تفسیر و اصول تفسیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تفسیر و اصول تفسیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

علوم القرآن


علامہ شبلی نعمانی ؒ 
اس امر سے زیادہ کیا چیز حیرت انگیز ہو سکتی ہے کہ مذہب اسلام کی روح و رواں جو کچھ کہو قرآن ہے ، تاہم آج کل مسلمانوں کو جس قدر قرآن کے ساتھ بے اعتنائی ہے، کسی چیز سے نہیں۔ عربی کے موجودہ درس میں ہر علم و فن کی کتابیں کثرت سے داخل ہیں، لیکن فن تفسیر کی صرف دو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ''جلالین'' اور ''بیضاوی'' جن میں سے پہلی اس قدر مختصر ہے کہ اس کے الفاظ و حروف قرآن مجید کے الفاظ و حروف کے برابر برابر ہیں، اور دوسری گو چنداں مختصر نہیں، لیکن اس کے صرف ڈھائی پارے درس میں داخل ہیں جو کتاب کا پانچواں حصہ بھی نہیں۔
منطق و فلسفہ کی مدت تحصیل پانچ برس ہے اور دیگر علوم پر بھی ایک معتد بہ زمانہ صرف ہوتا ہے، لیکن قرآن مجید اور تفسیر کی تحصیل کے لیے پورا سال بھر گوارا نہیں کیا جاتا۔ عربی علوم فنون کی کتابیں کثرت سے چھپ چھپ کر شائع ہو رہی ہیں۔ اور خصوصاً فن حدیث کا سرمایہ تو اس قدر وجود میں آگیا ہے کہ اگلوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا، لیکن قرآن مجید کے متعلق دو ایک معمولی درسی تفسیروں کے سوا آج تک کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی۔ یہ تو ظاہری بے پروائی کی کیفیت ہے۔ معنوی حیثیت سے دیکھو تو اس سے بھی زیادہ افسوس ناک حالت ہے۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک قرآن مجید کا معجزہ ہونا اس کی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ہے۔ لیکن کیا ہمارے علما اس دعویٰ کو ثابت کر سکتے ہیں۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ قرآن مجید کی انشاء پردازی کی کیا خصوصیات ہیں۔ قرآن مجید نے بلاغت کے کیا کیا نئے اسلوب پیدا کیے۔ شعراے جاہلیت نے مدح و ذم، فخر و ثناء، شادی و غم، عزم و استقلال، نیکی و رحم دلی، جوش و اثر کے مضامین کو جس پایہ تک پہنچایا تھا، قرآن مجید نے انھی مضامین کو کس رتبہ تک پہنچا دیا؟ تو کیا ہزاروں علما میں سے ایک بھی ان سوالوں کا معقول جواب دے سکے گا؟ ادب و بلاغت پر موقوف نہیں، فقہ، اصول، علم کلام، سب کا ماخذ قرآن مجید ہے، لیکن ہمارے علما خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ علوم مذکورہ کے مسائل کو انھوں نے قرآن مجید سے سیکھا ہے یا ہدایہ و تلویح و عقائد نسفی سے۔
یہ شکایت نئی نہیں، تقریباً چھ سو برس سے یہی حالت ہے۔ اس سے صرف یہی نہیں ہوا کہ قرآن مجید کے متعلق نئی تالیفات کا سلسلہ بند ہو گیا، بلکہ افسوس اور سخت افسوس یہ ہے کہ قدما کی نادر اور بیش بہا تصنیفات ناپید ہو گئیں۔ خاص قرآن مجید کے اعجاز پر قدما نے بہت سی کتابیں لکھی تھیں، جن میں سے آٹھ یا نو کتابوں کا تذکرہ جلال الدین سیوطی نے ''اتقان'' میں کیا ہے۔ لیکن لوگوں کی بدمذاقی سے ان میں سے صرف باقلانی کی ایک کتاب رہ گئی ہے جو اس باب میں معمولی درجہ کی تصنیف ہے۔ اگرچہ ابوبکر عربی اسی کو 'احسن الکتب' کا خطاب دیتے ہیں۔
اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شروع اسلام سے آج تک قرآن مجید کے متعلق جو کچھ علمی سرمایہ مہیا کیا گیا، ان پر ایک مختصر ریویو کیا جائے جس سے ایک طرف تو ثابت ہو گا کہ ہمارے اسلاف نے اور علوم کی طرح اس فن کو کس قدر وسیع کیا تھا اور کیا کیا نکتہ آفرینیاں کی تھیں۔ دوسری طرف یہ ظاہر ہو گا کہ قدما نے گو اپنے زمانہ کے موافق تحقیقات و تدقیقات کا حق ادا کر دیا تھا۔ تاہم آج بہت سے نئے پہلوؤں سے ان مسائل پر بحث کی ضرورت ہے۔
قرآن مجید جس وقت نازل ہو رہا تھا، اس وقت جو لوگ موجود تھے، وہ اگرچہ اس کے مطالب و معانی کے سمجھنے میں کسی معلم یا استاد کے محتاج نہ تھے۔ تاہم بعض بعض مقامات میں جہاں زیادہ اجمال ہوتا تھا یا کوئی قصہ طلب بات ہوتی تھی، لوگ خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لیا کرتے تھے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فتوحات کی ترقی اور تمدن کی وسعت کی وجہ سے احکام میں نئی نئی صورتیں پیش آنے لگیں اور اس ضرورت سے قرآن مجید کی آیات احکامیہ پر غور و فکر کرنے کی ضرورت پڑی۔ صحابہ میں سے جو لوگ علم و فضل میں زیادہ ممتاز تھے، انھوں نے اس طرف زیادہ توجہ کی۔ ان بزرگوں میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سب کے پیشرو تھے۔ ان کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابی بن کعب، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کا درجہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کے حلقۂ درس نے نہایت وسعت حاصل کی اور سینکڑوں، ہزاروں شاگرد پیدا ہو گئے۔ ان میں سے مجاہد، عطاء بن رباح، عکرمہ، سعید بن جبیر، سب سے ممتاز تھے۔ ان بزرگوں کے سوا جن لوگوں نے فن تفسیر پر توجہ کی، وہ حسن بصری، عطاء بن سلمہ خراسانی، محمد بن کعب الفراظی، ابوالعالیہ، ضحاک بن مزاحم، قتادہ، زید بن اسلم، ابومالک وغیرہ ہیں، غالباً سب سے پہلے اس فن کی جس نے ابتدا کی، وہ سعید بن جبیر تھے۔ عبدالملک بن مروان نے ان سے تفسیر لکھنے کی درخواست کی، چنانچہ انھوں نے اس کی فرمایش کے موافق تفسیر لکھ کر دربار خلافت میں بھیجی اور اس کا نسخہ دفتر شاہی میں داخل کیا گیا۔ عطاء بن دینار کے نام سے جو تفسیر مشہور ہے، وہ درحقیقت یہی تفسیر ہے۔ ۱؂
اس طبقہ کے بعد ائمۂ مجتہدین اور ان کے ہم عصروں، مثلاً سفیان بن عیینہ، شعبہ، یزید بن ہارون، عبدالرزاق، ابوبکر بن ابی شیبہ وغیرہ نے تفسیریں لکھیں۔ اس کے بعد عام رواج ہو گیا اور سینکڑوں، ہزاروں تفسیریں تصنیف ہو گئیں اور ہوتی رہیں۔
تفسیر کے علاوہ قرآن مجید کے خاص خاص مباحث پر جداگانہ اور مستقل تصنیفات کا سلسلہ شروع ہوا، اور یہ سلسلہ تفسیر سے بھی زیادہ مفید تھا، کسی نے صرف مسائل فقیہ پر بحث کی، کسی نے اسباب نزول پر کتاب لکھی، کسی نے صرف ان الفاظ کو جمع کیا جو غیر زبان کے الفاظ ہیں۔ کسی نے امثال قرآنی کو یکجا کیا۔ کسی نے آیات مکررہ کے نکات بیان کیے، اس قسم کے مضامین کی تعداد ۸۰ کے قریب پہنچی اور قریباً ہر ایک پر الگ الگ مستقل تصنیفیں لکھی گئیں،۲؂ ان مضامین میں سے بعض بعض پر تمام بڑے بڑے ائمۂ فن نے طبع آزمائیاں کیں اور ہزاروں کتابیں تیار ہو گئیں۔
یہ تصنیفات بے شمار ہیں، لیکن ان سب کو چھ قسموں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ فقہی۔ جس میں صرف ان آیتوں کو یکجا کیا ہے، جن سے کوئی فقہی مسئلہ مستنبط ہوتا ہے۔ مثلاً ''احکام القرآن'' اسمٰعیل بن اسحق، ''احکام القرآن'' ابوبکر رازی، ''احکام القرآن'' قاضی یحییٰ بن اکثم۔
۲۔ ادبی۔ ان تصنیفات میں قرآن مجید کا فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے معجز اور بے نظیر ہونا ثابت کیا ہے، اسی سلسلہ میں وہ تصنیفات بھی داخل ہیں جو قرآن مجید کی حقیقت و مجاز، تشبیہات و استعارات، مکررات، وجوہ ترتیب، صنائع و بدائع وغیرہ وغیرہ پر لکھی گئیں۔
۳۔ تاریخی۔ قرآن مجید میں انبیاے سابقین اور بزرگوں کے جو قصے مذکور ہیں، ان کی تفصیل اور مزید حالات۔
۴۔ نحوی۔ جس میں قرآن مجید کے نحوی مسائل سے بحث کی ہے۔ مثلاً ''اعراب القرآن'' رازی وغیرہ۔
۵۔ لغوی۔ یعنی قرآن مجید کے الفاظ مفردہ کے معانی اور ان کی تحقیق۔ مثلاً ''لغات القرآن'' ابوعبیدہ وغیرہ۔
۶۔ کلامی۔ جن آیتوں سے عقائد کے مسائل مستنبط ہوتے ہیں، ان پر بحث۔
ان مضامین میں سے فقہی مباحث پر جو کچھ لکھا گیا، اس پر اضافہ کی بہت کم گنجایش ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس بحث پر بڑے بڑے ائمۂ فن نے طبع آزمائیاں کیں اور چونکہ شروع ہی سے ان مسائل سے متعلق الگ الگ فرقے بن گئے تھے۔ کسی فریق نے تدقیق و تحقیق کا دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ امام شافعی، قاضی یحییٰ بن اکثم، (استاد ترمذی) ابوبکر رازی، جس پایہ کے لوگ تھے، سب کو معلوم ہے۔ ابوبکر رازی کی تصنیف آج بھی موجود ہے اور ہماری نظر سے گزر چکی ہے۔ اسی طرح لغات قرآن اور مسائل نحویہ پر جو کچھ لکھا گیا، اس سے بڑھ کر نہیں لکھا جا سکتا۔
فصاحت و بلاغت کے متعلق نہایت کثرت سے کتابیں لکھی گئیں، جو اعجاز القرآن کے نام سے مشہور ہیں، ان میں فصاحت و بلاغت کے تمام اقسام سے بحث کی ہے۔ سب سے پہلے غالباً جاحظ المتوفی ۲۵۵ء نے اس موضوع پر لکھا۔ پھر محمد بن یزید واسطی، عبدالقاہر جرجانی، رمانی خطابی، زرقانی، رازی، ابن سراقہ، قاضی ابوبکر باقلانی نے بسیط اور مفصل کتابیں لکھیں، یہ کتابیں آج بالکل ناپید ہیں۔
میں نے قسطنطنیہ اور مصر کے تمام کتب خانے دیکھے، لیکن ایک کتاب کا بھی پتا نہ لگا۔ البتہ قاضی باقلانی کی تصنیف موجود ہے۔ اس کا نسخہ میں نے حذیو کے کتب خانہ سے لکھوا کر منگوایا تھا۔ اور اب وہ چھپ بھی گئی ہے۔ اس کتاب کی نسبت ابن العربی ۳؂ کا قول ہے کہ اس بحث پر کوئی کتاب اس درجہ کی تصنیف نہیں ہوئی۔ ابن العربی کی رائے پر اگر اعتماد کیا جائے تو اسلاف کی علمی حالت پر سخت افسوس ہو گا، کیونکہ باقلانی کی کتاب گو انشاء پردازی کے لحاظ سے بلند رتبہ ہے، لیکن اصل مضمون کی حیثیت سے محض ایک ملّابانہ تصنیف ہے۔
عبدالقاہر جرجانی جو فن بلاغت کا موجد ہے، اس کی اعجاز القرآن ہم نے نہیں دیکھی، لیکن اس کی دو کتابیں ''دلائل الاعجاز'' اور ''اسرار البلاغہ'' جو خاص فن بلاغت میں ہیں ہمارے پیش نظر ہیں۔ ان کتابوں میں اس نے جو نکتہ آفرینیاں کی ہیں، وہ حیرت انگیز ہیں، اور اس لیے قیاس ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید پر اس نے جو کچھ لکھا ہو گا، بے مثل ہو گا۔ اسی طرح جاحظ کی تصنیف بھی بے نظیر ہو گی، لیکن چونکہ پانچ چھ سو برس سے قوم کا علمی مذاق بالکل پست ہو گیا ہے، اس لیے لوگ ابن العربی، باقلانی ہی کی تصنیف کو بہترین تصانیف قرار دیتے ہیں۔
اعجاز القرآن کے سلسلہ کے علاوہ اور بہت سی تصنیفات ہیں۔ جن میں انشاء پردازی کی خاص خاص قسموں سے بحث کی ہے۔ مثلاً ابن ابی الاصبع نے قرآن مجید کے صنائع و بدائع پر مستقل کتاب لکھی۔ عزالدین بن عبدالسلام نے قرآن کے مجازات کو یک جا کیا۔ ابوالحسن ماوردی نے قرآن کی ضرب المثلیں جمع کیں، اور ان کی خوبیاں دکھائیں۔ علامہ سیوطی نے سورتوں کے طریق ابتدا پر ایک رسالہ لکھا جس کا نام ''الخواطر السوانح فی اسرار الفواتح'' ہے۔ ابن القیم نے ''کتاب التبیان'' اس بحث پر لکھی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کثرت سے قسمیں کیوں کھائی ہیں۔
قصص اور حقائق اشیا کے متعلق تصنیفات کا جو سرمایہ ہے، وہ درحقیقت شرم کا باعث ہے اور افسوس اور سخت افسوس ہے کہ تفسیر کے اجزا میں سے جو حصہ سب سے زیادہ عوام میں مقبول اور متداول ہے اور سلسلہ بہ سلسلہ تمام اسلامی لٹریچر میں سرایت کر گیا ہے، وہ یہی حصہ ہے، انبیا اور صلحاے سابقین کے افسانے نے جو یہودیوں میں پھیلے ہوئے تھے، وہ نہایت مبالغہ آمیز اور دور ازکار تھے۔ قرآن مجید میں نہایت اجمال کے ساتھ صرف ان واقعات کو بیان کیا، جو فی نفسہٖ صحیح تھے اور جن سے طبائع پر کوئی عمدہ اخلاقی اثر پڑتا تھا۔ ہمارے مفسروں نے قرآن مجید کو ایک مشن قرار دیا۔ اور اس کی شرح میں وہ تمام بے ہودہ افسانے شامل کر دیے، جن کے سامنے بوستان خیال کی بھی کچھ حقیقت نہیں، حقائق اشیا کے متعلق جو کچھ قرآن مجید میں مذکور تھا، اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا، چاہ بابل، کوہ قاف، سکندر ذوالقرنین، یاجوج ماجوج وغیرہ وغیرہ کی نسبت جو روایتیں مسلمانوں میں پھیلی ہیں، وہ انھی تفسیروں کی بدولت ہیں۔ علامہ ابن خلدون نے اس کے متعلق ''مقدمۂ تاریخ'' میں نہایت محققانہ مضمون لکھا ہے۔ ہم اس کی عبارت اس موقع پر بقدر ضرورت نقل کرتے ہیں:
وقد جمع المتقدمون فی ذٰلک وأوعوا إلّا أنّ کتبھم ومنقولاتھم تشتمل علی الغث والسمین والمقبول والمردود، والسبب فی ذٰلک أن العرب لم یکونوا أھل کتاب ولا علم، وإنما غلبت علیھم البداوۃ والأمیۃ، وإذا تشوقوا إلی معرفۃ شییئ مما تتشوق إلیہ النفوس البشریۃ فی أسباب المکونات وبدء الخلیقۃ وأسرار الوجود فإنما یسألون عنہ أھل الکتاب قبلھم ویستفیدونہ منھم وھم أھل التوراۃ من الیھود ومن تبع دینھم من النصارٰی وأھل التوراۃ الذین بین العرب یومئذ بادیۃ مثلھم ولایعرفون من ذلک إلا ما تعرفہ العامۃ من أھل الکتاب ومعظمھم من حمیر الذین أخذوا بدین الیھودیۃ، فلما أسلموا بقوا علی ما کان عندھم مما لا تعلّق لہ بالأحکام التی یحتاطون لھا مثل أخبار بدء الخلیقۃ وما یرجع إلی الحدثان والملاحم و أمثال ذٰلک. وھٰؤلاء مثل کعب الأحبار ووھب بن منبہ وعبد اللّٰہ بن سلام وأمثالھم. فامتلأت التفاسیر من المنقولات عندھم ... وتساھل المفسرون فی مثل ذٰلک وملؤا کتب التفسیر بھذہ المنقولات وأصلھا کما قلناہ عن أھل التوراۃ الذین یسکنون البادیۃ ولا تحقیق عندھم بمعرفۃ ما ینقلونہ من ذٰلک إلا أنھم بعد صیتھم وعظمت أقدارھم لما کانوا علیہ من المقامات فی الدین والملۃ فتلقیت بالقبول من یومئذ.۴؂
''اور اس باب میں متقدمین نے بڑا ذخیرہ جمع کیا، لیکن ان کی تصنیفات اور روایتوں میں نیک و بد، مقبول و مردود سب کچھ شامل ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب لکھے پڑھے نہ تھے، اور ان پر بالکل بدویت اور جہالت غالب تھی اور جب ان کو ان اشیا کی دریافت کا شوق ہوتا تھا، جو طبایع بشری کا اقتضا ہے، مثلاً آفرینش عالم کے اسباب، دنیا کی ابتدا، وجود کے اسرار تو ان باتوں کو وہ لوگ یہودیوں سے دریافت کرتے تھے یا ان عیسائیوں سے جو یہودیوں کے مقامد تھے اور اس زمانہ کے یہود ایسے ہی جاہل تھے جیسے بادیہ نشین عرب، ان کو صرف وہی معلومات تھیں جو عوام اہل کتاب کو ہوتی ہیں، پھر جب یہ لوگ اسلام لائے تو ان امور کے متعلق جو احکام شرعی سے تعلق نہیں رکھتے تھے، مثلاً دنیا کا آغاز، واقعات قدیمہ اور قصص انبیا ان کے خیالات وہی رہے جو پہلے سے تھے، ان اسلام لانے والوں میں کعب احبار، وہب بن منبہ، عبداللہ بن سلام وغیرہ تھے، اس لیے تمام تفسیریں ان کی روایتوں سے بھر گئیں اور اس قسم کے امور میں مفسرین سہل انگاری کرتے ہیں، اس لیے ان لوگوں نے تفسیر کی کتابوں کو انھی روایتوں سے بھر دیا اور، جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں، ان روایتوں کا ماخذ وہی توراۃ والے تھے جو صحرا نشین تھے، اور ان کو ان روایتوں کے متعلق کچھ تحقیق حاصل نہ تھی، لیکن چونکہ مذہباً ان لوگوں کا پایہ بلند تھا اور قوم میں ان کو شہرت اور عظمت حاصل تھی، اس لیے وہ روایتیں قبول عام پا گئیں۔''
علامہ ابن خلدون نے جو کچھ لکھا، محدثانہ تحقیق بھی تمام تر اسی کی تائید کرتی ہے۔ انبیاء سابقین اور زمین و آسمان وغیرہ کی آفرینش کے متعلق جو کچھ تفسیروں میں مذکور ہے، وہ عموماً قدما مفسرین سے ماخوذ ہے۔ یعنی مجاہد، سدی، ضحاک، مقاتل بن سلیمان، کلبی ان میں سے تین مقدم الذکر نے صحابہ کا زمانہ پایا تھا، اوران سے روایتیں حاصل کی تھیں۔ مقاتل نے ۱۵۰ھ میں وفات پائی۔ کلبی بھی اسی دور کے مفسر ہیں، نقلی مضامین کے متعلق آج جس قدر تفسیریں ہیں، سب انھی بزرگوں سے ماخوذ ہیں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ فن تفسیر میں تمام لوگ مقاتل کے وظیفہ خوار ہیں۔ ۵؂ سدی کی نسبت جلال الدین سیوطی نے ''کتاب الارشاد'' سے نقل کیا ہے کہ 'التفاسیر تفسیر السدی' یعنی تمام تفسیروں میں سدی کی تفسیر سب سے اچھی ہے۔ امام طبری کی تفسیر کے متعلق تمام علما کا اتفاق ہے کہ صحت و تنقید میں لاجواب ہے، لیکن یہ تفسیر بھی زیادہ ترسدی اور ضحاک سے ماخوذ ہے۔ چنانچہ جلال الدین سیوطی نے ''اتقان'' باب ہشتاد و دہم میں تصریح کی ہے۔
ان بزرگوں کا یہ حال ہے کہ مجاہد کی تفسیر کی نسبت جب لوگوں نے امام اعمش سے دریافت کیا کہ اس میں غلطیاں کیوں پائی جاتی ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ اہل کتاب سے ماخوذ ہے۔ ضحاک کی نسبت محدثین نے تصریح کی ہے کہ ابن عباس اور ابوہریرہ سے انھوں نے جو روایتیں کی ہیں، سب مخدوش ہیں، یعنی ان کی صحت میں کلام ہے۔ اس کے ساتھ یحییٰ بن سعید قطان نے، جو اسماء الرجال کے امام ہیں، تصریح کی ہے کہ ضحاک میرے نزدیک ضعیف الروایۃ ہیں۔ سدی کا یہ حال ہے کہ امام شعبی سے کسی نے کہا کہ سدی کو قرآن کے علم کا حصہ ملا ہے تو انھوں نے کہا کہ قرآن کے جہل کا حصہ ملا ہے۔ مقاتل کی نسبت وکیع کا قول ہے کہ کذاب تھا۔ محدث نسائی فرماتے ہیں کہ مقاتل جھوٹ بولا کرتا تھا۔ عبداللہ بن المبارک فرماتے ہیں کہ مقاتل کی تفسیر بہت اچھی تھی۔ کاش وہ ثقہ بھی ہوتا۔ جو زجانی نے لکھا ہے کہ مقاتل نہایت دلیر دجال تھا۔ محدث ابن حبان نے لکھا ہے کہ مقاتل قرآن مجید کے متعلق یہود و نصاریٰ سے وہ باتیں سیکھا کرتا تھا جو ان کی روایتوں کے مطابق ہوئی تھیں۔ کلبی کی نسبت تو عام اتفاق ہے کہ ان کی تفسیر دیکھنے کے قابل نہیں۔ امام احمد بن حنبل اور دارقطنی، امام بخاری، جوزجانی، ابن معین سب نے تصریح کی ہے کہ وہ ناقابل اعتبار تھا۔ ابن حبان کا قول ہے کہ کلبی کا کذب و دروغ اس قدر ظاہر ہے کہ اس میں کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۶؂ ۔ ایک ضمنی تذکرہ میں ان بزرگوں کی اس قدر پردہ دری شاید موزوں نہ تھی، لیکن ان لوگوں نے اسلام کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے، اس کا کم سے کم یہی صلہ تھا، انھی حضرات کی روایتیں ہیں جن سے ''تفسیر کبیر''، ''کشاف''، ''بیضاوی'' اور سینکڑوں ہزاروں کتابیں مالا مال ہیں۔ مسلمانوں میں آج جو عجائب پرستی، زود اعتقادی اور غلط خیالی ایک خاصہ بن گئی ہے، انھی کی روایات اور منقولات کی بدولت ہے۔
(  بشکریہ ماہنامہ اشراق ، حوالہ : مقالات شبلی، مرتبہ سید سلیمان ندوی ۱/ ۲۶۔۳۵)
_____
۱؂ یہ تفصیل ''میزان الاعتدال'' ذہبی اور تذکرہ عطاء بن دینار سے ماخوذ ہے۔
۲؂ دیکھو ''اتقان فی علوم القرآن'' کا دیباچہ۔
۳؂ اتقان، بحث اعجاز القرآن۔
۴؂ مقدمہ ابن خلدون، باب علوم القرآن۔
۵؂ میزان الاعتدال ذہبی۔
۶؂ ان لوگوں کے یہ اقوال ''میزان الاعتدال'' ذہبی سے ماخوذ