مشاہیر عرب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مشاہیر عرب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

شیخ محمد متولی الشعراوی: ایک عظیم مفسر، عالمِ دین اور فکری رہنما

محمد متولی الشعراوی (15 اپریل 1911ء / 17 ربیع الأول 1329ھ - 17 جون 1998ء / 22 صفر 1419ھ) ایک معروف مفسر، عالم دین اور مصر کے وزیر اوقاف تھے۔ وہ اپنی مخصوص انداز کی قرآنی تفسیر "خواطر" کے ذریعے مشہور ہوئے، جس میں انہوں نے قرآن کریم کے مفاہیم کو سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کیا، جس کی وجہ سے وہ عرب اور اسلامی دنیا کے لاکھوں مسلمانوں تک پہنچے۔ بعض لوگوں نے انہیں "امام الدعاۃ" (داعیوں کا امام) کا لقب دیا۔

شیخ محمد متولی الشعراوی

پیدائش

محمد متولی الشعراوی 15 اپریل 1911ء کو مصر کے صوبہ دقہلیہ کے ضلع مِیت غمر کے ایک گاؤں "دقادوس" میں پیدا ہوئے۔

تعلیم

انہوں نے گیارہ برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔ 1922ء میں وہ الزقازيق کے ابتدائی مدرسہ ازہریہ میں داخل ہوئے اور شروع ہی سے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل طالبعلم ثابت ہوئے۔ 1923ء میں انہوں نے ابتدائیہ ازہریہ کی سند حاصل کی اور ثانویہ ازہریہ میں داخلہ لیا۔ وہاں ان کی دلچسپی شعر و ادب میں مزید بڑھ گئی اور ان کے ساتھیوں نے انہیں طلبہ یونین اور "جمعیت الأدباء" (ادباء کی انجمن) کا صدر منتخب کیا۔ اس دور میں ان کے ہم عصر افراد میں ڈاکٹر محمد عبدالمنعم خفاجی، شاعر طاہر ابو فاشا، استاد خالد محمد خالد، ڈاکٹر احمد ہیكل اور ڈاکٹر حسن جاد شامل تھے، جو اپنی تحریریں انہیں دکھاتے اور ان سے اصلاح لیتے۔

شیخ الشعراوی کی زندگی میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب ان کے والد نے انہیں جامعہ ازہر، قاہرہ بھیجنا چاہا، جبکہ وہ گاؤں میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیتی باڑی کرنا چاہتے تھے۔ والد کے اصرار پر انہوں نے ایک چال چلی اور بہت ساری علمی و دینی کتابوں کی فرمائش کی تاکہ والد ان کے اخراجات سے گھبرا جائیں اور انہیں گاؤں میں رہنے دیں، مگر والد نے ان کی چال سمجھ لی اور تمام کتابیں خرید کر دے دیں، اور کہا: "بیٹے! میں جانتا ہوں کہ یہ کتابیں تمہارے نصاب میں شامل نہیں ہیں، مگر میں چاہتا ہوں کہ تم ان سے علم حاصل کرو۔"

1937ء میں انہوں نے جامعہ ازہر میں کلیہ اللغہ العربیہ (عربی زبان کی فیکلٹی) میں داخلہ لیا اور اس دوران قومی تحریکوں میں بھی سرگرم رہے۔ 1919ء کی برطانوی سامراج کے خلاف تحریک ازہر شریف سے اٹھی تھی اور الشعراوی بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مظاہروں میں شریک ہوتے اور خطبے دیتے، جس کی پاداش میں انہیں کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔ 1934ء میں وہ طلبہ یونین کے صدر بھی منتخب ہوئے۔

خاندانی زندگی

شیخ الشعراوی کی شادی ان کے والد کے انتخاب سے ہوئی، جبکہ وہ ابھی ثانویہ ازہریہ میں تھے۔ انہوں نے اس فیصلے کو قبول کیا اور اس ازدواجی زندگی سے ان کے تین بیٹے: سامی، عبد الرحیم، اور احمد اور دو بیٹیاں: فاطمہ اور صالحہ پیدا ہوئیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کامیاب ازدواجی زندگی کی بنیاد باہمی محبت، رضا مندی اور ہم آہنگی پر ہوتی ہے۔

پیشہ ورانہ زندگی

1940ء میں انہوں نے جامعہ ازہر سے گریجویشن مکمل کیا اور 1943ء میں تدریس کی اجازت کے ساتھ عالمیہ کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد انہیں طنطا کے دینی مدرسے میں معلم مقرر کیا گیا۔ پھر وہ الزقازيق اور اسکندریہ کے مدارس میں بھی تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1950ء میں وہ سعودی عرب گئے اور جامعہ ام القری میں شریعت کے استاد مقرر ہوئے۔

سعودی عرب میں انہیں عقائد کی تدریس کرنی پڑی، جبکہ ان کی اصل تخصص عربی زبان میں تھی، مگر انہوں نے اپنی غیرمعمولی تدریسی صلاحیتوں سے اس مضمون میں بھی کمال حاصل کیا۔ 1963ء میں جب صدر جمال عبدالناصر اور سعودی بادشاہ سعود کے درمیان سیاسی اختلافات پیدا ہوئے تو عبدالناصر نے الشعراوی کو مصر واپس بلا لیا اور انہیں جامعہ ازہر کے شیخ حسن مأمون کے دفتر کا ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔

بعد ازاں وہ الجزائر میں ازہری تعلیمی مشن کے سربراہ کے طور پر بھیجے گئے، جہاں انہوں نے سات سال تک خدمات انجام دیں۔ اسی دوران 1967ء میں عرب-اسرائیل جنگ (جسے مصر میں "نكسة" یعنی شکست کہا جاتا ہے) ہوئی، جس پر الشعراوی نے سجدہ شکر ادا کیا۔ بعد میں انہوں نے وضاحت کی کہ اس شکرانے کا سبب یہ تھا کہ مصر کو ایک ایسی حالت میں فتح نہیں ملی جب وہ سوویت کمیونزم کے زیر اثر تھا، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو دین کے خلاف فتنہ پیدا ہو سکتا تھا۔

مصر واپسی پر انہیں وزارت اوقاف میں مختلف ذمہ داریاں دی گئیں، جن میں مغربی مصر کے محکمہ اوقاف کے ڈائریکٹر، تبلیغ اور فکر کے نائب سیکرٹری، اور جامعہ ازہر کے نائب سیکرٹری کے عہدے شامل تھے۔ بعد ازاں وہ سعودی عرب لوٹ گئے اور جامعہ عبد العزیز میں تدریس کرنے لگے۔

1976ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ممدوح سالم نے انہیں اپنی کابینہ میں وزیر اوقاف اور امور ازہر کا قلمدان سونپ دیا، جہاں وہ 1978ء تک رہے۔

اہم خدمات اور مناصب

  • طنطا، اسکندریہ اور الزقازيق کے دینی مدارس میں تدریس

  • 1950ء میں سعودی عرب میں جامعہ ام القری کے مدرس

  • 1960ء میں معہد طنطا ازہری کے ناظم

  • 1961ء میں وزارت اوقاف میں تبلیغی امور کے ڈائریکٹر

  • 1964ء میں جامعہ ازہر کے شیخ کے دفتر کے ڈائریکٹر

  • 1966ء میں الجزائر میں ازہری مشن کے سربراہ

  • 1970ء میں جامعہ عبد العزیز (مکہ مکرمہ) میں مہمان استاد

  • 1972ء میں جامعہ عبد العزیز میں اعلیٰ تعلیمات کے شعبے کے صدر

  • 1976ء میں وزیر اوقاف و امور ازہر

  • 1980ء میں مجلس شورٰی کے رکن

  • 1987ء میں مجمع اللغہ العربیہ (عربی زبان و ادب کی اکادمی) کے رکن

الشیخ اسامہ الرفاعی - مفتی اعظم سوریا

الشیخ اسامہ الرفاعی ایک ممتاز شامی عالم دین اور مبلغ ہیں، جو 1944 میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دمشق یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور وہاں کے مختلف مساجد میں خطابت کے فرائض انجام دیے۔ تاہم، شامی حکومت کی طرف سے ان پر دباؤ بڑھنے کے بعد، وہ سعودی عرب اور ترکی ہجرت کر گئے۔

مفتی اعظم سوریا شیخ اسامہ رفاعی 

شیخ اسامہ الرفاعی کو شامی انقلاب کی حمایت کی وجہ سے شہرت ملی، جو کہ سابق صدر بشار الاسد کے خلاف تھا۔ نظام کے سقوط کے بعد، مارچ 2025 میں، انہیں نو منتخب شامی صدر احمد الشرع نے ملک کا مفتی اعظم مقرر کیا۔

پیدائش اور خاندانی پس منظر

شیخ اسامہ عبد الکریم الرفاعی 1944 میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ وہ مشہور عالم دین شیخ عبد الکریم الرفاعی کے بڑے صاحبزادے اور معروف داعی شیخ ساریہ الرفاعی کے بھائی ہیں۔

تعلیم اور علمی سفر

انہوں نے ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم دمشق میں حاصل کی اور 1971 میں دمشق یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں ڈگری حاصل کی۔ دینی علوم میں ان کی ابتدائی تربیت ان کے والد شیخ عبد الکریم الرفاعی نے کی۔ مزید برآں، انہوں نے کئی مشہور علماء سے بھی کسبِ علم کیا، جن میں شیخ خالد الجیباوی، عبد الغنی الدقر، احمد الشامی، محمود زیدان اور سعید الافغانی شامل ہیں۔

أبو إسحاق الحوینی: ایک عظیم محدث اور عالمِ دین

پیدائش اور ابتدائی زندگی

حجازی محمد یوسف شریف، جو اپنی کنیت "ابو اسحاق الحوینی" کے نام سے مشہور ہوئے، 10 جون 1956ء کو مصر کے صوبہ کفر الشیخ کے شہر الریاض کے گاؤں "حوین" میں پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ ان کا تعلق ایک متوسط دیہاتی خاندان سے تھا جو زراعت سے وابستہ تھا۔

ابو اسحاق حوینی : ایک عظیم محدث اور عالم دین

ان کے والد گاؤں کے معزز افراد میں شمار ہوتے تھے، اور انہوں نے اپنے بیٹے کا نام "حجازی" رکھا، جو حج کے مبارک موسم کی نسبت سے تھا۔ ان کی والدہ بھی علم کے میدان میں ان کے لیے ایک مضبوط سہارا تھیں۔

ابتدائی طور پر، انہوں نے اپنی کنیت "ابو الفضل" رکھی کیونکہ انہیں مشہور محدث حافظ ابن حجر عسقلانی سے محبت تھی، بعد ازاں انہوں نے اپنی کنیت تبدیل کرکے "ابو اسحاق" رکھ لی۔ اس کی ایک وجہ امام شاطبی سے ان کی عقیدت تھی، جبکہ ایک اور روایت کے مطابق، انہوں نے یہ کنیت مشہور صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے متاثر ہو کر اختیار کی۔

تعلیم اور علمی سفر

انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے قریبی اسکول "الوزاریہ" میں حاصل کی، جبکہ ثانوی تعلیم کفر الشیخ کے "الشهيد عبد المنعم رياض" اسکول میں مکمل کی، جہاں وہ سائنسی مضامین میں دلچسپی رکھتے تھے۔ بعد ازاں، انہوں نے قاہرہ کی جامعہ عین شمس کے کلیۃ الألسن (لسانیات) میں داخلہ لیا اور ہسپانوی زبان میں امتیازی نمبروں سے گریجویشن کیا۔

اپنی اعلیٰ کارکردگی کے باعث انہیں ایک تعلیمی وفد کے ساتھ اسپین بھیجا گیا، لیکن وہاں زیادہ دیر نہ رہ سکے اور جلد ہی مصر واپس آکر علومِ شرعیہ کے حصول میں لگ گئے۔

علومِ شرعیہ کی طرف میلان

تعلیمی سفر کے دوران، وہ رفتہ رفتہ دینی علوم کی طرف مائل ہوئے۔ انہوں نے قاہرہ میں معروف عالم دین اور خطیب شیخ عبد الحمید کشک کی تقاریر سننی شروع کیں، جو ان کی دینی بیداری کا پہلا سبب بنی۔

مشہور تابعی ، حضرت عمر فاروق ؓ کے پوتے سالم بن عبد اللہ کی شخصیت

 سالم بن عبد اللہ (وفات: ذوالحجہ 106ھ مطابق مئی 725ء) مدینہ کے ان تابعین میں تھے۔ جو علم و عمل کے امام تھے ۔

نام ونسب

سالم نام، ابو عمر کنیت، عمر فاروق کے نامور فرزند عبد اللہ بن عمر کے خلف الصدق تھے۔دادھیال کی طرح ان کا نانہال بھی روشن وتاباں تھا، عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں یزد گرد شاہنشاہ ایران کی جو لڑکیاں گرفتار ہوئی تھیں، ان میں سے ایک عبد اللہ بن عمر کو دی گئی تھی۔سالم اسی کے بطن سے تھے، اس طرح ان کی رگوں میں ایران کے شاہی خاندان کا خون بھی شامل تھا۔[2]

فضل وکمال

سالم کے والد حضرت عبداللہ بن عمر ان بزرگوں میں تھے جو علم و عمل کا پیکر اور زہد و ورع کی تصویر تھے۔ان کی تعلیم و تربیت نے انھیں بھی اپنا مثنیٰ بنادیا تھا،ارباب سیر کا متفقہ بیان ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی تمام اولادوں میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ عبداللہ تھے اور عبد اللہ کی اولادوں میں اُن کے مشابہ سالم تھے [3] اس طرح سالم گویا عمر فاروق کا نقشِ ثانی تھے۔ ان کا شمار مدینہ کے ان تابعین میں تھا جو اقلیم و عمل دونوں کے فرماں روا تھے علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ سالم فقیہ، حجت اور ان مخصوص علما میں تھے، جن کی ذات علم وعمل دونوں کی جامع تھی [4] امام نووی لکھتے ہیں کہ سالم کی امامت ،جلالت، زہد وورع اور علوئے مرتبت پر سب کا اتفاق ہے۔ [5]

تفسیر

تفسیر، حدیث، فقہ جملہ فنون میں ان کو یکساں درک تھا۔لیکن شدتِ احتیاط کی وجہ سے قرآن کی تفسیر نہ بیان کرتے تھے [6] اسی لیے مفسر کی حیثیت سے انھوں نے کوئی خاص شہرت نہیں حاصل کی۔

اسماعیل ہنیہ: اعتدال پسند اور مفاہمت کے حامی فلسطینی لیڈرکی شہادت



بی بی سی اردو 31 جولائی 2024 ء  

فلسطین کی عسکری تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک حملے میں مارے گئے ہیں۔

حماس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے جہاں انھیں نشانہ بنایا گیا۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہے جس پر اب تک اسرائیل کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

تہران میں ہونے والی یہ کارروائی اسرائیل کی جانب سے بیروت میں حملے کے چند گھنٹوں بعد سامنے آئی کہ جہاں ایران کے حمایت یافتہ لبنانی گروہ اور سیاسی تحریک حزب اللہ کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسماعیل ہنیہ ایک فلسطینی سیاست دان اور فلسطینی گروپ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ رہے۔ وہ دسویں فلسطینی حکومت کے وزیراعظم بھی تھے۔

ان کے سخت بیانات کے باوجود سیاسی مبصرین و تجزیہ کار عام طور پر غزہ سے تعلق رکھنے والے سخت گیر رہنماؤں محمد دیف اور یحییٰ سنوار کے مقابلے میں انھیں اعتدال پسند شخص کے طور پر دیکھتے ہیں۔

كلمة الأستاذ الدكتور خالد الكركي أمام خادم الحرمين في جائزة الملك فيصل


 

كلمة فضيلة الشيخ محمد شقرة نائباً عن الإمام الألباني عند تسلمه جائزة الملك فيصل للدراسات الإسلامية


 

جائزة ملك فيصل العالمية للشيخين سيد سابق ويوسف القرضاوي


 

كلمة الأستاذ حسن محمود الشافعي حين يتسلم جائزة الملك فيصل عام 2022ء


 

كلمة نادرة للشيخ العلامة حسنين محمد مخلوف رحمه الله


 

كلمة الأستاذ محمود شاكر في حفل تسلم جائزة الملك فيصل


 


كلمة الأستاذ محمود محمد_شاكر في حفل تسلم جائزة_الملك_فيصل عام 1404هـ = 1984م مُنِح الأستاذ محمود محمد شاكر الجائزة؛ وذلك تقديراً لإسهاماته القيّمة في مجال الدراسَات التي تناولت الادب العربي القديم والممثلَّة في: 1- تأليفه كتاب “المتنبي” سنة 1936 م، والذي حمل كثيراً من القيم العلمية والأدبية العالية، منها: التعمُّق في الدراسة والجهد والاستقصاء، والقدرة على الاستنتاج والدقة في التذوّق، والربط المحكم بين الشعر وأحداث الحياة، والكشف عن ذلك في تطوُّر أساليب المتنبي. 2- الآفاق العلميّة الجادّة التي ارتادها، وما كان من فضله على الدراسات الأدبية والفكرية، وعلى الحياة الثقافية والتراث الإسلامي. 3- مواقفه العامة، وتحقيقاته ومؤلّفاته الأخرى، التي ترتفع به إلى مستوى عالٍ من التقدير

الشيخ محمد الغزالي السقا – الحائز على جائزة الملك فيصل لخدمة الإسلام 1989


 

كلمة العلامة محمد بهجت الأثري أثناء تسلمه جائزة الملك فيصل 1986م




كلمة العلامة محمد بهجت الأثري أثناء تسلمه جائزة الملك فيصل 1406 هـ - 1986 م في الأدب العربي عن الدراسات التي تناولت الأدب العربي في القرنين الخامس والسادس الهجريين.

كلمة العلامة عبدالسلام هارون في حفل تكريمه بجائزة الملك فيصل للأدب العربي - ( ١٩٨١م)


ولد عبد السلام هارون في مدينة الإسكندرية في (25 ذي الحجة 1326 هـ، 18 يناير 1909م) ونشأ في بيت كريم من بيوت العلم، فجده لأبيه هو الشيخ هارون بن عبد الرازق عضو جماعة كبار العلماء، وأبوه هو الشيخ محمد بن هارون كان يتولى عند وفاته منصب رئيس التفتيش الشرعي في وزارة الحقانية (العدل)، وعمه هو الشيخ أحمد بن هارون الذي يرجع إليه الفضل في إصلاح المحاكم الشرعية ووضع لوائحها، أما جده لأمه فهو الشيخ محمود بن رضوان الجزيري عضو المحكمة العليا.

كلمة العلامة محمد عبد الخالق عضيمة في جائزة الملك فيصل 1403 هـ - 1983م

كلمة العلامة النحوي محمد عبد الخالق عضيمة الأزهري رحمه الله في أثناء تسلمه جائزة الملك فيصل للدراسات الإسلامية (الدراسات التي تناولت القرآن الكريم) عن كتابه دراسات لأسلوب القرآن الكريم سنة 1403 هـ - 1983 م .

علامہ ڈاکٹر يوسف قرضاوى کى شخصیت

مشاہیر اسلام
علامہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی شخصیت

ابتدائی زندگی 

یوسف قرضاوی کی پیدائش 9 ستمبر 1926ء کو مصر کے  مغربی صوبے کا علاقہ  المحلہ الکبری کے ایک گاؤں "صفط تراب" میں ہوئی- 

اور 26 ستمبر 2022 کو 96 سال کى عمر ميں قطر کى دار الحکومت دوحہ ميں ان کی وفات ہوئى- انا للہ و ان الیہ راجعون !

علامہ یوسف القرضاوی کی کم سنی میں ان کے والد فوت ہوگئے تھے، ان کی پرورش چچا نے کی، گھر والوں کی خواہش تھی کہ آپ بڑھئی یا دکان دار بنیں۔ لیکن انہوں نے قرآن کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور صرف 9 سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیاتھا۔

تعلیم اور خدمات

 قرآن کے حفظ کے بعد جامع ازہر میں داخل ہوئے اور وہاں سے ثانویہ  کے امتحان میں پورے مصر میں دوسرى پوزيشن حاصل کی۔  پھر جامع ازہر کے کلیہ اصول الدین میں داخلہ لیا اور وہاں  1953ء میں بی ایس اسلامیات کی سند حاصل کی، جس میں وہ اپنے ایک سو اسی ساتھیوں میں اول درجے سے کامیاب ہوئے۔ پھر 1954ء میں کلیہ اللغہ سے اجازتِ تدریس کی سند حاصل کی اور اس میں پانچ سو طلبائے ازہر کے درمیان اول درجے سے کامیاب ہوئے۔ 

اس کے بعد 1958ء میں انھوں نے عرب لیگ کے ملحقہ "معہد دراسات اسلامیہ" سے عربی زبان و ادب میں ڈپلوما کیا، ساتھ ہی ساتھ 1960ء میں جامع ازہر کے کلیہ اصول الدین سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، 

1973ء میں وہیں سے اول  درجے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی،  مقالہ کا موضوع تھا "زکوٰۃ اور معاشرتی مشکلات میں اس کا اثر" ۔

 تعلیم سے فراغت کے بعد وہ کافی عرصہ مصر کی وزارت مذہبی امور سے  وابستہ رہے ۔ 

علامہ یوسف القرضاوی علامہ ابن تیمیہ ، علامہ ابن قیم ،شیخ حسن البنا ، سید قطب ، مولانا ابو الحسن ندوی اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی فکر سے متاثر تھے ، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی پر انہوں نے کتاب بھی لکھی ہے ۔

علامہ قرضاوی علماء اسلام کی عالمی تنظیم کے سربراہ تھے، موتمر عالمی اسلامی سمیت متعدد فورمز کے رکن اور عہدے دار تھے ۔ اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ان کے پیروکاروں اور شاگردوں کی کثیر تعداد ہے۔

علامہ محمد على الصابونى


 إنا لله و إنا إليه راجعون

ملک شام کے مشھور عالم دین شیخ التفسیر و الحدیث علامہ محمد علی الصابونی 91 سال کی بھر پور علمی و روحانی زندگی گذارنے کے بعد19 مارچ   2021 کو ، ترکی میں وصال فرما گئے ۔ 

اللہ کریم انکے درجات بلند فرمائے ۔ شیخ محترم کی زندگی قابل رشک ہے ۔ 30 سال حرمین شریفین میں مقیم رہے اور وہاں تفسیر قرآن کا درس دیتے رہے ۔

ان کی مشھور زمانہ کتاب " صفوۃ التفاسیر"  بہت مفید اور جامع ہے ۔ یہ کتاب بھیرہ شریف میں الکرم یونیورسٹی کے نصاب کا حصہ بھی ہے ۔ 

آپ کی کتابوں کے نام ملاحظہ فرمائیں ؛ 

صفوة التفاسير، وهو أشهر كُتُبه.

المواريث في الشريعة الإسلامية.

من كنوز السّنّة.

روائع البيان في تفسير آيات الأحكام.

قبس من نور القرآن

جبران خلیل جبران : معروف لبنانی نژاد امریکی آرٹسٹ، عربی شاعر و ادیب

جبران خلیل جبران 
خلیل جبران (اصل نام: جبران خلیل جبران بن میکائیل بن سعد )  جو لبنانی نژاد امریکی فنکار، شاعر اور مصنف تھے۔ خلیل جبران جدید لبنان کے شہر بشاری میں پیدا ہوئے جو ان کے زمانے میں سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ وہ نوجوانی میں اپنے خاندان کے ہمراہ امریکا ہجرت کر گئے اور وہاں فنون لطیفہ کی تعلیم کے بعد اپنا ادبی سفر شروع کیا۔ خلیل جبران اپنی کتاب The Prophet کی وجہ سے عالمی طور پر مشہور ہوئے۔ یہ کتاب 1923ء میں شائع ہوئی اور یہ انگریزی زبان میں لکھی گئی تھی۔ یہ فلسفیانہ مضامین کا ایک مجموعہ تھا، گو اس پر کڑی تنقید کی گئی مگر پھر بھی یہ کتاب نہایت مشہور گردانی گئی، بعد ازاں 60ء کی دہائی میں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی شاعری کی کتاب بن گئی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جبران ولیم شیکسپئیر اور لاؤ تاز کے بعد تاریخ میں تیسرے سب زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔ 

جبران مسیحی اکثریتی شہر بشاری میں پیدا ہوئے۔ جبران کے والد ایک مسیحی پادری تھے۔ جبکہ جبران کی ماں کملہ کی عمر 30 سال تھی جب جبران کی پیدائش ہوئی، والد جن کو خلیل کے نام سے جانا جاتا ہے کملہ کے تیسرے شوہر تھے۔ غربت کی وجہ سے جبران نے ابتدائی اسکول یا مدرسے کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ لیکن پادریوں کے پاس انھوں نے انجیل پڑھی، انھوں نے عربی اور شامی زبان میں انجیل کا مطالعہ کیا اور تفسیر پڑھی۔

ڈاکٹر طہ حسین کی کتاب " الوعد الحق " کا تعارف - ڈاكٹرماہر شفيق فريد

ڈاکٹر طہ حسین 
(الوعد الحق: وعدہ برحق) طہ حسین (1889- 1973) كى اہم اسلامی کتابوں میں سے ايكـ ہے- (الوعد الحق: وعدہ برحق) 1949ء میں شا‏‏ئع ہوئی- انكى اسلامى كتابوں ميں (على ہامش السيرة)، (الشيخان)، (الفتنة الكبرى) اور (مرآة الإسلام) وغیرہ شامل ہيں۔ عربی ادب کے سرخیل پہلی صدی ہجری (ساتویں صدی عیسوی) میں انسانی فراخ دلی کے نقطۂ نظر سے اسلامی تاریخ کا پہلو پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہر نظریے اور مذہب کے قاری سے مخاطب ہونا ممکن ہوسکتا ہے، یہ پہلو مشترکہ انسانی اقدار، بھائی چارے کی پختگی، انصاف اور بھلائی پر مشتمل ہے۔

طہ حسین ہمہ پہلو فکری تحریک کے اس حصے میں جسے مصر نے بیسویں صدی نصف اول میں پہچانا- طہ حسین کے علاوہ روشن خيالات، تفسير قرآن كريم كے رجحانات اور اسلامى فكر كى تجديد كرنے ميں عباس محمود عقاد، محمد حسین ہیکل «في منزل الوحي»، ابراھیم المازنی «رحلة إلى الحجاز»، احمد حسن الزیات «ميگزين الرسالة»، امین خولی، توفیق حکیم، خالد محمد خالد وغيره جيسے اہم ادباء اور روشن خيال مفكرين نے بہت اہم رول ادا كيا-

یہ تمام ادباء اپنے افکار وخيالات، بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی کی مذمت، رواداری، ميانہ روى اور اعتدال پسندى کی روایات کی پختگی کے سفر میں عرب دنيا کے دوسرے حصوں میں اپنے ہم عصروں کے ساتھ مشترک ہیں ۔ (وعد الحق) یعنی وعدہ برحق صرف ناول نگاری نہیں بلکہ یہ تاریخ کی ساخت میں کہانی نویسی کا اسلوب ہے جو کبھی ڈرامائی انداز اختیار کر لیتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب اس شخص کے اندر پرانے خيالات اور جدید دین کے مابین رسہ کشی کا تصور پیش کرتا ہے یا مشرکین اور مؤمنین کے مابین گفتگو یا تاریخی واقعات- مثال کے طور پر حبشہ کے بادشاہ ابرہہ کا خانۂ کعبہ شریف کو منہدم کرنے کی کوشش اور اس عمل میں اس کی ناکامی۔