اہم خبریں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اہم خبریں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

2025 ء میں حج سے محروم 60 ہزار پاکستانی

 حج سے محروم 60 ہزار پاکستانی: یہ صرف ایک انتظامی ناکامی نہیں، بلکہ ایک دینی، اخلاقی اور قومی جرم ہے!

کیا ہم نے سوچا ہے کہ جس فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے ایک مسلمان پوری زندگی خواہش اور دعاؤں کے ساتھ جیتا ہے، وہ بھی ہماری سستی، غفلت اور بدانتظامی کی نذر ہو رہا ہے؟
کیا ہم نے کبھی محسوس کیا ہے کہ جن بوڑھے ماں باپ نے ساٹھ سال کی عمر کے بعد اللہ کے دربار کی حاضری کی امید میں زندگی کے ہر لمحے کو نیکی اور بچت کے ساتھ گزارا، ان کے دل کس طرح ٹوٹے ہوں گے جب انھیں یہ بتایا گیا کہ:
"آپ کا ویزا نہیں لگا، آپ کا حج ممکن نہیں"؟

وفاقی وزیر مذہبی امور کے بقول، سرکاری اسکیم نے وقت پر تمام لوازمات پورے کر دیے، مگر پرائیویٹ حج آپریٹرز یہ تقاضے پورے نہ کر سکے۔
سوال یہ ہے: اگر نجی حج آپریٹرز نااہل تھے تو وزارت نے پورے سال کیا کیا؟
کیا صرف حج فارم بانٹنا اور وزراء کی تصویریں شائع کرنا ہی اس وزارت کی ذمہ داری ہے؟
کیا وقت پر مانیٹرنگ، سرٹیفکیشن، اور اہلیت کی جانچ ان کا فرض نہیں؟

یہ معاملہ صرف ایک ائیر ٹکٹ یا ہوٹل کی بکنگ کا نہیں —
یہ امت مسلمہ کی عبادت، عقیدت اور دعا کا سوال ہے۔
یہ ان ہزاروں پاکستانیوں کے آنسوؤں کا سوال ہے، جو زندگی بھر کی جمع پونجی لے کر اللہ کے گھر جانے نکلے تھے اور واپس مایوسی، دھوکہ اور ناانصافی لے کر لوٹے۔

ہم کب سمجھیں گے کہ ہماری بدانتظامی اب صرف دنیاوی نقصانات نہیں، بلکہ دینی معاملات پر بھی حملہ آور ہو چکی ہے؟
کیا یہ وقت نہیں کہ ہم اجتماعی طور پر مطالبہ کریں کہ اس نااہلی کی تحقیقات صرف کاغذوں میں نہ ہوں، بلکہ ذمہ داروں کو عدالتی و اخلاقی کٹہرے میں لایا جائے؟
کیا وزارت مذہبی امور کو اب احساس نہیں ہونا چاہیے کہ وہ صرف ایک دفتر نہیں بلکہ اللہ کے گھر کے مہمانوں کے انتظام کا امین ادارہ ہے؟

آئیے، اس قوم کو جگائیں —
تاکہ کل کو کوئی اور حاجی زاہد خان کی طرح صرف اس لیے حج سے محروم نہ ہو جائے کہ ہماری غفلت نے اس کا خواب چھین لیا۔

بِل گیٹس کا اپنی 99 فیصد دولت عطیہ کرنے کا منصوبہ: ’نہیں چاہتا کہ جب مروں تو لوگ کہیں کہ اس کے پاس کافی دولت تھی "

بی بی سی اردو 
۹ مئی ۲۰۲۵

مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے کہا کہ وہ اگلے 20 برسوں میں اپنی دولت کا 99 فیصد حصہ عطیہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

بِل گیٹس نے کہا ہے کہ وہ اپنی فاؤنڈیشن، بِل گیٹس فاؤنڈیشن، کے آپریشنز سنہ 2045 تک ختم کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں اور اس دورانیے میں وہ اپنی فاؤنڈیشن کے ذریعے اپنی دولت عطیہ کرنے کے عمل میں تیزی لائیں گے۔

انھوں نے اپنی ایک حالیہ بلاگ پوسٹ میں لکھا کہ 'جب میں مر جاؤں گا تو لوگ میرے بارے میں بہت سی باتیں کہیں گے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ ان باتوں میں یہ بات نہ ہو کہ 'وہ (بِل گیٹس) جب مرا تو اُس کے پاس کافی دولت تھی۔'

69 سالہ بِل گیٹس نے کہا کہ اُن کی فاؤنڈیشن صحت اور ترقیاتی منصوبوں کی مد میں پہلے ہی 100 ارب ڈالر خرچ کر چکی ہے اور وہ یہ توقع کرتے ہیں کہ اگلے 20 برسوں میں اُن کی فاؤنڈیشن مزید 200 ارب ڈالر خرچ کرے گی۔اپنی اس بلاگ پوسٹ میں بِل گیٹس نے اینڈریو کارنیگی کے سنہ 1889 کے ایک مضمون کا حوالہ دیا جس کا عنوان تھا 'دی گاسپیل آف ویلتھ'۔اس مضمون میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دولت مند افراد کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی دولت معاشرے پر خرچ کریں۔

بِل گیٹس نے کارنیگی کا یہ جملہ بھی استعمال کیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ جو شخص اسی حالت کے مرے کے اس کے پاس دولت ہو، سمجھو وہ ذلت کی موت مرا۔بِل گیٹس کی جانب سے اپنی دولت عطیہ کرنے کا حالیہ وعدہ خیرات کرنے کے عمل میں اُن کے مزید آگے بڑھنے کا اشارہ ہے۔

الشیخ اسامہ الرفاعی - مفتی اعظم سوریا

الشیخ اسامہ الرفاعی ایک ممتاز شامی عالم دین اور مبلغ ہیں، جو 1944 میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دمشق یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور وہاں کے مختلف مساجد میں خطابت کے فرائض انجام دیے۔ تاہم، شامی حکومت کی طرف سے ان پر دباؤ بڑھنے کے بعد، وہ سعودی عرب اور ترکی ہجرت کر گئے۔

مفتی اعظم سوریا شیخ اسامہ رفاعی 

شیخ اسامہ الرفاعی کو شامی انقلاب کی حمایت کی وجہ سے شہرت ملی، جو کہ سابق صدر بشار الاسد کے خلاف تھا۔ نظام کے سقوط کے بعد، مارچ 2025 میں، انہیں نو منتخب شامی صدر احمد الشرع نے ملک کا مفتی اعظم مقرر کیا۔

پیدائش اور خاندانی پس منظر

شیخ اسامہ عبد الکریم الرفاعی 1944 میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ وہ مشہور عالم دین شیخ عبد الکریم الرفاعی کے بڑے صاحبزادے اور معروف داعی شیخ ساریہ الرفاعی کے بھائی ہیں۔

تعلیم اور علمی سفر

انہوں نے ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم دمشق میں حاصل کی اور 1971 میں دمشق یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں ڈگری حاصل کی۔ دینی علوم میں ان کی ابتدائی تربیت ان کے والد شیخ عبد الکریم الرفاعی نے کی۔ مزید برآں، انہوں نے کئی مشہور علماء سے بھی کسبِ علم کیا، جن میں شیخ خالد الجیباوی، عبد الغنی الدقر، احمد الشامی، محمود زیدان اور سعید الافغانی شامل ہیں۔

اسلام دو ہزار پچاس تک دنیا کا مقبول ترین مذہب بن جائے گا: سروے

امریکی تحقیقاتی ادارے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام اگلے 33 برسوں میں عیسائیت کی جگہ لے گا۔

امریکی تحقیقاتی ادارے پیوریسرچ سنٹر کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق اسلام دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ عیسائیت کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے اور 2050 تک اسلام عیسائیت کی جگہ لے کر پہلے نمبر پر آجائے گا۔ رپورٹ کے مطابق 2050 تک مسلمان یورپی آبادی کا دس فیصد جبکہ امریکی آبادی کا 2اعشاریہ 1فیصد ہو جائیں گے اور 31کروڑ مسلمانوں کی تعداد کے ساتھ بھارت پہلے نمبر پر ہو گا۔

دنیا کی آبادی کا 62فیصد مسلمان ایشیائی ممالک انڈونیشیا، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، ایران اور ترکی میں بستے ہیں۔ پیو نے انتالیس مسلم ممالک میں شرعی قانون کے نفاذ کے حوالے سے سروے کیا۔ افغانستان میں 99فیصد، عراق میں 91فیصد جبکہ پاکستان میں 84فیصد افراد نے شرعی قوانین کے نفاذ کی حمایت کی۔ 

2010 میں سامنے آنے والے اعدادوشمار کے مطابق عالمی آبادی میں 23فیصد حصہ مسلمان ہیں۔

امریکی تاریخ کی ’سب سے مہنگی‘ آتش زدگی



بی بی سی اردو 
۱۰ جنوری ۲۰۲۵
'ہمارا کچھ نہیں بچا۔۔۔ میری والدہ کی وفات ہو گئی تھی اور میں نے ان کی کچھ یادیں گھر میں سنبھال کر رکھی تھی، میری شادی کے جوڑے اور تصویروں والے البم سے لے کر گھر میں سب کچھ جل کر خاک ہو گیا ہے۔ ہمارے پاس بس یہ ایک ایک جوڑا ہی بچا ہے جو ہم پچھلے دو دنوں سے پہنے ہوئے ہیں۔'

یہ الفاظ اس جوڑے کے ہیں جو لاس اینجلس میں لگنے والی آگ کے بعد آج اپنا جلا ہوا گھر دیکھنے پہنچے جس میں عمارت سمیت سب کچھ جل کر خاکستر ہو چکا تھا۔

جنگل کی آگ سے متاثرہ علاقوں سے اپنے گھر باہر چھوڑ کر جانے والے رہائشی آب جب واپس لوٹے تو انھیں ہر طرف تباہی کے مناظر ملے ہیں۔ ان کے گھر اور کاروبار راکھ کا ڈھیر بن گئے ہیں۔

پاؤل بیرن 12 سال سے لاس اینجلس میں رہ رہے ہیں۔ انھیں اپنی پارٹنر اور پالتو جانوروں کے ساتھ گھر اور علاقہ چھوڑنا پڑا۔

وہ بتاتے ہیں کہ 'یہ تباہی سے بھرپور کسی ہالی وڈ فلم جیسا منظر تھا۔ ہر طرف آگ کی چنگاریاں اڑ رہی تھیں۔ لوگ اپنے بچوں اور پالتو جانورں کے ساتھ سڑکوں پر حیران پریشان کھڑے تھے۔'

کرپٹو کرنسی اور مصنوعی ذہانت سمیت سال 2025 میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں کیا کچھ ہو گا؟

 

بی بی سی اردو 
6 جنبوری 2025 ء 

سنہ 2024 میں بٹ کوائن 100،000 ڈالر سے تجاوز کر گیا اور مصنوعی ذہانت سے آراستہ ڈیوائسز اور ایپس ہماری جیبوں اور فونز میں داخل ہو رہی ہیں، اب اس نئے سال میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہمارے لیے کیا کچھ ہو گا؟

بی بی سی ٹیکنالوجی آف بزنس ایڈیٹر بین مورس اور بی بی سی ٹیکنالوجی ایڈیٹر زوئی کلین مین نے آنے والے سال کے ٹاپ ٹرینڈز کا جائزہ لیا ہے۔

بین مورس، بی بی سی کے ٹیکنالوجی بزنس کے ایڈیٹر

جیسے جیسے 2022 اختتام کو پہنچا کرپٹو کرنسی کے کاروبار کے لیے یہ مایوس کن تھا۔ اس کی معروف ترین فرموں میں سے ایک ایف ٹی ایکس صارفین کے آٹھ ارب ڈالر کے فنڈز کے ساتھ دیوالیہ ہو گئی تھی۔مارچ 2024 میں کمپنی کے شریک بانی سیم بینکمین فریڈ کو صارفین اور سرمایہ کاروں کو دھوکہ دینے کے جرم میں 25 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اس سکینڈل نے پورے شعبے میں اعتماد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ کرپٹو کرنسیاں ایک خاص پروڈکٹ ہی رہیں گی، جس میں نسبتاً محدود ترقی ہو گی۔

لیکن صرف چند ماہ بعد اس صنعت میں ایک بار پھر امید جاگی۔ اس پرجوش ترقی کی لہر کے پیچھے پانچ نومبر کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی تھی۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کرپٹو کرنسی کے شعبے کے لیے زیادہ سازگار ہوں گے اور اب تک ایسا لگتا ہے۔

دسمبر کے اوائل میں نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) کے سابق کمشنر پال ایٹکنز کو وال سٹریٹ ریگولیٹر کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے لیے نامزد کریں گے۔

ایٹکنز کو، وال سٹریٹ ریگولیٹر کے چیئرمین کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے سربراہ گیری جینسلر کے مقابلے میں کہیں زیادہ کرپٹو کرنسی کے حامی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اس اعلان نے ایک بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ ڈالر تک بڑھانے میں مدد کی۔

سٹینڈرڈ چارٹرڈ میں ڈیجیٹل اثاثوں کی تحقیق کے عالمی سربراہ جیفری کینڈرک کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ کی جیت کے بعد آپ تصور کر سکتے ہیں کہ 2025 میں آپ کو فعال ضابطے ملے گا۔ کچھ منفی ضوابط کو ختم کر دیا جائے گا جس کے بعد بینکوں اور دیگر اداروں کو شامل ہونے کی اجازت ملے گی۔‘

وہ مبینہ چینی سائبر حملے جن میں ٹرمپ کے فون تک کو نشانہ بنایا گیا



مائیک وینڈلنگ
عہدہ,بی بی سی نیوز

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ہیکرز جو امریکہ کی بڑی مواصلاتی کمپنیوں اور اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں، ان کا تعلق چین کی حکومت سے ہے۔

ہیکنگ کے ایک تازہ ترین واقعے میں امریکی وزارت خزانہ کو نشانہ بنایا گیا جسے امریکی حکام ’بڑا واقعہ‘ قرار دے رہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ہیکرز ملازمین کے ورک سٹیشن اور اہم دستاویزات تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے تاہم چین نے ان واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے خلاف یہ تازہ ترین سائبر حملے حالیہ مہینوں میں سامنے آئے ہیں۔

ان سائبر حملوں میں ہیک کیا ہوا؟


امریکی وزارت خزانہ میں ہیکنگ کے واقعے کے بعد اکتوبر میں دو اہم امریکی صدارتی مہمات کو ہدف بنایا گیا۔

ایف بی آئی اور سائبر سکیورٹی اینڈ انفراسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی (سی آئی ایس اے) کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی مہمات کو ہدف بنانے والے کرداروں کا تعلق ’عوامی جمہوریہ چین‘ سے ہے۔

شام میں اسد خاندان کے 50 سالہ دور کا ’ایک ہفتے میں‘ خاتمہ

بی بی سی اردو 

ایک ہفتہ قبل تک شام کے حکمران بشار الاسد کا تختہ اُلٹنا ناقابل تصور تھا۔ اس وقت باغیوں نے شمال مغربی شام میں ادلب کے گڑھ سے اپنی جارحانہ مہم شروع کی تھی۔

یہ شام کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ ان کے والد نے 29 تک ملک پر حکمرانی کی تھی اور اپنے بیٹے کی طرح ملک پر آہنی کنٹرول رکھتے تھے۔

بشار الاسد کو وراثت میں ہی ایک ایسا ملک ملا جہاں حکومت کا کنٹرول سخت رہتا تھا اور ایسا سیاسی نظام تھا جس کے بارے میں ناقدین مخالفین کو دبانے کا الزام لگاتے تھے۔ کسی قسم کی اپوزیشن کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔

پہلے یہ امید تھی کہ چیزیں مختلف ہوں گی، سب کام شفافیت سے ہوں گے اور ظلم کم ہوگا۔ مگر یہ توقعات دیر تک قائم نہ رہ سکیں۔اسد کو ہمیشہ ایک ایسے آدمی کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے اپنی حکومت کے خلاف 2011 میں پُرامن مظاہرین پر تشدد کر کے انھیں منتشر کیا۔ اس صورتحال نے خانہ جنگی کو جنم دیا جس میں پانچ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور 60 لاکھ بے گھر۔روس اور ایران کی مدد سے اسد باغیوں کو کچل کر اپنے دور اقتدار کو وسعت دینے میں کامیاب رہے۔ روس نے اپنی فضائی طاقت استعمال کی جبکہ ایران نے شام میں اپنے فوجی معاون بھیجے۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ نے شام میں تربیت یافتہ جنگجو تعینات کیے۔

افغانستان کا دریائے آمو جہاں تیل اور گیس کی تلاش میں چین اور روس پیش پیش ہیں۔



بی بی سی اردو 24 نومبر 2024 
خطے کے دو طاقتور ترین ممالک روس اور چین ان دنوں افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں میں تعاون کے لیے مصروف عمل دکھائی دے رہے ہیں، جس کی تازہ ترین مثال ان دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کا حال ہی میں افغانستان کا دورہ ہے۔

چند روز قبل روسی سرمایہ کاروں کے ایک وفد نے کابل کا دورہ کر کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں اور اس دوران افغانستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق طالبان کے زیرِ انتطام افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل نے 17 نومبر کو ایک رپورٹ میں کہا کہ ’نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر نے کابل میں روسی اور افغان سرمایہ کاروں کے ایک گروہ سے ملاقات کی ہے۔

روسی سرمایہ کاروں نے ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ روس مختلف شعبوں میں افغانستان میں نہ صرف سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے بلکہ اپنے تجربات بھی ان کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہے۔روسی سرمایہ کاروں نے توانائی، صنعت، تجارت، نقل و حمل، زراعت، ریلوے اور صحت سمیت بنیادی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’اجلاس میں روسی تاجروں کی جانب سے انفراسٹرکچر، صنعت، تجارت، ٹرانسپورٹ، زراعت، ریلوے اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔‘

رپورٹ کے مطابق عبدالغنی برادر نے کہا کہ طالبان حکومت روسی سرمایہ کاروں کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی اور ملک میں پُرامن ماحول ان کی سرگرمیوں کے لیے سازگار ثابت ہو گا۔

یاد رہے کہ افغانستان میں چین کی کمپنی افچین کی جانب سے دریائے آمو کے بیسن (طاس) میں تیل کے مزید 18 کنوؤں کی کھدائی اور گیس کی تلاش کی تلاش کا کام بھی شروع کیا جا چکا ہے۔

افغانستان میں روسی سرمایہ کاری

ایک ایسے وقت میں جب ایک چینی کمپنی کی مدد سے شمالی افغانستان میں خام تیل نکالنے کا کام جاری ہے، چین کی طرح روس بھی اس بات کا خواہاں ہے کہ افغانستان میں گیس، تیل اور توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے۔

روس نے اس مد میں ذرائع نقل و حمل، زراعت اور صنعت کے شعبوں اور افغانستان میں سابق سوویت یونین کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں بھی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

ان منصوبوں سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ روس افغانستان کے ساتھ اقتصادی شراکت دار اور جغرافیائی سیاسی اتحادی دونوں کی طرز پر تعلقات کو وسعت دینے پر آمادہ ہے۔

بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ : جیونیوز جرگہ میں سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی کا اہم تجزیہ

انہوں نے درج ذیل سوالات کا تجزیہ کیا : 

1- امریکہ کیلئے  بڑا خطرہ چین یا روس ؟ 
2- کیا پاکستان کو بنگلہ دیش جیسے حالات کا سامنا ہوسکتا ہے ؟
3-  اسرائیلی لابی امریکہ میں اتنی مضبوط کیوں ہے ؟ 






 

جماعت اسلامی اور حکومتی کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا 14 روز سے جاری دھرنا موخر کرنے کا اعلان کردیا۔


نامہ نگار روز نامہ جنگ ۹ اگست ۲۰۲۴

جماعت اسلامی اور حکومتی کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا 14 روز سے جاری دھرنا موخر کرنے کا اعلان کردیا۔

حافظ نعیم الرحمان نے اپنے بیان میں کہا کہ جماعت اسلامی کے مطالبات پر عمل درآمد کے لیے معاہدے طے پا گیا ہے، دھرنا موخر کررہے ہیں ختم نہیں کررہے۔

انہوں نے کہا کہ کل دھرنے کے مقام پر جلسہ کرینگے اور دھرنے کو موخر کرنے کا باقاعدہ اعلان کرینگے۔

حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ حکومت نے معاہدے پر عمل نہ کیا تو دھرنا پھر شروع ہوگا۔

اولمپکس میں پاکستان کا 32 سالہ انتظار ختم، ارشد ندیم نے طلائی تمغہ جیت لیا: ’اس بار 14 اگست گولڈ میڈل کے ساتھ منائیں گے‘



ارشد اولمپکس کی تاریخ میں انفرادی مقابلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں
8 اگست 2024

پاکستان کے ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں جیولن تھرو کے مقابلوں میں نیا اولمپک ریکارڈ قائم کرتے ہوئے نہ صرف طلائی تمغہ حاصل کر لیا ہے بلکہ پاکستانی قوم کا ان عالمی کھیلوں میں میڈل کے حصول کا تین دہائیوں سے جاری انتظار بھی بالاخر ختم ہو گیا ہے۔


ارشد نے یہ کارنامہ 92.97 میٹر فاصلے پر نیزہ پھینک کر سرانجام دیا جو ان کے کریئر کی بہترین کارکردگی بھی ہے۔


جمعرات کی شب سٹیڈ ڈی فرانس میں ہونے والے فائنل مقابلے میں ارشد کی پہلی تھرو فاؤل قرار دی گئی تاہم دوسری تھرو نے 2008 میں قائم کیا گیا اولمپک ریکارڈ توڑ دیا۔


یہ ارشد کے کریئر کی سب سے بڑی جبکہ دنیا میں اب تک پھینکی جانے والی چھٹی سب سے طویل جیولن تھرو تھی۔ارشد نے اس مقابلے میں اپنی آخری تھرو بھی 90 میٹر سے زیادہ فاصلے پر پھینکی۔


یہ دوسرا موقع ہے کہ ارشد نے اپنے کریئر میں 90 میٹر سے زیادہ فاصلے پر تھروز کی ہیں۔ ماضی میں انھوں نے 2022 میں برمنگھم میں دولتِ مشترکہ کھیلوں میں 90.18 میٹر فاصلے پر جیولن پھینک کر طلائی تمغہ جیتا تھا۔


جیولن کے فائنل مقابلے میں چاندی کا تمغہ ارشد کے دیرینہ حریف اور دفاعی چیمپیئن انڈیا کے نیرج چوپڑا نے حاصل کیا جنھوں نے 89.45 میٹر کی تھرو کی۔ یہ رواں برس ان کی بہترین تھرو تھی۔ کانسی کے تمغے کے حقدار گرینیڈا کے اینڈرسن پیٹرز قرار پائے۔

ہم سے کوئی چیز دور نہیں،پارلیمنٹ ہاؤس نہ ڈی چوک، حکومت مذاکرات میں جتنی تاخیر کرے گی مسئلہ بڑھتا جائے گا۔ حافظ نعیم الرحمن

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ہم سے کوئی چیز دور نہیں،پارلیمنٹ ہاؤس نہ ڈی چوک، حکومت مذاکرات میں جتنی تاخیر کرے گی مسئلہ بڑھتا جائے گا۔ افراتفری نہیں چاہتے، لیکن حکمران سن لیں بنگلہ دیش اور سری لنکا کے حالات سے سبق سیکھیں، ایسا نہ ہو کہ مہلت نہ ملے۔ آئی پی پیز کے مالکان کا نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں، واضح طور پر کہنا چاہتاہوں وعدوں اور تحریر پر دھرنا ختم نہیں ہو گا، نوٹیفکیشن اور ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنا پڑے گا۔ 8اگست کو مری روڑ سے آگے کی طرف بڑھیں گے، 11تاریخ کو لاہور، 12کوپشاورمیں عوامی دھرنے ہوں گے۔ تاجروں،صنعت کاروں سے مشاورت مکمل کرلی ہے،14اگست کے بعد ملک بھر میں ہڑتال کی کال دیں گے، تمام تحصیلوں،اضلاع میں عوامی مطالبات کے حوالے سے آگاہی مہم کا آغاز ہوگا۔ حکومت کو واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں بجلی بلوں میں کمی، ناجائز ٹیکسز کا خاتمہ، آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ اور مراعات میں کمی کرے ورنہ مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے دھرنے کے بارہویں روز شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پرسیکرٹری جنرل امیر العظیم،نائب امرا لیاقت بلوچ،ڈاکٹر اسامہ رضی،ڈاکٹر عطاء الرحمن،ڈپٹی سیکرٹریزاظہر اقبال حسن،شیخ عثمان فاروق،ممتاز حسین سہتو،سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف،امیر جماعت اسلامی پنجاب شمالی ڈاکٹر طارق سلیم،امیر ضلع اسلام آباد نصراللہ رندھاوا اور دیگرذمہ داران موجود تھے۔

نوبل انعام یافتہ محمد یونس بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ مقرر



بنگلہ دیش میں نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو مُلک کا عبوری سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ 84 سالہ محمد یونس کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر کے طور پر تقرری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایک روز قبل حسینہ واجد کئی ہفتوں سے جاری بدامنی کے بعد ملک چھوڑ کر روانہ ہو گئی تھیں۔

اگرچہ پروفیسر یونس کو مائیکرو لونز کے استعمال پر سراہا جاتا رہا ہے، لیکن حسینہ واجد نے انھیں عوام دشمن قرار دیا اور حال ہی میں ایک مقامی عدالت نے انھیں سیاسی محرکات پر مبنی کیس میں قید کی سزا سنائی۔

فلسطینی رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل پر قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور

 اسلام آباد ۔ مرکز اطلاعات فلسطین پاکستان کی قومی اسمبلی میں جمعے کو فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت و جارحیت اور حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کو تہران میں قتل کیے جانے  کے خلاف ایک قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی گئی۔

تفصیلات کے مطابق اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا، نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار نے اسمبلی اجلاس کے دوران اسمعیل ہنیہ کی شہادت کے معاملے پر قرارداد پیش کی۔

قرارداد میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ اسرائیلی مظالم کی وجہ سے 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ہیں، پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہے، یہ ایوان اسرائیلی مظالم کو مسترد کرتا ہے۔


قرارداد کے مطابق یہ ایوان فلسطینی بھائیوں کی حمایت کا اظہار کرتا ہے اور اسمٰعیل ہنیہ کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کرتا ہے، ساتھ ہی یہ ایوان غزہ میں فی الفور سیز فائر کا مطالبہ کرتا ہے۔

قومی اسمبلی اجلاس کے آغاز پر جمشید دستی نے فلسطین زندہ باد اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے، بعد ازاں حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہنیہ کے لیے دعائے مغفرت کی گئی، مولانا مصباح الدین نے دعائے مغفرت کرائی۔

بعد ازاں قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اس قرارداد کی منظوری پر وہ ایوان کے مشکور ہیں۔

یوم سوگ کے سلسلے میں دیگر تقریبات کے علاوہ جمعے کو ظہر کی نماز کے بعد حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی۔

پاکستان کی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں نے ’فلسطین کے عوام سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی بربریت‘ کی مذمت کرتے ہوئے جمعرات کو ایک اجلاس میں دو اگست کو ملک میں یوم سوگ منانے کا اعلان کیا تھا۔

اسماعیل ہنیہ: اعتدال پسند اور مفاہمت کے حامی فلسطینی لیڈرکی شہادت



بی بی سی اردو 31 جولائی 2024 ء  

فلسطین کی عسکری تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک حملے میں مارے گئے ہیں۔

حماس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے جہاں انھیں نشانہ بنایا گیا۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہے جس پر اب تک اسرائیل کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

تہران میں ہونے والی یہ کارروائی اسرائیل کی جانب سے بیروت میں حملے کے چند گھنٹوں بعد سامنے آئی کہ جہاں ایران کے حمایت یافتہ لبنانی گروہ اور سیاسی تحریک حزب اللہ کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسماعیل ہنیہ ایک فلسطینی سیاست دان اور فلسطینی گروپ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ رہے۔ وہ دسویں فلسطینی حکومت کے وزیراعظم بھی تھے۔

ان کے سخت بیانات کے باوجود سیاسی مبصرین و تجزیہ کار عام طور پر غزہ سے تعلق رکھنے والے سخت گیر رہنماؤں محمد دیف اور یحییٰ سنوار کے مقابلے میں انھیں اعتدال پسند شخص کے طور پر دیکھتے ہیں۔

چین کی ثالثی میں حماس اور فتح کا معاہدہ جو فلسطینی دھڑے بندی ختم کر سکتا ہے



بی بی سی اردو 24 جولائی 2024

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق 23 جولائی کو 14 فلسطینی گروہوں کے نمائندوں نےچین کی دعوت پر بیجنگ میں مصالحتی مذاکرات کے بعد ’تقسیم کے خاتمے اور فلسطینی قومی اتحاد کو مضبوط بنانے سے متعلق بیجنگ اعلامیے‘ پر دستخط کیے ہیں۔

14 فلسطینی گروہوں نے جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کے لیے قومی مفاہمت کی ایک عبوری حکومت بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ یہ معاہدہ بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے جس میں حماس کے سینئر نمائندے موسیٰ ابو مرزوق اور الفتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمود علول شریک تھے۔

واضح رہے کہ فتح اب غرب اردن جبکہ حماس غزہ میں برسراقتدار ہے۔ تاہم 2006 کے انتخابات میں حماس کی کامیابی اور غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ان کے تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے تھے۔

چینی دفترِ خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے اعلامیے میں ’سب سے اہم کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) فلسطینی عوام کی ’واحد نمائندہ‘ ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’مذاکرات کی سب سے اہم اور نمایاں بات غزہ کی جنگ کے بعد کی حکومت کے لیے عبوری قومی مصالحتی حکومت کے قیام پر اتفاق رائے ہے۔‘

اعلامیے میں فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت، تقسیم کے خاتمے کے لیے چین کی مخلصانہ کوششوں کو سراہا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام علاقائی اور بین الاقوامی شرکت کے ساتھ ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جانا چاہئے۔

اعلامیے میں مندرجہ ذیل نکات بھی شامل تھے:

  • اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام۔
  • غرب اردن، یروشلم اور غزہ سمیت فلسطین کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنا۔
  • تمام فلسطینی گروہوں کے اتفاق رائے اور موجودہ بنیادی قانون کے مطابق ایک عبوری قومی مصالحتی حکومت کی تشکیل۔
  • غزہ کی تعمیرِ نو اور منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق جلد از جلد عام انتخابات کی تیاری۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق ایک نئی قومی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور مشترکہ سیاسی فیصلے کرنے کے لیے ایک عارضی متحد قیادت تشکیل دی جائے گی۔

اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ اعلامیے کی شقوں پر مکمل عمل درآمد کے لیے ایک اجتماعی لائحہ عمل قائم کیا جائے گا جس پر عمل درآمد کے لیے ٹائم ٹیبل ہوگا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فلسطین کے 14 بڑے گروہوں کے نمائندوں کے علاوہ مصر، الجزائر، سعودی عرب، قطر، اردن، شام، لبنان، روس اور ترکی کے سفیروں اور نمائندوں نے اختتامی تقریب میں شرکت کی۔

 اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری کشیدگی میں چین کیا چاہتا ہے؟

اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے: عالمی عدالت انصاف

بی بی سی  20جولائی 2024
عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں آباد کاری روکے اور غزہ کی پٹی سمیت ان علاقوں سے غیرقانونی قبضہ فوری ختم کر دے۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اسے ایک جھوٹ پر مبنی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اسرائیلیوں کا وطن ہے جبکہ فلسطینیوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔

بنگلہ دیش میں کرفیو: فوج بلانے کے انتہائی اقدام کی ضرورت کیوں پڑی؟

اکبر حسین
,بی بی سی بنگلہ | 21 جولائی 2024

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکمران سیاسی جماعت کے کارکنوں کے درمیان ہونے والی جھڑپیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔

یہ بنگلہ دیش کی تاریخ کے بدترین مظاہرے ہیں جن میں اتنے کم عرصے میں ایک سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس ملک میں سیاسی حالات پر قابو پانے کے لیے کرفیو لگانا یا پرتشدد مظاہرے کوئی نئی بات نہیں۔ جب جب تشدد بڑے پیمانے پر پھیلتا ہے تب تب حکومت کرفیو کو آخری حربہ تصور کرتی آئی ہے۔

ملک میں آخری کرفیو 2007 میں نگراں حکومت کے دورِ میں لگایا گیا تھا اور اس وقت بھی وہ بھی طلبہ کے احتجاج پر قابو پانے کے لیے تھا۔

ملک بھر میں جاری حالیہ مظاہرے مزید شدت اختیار کر گئے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔

مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پہلے دن صرف پولیس کو تعینات کیا گیا تھا لیکن ایک موقع پر بارڈر گارڈ فورس بی جی بی کو بھی ان کی مدد کے لیے بلایا گیا۔ اس کے باوجود حالات قابو میں نہیں آ سکے اور اب کرفیو لگا کر فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

حکمران جماعت عوامی لیگ کے جنرل سکریٹری عبیدالقادر کے مطابق ’یہ یقینی طور پر کرفیو ہے جس میں قواعد پر عمل کیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔‘

ڈھاکہ میں 14 جماعتوں کے اجلاس کے بعد کرفیو نافذ کرنے اور فوج کی تعیناتی کے فیصلے کے بارے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’مختلف مقامات پر حملے کئے گئے ہیں اور اہم ریاستی ڈھانچوں کو تباہ کر دیا گیا۔‘