مشاہیر عرب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مشاہیر عرب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

كلمة الأستاذ الدكتور خالد الكركي أمام خادم الحرمين في جائزة الملك فيصل


 

كلمة فضيلة الشيخ محمد شقرة نائباً عن الإمام الألباني عند تسلمه جائزة الملك فيصل للدراسات الإسلامية


 

جائزة ملك فيصل العالمية للشيخين سيد سابق ويوسف القرضاوي


 

كلمة الأستاذ حسن محمود الشافعي حين يتسلم جائزة الملك فيصل عام 2022ء


 

كلمة نادرة للشيخ العلامة حسنين محمد مخلوف رحمه الله


 

كلمة الأستاذ محمود شاكر في حفل تسلم جائزة الملك فيصل


 


كلمة الأستاذ محمود محمد_شاكر في حفل تسلم جائزة_الملك_فيصل عام 1404هـ = 1984م مُنِح الأستاذ محمود محمد شاكر الجائزة؛ وذلك تقديراً لإسهاماته القيّمة في مجال الدراسَات التي تناولت الادب العربي القديم والممثلَّة في: 1- تأليفه كتاب “المتنبي” سنة 1936 م، والذي حمل كثيراً من القيم العلمية والأدبية العالية، منها: التعمُّق في الدراسة والجهد والاستقصاء، والقدرة على الاستنتاج والدقة في التذوّق، والربط المحكم بين الشعر وأحداث الحياة، والكشف عن ذلك في تطوُّر أساليب المتنبي. 2- الآفاق العلميّة الجادّة التي ارتادها، وما كان من فضله على الدراسات الأدبية والفكرية، وعلى الحياة الثقافية والتراث الإسلامي. 3- مواقفه العامة، وتحقيقاته ومؤلّفاته الأخرى، التي ترتفع به إلى مستوى عالٍ من التقدير

الشيخ محمد الغزالي السقا – الحائز على جائزة الملك فيصل لخدمة الإسلام 1989


 

كلمة العلامة محمد بهجت الأثري أثناء تسلمه جائزة الملك فيصل 1986م




كلمة العلامة محمد بهجت الأثري أثناء تسلمه جائزة الملك فيصل 1406 هـ - 1986 م في الأدب العربي عن الدراسات التي تناولت الأدب العربي في القرنين الخامس والسادس الهجريين.

كلمة العلامة عبدالسلام هارون في حفل تكريمه بجائزة الملك فيصل للأدب العربي - ( ١٩٨١م)


ولد عبد السلام هارون في مدينة الإسكندرية في (25 ذي الحجة 1326 هـ، 18 يناير 1909م) ونشأ في بيت كريم من بيوت العلم، فجده لأبيه هو الشيخ هارون بن عبد الرازق عضو جماعة كبار العلماء، وأبوه هو الشيخ محمد بن هارون كان يتولى عند وفاته منصب رئيس التفتيش الشرعي في وزارة الحقانية (العدل)، وعمه هو الشيخ أحمد بن هارون الذي يرجع إليه الفضل في إصلاح المحاكم الشرعية ووضع لوائحها، أما جده لأمه فهو الشيخ محمود بن رضوان الجزيري عضو المحكمة العليا.

كلمة العلامة محمد عبد الخالق عضيمة في جائزة الملك فيصل 1403 هـ - 1983م

كلمة العلامة النحوي محمد عبد الخالق عضيمة الأزهري رحمه الله في أثناء تسلمه جائزة الملك فيصل للدراسات الإسلامية (الدراسات التي تناولت القرآن الكريم) عن كتابه دراسات لأسلوب القرآن الكريم سنة 1403 هـ - 1983 م .

علامہ ڈاکٹر يوسف قرضاوى کى شخصیت

مشاہیر اسلام
علامہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی شخصیت

ابتدائی زندگی 

یوسف قرضاوی کی پیدائش 9 ستمبر 1926ء کو مصر کے  مغربی صوبے کا علاقہ  المحلہ الکبری کے ایک گاؤں "صفط تراب" میں ہوئی- 

اور 26 ستمبر 2022 کو 96 سال کى عمر ميں قطر کى دار الحکومت دوحہ ميں ان کی وفات ہوئى- انا للہ و ان الیہ راجعون !

علامہ یوسف القرضاوی کی کم سنی میں ان کے والد فوت ہوگئے تھے، ان کی پرورش چچا نے کی، گھر والوں کی خواہش تھی کہ آپ بڑھئی یا دکان دار بنیں۔ لیکن انہوں نے قرآن کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور صرف 9 سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیاتھا۔

تعلیم اور خدمات

 قرآن کے حفظ کے بعد جامع ازہر میں داخل ہوئے اور وہاں سے ثانویہ  کے امتحان میں پورے مصر میں دوسرى پوزيشن حاصل کی۔  پھر جامع ازہر کے کلیہ اصول الدین میں داخلہ لیا اور وہاں  1953ء میں بی ایس اسلامیات کی سند حاصل کی، جس میں وہ اپنے ایک سو اسی ساتھیوں میں اول درجے سے کامیاب ہوئے۔ پھر 1954ء میں کلیہ اللغہ سے اجازتِ تدریس کی سند حاصل کی اور اس میں پانچ سو طلبائے ازہر کے درمیان اول درجے سے کامیاب ہوئے۔ 

اس کے بعد 1958ء میں انھوں نے عرب لیگ کے ملحقہ "معہد دراسات اسلامیہ" سے عربی زبان و ادب میں ڈپلوما کیا، ساتھ ہی ساتھ 1960ء میں جامع ازہر کے کلیہ اصول الدین سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، 

1973ء میں وہیں سے اول  درجے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی،  مقالہ کا موضوع تھا "زکوٰۃ اور معاشرتی مشکلات میں اس کا اثر" ۔

 تعلیم سے فراغت کے بعد وہ کافی عرصہ مصر کی وزارت مذہبی امور سے  وابستہ رہے ۔ 

علامہ یوسف القرضاوی علامہ ابن تیمیہ ، علامہ ابن قیم ،شیخ حسن البنا ، سید قطب ، مولانا ابو الحسن ندوی اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی فکر سے متاثر تھے ، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی پر انہوں نے کتاب بھی لکھی ہے ۔

علامہ قرضاوی علماء اسلام کی عالمی تنظیم کے سربراہ تھے، موتمر عالمی اسلامی سمیت متعدد فورمز کے رکن اور عہدے دار تھے ۔ اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ان کے پیروکاروں اور شاگردوں کی کثیر تعداد ہے۔

علامہ محمد على الصابونى


 إنا لله و إنا إليه راجعون

ملک شام کے مشھور عالم دین شیخ التفسیر و الحدیث علامہ محمد علی الصابونی 91 سال کی بھر پور علمی و روحانی زندگی گذارنے کے بعد19 مارچ   2021 کو ، ترکی میں وصال فرما گئے ۔ 

اللہ کریم انکے درجات بلند فرمائے ۔ شیخ محترم کی زندگی قابل رشک ہے ۔ 30 سال حرمین شریفین میں مقیم رہے اور وہاں تفسیر قرآن کا درس دیتے رہے ۔

ان کی مشھور زمانہ کتاب " صفوۃ التفاسیر"  بہت مفید اور جامع ہے ۔ یہ کتاب بھیرہ شریف میں الکرم یونیورسٹی کے نصاب کا حصہ بھی ہے ۔ 

آپ کی کتابوں کے نام ملاحظہ فرمائیں ؛ 

صفوة التفاسير، وهو أشهر كُتُبه.

المواريث في الشريعة الإسلامية.

من كنوز السّنّة.

روائع البيان في تفسير آيات الأحكام.

قبس من نور القرآن

جبران خلیل جبران : معروف لبنانی نژاد امریکی آرٹسٹ، عربی شاعر و ادیب

جبران خلیل جبران 
خلیل جبران (اصل نام: جبران خلیل جبران بن میکائیل بن سعد )  جو لبنانی نژاد امریکی فنکار، شاعر اور مصنف تھے۔ خلیل جبران جدید لبنان کے شہر بشاری میں پیدا ہوئے جو ان کے زمانے میں سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ وہ نوجوانی میں اپنے خاندان کے ہمراہ امریکا ہجرت کر گئے اور وہاں فنون لطیفہ کی تعلیم کے بعد اپنا ادبی سفر شروع کیا۔ خلیل جبران اپنی کتاب The Prophet کی وجہ سے عالمی طور پر مشہور ہوئے۔ یہ کتاب 1923ء میں شائع ہوئی اور یہ انگریزی زبان میں لکھی گئی تھی۔ یہ فلسفیانہ مضامین کا ایک مجموعہ تھا، گو اس پر کڑی تنقید کی گئی مگر پھر بھی یہ کتاب نہایت مشہور گردانی گئی، بعد ازاں 60ء کی دہائی میں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی شاعری کی کتاب بن گئی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جبران ولیم شیکسپئیر اور لاؤ تاز کے بعد تاریخ میں تیسرے سب زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔ 

جبران مسیحی اکثریتی شہر بشاری میں پیدا ہوئے۔ جبران کے والد ایک مسیحی پادری تھے۔ جبکہ جبران کی ماں کملہ کی عمر 30 سال تھی جب جبران کی پیدائش ہوئی، والد جن کو خلیل کے نام سے جانا جاتا ہے کملہ کے تیسرے شوہر تھے۔ غربت کی وجہ سے جبران نے ابتدائی اسکول یا مدرسے کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ لیکن پادریوں کے پاس انھوں نے انجیل پڑھی، انھوں نے عربی اور شامی زبان میں انجیل کا مطالعہ کیا اور تفسیر پڑھی۔

ڈاکٹر طہ حسین کی کتاب " الوعد الحق " کا تعارف - ڈاكٹرماہر شفيق فريد

ڈاکٹر طہ حسین 
(الوعد الحق: وعدہ برحق) طہ حسین (1889- 1973) كى اہم اسلامی کتابوں میں سے ايكـ ہے- (الوعد الحق: وعدہ برحق) 1949ء میں شا‏‏ئع ہوئی- انكى اسلامى كتابوں ميں (على ہامش السيرة)، (الشيخان)، (الفتنة الكبرى) اور (مرآة الإسلام) وغیرہ شامل ہيں۔ عربی ادب کے سرخیل پہلی صدی ہجری (ساتویں صدی عیسوی) میں انسانی فراخ دلی کے نقطۂ نظر سے اسلامی تاریخ کا پہلو پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہر نظریے اور مذہب کے قاری سے مخاطب ہونا ممکن ہوسکتا ہے، یہ پہلو مشترکہ انسانی اقدار، بھائی چارے کی پختگی، انصاف اور بھلائی پر مشتمل ہے۔

طہ حسین ہمہ پہلو فکری تحریک کے اس حصے میں جسے مصر نے بیسویں صدی نصف اول میں پہچانا- طہ حسین کے علاوہ روشن خيالات، تفسير قرآن كريم كے رجحانات اور اسلامى فكر كى تجديد كرنے ميں عباس محمود عقاد، محمد حسین ہیکل «في منزل الوحي»، ابراھیم المازنی «رحلة إلى الحجاز»، احمد حسن الزیات «ميگزين الرسالة»، امین خولی، توفیق حکیم، خالد محمد خالد وغيره جيسے اہم ادباء اور روشن خيال مفكرين نے بہت اہم رول ادا كيا-

یہ تمام ادباء اپنے افکار وخيالات، بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی کی مذمت، رواداری، ميانہ روى اور اعتدال پسندى کی روایات کی پختگی کے سفر میں عرب دنيا کے دوسرے حصوں میں اپنے ہم عصروں کے ساتھ مشترک ہیں ۔ (وعد الحق) یعنی وعدہ برحق صرف ناول نگاری نہیں بلکہ یہ تاریخ کی ساخت میں کہانی نویسی کا اسلوب ہے جو کبھی ڈرامائی انداز اختیار کر لیتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب اس شخص کے اندر پرانے خيالات اور جدید دین کے مابین رسہ کشی کا تصور پیش کرتا ہے یا مشرکین اور مؤمنین کے مابین گفتگو یا تاریخی واقعات- مثال کے طور پر حبشہ کے بادشاہ ابرہہ کا خانۂ کعبہ شریف کو منہدم کرنے کی کوشش اور اس عمل میں اس کی ناکامی۔

حسن البنا ،ایک — مردِ قرآنی - رابرٹ جیکسن

 حسن البناء ایک --- مرد قرآنی- رابرٹ جیکسن 
( وقائع نگار خصوصی نیویارک کرونیکل ، نیویارک ۔اُردو ترجمہ: تنویر آفاقی۔)

حسن البنا کا گھر زہد و قناعت کی ایک زندہ مثال تھا۔ اس کالباس سادگی کی مثال تھا۔ آپ اس سے، اس کے معمولی سے کمرے میں ملاقات کرتے، جس میں پرانے طرز کا قالین بچھا ہوتا اور جو کتابوں سے بھرا نظر آتا، تو آپ کووہ ایک عام آدمی سے مختلف نظر نہ آتا۔البتہ اس کی آنکھوں سے برآمد ہونے والی روشن و تابناک چمک آپ کو عام آدمی سے مختلف نظر آتی، جس کا سامنا کرنے کی سکت اکثر لوگوں کے اندر نہیں پائی جاتی تھی۔ آپ اس سے بات کرتے تو اس کی زبان سے جواب میں چند مختصر جملے سنتے اور یہ چند جملے ہی لمبے، چوڑے، گہرے اور اُلجھے مسائل کو واضح اور مبرہن کردیتے، جن کی وضاحت کے لیے کئی جلدیں درکار ہوتیں ۔ اس وسیع علم کے ساتھ ساتھ افراد کو سمجھنے پر بھی اسے قدرت حاصل تھی۔ وہ متضاد راے بیان کرکے آپ کو چونکاتا نہیں تھا، نہ ایسی بات کہتا کہ آپ صدمے سے دوچار ہوجاتے اور جو آپ کے مسلک سے ٹکراتی۔ نہیں، وہ آپ سے اسی معاملے میں رابطہ رکھتا، جس کے سلسلے میں آپ اس سے اتفاق رکھتے۔جن اُمور میں آپ کے اور اس کے درمیان اختلاف ہوتا، اس پر وہ آپ کو ملامت نہیں کرتا تھا۔

وہ انتہائی وسیع النظر تھا۔ آزاد فضا کے لیے دل و دماغ کے دریچے کھلے رکھتا تھا۔ اسی لیے نہ تو آزادیِ راے سے اسے نفرت تھی اور نہ مخالف راے سے پریشان ہوتا تھا۔اس کے اندر یہ صلاحیت بے پناہ تھی کہ عوام کےسامنے نئی راے اس طرح پیش کر سکے کہ وہ اس سے بھڑیں گے نہیں۔ یہ نئی راے ایسی ہوتی تھی کہ اگر مہارت و خوش اسلوبی سے نہ پیش کی جاتی تو لوگ اس کے خلاف کھڑے ہو جاتے اور اس کے خلاف آمادۂ جنگ ہو جاتے۔اس نے لوگوںکے دینی فہم کے
رُخ کو تبدیل کیا۔ ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔انھیں واضح ہدف سے ہم کنار کیا اور ان کے دلوں کو ایمان و عمل اور حُریت و آزادی اور قوت و طاقت کے جوش سے بھر دیا۔

الجاحظ (فيلسوف الأدب الساخر) Al-Jahiz





الجاحظ الكناني هو أبو عثمان عمرو بن بحر بن محبوب بن فزارة الليثي الكناني البصري (159 هـ-255 هـ) أديب عربي كان من كبار أئمة الأدب في العصر العباسي، ولد في البصرة وتوفي فيها. مختلف في أصله فمنهم من قال بأنه عربي من قبيلة كنانة ومنهم من قال بأن أصله يعود للزنج وأن جده كان مولى لرجل من بني كنانة وكان ذلك بسبب بشرته السمراء وفي رسالة الجاحظ اشتهر عنه قوله أنه عربي وليس زنجي حيث قال: 
الجاحظ : أنا رجل من بني كنانة، وللخلافة قرابة، ولي فيها شفعة، وهم بعد جنس وعصبة 
كان ثمة نتوء واضحٌ في حدقتيه فلقب بالحدقي ولكنَّ اللقب الذي التصق به أكثر وبه طارت شهرته في الآفاق هو الجاحظ، عمّر الجاحظ نحو تسعين عاماً وترك كتباً كثيرة يصعب حصرها، وإن كان البيان والتبيين وكتاب الحيوان والبخلاء أشهر هذه الكتب، كتب في علم الكلام والأدب والسياسية والتاريخ والأخلاق والنبات والحيوان والصناعة والنساء وغيرها.

ابن خلدون (مبدع المقدمة وواضع أساس علم الإجتماع) Ibn Khaldoun







عبد الرحمن بن محمد ، ابن خلدون أبو زيد، ولي الدين الحضرمي الإشبيلي (1332 - 1406م) مؤرخ من شمال افريقيا، تونسي المولد أندلسي الأصل، كما عاش بعد تخرجه من جامعة الزيتونة في مختلف مدن شمال أفريقيا، حيث رحل إلى بسكرة و غرناطة و بجاية و تلمسان، كما تَوَجَّهَ إلى مصر، حيث أكرمه سلطانها الظاهر برقوق ، ووَلِيَ فيها قضاء المالكية، وظلَّ بها ما يناهز ربع قرن (784-808هـ)، حيث تُوُفِّيَ عام 1406 عن عمر بلغ ستة وسبعين عامًا و دُفِنَ قرب باب النصر بشمال القاهرة تاركا تراثا ما زال تأثيره ممتدا حتى اليوم[ ويعتبر ابن خلدون مؤسس علم الاجتماع الحديث واب للتاريخ والاقتصاد.

ابن يونس (عالم الأرصاد) Ibn Yunus





ابن يونس المصري هو أبو الحسن علي بن أبي سعيد عبد الرحمن بن أحمد بن يونس بن عبد الأعلى الصدفي المصري، المولود بمصر حوالي عام 950م والمتوفى بها عام 1009 م. من مشاهير الفلكيين العرب الذي ظهروا بعد البتاني وأبو الوفا البوزجاني وربما كان أعظم فلكيي عصره. سبق جاليليو في اختراع بندول الساعة بعدة قرون. ولنبوغه أجزل له الفاطميون العطاء، وأسسوا له مرصدا على جبل المقطم قرب الفسطاط، وأمره العزيز بالله الفاطمي بعمل جداول فلكية أتمها في عهد الحاكم بأمر الله، ولد العزيز، وسماها  زيج الحاكمي. 
اشتمل هذا الزيج على 81 فصلا وكانت تعتمد عليه مصر في تقويم الكواكب. وقد ترجمت بعض فصول هذا الزيج إلى اللغات الأجنبية. وابن يونس هو الذي رصد كسوف الشمس وخسوف القمر عام 978 في القاهرة، وأثبت فيها تزايد حركة القمر، وحسب ميل دائرة البروج فجاءت أدق ما عرف قبل إدخال الآلات الفلكية الحديثة. وتقديرا لجهوده الفلكية، تم إطلاق اسمه على إحدى مناطق السطح غير المرئي من القمر.