گوشۂ مودودی ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
گوشۂ مودودی ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر سید ابوالاعلی مودودی ؒ کے تاثرات

میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر
سید ابوالاعلی مودودی کے تاثرات  
میجر راجا عزیز بھٹی 6 اگست 1923 کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے جہان ان کے والد راجہ عبد اللہ بھٹی اپنی ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔  دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد یہ گھرانہ واپس لادیاں، ضلع گجرات چلا آیا جو ان کا آبائی گائوں تھا۔ راجہ عزیز بھٹی قیام پاکستان کے بعد 21 جنوری 1948ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں انہیں شہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا پھر انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور 1956ء میں ترقی کرتے کرتے میجر بن گئے۔ 

6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کررہے تھے۔ 12 ستمبر 1965 کو لاہور محاز پر بھارت سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے -  26 ستمبر 1965ء کو صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجیوں کو 1965 کی جنگ میں بہادری کے نمایاں کارنامے انجام دینے پر مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا۔  ان اعزازات میں سب سے بڑا تمغہ نشان حیدر تھا جو میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو عطا کیا گیاتھا۔ راجہ عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔ 

 مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ نے میجر عزیز بھٹی کی شہادت پر ان کے والد محترم کے نام خط لکھا، اس میں انہونے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، عزیز بھٹی کو  پاکستان یعنی "دارالاسلام" کے محافظ ،اور اسلام کے جانباز کا خطاب دیا،   اور ان کے حق میں دعا فرماتے ہوئے لکھا کہ اللہ تعالی "ان کو شہدائے بدر و احد کی معیت کا شرف بخشے" ،  یہاں ان کا اصل خط ملاحظہ کریں !

مسلم عالمی تنظیموں میں مولانا مودودی کا کردار

 الطاف حسن قریشی 

ہم سب ، تاریخ اشاعت : 23 دسمبر 2022ء 

موتمر عالم اسلامی کی ابتدا 1926 ء میں اس طرح ہوئی کہ مکہ مکرمہ کے فرمانروا شاہ عبدالعزیز، جنہوں نے آگے چل کر 1931 ء میں مملکت سعودی عرب کی بنیاد رکھی، انہوں نے 1926 ء میں مسلمانوں کو درپیش مسائل پر غور و خوض کے لیے مکہ مکرمہ میں پورے عالم اسلام سے دو درجن کے لگ بھگ مسلم اکابرین کو دعوت دی۔

ہندوستان سے علی برادران، سید سلیمان ندوی اور مفتی کفایت اللہ شامل ہوئے۔ فلسطین سے مفتی اعظم سید امین الحسینی شریک ہوئے۔ ترکی سے بھی اہم شخصیتوں نے حصہ لیا۔ یہ عالی شان اجلاس مسائل کی نشان دہی اور ان کا حل تلاش کرنے کے بعد ختم ہو گیا۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ پانچ سال گزرے، تو مفتی اعظم فلسطین نے بیت المقدس کے مقام پر 1931 ء میں مسلم اکابرین کو مدعو کیا اور موتمر عالم اسلامی کی باقاعدہ تنظیم قائم کی، مگر اس نے کوئی قابل ذکر کام سرانجام نہیں دیا۔

قیام پاکستان کے بعد 1949 ء میں وزیراعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خاں کی سرپرستی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی میزبانی میں اس تنظیم کا تیسرا اجلاس کراچی میں ہوا۔ اس وقت سید ابوالاعلیٰ مودودی جیل میں تھے۔ مولانا ظفر احمد انصاری اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے اس اہم اجلاس کی کامیابی کے لیے دن رات کام کیا۔ اس تنظیم میں آگے چل کر چودھری نذیر احمد خاں بہت فعال کردار ادا کرتے رہے اور انھوں نے مسلمانوں کی دولت مشترکہ قائم کرنے کا تصور پیش کیا۔ اسی طرح موتمر عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل انعام اللہ اتحاد عالم اسلامی کے لیے ملک ملک جاتے اور تنظیمی قوت میں اضافہ کرتے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد یہ عالمگیر تنظیم پس منظر میں چلی گئی ہے۔

جديد دور میں علماء اسلام کی اصل ذمہ داری

علماء کی ذمہ داری
"علما کے لیے اب یہ وقت نہیں ہے کہ وہ الہیات اور مابعد الطبیعیات اور فقہی جزئیات کی بحثوں میں لگے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب تھا یا نہ تھا؟ خدا جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں؟ رسولؐ کا نظیر ممکن ہے یا نہیں؟ ایصالِ ثواب اور زیارتِ قبور کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آمین بالجہر و رفع یدین کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ مسجد میں منبر و محراب کے درمیان کتنا فاصلہ رکھا جائے؟ یہ اور ایسے ہی بیسیوں مسائل جن کو طے کرنے میں آج ہمارے پیشوایانِ دین اپنی ساری قوتیں ضائع کر رہے ہیں‘ دنیا کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور ان کے طے ہو جانے سے ہدایت و ضلالت کی اس عظیم الشان لڑائی کا تصفیہ نہیں ہوسکتا جو اس وقت تمام عالم میں چھڑی ہوئی ہے۔ آج اصلی ضرورت ان مسائل کے سمجھنے کی ہے جو ناخدا شناسی اور لا دینی کی بنیاد پر علم اور تمدن کے صدیوں تک نشو و نما پاتے رہنے سے پیدا ہوگئے ہیں۔ ان کی پوری پوری تشخیص کر کے اصول اسلام کے مطابق ان کا قابل عمل حل پیش کرنا وقت کا اصلی کام ہے۔ اگر علمائے اسلام نے اپنے آپ کو اس کام کا اہل نہ بنایا‘ اور اسے انجام دینے کی کوشش نہ کی تو یورپ اور امریکہ کا جو حشر ہوگا، سو ہوگا، خود دنیائے اسلام بھی تباہ ہو جائے گی، کیونکہ وہی مسائل جو مغربی ممالک کو درپیش ہیں تمام مسلم ممالک اور ہندستان میں پوری شدت کے ساتھ پیدا ہو چکے ہیں اور ان کاکوئی صحیح حل بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے مسلم اور غیر مسلم سب کے سب ان لوگوں کے الٹے سیدھے نسخے استعمال کرتے چلے جارہے ہیں جو خود بیمار ہیں۔ اب یہ معاملہ صرف یورپ اور امریکہ کا نہیں بلکہ ہمارے اپنے گھر اور ہماری آئندہ نسلوں کا ہے۔"

ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


حکومت و فرماں روائی اور غلبہ و استیلا کی دو قسمیں ہیں

• ایک ذہنی اور اخلاقی غلبہ

• دوسرا سیاسی اور مادی غلبہ

پہلی قسم کا غلبہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنی فکری قوتوں میں اتنی ترقی کر جائے کہ دوسری قومیں اسی کے افکار پر ایمان لے آئیں‘ اسی کے تخیلات‘ اسی کے معتقدات‘ اسی کے نظریات دماغوں پر چھا جائیں‘ ذہنیتیں اسی کے سانچے میں ڈھلیں‘ تہذیب اسی کی تہذیب ہو‘ علم اسی کا علم ہو‘ اسی کی تحقیق کو تحقیق سمجھا جائے اور ہر وہ چیز باطل ٹھہرائی جائے جس کو وہ باطل ٹھہرائے۔ دوسری قسم کاغلبہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنی مادی طاقتوں کے اعتبار سے اتنی قوی بازو ہو جائے کہ دوسری قومیں اس کے مقابلے میں اپنی سیاسی و معاشی آزادی کو برقرار نہ رکھ سکیں اور کلی طور پر، یا کسی نہ کسی حد تک وہ غیر قوموں کے وسائل ثروت پر قابض اور ان کے نظم مملکت پر حاوی ہو جائے۔

اس کے مقابلے میں مغلوبیت اور محکومیت کی بھی دو قسمیں ہیں:

• ایک ذہنی مغلوبیت

• دوسری سیاسی مغلوبیت

ان دونوں قسموں کی صفات کو اُن صفات کا عکس سمجھ لیجیے جو اوپر غلبے کی دو قسموں کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔

ہندستان میں اسلامی تہذیب کا انحطاط - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی



دنیائے اسلام کا بیش تر حصہ اُن ممالک پر مشتمل ہے جو صدرِ اول کے مجاہدین کی کوششوں سے فتح ہوئے ہیں۔ ان کو جن لوگوں نے فتح کیا تھاوہ ملک گیری اور حصول غنائم کے لیے نہیں بلکہ خدا کے کلمے کو دنیا میں بلند کرنے کے لیے سروں سے کفن باندھ کر نکلے تھے۔ وہ طلبِ دنیا کے بجائے طلبِ آخرت کے نشے میں سرشار تھا۔ اس لیے انھوں نے اپنے مفتوحین کو مطیع و باج گزار بنانے پر اکتفا نہ کیا، بلکہ انھیں اسلام کے رنگ میں رنگ دیا۔ ان کی پوری آبادی یا اس کے سواد اعظم کو ملتِ حنیفی میں جذب کرلیا۔ علم و عمل کی قوت سے ان میں اسلامی فکر اور اسلامی تہذیب کو اتنا راسخ کر دیا کہ وہ خود تہذیب اسلامی کے علم بردار اور علوم اسلامی کے معلم بن گئے۔ ان کے بعد وہ ممالک ہیں جو اگرچہ صدر اول کے بعد اُس عہد میں فتح ہوئے جب کہ اسلامی جوش سرد ہو چکا تھا اور فاتحین کے دلوں میں خالص جہاد فی سبیل اللہ کی روح سے زیادہ ملک گیری کی ہوس نے جگہ لے لی تھی‘ لیکن اس کے باوجود اسلام وہاں پھیلنے اور جڑ پکڑ لینے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے ان ممالک میں کلیتہً ایک قوی مذہب اور قومی تہذیب کی حیثیت حاصل کرلی۔

بدقسمتی سے ہندستان کا معاملہ ان دونوں قسم کے ممالک سے مختلف ہے۔ صدرِ اول میں اس ملک کا بہت تھوڑا حصہ فتح ہوا تھا اور اس تھوڑے سے حصے پر بھی جو کچھ اسلامی تعلیم و تہذیب کے اثرات پڑے تھے‘ ان کو باطنیت کے سیلاب نے ملیا میٹ کر دیا۔ اس کے بعد جب ہندستان میں مسلمانوں کی فتوحات کا اصلی سلسلہ شروع ہوا تو فاتحوں میں صدر اول کے مسلمانوں کی خصوصیات باقی نہیں رہی تھیں۔ انھوں نے یہاں اشاعتِ اسلام کے بجائے توسیعِ مملکت میں اپنی قوتیں صرف کیں اور لوگوں سے اطاعتِ خدا و رسول کے بجائے اپنی اطاعت اور باج گزاری کا مطالبہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدیوں کی فرماں روائی کے بعد بھی ہندستان کا سوادِ اعظم غیر مسلم رہا۔ یہاں اسلامی تہذیب جڑ نہ پکڑ سکی‘ یہاں کے باشندوں میں سے جنھوں نے اسلام قبول کیا ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا کوئی خاص انتظام نہ کیا گیا‘ نو مسلم جماعتوں میں قدیم ہندوانہ خیالات اور رسم و رواج کم و بیش باقی رہے‘ اور خود باہر کے آئے ہوئے قدیم الاسلام مسلمان بھی اہل ہند کے میل جول سے مشرکانہ طریقوں کے ساتھ رواداری برتنے اور بہت سی جاہلانہ رسوم کا اتباع کرنے لگے۔

انسانی قانون اور الٰہی قانون - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


گزشتہ ماہ دسمبر ۱۹۳۳ء کی ابتدا میں امریکہ کے قانونِ تحریمِ خمر (Prohibition Law) کی تنسیخ کا باقاعدہ اعلان ہوگیا اور تقریباً چودہ برس کے بعد نئی دنیا کے باشندوں نے پھر خشکی سے تری کے حدود میں قدم رکھا۔ جمہوریہ امریکہ کی صدارت پر مسٹر روز ویلٹ کا فائز ہونا خشکی پر تری کی فتح کا اعلان تھا۔ اس کے بعد پہلے تو اپریل ۱۹۳۳ء میں ایک قانون کے ذریعے سے ۲‘۳ فی صدی الکحل کی شراب کو جائز کیا گیا‘ پھر چند مہینے نہ گزرے تھے کہ دستورجمہوریہ امریکہ کی اٹھارہویں ترمیم ہی منسوخ کر دی گئی جس کی رو سے ریاست ہائے متحدہ کے حدود میں شراب کی خرید و فروخت‘ درآمدو برآمد اور ساخت و پرداخت حرام قرار دی گئی تھی۔

قانون کے ذریعے سے اخلاق و معاشرت کی اصلاح کا یہ سب سے بڑا تجربہ تھا جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اٹھارہویں ترمیم سے پہلے کئی سال تک اینٹی سیلون لیگ (Anti Saloon League) رسائل و جرائد‘ خطابات‘ تصاویر‘ میجک لنیٹرن‘ سینما اور بہت سے دوسرے طریقوں سے شراب کی مضرتیں اہل امریکہ کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کرتی رہی اور اس تبلیغ میں اس نے پانی کی طرح روپیہ بہایا۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ تحریک کی ابتدا سے لے کر ۱۹۲۵ء تک نشر و اشاعت پر ساڑھے چھے کروڑ ڈالر صَرف ہوئے اور شراب کے خلاف جس قدر لٹریچر شائع کیا گیا وہ تقریباً ۹ ارب صفحات پر مشتمل تھا۔

اس کے علاوہ قانونِ تحریم کی تنقیذ کے مصارف کا جس قدر بار گذشتہ چودہ سال میں امریکی قوم کو برداشت کرنا پڑا ہے اس کی مجموعی مقدار ۴۵ کروڑ پونڈ بتائی جاتی ہے، اور حال میں ممالک متحدہ امریکہ کے محکمہ عدل نے جنوری ۱۹۲۰ء سے اکتوبر ۱۹۳۳ء تک کے جو اعداد و شمار شائع کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون کی تنفیذ کے سلسلے میں دو سو آدمی مارے گئے۔ ۵ لاکھ ۳۴ ہزار ۳ سو ۳۵ قید کیے گئے۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ پونڈ کے جرمانے عاید کیے گئے۔ چالیس کروڑ چالیس لاکھ پونڈ کی مالیت کی املاک ضبط کی گئیں۔

مغربی تہذیب کی خود کشی - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


سیاست‘ تجارت‘ صنعت و حرفت اور علوم و فنون کے میدانوں میں مغربی قوموں کے حیرت انگیز اقدامات کو دیکھ کر دل اور دماغ سخت دہشت زدہ ہو جاتے ہیں۔ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید ان قوموں کی ترقی لازوال ہے‘ دنیا پر ان کے غلبے اور تسلط کا دائمی فیصلہ ہو چکا ہے‘ ربع مسکون۱؂ کی حکومت اور عناصر کی فرماں روائی کا انھیں ٹھیکہ دے دیا گیا ہے، اور ان کی طاقت ایسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی ہے کہ کسی کے اکھاڑے نہیں اکھڑ سکتی۔

ایسا ہی گمان ہر زمانے میں ان سب قوموں کے متعلق کیا جاچکا ہے جو اپنے اپنے وقت کی غالب قومیں تھیں۔ مصر کے فراعنہ‘ عرب کے عاد و ثمود‘ عراق کے کلدانی‘ ایران کے اکاسرہ‘ یونان کے جہانگیر فاتح‘ روم کے عالم گیر فرماں روا مسلمانوں کے جہاں کشا مجاہد‘ تاتار کے عالم سوز سپاہی‘ سب اس کرہ خاکی کے اسٹیج پر اسی طرح غلبہ و قوت کے تماشے دکھا چکے ہیں۔ ان میں سے جس جس کے کھیل کی باری آئی‘ اس نے اپنی چلت پھرت کے کرتب دکھا کر اسی طرح دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ہر قوم جب اٹھی ہے تو وہ اسی طرح دنیا پر چھا گئی ہے۔ اسی طرح اس نے چار دانگ عالم میں اپنی شوکت و جبروت کے ڈنکے بجائے ہیں۔ اسی طرح دنیا نے مبہوت ہو کر گمان کیا ہے کہ ان کی طاقت لازوال ہے، مگر جب ان کی اجل پوری ہوگئی اور حقیقت میں لازوال طاقت رکھنے والے فرماں روا نے ان کے زوال کا فیصلہ صادر کر دیا‘ تو وہ ایسے گرے کہ اکثر تو صفحۂ ہستی سے ناپید ہوگئے، اوربعض کا نام و نشان اگر دنیا میں باقی رہا بھی تو وہ اس طرح کہ وہ اپنے محکوموں کے محکوم ہوئے‘ اپنے غلاموں کے غلام بنے‘ اپنے مغلوبوں کے مغلوب ہو کر رہے

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ۔ (آل عمران۳ ۱۳۷)

لارڈ لوتھین کا خطبہ - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


جنوری کے آخری ہفتے میں علی گڑھ یونی ورسٹی کا کانووکیشن (جلسہ تقسیم اسناد) کے موقع پر لارڈ لوتھین نے جو خطبہ دیا ہے‘ وہ درحقیقت اس قابل ہے کہ ہندستان کے تعلیم یافتہ (جدید اور قدیم دونوں) اس کو گہری نظر سے دیکھیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔ اس خطبے میں ایک ایسا آدمی ہمارے سامنے اپنے دل و دماغ کے پردے کھول رہا ہے جس نے علومِ جدیدہ اور ان کی پیدا کردہ تہذیب کو دور سے نہیں دیکھا ہے بلکہ خود اس تہذیب کی آغوش میں جنم لیا ہے اور اپنی زندگی کے ۵۶ سال اسی سمندر کی غواصی میں گزارے ہیں۔ وہ پیدائشی اور خاندانی یورپین ہے‘ آکسفورڈ کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ راؤنڈ ٹیبل جیسے مشہور رسالے کا ایڈیٹر رہ چکا ہے اور قریب قریب ۲۱ سال سے سلطنتِ برطانیہ کے مہمات امور میں ذمہ دارانہ حصہ لیتا ہے۔ وہ کوئی بیرونی ناظر نہیں ہے بلکہ مغربی تہذیب کے اپنے گھر کا آدمی ہے اور وہ ہم سے بیان کرتا ہے کہ اس گھر میں اصل خرابیاں کیا ہیں‘ کس وجہ سے ہیں اور اس کے گھر کے لوگ اس وقت درحقیقت کس چیز کے پیاسے ہو رہے ہیں۔

ایک حیثیت سے یہ خطبہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے سبق آموز ہے کیونکہ اس سے ان کو معلوم ہوگا کہ مغربی علوم اور ان کی پیدا کردہ تہذیب نری تریاق ہی تریاق نہیں ہے بلکہ اس میں بہت کچھ زہر بھی ملا ہوا ہے۔ جن لوگوں نے اس معجون کو بنایا اور صدیوں استعمال کیا وہ آج خود آپ کو آگاہ کر رہے ہیں کہ خبردار اس معجون کی پوری خوراک نہ لینا۔ یہ ہمیں تباہی کے کنارے پہنچا چکی ہے اور تمھیں بھی تباہ کرکے رہے گی۔ ہم خود ایک تریاق خالص کے محتاج ہیں۔ اگرچہ ہمیں یقین کے ساتھ معلوم نہیں‘ مگر گمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ تریاق تمھارے پاس موجود ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنے تریاق کو خاک میں ملا کر ہماری زہر آلود معجون کے مزے پر لگ جاؤ۔

ترکی میں مشرق و مغرب کی کشمکش - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

خطباتِ خالدہ ادیب خانم


ترکی کی مشہور فاضل و مجاہد خاتون خالدہ ادیب خانم اب سے کچھ مدت قبل جامعہ اسلامیہ کی دعوت پر ہندستان تشریف لائیں تھیں اور انھوں نے دہلی میں چند خطبات ارشاد فرمائے تھے جن کا اردو ترجمہ جامعہ کے فاضل پروفیسر ڈاکٹر سید عابد حسین صاحب نے ترکی میں مشرق و مغرب کی کشمکش کے نام سے کیا ہے۔ ان سطور میں ہم اس مجموعہ خطبات پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالیں گے۔

دنیائے اسلام میں اس وقت دو ملک ایسے ہیں جن کو دو مختلف حیثیتوں سے مسلمانان عالم کی پیشوائی کا مرتبہ حاصل ہے۔ ذہنی حیثیت سے مصر اور سیاسی حیثیت سے ٹرکی۔

مصر کے ساتھ اممِ اسلامیہ کے تعلقات نسبتاً زیادہ گہرے ہیں‘ کیونکہ اس کی زبان ہماری بین الملی زبان‘ عربی ہے‘ اس کالٹریچر تمام دنیا کے مسلمانوں میں پھیلتا ہے‘ اس کے ذہنی اثرات چین سے مراکش تک پہنچتے ہیں‘ اوروہی مسلمانوں کے درمیان ربط اور تفاہم اور واقفیت حالات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بخلاف اس کے ترکی قوم کی مجاہدانہ زندگی‘ اور مغربی تقدمات کے مقابلے میں اس کی شجاعانہ مدافعت‘ اور ناموسِ ملی کے لیے اس کی قربانیوں کا سکہ تو بلاشبہ تمام عالم اسلامی پر بیٹھا ہوا ہے، اور اسی وجہ سے اس کو مسلمانوں میں سرداری اور پیشوائی کا منصب حاصل ہے‘ لیکن زبان کی اجنبیت‘ اور ربط وتفاہم کے فقدان نے ٹرکی اور اکثر ممالکِ اسلامیہ کے درمیان ایک گہرا پردہ حائل کر دیا ہے جس کے سبب سے ترکی قوم کے ذہنی ارتقا اور اس کی دماغی ساخت اور اس کے تمدنی‘ سیاسی‘ مذہبی اور علمی تحولات کے متعلق ہماری واقفیت بہت محدود ہے۔ خصوصاً حال کے دس بارہ برسوں میں جو انقلاب ٹرکی میں رونما ہوئے ان کے باطنی اسباب اور ان کی اصلی روح کو جاننے اور سمجھنے کا موقع تو ہم کو بہت ہی کم ملا ہے۔ بہت سے لوگ ترکوں سے سخت ناراض ہیں‘ بعض ان کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہیں‘ بعض ان کی مغربیت کو اپنی مغربیت پرستی کے لیے برہان قاطع بنائے بیٹھے ہیں، مگر مستند معلومات کسی کے پاس بھی نہیں ہیں اور جو تھوڑی بہت معلومات ہیں بھی تو وہ ٹرکی جدید کی روح کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

عقلیت کا فریب (۱) - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

 (1)عقلیت کا فریب
اسلامی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے نیم پختہ یا بالکل خام نوجوانوں کے مذہبی خیالات پر مغربی تعلیم اور تہذیب کا جو اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ اُن تحریروں اور تقریروں سے ہوسکتا ہے جو اس قسم کے لوگوں کی زبان و قلم سے آئے دن نکلتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں صوبہ متحدہ کے ایک مسلمان گریجویٹ صاحب کا ایک مضمون ہماری نظر سے گزرا جس میں انھوں نے اپنی سیاحتِ چین و جاپان کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے

’’ہمارے ساتھ جو چینی مسافر ہیں وہ انتہا کے بلا نوش اور شراب خور ہیں۔ سور کا گوشت تو ان کی جان ہے۔ اب میں نے عیسائیت کی ترقی کا راز سمجھا۔ چینی اپنے قدیم مذہب کی پیروی کونئی تعلیم کے ساتھ عار پاتا ہے۔ اس کو اسلام قبول کرنے میں تامل نہ ہوتا، اگر وہ اس کو سمجھتا ہوتا، مگر اسلام اس کو اس کی تمام مرغوب غذاؤں سے محروم کر دیتا ہے۔ چار و ناچار عیسائی ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ عجب نہیں کہ آئندہ چین کا سرکاری مذہب عیسائیت ہوجائے۔ میں سور کے گوشت کے معاملے میں اہل یورپ اور اہل چین کے نو مسلموں کے ساتھ ذرا ڈھیل دینا پسند کرتا ہوں۔ قرآن سے بھی مجھے اس کے قطعی حرام ہونے میں شک ہے۔ زیادہ بریں نیست کہ اہل عرب کے لیے کسی خاص وجہ سے حرام کر دیا گیا ہو، مگر ایسے ممالک میں جہاں اس کے بغیر (فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَاعَادٍ) ہو جائے تو کیا ہرج ہے؟

عقلیت کا فریب (۲) - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

(2) عقلیت کا فریب 
عقلیت (Rationalism) اور فطریت (Naturalism) یہ دو چیزیں ہیں جن کا اشتہار گذشتہ دو صدیوں سے مغربی تہذیب بڑے زور شور سے دے رہی ہیں۔ اشتہار کی طاقت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ جس چیز کو پیہم اور مسلسل اور بکثرت نگاہوں کے سامنے لایا جائے اور کانوں پر مسلط کیا جائے اس کے اثر سے انسان اپنے دل اور دماغ کو کہاں تک بچاتا رہے گا۔ بالاخر اشتہار کے زور سے دنیا نے یہ بھی تسلیم کرلیا کہ مغربی علوم اور مغربی تمدن کی بنیاد سراسر عقلیت اور فطریت پر ہے۔ حالانکہ مغربی تہذیب کے تنقیدی مطالعے سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ اس کی بنیاد نہ عقلیت پر ہے نہ اصولِ فطرت کی متابعت پر‘ بلکہ اس کے برعکس اس کا پورا ڈھچر حس اور خواہش اور ضرورت پر قائم ہے، اور مغربی نشاۃ جدیدہ دراصل عقل اور فطرت کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ اس نے معقولات کو چھوڑ کر محسوسات اور مادیت کی طرف رجوع کیا۔ عقل کے بجائے حس پر اعتماد کیا۔ عقلی ہدایات اور منطقی استدلال اور فطری وجدان کو رد کرکے محسوس مادی نتائج کو اصلی و حقیقی معیار قرار دیا۔ فطرت کی رہنمائی کو مردود ٹھہرا کر خواہش اور ضرورت کو اپنا رہنما بنایا۔ ہر اُس چیز کو بے اصل سمجھا جو ناپ اور تول میں نہ آسکتی ہو۔ ہر اُس چیز کو ہیچ اور ناقابل اعتنا قرار دیا جس پر کوئی محسوس مادی منفعت مترتب نہ ہوتی ہو۔ ابتدا میں یہ حقیقت خود اہل مغرب سے چھپی ہوتی تھی‘ اس لیے وہ عقل اور فطرت کے خلاف چلنے کے باوجود یہی سمجھتے رہے کہ انھوں نے جس روشن خیالی کے دور جدید کا افتتاح کیا ہے اس کی بنیاد ’عقلیت‘ اور فطرت پر ہے۔ بعد میں اصل حقیقت کھلی، مگر اعتراف کی جرأت نہ ہوئی۔ مادہ پرستی‘ اور خواہشات کی غلامی‘ اور مطالباتِ نفس و جسد کی بندگی پر منافقت کے ساتھ عقلی استدلال اور ادعائے فطریت کے پردے ڈالے جاتے رہے، لیکن اب انگریزی محاورے کے مطابق ’بلی تھیلے سے بالکل باہر آچکی ہے‘ غیر معقولیت اور خلاف ورزی فطرت کی لے اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس پر کوئی پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس لیے اب کھلم کھلا عقل اور فطرت دونوں سے بغاوت کا اعلان کیا جارہا ہے۔ علم اور حکمت کی مقدس فضا سے لے کر معاشرت‘ معیشت اور سیاست تک ہر جگہ بغاوت کا علم بلند ہو چکا ہے اور’قدامت پرست‘ منافقین کی ایک جماعت کو مستثنیٰ کر کے دنیائے جدید کے تمام رہنما اپنی تہذیب پر صرف خواہش اور ضرورت کی حکمرانی تسلیم کررہے ہیں۔

تجدد کا پائے چوبیں - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

تجدد کا پائے چوبیں
ماہ جون ۱۹۳۳ء کے نگار میں حضرت نیاز فتح پوری نے ترجمان القرآن پر ایک مفصل تبصرہ فرمایا ہے جس کے لیے میں ان کا شکرگزار ہوں۔ اگرچہ عموماً رسائل و جرائد کے انتقادات پر بحث کرنے اور ان پر جوابی نقد کرنے کا دستور نہیں ہے لیکن چونکہ ناقد فاضل نے اپنے تبصرے میں ایسے خیالات کا اظہار کیا ہے جو اُن کے مذہب تجدد کے مخصوص اصول و مبادی سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی اصلاح کرناترجمان القرآن کے اولین مقاصد میں سے ہے‘ اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان پر اظہار خیال کے پہلے موقع سے فائدہ اٹھاؤں۔ وہ لکھتے ہیں

اس رسالے کا مقصود اس کے نام سے ظاہر ہے‘ یعنی مطالبِ قرآنی اور تعلیماتِ فرقانی کو ان کی صحیح روشنی میں لوگوں کے سامنے پیش کرنا۔ یقیناًاس مقصود کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا، لیکن جیسا کہ خود فاضل اڈیٹر نے ظاہر کیا ہے‘ عہد حاضر میں اس مدّعا کی تکمیل آسان نہیں۔ عہد ماضی میں جب مذہب نام صرف اسلاف پرستی و قدامت پرستی کا تھا‘ کسی شخص کا مبلغ یا مصلح بن جانا دشوار نہ تھا، لیکن اب جب کہ علوم جدیدہ اور اکتشافاتِ حاضرہ نے عمل و خیال کی بالکل نئی طرح ڈال کرحریت فکر و ضمیر کی دولت سے دماغوں کو مالا مال کردیا ہے‘ مذہب صرف اس دلیل کی بنیاد پر زندہ نہیں رہ سکتا کہ اس کے اسلاف کا طرز عمل بھی یہی تھا‘ اور وہ بھی وہی سوچتے تھے جو اَب بتایا جاتا ہے۔

ہمارے نظام تعلیم کا بنیادی نقص - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


مسلم یونی ورسٹی کورٹ نے اپنے گزشتہ سالانہ اجلاس (منعقدہ اپریل ۱۹۳۶ء) میں ایک ایسے اہم مسئلے کی طرف توجہ کی ہے جو ایک عرصے سے توجہ کا محتاج تھا‘ یعنی دینیات اورعلوم اسلامیہ کے ناقص طرز تعلیم کی اصلاح اور یونی ورسٹی کے طلبا میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کی ضرورت۔


جہاں تک جدید علوم و فنون اور ادبیات کی تعلیم کا تعلق ہے حکومت کی قائم کی ہوئی یونی ورسٹیوں میں اس کا بہتر سے بہتر انتظام موجود ہے۔ کم از کم اتنا ہی بہتر جتنا خود علی گڑھ میں ہے۔ محض اس غرض کے لیے مسلمانوں کواپنی ایک الگ یونی ورسٹی قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ ایک مستقل قومی یونی ورسٹی قائم کرنے کا تخیل جس بنا پر مسلمانوں میں پیدا ہوا اور جس بنا پر اس تخیل کو مقبولیت حاصل ہوئی وہ صرف یہ ہے کہ مسلمان جدید علوم سے استفادہ کرنے کے ساتھ ’مسلمان‘ بھی رہنا چاہتے ہیں۔ یہ غرض سرکاری کالجوں اوریونی ورسٹیوں سے پوری نہیں ہوتی۔ اسی کے لیے مسلمانوں کو اپنی ایک اسلامی یونی ورسٹی کی ضرورت ہے۔ اگر ان کی اپنی یونی ورسٹی بھی یہ غرض پوری نہ کرے، اگر وہاں سے بھی ویسے ہی گریجویٹ نکلیں جیسے سرکاری یونی ورسٹیوں سے نکلتے ہیں‘ اگر وہاں بھی محض دیسی صاحب لوگ یا ہندی وطن پرست یا اشتراکی ملاحدہ ہی پیدا ہوں‘ تو لاکھوں روپیہ کے صَرف سے ایک یونی ورسٹی قائم کرنے اور چلانے کی کون سی خاص ضرورت ہے۔

ملت کی تعمیر نو کا صحیح طریقہ - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


اصلاح اور انقلاب دونوں کا مقصد کسی بگڑی ہوئی حالت کا بدلنا ہوتا ہے، لیکن دونوں کے محرکات اورطریق کار میں اساسی فرق ہوا کرتا ہے۔ اصلاح کی ابتدا غور و فکر سے ہوتی ہے، ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچ بچار کرکے انسان حالات کا جائزہ لیتا ہے‘ خرابی کے اسباب پر غور کرتا ہے‘ خرابی کے حدود کی پیمائش کرتا ہے، اس کے ازالے کی تدبیریں دریافت کرتا ہے، اور اُس کو دور کرنے کے لیے صرف اسی حد تک تخریبی قوت استعمال کرتا ہے‘ جس حد تک اس کا استعمال ناگزیر ہو۔ بخلاف اس کے انقلاب کی ابتدا غیظ و غضب اور جوشِ انتقام کی گرمی سے ہوتی ہے۔ خرابی کے جواب میں ایک دوسری خرابی مہیا کی جاتی ہے، جس بے اعتدالی سے بگاڑ پیدا ہوا تھا اس کا مقابلہ ایک دوسری بے اعتدالی سے کیا جاتا ہے، جو برائیوں کے ساتھ اچھائیوں کو بھی غارت کر دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بسا اوقات ایک اصلاح پسند کو بھی وہی کرنا پڑتا ہے جو ایک انقلاب پسند کرتا ہے۔ دونوں نشتر لے کر جسم کے ماؤف حصے پر حملہ آور ہوتے ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ اصلاح پسند پہلے اندازہ کرلیتا ہے کہ خرابی کہاں ہے اور کتنی ہے۔ پھر نشتر کو اسی حد تک استعمال کرتا ہے جس حد تک خرابی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے اور نشتر کے ساتھ ساتھ مرہم بھی تیار رکھتا ہے، لیکن انقلاب پسند اپنے جوشِ غضب میں آنکھیں بند کرکے نشتر چلاتا ہے‘اچھے برے کا امتیاز کیے بغیر کاٹتا چلا جاتا ہے‘ اور مرہم کا خیال اگر اس کے دل میں آتا بھی ہے تو اس وقت جب خوب قطع و برید کر لینے اور جسم کے ایک اچھے خاصے حصے کو غارت کر چکنے کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔

بغاوت کا ظہور - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


قوم دو طبقوں پر مشتمل ہوا کرتی ہے

• ایک طبقہ عوام

• دوسرا طبقہ خواص

طبقہ عوام اگرچہ کثیر التعداد ہوتا ہے‘ اور قوم کی عددی قوت اسی طبقے پر مبنی ہوتی ہے‘ لیکن سوچنے اور رہنمائی کرنے والے دماغ اس گروہ میں نہیں ہوتے۔ نہ یہ لوگ علم سے بہرہ ور ہوتے ہیں‘ نہ ان کے پاس مالی قوت ہوتی ہے‘ نہ یہ جاہ و منزلت رکھتے ہیں‘ نہ حکومت کا اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے قوم کو چلانا ان لوگوں کاکام نہیں ہوتا‘ بلکہ محض چلانے والوں کے پیچھے چلنا ان کاکام ہوتا ہے۔ یہ خود راہیں بنانے اور نکالنے والے نہیں ہوتے بلکہ جو راہیں ان کے لیے بنا دی جاتی ہیں انھی پر چل پڑتے ہیں۔ راہیں بنانے اور ان پر پوری قوم کے چلانے والے دراصل خواص ہوتے ہیں جن کی ہر بات اور ہر روش اپنی پشت پر دماغ‘ دولت‘ عزت اور حکمت کی طاقتیں رکھتی ہے اور قوم کو طوعاً و کرہاً انھی کی پیروی کرنی پڑتی ہے۔ پس یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ قوم کی اصلی طاقت اس کے عوام نہیں بلکہ خواص ہوتے ہیں۔ انھی پر قوم کے بننے اور بگڑنے کا مدار ہوتا ہے۔ ان کی راست روی پوری قوم کی راست روی پر اور ان کی گمراہی پوری قوم کی گمراہی پر منتج ہوتی ہے۔ جب کسی قوم کی بہتری کے دن آتے ہیں تو ان میں ایسے خواص پیدا ہوتے ہیں جو خود راہ راست پر چلتے اور پوری قوم کو اس پر چلاتے ہیں:

وَجَعَلَٰنھُمْ اَءِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْھِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ۔(الانبیاء ۔۲۱۷۳)

[اور ہم نے ان کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انھیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی ہدایت کی۔]

اجتماعی فساد - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


قرآن مجید میں ایک قاعدہ کلیہ یہ بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے کہ کسی قوم کو خواہ مخواہ برباد کردے، دراں حالیکہ وہ نیکوکار ہو:

وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّ اَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ۔ (ہود۱۱ ۱۱۷) 

[اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ظلم سے تباہ کر دے حالانکہ اس کے باشندے نیک عمل کرنے والے ہوں۔]

ہلاک و برباد کر دینے سے مراد صرف یہی نہیں کہ بستیوں کے طبقے الٹ دیے جائیں‘ اور آبادیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے بلکہ اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قوموں کا شیرازہ بکھیر دیا جائے‘ ان کی اجتماعی قوت توڑ دی جائے‘ ان کو محکوم و مغلوب اور ذلیل و خوار کر دیا جائے۔ قائدہ مذکور کی بنا پر بربادی اور ہلاکت کی جملہ اقسام میں سے کوئی قسم بھی کسی قوم پر نازل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ خیر و صلاح کے راستے کو چھوڑ کر شر و فساد اور سرکشی و نافرمانی کے طریقوں پر نہ چلنے لگے اور اس طرح خود اپنے اوپر ظلم نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قاعدے کو ملحوظ رکھ کر جہاں کہیں کسی قوم کو مبتلائے عذاب کرنے کا ذکر فرمایا ہے‘ وہاں اس کا جرم بھی ساتھ ساتھ بیان کر دیا ہے تاکہ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ وہ ان کی اپنی ہی شامتِ اعمال ہے جو اُن کی دنیا اور آخرت دونوں کو خراب کرتی ہے

ایمان اور اطاعت - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

ایمان اور اطاعت
اجتماعی نظم خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو، اور کسی غرض و غایت کے لیے ہو‘ اپنے قیام و استحکام اور اپنی کامیابی کے لیے دو چیزوں کا ہمیشہ محتاج ہوتا ہے

٭ ایک یہ کہ جن اصولوں پر کسی جماعت کی تنظیم کی گئی ہو وہ اس پوری جماعت اور اس کے ہر فردکے دل و دماغ میں خوب بیٹھے ہوئے ہوں اور جماعت کا ہر فرد اُن کو ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتا ہو۔

٭ دوسرے یہ کہ جماعت میں سمع و اطاعت کا مادہ موجودہو‘ یعنی اس نے جس کسی کو اپنا صاحب امر تسلیم کیا ہو‘ اس کے احکام کی پوری طرح اطاعت کرے‘ اس کے مقرر کیے ہوئے ضوابط کی سختی کے ساتھ پابند رہے‘ اور اس کی حدود سے تجاوز نہ کرے۔

یہ ہر نظام کی کامیابی کے لیے ناگزیر شرطیں ہیں۔ کوئی نظام خواہ وہ نظام عسکری ہو‘ یا نظام سیاسی‘ یا نظام عمرانی‘ یا نظام دینی‘ ان دونوں شرطوں کے بغیر نہ قائم ہوسکتاہے‘ نہ باقی رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مقصد کو پہنچ سکتا ہے۔

مسلمان کا حقیقی مفہوم - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

مسلمان کا حقیقی مفہوم
ہماری روز مرہ کی بول چال میں بعض ایسے الفاظ اور فقرے رائج ہیں جن کو بولتا تو ہر شخص ہے‘مگر سمجھتے بہت کم ہیں۔ کثرتِ استعمال نے ان کا ایک اجمالی مفہوم لوگوں کے ذہن نشین کر دیا ہے۔ بولنے والا جب ان الفاظ کو زبان سے نکالتا ہے تو وہی مفہوم مراد لیتا ہے، اور سننے والا جب انھیں سنتا تو اسی مفہوم کو سمجھتا ہے، لیکن وہ گہرے معانی جن کے لیے واضع نے ان الفاظ کو وضع کیا تھا‘ جہلا تو درکنار اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی معلوم نہیں ہوتے۔

مثال کے طور پر ’اسلام‘ اور ’مسلمان‘ کو لیجیے۔ کس قدرکثرت سے یہ الفاظ بولے جاتے ہیں اور کتنی ہمہ گیری کے ساتھ انھوں نے ہماری زبانوں پر قبضہ کرلیا ہے؟ مگر کتنے بولنے والے ہیں جو ان کو سوچ سمجھ کربولتے ہیں؟ اور کتنے سننے والے ہیں جو انھیں سن کر وہی مفہوم سمجھتے ہیں جس کے لیے یہ الفاظ وضع کیے گئے تھے؟ غیر مسلموں کو جانے دیجیے۔ خود مسلمانوں میں ۹۹فی صدی بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی ایسے ہیں جو اپنے آپ کو’مسلمان‘ کہتے ہیں اور اپنے مذہب کو اسلام کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ مسلمان ہونے کے معنی کیا ہیں اور لفظ ’اسلام‘ کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ آئیے آج تھوڑا سا وقت ہم انھی الفاظ کی تشریح میں صَرف کریں۔

اعتقاد اور عمل کے لحاظ سے اگر آپ لوگوں کے احوال پر نگاہ ڈالیں گے تو عموماً تین قسم کے لوگ آپ کو ملیں گے:

مسلمان کی طاقت کا اصلی منبع - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

مسلمان کی طاقت کا اصلی مبع
دوسری صدی ہجری کی ابتدا کا واقعہ ہے کہ سجستان در حج ۱؂ کے فرماں رواں نے جس کا خاندانی لقب رتبیل تھا، بنی امیہ کے عمال کو خراج دینا بند کر دیا۔ پیہم چڑھائیاں کی گئیں، مگر وہ مطیع نہ ہوا۔ یزید بن عبدالمالک اموی کے عہد میں جب اس کے پاس طلبِ خراج کے لیے سفارت بھیجی گئی تو اس نے مسلمانوں کے سفرا سے دریافت کیا:

“وہ لوگ کہاں گئے جو پہلے آیا کرتے تھے؟ ان کے پیٹ فاقہ زدوں کی طرح پٹخے ہوئے ہوتے تھے۔ پیشانیوں پر سیاہ گٹے پڑے رہتے تھے اور کھجوروں کی چپلیں پہنا کرتے تھے۔”

کہا گیا کہ وہ لوگ تو گزر گئے۔

رتبیل نے کہا:

“اگرچہ تمھاری صورتیں ان سے زیادہ شان دار ہیں‘ مگر وہ تم سے زیادہ عہد کے پابند تھے، تم سے زیادہ طاقت وَر تھے۔”

مورخ لکھتا ہے کہ یہ کہہ کر رتبیل نے خراج ادا کرنے سے انکار کر دیا اور تقریباً نصف صدی تک اسلامی حکومت سے آزاد رہا۔

یہ اس عہد کا واقعہ ہے جب تابعین و تبع تابعین کثرت سے موجود تھے۔ ائمہ مجتہدین کا زمانہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کو صرف ایک صدی گزری تھی۔ مسلمان ایک زندہ اور طاقت وَر قوم کی حیثیت سے دنیا پر چھا رہے تھے‘ ایران‘ روم‘ مصر‘ افریقہ‘ اسپین وغیرہ ممالک کے وارث ہو چکے تھے اور ساز و سامان‘ شان و شوکت‘ اور دولت و ثروت کے اعتبار سے اس وقت دنیا کی کوئی قوم ان کی ہم پلہ نہ تھی۔ یہ سب کچھ تھا۔ دلوں میں ایمان بھی تھا، احکام شریعت کی پابندی اب سے بہت زیادہ تھی‘ سمع و طاعت کا نظام قائم تھا،پوری قوم میں ایک زبردست ڈسپلن پایا جاتا تھا، مگر پھر بھی جو لوگ عہد صحابہ کے فاقہ کش، خستہ حال صحرا نشینوں سے زور آزمائی کر چکے تھے، انھوں نے ان سروسامان والوں اور ان بے سروسامانوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق محسوس کیا۔ یہ کس چیز کا فرق تھا؟

فلسفہ تاریخ والے اس کو محض بداوت و حضریت کے فرق پر محمول کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ پرانے بادیہ نشین زیادہ جفا کش تھے اور بعد کے لوگوں کو دولت اور تمدن نے عیش پسند بنا دیا تھا، مگر میں کہوں گا کہ یہ فرق دراصل ایمان‘ خلوص نیت‘ اخلاق اور اطاعت خدا اور رسولؐ کا فرق تھا۔ مسلمانوں کی اصلی قوت یہی چیزیں تھیں‘ ان کی قوت نہ کثرت تعداد پر مبنی تھی‘ نہ اسباب و آلات کی افراط پر‘ نہ مال و دولت پر‘ نہ علوم و صناعات کی مہارت پر‘ نہ تمدن و حضارت کے لوازم پر۔وہ صرف ایمان و عمل صالح کے بل پر ابھرے تھے۔ اسی چیز نے ان کو دنیا میں سربلند کیا تھا۔ اسی نے قوموں کے دلوں میں ان کی دھاک اور ساکھ بٹھا دی تھی۔ جب قوت و عزت کا یہ سرمایہ ان کے پاس تھا تو یہ قلت تعداد اور بے سروسامانی کے باوجود طاقت وَر اور معزز تھے، اور جب یہ سرمایہ ان کے پاس کم ہو گیا تو کثرت تعداد اور سروسامان کی فراوانی کے باوجود کمزور اور بے وقعت ہوتے چلے گئے۔

رتبیل نے ایک دشمن کی حیثیت سے جو کچھ کہا وہ دوستوں اور ناصحوں کے ہزار وعظوں سے زیادہ سبق آموز ہے۔ اس نے دراصل یہ حقیقت بیان کی تھی کہ کی قوم کی اصلی طاقت اس کی آراستہ فوجیں‘ اس کے آلات جنگ‘ اس کے خوش رو، خوش پوش سپاہی‘ اور اس کے وسیع ذرائع و وسائل نہیں ہیں‘ بلکہ اس کے پاکیزہ اخلاق‘ اس کی مضبوط سیرت‘ اس کے صحیح معاملات‘ اور اس کے بلند تخیلات ہیں۔ یہ طاقت وہ روحانی طاقت ہے جو مادی وسائل کے بغیر دنیا میں اپنا سکہ چلا دیتی ہے۔ خاک نشینوں کو تخت نشینوں پر غالب کر دیتی ہے۔ صرف زمینوں کا وارث ہی نہیں بلکہ دلوں کا مالک بھی بنا دیتی ہے۔ اس طاقت کے ساتھ کھجور کی چپلیاں پہننے والے‘ سوکھی ہڈیوں والے‘ بے رونق چہروں والے، چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی تلواریں رکھنے والے لوگ دنیا پر وہ رعب‘ وہ سطوت و جبروت‘ وہ قدر و منزلت، وہ اعتبار و اقتدار جما دیتے ہیں جو اس طاقت کے بغیر شان دار لباس پہننے والے‘ برے ڈیل ڈول والے‘ بارونق چہروں والے‘ اونچی بارگاہوں والے‘ بڑی بڑی منجنیقیں اور ہولناک دبابے رکھنے والے نہیں جما سکتے۔ اخلاقی طاقت کی فراوانی مادی وسائل کے فقدان کی تلافی کر دیتی ہے، مگر مادی وسائل کی فراوانی اخلاقی طاقت کے فقدان کی تلافی کبھی نہیں کرسکتی۔ اس طاقت کے بغیر محض مادی وسائل کے ساتھ اگر غلبہ نصیب ہو بھی گیا تو ناقص اور عارضی ہو گا۔ کامل اور پائدار نہ ہوگا۔ دل کبھی مسخر نہ ہوں گے۔ صرف گردنیں جھک جائیں گی، اور وہ بھی اکڑنے کے پہلے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے مستعد رہیں گی۔

کسی عمارت کا استحکام اُس کے رنگ و روغن‘ نقش و نگار‘ زینت و آرائش صحن و چمن اور ظاہری خوش نمائی سے نہیں ہوتا۔ نہ مکینوں کی کثرت‘ نہ ساز و سامان کی افراط اور اسباب و آلات کی فراوانی اس کو مضبوط بناتی ہے۔ اگر اس کی بنیادیں کمزور ہوں‘ دیواریں کھوکھلی ہوں‘ ستونوں کو گھن لگ جائے‘ کڑیاں اور تختے بوسیدہ ہو جائیں تو اس کو گرنے سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی‘ خواہ وہ مکینوں سے خوب معمور ہو‘ اور اس میں کروڑوں روپے کا مال و اسباب بھرا پڑا ہو‘ اور اس کی سجاوٹ نظروں کو لبھاتی اور دلوں کو موہ لیتی ہو۔ تم صرف ظاہر کو دیکھتے ہو۔ تمھاری نظریں مد نظر پر اٹک کر رہ جاتی ہیں۔ مگر حوادث زمانہ کا معاملہ نمائشی مظاہر سے نہیں بلکہ اندرونی حقائق سے پیش آتا ہے۔ وہ عمارت کی بنیادوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ دیواروں کی پختگی کا امتحان لیتے ہیں۔ ستونوں کی استواری کو جانچتے ہیں۔ اگرچہ یہ چیزیں مضبوط اور مستحکم ہوں تو زمانے کے حوادث ایسی عمارت سے ٹکرا کر پلٹ جائیں گے اور وہ ان پر غالب آجائے گی خواہ وہ زینت و آرائش سے یکسر محروم ہو، ورنہ حوادث کی ٹکریں آخر کار اس کو پاش پاش کرکے رہیں گی اور وہ اپنے ساتھ مکینوں اور اسبابِ زینت کو بھی لے بیٹھے گی۔

ٹھیک یہی حال حیات قومی کا بھی ہے۔ ایک قوم کو جو چیز زندہ اور طاقت وَر اور سر بلند بناتی ہے وہ اس کے مکان‘ اس کے لباس‘ اس کی سواریاں‘ اس کے اسباب عیش‘ اس کے فنونِ لطیفہ‘ اس کے کارخانے‘ اس کے کالج نہیں ہیں‘ بلکہ وہ اصول ہیں جن پر اس کی تہذیب قائم ہوتی ہے‘ اور پھر ان اصولوں کا دلوں میں راسخ ہونا اور اعمال پر حکمران بن جانا ہے۔ یہ تین چیزیں یعنی اصول کی صحت‘ ان پر پختہ ایمان اور عملی زندگی پر ان کی کامل فرماں روائی‘ حیاتِ قومی میں وہی حیثیت رکھتی ہیں جو ایک عمارت میں اس کی مستحکم بنیادوں‘ اس کی پختہ دیواروں اور اس کے مضبوط ستونوں کی ہے۔ جس قوم میں یہ تینوں چیزیں بدرجہ اتم موجود ہوں وہ دنیا پر غالب ہو کر رہے گی۔ اس کا کلمہ بلند ہوگا‘ خدا کی زمین میں اس کا سکہ چلے گا‘ دلوں میں اس کی دھاک بیٹھے گی‘ گردنیں اس کے حکم کے آگے جھک جائیں گی اور اس کی عزت ہوگی‘ خواہ وہ جھونپڑیوں میں رہتی ہو‘ پھٹے پرانے کپڑے پہنتی ہو‘ فاقوں سے اس کے پیٹ پٹخے ہوئے ہوں‘ اس کے ہاں ایک بھی کالج نہ ہو‘ اس کی بستیوں میں ایک بھی دھواں اڑانے والی چمنی نظر نہ آئے‘ اور علوم و صناعات میں وہ بالکل صفر ہو۔ تم جن چیزوں کو سامانِ ترقی سمجھ رہے ہو وہ محض عمارت کے نقش و نگار ہیں‘ اس کے قوائم و ارکان نہیں ہیں۔ کھوکھلی دیواروں پر اگر سونے کے پترے بھی چڑھا دو گے تو وہ ان کو گرنے سے نہ بچا سکیں گے۔

یہی بات ہے جس کو قرآن مجید بار بار بیان کرتا ہے۔ وہ اسلام کے اصولوں کے متعلق کہتا ہے کہ وہ اس اٹل اور غیر متغیر فطرت کے مطابق ہیں جس پر خدا نے انسان کو پیداکیا ہے۔ اس لیے جو دین ان اصولوں پر قائم کیا گیا ہے وہ دین قیم ہے۔ یعنی ایسا دین جو معاش و معاد کے جملہ معاملات کو ٹھیک ٹھیک طریقوں پر قائم کر دینے والا ہے

فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَاط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِط ذٰلِکَ الدِّیْنَ الْقَیِّمُ ق وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ (الروم۳۰۳۰)

پس (اے نبیؐ اور نبیؐ کے پیروؤ!) یک سو ہو کر اپنا رخ اِس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہوجاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

پھر وہ کہتا ہے کہ اس دین قیم پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ‘ اس پر ایمان لاؤ اور اس کے مطابق عمل کرو۔ اس کا نتیجہ خود بخود ظاہر ہوگا کہ دنیا میں تم ہی سربلند ہو گے‘ تم ہی کو زمین کا وارث بنایا جائے گا‘ تم ہی خلعتِ خلافت سے سرفراز ہوگے

۱۔ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ۔ (الانبیاء۲۱۱۰۵)

[زمین کے وارث ہمارے نیک بند ہوں گے۔]

۲۔ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ (آل عمران۳ ۱۳۹)

[تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔]

۳۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ۔ (النور۲۴۵۵)

[اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنائے گا۔]

۴۔ وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ‘ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ۔ (المائدہ۵ ۵۶)

[اور جو اللہ اور اُس کے رسولؐ اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنالے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے۔]

بخلاف اس کے جو لوگ بظاہر دین کے دائرے میں داخل ہیں‘ مگر دین نہ تو ان کے دلوں میں بیٹھا ہے اور نہ ان کی زندگی کا قانون بنا ہے‘ ان کے ظاہر تو بہت شان دار ہیں وَاِذَا رَاَیْتَھُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُھُمْ(۶۳۴) اور ان کی باتیں بہت مزیدار ہیں وَاِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِھِمْ۔(۶۴۴)،مگر حقیقت میں وہ لکڑی کے کندے ہیں جن میں جان نہیںکَاَنَّھُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ(۶۳۴) وہ خدا سے بڑھ کر انسانوں سے ڈرتے ہیں یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْاَشَدَّ خَشْیَۃً۔(۴۷۷)۔ ان کے اعمال سراب کی طرح ہیں کہ دیکھنے میں پانی نظر آئیں مگر حقیقت میں کچھ نہیں اَعْمَالُھُمْ کَسَرَابٍ بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَاءً حَتّٰی اِذَا جَاءَ ہ‘ لَمْ یَجِدْہُ شَیْءًا(۲۴ ۳۹)۔ ایسے لوگوں کو اجتماعی قوت کبھی نصیب نہیں ہوسکتی‘ کیونکہ ان کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ خلوص نیت کے ساتھ کسی کام میں اشتراک عمل نہیں کرسکتے بَاْسُھُمْ بَیْنَھُمْ شَدِیْدٌ تَحْسَبُھُمْ جَمِیْعًا وَّ قُلُوْ بُھُمْ شَتّٰی۔(۵۹۴)۔ان کو وہ قوت ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی جو صرف مومنین صالحین کا حصہ ہے۔ لَایُقَاتِلُوْ نَکُمْ جَمِیْعًا اِلاَّ فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوْمِنْ وَّرَاءِ جُدُرٍ(۵۹۱۴)۔ ان کو دنیا کی امامت کا منصب کبھی نہیں ملے گا قَالَ لَایَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ(۲۱۲۴)۔ ان کے لیے بجز اس کے اور کوئی انجام نہیں کہ دنیا میں بھی ذلت و خواری اور آخرت میں بھی عذاب و عقاب لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَھُمْ فِی الْآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (۲۱۱۴)

آپ تعجب کریں گے کہ قرآن نے مسلمانوں کی ترقی اور ان کے ایک حکمراں جماعت بننے اور سب پر غالب آجانے کا ذریعہ صرف ایمان و عمل صالح کو قرار دیا، اور کہیں یہ نہیں کہا کہ تم یونی ورسٹیاں بناؤ‘ کالج کھولو‘ کارخانے قائم کرو‘ جہاز بناؤ‘ کمپنیاں قائم کرو‘ بینک کھولو‘ سائنس کے آلات ایجاد کرو‘ اور لباس‘ معاشرت‘ انداز و اطوار میں ترقی یافتہ قوموں کی نقل کرو۔ نیز اس نے تنزل و انحطاط اور دنیا و آخرت کی ذلت اوررسوائی کا واحد سبب بھی نفاق کو ٹھہرایا، نہ کہ ان اسباب کے فقدان کو جنھیں آج کل دنیا اسباب ترقی سمجھتی ہے،لیکن اگر آپ قرآن کی اسپرٹ کو سمجھ لیں تو آپ کا یہ تعجب خود رفع ہو جائے گا۔

سب سے پہلی بات جس کا سمجھنا ضروری ہے یہ ہے کہ ’مسلمان‘ جس شے کا نام ہے اس کا قوام بجز اسلام کے اور کوئی چیز نہیں ہے۔ مسلم ہونے کی حیثیت سے اس کی حقیقت صرف اسلام سے متحقق ہوتی ہے۔ اگر وہ اس پیغام پر ایمان رکھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور ان قوانین کا اتباع کرے جن کو آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے نازل کیا گیا ہے‘ تو اس کا اسلام متحقق ہو جائے گا خواہ ان چیزوں میں کوئی چیز اس کے ساتھ شامل نہ ہو جو اسلام کے ماسوا ہیں۔ بخلاف اس کے اگر وہ ان تمام زیوروں سے آراستہ ہو جو زینتِ حیاتِ دنیا کے قبیل سے ہیں، مگر ایمان اس کے دل میں نہ ہو اور قوانین اسلامی کے اتباع سے اس کی زندگی خالی ہو تو وہ گریجویٹ ہوسکتا ہے‘ ڈاکٹر ہوسکتا ہے‘ کارخانہ دار ہوسکتا ہے‘ بینکر ہو سکتا ہے‘ جنرل یا امیر البحر ہوسکتا ہے‘ مگر مسلمان نہیں ہوسکتا۔ پس کوئی ترقی کسی مسلمان شخص یا قوم کی ترقی نہ ہوگی جب تک کہ سب چیزوں سے پہلے اس شخص یا قوم میں حقیقت اسلامی متحقق نہ ہو جائے۔ اس کے بغیر وہ ترقی خواہ کسی اورکی ترقی ہو مسلمان کی ترقی نہ ہوگی‘ اور ایسی ترقی ظاہر ہے کہ اسلام کا نصب العین نہیں ہوسکتی۔

پھر ایک بات تو یہ ہے کہ کوئی قوم سرے سے مسلمان نہ ہو‘ اور اس کے افکار و اخلاق اور نظامِ اجتماعی کی اساس اسلام کے سوا کسی اورچیز پر ہو۔ ایسی قوم کے لیے بلاشبہ یہ ممکن ہے کہ یہ ان اخلاقی‘ سیاسی‘ معاشی اور عمرانی اصولوں پر کھڑی ہوسکے جو اسلام سے مختلف ہیں‘ اور اس ترقی کے منتہیٰ کو پہنچ جائے جس کو وہ اپنے نقطہ نظر سے ترقی سمجھتی ہو، لیکن یہ بالکل ایک امر دیگر ہے کہ کسی قوم کے افکار‘ اخلاق‘ تمدن‘ معاشرت‘ معیشت اور سیاست کی بنیاد اسلام پر ہو‘ اور اسلام ہی میں وہ عقیدے اور عمل دونوں کے لحاظ سے ضعیف ہو۔ ایسی قوم مادی ترقی کے وسائل خواہ کتنی ہی کثرت اور فراوانی کے ساتھ مہیا کرلے‘ اس کا ایک مضبوط اور طاقت وَر قوم کی حیثیت سے اٹھنا اور دنیا میں سربلند ہونا قطعاً غیر ممکن ہے کیونکہ اس کی قومیت اور اس کے اخلاق اور تہذیب کی اساس جس چیز پر ہے‘ وہی کمزور ہے اور اساس کی کمزوری ایسی کمزوری ہے جس کی تلافی محض اوپری زینت کے سامان کبھی نہیں کرسکتے۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علوم و فنون اور مادی ترقی کے وسائل کی جائز اہمیت سے انکار ہے۔ مطلب صرف یہ ہے کہ مسلمان قوم کے لیے یہ تمام چیزیں ثانوی درجے پر ہیں۔ اساس کا استحکام ان سب پر مُقدّم ہے۔ وہ جب مستحکم ہو جائے تو مادی ترقی کے وہ تمام وسائل اختیار کیے جاسکتے ہیں اور کیے جانے چاہییں جو اس بنیاد کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں لیکن اگر وہی مضمحل ہو‘ دل میں اسی کی جڑیں کمزور ہوں اور زندگی پر اس کی گرفت ڈھیلی ہو‘ تو انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے قوم کے اخلاق کا فاسد ہونا سیرتوں کا بگڑ جانا‘ معاملات کا خراب ہو جانا‘ نظام اجتماعی کا سست ہونا اور قوتوں کا پراگندہ ہو جانا ناگزیر ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوسکتا ہے کہ قوم کی طاقت کمزور ہو جائے اور بین الملی قوتوں کے ترازو میں اس کا پلڑا روز بروز ہلکا ہوتا چلا جائے یہاں تک کہ دوسری قومیں اس پر غالب آجائیں۔ ایسی حالت میں مادی اسباب کی فراوانی اور سند یافتہ فضلا کی افراط اور خارجی زیب و زینت کی چمک دمک کسی کام نہیں آسکتی۔

ان سب سے بڑھ کر ایک اور بات بھی ہے۔ قرآن حکیم نہایت وثوق کے ساتھ کہتا ہے کہ

تم ہی سربلند ہوگے اگر تم مومن ہو، اور اللہ کی پارٹی والے ہی غالب ہوں گے اور جو لوگ ایمان اور عمل صالح سے آراستہ ہوں گے ان کو زمین کی خلافت ضرور ملے گی‘‘۔(۳۱۳۹۔۵۵۶۔۲۴۵۵)

اس وثوق کی بنیاد کیا ہے؟ کس بنا پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دوسری قومیں خواہ کیسے ہی مادی وسائل کی مالک ہوں ان پر مسلمان صرف ایمان اورعمل صالح کے اسلحے سے غالب آئیں گے؟

اس عقدے کو خود قرآن حل کرتا ہے:

۱۔ یَٰاَیُّھَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہ‘ط اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہ‘ط وَاِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَیْءًا لاَّ یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ط ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُo مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖط اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ (الحج۔۲۲۷۳۔۷۴)

[لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے۔ اس کو غور سے سنو۔ خدا کو چھوڑ کر تم جن چیزوں کو پکارتے ہو، وہ ایک مکھی تک کو پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں اگرچہ وہ سب اس کام کے لیے مل کر زور لگائیں اور اگر ایک مکھی اُن سے کوئی چیز چھین لے تو اس سے وہ چیز چھڑا لینے کی قدرت بھی ان میں نہیں۔ مطلوب بھی ضعیف اور اس کا طالب بھی ضعیف۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسی کرنی چاہیے تھی حالانکہ درحقیقت اللہ ہی قدرت اورعزت والا ہے۔]

۲۔ مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِج اِتَّخَذَتْ بَیْتًاط وَاِنَّ اَوْھَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِ۔ (العنکبوت۲۹۴۱)

[جن لوگوں نے خدا کے سوا دوسروں کو کار ساز ٹھہرایا‘ ان کی مثال ایسی ہے جیسے مکڑی کہ وہ گھر بناتی ہے حالانکہ سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا گھرہے۔]

مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مادی طاقتوں پر اعتماد کرتے ہیں‘ ان کا اعتماد دراصل ایسی چیزوں پر ہے جو بذاتِ خود کسی قسم کی بھی قوت نہیں رکھتیں۔ ایسے بے زوروں پر اعتماد کرنے کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی ویسے ہی بے زور ہو جاتے ہیں جیسے ان کے سہارے بے زور ہیں۔ وہ اپنے نزدیک جو مستحکم قلعے بناتے ہیں وہ مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہیں۔ ان میں کبھی یہ طاقت ہو ہی نہیں سکتی کہ ان لوگوں کے مقابلے میں سر اٹھا سکیں جو حقیقی قدر و عزت رکھنے والے خدا پر اعتماد کرکے اٹھیں

فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوْثْقٰیق لَاانْفِصَامَ لَھَا۔ (البقرہ۲ ۲۵۶)

[جوطاغوت کو چھوڑ کر اللہ پر ایمان لے آیا اس نے مضبوط رسی تھام لی جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے۔]

قرآن دعوے کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ جب کبھی اہل ایمان اور اہل کفر کا مقابلہ ہوگا تو غلبہ اہلِ ایمان کو حاصل ہوگا:

۱۔ وَلَوْ قٰتَلَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَایَجِدُوْنَ وَلِیَّا وَّ لَا نَصِیْرًا o سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً۔(الفتح۴۸ ۲۲۔۲۳)

[اور اگر وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ہے تم سے جنگ کریں گے تو ضرور پیٹھ پھیر جائیں گے اور کوئی یارومددگار نہ پائیں گے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے اور تم کبھی اللہ کی سنت میں تغیر نہ پاؤ گے۔]

۲۔ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا۔ (آل عمران۳۱۵۱)

[ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے کیونکہ انھوں نے خدائی میں اُن چیزوں کو شریک کرلیا ہے جن کو خدا نے کوئی تمکن نہیں بخشا ہے۔]

اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص خدا کی طرف سے لڑتا ہے اس کے ساتھ خدائی طاقت ہوتی ہے اور جس کے ساتھ خدائی طاقت ہو اُس کے مقابلے میں کسی کا زور چل ہی نہیں سکتا۔

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰی لَھُمْ۔ (محمد۴۷۱۱)

وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ج (الانفال۸۱۷)

[یہ اس لیے کہ ایمان داروں کا مددگار تو اللہ ہے اور کافروں کا مددگار کوئی نہیں۔ جب تو نے تیر پھینکا تو وہ تو نے نہیں پھینکا بلکہ خدا نے پھینکا۔]

یہ تو مومن صالح کی سطوت کا حال ہے۔ دوسری طرف یہ بھی خدا کا قانون ہے کہ جو شخص ایمان دار ہوتا ہے‘ جس کی سیرت پاکیزہ ہوتی ہے، جس کے اعمال نفسانیت کی آلودگیوں سے پاک ہوتے ہیں‘ جو ہوائے نفس اور اغراضِ نفسانی کے بجائے خدا کے مقرر کیے ہوئے قانون کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے‘ اس کی محبت دلوں میں بیٹھ جاتی ہے‘ دل آپ ہی آپ اس کی طرف کھنچنے لگتے ہیں‘ نگاہیں اس کی طرف احترام سے اٹھتی ہیں، معاملات میں اس پر اعتماد کیا جاتا ہے‘ دوست تو دوست دشمن تک اُس کو صادق سمجھتے ہیں اور اس کے عدل‘ اُس کی عفت اور اس کی وفا شعاری پر بھروسہ کرتے ہیں

۱۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۔(مریم۱۹ ۹۶)

[جو لوگ ایمان لے آئے اور جنھوں نے نیک عمل کیے‘ اللہ ان کی محبت دلوں میں ڈال دے گا۔]

۲۔ یُثَبِتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ۔ (ابراہیم۱۴۲۷)

[ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کے ساتھ جما دیتا ہے‘ دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔]

۳۔ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ‘ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ (النحل۱۶ ۹۷)

[جو کوئی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور اس کے ساتھ وہ مومن بھی ہو تو ہم ضرور اس کو بہترین زندگی بسر کرائیں گے اور ان بہترین اعمال کا اجر دیں گے جو وہ کرتے رہے۔]

مگر یہ سب کس چیز کے نتائج ہیں؟ محض زبان سے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہنے کے نہیں‘ مسلمانوں کے سے نام رکھ لینے اور معاشرت کے چند مخصوص اطوار اختیار کرنے اور چند گنی چنی رسمیات ادا کرلینے کے نہیں۔ قرآن حکیم ان نتائج کے ظہور کے لیے ایمان اور عمل صالح کی شرط لگاتا ہے۔ اس کا منشا یہ ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کی حقیقت تمھارے قلب و روح میں اس قدر جاگزیں ہوجائے کہ تمھارے تخیلات و افکاراور اخلاق و معاملات سب پر اسی کا غلبہ ہو‘ تمھاری ساری زندگی اسی کلمہ طیبہ کے معنوی قالب میں ڈھل جائے‘ تمھارے ذہن میں کوئی ایسا خیال راہ نہ پاسکے جو اس کلمے کے معنی سے مختلف ہو اور تم سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جو اس کلمے کے مقتضی کے خلاف ہو۔ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہْ کو زبان سے ادا کرنے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ تمھاری زندگی میں اس کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو جائے۔ تمھاری رگ رگ میں تقویٰ کی روح سرایت کر جائے۔ اللہ کے سوا تمھاری گردن کسی طاقت کے آگے نہ جھکے۔ اللہ کے سوا تمھارا ہاتھ کسی کے آگے نہ پھیلے۔ اللہ کے سوا کسی کا خوف تمھارے دل میں نہ رہے۔ تمھاری محبت اور تمھارا بغض اللہ کے سوا کسی اور کے لیے نہ ہو۔ اللہ کے قانون کے سوا تمھاری زندگی پرکسی اور کا قانون نافذ نہ ہو۔ تم اپنے نفس اور اس کی ساری خواہشوں اور اس کے تمام مرغوبات و محبوبات کو اللہ کی خوشنودی پر قربان کر دینے کے لیے ہر وقت تیار رہو۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے مقابلے میں تمھارے پاس سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ]ہم نے سنا اور اطاعت کی[ کے سوا کوئی اور قول و فعل نہ ہو۔ جب ایسا ہوگا تو تمھاری قوت صرف تمھارے اپنے نفس اور جسم کی قوت نہ ہو گی، بلکہ اُس اَحکَمُ الْحَاکَمِیْن کی قوت ہوگی جس کے آگے زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً و کرہاً سربسجود ہے اور تمھاری ذات اس نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کے جلووں سے منور ہو جائے گی جو تمام عالم کا حقیقی محبوب و معشوق ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عہد میں یہی چیز مسلمانوں کو حاصل تھی۔ پھر اس کا نتیجہ جو کچھ ہوا‘ تاریخ کے اوراق اس پر شاہد ہیں۔ اس زمانے میں جس نے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہکہا اس کی کایا پلٹ گئی۔ مس خام سے یکایک وہ کندن بن گیا۔ اس کی ذات میں ایسی کشش پیدا ہوئی کہ دل اس کی طرف کھینچنے لگے۔ اس پر جس کی نظر پڑتی وہ محسوس کرتا کہ گویا تقویٰ اور پاکیزگی اور صداقت کو مجسم دیکھ رہا ہے۔ وہ ان پڑھ‘ مفلس‘ فاقہ کش‘ پشمینہ پوش اور بوریا نشین ہوتا‘ مگر پھر بھی اس کی ہیبت دلوں میں ایسی بیٹھتی کہ بڑے بڑے شان و شوکت والے فرماں رواؤں کو نصیب نہ تھی۔ ایک مسلمان کا وجود گویا ایک چراغ تھا کہ جدھر وہ جاتا اس کی روشنی اطراف و اکناف میں پھیل جاتی اور اس چراغ سے سیکڑوں ہزاروں چراغ روشن ہو جاتے۔ پھر جو اس روشنی کو قبول نہ کرتا اور اس سے ٹکرانے کی جرأت کرتا تو اس کو جلانے اور فنا کر دینے کی قوت بھی اس میں موجود تھی۔

ایسی ہی قوت ایمانی اور طاقت و سیرت رکھنے والے مسلمان تھے کہ جب وہ ساڑھے تین سو سے زیادہ نہ تھے تو انھوں نے تمام عرب کو مقابلے کا چیلنج دے دیا، اور جب وہ چند لاکھ کی تعداد کو پہنچے تو ساری دنیا کو مسخر کرلینے کے عزم سے اٹھ کھڑے ہوئے اور جو قوت ان کے مقابلے پر آئی پاش پاش ہوگئی۔

جیسا کہ کہا جاچکا ہے مسلمانوں کی اصلی طاقت یہی ایمان اور سیرت صالحہ کی طاقت ہے جو صرف ایک لا الہ الا اللہ کی حقیقت دل میں بیٹھ جانے سے حاصل ہوتی ہے، لیکن اگر یہ حقیقت دل میں جاگزیں نہ ہو‘ محض زبان پر یہ الفاظ جاری ہوں مگر ذہنیت اور عملی زندگی میں کوئی انقلاب برپا نہ ہو‘ لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی انسان وہی کا وہی رہے جو اس سے پہلے تھا اور اس میں اور لاالہ الا اللہ کا انکار کرنے والوں میں اخلاقی و عملی حیثیت سے کوئی فرق نہ ہو‘ وہ بھی انھی کی طرح غیراللہ کے آگے گردن جھکائے اور ہاتھ پھیلائے‘ انھی کی طرح غیر اللہ سے ڈرے اور غیر خدا کی رضا چاہے اور غیر خدا کی محبت میں گرفتار ہو‘ انھی کی طرح ہوائے نفس کا بندہ ہو اور قانون الٰہی کو چھوڑ کر انسانی قوانین‘ یا اپنے نفس کی خواہشات کا اتباع کرے‘ اس کے خیالات اور ارادوں اور نیتوں میں بھی وہی گندگی ہو جو ایک غیر مومن کے خیالات‘ ارادات اور نیات میں ہوسکتی ہے اور اس کے اقوال و افعال و معاملات بھی ویسے ہی ہوں جیسے ایک غیر مومن کے ہوتے ہیں تو پھر مسلمان کو نا مسلمان پر فوقیت کس بنا پر ہو؟ اورروح ایمان اور روح تقویٰ نہ ہونے کی صورت میں ایک مسلمان ویسا ہی ایک بشر تو ہے جیسا ایک نامسلمان ہے۔ اس کے بعد مسلم اور غیر مسلم کا مقابلہ صرف جسمانی طاقت اور مادی وسائل ہی کے اعتبار سے ہوگا‘ اور اس مقابلے میں جو طاقت وَر ہوگا وہ کمزور پر غالب آجائے گا۔

ان دونوں حالتوں کا فرق تاریخ کے صفحات میں اتنا نمایاں ہے کہ ایک نظر میں دیکھا جاسکتا ہے، یا تو مٹھی بھر مسلمانوں نے بڑی بڑی حکومتوں کے تختے الٹ دیے تھے اور اٹک کے کنارے سے لے کر اٹلانٹک کے سواحل تک اسلام پھیلا دیا تھا، یا اَب کروڑوں مسلمان دنیا میں موجود ہیں اور غیر مسلم طاقتوں سے دبے ہوئے ہیں۔ جن آبادیوں میں کروڑوں مسلمان بستے ہیں اور ان کو بستے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں وہاں اب بھی کفر و شرک موجود ہے۔

(ترجمان القرآن، شوال ۱۳۵۳ھ۔ جنوری ۱۹۳۴ء)


کیش مرداں نہ کہ مذہب گوسفنداں - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

کیش مرداں نہ کہ مذہب گو سفنداں
مسئلہ سود پر میرے مضامین کو دیکھ کر ایک خیال کا بار بار اظہارکیا گیا ہے کہ ’’موجودہ زمانے میں سرمایہ داری نظام‘ سیاسی طاقت کے ساتھ ہمارے گرد و پیش کی پوری معاشی دنیا پر مسلط ہو چکا ہے۔ معیشت کی گاڑی اصول سرمایہ داری کے پہیوں پر چل رہی ہے‘ سرمایہ دار ہی اس کو چلا رہے اور وہی قومیں اس کے ذریعے سے منزلِ ترقی کی طرف بڑھ رہی ہیں جن کے لیے پیدایشِ دولت اور صَرفِ دولت کے باب میں کوئی مذہبی یا اخلاقی قیدنہیں ہے۔ دوسری طرف ہماری اجتماعی قوت منتشر ہے۔ دنیا کے نظم معیشت کو بدلنا تو درکنار ہم خود اپنی قوم میں بھی اسلامی نظمِ معیشت کو از سر نو قائم کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اب اگر ہماری مذہبی قیود ہم کو زمانے کے چلتے ہوئے نظام معاشی میں پورا پورا حصہ لینے سے روک دیں تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ ہماری قوم معاشی ترقی و خوش حالی کے ذرائع سے فائدہ اٹھانے میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائے گی۔ ہم مفلس ہوتے جائیں گے اور ہمسایہ قومیں دولت مند ہوتی چلی جائیں گی۔ پھر ہماری یہ معاشی کمزوری ہم کو سیاسی‘ اخلاقی اور تمدنی حیثیت سے بھی ذلیل اور پست کرے گی۔ یہ محض وہم اور اندیشہ نہیں ہے بلکہ واقعات کی دنیا میں یہی نتیجہ ہم کونظر آرہا ہے‘ برسوں سے نظر آرہا ہے‘ اور مستقبل میں ہمارا جو کچھ انجام ہونے والا ہے اس کے آثار کچھ ایسے دھندلے نہیں ہیں کہ ان کو نہ دیکھا جاسکتا ہو۔ پس ہم کو محض شریعت کا قانون بتانے سے کیا فائدہ؟ اسلام کے معاشی اصول بیان کرنے سے کیا حاصل؟ ہم کو یہ بتاؤ کہ ان حالات میں اسلامی قانون کی پابندی کے ساتھ ہمارے لیے اپنی معاشی حالت کو سنبھالنے اور ترقی کی منزلیں طے کرنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟ اگر نہیں ہے تو دو صورتوں میں سے ایک صورت یقیناًپیش آئے گی

۱۔ یا تو مسلمان بالکل تباہ ہو جائیں گے۔

۲۔ یا پھر وہ بھی دوسری قوموں کی طرح مجبور ہوں گے کہ ایسے تمام قوانین کی پابندی سے آزاد ہو جائیں جو زمانے کا ساتھ نہیں دے سکتے۔

یہ سوال صرف مسئلہ سود ہی تک محدود نہیں ہے۔ دراصل اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اگر زندگی کے تمام شعبوں میں سے محض معیشت ہی کا شعبہ ایسا ہوتا جس پر ایک غیر اسلامی نظام مسلط ہوگیا ہوتا تو شاید معاملہ نسبتاً بہت ہلکا ہوتا، مگر واقعات کی شہادت کچھ اور ہے۔ اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نظر ڈالیے۔ خود اپنے حالات کا جائزہ لے کر دیکھیے۔ زندگی کا کون سا شعبہ ایسا پایا جاتا ہے جس پر غیر اسلام کا تسلط نہیں ہے؟کیا اعتقادات اور افکار و تخیلات پر الحاد و دہریت یا کم از کم شک و ریب کا غلبہ نہیں؟ کیا تعلیم پر ناخدا شناسی کی حکومت نہیں؟ کیا تمدن و تہذیب پر فرنگیت کا استیلا نہیں؟ کیا معاشرت کی جڑوں تک میں مغربیت اتر نہیں گئی ہے؟ کیا اخلاق اس کے غلبے سے محفوظ ہیں؟ کیا معاملات اس کے تسلط سے آزاد ہیں؟ کیا قانون اور سیاست اور حکومت کے اصول و فروع نظریات اور عملیات میں سے کوئی چیز بھی اس کے اثر سے پاک ہے؟

جب حال یہ ہے تو آپ اپنے سوال کو معیشت اور اس کے بھی صرف ایک پہلو تک کیوں محدود رکھتے ہیں؟ اس کو وسیع کیجیے، پوری زندگی پر پھیلا دیجیے۔ یوں کہیے کہ زندگی کے دریا نے اپنا رخ بدل دیا ہے۔ پہلے وہ اس راستے پر بہہ رہا تھا جو اسلام کا راستہ تھا، اب وہ اس راستے پر بہہ رہا ہے جو غیر اسلام کا راستہ ہے۔ ہم اس کے رخ کو بدلنے کی قوت نہیں رکھتے۔ ہم میں اتنی قوت بھی نہیں کہ اس کی رو کے خلاف تیر سکیں۔ ہم کو ٹھہرنے میں بھی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ اب ہمیں کوئی ایسی صورت بتاؤ کہ ہم مسلمان بھی رہیں اور اس دریا کے بہاؤ پر اپنی کشتی کو چھوڑ بھی دیں‘ عازمِ کعبہ بھی رہیں اور اس قافلے کا ساتھ بھی نہ چھوڑیں جو ترکستان کی طرف جا رہا ہے۔ ہم اپنے خیالات‘ نظریات‘ مقاصدِ اصول حیات اور مناہج عمل میں نا مسلمان بھی ہوں اور پھر مسلمان بھی ہوں۔ اگر ان اضداد کو جمع کرنے کی کوئی صورت تم نے نہ نکالی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تم ہم اسی دریا کے ساحل پر مر رہیں گے‘ یا پھر یہ اسلام کا لیبل جو ہماری کشتی پرلگا ہوا ہے ایک دن کھرچ ڈالا جائے گا اور یہ کشتی بھی دوسری کشتیوں کے ساتھ دریا کے دھارے پر بہتی نظر آئے گی۔

ہمارے روشن خیال اور ’تجدد پسند‘ حضرات جب کسی مسئلے پر گفتگو فرماتے ہیں تو ان کی آخری حجت‘ جو اِن کے نزدیک سب سے قوی حجت ہے‘ یہ ہوتی ہے کہ زمانے کا رنگ یہی ہے‘ ہوا کا رخ اسی طرف ہے‘ دنیا میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پھر ہم اس کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں اور مخالفت کرکے زندہ کیسے رہ سکتے ہیں۔اخلاق کا سوال ہو، وہ کہیں گے کہ دنیا کا معیارِ اخلاق بدل چکا ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ مسلمان اس پرانے معیارِ اخلاق پر کیسے قائم رہیں؟ پردے پر بحث ہو، ارشاد ہوگا کہ دنیا سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ مراد یہ ہوئی کہ جو چیز دنیا سے اٹھ چکی ہے اس کو مسلمان کیسے نہ اٹھائیں۔ تعلیم پر گفتگو ہو، ان کی آخری دلیل یہ ہوگی کہ دنیا میں اسلامی تعلیم کی مانگ ہی نہیں۔ مدّعا یہ کھلا کہ مسلمان بچے وہ جنس بن کر کیسے نکلیں جس کی مانگ نہیں ہے اور وہ مال کیوں نہ بنیں جس کی مانگ ہے۔ سود پر تقریر ہو، ٹیپ کا بند یہ ہو گا کہ اب دنیا کاکام اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ گویا مسلمان کسی ایسی چیز سے احتراز کیسے کرسکتے ہیں جو اب دنیا کاکام چلانے کے لیے ضروری ہوگئی ہے۔ غرض یہ کہ تمدن‘ معاشرت‘ اخلاق‘ تعلیم‘ معیشت‘ قانون‘ سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں سے جس شعبے میں بھی وہ اصولِ اسلام سے ہٹ کر فرنگیت کا اتباع کرنا چاہتے ہیں‘ اس کے لیے زمانے کا رنگ اور ہوا کا رخ اور دنیا کی رفتار وہ آخری حجت ہوتی ہے جو اس تقلیدِ مغربی یادرحقیقت اس جزوی ارتداد کے جواز پر برہان قاطع سمجھ کر پیش کی جاتی ہے‘ اور خیال کیا جاتا ہے کہ عمارتِ اسلامی کے اجزا میں سے ہر اس جز کو ساقط کر دینا فرض ہے جس پر اس دلیل سے حملہ کیا جائے۔

ہم کہتے ہیں کہ شکست و ریخت کی یہ تجویزیں جن کو متفرق طور پر پیش کرتے ہو‘ ان سب کو ملا کر ایک جامع تجویز کیوں نہیں بنا لیتے؟ مکان کی ایک ایک دیوار، ایک ایک کمرے اور ایک ایک دالان کو گرانے کی علیحدہ علیحدہ تجویزیں پیش کرنے‘ اور ہر ایک پر فردًافردًابحث کرنے میں فضول وقت ضائع ہوتا ہے۔ کیوں نہیں کہتے کہ یہ پورا مکان گرا دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا رنگ زمانے کے رنگ سے مختلف ہے‘ اس کا رخ ہوا کے رخ سے پھرا ہوا ہے اور اس کی وضع اُن مکانوں سے کسی طرح نہیں ملتی جو اَب دنیا میں بن رہے ہیں۔

جن لوگوں کے حقیقی خیالات یہی ہیں اُن سے تو بحث کرنا فضول ہے۔ ان کے لیے تو صاف اور سیدھا سا جواب یہی ہے کہ اس مکان کو گرانے اور اس کی جگہ دوسرا مکان بنانے کی زحمت آپ کیوں اٹھاتے ہیں؟ جو دوسرا خوش وضع‘ خوش نما‘ خوش رنگ مکان آپ کو پسند آئے اس میں تشریف لے جائیے۔ اگر دریا کے دھارے پر بہنے کا شوق ہے تو اس کشتی کا لیبل کھرچنے کی تکلیف بھی کیوں اٹھائیے؟ جو کشتیاں پہلے سے بہہ رہی ہیں انھی میں سے کسی میں نقل مقام فرما لیجیے۔ جو لوگ اپنے خیالات‘ اپنے اخلاق‘ اپنی معاشرت‘ اپنی معیشت‘ اپنی تعلیم‘ غرض اپنی کسی چیز میں بھی مسلمان نہیں ہیں اور مسلمان رہنا نہیں چاہتے اُن کے برائے نام مسلمان رہنے سے اسلام کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے۔ وہ خدا پرست نہیں‘ ہوا پرست ہیں۔اگر دنیا میں بت پرستی کا غلبہ ہو جائے تو یقیناًوہ بتوں کو پوجیں گے۔ اگر دنیا میں برہنگی کا رواج عام ہو جائے تو یقیناًوہ اپنے کپڑے اتار پھینکیں گے۔ اگر دنیا نجاستیں کھانے لگے تو یقیناًوہ کہیں گے کہ نجاست ہی پاکیزگی ہے اور پاکیزگی تو سراسر نجاست ہے۔ ان کے دل اور دماغ غلام ہیں اور غلامی ہی کے لیے گھڑے گئے ہیں۔ آج فرنگیت کا غلبہ ہے‘ اس لیے اپنے باطن سے لے کر ظاہر کے ایک ایک گوشے تک وہ فرنگی بننا چاہتے ہیں۔ کل اگر حبشیوں کا غلبہ ہو جائے تو یقیناًوہ حبشی بنیں گے۔ اپنے چہروں پر سیاہیاں پھیریں گے‘ اپنے ہونٹ موٹے کریں گے‘ اپنے بالوں میں حبشیوں کے سے گھونگھر پیدا کریں گے‘ ہر اس شے کی پوجا کرنے لگیں گے جو حبش سے ان کو پہنچے گی۔ ایسے غلاموں کی اسلام کو قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ بخدا اگر کروڑوں کی مردم شماری میں سے ان سب منافقوں اور غلام فطرت لوگوں کے نام کٹ جائیں اور دنیا میں صرف چند ہزار وہ مسلمان رہ جائیں جن کی تعریف یہ ہو کہ

یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ‘ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاءِمٍ۔ (المائدہ۵۵۴)

[وہ اللہ کے محبوب ہوں اور اللہ ان کا محبوب ہو‘ مسلمانوں کے لیے نرم اور کافروں پر سخت ہوں‘ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہوں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا انھیں خوف نہ ہو۔]

تو اسلام اب سے بدرجہا زیادہ طاقت وَر ہوگا اور ان کروڑوں کا نکل جانا اس کے حق میں ایسا ہوگا جیسے کسی مریض کے جسم سے پیپ اور کچ لہو نکل جائے۔

نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآءِرَۃٌ۔ (المائدہ۵۵۲

[ہم کو خوف ہے کہ ہم پر مصیبت آجائے گی۔]

یہ آج کوئی نئی آواز نہیں ہے۔ بہت پرانی آواز ہے جو منافقوں کی زبان سے بلند ہوتی رہی ہے۔ یہی آواز نفاق کی اس بیماری کا پتہ دیتی ہے جو دلوں میں چھپی ہوئی ہے۔ اسی آواز کو بلند کرنے والے ہمیشہ مخالفین اسلام کے کیمپ کی طرف لپکتے رہے ہیں۔ ہمیشہ سے انھوں نے اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کو پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق ہی سمجھا ہے۔ ہمیشہ سے ان کو احکام خدا و رسولؐ کا اتباع گراں ہی گزرتا رہا ہے۔ اطاعت میں جان و مال کا زیاں اور نافرمانی میں حیاتِ دنیا کی ساری کامرانیاں ہمیشہ سے ان کو نظر آتی رہی ہیں۔ پس ان کی خاطر خدا کی شریعت کو نہ ابتدا میں بدلا گیا تھا‘ نہ اب بدلا جاسکتا ہے‘اور نہ کبھی بدلاجائے گا۔ یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے، نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے‘ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک‘ اور پانی کے بہاؤ پر پہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ اُن بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہوں‘ جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاؤ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہوں‘ جو صبغۃ اللّٰہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہاؤ پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینش کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس راستے پر رواں کر دے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست ہے‘ صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رخ اس راستے سے پھیر دیا ہے تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے کے لیے راضی ہو جائے۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے‘ وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا‘ اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صَرف کر دے گا‘ کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پروا نہ ہوگی‘ وہ ہر اس نقصان کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو‘ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں، اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہو جائیں‘ اور پانی کی موجیں اس کو نیم جاں کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں‘ تب بھی اس کی روح ہرگز شکست نہ کھائے گی‘ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔

قرآن تمھارے سامنے ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں تمھارے سامنے ہیں۔ ابتدا سے لے کر آج تک کے علم بردار ان اسلام کی زندگیاں تمھارے سامنے ہیں۔ کیا ان سب سے تم کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہوا جدھر اڑائے ادھر اڑ جاؤ؟ پانی جدھر بہائے ادھر بہہ جاؤ؟ زمانہ جو رنگ اختیار کرے اسی رنگ میں رنگ جاؤ؟ اگر مدعا یہی ہوتا تو کسی کتاب کے نزول اور کسی نبی ؑ کی بعثت کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ہوا کی موجیں تمھاری ہدایت کے لیے اور حیاتِ دنیا کا بہاؤ تمھاری رہنمائی کے لیے اور زمانے کی نیرنگیاں تمھیں گرگٹ کی روش سکھانے کے لیے کافی تھیں۔ خدا نے کوئی کتاب ایسی ناپاک تعلیم دینے کے لیے نہیں بھیجی اور نہ اس غرض کے لیے کوئی نبی مبعوث کیا۔ اس ذات حق کی طرف سے تو جو پیغام بھی آیا ہے اس لیے آیا ہے کہ دنیا جن غلط راستوں پر چل رہی ہے ان سب کو چھوڑ کر ایک سیدھا راستہ مقرر کرے‘ اس کے خلاف جتنے راستے ہوں ان کو مٹائے‘ اوردنیا کو ان سے ہٹانے کی کوشش کرے‘ ایمان داروں کی ایک جماعت بنائے جو نہ صرف خود اس سیدھے راستے پر چلیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کریں۔ انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین نے ہمیشہ اسی غرض کے لیے جہاد کیا ہے۔ اس جہاد میں اذیتیں اٹھائی ہیں۔ نقصان برداشت کیے ہیں اور جانیں دی ہیں۔ ان میں سے کسی نے مصائب کے خوف یا منافع کے لالچ سے رفتار زمانہ کو کبھی اپنا مقتدا نہیں بنایا۔ اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ہدایتِ آسمانی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں نقصان اورمشکلات اور خطرات دیکھتا ہے اور ان سے خوف زدہ ہو کر کسی ایسے راستے پر جانا چاہتا ہے جس پر چلنے والے اس کو خوشحال‘ کامیاب اور سربلند نظر آتے ہیں‘ تو وہ شوق سے اپنے پسندیدہ راستے پر جائے، مگر وہ بزدل اور حریص انسان اپنے نفس کو اور دنیا کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب اور اس کے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کربھی اس کا پیرو ہے؟ نافرمانی خود ایک بڑا جرم ہے۔ اس پر جھوٹ اور فریب اور منافقت کا اضافہ کرکے آخر کیا فائدہ اٹھانا مقصود ہے؟

یہ خیال کہ زندگی کا دریا جس رخ بہہ گیا ہے اس سے وہ پھیرا نہیں جاسکتا عقلاً بھی غلط ہے اور تجربہ و مشاہدہ بھی اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ دنیا میں ایک نہیں سیکڑوں انقلاب ہوئے ہیں اور ہر انقلاب نے اس دریا کے رخ کو بدلا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال خود اسلام ہی میں موجود ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا یہ دریا کس رخ پر بہہ رہا تھا؟ کیا تمام دنیا پر کفر و شرکت کا غلبہ نہ تھا؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغ دار نہ بنا رکھا تھا؟ کیا اخلاق پر فواحش‘ معاشرت پر نفس پرستی‘ معیشت پر ظالمانہ جاگیرداری و سرمایہ داری‘ اور قانون پر بے اعتدالی کا تسلط نہ تھا؟ مگر ایک تنِ واحد نے اٹھ کر تمام دنیا کو چیلنج دے دیا۔ تمام اُن غلط خیالات اور غلط طریقوں کو رد کر دیاجو اس وقت دنیا میں رائج تھے۔ ان سب کے مقابلے میں اپنا ایک عقیدہ اور اپنا ایک طریقہ پیش کیا‘ اور چند سال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دنیا کے رخ کو پھیر کر اور زمانے کے رنگ کو بدل کر چھوڑا۔

تازہ ترین مثال اشتراکی تحریک کی ہے۔ انیسویں صدی میں سرمایہ داری کا تسلط اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ کوئی بزدل مرغ بادنمااُس وقت یہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ جو نظام ایسی ہولناک سیاسی اور جنگی قوت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے اُس کو الٹ دینا بھی ممکن ہے، مگر انھی حالات میں ایک شخص کارل مارکس نامی اٹھا اور اس نے اشتراکیت کی تبلیغ شروع کی۔ حکومت نے اس کی مخالفت کی۔ وطن سے نکالا گیا۔ ملک ملک کی خاک چھانتا پھرا۔ تنگ دستی اور مصیبت سے دوچار ہوا، مگر مرنے سے پہلے اشتراکیوں کی ایک طاقت وَر جماعت پیدا کرگیا۔ جس نے چالیس سال کے اندر نہ صرف روس کی سب سے زیادہ خوفناک طاقت کو الٹ کر رکھ دیا بلکہ تمام دنیا میں سرمایہ داری کی جڑیں ہلا دیں اور اپنا ایک معاشی اور تمدنی نظریہ اس قوت کے ساتھ پیش کیا کہ آج دنیا میں اس کے متبعین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے، اور ان ممالک کے قوانین بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں جن پر سرمایہ داری کی حکومت گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہے، مگر انقلاب یا ارتقا ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے‘ اورقوت ڈھل جانے کا نام نہیں ڈھال دینے کا نام ہے‘ مڑجانے کو قوت نہیں کہتے‘ موڑ دینے کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا‘ جو لوگ اپنا کوئی اصول‘ کوئی مقصد حیات‘ کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں‘ جو بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں‘ جو خطرات و مشکلات کے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں‘ جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو‘ جو ہر سانچے میں ڈھل جانے اور ہر دباؤ سے دب جانے والے ہوں‘ ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا صرف بہادر مردوں کاکام ہے۔ انھی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کارخ پھیرا ہے، دنیا کے خیالات بدلے ہیں، مناہجِ عمل میں انقلاب برپا کیا ہے، زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کر چھوڑا ہے۔

پس یہ نہ کہو کہ دنیا جس راستے پر جارہی ہے اس سے وہ پھیری نہیں جاسکتی اور زمانے کی جو روش ہے اس کا اتباع کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کرنے کے بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا سچا اعتراف کرنا چاہیے، اور جب تم اس کا اعتراف کرلو گے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لیے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہوسکتا ہے‘ نہ کوئی اصول اور نہ کوئی ضابطہ۔ اس کو تو ہرزور آور سے دبنا پڑے گا۔ ہر طاقت وَر کے آگے جھکنا پڑے گا۔ وہ کبھی اپنے کسی اصول اور کسی ضابطے کا پابند نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مذہب اس کے لیے اپنے اصول بدلتا چلا جائے تو وہ سرے سے کوئی مذہب ہی نہ رہے گا۔

یہ بھی ایک دھوکا ہے کہ اسلام کی قیود تمھاری خوش حالی اورترقی میں مانع ہیں۔ آخر تم اسلام کی کس قید کی پابندی کر رہے ہو؟ کون سی قید ہے جس سے تم آزاد نہیں ہوئے؟ اورکون سی حد ہے جس کو تم نے نہیں توڑا؟ تم کو جوچیزیں تباہ کر رہی ہیں ان میں سے کس کی اجازت اسلام نے تم کو دی تھی؟ تم تباہ ہو رہے ہو اپنی فضول خرچیوں سے جن کے لیے کروڑوں روپے کی جایدادیں تمھارے قبضے سے نکلتی جا رہی ہیں۔ کیا اسلام نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ تم کو خود تمھاری بری عادتیں تباہ کر رہی ہیں۔ اس مفلسی کی حالت میں بھی سینما اور کھیل تماشے تمھاری آبادی سے بھرے رہتے ہیں۔ ہر شخص لباس اور زینت و آرائش کے سامانوں پر اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ تمھاری جیبوں سے ہر مہینے لکھو کھا روپیہ بے ہودہ رسموں اور نمائشی افعال اور جاہلانہ اشغال میں صَرف ہو جاتا ہے۔ ان میں سے کس کو اسلام نے تمھارے لیے حلال کیا تھا؟ سب سے بڑی چیز جس نے تم کو تباہ کر دیا ہے وہ ادائے زکوٰۃ میں غفلت اور آپس کی معاونت سے بے پروائی ہے۔ کیا اسلام نے یہ چیز تم پر فرض نہ کی تھی؟ پس حقیقت یہ ہے کہتمھاری معیشت کی بربادی اسلامی قیود کی پابندی کا نتیجہ نہیں بلکہ ان سے آزادی کا نتیجہ ہے۔ رہی ایک سود کی پابندی تو وہ بھی کہاں قائم ہے؟ کم ازکم ۹۵ فی صدی مسلمان بغیر کسی حقیقی مجبوری کے سود پر قرض لیتے ہیں۔ کیا اسلامی احکام کی پابندی اسی کا نام ہے؟ مال دار مسلمانوں میں سے بھی ایک بڑا حصہ کسی نہ کسی شکل میں سود کھا ہی رہا ہے۔ باقاعدہ ساہوکاری نہ کی تو کیا ہوا‘ بینک اور بیمہ اور سرکاری بانڈس اور پراویڈنٹ فنڈس کا سود تو اکثر و بیش تر ما ل دار مسلمان کھاتے ہیں۔ پھر وہ حرمتِ سود کی قید کہاں ہے جس پر تم اپنی معاشی خستہ حالی کا الزام رکھتے ہو؟

عجیب پر لطف استدلال ہے کہ مسلمانوں کی عزت اور قومی طاقت کا مدار دولت مندی پر ہے‘ اور دولت کا مدار سود کے جواز پر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو ابھی تک یہی خبر نہیں کہ عزت اور طاقت کا مدار دراصل ہے کس چیز پر۔ محض دولت ہرگز وہ چیز نہیں ہے جو کسی قوم کو معزز اور طاقت وَر بناتی ہو۔ تمھارا ایک ایک شخص اگر لکھ پتی اور کروڑ پتی بن جائے مگر تم میں کیریکٹر کی طاقت نہ ہو تو یقین رکھو کہ دنیا میں تمھاری کوئی عزت نہ ہوگی۔ بخلاف اس کے اگر تم میں درحقیقت اسلامی سیرت موجود ہو‘ تم صادق اور امین ہو‘ لالچ اور خوف سے پاک ہو‘ اپنے اصول میں سخت اور اپنے معاملات میں کھرے ہو‘ حق کو حق اور فرض کو فرض سمجھنے والے ہو‘ حرام و حلال کی تمیز کو ہر حال میں ملحوظ رکھنے والے ہو‘ اور تم میں اتنی اخلاقی قوت موجود ہو کہ کسی نقصان کا خوف اور کسی فائدے کی طمع تم کو راستی سے نہ ہٹا سکے اور کسی قیمت پر تمھارا ایمان نہ خریدا جاسکے‘ تو دنیا میں تمھاری ساکھ قائم ہو جائے گی‘ دلوں میں تمھاری عزت بیٹھ جائے گی۔ تمھاری بات کا وزن لکھ پتی کی پوری دولت سے زیادہ ہوگا‘ تم جھونپڑیوں میں رہ کر اور پیوند لگے کپڑے پہن کر بھی دولت سراؤں میں رہنے والوں سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھے جاؤ گے اور تمھاری قوم کو ایسی طاقت حاصل ہوگی جس کو کبھی نیچا نہیں دکھایا جاسکتا۔ عہد صحابہؓ کے مسلمان کس قدر مفلس تھے۔ جھونپڑیوں اورکمبل کے خیموں میں رہنے والے‘ تمدن کی شان و شوکت سے ناآشنا‘ نہ ان کے لباس درست‘ نہ غذا درست‘ نہ ہتھیار درست‘ نہ سواریاں شان دار، مگر ان کی جو دھاک اور ساکھ دنیا میں تھی وہ نہ اموی عہدمیں مسلمانوں کو نصیب ہوئی‘ نہ عباسی عہدمیں اور نہ بعد کے کسی عہد میں۔ ان کے پاس دولت نہ تھی مگر کریکٹر کی طاقت تھی جس نے دنیا میں اپنی عزت اورعظمت کا سکہ بٹھا دیا تھا۔ بعد والوں کے پاس دولت آئی‘ حکومت آئی، تمدن کی شان و شوکت آئی، مگر کوئی چیز بھی کریکٹر کی کمزوری کا بدل فراہم نہ کرسکی۔

تم نے تاریخ اسلام کا سبق تو فراموش ہی کر دیا ہے‘ مگر دنیا کی جس قوم کی تاریخ چاہو اٹھا کر دیکھ لو‘ تم کو ایک مثال بھی ایسی نہ ملے گی کہ کسی قوم نے محض سہولت پسندی اور آرام طلبی اور منفعت پرستی سے عزت اور طاقت حاصل کی ہو۔ تم کسی ایسی قوم کو معزز اور سربلند نہ پاؤں گے جو کسی اصول اورکسی ڈسپلن کی پابند نہ ہو‘ کسی بڑے مقصد کے لیے تنگی اور مشقت اور سختی برداشت نہ کرسکتی ہو‘ اور اپنے اصول و مقاصد کے لیے اپنے نفس کی خواہشات کو اور خود اپنے نفس کو بھی قربان کر دینے کا جذبہ نہ رکھتی ہو۔ یہ ڈسپلن اور اصول کی پابندی اوربڑے مقاصد کے لیے راحت و آسائش اور منافع کی قربانی کسی نہ کسی رنگ میں تم کو ہرجگہ نظر آئے گی۔ اسلام میں اس کا رنگ کچھ اور ہے اور دوسری ترقی یافتہ قوموں میں کچھ اور۔ یہاں سے نکل کر تم کسی اور نظام تمدن میں جاؤ گے تو وہاں بھی تم کو اس رنگ میں نہ سہی، کسی دوسرے رنگ میں ایک نہ ایک ضابطے کا پابند ہونا پڑے گا‘ ایک نہ ایک ڈسپلن کی گرفت برداشت کرنی ہوگی۔ چند مخصوص اصولوں کے شکنجے میں بہرحال تم جکڑے جاؤ گے‘ اور تم سے کسی مقصداور کسی اصول کی خاطر قربانی کا مطالبہ ضرور کیا جائے گا۔ اگر اس کا حوصلہ تم میں نہیں ہے‘ اگر تم صرف نرمی اور کشادگی اور مٹھاس ہی کے متوالے ہو اورکسی سختی‘ کسی کڑواہٹ کو گوارا کرنے کی طاقت تم میں نہیں ہے تو اسلام کی قید و بند سے نکل کر جہاں چاہو جاکر دیکھ لو۔ کہیں تم کو عزت کا مقام نہ ملے گا، اور کسی جگہ طاقت کا خزانہ تم نہ پاسکو گے۔ قرآن نے اس قاعدے کلیے کو صرف چار لفظوں میں بیان کیا ہے اور وہ چار لفظ ایسے ہیں جن کی صداقت پر پوری تاریخ عالم گواہ ہے

اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (الم نشرح ۹۴۶)

یُسر کا دامن ہر حال میں عُسر کے ساتھ وابستہ ہے۔ جس میں عُسر کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں وہ کبھی یُسر سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔

(ترجمان القرآن، صفر ۱۳۵۵ھ۔ مئی ۱۹۳۶ء)