گوشۂ علامہ اقبال ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
گوشۂ علامہ اقبال ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اِبلیس کی مجلسِ شُوریٰ (۱۹۳۶ ء) - علامہ اقبال ؒ

علامہ اقبال


اِبلیس

یہ عناصِر کا پُرانا کھیل، یہ دُنیائے دُوں
ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمنّاؤں کا خوں!
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھّا تھا جہانِ کاف و نوں
میں نے دِکھلایا فرنگی کو مُلوکیّت کا خواب
مَیں نے توڑا مسجد و دَیر و کلیِسا کا فسوں
مَیں نے ناداروں کو سِکھلایا سبق تقدیر کا
مَیں نے مُنعِم کو دیا سرمایہ داری کا جُنوں
کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو اِبلیس کا سوزِ دروں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اُس نخلِ کُہن کو سرنِگُوں!

تفہیم اقبال : تنہائی اور اقبال - لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان

تنہائی اور اقبال 
کلام اقبال میں ’’تنہائی‘‘ کے موضوع پر دو نظمیں ملتی ہیں۔ ایک اردو میں اور دوسری فارسی میں۔۔۔ اردو کی نظم قیامِ یورپ کے دوران (1905ء تا 1908ء)  لکھی گئی۔

یہ بانگ درا کے حصہ ء دوم میں ہے اور اس کے پانچ اشعار ہیں ۔ نہائت سادہ اور آسان الفاظ استعمال کے گئے ہیں لیکن جو بات کہنا چاہتے ہیں، وہ آسان اور سادہ نہیں۔ تنہائی کا عالم کاٹنا بقولِ غالب ’’جوئے شیر‘‘ لانا ہے۔ تنہائی کی سخت جانی، گویا جگرکھودنے اور اس پر کھرپے چلانے کے برابر ہے۔ (فارسی میں ’’کاویدن‘‘ مصدر کا مفہوم یہی ہے۔)

اقبال نے یورپ میں جا کر یہ محسوس کیا کہ وہ تنہا نہیں رہے بلکہ اب ان کے ہمراہ اور لوگ بھی ہیں۔انہوں نے قیامِ یورپ کے دوران جو نظم لکھ کر سر شیخ عبدالقادر کو بھیجی تھی، اس کا پہلا شعر یہ تھا:


    اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افقِ خاور پر

دہر میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں

اس نظم کا پس منظر یہ ہے کہ اقبال اس عالم تنہائی سے باہر آ رہے تھے جسے انہوں نے ہوش سنبھالنے سے لے کر یورپ جانے تک کے زمانے میں محسوس کیا تھا۔ تاریخِ اسلام کے گہرے مطالعے سے ان پر منکشف ہوا تھا کہ مسلمان کیا تھے اور کیا ہو گئے۔

اقبال تعلیم اور مدرسہ ۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی

علامہ اقبال اور تعلیم 
اقبال تعلیم کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ عہدِ حاضر میں ذہنوں کو مغلوب کرنے کا سب سے موثر ہتھیار تعلیم ہے۔ اقبال کے بقول:

سینے میں رہے رازِ ملوکانہ تو بہتر
کرتے نہیں محکوموں کو تیغوں سے کبھی زیر

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے اور ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر

تصور، جستجو، تحقیق، آزاد ئی فکر، عمل، حرکت اور تبدیلی اقبال کے تصور تعلیم کے بنیادی اجزا ہیں۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی کے اسباب کا تجزیہ ان کی نظم ”آوازِ غیب“ میں ملتا ہے۔ اس نظم کے شروع کے دو اشعار میں مسلمانوں کی زبوں حالی کے حوالے سے سوال سامنے آئے ہیں :

خطبہ عید الفطر، 1932ء - علامہ اقبال ؒ

خطبہ عید الفطر 1932 ء علامہ اقبال 
علامہ اقبالؒ  کا یہ خطبہ 1350ھ / 1932ء کی عید الفطر کے موقع پر انجمن اسلامیہ پنجاب لاہور نے فیروز پرنٹنگ ورکس لاہور سے پمفلٹ کی صورت میں چھپوا کر تقسیم کیا تھا: 


ملّت اسلامیہ!

قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

شھر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس و بینت من الھدی و الفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ۔ 

یہی ارشاد خداوندی ہے جس کی تعمیل میں آپ نے ماہ رمضان کا پورا مہینہ روزے رھے اور اس اطاعت  الہی کی توفیق پانے کی خوشی میں آج بحیثیت قوم خدا تعالی کی یادگاہ میں سجدۂ شکر بجا لانے کے لیے جمع  ہوئے۔ 

بے شک مسلم کی عید اور اس کی خوشی اگر کچھ ہے تو وہ یہ کہ اطاعت حق یعنی عبدیت کے فرائض کی  بجا آوری میں پورا نکلے۔ اور قومیں بھی خوشی کے تیوہار مناتی ہیں مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم  ہے جو خدائے پاک کی فرما نبراداری میں پورا اترنے کی عید مناتی ہو۔ 

مؤرخین کے بیان کے مطابق 2 ھ میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ صدقہ عید الفطر کا حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سال جاری فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ایک خطبہ دیا، جس میں اس صدقہ کے فصائل بیان فرمائے۔ پھر صدقہ کا حکم دیا۔عید الفطر کی نماز باجماعت عیدگاہ میں  اسی سال ادا فرمائی۔ 2 ھ سے پہلے عید کی نماز نہیں ہوتی تھی۔ 

علامہ اقبال کے ہاں ایک شام

علامہ اقبال کے ہاں ایک شام



پروفیسر حمید احمد خاں


گذشتہ ماہ [۵ ]رمضان [۱۰ نومبر ۱۹۳۷ء ] کی ایک سہانی شام کو جب ہوا کے جھونکے گلابی جاڑے کی تازگی اور کیفیت میں بس رہے تھے ، ہم علا مہ اقبال سے ملنے کے لیے روانہ ہوئے۔ میرے ساتھ میرے شعبۂ انگریزی [اسلامیہ کالج لاہور] کے رفیق پروفیسر عبدالواحد اور صدرِ شعبہ ڈاکٹر سعید اللہ تھے۔ خزاں کا آغاز تھا مگر موسم میں وہ جولانی تھی جو لاہور کا فرحت بخش آسمان صرف کبھی کبھی زمین والوں کو عطا کرتا ہے۔
ساڑھے چار بج چکے تھے۔ سورج کے غروب ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ ہم ایمپرس روڈ سے ہوتے ہوئے اس چھوٹی سی سڑک پر چل رہے تھے، جو ریلوے کے بڑے دفتر کے جنوبی رُخ کے ساتھ ساتھ جاتی ہے۔ وہ سہ راہا آیا، جہاں یہ سڑک میوروڈسے ملتی ہے اور ساتھ ہی ہم نے اس مختصر سے سفید مکان پر نظر ڈالی جہاں دور حاضر میں حقیقت کا سب سے بڑا ترجمان اپنی خاموش مگر ہنگامہ خیز زندگی بسر کر رہا ہے۔ ہم مکان کی ڈیوڑھی کے پاس جا کر  رُک گئے۔ اس ڈیوڑھی کی تین محرابیں جن میں اندلسی اور گاتھک انداز تعمیر کی جھلک ملی ہوئی ہے، اپنے ہشت پہلو ستونوں پر سڑک سے صاف نظر آتی ہیں۔ ڈیوڑھی کے ساتھ ہی مکان کا برآمدہ ہے جس کے سفید پیل پاے طبیعت کو رعب ووقار کے بجاے حسن ولطافت کا اثر زیادہ دیتے ہیں۔ ہمارا پرانا دوست علی بخش ہمیں دیکھ کر صحن کے ایک بغلی حجرے میںسے نکلا۔ اس نے جاکر  علامہ اقبال کو ہماری آمد کی اطلاع دی اور پھر فوراً واپس آ کر ہمیں اندر آنے کو کہا۔
برآمدے سے گزرتے ہی ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ اس کمرے کا سامان بہت سادہ اور تکلف وتصنع سے پاک تھا۔ اسی کمرے سے ملحق بائیں ہاتھ کو علامہ اقبال کی خواب گاہ ہے۔ اس خواب گاہ کی ایک کھڑکی برآمدے کی طرف کھلتی ہے جس کے ساتھ ملا ہوا علامہ ممدوح کا بستر بچھا رہتا ہے۔ اب ایک عرصہ ہو گیا کہ ہم جب آتے تھے، علامہ اقبال کو اسی بستر پر کبھی کبھی بیٹھے، مگر اکثر لیٹے ہوئے پاتے تھے۔
آج ڈرائنگ روم میں داخل [ہوئے]… ڈاکٹر صاحب بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ انھوںنے تکیے کے سہارے لیٹے لیٹے ہمارے سلام کاجواب دیا۔ ہم تینوں بستر کے برابر کرسیوں پر بیٹھنے ہی کو تھے کہ ڈاکٹر صاحب ہم سے مخاطب ہوئے: ’’کون صاحب ہیں ؟‘‘
یہ سوال سن کر میرے دل کو ایک دھکا سا لگا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں گاہ بہ گاہ حاضر ہوتے اب سات آٹھ سال ہو گئے تھے اور ڈاکٹر صاحب ہمیشہ شفقت وعنایت سے پیش آتے تھے۔ اب میں تعطیل گرما کے بعد اگرچہ چند مہینوں کے وقفے سے حاضر ہوا تھا، پھر بھی ڈاکٹرصاحب کا سوال میری سمجھ میں نہ آیا۔ اپنے استعجاب کو چھپاتے ہوئے میں نے جواب دیا: ’’جی میں ہوں،حمید احمد خاں___سعید اللہ اور عبدالواحد‘‘ اور یہ کہہ کر ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
سب سے پہلے ہم نے ڈاکٹر صاحب کے مزاج کی کیفیت پوچھی۔ اس کے بعد تھوڑی دیر تک سکوت رہا۔ اس سکوت کو ڈاکٹرصاحب نے معمول کے مطابق اپنی اس لمبی استادانہ ’ہوں!‘  سے توڑا جس میں بالعموم گفتگو کے لا تعداد امکانات مضمر ہوتے ہیں۔ میں نے اس تپائی پر نظر ڈالی جو بستر کے برابر لگی ہوئی تھی۔ پانچ سات کتابیں اس کے اوپر تھیں اور دو ایک نیچے فرش پر پڑی تھیں۔ میںنے ایک اچٹتی ہوئی نظر ان کتابوں پر ڈالی اور تھوڑے سے وقفے کے بعد پوچھا: ’’ڈاکٹر صاحب ! آج کل پڑھنے پر زیادہ توجہ ہے یا کبھی کبھی آپ شعر بھی لکھتے ہیںـ؟‘‘
’’پڑھنا کیسا! کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اگر کچھ دیکھ سکوں تو پڑھوں‘‘۔
’’نظر نہیں آتا !‘‘ یہ الفاظ میںنے حیرت اور اضطراب کے عالم میں دہرائے۔
٭ ڈاکٹر [محمد اقبال] صاحب:’’ہاں، جب آپ لوگ کمرے میں داخل ہوئے ہیںتو میں آپ کو دیکھ نہیں سکا۔ اب تھوڑی دیر گزرنے پر آپ کی صورتیں کچھ دھندلی سی نظر آ رہی ہیں___ کہتے ہیں کہ senile cataract (موتیا بند ) اتر آیا ہے‘‘۔
ڈاکٹر سعید اللہ : ’’ان گرمی کی چھٹیوں سے پہلے آپ نے ذکر کیا تھا کہ senile cataract اُتر آنے کا خطرہ ہے مگر یہ خیال نہیں تھا کہ اس قدر جلد اتر آئے گا‘‘۔
٭ ڈاکٹر صاحب: ’’جی ہاں،عام طور پر لوگوں کو دیر سے اترتا ہے، مجھے ذرا پہلے اتر آیا ہے۔ میرے والد مرحوم کو، جن کی عمر سو سال سے کچھ اوپر ہوئی ، ۸۰ برس کی عمر میں اترا تھا‘‘۔
میں: ــ’’اس کے علاج کی کوئی صورت تو آپ کر رہے ہوں گے؟‘‘
٭ ڈاکٹر صاحب: ’’اب اس کا آپریشن ہو گا، لیکن جب تک یہ پک نہ جائے آپریشن نہیں ہوسکتا ۔ پکنے میں اسے پانچ مہینے لگ جائیں، پانچ سال لگ جائیں، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بہرحال لکھنا پڑھنا بالکل موقوف ہے۔ کیوں کہ میری داہنی آنکھ تو شروع ہی سے بے کار تھی‘‘۔
’’شروع سے بے کار تھی!‘‘ اب حیرت کے ساتھ اس فقرے میں ہمارا تاسّف اور دلی کرب بھی شامل تھا۔
٭ ڈاکٹر صاحب: ’’ جی ہاں، دو سال کی عمر میں میری یہ آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ مجھے اپنے ہوش میں مطلق یاد نہیں کہ یہ آنکھ کبھی ٹھیک تھی بھی یا نہیں۔ ڈاکٹر نے خیال ظاہر کیا تھا کہ داہنی آنکھ سے خون لیا گیا ہے جس کی وجہ سے بینائی زائل ہو گئی۔ میری والدہ کا بیان ہے کہ دو سال کی عمر میں جو نکیں لگوائی تھیں، تا ہم میں نے اس آنکھ کی کمی کبھی محسوس نہیں کی۔ ایک آنکھ سے دن کو تارے  دیکھ لیا کرتا تھا۔ اب اگرچہ میں پڑھتا نہیں ہوں مگر پڑھنے کے بجاے سوچتا ہوں، جس میں وہی لطف ہے جو پڑھنے میں۔ (پھر ذرا سرگرمی کے ساتھ ‘ تکیے سے سر اٹھا کر ) عجیب بات یہ ہے کہ جب سے بصارت گئی ہے، میرا حافظہ بہتر ہو گیا ہے‘‘۔
سوا پانچ بجے علی بخش نے آ کر [غلام رسول ] مہر صاحب اور [عبدالمجید] سالک صاحب کے آنے کی اطلاع کی۔ دونوں صاحب تھوڑی دیر میں اندر داخل ہوئے اور ہمارے آس پاس دوکرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ان دنوں تھوڑا ہی عرصہ پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس لکھنؤ میں ہوا تھا اور پنجاب کی یونینسٹ پارٹی اور [آل انڈیا] مسلم لیگ کے باہمی میثاق کے چرچے تھے۔ مدیران [اخبار]  انقلاب کے آتے ہی گفتگو کا رخ سیاسیات کی طرف پھر گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مہر صاحب سے پوچھا کہ اب [پنجاب کے وزیراعظم]سر سکندر حیات خاں [م: ۱۹۴۲ء]کے کیا ارادے ہیں؟ مہر صاحب نے یقین دلایا کہ سر سکندر عنقریب اپنی پارٹی اور مسلم لیگ کے اتحاد کے متعلق اعلان کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب کے انداز سے یوں معلوم ہوتا تھا گویا انھیں شبہہ ہے کہ ایسا کوئی بیان شائع ہو گا یا نہیں۔ پھر ہم سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ میں سے کوئی صاحب historian [مؤرخ] ہیں؟ ہم نے اپنے عجز کا اعتراف کیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا : ’’تاریخ انگلستان میں کبھی ایک عہدہ دار ہوا کرتا تھا جسے Keeper of the king's Conscience  [بادشاہ کا ضمیر بردار] کہتے تھے۔ مہر صاحب  Keeper of the king's Conscience  [وزیر اعظم کے ضمیر بردار] ہیں‘‘۔
اسی اثنا میں افطار کا وقت قریب آ گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے گھنٹی بجا کر اپنے ملازم رحما کو طلب کیا اور اس سے کہاکہ افطار کے لیے سنگترے ، کھجوریں،کچھ نمکین اور میٹھی چیزیں ، جو کچھ ہوسکے، لے آئے۔ [نماز کے بعد] قادیان کی سیاسیات کے متعلق گفتگو ہوئی۔ ان دنوں امیر جماعت قادیان نے اعلان کیا تھا کہ: ’کانگریس اور مسلم لیگ دونوں میں سے جس جماعت نے ہمارے حقوق تسلیم کیے، ہم اسی کے ساتھ شامل ہوں گے‘۔
٭ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ: ’اگر قادیانی کانگریس [انڈین نیشنل] کے ساتھ شامل ہوگئے تو اس مسئلے کے متعلق [اخبار] انقلاب کی روش کیا ہو گی ؟‘
 مہر صاحب نے ، جو گفتگو کے بیش تر حصے میں خاموش رہے تھے، اس موقعے پر بھی  سکوت اختیار کیا، لیکن [عبدالمجید]سالک صاحب نے ذرا تفصیل سے اس بات کی شرح کی کہ ایسی صورت حال میں انقلاب کا مسلک کیا ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب اسی سلسلے میں ایک پر لطف فقرہ کہہ گئے، جو یہ تھا: ’’ہاں،مرزا بشیر الدین محمود کو تو کانگریس اور لیگ سے (سربہ مہر ) ٹنڈر مطلوب ہیں!‘‘
ان سیاسی مباحث کے بعد خاموشی کا ایک وقفہ آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے اسے توڑا اور کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! گرمی کی چھٹیوں سے پہلے ہم حاضر ہوئے تھے تو آپ نے [میرزا اسداللہ خاں ]  غالب [م: ۱۸۶۹ء]اور [میرزا عبدالقادر] بیدل [م: ۱۷۲۱ء]کے متعلق فرمایا تھا کہ آپ کی راے میں غالب نے بیدل کو سمجھا ہی نہیں ۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ بیدل کا تصوف dynamic [حرکی ] ہے اور غالب کا static [سکونی ] ۔ ‘‘
٭ ڈاکٹر صاحب:  Inclined to be static (مائل بہ سکون )‘‘۔
میں : ’’ جی ہاں ۔ اس سے آپ کا کیا مطلب تھا؟‘‘
٭ ڈاکٹر صاحب:’’بیدل کے کلام میں خصوصیت سے حرکت پر زور ہے، یہاں تک کہ اس کا معشوق بھی صاحب خرام ہے۔ اس کے برعکس غالب کو زیادہ تر اطمینا ن وسکون سے الفت ہے۔ بیدل نے ایک شعر کہا ہے جس میں ’خرام می کاشت‘ (۱)کی ترکیب استعمال کی ہے، گویا سکون کو بھی بہ شکل حرکت دیکھا ہے۔ مثالیں اس وقت یاد نہیں ہیںلیکن اگر آپ بیدل کا کلام پڑھیں تو بہت سے اشعار ہاتھ آ جائیں گے۔ میں جن دنوں انار کلی [لاہور] میں رہتا تھا ، میں نے بیدل کے کلام کا انتخاب کیا تھا۔ وہ اب میرے کاغذوں میں کہیں ادھر ادھر مل گیاہے۔ نقشبندی سلسلے اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ [م: ۱۶۲۴ء]سے بیدل کی عقیدت کی بنیاد یہی ہے۔ نقشبندی مسلک حرکت اور رجائیت پر مبنی ہے (ڈاکٹر صاحب نے dynamic and optimistic فرمایا) مگر چشتی مسلک میں قنوطیت اور سکون کی جھلک نظر آتی ہے (یہاں ڈاکٹر صاحب نے pessimistic and static  کے الفاظ استعمال کیے)۔ اسی وجہ سے چشتیہ سلسلے کا حلقۂ ارادت زیادہ تر ہندستان تک محدود ہے مگر ہندستان سے باہر ، افغانستان ، بخارا، ترکی وغیرہ میں نقشبندی مسلک کا زور ہے۔ دراصل زندگی کے جس جس شعبے میں تقلید کا عنصر نمایاں ہے، اس میں حرکت مفقود ہوتی جاتی ہے۔ تصوف تقلید پر مبنی ہے۔ سیاسیات، فلسفہ، شاعری، یہ بھی تقلید پر مبنی ہیں۔ لیکن نقشبندی سلسلے کے شعرا مثلاً ناصر علی سرہندی [م: ۱۶۹۷ء]کو دیکھیے۔ ناصر علی کی شاعری تقلیدی نہیں ہے، اسی لیے حرکت والی قوموں میں وہ زیادہ ہردل عزیز ہے۔ ہندستان میں ناصر علی سرہندی کی کچھ زیادہ قدر نہیں ہے، لیکن افغانستان اور بخارا کے اطراف میں لوگ اس کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں۔ بیدل کو بھی افغانستان کے لوگ بہت مانتے ہیں‘‘۔
میں: ’’اس کے کلام کے حرکی(۲)  عنصر کی وجہ سے ؟‘‘
٭ ڈاکٹر صاحب: (مسکراتے ہوئے) ’’میرا خیال ہے کہ بیدل کے کلام کو سمجھنے میں انھیں مشکل پیش آتی ہے، اس لیے۔ ‘‘
سعید اللہ : ’’ آپ کا اس کے متعلق کیا خیال ہے جو غالب نے شروع میں بیدل کی طرح مشکل گوئی کی۔ کیا یہ صرف اس دعوے کے لیے کہ میں بھی مشکل شعر لکھ سکتا ہوںـ؟‘‘
اس موقعے پر مہر صاحب نے سالک صاحب کی طرف دیکھا اور دونوں صاحبوں نے بہ اتفاق ڈاکٹر صاحب سے رخصت چاہی۔ چنانچہ قبل اس کے کہ ڈاکٹر صاحب سعید اللہ(۳) کے سوال کا جواب دیں کہ ’’ہاں، جوانی میں انسان طبعاً مشکل پسند ہوتا ہے‘‘ وہ دونوں صاحب ڈاکٹر صاحب کی خواب گاہ سے نکل کر ڈرائنگ روم تک جا پہنچے تھے۔ ان کی رفت وبرخاست کی وجہ سے گفتگو میں قدرتاً ایک اور وقفہ آیا۔ اس کے بعد سعید اللہ نے کہا: ’’ آج کل ہندستان کے نیشنل اینتھم [قومی ترانے]کے متعلق بڑی بحث ہو رہی ہے۔ آپ کی اس مسئلے کے متعلق کیا راے ہے؟‘‘
٭ ڈاکٹر صاحب: نیشنل اینتھم تو اس صورت میں کہیں کہ کوئی ’نیشن‘ہو۔ جب سرے سے ’نیشن ‘ ہی کا کوئی وجود نہیں ہے، تو نیشنل اینتھم ، کہا ں ہو سکتا ہے؟ میری تو یہ راے ہے کہ ہندستان کو کسی نیشنل اینتھم کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
سعید اللہ : ’’بندے ماترم پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ ایک تویہ بنگالی میں ہے، دوسرے اس کے آہنگ میں گرمی نہیں ہے‘‘۔
٭ ڈاکٹر صاحب: (ذرا گرمی سے ) ’’ آپ ہندوئوں کی شاعری میں گرمی ڈھونڈتے ہیں! ہندو شاعری کے تمام دفتر دیکھ ڈالیے ، کہیں گرمی نہیں ملے گی۔ ہندو کو ہر جگہ شانتی کی تلاش ہے۔ ہندوئوں کی ادبی پیداوار میں میرے نزدیک اس کی صرف ایک استثنا ہے رامائن، اور وہ بھی  بعض بعض حصوں میں‘‘۔
عبدالواحد : ’’مگر ہندستان کی موسیقی تو خاصی ہیجان انگیز ہے۔ قوالی میں یہی موسیقی کافی گرمی پیدا کر لیتی ہے‘‘۔
٭ ڈاکٹر صاحب:’’میں اسے مصنوعی گرمی کہتا ہوں، جس طرح منشیات سے کوئی شخص طبیعت میں ہیجان پیدا کر لے‘‘۔  
عبدالواحد : ’’کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ وجد وحال کی کیفیت مصنوعی ہے؟ مثلاً ہمارے ہاں سیالکوٹ میں نوشاہیوں کا میلہ ہوتا ہے۔ وہاں قوالی سے بعض لوگوں کو یک دم حال آ جاتا ہے۔ کیا وہ آپ کے نزدیک محض دکھاوا ہے؟‘‘
٭ ڈاکٹر صاحب: ’’ان لوگوں نے وجد وحال کو ایک cult (رواج ) بنا لیا ہے۔ یہ کیفیت ان پر واقعی طاری ہوتی ہے، لیکن جب وہ اپنے جوش جذبات کو اس طرح فرو کر لیتے ہیں تو پھر ان میں باقی کچھ نہیں رہتا اور وہ جذبہ دوبارہ طاری نہیں ہوتا۔ دراصل مسلمان جب عرب سے نکلے اور انھیں باہر کی قوموں سے سابقہ پڑا تو صوفیہ نے ان قوموں کی effeminacy (نسائیت/زنانہ پن ) کا لحاظ کرتے ہوئے قوالی اور موسیقی کو اپنے نظام میں شامل کر لیا ۔ effeminacy سے مراد ہے surplus emotion (اضافی جذبات ) ۔ ایران اور ہندستان میں فالتو جذبات کی کثرت ہے، اور حال انھی جذبات کے اخراج کا ایک ذریعہ ہے۔ صوفیہ کے سلسلوں میں قوالی کو جو دخل ہے وہ صرف اسی وجہ سے ہے۔
’’یہاں لاہور میں ہمارے (دوست ) حاجی رحیم بخش(۴) کے مکان پر ایک زمانے میں قوالی ہوا کرتی تھی۔ ایک پیر صاحب تھے جن کا نام مہر صوبہ تھا، حاجی صاحب ان کے مریدتھے ۔ بہرحال ایک مرتبہ حاجی صاحب کے مکان پر سماع کی محفل ہوئی۔ مہرصوبہ اور ان کے مرید جمع تھے۔ حاجی صاحب نے مجھے بھی دعوت دی۔ میں گیا۔ وہاں اسی طرح ایک شخص کو حال آ گیا۔ مہرصاحب کا ایک مرید میرے پاس آ بیٹھا اور کہنے لگا: سنا ہے آپ حال کو نہیں مانتے ؟ میں نے کہا: مجھے حال کی کیفیت سے تو انکار نہیں ہے۔ یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں حال کو نہیں مانتا؟ ‘ وہ بولا: آپ کے متعلق لوگ عام طور پر کہتے ہیں کہ آپ کو جذب وحال کی کیفیتوں پر اعتقاد نہیں ہے، مگر اب یہ ہمارا پیر بھائی آپ کے سامنے ہے، آپ اس کی نسبت کیا کہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا: بے شک اس پر حال کی کیفیت طاری ہے، مگر اس ’حال‘ میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے ’حال‘ میں بڑا فرق ہے۔ اس نے پوچھا: ’وہ کیا؟‘ میں نے کہا: ’یہ بات اپنے پیرصاحب سے جاکر پوچھ لو، وہ بتائیں گے۔ اس پر وہ اصرار کرنے لگا کہ نہیں، آپ ہی کہہ دیجیے۔ میں نے اس سے کہا کہ   صحابہؓ کے حال میں اور تمھارے حال میں یہ فرق ہے کہ ا نھیں تو میدان جنگ میں حال آتا تھا اور تمھیں رحیم بخش کی کوٹھڑی میں !‘‘ (اس لطیفے پر ہم لوگ دل کھول کر ہنسے)۔
rڈاکٹر صاحب نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’حقیقت یہ ہے کہ اسلامی موسیقی کا کوئی وجود ہے ہی نہیں۔ اس وقت تمام اسلامی ممالک میں اپنا اپنا مقامی فن موسیقی رائج ہے۔ مسلمان جہاں جہاں پہنچے ، وہیں کی موسیقی انھوںنے قبول کرلی اور کوئی اسلامی موسیقی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ فن تعمیر کے سوا فنون لطیفہ میں سے کسی میں بھی اسلامی روح نہیں آئی۔ اسلامی تعمیرات میں جو کیفیت نظر آتی ہے، وہ مجھے اور تو کہیں نظر نہیں آئی ، البتہ پچھلی مرتبہ یورپ سے واپسی پر مصر جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں قدیم فرعونوں کے مقابر دیکھنے کا موقع ملا۔ ان قبروں کے ساتھ مدفون باد شاہوں کے بت بھی تھے جن میں power (قوت وہیبت ) کی ایک ایسی شان تھی، جس سے میں بہت متاثر ہوا۔ قوت کا یہی احساس حضرت عمرؓ کی مسجد اور دلی کی مسجد قوۃ الاسلام بھی پیدا کرتی ہے۔ بہت عرصہ ہوا جب میں نے مسجد قوۃ الاسلام کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا مگر جو اثر میری طبیعت پر اس وقت ہوا، وہ مجھے اب تک یاد ہے۔ شام کی سیاہی پھیل رہی تھی اور مغرب کا وقت قریب تھا۔ میرا جی چاہا کہ مسجد میں داخل ہو کر نماز ادا کروں۔ لیکن مسجد کی قوت وجلال نے مجھے اس درجہ مرعوب کر دیا کہ مجھے اپنا یہ فعل ایک جسارت سے کم معلوم نہ ہوتا تھا۔ مسجد کا وقار مجھ پر اس طرح چھا گیا کہ میرے دل میں صرف یہ احساس تھا کہ میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہوں۔
ــ’’اندلس کی بعض عمارتوں میں بھی اسلامی فن تعمیر کی اسی خاص کیفیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن جوں جوں قومی زندگی کے قوا شل ہوتے گئے ، تعمیرات کے اسلامی انداز میں ضعف آتا گیا۔ وہاں کی تین عمارتوں میں مجھے ایک خاص فرق نظر آیا۔ ’قصر زہرا‘ دیووں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے ، مسجد قرطبہ مہذب دیوئوں کا، مگر ’الحمرا‘ محض مہذب انسانوں کا !‘‘
٭ پھر ایک تبسم کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے سلسلۂ کلام کوجاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ میں الحمرا کے ایوانوں میں جا بجا گھومتا پھرا، مگر جدھر نظر اٹھتی تھی، دیوار پر ھوالغالب لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ میں نے دل میں کہا : ’’ یہاں تو ہر طرف خدا ہی خدا غالب ہے، کہیں انسان غالب نظر آئے تو بات بھی ہو! ‘‘
٭اس کے بعد پھر تھوڑی دیر تک ہندستان کی اسلامی عمارت کا ذکر ہوتا رہا ۔ تاج محل کے متعلق ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: ’’مسجد قوۃ الاسلام کی کیفیت اس میں نظر نہیں آتی ۔ بعد کی عمارتوں کی طرح اس میںبھی قوت کے عنصر کو ضعف آ گیا ہے، اور دراصل یہی قوت کا عنصر ہے، جو حسن کے لیے توازن قائم کرتا ہے‘‘۔
سعید اللہ : ’’دلی کی جامع مسجد کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
٭ ڈاکٹر صاحب: ’’وہ تو ایک بیگم ہے!‘‘
ہم اس فقرے پر ہنسے اور ڈاکٹر صاحب بھی ہمارے ساتھ شریک ہو گئے۔ اس منزل پر اسلامی تعمیرات کے متعلق یہ دل کشا بحث ختم ہوئی۔
اب شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے اور تین گھنٹے کی اس مسلسل نشست کو طول دینا مناسب بھی نہیں تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کو ان مشورہ طلب نگاہوں سے دیکھا، جنھیں ہم نے معمولاً ڈاکٹر صاحب سے اجازت لینے کا پیش خیمہ قرار دے رکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب معمول  ہم سے کہا : ’’اچھا، چلتے ہیں آپ ؟‘‘ اور اس کے بعد ہم رخصت ہوئے۔ (اسلامیہ کالج لاہور کے ’حلقۂ نقدونظر‘ کے اجلاس میں دسمبر ۱۹۳۷ء کو پڑھا گیا اور محمود نظامی کے مرتبہ مجموعے: ملفوظات، ناشر: لالہ نرائن دت سہگل، لاہور، س   ن میں شامل ہوا۔طبع دوم بہ عنوان: ملفوظاتِ اقبال، [۱۹۴۹ء] میں کتاب کا نام بدل دیا۔ ازاں بعد اقبال کی شخصیت اور شاعری، از حمیداحمد خاں، بزمِ اقبال، لاہور، طبع دوم، ۱۹۸۳ء)

حواشی
۱- ڈاکٹر محمد اقبال صاحب نے جس شعر کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے:
ھرگہ   دو قدم خرام می کاشت                       از   انگشتم عصا بہ کف داشت
[یعنی، وہ آہستہ آہستہ دو قدم ہی چلا، تاہم اس کا یہ چلنا بھی بڑی بات ہے کہ اس سے ’تحرک‘ کی وہ صفت پیدا ہوگئی، جس سے اس کا عصا اس کی اُنگلی سے اس کی ہتھیلی تک آگیا، یوں گویا کہ جمود ختم ہوگیا، یہی تحرک و حرکت اس شعر کا مرکزی خیال ہے۔ادارہ]
۲-اس تمام گفتگو میں ’حرکی‘ یا (یا ’سکونی‘) کا لفظ نہیں آیا تھا۔ انگریزی لفظ dynamic اور static استعمال ہوتے رہے۔
۳-ڈاکٹر سعیداللہ صاحب امرتسر کے رہنے والے اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو [م: ۱۹۶۳ء]کی برادری کے ممتاز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد تھے۔ علی گڑھ سے ایم اے ، ایل ایل بی، میونخ سے پی ایچ ڈی کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں فلسفے کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ مدت دراز تک راسخ العقیدہ کانگریسی رہے۔ آخر مارچ ۱۹۴۷ء میں اپنی تمام املاک ہندو اور سکھ آتش زنوں اور تباہ کاروں کے حوالے کرکے امرتسر سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئے اور ہجرت کر کے لاہور پہنچے۔
۴-حاجی رحیم بخش (سیشن جج) فرید کوٹ روڈ لاہور میں قیام فرما تھے۔ ان کی وفات ۱۹۵۵ء میں ہوئی۔

(ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، پاکستان ،  تاریخ اشاعت اپریل 2018)

فکر اقبال کا تسلسل

فکر اقبال کا تسلسل 


علامہ اقبال شاعر مشرق، مفکر پاکستان اور پاکستان کے قومی شاعر ہیں۔ علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کی اور ان کو ولولہ تازہ دیا۔ انہوں نے برصغیر کے حالات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ ہندوستان چھوٹا ایشیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہندوستان ایک براعظم ہے جس میں مختلف نسلوں، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف مذاہب کے پیروکار آباد ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کا یہ مطالبہ بالکل مبنی بر حق ہے کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان قائم کیا جائے۔
علامہ اقبال نے 1930ء میں الہ آباد میں ہونے والے مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس کی صدارت کی اور اپنا تاریخی خطبہ دیا۔ اس خطبے میں انہوں نے واضح الفاظ میں قیامِ پاکستان کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے قابل عمل تجاویز بھی دیں۔ 
آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے قومی مطالبات کی تائید کرتے ہوئے حضرت علامہ نے فرمایا: ’’ذاتی طور پر میں ان مطالبات پر مزید یہ کہوں گا کہ میں پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبے، سندھ اور بلوچستان کو مدغم کر کے ایک واحد ریاست کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ ایک مضبوط شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی آخری منزل ایک خود مختار حکومت ہی ہے خواہ یہ حکومت برطانیہ کے تحت بنے یا حکومت برطانیہ سے الگ ہو‘‘۔
اسی خطبہ میں آپ نے مزید فرمایا کہ اگر ہم ہندوستان کی آئندہ حکومت کے لیے کسی مستقل دستور کی بنیاد رکھنا چاہیے ہیں تو ہندوستان کے جغرافیائی، نسلی، لسانی اور عقائد و معاشرت کے اختلاف کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی آزاد ریاستیں قائم کر دیں جو زبان، نسل، تاریخ، مذہب اور اقتصادی مفاد کے اشتراک پر مبنی ہوں … اگر صوبوں کی تقسیم کسی ایسے اصول کے تحت عمل میں آ جائے کہ ہر صوبے کے اندر تقریباً ایک ہی طرح کی قومیں بستی ہوں اور ان کی نسل، ان کی زبان، ان کا مذہب اور ان کی تہذیب و تمدن ایک ہوں تو مسلمانوں کو مخلوط انتخاب پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
فکر اقبال کی روشنی میں مسلمانان ہند نے اپنی بقا کی جنگ جاری رکھی اور 1940ء میں منٹو پارک میں منعقدہ مسلم لیگ کے ستائیسویں سالانہ اجلاس میں قرار داد لاہور جسے قرار داد پاکستان بھی کہا جاتا ہے، منظور کی۔ یہ قراردار فکر اقبال ہی کا ایک تسلسل ہے۔ 
23 مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقدہ تاریخی جلسے کے موقع پر مسلم
زعماء کا قاعد اعظم کے ساتھ گروپ فوٹو
یہ اجلاس پاکستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس اجلاس سے چار روز قبل علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک کی پریڈ پرپولیس نے فائرنگ کر کے 35 کارکنوں کو شہید کر دیا۔ ان حالات میں مسلم لیگ کی قیادت نے اس اجلاس کو ملتوی کرنے پر غور شروع کر دیا، لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے اس اجلاس کو مقررہ وقت پر ہی منعقد کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات واضح کر دی کہ مسلم لیگ کا یہ اجلاس اپنے وقت پر ہی ہو گا اور اس میں تاریخی فیصلے کیے جائیں گے۔
22 سے 24 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں سہ روزہ سالانہ اجلاس لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں منعقد ہوا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس اجلاس میں برصغیر کے مختلف حصوں سے کم و بیش ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی تھی۔
مسلم لیگ کے اس اجلاس میں قرار داد لاہور منظور کی گئی۔ اس قرارداد کا متن پانچ پیراگراف پر مشتمل تھا۔ یہ مسودہ سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا جس میں بعدازاں ترمیم کر دی گئی۔ شیر بنگال مولوی فضل حق نے یہ قرار داد پیش کی۔ جسے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔ اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ ہی مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ 
اس قرار داد میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں اور ان میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔
قرار داد پاکستان فکر اقبال کا ہی تسلسل ہے کیونکہ اقبال نے مسلمانان ہند کو شعور دیا کہ ان کی بقا اسی میں ہے کہ وہ اپنا الگ وطن حاصل کریں اور قرارداد پاکستان میں مسلمانوں نے اسی فکر کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔  
قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد ایک روز قائد اعظم نے اپنے سیکرٹری مطلوب الحسن سید سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’آج اقبال ہم میں موجود نہیں لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ جان کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے بالکل ایسا ہی کیا جس کی وہ ہم سے خواہش کرتے تھے‘‘۔ 
(حسنین عباس ، روزنامہ جنگ ، تاریخ اشاعت : 23مارچ 2018)

مناجات (جاوید نامہ ، علامہ اقبال )

مناجات
(جاوید نامہ ، علامہ اقبال )
آدمی اندر جہاں ہفت رنگ
ہر زمان گرم فغان مانند چنگ

 تشریح  : عبید اللہ قدسی

آدمی : اشرف المخلوقات ہے۔ مسجود ملائک ہے۔ خدا نے اسے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔اور یہی صرف خدا تک پہنچ سکتا ہے۔آفرینش کے نقطہ آغاز سے لے کر انتہا تک اس کی تگ وتاز کا میدان ہے۔ اس کی ترقی کا راز خیر وشر کی راہوں میں تمیز پر منحصر ہے۔اگر انسان خیر کا انتخاب کر سکتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس کی ضد یعنی شر کا انتخاب کر لے۔اس طرح ہر راستے کی اپنی اپنی قدر وقیمت کا ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
’’ لیکن انسان کی مخفی قوتوں کی تربیت کچھ یو ں ممکن تھی۔کہ اس طرح کا خطرہ برداشت کر لیا جاتا۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:۔
کہ ونبلونکم بالشر والخیر فتنہ (۲۱۔ ۳۶)
لہذا اسے ترقی کرنے کائنات تسخیر کرنے اور خطرات پر حاوی آنے کے لئے علم کی طلب ہوتی ہے۔
’’ عقلی اساست کی جستجو کا آغاز آنحضرت صلعم کی ذات مبارک ہی سے ہو گیا تھا۔ آپ ہمیشہ دعا فرماتے تھے کہ ’’ اے اللہ مجھ کو اشیاء کی اصل حقیقت سے آگاہ کر ۔‘‘
 اسلام سے پہلے علم انسانی کی نوعیت تصور ہی تھی چنانچہ الہام اور وحی بھی رمزیت اور اشاریت پر محمول تھی۔ جیسا کہ تخلیق آدم کے سلسلے میں تمام مذاہب میں ذکر ہے۔
۱۔ (اقبال۔ تشکیل جدید، الہیات اسلامیہ) ص۱۲۹، ۲۔ ایضا ص۴
صرف اسلام نے آدمی کا یہ مرتبہ قائم کیا ہے کہ اب انسان کی زندگی کا دار مدار اس بات پر ہے۔کہ خود اپنے تجربات کی بدولت اپنے علم میں اضافہ کرتا رہے۔مگر پھر بھی نفس متناہیہ (آدمی) کے ان تجربات میں جس کے سامنے ایک نہیں ،کئی امکانات ہوں،وسعت پیدا ہو گی تو امتحان وآزمائش،غلطی اور خطا کے ذریعے ،لہذا غلطی یا خطا بھی باوجود کہ ہمیں اس کو ایک قسم کی ذہنی شر سے تعبیر کرنا پڑے گا،حصول تجربات میں ضروری ہے۔
بہر کیف قرآن مجید نے انسان کے ان عزائم کوواضح کردیا ہے۔اور یہ مقصد کھول کر بیان کردیا ہے۔کہ آدمی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ صرف تصورات پر قناعت کرے۔اسے اپنے مقصود ومطلوب کا زیادہ گہرا علم ہونا چاہیئے۔اور اس سے قریب تر ہونا چاہیئے۔
اوراس قرب کی کوشش اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں آدمی ہر وقت بے چین رہتا ہے۔چنانچہ علامہ اقبال نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک تو انسان ہونا نام ہی اس بات کا ہے کہ ہر قسم کی سختیاں برداشت کی جائیں۔
ہفت رنگ: اول سیاہ رنگ،جس کاتعلق زحل سا ہے۔ غباری جو خاک رنگ کا ہے ۔اور مشتری سے متعلق ہے۔ سرخ رنگ مریخ کا ہے۔ زرد رنگ جو آفتاب کا ہے۔ سفید زہرہ کا ہے۔ نیلا عطارد کا، اور زنگاری قمر کا ہے۔(برہان قاطع)
۱۔اقبال۔تشکیل جدید الہیات اسلامیہ،ص۱۳۱،۱۳۲۔ ۲۔ بحوالہ تشکیل ،ص ۱۳۳،قرآن مجید والصابرین فی الباسا ء والضرا وحین الباس (۲،۱۷۷)
کتاب میں ان ہی سیاروں کی سیر کی گئی ہے۔اس لئے ہفت رنگ پوری کتاب پر حاوی ہے۔ کل کائنات کے لئے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ کائنات کی بوقلمونی اور رنگا رنگی بھی اس سے ظاہر ہے۔ اصل رنگ صرف سات ہیں اور باقی ان کا مرکب ہے۔
کل کائنات کے لئے سات کا لفظ مختلف طریقہ سے مذاہب میں استعمال ہوا ہے۔ اس میں تقدس بھی ہے اور ساحرانہ اثر بھی، سات کا عدد بائیبل میں دوسرے اعداد سے زیادہ استعمال ہوا ہے۔ بائیبل میں یہ عدد طاقت، حسن اور رو حانی طاقت کی علامت ہے۔ حضرت عیسیٰ سے پوچھا گیا ’’ کیا آدمی کو اپنے دشمن کو سات دفعہ معاف کرنا چاہیئے؟۔ آپ نے جواب دیا ۷۰دفعہ معاف کرنا چاہیئے۔
قدیم بادشاہوں کی سات شاخیں ہیں،یا یوں کہیئے یہودیوں کی ۷ شمعیں ہیں۔
قرآن شریف میں متعدد بار یہ عدد استعمال ہوا ہے۔(سبعہ سموات) ’’ سات آسمان،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمانہ کا شمار سات دن سے ہوتا ہے۔اصحاب کہف کی تعداد سات تھی۔ حضرت یوسف نے جو خواب دیکھا تھا اس میں سات گائیں تھیں موٹی اور سات دبلی۔‘‘
غرض کل کائنات اس کے تنوع اور اس کے نظام پر ایسا حاوی اور جامع دوسرا لفظ کسی زبان میں موجود نہیں ہے۔
البتہ سنسکرت جو فارسی کی بہن ہے۔ یہی لفظ ’’سپتہ رنگ‘‘ بمعنی انجمن ہفت موجود ہے۔ لیکن ان کے وہاں یہ بنات النعش کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔
بر زمان گرم فغان:
یہ خارج کی دنیا اور داخل کی دنیا ہے۔آدمی جس کی تسخیر کے لئے اور جس میں تدبر وفکر کرکے رد وبدل کرنے میں کبھی دنیا کے اندر اس سے تصادم کرکے ،اور کبھی اس کی موافقت کرکے فطرت پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اور اس آسمان وزمین کی تسخیر اور ظاہر وباطن کی نعمتوں پر اقتدار حاصل کرنے کی تگ ودو میں وہ ہر لمحہ بے چین رہتا ہے۔ اس بے چینی کا اظہار علامہ اقبال نے ہر زمان گرم فغان مانند چنگ سے کیا ہے۔
یہ بے چینی انسان کی تقدیر ہے۔ اور اس بے چینی کی انتہا کا نام عشق ہے۔علامہ اقبال کہتے ہیں:
’’ انسان ہی کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے کہ اس عالم کی گہری آرزوؤں میں شریک ہو۔ جو اس کے گرد وپیش میں موجود ہے۔ اور اپنی دنیا کی تفسیر خود بن جائے۔
ع      اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
کبھی اس کی قوتوں پر موافقت پیدا کرتے ہوئے،اور کبھی پوری طاقت سے کام لیتے ہوئے اپنی غرض وغایت کے مطابق ڈھال کر،اس لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھتے ہوئے اور انقلاب آفرین عمل میں خدا بھی اس کا ساتھ دیتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ پہل انسان کی طرف سے ہو۔‘‘
 ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیرواما بانفسھم
۱۔اقبال، تشکیل ،ص۱۸ ۲۔ قرآن مجید
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
 جو آدمی ہر وقت بے چین نہیں،ترقی کی لگن نہیں، وہ مردہ ہے۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
 مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اقبال
علامہ اقبال کہتے ہیں ’’ اگر انسان قدم آگے نہیں بڑھاتا اور پہل نہیں کرتا ،اپنی ذات کی وسعتوں اور گونا گوں صلاحیتوں کو ترقی نہیں دیتا۔ زندگی کی بڑھتی ہوئی رو کا کوئی تقاضا اپنے اندرون ذات میں محسوس نہیں کرتا،تو اس کی روح پتھر کی طرح سکت ہو جاتی ہے۔اور وہ گر کر بے جان مادے کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔اس کی زندگی کا ،اور اس طرح پے بہ پے ترقی روح کا سفر کا دار ومدار اس بات پر ہے کہ اس حقیقت سے رابطہ پیدا کرے۔ جس نے اس کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ (لیکن یہ بات اچھی طرح دل نشین کر لی جائے،جسے مسلماندانش وروں نے نظر انداز کر دیا ہے۔ کہ) یہ رابطے علم کی بدولت قائم ہوتے ہیں۔
 اور علم عبارت ہے ادراک بالحس سے،(جس کا انحصار سائنس کی ترقی پر بھی ہے) جس میں ہم اپنی عقل وفہم (یعنی فکر واستدلالاور تفصیلات وجزئیات میںنظم وترتیب) کی مدد سے اور زیادہ وسعت پیدا کر لیتے ہیں۔
چنانچہ اس نکتے کی وضاحت علامہ اقبال نے دوسری جگہ اس سے بھی زیادہ صاف الفاظ میں کی ہے،وہ لکھتے ہیں۔
۱۔ اقبال ،تشکیل ،ص۱۹۔
اسلام کا ظہور استقرائی عمل کا ظہور ہے۔اسلام میں نبوت اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی،لہذا ان کا خاتمہ ضروری ہو گیا۔اسلام نے خوب سمجھ لیا تھا کہ انسان ہمیشہ سہاروں پر زندگی نہیں گزار سکتا۔اس کے شعور ذات کی تکمیل ہو گی تو بس یہی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اسلام نے دینی پیشوائی کو تسلیم نہیں کیا،یا موروثی بادشاہت کو جائز نہیں رکھا۔یا بار بار عقل اور تجربے پر زور دیا ،یا عالم فطرت ،اور عالم تاریخ کو علم انسانی کا سرچشمہ ٹھہرایا ،تو اس لئے کہ ان سب کے اندر یہی نکتہ پوشیدہ ہے۔(کہ انسان اپنی عقل سے کام لے،اس کے قوائے فکر وعمل بیدار ہوں،اور وہ اپنے اعمال وافعال کا آپ جواب دہ ٹھہرے۔)
چنگ: طشت کی طرح کھلا ہوا ساز،جس کی آواز میں جھنجھناہٹ ہوتی ہے۔
ترجمہ: آدمی سات رنگ کی دنیا کے اندر ہر وقت چنگ کی طرح فریاد میں مشغول ہے۔
مطلب: پہلے ہی شعر میں علامہ اقبال نے انسان کی تخلیق اس کی سرشت اور اس کی پوری زندگی کا فلسفہ قلم بند کر دیا ہے۔
علامہ اقبال نے مناجات کے پیرائے میں تمام ماحصل بیان کر دیا،آدمی اس رنگا رنگ وسیع وعریض کائنات میں جس میں نظام شمسی کی طرح کئی نظام ہیں،جس کی وسعتوں کا ہم اندازہ نہیں کر سکتے،انسان نے ابھی اس کا کچھ حصہ حاصل کیا ہے۔لہذا اس کے سامنے تسخیر کے لئے ہزاروں جہان ہیں۔جنہیں وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔اور چونکہ کچھ حاصل نہیں کر سکا، اس لئے شدید اضطراب اور فریاد وفغاں میں ہے۔ہر لمحہ تڑپ اور بے چینی ہے۔
جس طرح قرآن شریف کی سب سے پہلی نازل ہونے والی سورۃ کی پہلی آیتلفظ اقراء (پڑھ) ہے کہ انسان بننے کی ابتدا ء پڑھنے سے شروع ہوتی ہے۔انسان کی برتری کا راز صرف اور صرف علم ہے۔جس کے بغیر انسان ،انسان نہیں کہلا سکتا۔ جیسا کہ فارابی نے لکھا ہے ۔’’جو فرد نور علم سے خالی ہے وہ حیوانی حالت میں ہے۔‘‘ بالکل علامہ اقبال نے اپنی کتاب کے پہلے شعر کا پہلا لفظ ’’آدمی رکھا ہے۔‘‘ کہ یہی ان کا موضوع بحث ہے۔
علامہ اقبال کی اس کتاب کا موضوع یہ ہے کہ آدمی کیا ہے؟۔ یہ کائنات کیا ہے؟۔ اور اس سے آدمی کا کیا رشتہ ہے؟۔ یوں سمجھیئے کہ کائنات میں انسان کا مقام کیا ہے؟۔اور یہ کہ خدا سے آدمی اور کائنات کا کیا رشتہ ہے؟۔ان تینوں کے تعلقات اور ان سے بحث فلسفہ میں بھی ہوتی ہے۔اور مذہب میں بھی،علامہ اقبال نے پہلے ہی شعر میں اس مسلہ کو حمد کے پیرائے میں پیش کر دیا ہے۔
غالب نے بھی اپنے دیوان کا پہلا شعرحمد میں اس موضوع پر کہا ہے ۔لیکن وہاں عبد ومعبود کے ساتھ ایک قسم کی مجبوری کا اظہار ہے۔ جس میں کائنات کا کوئی ذکر نہیں، وہ لکھتے ہیں:۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
غالب
علامہ اقبال کے مرشد رومی ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی مثنوی کے پہلے شعر میں یہی موضوع لیا ہے۔ لیکن وہاں صرف عشق الہیٰ بیان کیا گیا ہے۔
۱۔فارابی،مدینۃ الفاضلہ۔
اور قرآن شریف کی اس تفسیر سے ان الی ربک المنتھیٰ،تیری انتہا خدا کی طرف سے ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
بشنو از نے چوں حکایت می کنند
وز جدائی ھا شکایت می کنند
اس میں صرف ولایت ہے نیابت نہیں، انسان اپنے معبود حقیقی کی طرف دوڑ رہا ہے۔ وہی اس کا مقصود اور محبوب ہے۔اصل سے جبتک وصل نہ ہو،اضطراب رہتا ہے۔خدا کی طرف توجہ اور اس کی طرف انتہا ولایت ہے۔ اور خدا کی طرف سے مخلوق کی طرف آنا اور اس کی ہدایت یہ نبوت کاکام ہے۔اور یہی خدا کی خلافت اور نیابت ہے۔ لہذا صحیح انسان وہ ہے کہ جس اپنے مرتبے کا احساس ہے۔اور ج وآدمی شرف انسانیت سے واقف ہے۔ وہ ہر لمحہ اس دنیا میں بے چین اور فریاد وفغان میں رہتا ہے۔
آرزوئے ہم نفس می سوزدش
نالہائے دل نواز آموزدش
انسان کو ہم نفس کی آرزو بے چین رکھتی ہے۔ وہ دل نواز نالے کرنا سیکھ جاتا ہے۔
(ازروئے ہم نفس) =  ہم دم، ہم خیال، اللہ تعالیٰ نے انسان کو تنہا پیدا نہیں کیا۔
انسان کا مادہ انس ہے ،اور انس کے بغیر انسان نہیں بنتا۔ دو آدمیوں میں جس قدر اتحاد ہوگا۔اسی قدر کامیابی ہوگی،دنیا کی کامیابی ہوگی۔دنیا کی کام یابی اور ترقی کا راز دوسروں کے اتحاد میں ہے۔
ع۔ دو دل یک شوند بشکند کوہ را
 دو مل کر سوسائٹی میں تنہا انسان کچھ نہیں،اس راز اور اس فلسفہ کو بڑی تفصیل سے ابن طفیل نے حی ابن یقظان میں سمجھایا ہے۔
یہاں ہم نفس سے ذہنی سطح پر برابر کا ہم خیال اور ہم دم شخص مراد ہے۔ جو اس کے منصوبے میں مدد دے سکے۔ اس کی تلاش دنیا میں تمام منصوبہ سازوں اور رہنماؤں کو رہی ہے۔ جنہوں نے نظام عالم کو سجھنے کے بعد سمجھا نے کی کوشش کی ہے۔چنانچہ اسرار ورموز میں دیباچہ کے طور پر علامہ اقبال نے مولانا روم کے اس معنی کے اشعار کو استعمال کیا۔
دی شیخ پا چراغ ہمی گشت گرد شہر
کز دام ودد ملونم وانسانم آرزوست
زیںہمر ہان ست عناصر دلم گرفت
شیر خدا ورستم دستانم آرازوست
(مولانا جلال الدین رومی)
شروع سے ہرپیغمبر، ہر مصلح اور ہر مرشد کو یہی تلاش رہی ہے۔ جو بات اس کی سمجھ لے اور ہم نفس بن جائے۔حضرت موسیٰ نے دعا کی اور خدا نے حضرت ہارون کو ان کے ساتھ کر دیا۔رسول اللہ صلعم نے اپنے اصحاب کو چاہا اور علامہ اقبال کی شاعری کا مقصد بھی پیغمبری کی ترجمانی ہے۔
شعر را مقصود اگر آدم گری است
شاعری ہم وارث پیغمبری است
اس کی تکمیل کسی ہم نفس ،کسی ہمراز اور ہم خیال کے بغیر ناممکن ہے۔اس لئے مناجات میں سب سے پہلی یہی دعا کی ہے ،اسی دعا کے لئے انہوں نے آرزو کا لفظ استعمال کیا ہے۔جیسا کہ جدید تشکیل، جدید الہیات اسلامیہ میں دعا کے فلسفہ میں انہوں نے لکھا ہے ۔’’ دعا خواہ انفرادی ہو، خواہ اجتماعی،ضمیر انسانی کی اس نہایت درجہ پوشیدہ آرزو کی ترجمان ہے۔کہ کائنات کے ہولناک سکوت میں وہ اپنی پکار کاکوئی جواب سنے۔’’یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ بحالت اجتماع میں ایک عام انسان کی قوت ادراک کہیں زیادہ بڑھ جاتی اور اس کے جذبات میں کچھ ایسی شدت اور ارادوں میں وہ حرکت پیدا ہوتی جو دوسروں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ہر گز ممکن نہیں لہذا بہ لحاظ ایک جسمانی مظہر دعا ایک راز ہے۔‘‘
نالہائے دل نواز: نالہ اور فریاد انتہائی اضطراب ،بے چینی اور عشق کی علامت ہے ،غالب نے لکھا تھا۔
نلہ پابند نے نہیں ہے
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
لیکن اقبال کا نالہ انتشار بے حالی اور دیوانگی کی علامت نہیں،بلکہ اس میں دل نوازی موجود ہے۔ہم نفس کی آرزو میں جب شدت ہوتی ہے ۔اور نالہ نکلتا ہے۔ تو وہ شدت آرزو دل کشی کا باعث ہوتی ہے۔ اس میں تنوع ہے۔ نئے نئے انداز اور طرح طرح کے پیرایہء بیان پیدا ہوتے ہیں۔
علامہ اقبال نے یہ ایک بڑی نفسیاتی چیز بیان کی ہے۔ جو سبق آموز بھی ہے۔ اہل حق اور ایمان کی تبلیغ کرنے والوں کے بیان میں اکثر تلخیآجاتی ہے۔ شعلہ بیان مقرر بھی واعظ میں شدت حال میں تلخ ہو جاتے ہیں۔ لیکن خلق عظیم کے حامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ اور آرزوئے دعا میں کبھی نرمی،محبت اور دل نوازی کے علاوہ کوئی سخت لفظ استعمال نہیں کیا۔علامہ اقبال بھی حکیم الامت ہیں۔اخلاق کے مبلغ ہیں۔ اس لئے ازروئے ہم نفس میںان کے نالوں میں دل نوازی اور کشش ہے۔ اس لئے کہ ان کے نزدیک نالہ ہم نفس کی بیداری اور اس میں تحریک پیدا کرنے کا سبب ہے۔ نہ کہ آشفتگی ،پریشانی اور اپنے اضطراب کے اظہار کا ذریعہ جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے۔
نالہ تو بیدار شوی نالہ کشیدم ورنہ
عشق کاریست کہ بے آہ وفغاں تیز کنند
ترجمہ:۔ہم نفس کی آرزو اسے تڑپاتی ہے۔ یہ آرزو اس میں دل نواز نالے پیدا کرتی ہے۔

مطلب: اقبال کا مدعا یہ ہے کہ تمام تعلیم،تکلم، تخاطب دوسرے ہم دم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور کتاب کا مقصد ہی زندگی کے نئے راز بیان کرنا ہے۔جو اس قوم کے لئے دوسرے جہان کی گفتگو ہے۔ لہذا یہ تمام تعلیمات اور تمام آرزوئیں کام یاب نہیں ہو سکتیں۔ جب تک دوسرا ہم نفس اور ہم خیال نہ ہو۔ اس لئے سب سے پہلی آرزو جس نے انسان کو تڑپا دیا ،جس نے شاعر کو بے چین کردیا وہ ہم نفس اور ہم خیال کی آرزو ہے۔ اور یہ آرزو شاعر کو نئے نئے پیرایہء بیان اور دل نواز طریقے سکھاتی ہے۔