برصغیر کی قدیم تاریخ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
برصغیر کی قدیم تاریخ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

علامہ عنایت اللہ خان مشرقی رحمۃ اللہ علیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

علامہ عنایت اللہ مشرقی 
علامہ عنایت اللہ خان مشرقی رحمۃ اللہ علیہ ہماری قوم کے اندر ایک منفرد سیرت و کردار کے لیڈر تھے۔ اگرچہ ہمیں کبھی ان کے نظریات سے پورا پورا اتفاق نہ ہو سکا، لیکن اس امر میں ہمیں کبھی شک نہیں ہوا کہ اپنی قوم کی سربلندی کے لیے ان کے دل کے اندر بڑا غیرمعمولی جوش و جذبہ تھا۔ وہ اسلام اور غلبہ کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے، اس وجہ سے اس دور میں مسلمانوں کی بے بسی پر ان کا دل بہت کڑھتا تھا۔

 انھوں نے اس حیرت انگیز تضاد سے بڑا گہرا تاثر لیا کہ مسلمان قومیں اسلام کی مدعی ہیں، لیکن دنیا میں ذلیل و خوار ہیں اور مغربی قومیں اسلام کی منکر ہیں، لیکن نہ صرف مشرق کی غیرمسلم قوموں پر، بلکہ خود مسلمانوں پر بھی حاوی اور غالب ہیں۔ جب انھوں نے اس صورت حال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی تو ان کی نظر اس بات کی طرف گئی کہ ہم مسلمان صرف اسلام کی چند روایات کے پرستار بن کر رہ گئے ہیں اور اسلام کا اصلی کردار دنیا کی غالب قوموں نے اپنا رکھا ہے۔ 

ان غالب قوموں کے کردار میں سب سے زیادہ ابھری ہوئی چیز جو ان کو نظر آئی، وہ ان کا عسکری جوش و جذبہ اور ان کی فوجی تنظیم تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ اور ایشیا کے متعدد ملکوں میں عسکری تحریکیں بڑے زور و شور سے اٹھیں اور ستم رسیدہ ممالک کے حساس لوگوں کو ان تحریکوں نے اپیل کیا۔

افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہے

ناربرٹو پریڈیس

بی بی سی منڈو سروس

افغانستان بڑی سلطنتوں کا قبرستان کیوں ہے؟ 
22 اگست 2021

اپ ڈیٹ کی گئی 24 دسمبر 2022آج سے ٹھیک 43 برس قبل یعنی 24 دسمبر 1979 کو سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔ افغانستان کے جغرافیے اور یہاں بیرونی افواج کو ہونے والی شکستوں پر بی بی سی کی یہ تحریر پہلی مرتبہ اگست 2021 میں شائع ہوئی تھی جسے آج کے دن کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

افغانستان میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ اسے پوری دنیا ’سلطنتوں کے قبرستان‘ کے نام سے جانتی ہے؟ آخر امریکہ، برطانیہ، سوویت یونین سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسے فتح کرنے کی کوششوں میں کیوں ناکام ہوئیں؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب افغانستان کی تاریخ اور اس کے جغرافیائی محل و وقوع میں پوشیدہ ہے۔

19 ویں صدی میں برطانوی سلطنت، جو اس وقت دنیا کی سب سے طاقتور سلطنت تھی، اس نے اپنی پوری طاقت سے اسے فتح کرنے کی کوشش کی۔ لیکن سنہ 1919 میں برطانیہ کو بالآخر افغانستان چھوڑ کر جانا پڑا اور افغانوں کو آزادی دینی پڑی۔

اس کے بعد سوویت یونین نے سنہ 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ سنہ 1978 میں بغاوت کے ذریعے قائم کی گئی کمیونسٹ حکومت کو گرنے سے بچایا جائے۔ لیکن انھیں یہ سمجھنے میں دس سال لگے کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت پائیں گے۔

انڈین طالبعلم نے سنسکرت کا 2500 سال پرانا معمہ حل کر دیا

بی بی سی اردو 

16 دسمبر 2022 

برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے ایک طالبعلم نے سنسکرت زبان کی گرائمر کا ایک ایسا معمہ حل کر لیا ہے جس نے بڑے بڑے عالموں کو پانچویں صدی قبل مسیح سے پریشان کر رکھا تھا۔

27 سالہ رِشی راجپوپات نے سنسکرت کے جس اصول کی گتھی سلجھائی ہے اس کے بانی ماضی قدیم کے مشہور استاد پانینی تھے جنھوں نے یہ اصول آج سے تقریباً اڑھائی ہزار برس پہلے وضع کیا تھا۔

پانینی کے قدیم نسخہ کا ایک صحفہ 

کیمبرج یونیورسٹی کے مطابق آج کل سنسکرت صرف انڈیا میں بولی جاتی ہے جہاں اس قدیم زبان کے بولنے والوں کی تعداد اندازاً 25 ہزار ہے۔

مسٹر رِشی راجپوپات کا کہنا ہے کہ وہ نو ماہ تک ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے تھے اور ان کی تحقیق بالکل آگے نہیں بڑھ رہی تھی، لیکن آخر کار وہ لمحہ آ گیا جب انھیں یہ راز سمجھ آ گیا۔

’جب مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی تو میں نے ایک مہینے کے لیے کتابیں بند کر دیں اور موسم گرما سے لطف اندوز ہونے نکل پڑا، کبھی تیراکی، کبھی کھانا پکانا، کبھی پوجا اور سوچ و بچار۔‘

’اس کے بعد میں پاؤں گھسیٹتا ہوا دوبارہ کام پر آ گیا، اور ابھی مجھے صفحے پلٹتے ہوئے چند ہی منٹ گزرے تھے کہ (پنینی کے لکھے ہوئے صفحات کے نمونے) مجھے سمجھ آنے لگ گئے۔‘

رِشی بتاتے ہیں کہ وہ ’کئی کئی گھنٹے لائبریری میں بیٹھے رہتے، اور کبھی تو رات دیر گئے تک۔‘

انڈیا کا سب سے امیر مندر جس کے پاس 10 ٹن سونا اور اربوں روپے ہیں

بی بی سی اردو 7 نومبر 2022، میں یہ خبر شائع ہوئی کہ  انڈین خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی (پریس ٹرسٹ آف انڈیا) کے مطابق گذشتہ روز انڈیا کے امیر ترین مندر کے ٹرسٹ نے ایک پریس ریلیز جاری کی ہے، جس میں انھوں نے مندر کی دولت کی تفیصلات پیش کی ہیں۔

یہ مندر انڈیا کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش میں ہے اور اسے عرف عام میں ’تروپتی مندر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مندر کے تروملا تروپتی دیوستھانم (ٹی ٹی ڈی) ٹرسٹ نے بتایا ہے کہ اس کے پاس 10.3 ٹن سونا اور بینکوں میں 5,300 کروڑ روپے ہیں۔

اس کے علاوہ اس کے پاس 15,938 کروڑ روپے کی نقد رقم بھی ہے۔

تروملا تروپتی دیوستھانم تروپتی مندر کا انتظام و انصرام چلاتی ہے اور اس نے ایک وائٹ پیپر جاری کرکے اپنے اثاثوں کا اعلان کیا ہے۔

ٹی ٹی ڈی کے مطابق سنہ 2019 میں مختلف بینکوں میں اس کے 13,025 کروڑ روپے کے فکسڈ ڈیپازٹ تھے جو اب بڑھ کر 15,938 کروڑ روپے ہو گئے ہیں۔

جب انڈیا کی مدد سے بندوق کے سائے تلے ’بنگلہ دیش‘ کی پہلی عبوری حکومت قائم ہوئی

ریحان فضل

بی بی سی ہندی، دہلی

پانچ دن گھوڑے پر اور پیدل چلنے کے بعد 31 مارچ 1971 کی شام عوامی لیگ کے رہنما تاج الدین احمد اور امیر الاسلام انڈیا کی سرحد کے قریب ایک پل کے پاس بیٹھے تھے۔ دونوں ننگے پاؤں تھے۔ ان کا ایک قاصد سرحد پار رابطہ قائم کرنے گیا تھا-

بنگلہ ديش کى پہلى عبورى حکومت

جیسے ہی اندھیرا ہوا، ان کو جوتوں کی آواز سنائی دی۔ تھوڑی ہی دیر میں مسلح سپاہیوں کا ایک چھوٹا گروپ ان کے سامنے تھا۔ ان کی قیادت بارڈر سیکورٹی فورس کے ایک اعلیٰ افسر گولوک مجمدار کر رہے تھے۔

تاج الدین نے عوامی لیگ کے رہنماؤں اور قومی اسمبلی کے اراکین کی ایک فہرست ان کے حوالے کی۔ 30 اور 31 مارچ کی رات 12 بجے بارڈر سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل کے ایف رستم جی تاج الدین احمد سے ملنے دہلی سے کلکتہ پہنچے۔ گولوک مجمدار نے ان کا استقبال کیا اور انھیں ایئرپورٹ کے باہر کھڑی ایک جیپ تک لائے جس میں تاج الدین احمد بیٹھے تھے۔

پاکستان کا اصل یوم آزادی کیا ہے ؟ ایک تحقیقی مطالعہ

عقیل عباس جعفری ، محقق و  مورخ 
تاریخ اشاعت : 22 جولائی 2020م ، بی بی سی اردو

پاکستان کو آزاد ہوئے ستر سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس طویل عرصے میں ہم اپنی تاریخ کے کتنے ہی گوشوں سے ناواقف رہے۔ ہم اپنی یوم آزادی کی تقریبات ہر سال 14 اگست کو اور ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ہمسایہ ملک انڈیا اپنی یہی تقریبات 15 اگست کو مناتا ہے اور ہر سال یہ سوال اٹھتا ہے کہ دو ملک جو ایک ساتھ آزاد ہوئے ہوں، ان کے یوم آزادی میں ایک دن کا فرق کیسے آگیا؟ اس تحریر میں ہم نے اسی معمے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔

بزرگ ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان رمضان کی 27ویں شب کو آزاد ہوا اور یہ کہ جس دن پاکستان آزاد ہوا اس دن جمعتہ الوداع کا مبارک دن تھا۔ پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس دن 14 اگست 1947 کی تاریخ تھی اور ہم اپنے ساتھ آزاد ہونے والے ملک سے 'ایک دن بڑے' ہیں۔

لیکن جب ہم 14 اگست 1947 کی تقویم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دن تو جمعرات تھی اور ہجری تاریخ بھی 27 نہیں 26 رمضان تھی۔

پھر ہم پاکستان کے پہلے ڈاک ٹکٹ دیکھتے ہیں جو پاکستان کی آزادی کے 11 ماہ بعد 9 جولائی 1948 کو جاری ہوئے تھے۔ ان ڈاک ٹکٹوں پر واضح طور پر پاکستان کا یوم آزادی 15 اگست 1947 طبع ہوا ہے۔

سلطنت عثمانیہ : ابتداء سے سقوط تک

سلطنت عثمانیہ : تاریخ و جغرافیہ 
سلاجقہ روم کی سلطنت کے خاتمے کے بعد اناطولیہ میں طوائف الملوکی پھیل گئی اور مختلف سردار اپنی اپنی خود مختیار ریاستیں بنا کر بیٹھ گئے جنہیں غازی امارات کہا جاتا تھا۔ 1300ء تک زوال کی جانب گامزن بازنطینی سلطنت اناطولیہ میں واقع اپنے بیشتر صوبے ان غازی امارتوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھی۔ انہی امارتوں میں سے ایک مغربی اناطولیہ میں اسکی شہر کے علاقے میں واقع تھی جس کے سردار عثمان اول تھے۔

 کہا جاتا ہے کہ جب ارطغرل ہجرت کر کے اناطولیہ پہنچے تو انہوں نے دو لشکروں کو آپس میں برسر پیکار دیکھا جن میں سے ایک تعداد میں زیادہ اور دوسرا کم تھا اور اپنی فطری ہمدردانہ طبیعت کے باعث ارطغرل نے چھوٹے لشکر کا ساتھ دیا اور 400 شہسواروں کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے۔ اور شکست کے قریب پہنچنے والا لشکر اس اچانک امداد سے جنگ کا پانسا پلٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ ارطغرل نے جس فوج کی مدد کی وہ دراصل سلاجقہ روم کا لشکر تھا جو مسیحیوں سے برسرپیکار تھا اور اس فتح کے لیے ارطغرل کی خدمات کے پیش نظر انہیں اسکی شہر کے قریب ایک جاگیر عطا کی۔ 1281ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس جاگیر کی سربراہی عثمان اول کے ہاتھ میں آئی جنہوں نے 1299ء میں سلجوقی سلطنت سے خودمختاری کا اعلان کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ 

انگریزوں نے ہندوستان کو کل کتنا مالی نقصان پہنچایا؟

ظفر سید ،  بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
سر ٹامس رو شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں
15 اگست 2018

آج بادشاہ کی سالگرہ ہے اورمغل روایات کے مطابق انھیں تولا جانا ہے۔ اس موقعے پر برطانوی سفیر سر ٹامس رو بھی دربار میں موجود ہیں۔

تقریب پانی میں گھرے ایک چوکور چبوترے پر منعقد کی جا رہی ہے۔ چبوترے کے بیچوں بیچ ایک دیوہیکل طلائی ورق منڈھی ترازو نصب ہے۔ ایک پلڑے میں کئی ریشمی تھیلے رکھے ہوئے ہیں، دوسرے میں خود چوتھے مغل شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر احتیاط سے سوار ہوئے۔

بھاری لبادوں، تاج اور زر و جواہر سمیت شہنشاہ جہانگیر کا وزن تقریباً ڈھائی سو پاؤنڈ نکلا۔ ایک پلڑے میں ظلِ الٰہی متمکن رہے، دوسرے میں رکھے ریشمی تھیلے باری باری تبدیل کیے جاتے رہے۔ پہلے مغل بادشاہ کو چاندی کے سکوں سے تولا گیا، جو فوراً ہی غریبوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ اس کے بعد سونے کی باری آئی، پھر جواہرات، بعد میں ریشم، اور آخر میں دوسری بیش قیمت اجناس سے بادشاہ سلامت کے وزن کا تقابل کیا گیا۔یہ وہ منظر ہے جو آج سے تقریباً ٹھیک چار سو سال قبل مغل شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے دربار میں انگریز سفیر سر ٹامس رو نے دیکھا اور اپنی ڈائری میں قلم بند کر لیا۔ تاہم دولت کے اس خیرہ کن مظاہرے نے سر ٹامس کو شک میں ڈال دیا کہ کیا بند تھیلے واقعی ہیرے جواہرات یا سونے سے بھرے ہوئے ہیں، کہیں ان میں پتھر تو نہیں؟