گوشۂ مودودی ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
گوشۂ مودودی ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان

 الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جس کے زیر انتظام پاکستان کے کئی علاقوں میں فلاحی ادارے چلائے جا رہے ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن کا قیام 1990 میں عمل میں آیا ۔ الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان اس وقت سات شعبہ جات میں کام کر رہی ہے ۔ ان شعبہ جات میں تعلیم، صحت ، کفالت یتامٰی، صاف پانی ، مواخات (بلا سود قرضوں کی فراہمی) ، سماجی خدمات اور آفات سے بچاؤ کے شعبہ جات شامل ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن پہلے جماعت اسلامی پاکستان کے شعبہ خدمت کے نام سے جانی جاتی تھی جسے 1990ء میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے طور پر رجسٹر کرایا گیا۔

الخدمت فاؤنڈیشن وطن عزیز کی سب سے بڑی غیر حکومتی فلاحی تنظیم ہے۔ یوں تو الخدمت فاؤنڈیشن نے قیام پاکستان کے وقت امداد مہاجرین کے کٹھن کام سے اپنے کار خیر کا آغاز کر دیا تھا مگر غیر حکومتی فلاحی تنظیم کے طور پر اسے سن نوے میں رجسٹر کیا گیا۔ اس تنظیم کے پیش نظر کار ہائے خیر میں سب سے نمایاں وقت آفات میں رضاکارانہ سرگرمیاں ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن اس وقت پاکستان کے 150اضلاع میں اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے۔

آغوش


آغوش جماعت اسلامی پاکستان کی فلاحی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کا ایک ذیلی ادارہ ہے جسے اٹک دارالسلام کالونی میں قائم کیا گیا، جس میں 210 سپیشل بچے رہائش پزیر تھے، کشمیر میں2005 زلزلہ کے بعد اس کی وسعت میں اضافہ کیا گیا اور مزید 150 بچوں کے لیے عمارت تعمیر کر کے اس میں رہائش، قیام، طعام اور تعلیم کا بندوبست کیا گیا۔ ادارہ ایک کیڈٹ کالج کی طرز پر چلایا جاتا ہے جس کے انچارج کرنل (ر) خالد عباسی ہیں جو رضاکارانہ طور پر ادارہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ بچوں کی کفالت کی ذمہ داری زیادہ تر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اٹھارکھی ہے۔ جن میں برطانیہ سے یو کے اسلامک مشن اور یارکشائر کریسنٹ چیریٹیبل ٹرسٹ، امریکا سے اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا اور جاپان و آسٹریلیا کے کچھ پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ادارے کی خصوصیت بچوں کا تعلیمی معیار، رہن سہن کی سہولیات اور معیاری طرز زندگی ہے۔

میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر سید ابوالاعلی مودودی ؒ کے تاثرات

میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر
سید ابوالاعلی مودودی کے تاثرات  
میجر راجا عزیز بھٹی 6 اگست 1923 کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے جہان ان کے والد راجہ عبد اللہ بھٹی اپنی ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔  دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یہ گھرانہ واپس لادیاں، ضلع گجرات چلا آیا جو ان کا آبائی گائوں تھا۔ راجہ عزیز بھٹی قیام پاکستان کے بعد 21 جنوری 1948ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں انہیں شہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا پھر انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور 1956ء میں ترقی کرتے کرتے میجر بن گئے۔ 

6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کررہے تھے۔ 12 ستمبر 1965 کو لاہور محاز پر بھارت سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے -  26 ستمبر 1965ء کو صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجیوں کو 1965 کی جنگ میں بہادری کے نمایاں کارنامے انجام دینے پر مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا۔  ان اعزازات میں سب سے بڑا تمغہ نشان حیدر تھا جو میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو عطا کیا گیاتھا۔ راجہ عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔ 

 مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ نے میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر ان کے والد محترم کے نام خط لکھا، اس میں انہونے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، عزیز بھٹی کو  پاکستان یعنی "دارالاسلام" کے محافظ ،اور اسلام کے جانباز کا خطاب دیا،   اور ان کے حق میں دعا فرماتے ہوئے لکھا کہ اللہ تعالی "ان کو شہدائے بدر و احد کی معیت کا شرف بخشے" ،  یہاں ان کا اصل خط ملاحظہ کریں !

مسلم عالمی تنظیموں میں مولانا مودودی کا کردار

 الطاف حسن قریشی 

ہم سب ، تاریخ اشاعت : 23 دسمبر 2022ء 

موتمر عالم اسلامی کی ابتدا 1926 ء میں اس طرح ہوئی کہ مکہ مکرمہ کے فرمانروا شاہ عبدالعزیز، جنہوں نے آگے چل کر 1931 ء میں مملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی، انہوں نے 1926 ء میں مسلمانوں کو درپیش مسائل پر غور و خوض کے لیے مکہ مکرمہ میں پورے عالم اسلام سے دو درجن کے لگ بھگ مسلم اکابرین کو دعوت دی۔

ہندوستان سے علی برادران، سید سلیمان ندوی اور مفتی کفایت اللہ شامل ہوئے۔ فلسطین سے مفتی اعظم سید امین الحسینی شریک ہوئے۔ ترکی سے بھی اہم شخصیتوں نے حصہ لیا۔ یہ عالی شان اجلاس مسائل کی نشان دہی اور ان کا حل تلاش کرنے کے بعد ختم ہو گیا۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ پانچ سال گزرے، تو مفتی اعظم فلسطین نے بیت المقدس کے مقام پر 1931 ء میں مسلم اکابرین کو مدعو کیا اور موتمر عالم اسلامی کی باقاعدہ تنظیم قائم کی، مگر اس نے کوئی قابل ذکر کام سرانجام نہیں دیا۔

قیام پاکستان کے بعد 1949 ء میں وزیراعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خاں کی سرپرستی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی میزبانی میں اس تنظیم کا تیسرا اجلاس کراچی میں ہوا۔ اس وقت سید ابوالاعلیٰ مودودی جیل میں تھے۔ مولانا ظفر احمد انصاری اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے اس اہم اجلاس کی کامیابی کے لیے دن رات کام کیا۔ اس تنظیم میں آگے چل کر چودھری نذیر احمد خاں بہت فعال کردار ادا کرتے رہے اور انھوں نے مسلمانوں کی دولت مشترکہ قائم کرنے کا تصور پیش کیا۔ اسی طرح موتمر عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل انعام اللہ اتحاد عالم اسلامی کے لیے ملک ملک جاتے اور تنظیمی قوت میں اضافہ کرتے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد یہ عالمگیر تنظیم پس منظر میں چلی گئی ہے۔

جديد دور میں علماء اسلام کی اصل ذمہ داری

علماء کی ذمہ داری
"علما کے لیے اب یہ وقت نہیں ہے کہ وہ الہیات اور مابعد الطبیعیات اور فقہی جزئیات کی بحثوں میں لگے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب تھا یا نہ تھا؟ خدا جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں؟ رسولؐ کا نظیر ممکن ہے یا نہیں؟ ایصالِ ثواب اور زیارتِ قبور کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آمین بالجہر و رفع یدین کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ مسجد میں منبر و محراب کے درمیان کتنا فاصلہ رکھا جائے؟ یہ اور ایسے ہی بیسیوں مسائل جن کو طے کرنے میں آج ہمارے پیشوایانِ دین اپنی ساری قوتیں ضائع کر رہے ہیں‘ دنیا کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور ان کے طے ہو جانے سے ہدایت و ضلالت کی اس عظیم الشان لڑائی کا تصفیہ نہیں ہوسکتا جو اس وقت تمام عالم میں چھڑی ہوئی ہے۔ آج اصلی ضرورت ان مسائل کے سمجھنے کی ہے جو ناخدا شناسی اور لا دینی کی بنیاد پر علم اور تمدن کے صدیوں تک نشو و نما پاتے رہنے سے پیدا ہوگئے ہیں۔ ان کی پوری پوری تشخیص کر کے اصول اسلام کے مطابق ان کا قابل عمل حل پیش کرنا وقت کا اصلی کام ہے۔ اگر علمائے اسلام نے اپنے آپ کو اس کام کا اہل نہ بنایا‘ اور اسے انجام دینے کی کوشش نہ کی تو یورپ اور امریکہ کا جو حشر ہوگا، سو ہوگا، خود دنیائے اسلام بھی تباہ ہو جائے گی، کیونکہ وہی مسائل جو مغربی ممالک کو درپیش ہیں تمام مسلم ممالک اور ہندستان میں پوری شدت کے ساتھ پیدا ہو چکے ہیں اور ان کاکوئی صحیح حل بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے مسلم اور غیر مسلم سب کے سب ان لوگوں کے الٹے سیدھے نسخے استعمال کرتے چلے جارہے ہیں جو خود بیمار ہیں۔ اب یہ معاملہ صرف یورپ اور امریکہ کا نہیں بلکہ ہمارے اپنے گھر اور ہماری آئندہ نسلوں کا ہے۔"

ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


حکومت و فرماں روائی اور غلبہ و استیلا کی دو قسمیں ہیں

• ایک ذہنی اور اخلاقی غلبہ

• دوسرا سیاسی اور مادی غلبہ

پہلی قسم کا غلبہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنی فکری قوتوں میں اتنی ترقی کر جائے کہ دوسری قومیں اسی کے افکار پر ایمان لے آئیں‘ اسی کے تخیلات‘ اسی کے معتقدات‘ اسی کے نظریات دماغوں پر چھا جائیں‘ ذہنیتیں اسی کے سانچے میں ڈھلیں‘ تہذیب اسی کی تہذیب ہو‘ علم اسی کا علم ہو‘ اسی کی تحقیق کو تحقیق سمجھا جائے اور ہر وہ چیز باطل ٹھہرائی جائے جس کو وہ باطل ٹھہرائے۔ دوسری قسم کاغلبہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنی مادی طاقتوں کے اعتبار سے اتنی قوی بازو ہو جائے کہ دوسری قومیں اس کے مقابلے میں اپنی سیاسی و معاشی آزادی کو برقرار نہ رکھ سکیں اور کلی طور پر، یا کسی نہ کسی حد تک وہ غیر قوموں کے وسائل ثروت پر قابض اور ان کے نظم مملکت پر حاوی ہو جائے۔

اس کے مقابلے میں مغلوبیت اور محکومیت کی بھی دو قسمیں ہیں:

• ایک ذہنی مغلوبیت

• دوسری سیاسی مغلوبیت

ان دونوں قسموں کی صفات کو اُن صفات کا عکس سمجھ لیجیے جو اوپر غلبے کی دو قسموں کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔

ہندستان میں اسلامی تہذیب کا انحطاط - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی



دنیائے اسلام کا بیش تر حصہ اُن ممالک پر مشتمل ہے جو صدرِ اول کے مجاہدین کی کوششوں سے فتح ہوئے ہیں۔ ان کو جن لوگوں نے فتح کیا تھاوہ ملک گیری اور حصول غنائم کے لیے نہیں بلکہ خدا کے کلمے کو دنیا میں بلند کرنے کے لیے سروں سے کفن باندھ کر نکلے تھے۔ وہ طلبِ دنیا کے بجائے طلبِ آخرت کے نشے میں سرشار تھا۔ اس لیے انھوں نے اپنے مفتوحین کو مطیع و باج گزار بنانے پر اکتفا نہ کیا، بلکہ انھیں اسلام کے رنگ میں رنگ دیا۔ ان کی پوری آبادی یا اس کے سواد اعظم کو ملتِ حنیفی میں جذب کرلیا۔ علم و عمل کی قوت سے ان میں اسلامی فکر اور اسلامی تہذیب کو اتنا راسخ کر دیا کہ وہ خود تہذیب اسلامی کے علم بردار اور علوم اسلامی کے معلم بن گئے۔ ان کے بعد وہ ممالک ہیں جو اگرچہ صدر اول کے بعد اُس عہد میں فتح ہوئے جب کہ اسلامی جوش سرد ہو چکا تھا اور فاتحین کے دلوں میں خالص جہاد فی سبیل اللہ کی روح سے زیادہ ملک گیری کی ہوس نے جگہ لے لی تھی‘ لیکن اس کے باوجود اسلام وہاں پھیلنے اور جڑ پکڑ لینے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے ان ممالک میں کلیتہً ایک قوی مذہب اور قومی تہذیب کی حیثیت حاصل کرلی۔

بدقسمتی سے ہندستان کا معاملہ ان دونوں قسم کے ممالک سے مختلف ہے۔ صدرِ اول میں اس ملک کا بہت تھوڑا حصہ فتح ہوا تھا اور اس تھوڑے سے حصے پر بھی جو کچھ اسلامی تعلیم و تہذیب کے اثرات پڑے تھے‘ ان کو باطنیت کے سیلاب نے ملیا میٹ کر دیا۔ اس کے بعد جب ہندستان میں مسلمانوں کی فتوحات کا اصلی سلسلہ شروع ہوا تو فاتحوں میں صدر اول کے مسلمانوں کی خصوصیات باقی نہیں رہی تھیں۔ انھوں نے یہاں اشاعتِ اسلام کے بجائے توسیعِ مملکت میں اپنی قوتیں صرف کیں اور لوگوں سے اطاعتِ خدا و رسول کے بجائے اپنی اطاعت اور باج گزاری کا مطالبہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدیوں کی فرماں روائی کے بعد بھی ہندستان کا سوادِ اعظم غیر مسلم رہا۔ یہاں اسلامی تہذیب جڑ نہ پکڑ سکی‘ یہاں کے باشندوں میں سے جنھوں نے اسلام قبول کیا ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا کوئی خاص انتظام نہ کیا گیا‘ نو مسلم جماعتوں میں قدیم ہندوانہ خیالات اور رسم و رواج کم و بیش باقی رہے‘ اور خود باہر کے آئے ہوئے قدیم الاسلام مسلمان بھی اہل ہند کے میل جول سے مشرکانہ طریقوں کے ساتھ رواداری برتنے اور بہت سی جاہلانہ رسوم کا اتباع کرنے لگے۔

انسانی قانون اور الٰہی قانون - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


گزشتہ ماہ دسمبر ۱۹۳۳ء کی ابتدا میں امریکہ کے قانونِ تحریمِ خمر (Prohibition Law) کی تنسیخ کا باقاعدہ اعلان ہوگیا اور تقریباً چودہ برس کے بعد نئی دنیا کے باشندوں نے پھر خشکی سے تری کے حدود میں قدم رکھا۔ جمہوریہ امریکہ کی صدارت پر مسٹر روز ویلٹ کا فائز ہونا خشکی پر تری کی فتح کا اعلان تھا۔ اس کے بعد پہلے تو اپریل ۱۹۳۳ء میں ایک قانون کے ذریعے سے ۲‘۳ فی صدی الکحل کی شراب کو جائز کیا گیا‘ پھر چند مہینے نہ گزرے تھے کہ دستورجمہوریہ امریکہ کی اٹھارہویں ترمیم ہی منسوخ کر دی گئی جس کی رو سے ریاست ہائے متحدہ کے حدود میں شراب کی خرید و فروخت‘ درآمدو برآمد اور ساخت و پرداخت حرام قرار دی گئی تھی۔

قانون کے ذریعے سے اخلاق و معاشرت کی اصلاح کا یہ سب سے بڑا تجربہ تھا جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اٹھارہویں ترمیم سے پہلے کئی سال تک اینٹی سیلون لیگ (Anti Saloon League) رسائل و جرائد‘ خطابات‘ تصاویر‘ میجک لنیٹرن‘ سینما اور بہت سے دوسرے طریقوں سے شراب کی مضرتیں اہل امریکہ کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کرتی رہی اور اس تبلیغ میں اس نے پانی کی طرح روپیہ بہایا۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ تحریک کی ابتدا سے لے کر ۱۹۲۵ء تک نشر و اشاعت پر ساڑھے چھے کروڑ ڈالر صَرف ہوئے اور شراب کے خلاف جس قدر لٹریچر شائع کیا گیا وہ تقریباً ۹ ارب صفحات پر مشتمل تھا۔

اس کے علاوہ قانونِ تحریم کی تنقیذ کے مصارف کا جس قدر بار گذشتہ چودہ سال میں امریکی قوم کو برداشت کرنا پڑا ہے اس کی مجموعی مقدار ۴۵ کروڑ پونڈ بتائی جاتی ہے، اور حال میں ممالک متحدہ امریکہ کے محکمہ عدل نے جنوری ۱۹۲۰ء سے اکتوبر ۱۹۳۳ء تک کے جو اعداد و شمار شائع کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون کی تنفیذ کے سلسلے میں دو سو آدمی مارے گئے۔ ۵ لاکھ ۳۴ ہزار ۳ سو ۳۵ قید کیے گئے۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ پونڈ کے جرمانے عاید کیے گئے۔ چالیس کروڑ چالیس لاکھ پونڈ کی مالیت کی املاک ضبط کی گئیں۔

مغربی تہذیب کی خود کشی - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


سیاست‘ تجارت‘ صنعت و حرفت اور علوم و فنون کے میدانوں میں مغربی قوموں کے حیرت انگیز اقدامات کو دیکھ کر دل اور دماغ سخت دہشت زدہ ہو جاتے ہیں۔ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید ان قوموں کی ترقی لازوال ہے‘ دنیا پر ان کے غلبے اور تسلط کا دائمی فیصلہ ہو چکا ہے‘ ربع مسکون۱؂ کی حکومت اور عناصر کی فرماں روائی کا انھیں ٹھیکہ دے دیا گیا ہے، اور ان کی طاقت ایسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی ہے کہ کسی کے اکھاڑے نہیں اکھڑ سکتی۔

ایسا ہی گمان ہر زمانے میں ان سب قوموں کے متعلق کیا جاچکا ہے جو اپنے اپنے وقت کی غالب قومیں تھیں۔ مصر کے فراعنہ‘ عرب کے عاد و ثمود‘ عراق کے کلدانی‘ ایران کے اکاسرہ‘ یونان کے جہانگیر فاتح‘ روم کے عالم گیر فرماں روا مسلمانوں کے جہاں کشا مجاہد‘ تاتار کے عالم سوز سپاہی‘ سب اس کرہ خاکی کے اسٹیج پر اسی طرح غلبہ و قوت کے تماشے دکھا چکے ہیں۔ ان میں سے جس جس کے کھیل کی باری آئی‘ اس نے اپنی چلت پھرت کے کرتب دکھا کر اسی طرح دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ہر قوم جب اٹھی ہے تو وہ اسی طرح دنیا پر چھا گئی ہے۔ اسی طرح اس نے چار دانگ عالم میں اپنی شوکت و جبروت کے ڈنکے بجائے ہیں۔ اسی طرح دنیا نے مبہوت ہو کر گمان کیا ہے کہ ان کی طاقت لازوال ہے، مگر جب ان کی اجل پوری ہوگئی اور حقیقت میں لازوال طاقت رکھنے والے فرماں روا نے ان کے زوال کا فیصلہ صادر کر دیا‘ تو وہ ایسے گرے کہ اکثر تو صفحۂ ہستی سے ناپید ہوگئے، اوربعض کا نام و نشان اگر دنیا میں باقی رہا بھی تو وہ اس طرح کہ وہ اپنے محکوموں کے محکوم ہوئے‘ اپنے غلاموں کے غلام بنے‘ اپنے مغلوبوں کے مغلوب ہو کر رہے

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ۔ (آل عمران۳ ۱۳۷)

لارڈ لوتھین کا خطبہ - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


جنوری کے آخری ہفتے میں علی گڑھ یونی ورسٹی کا کانووکیشن (جلسہ تقسیم اسناد) کے موقع پر لارڈ لوتھین نے جو خطبہ دیا ہے‘ وہ درحقیقت اس قابل ہے کہ ہندستان کے تعلیم یافتہ (جدید اور قدیم دونوں) اس کو گہری نظر سے دیکھیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔ اس خطبے میں ایک ایسا آدمی ہمارے سامنے اپنے دل و دماغ کے پردے کھول رہا ہے جس نے علومِ جدیدہ اور ان کی پیدا کردہ تہذیب کو دور سے نہیں دیکھا ہے بلکہ خود اس تہذیب کی آغوش میں جنم لیا ہے اور اپنی زندگی کے ۵۶ سال اسی سمندر کی غواصی میں گزارے ہیں۔ وہ پیدائشی اور خاندانی یورپین ہے‘ آکسفورڈ کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ راؤنڈ ٹیبل جیسے مشہور رسالے کا ایڈیٹر رہ چکا ہے اور قریب قریب ۲۱ سال سے سلطنتِ برطانیہ کے مہمات امور میں ذمہ دارانہ حصہ لیتا ہے۔ وہ کوئی بیرونی ناظر نہیں ہے بلکہ مغربی تہذیب کے اپنے گھر کا آدمی ہے اور وہ ہم سے بیان کرتا ہے کہ اس گھر میں اصل خرابیاں کیا ہیں‘ کس وجہ سے ہیں اور اس کے گھر کے لوگ اس وقت درحقیقت کس چیز کے پیاسے ہو رہے ہیں۔

ایک حیثیت سے یہ خطبہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے سبق آموز ہے کیونکہ اس سے ان کو معلوم ہوگا کہ مغربی علوم اور ان کی پیدا کردہ تہذیب نری تریاق ہی تریاق نہیں ہے بلکہ اس میں بہت کچھ زہر بھی ملا ہوا ہے۔ جن لوگوں نے اس معجون کو بنایا اور صدیوں استعمال کیا وہ آج خود آپ کو آگاہ کر رہے ہیں کہ خبردار اس معجون کی پوری خوراک نہ لینا۔ یہ ہمیں تباہی کے کنارے پہنچا چکی ہے اور تمھیں بھی تباہ کرکے رہے گی۔ ہم خود ایک تریاق خالص کے محتاج ہیں۔ اگرچہ ہمیں یقین کے ساتھ معلوم نہیں‘ مگر گمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ تریاق تمھارے پاس موجود ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنے تریاق کو خاک میں ملا کر ہماری زہر آلود معجون کے مزے پر لگ جاؤ۔

ترکی میں مشرق و مغرب کی کشمکش - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

خطباتِ خالدہ ادیب خانم


ترکی کی مشہور فاضل و مجاہد خاتون خالدہ ادیب خانم اب سے کچھ مدت قبل جامعہ اسلامیہ کی دعوت پر ہندستان تشریف لائیں تھیں اور انھوں نے دہلی میں چند خطبات ارشاد فرمائے تھے جن کا اردو ترجمہ جامعہ کے فاضل پروفیسر ڈاکٹر سید عابد حسین صاحب نے ترکی میں مشرق و مغرب کی کشمکش کے نام سے کیا ہے۔ ان سطور میں ہم اس مجموعہ خطبات پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالیں گے۔

دنیائے اسلام میں اس وقت دو ملک ایسے ہیں جن کو دو مختلف حیثیتوں سے مسلمانان عالم کی پیشوائی کا مرتبہ حاصل ہے۔ ذہنی حیثیت سے مصر اور سیاسی حیثیت سے ٹرکی۔

مصر کے ساتھ اممِ اسلامیہ کے تعلقات نسبتاً زیادہ گہرے ہیں‘ کیونکہ اس کی زبان ہماری بین الملی زبان‘ عربی ہے‘ اس کالٹریچر تمام دنیا کے مسلمانوں میں پھیلتا ہے‘ اس کے ذہنی اثرات چین سے مراکش تک پہنچتے ہیں‘ اوروہی مسلمانوں کے درمیان ربط اور تفاہم اور واقفیت حالات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بخلاف اس کے ترکی قوم کی مجاہدانہ زندگی‘ اور مغربی تقدمات کے مقابلے میں اس کی شجاعانہ مدافعت‘ اور ناموسِ ملی کے لیے اس کی قربانیوں کا سکہ تو بلاشبہ تمام عالم اسلامی پر بیٹھا ہوا ہے، اور اسی وجہ سے اس کو مسلمانوں میں سرداری اور پیشوائی کا منصب حاصل ہے‘ لیکن زبان کی اجنبیت‘ اور ربط وتفاہم کے فقدان نے ٹرکی اور اکثر ممالکِ اسلامیہ کے درمیان ایک گہرا پردہ حائل کر دیا ہے جس کے سبب سے ترکی قوم کے ذہنی ارتقا اور اس کی دماغی ساخت اور اس کے تمدنی‘ سیاسی‘ مذہبی اور علمی تحولات کے متعلق ہماری واقفیت بہت محدود ہے۔ خصوصاً حال کے دس بارہ برسوں میں جو انقلاب ٹرکی میں رونما ہوئے ان کے باطنی اسباب اور ان کی اصلی روح کو جاننے اور سمجھنے کا موقع تو ہم کو بہت ہی کم ملا ہے۔ بہت سے لوگ ترکوں سے سخت ناراض ہیں‘ بعض ان کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہیں‘ بعض ان کی مغربیت کو اپنی مغربیت پرستی کے لیے برہان قاطع بنائے بیٹھے ہیں، مگر مستند معلومات کسی کے پاس بھی نہیں ہیں اور جو تھوڑی بہت معلومات ہیں بھی تو وہ ٹرکی جدید کی روح کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

عقلیت کا فریب (۱) - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

 (1)عقلیت کا فریب
اسلامی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے نیم پختہ یا بالکل خام نوجوانوں کے مذہبی خیالات پر مغربی تعلیم اور تہذیب کا جو اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ اُن تحریروں اور تقریروں سے ہوسکتا ہے جو اس قسم کے لوگوں کی زبان و قلم سے آئے دن نکلتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں صوبہ متحدہ کے ایک مسلمان گریجویٹ صاحب کا ایک مضمون ہماری نظر سے گزرا جس میں انھوں نے اپنی سیاحتِ چین و جاپان کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے

’’ہمارے ساتھ جو چینی مسافر ہیں وہ انتہا کے بلا نوش اور شراب خور ہیں۔ سور کا گوشت تو ان کی جان ہے۔ اب میں نے عیسائیت کی ترقی کا راز سمجھا۔ چینی اپنے قدیم مذہب کی پیروی کونئی تعلیم کے ساتھ عار پاتا ہے۔ اس کو اسلام قبول کرنے میں تامل نہ ہوتا، اگر وہ اس کو سمجھتا ہوتا، مگر اسلام اس کو اس کی تمام مرغوب غذاؤں سے محروم کر دیتا ہے۔ چار و ناچار عیسائی ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ عجب نہیں کہ آئندہ چین کا سرکاری مذہب عیسائیت ہوجائے۔ میں سور کے گوشت کے معاملے میں اہل یورپ اور اہل چین کے نو مسلموں کے ساتھ ذرا ڈھیل دینا پسند کرتا ہوں۔ قرآن سے بھی مجھے اس کے قطعی حرام ہونے میں شک ہے۔ زیادہ بریں نیست کہ اہل عرب کے لیے کسی خاص وجہ سے حرام کر دیا گیا ہو، مگر ایسے ممالک میں جہاں اس کے بغیر (فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَاعَادٍ) ہو جائے تو کیا ہرج ہے؟

عقلیت کا فریب (۲) - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

(2) عقلیت کا فریب 
عقلیت (Rationalism) اور فطریت (Naturalism) یہ دو چیزیں ہیں جن کا اشتہار گذشتہ دو صدیوں سے مغربی تہذیب بڑے زور شور سے دے رہی ہیں۔ اشتہار کی طاقت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ جس چیز کو پیہم اور مسلسل اور بکثرت نگاہوں کے سامنے لایا جائے اور کانوں پر مسلط کیا جائے اس کے اثر سے انسان اپنے دل اور دماغ کو کہاں تک بچاتا رہے گا۔ بالاخر اشتہار کے زور سے دنیا نے یہ بھی تسلیم کرلیا کہ مغربی علوم اور مغربی تمدن کی بنیاد سراسر عقلیت اور فطریت پر ہے۔ حالانکہ مغربی تہذیب کے تنقیدی مطالعے سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ اس کی بنیاد نہ عقلیت پر ہے نہ اصولِ فطرت کی متابعت پر‘ بلکہ اس کے برعکس اس کا پورا ڈھچر حس اور خواہش اور ضرورت پر قائم ہے، اور مغربی نشاۃ جدیدہ دراصل عقل اور فطرت کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ اس نے معقولات کو چھوڑ کر محسوسات اور مادیت کی طرف رجوع کیا۔ عقل کے بجائے حس پر اعتماد کیا۔ عقلی ہدایات اور منطقی استدلال اور فطری وجدان کو رد کرکے محسوس مادی نتائج کو اصلی و حقیقی معیار قرار دیا۔ فطرت کی رہنمائی کو مردود ٹھہرا کر خواہش اور ضرورت کو اپنا رہنما بنایا۔ ہر اُس چیز کو بے اصل سمجھا جو ناپ اور تول میں نہ آسکتی ہو۔ ہر اُس چیز کو ہیچ اور ناقابل اعتنا قرار دیا جس پر کوئی محسوس مادی منفعت مترتب نہ ہوتی ہو۔ ابتدا میں یہ حقیقت خود اہل مغرب سے چھپی ہوتی تھی‘ اس لیے وہ عقل اور فطرت کے خلاف چلنے کے باوجود یہی سمجھتے رہے کہ انھوں نے جس روشن خیالی کے دور جدید کا افتتاح کیا ہے اس کی بنیاد ’عقلیت‘ اور فطرت پر ہے۔ بعد میں اصل حقیقت کھلی، مگر اعتراف کی جرأت نہ ہوئی۔ مادہ پرستی‘ اور خواہشات کی غلامی‘ اور مطالباتِ نفس و جسد کی بندگی پر منافقت کے ساتھ عقلی استدلال اور ادعائے فطریت کے پردے ڈالے جاتے رہے، لیکن اب انگریزی محاورے کے مطابق ’بلی تھیلے سے بالکل باہر آچکی ہے‘ غیر معقولیت اور خلاف ورزی فطرت کی لے اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس پر کوئی پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس لیے اب کھلم کھلا عقل اور فطرت دونوں سے بغاوت کا اعلان کیا جارہا ہے۔ علم اور حکمت کی مقدس فضا سے لے کر معاشرت‘ معیشت اور سیاست تک ہر جگہ بغاوت کا علم بلند ہو چکا ہے اور’قدامت پرست‘ منافقین کی ایک جماعت کو مستثنیٰ کر کے دنیائے جدید کے تمام رہنما اپنی تہذیب پر صرف خواہش اور ضرورت کی حکمرانی تسلیم کررہے ہیں۔

تجدد کا پائے چوبیں - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

تجدد کا پائے چوبیں
ماہ جون ۱۹۳۳ء کے نگار میں حضرت نیاز فتح پوری نے ترجمان القرآن پر ایک مفصل تبصرہ فرمایا ہے جس کے لیے میں ان کا شکرگزار ہوں۔ اگرچہ عموماً رسائل و جرائد کے انتقادات پر بحث کرنے اور ان پر جوابی نقد کرنے کا دستور نہیں ہے لیکن چونکہ ناقد فاضل نے اپنے تبصرے میں ایسے خیالات کا اظہار کیا ہے جو اُن کے مذہب تجدد کے مخصوص اصول و مبادی سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی اصلاح کرناترجمان القرآن کے اولین مقاصد میں سے ہے‘ اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان پر اظہار خیال کے پہلے موقع سے فائدہ اٹھاؤں۔ وہ لکھتے ہیں

اس رسالے کا مقصود اس کے نام سے ظاہر ہے‘ یعنی مطالبِ قرآنی اور تعلیماتِ فرقانی کو ان کی صحیح روشنی میں لوگوں کے سامنے پیش کرنا۔ یقیناًاس مقصود کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا، لیکن جیسا کہ خود فاضل اڈیٹر نے ظاہر کیا ہے‘ عہد حاضر میں اس مدّعا کی تکمیل آسان نہیں۔ عہد ماضی میں جب مذہب نام صرف اسلاف پرستی و قدامت پرستی کا تھا‘ کسی شخص کا مبلغ یا مصلح بن جانا دشوار نہ تھا، لیکن اب جب کہ علوم جدیدہ اور اکتشافاتِ حاضرہ نے عمل و خیال کی بالکل نئی طرح ڈال کرحریت فکر و ضمیر کی دولت سے دماغوں کو مالا مال کردیا ہے‘ مذہب صرف اس دلیل کی بنیاد پر زندہ نہیں رہ سکتا کہ اس کے اسلاف کا طرز عمل بھی یہی تھا‘ اور وہ بھی وہی سوچتے تھے جو اَب بتایا جاتا ہے۔

ہمارے نظام تعلیم کا بنیادی نقص - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


مسلم یونی ورسٹی کورٹ نے اپنے گزشتہ سالانہ اجلاس (منعقدہ اپریل ۱۹۳۶ء) میں ایک ایسے اہم مسئلے کی طرف توجہ کی ہے جو ایک عرصے سے توجہ کا محتاج تھا‘ یعنی دینیات اورعلوم اسلامیہ کے ناقص طرز تعلیم کی اصلاح اور یونی ورسٹی کے طلبا میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کی ضرورت۔


جہاں تک جدید علوم و فنون اور ادبیات کی تعلیم کا تعلق ہے حکومت کی قائم کی ہوئی یونی ورسٹیوں میں اس کا بہتر سے بہتر انتظام موجود ہے۔ کم از کم اتنا ہی بہتر جتنا خود علی گڑھ میں ہے۔ محض اس غرض کے لیے مسلمانوں کواپنی ایک الگ یونی ورسٹی قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ ایک مستقل قومی یونی ورسٹی قائم کرنے کا تخیل جس بنا پر مسلمانوں میں پیدا ہوا اور جس بنا پر اس تخیل کو مقبولیت حاصل ہوئی وہ صرف یہ ہے کہ مسلمان جدید علوم سے استفادہ کرنے کے ساتھ ’مسلمان‘ بھی رہنا چاہتے ہیں۔ یہ غرض سرکاری کالجوں اوریونی ورسٹیوں سے پوری نہیں ہوتی۔ اسی کے لیے مسلمانوں کو اپنی ایک اسلامی یونی ورسٹی کی ضرورت ہے۔ اگر ان کی اپنی یونی ورسٹی بھی یہ غرض پوری نہ کرے، اگر وہاں سے بھی ویسے ہی گریجویٹ نکلیں جیسے سرکاری یونی ورسٹیوں سے نکلتے ہیں‘ اگر وہاں بھی محض دیسی صاحب لوگ یا ہندی وطن پرست یا اشتراکی ملاحدہ ہی پیدا ہوں‘ تو لاکھوں روپیہ کے صَرف سے ایک یونی ورسٹی قائم کرنے اور چلانے کی کون سی خاص ضرورت ہے۔

ملت کی تعمیر نو کا صحیح طریقہ - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


اصلاح اور انقلاب دونوں کا مقصد کسی بگڑی ہوئی حالت کا بدلنا ہوتا ہے، لیکن دونوں کے محرکات اورطریق کار میں اساسی فرق ہوا کرتا ہے۔ اصلاح کی ابتدا غور و فکر سے ہوتی ہے، ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچ بچار کرکے انسان حالات کا جائزہ لیتا ہے‘ خرابی کے اسباب پر غور کرتا ہے‘ خرابی کے حدود کی پیمائش کرتا ہے، اس کے ازالے کی تدبیریں دریافت کرتا ہے، اور اُس کو دور کرنے کے لیے صرف اسی حد تک تخریبی قوت استعمال کرتا ہے‘ جس حد تک اس کا استعمال ناگزیر ہو۔ بخلاف اس کے انقلاب کی ابتدا غیظ و غضب اور جوشِ انتقام کی گرمی سے ہوتی ہے۔ خرابی کے جواب میں ایک دوسری خرابی مہیا کی جاتی ہے، جس بے اعتدالی سے بگاڑ پیدا ہوا تھا اس کا مقابلہ ایک دوسری بے اعتدالی سے کیا جاتا ہے، جو برائیوں کے ساتھ اچھائیوں کو بھی غارت کر دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بسا اوقات ایک اصلاح پسند کو بھی وہی کرنا پڑتا ہے جو ایک انقلاب پسند کرتا ہے۔ دونوں نشتر لے کر جسم کے ماؤف حصے پر حملہ آور ہوتے ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ اصلاح پسند پہلے اندازہ کرلیتا ہے کہ خرابی کہاں ہے اور کتنی ہے۔ پھر نشتر کو اسی حد تک استعمال کرتا ہے جس حد تک خرابی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے اور نشتر کے ساتھ ساتھ مرہم بھی تیار رکھتا ہے، لیکن انقلاب پسند اپنے جوشِ غضب میں آنکھیں بند کرکے نشتر چلاتا ہے‘اچھے برے کا امتیاز کیے بغیر کاٹتا چلا جاتا ہے‘ اور مرہم کا خیال اگر اس کے دل میں آتا بھی ہے تو اس وقت جب خوب قطع و برید کر لینے اور جسم کے ایک اچھے خاصے حصے کو غارت کر چکنے کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔

بغاوت کا ظہور - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


قوم دو طبقوں پر مشتمل ہوا کرتی ہے

• ایک طبقہ عوام

• دوسرا طبقہ خواص

طبقہ عوام اگرچہ کثیر التعداد ہوتا ہے‘ اور قوم کی عددی قوت اسی طبقے پر مبنی ہوتی ہے‘ لیکن سوچنے اور رہنمائی کرنے والے دماغ اس گروہ میں نہیں ہوتے۔ نہ یہ لوگ علم سے بہرہ ور ہوتے ہیں‘ نہ ان کے پاس مالی قوت ہوتی ہے‘ نہ یہ جاہ و منزلت رکھتے ہیں‘ نہ حکومت کا اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے قوم کو چلانا ان لوگوں کاکام نہیں ہوتا‘ بلکہ محض چلانے والوں کے پیچھے چلنا ان کاکام ہوتا ہے۔ یہ خود راہیں بنانے اور نکالنے والے نہیں ہوتے بلکہ جو راہیں ان کے لیے بنا دی جاتی ہیں انھی پر چل پڑتے ہیں۔ راہیں بنانے اور ان پر پوری قوم کے چلانے والے دراصل خواص ہوتے ہیں جن کی ہر بات اور ہر روش اپنی پشت پر دماغ‘ دولت‘ عزت اور حکمت کی طاقتیں رکھتی ہے اور قوم کو طوعاً و کرہاً انھی کی پیروی کرنی پڑتی ہے۔ پس یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ قوم کی اصلی طاقت اس کے عوام نہیں بلکہ خواص ہوتے ہیں۔ انھی پر قوم کے بننے اور بگڑنے کا مدار ہوتا ہے۔ ان کی راست روی پوری قوم کی راست روی پر اور ان کی گمراہی پوری قوم کی گمراہی پر منتج ہوتی ہے۔ جب کسی قوم کی بہتری کے دن آتے ہیں تو ان میں ایسے خواص پیدا ہوتے ہیں جو خود راہ راست پر چلتے اور پوری قوم کو اس پر چلاتے ہیں:

وَجَعَلَٰنھُمْ اَءِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْھِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ۔(الانبیاء ۔۲۱۷۳)

[اور ہم نے ان کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انھیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی ہدایت کی۔]

اجتماعی فساد - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


قرآن مجید میں ایک قاعدہ کلیہ یہ بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے کہ کسی قوم کو خواہ مخواہ برباد کردے، دراں حالیکہ وہ نیکوکار ہو:

وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّ اَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ۔ (ہود۱۱ ۱۱۷) 

[اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ظلم سے تباہ کر دے حالانکہ اس کے باشندے نیک عمل کرنے والے ہوں۔]

ہلاک و برباد کر دینے سے مراد صرف یہی نہیں کہ بستیوں کے طبقے الٹ دیے جائیں‘ اور آبادیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے بلکہ اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قوموں کا شیرازہ بکھیر دیا جائے‘ ان کی اجتماعی قوت توڑ دی جائے‘ ان کو محکوم و مغلوب اور ذلیل و خوار کر دیا جائے۔ قائدہ مذکور کی بنا پر بربادی اور ہلاکت کی جملہ اقسام میں سے کوئی قسم بھی کسی قوم پر نازل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ خیر و صلاح کے راستے کو چھوڑ کر شر و فساد اور سرکشی و نافرمانی کے طریقوں پر نہ چلنے لگے اور اس طرح خود اپنے اوپر ظلم نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قاعدے کو ملحوظ رکھ کر جہاں کہیں کسی قوم کو مبتلائے عذاب کرنے کا ذکر فرمایا ہے‘ وہاں اس کا جرم بھی ساتھ ساتھ بیان کر دیا ہے تاکہ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ وہ ان کی اپنی ہی شامتِ اعمال ہے جو اُن کی دنیا اور آخرت دونوں کو خراب کرتی ہے

ایمان اور اطاعت - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

ایمان اور اطاعت
اجتماعی نظم خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو، اور کسی غرض و غایت کے لیے ہو‘ اپنے قیام و استحکام اور اپنی کامیابی کے لیے دو چیزوں کا ہمیشہ محتاج ہوتا ہے

٭ ایک یہ کہ جن اصولوں پر کسی جماعت کی تنظیم کی گئی ہو وہ اس پوری جماعت اور اس کے ہر فردکے دل و دماغ میں خوب بیٹھے ہوئے ہوں اور جماعت کا ہر فرد اُن کو ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتا ہو۔

٭ دوسرے یہ کہ جماعت میں سمع و اطاعت کا مادہ موجودہو‘ یعنی اس نے جس کسی کو اپنا صاحب امر تسلیم کیا ہو‘ اس کے احکام کی پوری طرح اطاعت کرے‘ اس کے مقرر کیے ہوئے ضوابط کی سختی کے ساتھ پابند رہے‘ اور اس کی حدود سے تجاوز نہ کرے۔

یہ ہر نظام کی کامیابی کے لیے ناگزیر شرطیں ہیں۔ کوئی نظام خواہ وہ نظام عسکری ہو‘ یا نظام سیاسی‘ یا نظام عمرانی‘ یا نظام دینی‘ ان دونوں شرطوں کے بغیر نہ قائم ہوسکتاہے‘ نہ باقی رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مقصد کو پہنچ سکتا ہے۔

مسلمان کا حقیقی مفہوم - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

مسلمان کا حقیقی مفہوم
ہماری روز مرہ کی بول چال میں بعض ایسے الفاظ اور فقرے رائج ہیں جن کو بولتا تو ہر شخص ہے‘مگر سمجھتے بہت کم ہیں۔ کثرتِ استعمال نے ان کا ایک اجمالی مفہوم لوگوں کے ذہن نشین کر دیا ہے۔ بولنے والا جب ان الفاظ کو زبان سے نکالتا ہے تو وہی مفہوم مراد لیتا ہے، اور سننے والا جب انھیں سنتا تو اسی مفہوم کو سمجھتا ہے، لیکن وہ گہرے معانی جن کے لیے واضع نے ان الفاظ کو وضع کیا تھا‘ جہلا تو درکنار اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی معلوم نہیں ہوتے۔

مثال کے طور پر ’اسلام‘ اور ’مسلمان‘ کو لیجیے۔ کس قدرکثرت سے یہ الفاظ بولے جاتے ہیں اور کتنی ہمہ گیری کے ساتھ انھوں نے ہماری زبانوں پر قبضہ کرلیا ہے؟ مگر کتنے بولنے والے ہیں جو ان کو سوچ سمجھ کربولتے ہیں؟ اور کتنے سننے والے ہیں جو انھیں سن کر وہی مفہوم سمجھتے ہیں جس کے لیے یہ الفاظ وضع کیے گئے تھے؟ غیر مسلموں کو جانے دیجیے۔ خود مسلمانوں میں ۹۹فی صدی بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی ایسے ہیں جو اپنے آپ کو’مسلمان‘ کہتے ہیں اور اپنے مذہب کو اسلام کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ مسلمان ہونے کے معنی کیا ہیں اور لفظ ’اسلام‘ کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ آئیے آج تھوڑا سا وقت ہم انھی الفاظ کی تشریح میں صَرف کریں۔

اعتقاد اور عمل کے لحاظ سے اگر آپ لوگوں کے احوال پر نگاہ ڈالیں گے تو عموماً تین قسم کے لوگ آپ کو ملیں گے: