معرکہ اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
معرکہ اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

امتِ مسلمہ: ایک جاں، ہزار قالب

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ہم ایک خواب کی کرچیاں چن رہے ہیں… ایک ایسا خواب جسے تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں کہیں سجا کر رکھ دیا گیا ہو۔

مگر نہیں، یہ خواب نہیں، یہ ایک روحانی حقیقت ہے… ایک عقیدہ، ایک احساس، ایک رشتہ، جو دلوں کو جوڑتا ہے، آنکھوں کو نم کرتا ہے، اور اذان کے ہر ترنم میں بازگشت دیتا ہے کہ:

"إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ..."  (الأنبیاء: 92)

یہ امتِ مسلمہ ہے...
نہ قوم کی قید میں، نہ رنگ و نسل کی زنجیروں میں...
بلکہ سجدوں کی روانی میں، روزوں کی تھکن میں، اور حج کے لباسِ سفید میں سمٹی ہوئی ایک جیتی جاگتی اکائی۔

کیا امت مسلمہ کا تصور ختم ہو چکا ہے؟

غزہ کے جلتے چہروں، ٹوٹتے خوابوں اور معصوم لاشوں کے ساتھ صرف انسانیت ہی نہیں، امت مسلمہ کے تصور پر یقین رکھنے والوں کا دل بھی چکناچور ہو چکا ہے۔ اس المناک منظرنامے نے جہاں ظالموں کے چہرے بےنقاب کیے، وہیں ایک کربناک سوال بھی جنم دیا:

"کیا واقعی امت مسلمہ کا تصور محض ایک خیالی، کتابی بات ہے؟"

یہ سوال ایک فرد کی مایوسی نہیں، ایک پوری نسل کے سوالات کی بازگشت ہے۔

❓ امت مسلمہ: حقیقت یا خیال؟

یہ کہنا کہ امت مسلمہ کا تصور ختم ہو چکا ہے، ایک سطحی، وقتی اور جذباتی نتیجہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ کا تصور:

  • قرآن سے نکلا ہے:

    "إِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُونِ"   (الأنبیاء: 92)

  • نبی ﷺ کی سنت سے جڑا ہے:

    "المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً"  (بخاری و مسلم)

یعنی امت مسلمہ کا تصور نظریاتی، روحانی، اور فطری حقیقت ہے، جسے کسی سیاسی زوال یا معاشی مفادات سے مٹایا نہیں جا سکتا۔

واقعہ کربلا - سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اقدام


 

سقوط غرناطہ: ابوعبداللہ وہ مسلمان حکمران جنھوں نے ’جنت کی کنجیاں‘ مسیحی بادشاہوں کے حوالے کیں

وقارمصطفیٰ | بی بی سی اردو | 15 جولائی 2024

ابو عبد اللہ محمد سنہ 1459 میں سپین کے الحمرا محل میں پیدا ہوئے تو نجومی نے پیش گوئی کی کہ وہ بڑے ہو کر مسلم غرناطہ کے حکمران بنیں گے، لیکن آخری۔
سقوط غرناطہ 

آٹھویں صدی کی ابتدا سے اگلے 300 سال تک سپین میں علم و ایجاد کو فروغ دیتی اموی خلافت رہی، پھر 40 سال تک سپین چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا رہا۔

مراکش سے آنے والے مرابطون نے انھیں متحد کر کے 1086 سے1147 تک چلایا۔ ان کے بعد موحدون نے شمالی افریقہ اورسپین کے بڑے حصے پر حکومت قائم کی۔

تیرھویں صدی میں عرب کے بنو خزرج قبیلے کے نصر خاندان کے محمد اول نے جب غرناطہ سنبھالا تب تک مسلم سپین کا رقبہ کافی سمٹ چکا تھا۔

نصریوں نے مراکش کے مرینوں کے ساتھ اتحاد بھی قائم کیا۔ ان کے دور میں غرناطہ اسلامی ثقافت کا مرکز رہا جس میں علم، دست کاری اورسرامکس کو فروغ ملا۔ 14ویں صدی میں نصری اپنے فن تعمیر کے لیے مشہورتھے۔ الحمرا اسماعیل اول اور محمد پنجم کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔

سوا دو سو سال سے حکومت کرتے اسی خاندان کے سلطان ابوالحسن علی کے ہاں، تاریخ میں بوعبدل کہلاتے، ابوعبداللہ کی پیدائش ہوئی تھی۔

خاندانی جھگڑے اور سوتن کا حسد

ایلزبتھ ڈریسن اپنی کتاب ’دی مورز لاسٹ سٹینڈ‘ میں بتاتی ہیں کہ ابوالحسن علی، جنھیں مولائے حسن بھی کہا جاتا تھا، کے دور میں غرناطہ کو اندرونی اور بیرونی دباؤ اور سیاسی خلفشار کا سامنا تھا۔

ریکونکوِسٹا کے نام سے جانے جاتے تقریباً آٹھ صدیوں پر محیط مہمات کے ایک سلسلے میں پندرہویں صدی کے اواخر میں تیزی آ گئی۔ ان مہمات سے مسیحی سلطنتوں کا مقصد مسلمانوں کے زیرِاثر آیبیرین علاقوں پر دوبارہ حکومت کرنا تھا، جنھیں اجتماعی طور پر الاندلس کہا جاتا تھا۔

محمد رسول اللہ ﷺ کی 9 تلواریں اور ان کی تصاویر - ابو البشر احمد طیب

العضب سيف النبي ﷺ
ہم پاکستانی جانتے ہیں کہ ہماری بہادر فوج نے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے لئے جو  نام منتخب  کیا وہ  ’’ضرب عضب‘‘ تھا، اس  فوجی کارروائی  کے بارے میں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے میڈیا میں زبردست تجسس پیدا ہوا تھا  ۔ لوگ یہ جاننا چاہتے تھے  کہ آخر اس فوجی کارروائی کو ضرب عضب کا نام کیوں دیا گیا تھا ؟ 

دراصل " العضب " ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تلوار کا نام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک صحابی سعد بن عبادہ الانصاریؓ نے غزوۂ احد سے قبل بطور ہدیہ پیش کی تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غزوۂ احد میں حضرت ابو دجانہ الانصاری ؓ کو لڑنے کے لئے عطا کئی ۔


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہمیشہ ہتھیاروں سے لیس رہنے کا درس دیا ہے تاکہ دنیا میں  مظلوموں، کمزوروں، بے بسوں و بے کسوں کو ظالموں کے جبر و استبداد ان کے ظلم و بربریت سے محفوظ رکھا جائے ۔ انسانیت کی بقاء کو یقینی بنایاجا سکے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کل 9 تلواریں تھیں اور آج بھی وہ تلواریں پوری آب و تاب کے ساتھ محفوظ ہیں۔ ان 9 تلواروں :  ذوالفقار، البتار، الماثور، الرسوب، المخذم، حتف،قلعی، القضیب اور العضب  ہیں۔ درج ذیل میں ہم ان کا تعارف پیش کریں گے ۔ 
  
 دنیا کو ان مقدس و متبرک تلواروں سے واقف کروانے میں محمد بن حسن محمد التہامی کا سب سے اہم کردار ہے ۔  انہوں نے 1929ء میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواروں اور جنگی ساز و سامان (آلات حربی) کے بارے میں ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا تھا، جس کے لئے انہوں نے  ان تلواروں کی تصویریں لی ۔ ان 9 تلواروں میں سے 8 تلواریں  استنبول میں توپ کاپی میوزیم میں آج تک  موجود ہیں جبکہ ایک تلوار مصر کی مسجد الحسین بن علی میں ہے۔ ان تلواروں کی لمبائی 90 تا 140 سنٹی میٹر بتائی گئی ہے۔

العضب:

 العضب کے معنی تیز چلنے والی اور تیز دھار تلوار ہے ، یہ سعد بن عبادہ الانصاریؓ نے غزوۂ احد سے قبل بطور ہدیہ پیش کی تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غزوۂ احد میں حضرت ابو دجانہ الانصاری ؓ کو لڑنے کے لئے عطا فرمائی۔   ایک دوسری روایت کے مطابق یہ ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھیجی تھی اور پھر آپ نے اسے غزہ احد میں استعمال کیا۔ یہ  تلوار فی الوقت مصر کی مشہور جامع مسجد الحسین بن علی میں محفوظ ہے۔ 

 الذو الفقار، سیف النبی ﷺ