنم لیتا ہے۔ہر بولنے والا اس جبلت کے سہارے پر چیزوں کو مقابل میں پیش کرتا اور بلاتبصرہ ہماری جبلت کو دعوتِ موازنہ دے دیتا ہے ۔ اسی طرح تمام مقدرات ایسے ہی مسلّم مقدمات اور طریقوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ غوروفکر کے طریقے کی طرح زبان میں بھی تقابل ایک بین الالسنۃ مانا ہوا لسانی اسلوب ہے۔ صنعتِ تضاد ۲؂ کی اصطلاح اسی طرح کے ایک اسلوب کو بیان کرتی ہے۔

درج ذیل سطور میں ہم قرآن سے چند مثالیں دیکھیں گے اور کوشش کریں گے کہ ان کے اندر کے مقدمات کی لسانی اور علمی و فکری بنیادیں واضح کریں۔
پہلی مثال

قرآن نے کلمۂ طیبہ کو شجرِ طیبہ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے:
کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ.(ابراہیم ۱۴: ۲۴)
’’شجر طیبہ کے مانند جس کی جڑ — استقرار پائے ہوئے ہے اور جس کی شاخ آسمان میں — ہے۔‘‘

ترجمہ میں خالی جگہوں پر غور کریں۔ جڑیں کہاں استقرار پائے ہوئے ہیں، مذکور نہیں ہے۔ تمام انسان اپنے تجربات سے جانتے ہیں کہ ہر درخت کی جڑیں زمین میں گڑی ہوئی ہوتی ہیں۔یہ آفاقی حسی مشاہدہ ہے جو مقدر کا کردار ادا کررہا ہے۔ لہٰذا اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔دوسری خالی جگہ میں بھی غور کریں کہ درخت کا تنااور شاخیں آسمان میں بلند ہوتی ہیں۔ بالکل معلوم و معروف بات ہے۔ لہٰذا بیان نہیں کیا۔ اب اسی آیت کے مفہوم کو میں یوں لکھوں تو غلط نہیں ہوگا:
شجر طیبہ کے مانند جس کی جڑ زمین میں استقرار پائے ہوئے ہے اورجس کی شاخ آسمان میں اٹھی ہوئی ہے۔

کلام کی ایک اہم خوبی: مقدرات ۔ ساجد حمید

نومبر ۲۰۱۷ء کے اشراق کے شمارہ میں ہمارا ایک مضمون نظمِ قرآن کے حوالے سے شائع ہوا تھا۔ ہم نے اس میں مقدر مقدمات کو نظم قرآن کی کلید قرار دیا تھا۔ اس کے بارے میں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مقدمات کو مقدر کیوں رکھا، کلام کو بسیط کیوں نہیں بنایا کہ نظم کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا؟

اس کا ایک پہلو تو وہ ہے کہ جسے ہم نے عربوں کے طرز تخاطب کا پسندیدہ ترین وصف قرار دیا تھا کہ ’خیر الکلام قل ودل‘، اس لیے ان کے لیے موثر کلام وہی ہوسکتا تھا جو ان کے اس اسلوب پر بہ حسن و خوبی پورا اترتا ہو۔ ذیل میں ہم ایک مثال سے بات کو سمجھاتے ہیں، جس میں عربوں کا کلام مختصر کرنے کے طریقے کی ندرت شاید کچھ واضح ہوگی:
وَاِنْ تَجْھَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی.(طٰہٰ ۲۰: ۷)

’’اور اگر تم قول کو بلند آواز سے کہو، تو وہ مخفی، بلکہ مخفی تر باتوں کو جانتا ہے۔‘‘

اس آیت کا میں نے صرف ترجمہ کردیا ہے۔ترجمہ میں دیکھیے کہ ہم اردو مذاق لوگوں کو ایک خلا سا نظر آئے گا۔ یعنی پہلے کہا گیا کہ اگر تم بلند آواز میں بولو، پھر کہا گیا کہ اللہ پوشیدہ اور مخفی باتوں کو جانتا ہے۔ یہ بتایا ہی نہیں کہ وہ بلند آواز سے کہی گئی بات کو جانتا ہے یا نہیں۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ مخفی بات آ کہاں سے گئی؟ اس لیے کہ بات تو بلند آواز سے کہے گئے قول کے بارے میں ہو رہی تھی۔ جملہ تو یوں ہونا چاہیے تھا کہ اگر تم بلند آواز سے بولو تو اللہ اس کو جانتا ہے۔ یہ خلا ہمیں اس لیے نظر آرہے ہیں کہ ہم عربوں کے اسلوب میں بات نہیں کرتے۔لیکن اردو میں ہم ایک ملتا جلتا اسلوب رکھتے ہیں، لیکن وہ عموماًجملوں کے اختتام پر آتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں: ’’کل سے میں نے نہ کھانا کھایا اور نہ پانی‘‘۔ یعنی ہم پانی کے بعد ’’پیا‘‘ کا فعل حذف کردیتے ہیں، اس لیے کہ پچھلے کلام اور ’’پانی‘‘ کے لفظ سے واضح تھا۔ تو پورا جملہ یوں تھا: ’’کل سے میں نے نہ کھانا کھایا اور نہ پانی پیا‘‘۔ جس طرح ہم نے اردو کا جملہ پورا کیا ہے،ایسے ہی قرآن کا جملہ مکمل کردیں تو وہ یوں ہو گا:
اگر تم بلند آواز سے بات کرو، تو اللہ اسے جانتا ہے، اور اگر مخفی طریقے سے کرو تو اللہ تمھاری مخفی باتوں کو بھی جانتا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کرمخفی باتوں کو بھی جانتا ہے۔

خدا سے متعلق الحاد کے 10 سوالات (حصہ سوم) ۔ جاوید احمد غامدی


 اس پروگرام میں درج ذیل سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں:

1۔ کیا جانوروں پر ظلم اور ان کا آپس میں ایک دوسرے کو چیر پھاڑ دینا بھی کسی آزمائش کا حصہ ہے؟

2۔ کیا کائنات کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا دیا گیا ہے؟

3۔ جانوروں کے ذبح کرنے کے بارے میں ملحدین کے اعتراضات کا اسلام کیا جواب دیتا ہے؟

4۔ کیا قدرت کے معاملات میں مداخلت کے نتیجے میں انسان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

5۔ اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کیے گئے جانور کا گوشت کھانا کیوں جائز نہیں ہے؟

6۔ اسلام نے جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی کس حد تک تاکید کی ہے؟

خدا سے متعلق الحاد کے 10 سوالات (حصہ دوم ) - جاوید احمد غامدی


اس پروگرام میں درج ذیل سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں:

1۔ اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے میں کیا حکمت ہے کہ وہ کہیں ظلم کو روک دیتے ہیں اور کہیں ہونے دیتے ہیں؟
2۔ بچوں کو کس اصول کے تحت آزمایش میں ڈالا جاتا ہے؟
3۔ کیا آزمایش میں استثنا اس وجہ سے نہیں دیا گیا کہ اس کے نتیجے میں آزمایش کی اسکیم ہی ختم ہو جاتی؟
4۔ حضرت خضر علیہ السلام کے بچے کو مارنے کے واقعہ میں کیا حکمت ہے؟
5۔ قوموں پر عذاب کے نتیجے میں بچے کس گناہ کی بنیاد پر اس کا شکار ہوتے ہیں؟
6۔ معاندین کے خلاف جنگ میں بچوں اور عورتوں کو مارنے سے اسلام نے کیوں روکا ہے؟
7۔ کیا اللہ تعالیٰ خود بھی دنیوی اخلاقیات کے پابند ہیں؟
8۔ نماز نہ پڑھنے کے نتیجے میں بچے کو مارنے والی حدیث کی حقیقت کیا ہے؟
9۔ پیدایشی طور پر معذور بچے کس پہلو سے والدین کے لیے امتحان ہوتے ہیں؟

فلسفہِ رواقیت: زندگی میں غیر یقینی حالات سے نمٹنے کا ایک قدیم نسخہ

اماندہ روگری
بی بی سی فیوچر
23 مارچ 2022 ء 



بہت سارے لوگوں کے لیے دنیا مسلسل اتھل پتھل کا شکار ہے جس سے نمٹنا بعض افراد کے لیے کافی مشکل ہو سکتا ہے، لیکن کیا رواقیت (Stoicism) کا فلسفہ ایسے دشوار ادوار کو برداشت کرنے میں کوئی مدد دے سکتا ہے؟


ان کے لیے یہ ایک انتہائی مشکل زندگی تھی۔ وہ غلامی میں پیدا ہوئے، ایک موقع پر ان کے مالک نے ان کی ٹانگ توڑ دی تھی جس کی وجہ سے وہ معذور ہوگئے تھے۔ آخر کار انھیں آزادی مل گئی، انھوں نے اگلے 25 سال اپنے شوق کو پورا کرنے میں بسر کیے۔ جس کا مقصد صرف یہ نکلا کہ ان کی تمام کوششوں کو ایک آمر نے غیر قانونی قرار دے دیا۔ وہ بیرون ملک بھاگ گئے، اور باقی زندگی جلاوطنی اور غربت میں بسر کی۔


یہ سوانحی خاکہ اُس یونانی فلسفی ایپِکٹیٹس (Epictetus) کی زندگی کے بارے میں ملتا ہے جو سنہ 55 عیسوی کے آس پاس پیدا ہوئے تھے۔ وہ 'فلسفہِ رواقیت' (Stoicism) کا نظریہ پیش کرنے والے فلسفی تھے۔ تاہم ان کی زندگی کے بارے میں مورخین کے اختلافات ہیں۔

عدم سے وجود کا معمہ

عدم سے وجود کا پُراصرار معمہ: 

 بِگ بینگ یا 'اِنفجارِ کبیر' سے پہلے کیا موجود تھا؟


الیسٹر وِلسن
'دی کنورسیشن' کی رپورٹ


یہ کائنات عدم سے وجود میں کیسے آئی یا جسے ہم عدم سمجھتے ہیں اُس سطح پر کیا کسی کا وجود تھا؟ یہ ایک پُراسرار معمہ ہے۔ لیکن قدرت کے یہ راز چند ماہرینِ طبیعیات کو کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے کے دور کو جاننے کی کوششوں کو روک نہیں سکی ہے۔


میرا خیال ہے کہ عدمِ وجود سے عدمِ وجود ہی نکلتا ہے۔ کسی شہ کے وجود میں آنے کے لیے کسی مادّے کے وجود کا یا اجزا کا ہونا ضروری ہے، اور ان کا حصول بھی ممکن ہونا چاہیے، اس کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہیے۔ وہ مادّہ کہاں سے آیا جس کی وجہ سے 'انفجارِ کبیر' (بِگ بین کا دھماکہ) ہوا، اور سب سے پہلے تو یہ کہ ایسا کیا ہوا کہ وہ مادّہ وجود میں آیا؟ یہ سوال آسٹریلیا کے پیٹر نے کیا۔


بی بی سی کی کائنات کے بارے میں حالیہ سیریز ’یونیورس‘ میں معروف طبیعیات دان برائن کاکس نے خبردار کیا کہ 'آخری ستارہ آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور ختم ہو جائے گا۔ اس کے ختم ہو جانے کے ساتھ کائنات ایک بار پھر خالی ہو جائے گی، بغیر روشنی کے، بغیر زندگی کے، یا بغیر معنی کے۔'


اس آخری ستارے کے دھندلا ہونے کے ساتھ صرف ایک لامحدود طویل، تاریک دور کا آغاز ہوگا۔ تمام مادّے کو آخرکار کائنات کا دیو ہیکل 'سیاہ سوراخ' (بلیک ہولز) نگل لے گا، جس کے نتیجے میں روشنی کی مدھم ترین جھلک بخارات میں تبدیل ہو جائے گی۔ کائنات ہمیشہ باہر کی طرف پھیلے گی یہاں تک کہ وہ مدھم روشنی بھی اتنی زیادہ پھیل جائے گی کہ اس کا وجود تقریباً معدوم ہو جائے گا۔ ایک لحاظ سے کائنات میں تمام سرگرمیاں بند ہو جائیں گی۔


کیا واقعی ایسا ہوگا؟ عجیب بات یہ ہے کہ علومِ کائنات کے کچھ ماہرین (کاسمولوجسٹس) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک پچھلی، ٹھنڈی اندھیری خالی کائنات جو ہمارے مستقبل بعید میں موجود ہے، ہمارے اپنے ہی انفجارِ کبیر' (بگ بینگ) کا ذریعہ یا سبب ہو سکتی تھی۔

پہلا مادّہ

لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس مقام تک پہنچیں آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ 'مادّہ' - ٹھوس جسمانی مادہ - سب سے پہلے کیسے وجود میں آیا۔ اگر ہم ایٹموں یا مالیکیولز سے بنے مستحکم مادّے کی ابتدا کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں تو یقیناً بگ بینگ کے آس پاس اس میں سے کوئی چیز موجود نہیں تھی اور نہ ہی اس کے بعد کے کروڑوں سالوں تک اس کا کوئی وجود تھا۔


درحقیقت ہمیں اس بات کی کافی سمجھ ہے کہ ایک بار جب حالات کافی ٹھنڈے ہو جاتے ہیں تو پیچیدہ مادے کے مستحکم ہونے کے لیے پہلے ایٹم کس طرح سادہ ذرات سے بنتے ہیں، یہ ایٹم بعد میں ستاروں کے اندر بھاری عناصر میں مل جاتے ہیں۔ لیکن یہ وضاحت اس سوال کا جواب نہیں دیتی ہے کہ عدم سے کسی شہ کا وجود کیسے ظہور میں آیا۔


تو آئیے ہم اس سے بھی مزید پیچھے کے وقت میں سوچتے ہیں۔ کسی بھی قسم کے پہلے طویل عرصے تک رہنے والے مادے کے ذرّات پروٹون اور نیوٹران تھے، جو مل کر ایٹم نیوکلئس بناتے ہیں۔ یہ بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے دس ہزارویں حصے کے قریب وجود میں آئے۔ اس نقطہ سے پہلے لفظ کے کسی بھی واقف معنی میں واقعی کوئی مادّہ وجود نہیں رکھتا تھا، لیکن طبیعیات (فزکس) ہمیں ٹائم لائن کو پیچھے کی طرف کھوج لگانے کی اجازت دیتی ہے - جسمانی عمل (فیزیکل پروسس) تک جو کسی بھی مستحکم مادّے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

خدا کا وجود ، جاوید احمد غامدی

خدا کا وجود۔ جاوید احمد غامدی 
(نوٹ: یہ تقریر انگریزی زبان میں 9مئی 2009کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں کی گئی۔)

آج کی شام کے لیے جو موضوع ہے، وہ یہ ہے خدا کی دریافت کس طرح کی جائے:

How to discover God?

خدا کی دریافت کا معاملہ کوئی اکیڈمک معاملہ نہیں، یہ ہر انسان کا ایک ذاتی سوال ہے۔ ہر عورت اور مرد فطری طور پر اُس ہستی کو جاننا چاہتے ہیں جس نے اُن کو وجود دیا۔ میں بھی دوسروں کی طرح، اس سوال سے دوچار ہوا ہوں۔ میری پیدائش ایک مذہبی ماحول میں ہوئی۔ اِس کے اثر سے میں روایتی طور پر خدا کو ماننے لگا۔ بعد کو جب میرے شعور میں پختگی (maturity)آئی تو میں نے چاہا کہ میں اپنے عقیدے کو ریزن آؤٹ (reason out) کروں۔ اِس معاملے کی تحقیق کے لیے میں نے تمام متعلق علوم کوپڑھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خدا کا موضوع تین شعبوں سے تعلق رکھتا ہے فلسفہ، سائنس اور مذہب۔ یہان میں فلسفہ اور سائنس کی نسبت سے اپنے کچھ تجربات بیان کروں گا۔

سب سے پہلے مجھے فلسفہ میں اِس سوال کا ایک جواب ملا۔ مطالعہ کے دوران میں نے فرانس کے مشہور فلسفی رینے ڈیکارٹ (وفات: 1650) کو پڑھا۔ وہ انسان کے وجود کو ثابت کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں:
I think, therefore I am.
ڈیکارٹ کا یہ فارمولا جس طرح انسان کے وجود پر منطبق ہوتا ہے، اُسی طرح وہ خدا کے وجود کے لیے قابل انطباق (applicable) ہے۔ میں نے اِس قول پر اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا وجود خدا کے وجود کو قابل فہم بناتا ہے:
Existence of man makes the existance of God understandable

خدا کے وجود کے بارے میں یہ میرا پہلا فلسفیانہ استدلال تھا۔ میں نے کہا کہ میرا وجود ہے، اس لیے خدا کا بھی وجود ہے:
I am, therefoe God is.
فلسفہ کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تقریباً تمام فلسفی کسی نہ کسی طور پر ایک برتر ہستی کا اقرار کرتے تھے۔ اگرچہ انھوں نے ’’خدا‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے احتراز کیا، لیکن کچھ دوسرے الفاظ بول کر وہ خدا جیسی ایک ہستی کی موجودگی کا اعتراف کرتے رہے۔ مثلاً جرمنی کے مشہور فلسفی فریڈرک ہیگل (وفات: 1831) نے اِس برتر ہستی کو ورلڈ سپرٹ (world spirit)کا نام دیا، وغیرہ۔

ریاضی میں فیثاغورث کی شہرت کی وجہ کیا ہے؟

عبدالرحمن 

فیثاغورث (570 ق م - 495 ق م) ایک یونانی فلسفی ، مذہبی رہبر اور ریاضی دان تھا۔


وہ ساموس یونانی جزیرے سے جمیا مصر تک گیا۔ اور 530 قبل مسیح میں اطالیہ کی طرف کروٹون کی یونانی نگری میں آ کے بس گیا۔ ادھر اس کے ساتھ اس کے پیروکار رہتے تھے۔اسے اپنے خیالات کی وجہ سے اسے کروٹون چھوڑنا پڑا۔

ریاضی میں اس کی شہرت مسئلہ فیثاغورث کی وجہ سے ہے۔ اس نے ابتدا میں آیونیائی فلسفیوں تھیلس، اناکسی ماندر اور اناکسی مینیز کی تعلیمات کا مطالعہ کیا۔ 

کہا جاتا ہے کہ اسے پولی کریٹس کے استبدادیت سے تنفر کا اظہار کرنے کے باعث ساموس سے نکلنا پڑا۔ تقریباً 530 قبل مسیح میں وہ جنوبی اٹلی میں ایک یونانی کالونی کروٹون میں رہنے لگا اور وہاں مذہبی، سیاسی اور فلسفیانہ مقاصد رکھنے والی ایک تحریک کی بنیاد ڈالی جسے ہم فیثا غورث ازم کے نام سے جانتے ہیں۔ 

فیثا غورث کے فلسفہ کے متعلق ہمیں صرف اس کے شاگردوں کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے۔ فیثاغورث ازم کا مکتب تحریک کی صورت میں مختلف فلسفیوں کے ہاں فروغ پاتا رہا۔ لہٰذا اس میں بالکل مختلف فلسفیانہ نظریات شامل ہو گئے۔

 وسیع تر مفہوم میں بات کی جائے تو ابتدائی فیثا غورث پسندوں کی تحریروں میں دو مرکزی نکات ملتے ہیں: تناسخ ارواح کے متعلق ان کے نظریات، اور ریاضیاتی مطالعات میں ان کی دلچسپی۔ 

ہیراکلیتوس لکھتا ہے: ’’فیثا غورث نے کسی بھی اور انسان سے زیادہ گہرائی میں جا کر تحقیق کی۔‘‘ اس کی تعلیمات کے متعلق اس کی زندگی سے بھی کم تفصیلات میسر ہیں۔ 

ہیگل نے کہا کہ وہ ایک شاندار شخصیت کا مالک اور کچھ معجزاتی قوتوں کا حامل تھا۔ فیثا غورثی سلسلہ اصلاً ایک روحانی اطمینان کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا۔ اس کا مقصد پاکیزگی کے حصول کے لیے طریقہ کار وضع کرنا تھا۔ فیثا غورث نے تناسح کے ایک عقیدے کی تعلیم دی: یہ انسانوں اور جانوروں کو زمین کے بچے ہونے کے ناتے ایک جیسا خیال کرنے کے قدیم اعتقاد کی ترقی یافتہ صورت تھی۔ اس کی بنیاد مخصوص اقسام کی خوراک کھانا ممنوع قرار دینے پر تھی۔ یعنی جانوروں کے گوشت سے پرہیز۔ فیثاغورث پسند دیوتاؤں کو بھینٹ کیا ہوا گوشت کھایا کرتے تھے۔ 

ارسطو کہتا ہے کہ فیثا غورث نیکی پر بحث کرنے والا پہلا شخص تھا، اور اس نے اس کی مختلف صورتوں کو اعداد کے ساتھ شناخت کرنے کی غلطی کی۔ 

ہیراکلیتوس نے تسلیم کیا کہ سائنسی کھوج میں کوئی بھی شخص فیثا غورث کا ہم پلہ نہیں تھا۔ فیثا غورث کے مطابق سب سے بڑی پاکیزگی بے غرض سائنس ہے، اسے مقصد بنانے والا شخص حقیقی فلسفی ہے ۔ 

فیثا غورث پہلا شخص تھا جس نے ریاضی کو تجارت کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا اور اسے ایک قابل تحقیق علم کی صورت دی۔ اس نے اطاعت اور مراقبہ، کھانے میں پرہیز، سادہ لباس اور تجزیہ ذات کی عادت پر زور دیا۔ فیثا غورث پسند لافانیت اور تناسخ ارواح پر یقین رکھتے تھے۔ 

خود فیثا غورث نے بھی دعویٰ کیا کہ وہ کسی سابقہ جنم میں جنگ ٹروجن کا جنگجو یوفوربس تھا اور اسے اجازت دی گئی کہ اپنے تمام سابقہ جنموں کا حافظہ اس زمینی زندگی میں ساتھ لائے۔ 

فیثا غورث پسندوں کی وسیع ریاضیاتی تحقیقات میں طاق اور جفت اعداد پر مطالعہ بھی شامل تھا۔ اُس نے عدد کا تصور قائم کیا جو ان کی نظر میں تمام کائناتی تناسب، نظم و ضبط اور ہم آہنگی کا مطلق اصول ہے۔ اس طریقہ سے اس نے ریاضی کے لیے ایک سائنسی بنیاد قائم کی اور اسے رواج بھی دیا۔

 فلکیات کے معاملے میں فیثا غورث پسندوں نے قدیم سائنسی فکر کو کافی ترقی دی۔ سب سے پہلے اُس نے ہی کرہ ارض کو ایک ایسا کرہ تصور کیا جو دیگر سیاروں کے ہمراہ ایک مرکزی آگ کے گرد محو گردش تھا۔ انہوں نے کائنات کو ایک ہم آہنگ نظام کے تحت حرکت پذیر سمجھا۔ ان کے بعد کائنات کا آہنگ اور نظام تلاش کرنے اور سمجھنے کی کوششیں ہی فلسفہ اور سائنس کا مرکزی مقصد بن گئ۔

--------------
بشکریہ روزنامہ دنیا، تاریخ اشاعت : 18 فروری 2018