مشاہیر اسلام کی تصنیفات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مشاہیر اسلام کی تصنیفات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ڈاکٹر محمد رفيع الدين


ڈاکٹر محمد رفیع الدّین (مرحو
ڈاکٹر محمد رفيع الدين


شخصیت …… فکر

ایک جائزہ

پروفیسر محمد عارف خان

ڈاکٹر محمد رفیع الدین ان نابغہ روزگار ہستیوں میں سے ہیں، جنہوں نے علم و فکر کی دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔ علامہ محمد اقبال کے بعد علم و فکر کے افق پر جن چند افراد کا نام نمایاں ہے، ڈاکٹر صاحب ان میں سرفہرست ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کی جدوجہد میں ڈاکٹر صاحب کا شمار اہم ترین مفکرین میں ہوتا ہے۔

حالاتِ زندگی

ڈاکٹر محمد رفیع الدین (۱) ۱۹۰۴ء میں ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ ایف ایس سی نان میڈیکل میں، بی۔ اے فارسی میں آنرز اور ۱۹۲۴ء میں ایم اے عربی میں کیا۔ ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۲ء تک سری پر تاپ کالج سری نگر میں عربی اور فارسی کے پروفیسر رہے۔ پرنس آف ویلز کالج جموں میں بھی ۱۲ سال تک تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے۔ اس دوران (۱۹۴۲ء) میں انگریزی کتاب ‘‘آئیڈیالوجی آف دی فیوچر’’ لکھی۔ ڈاکٹر صاحب کا ڈاکٹریٹ کا موضوع بھی یہی تھا۔ ۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۷ء تک ڈاکٹر صاحب سری کرن سنگھ جی انٹر کالج میرپور جموں کشمیر کے پرنسپل رہے۔ تقسیم ہند کے ہنگاموں کی وجہ سے گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج میرپور بند ہو گیا تو ڈاکٹر صاحب لاہور منتقل ہو گئے۔ یہیں سے پاکستان کے حلقہ علم و ادب میں ان کا سفر شروع ہوتا ہے۔ ۱۹۴۸ء تا ۱۹۵۳ء لاہور میں محکمہ اسلامک ری کنسٹرکشن و انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک کلچر میں ریسرچ آفیسر رہے۔ ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۵ء تک اقبال اکیڈمی کراچی کے ڈائریکٹر رہے۔ ۱۹۶۵ء میں ‘‘فرسٹ پرنسپلز آف ایجوکیشن’’ پر مقالہ پیش کر کے ڈاکٹر آف لٹریچر کا اعزاز حاصل کیا۔ ۱۹۶۶ء سے ۱۹۶۹ء تک ‘‘ڈائریکٹر آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگرس لاہور’’ کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ۱۹۶۹ء میں ۶۵ برس کی عمر میں کراچی میں ٹریفک کے ایک حادثے میں داعی اجل کو لبیک کیا۔ اور سیالکوٹ میں دفن کیے گئے۔

ڈاکٹر صاحب درویش مزاج انسان تھے۔ طبیعت میں سوز و گداز تھا۔ ذکر خدا پر بہت زور دیتے تھے۔ سلسلہ طریقت میں مفتی محمد حسنؒ سے بیعت تھے۔ اپنی اصلاح و روحانی ترقی کے لیے اپنے مرشد سے باقاعدہ ہدایات لیا کرتے تھے۔ خود فرمایا کرتے کہ ذکر کی برکت سے بہت اچھے اچھے خیالات خود بخود سوجھتے ہیں اور معمولی سی کوشش سے علمی حقائق منکشف ہو جاتے ہیں اور انسان کے لیے تھوڑا سا مطالعہ بھی کفایت کر جاتا ہے۔

مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ

مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ 
عبد الماجد دریابادی 16 مارچ 1892 کو دریا آباد، ضلع بارہ بنکی، بھارت میں ایک قدوائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا مفتی مفتی مظہر کریم کو انگریز سرکار کے خلاف ایک فتویٰ پر دستخط کرنے کے جرم میں جزائر انڈومان میں بطور سزا کے بھیج دیا گیاتھا۔ آپ ہندوستانی مسلمان محقق اور مفسر قرآن تھے۔ آپ بہت سے تنظیموں سے منسلک رہے۔ اِن میں تحریک خلافت، رائل ایشیاٹک سوسائٹی،لندن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ندوۃ العلماء، لکھنؤ، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ کے علاوہ اور بہت سی اسلامی اور ادبی انجمنوں کے رکن تھے۔ عبد الماجد دریابادی نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ایک جامع تفسیر قرآن لکھی ہے۔ اُن کی اردو اور انگریزی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ تفاسیر اسلام پر مسیحیت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کو سامنتے رکھتے ہوئے لکھی ہے، مزید ان تفاسیر میں مسیحیت کے اعتراضات رد کرتے ہوئے بائبل اور دوسرے مغربی مستشرقین کی کتابوں سے دلائل دیے ہیں۔ آپ نے 6 جنوری 1977 کو وفات پائی۔ آپ نے تفسیر ماجدی میں سورۃ یوسف کے آخر میں لکھا ہے کہ اٹھاونویں پشت پر جا کر آپ کا شجرہ نسب لاوی بن یعقوب سے جا ملتا ہے۔ 
انہوں نے شبلی نعمانی سے ملاقات کے بعد اُن کی سیرت النبی کی تصنیف میں اُن کے ساتھ کام کیا۔

مشاھیر اسلام کی تصنیفات

بیسویں صدی کے مشاھیر اسلام کی تصنیفات 
مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودودیؒ کی تصنیفات 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

علامہ شبلی نعمانی ؒ کی تصنیفات 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 خطیب الھند مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی تصنیفات 

علامہ سید سابق مصری کی کتاب" فقہ السنّہ " کا تعارف

علامہ سید سابق مصری کی کتاب " فقہ السنہ " اردو 
 سید سابق کی کتاب" فقہ السنّہ " کا تعارف  اردو مترجم ،  محمد عبدالکبیرمحسن  ناشر: مکتبہ اسلامیہ، حلیمہ سنٹر، اُردو بازار، لاہور۔ 

آخرت کی جواب دہی کے احساس سے سرشار ہرمسلمان مرد اور خاتون، بڑا اور چھوٹا یہ چاہتا ہے کہ میں اس فانی دُنیا میں اس طرح زندگی گزاروں کہ آنے والے کل میں، اللہ کے پسندیدہ فرد کی حیثیت سے نامۂ اعمال پیش کرسکوں۔ اس مقصد کے لیے ایک مفتی سے لے کر ایک عام مسلمان تک یہ چاہتا ہے کہ وہ اسلامی شریعت کی منشا جانے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے روشنی لے۔ یہ کوشش دینی سوال و جواب اور فتاویٰ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔

زیرنظر انسائی کلوپیڈیائی کتاب ۲۰ویں صدی کے دوران عرب اور غیرعرب دُنیا میں رہنمائی کا بڑے پیمانے پر فریضہ انجام دے چکی ہے، جسے پڑھنا اور اپنے پاس رکھنا ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ سیّد سابق جیسے معروف فقیہہ اور مدبّر (جنوری ۱۹۱۵ء- ۲۷فروری ۲۰۰۰ء) الازہر یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ وہ دورِ طالب علمی ہی سے الاخوان المسلمون کے جاں نثاروں کے ہم قدم بن گئے۔ اخوان کے ہزاروں پروانوں کی فقہی تربیت کے لیے السیّد سابق نے اس عظیم کتاب کی ترتیب و تدوین کی ذمہ داری سنبھالی اور بڑی خوبی و کامیابی سے اسے مدون کیا۔

سیّد سابق نے اس ذخیرئہ رہنمائی میں مختلف فقہی مکاتب ِ فکر کے علمی افادات کو ہرذہنی تحفظ سے بالاتر رہ کر پڑھا اور کتاب و سنّت کی روشنی میں پرکھا۔ پھراس مطالعہ و تحقیق اور دینِ اسلام کی حکمت کو بڑی آسانی اور عام فہم زبان میں ڈھال دیا۔

زیرنظر کتاب کا یہ بھی اعزاز ہے کہ ۲۰ویں صدی میں علمِ حدیث کے ماہر ناصرالدین البانی ؒ نے اس کتاب پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے بہترین کتاب بھی قرار دیا۔ ڈاکٹر حافظ عبدالکبیرمحسن نے بڑی محنت سے اس کا رواں اور شُستہ اُردو ترجمہ کیا ہے، اور محمد سرورعاصم مدیر مکتبہ اسلامیہ لاہور نے بڑی محبت اور خوب صورتی سے اسے زیورِطباعت سے آراستہ کیا ہے۔

یقینی بات ہے کہ ہر صاحب ِ ذوق اس کتا ب کا استقبال کرے گا۔ یہ کتاب اَب تک انگریزی، فارسی، ترکی، ازبکی، روسی، بوسنیائی، تھائی، ملیالم زبانوں کے علاوہ اُردو میں بھی دو تین مختلف مترجمین کی توجہ اور ترجمانی کا مرکز بن چکی ہے۔(س م خ)

(ماہنامہ عالمی ترجان القرآن ، بانی سید ابوالاعلی مودودی ؒ،  تاریخ اشاعت مئی 2018)