حج سے محروم 60 ہزار پاکستانی: یہ صرف ایک انتظامی ناکامی نہیں، بلکہ ایک دینی، اخلاقی اور قومی جرم ہے!
" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
2025 ء میں حج سے محروم 60 ہزار پاکستانی
بِل گیٹس کا اپنی 99 فیصد دولت عطیہ کرنے کا منصوبہ: ’نہیں چاہتا کہ جب مروں تو لوگ کہیں کہ اس کے پاس کافی دولت تھی "
الشیخ اسامہ الرفاعی - مفتی اعظم سوریا
الشیخ اسامہ الرفاعی ایک ممتاز شامی عالم دین اور مبلغ ہیں، جو 1944 میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دمشق یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور وہاں کے مختلف مساجد میں خطابت کے فرائض انجام دیے۔ تاہم، شامی حکومت کی طرف سے ان پر دباؤ بڑھنے کے بعد، وہ سعودی عرب اور ترکی ہجرت کر گئے۔
![]() |
مفتی اعظم سوریا شیخ اسامہ رفاعی |
شیخ اسامہ الرفاعی کو شامی انقلاب کی حمایت کی وجہ سے شہرت ملی، جو کہ سابق صدر بشار الاسد کے خلاف تھا۔ نظام کے سقوط کے بعد، مارچ 2025 میں، انہیں نو منتخب شامی صدر احمد الشرع نے ملک کا مفتی اعظم مقرر کیا۔
پیدائش اور خاندانی پس منظر
شیخ اسامہ عبد الکریم الرفاعی 1944 میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ وہ مشہور عالم دین شیخ عبد الکریم الرفاعی کے بڑے صاحبزادے اور معروف داعی شیخ ساریہ الرفاعی کے بھائی ہیں۔
تعلیم اور علمی سفر
انہوں نے ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم دمشق میں حاصل کی اور 1971 میں دمشق یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں ڈگری حاصل کی۔ دینی علوم میں ان کی ابتدائی تربیت ان کے والد شیخ عبد الکریم الرفاعی نے کی۔ مزید برآں، انہوں نے کئی مشہور علماء سے بھی کسبِ علم کیا، جن میں شیخ خالد الجیباوی، عبد الغنی الدقر، احمد الشامی، محمود زیدان اور سعید الافغانی شامل ہیں۔
اسلام دو ہزار پچاس تک دنیا کا مقبول ترین مذہب بن جائے گا: سروے
امریکی تاریخ کی ’سب سے مہنگی‘ آتش زدگی
کرپٹو کرنسی اور مصنوعی ذہانت سمیت سال 2025 میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں کیا کچھ ہو گا؟
وہ مبینہ چینی سائبر حملے جن میں ٹرمپ کے فون تک کو نشانہ بنایا گیا
ان سائبر حملوں میں ہیک کیا ہوا؟
شام میں اسد خاندان کے 50 سالہ دور کا ’ایک ہفتے میں‘ خاتمہ
افغانستان کا دریائے آمو جہاں تیل اور گیس کی تلاش میں چین اور روس پیش پیش ہیں۔
افغانستان میں روسی سرمایہ کاری
بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ : جیونیوز جرگہ میں سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی کا اہم تجزیہ
جماعت اسلامی اور حکومتی کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا 14 روز سے جاری دھرنا موخر کرنے کا اعلان کردیا۔
اولمپکس میں پاکستان کا 32 سالہ انتظار ختم، ارشد ندیم نے طلائی تمغہ جیت لیا: ’اس بار 14 اگست گولڈ میڈل کے ساتھ منائیں گے‘

ہم سے کوئی چیز دور نہیں،پارلیمنٹ ہاؤس نہ ڈی چوک، حکومت مذاکرات میں جتنی تاخیر کرے گی مسئلہ بڑھتا جائے گا۔ حافظ نعیم الرحمن
نوبل انعام یافتہ محمد یونس بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ مقرر

فلسطینی رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل پر قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور
اسماعیل ہنیہ: اعتدال پسند اور مفاہمت کے حامی فلسطینی لیڈرکی شہادت
چین کی ثالثی میں حماس اور فتح کا معاہدہ جو فلسطینی دھڑے بندی ختم کر سکتا ہے
14 فلسطینی گروہوں نے جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کے لیے قومی مفاہمت کی ایک عبوری حکومت بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ یہ معاہدہ بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے جس میں حماس کے سینئر نمائندے موسیٰ ابو مرزوق اور الفتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمود علول شریک تھے۔
واضح رہے کہ فتح اب غرب اردن جبکہ حماس غزہ میں برسراقتدار ہے۔ تاہم 2006 کے انتخابات میں حماس کی کامیابی اور غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ان کے تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے تھے۔
چینی دفترِ خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے اعلامیے میں ’سب سے اہم کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) فلسطینی عوام کی ’واحد نمائندہ‘ ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’مذاکرات کی سب سے اہم اور نمایاں بات غزہ کی جنگ کے بعد کی حکومت کے لیے عبوری قومی مصالحتی حکومت کے قیام پر اتفاق رائے ہے۔‘
اعلامیے میں فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت، تقسیم کے خاتمے کے لیے چین کی مخلصانہ کوششوں کو سراہا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام علاقائی اور بین الاقوامی شرکت کے ساتھ ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جانا چاہئے۔
اعلامیے میں مندرجہ ذیل نکات بھی شامل تھے:
- اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام۔
- غرب اردن، یروشلم اور غزہ سمیت فلسطین کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنا۔
- تمام فلسطینی گروہوں کے اتفاق رائے اور موجودہ بنیادی قانون کے مطابق ایک عبوری قومی مصالحتی حکومت کی تشکیل۔
- غزہ کی تعمیرِ نو اور منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق جلد از جلد عام انتخابات کی تیاری۔
اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ اعلامیے کی شقوں پر مکمل عمل درآمد کے لیے ایک اجتماعی لائحہ عمل قائم کیا جائے گا جس پر عمل درآمد کے لیے ٹائم ٹیبل ہوگا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فلسطین کے 14 بڑے گروہوں کے نمائندوں کے علاوہ مصر، الجزائر، سعودی عرب، قطر، اردن، شام، لبنان، روس اور ترکی کے سفیروں اور نمائندوں نے اختتامی تقریب میں شرکت کی۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری کشیدگی میں چین کیا چاہتا ہے؟
اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے: عالمی عدالت انصاف
