بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

یوال نوح حراری سے ایک فکری گفتگو اور اس پر تبصرہ

 یوال نوح حراری ایک اسرائیلی مؤرخ، مفکر، اور فلسفی ہیں، جنہوں نے تاریخ، انسانیت، اور مستقبل کے حوالے سے غیر معمولی شہرت پائی ہے۔ وہ عبرانی یونیورسٹی یروشلم میں تاریخ کے پروفیسر ہیں اور ان کی تحریریں انسانی تہذیب، مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل دنیا، اور ارتقائی نفسیات جیسے موضوعات کو گہرائی سے چھوتی ہیں۔

یوال نوح حراری

حراری کی تین عالمی شہرت یافتہ کتابیں:

  1. Sapiens: A Brief History of Humankind – انسانی تاریخ کا ارتقائی جائزہ

  2. Homo Deus: A Brief History of Tomorrow – انسان کا مستقبل اور مصنوعی ذہانت کی حکمرانی

  3. 21 Lessons for the 21st Century – اکیسویں صدی کے فکری، اخلاقی، اور سماجی چیلنجز

وہ مذہب، قوم پرستی، سرمایہ داری، اور ڈیجیٹل کنٹرول جیسے موضوعات پر تنقیدی اور فکری انداز میں گفتگو کرتے ہیں، اور ان کا انداز تحریر سادہ مگر فکری طور پر گہرا ہوتا ہے۔ ان کے بقول:

"کہانیوں اور افسانوں کی طاقت نے انسان کو جانوروں سے ممتاز کیا، اور یہی کہانیاں آج بھی دنیا پر حکومت کر رہی ہیں۔"

آئیے اب ہم یوال نوح حراری کے خیالات، فلسفے، اور دنیا کے بارے میں ان کے وژن پر مبنی ایک فرضی مگر حقیقت پر مبنی مکالمہ ترتیب دیتے ہیں۔ اس مکالمے کا اسلوب ایسا ہو گا گویا کوئی معروف دانشور یا صحافی ان کا انٹرویو کر رہا ہو، اور ان کے خیالات انہی کی زبان سے سامنے آ رہے ہوں — جیسے کسی عالمی فکری ٹاک شو کا سیگمنٹ ہو۔


 یوال نوح حراری سے ایک فکری گفتگو

عنوان: "انسان، ڈیٹا، اور مستقبل کا خدا: یوال نوح حراری کی زبانی"

میزبان: حراری صاحب، آپ کی کتاب Sapiens نے انسانی تاریخ کو نئے زاویے سے پیش کیا۔ آپ کا بنیادی نظریہ کیا ہے کہ انسان باقی جانوروں سے کیسے مختلف ہوا؟

نوام چومسکی سے ایک مکالمہ

(نوٹ : یہ مکالمہ نوام چومسکی کی شخصیت، ان کے افکار، خدمات اور عالمی مسائل کے حوالے سے ان کے نقطہ نظر پر تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے، اور ان کے علم و فہم کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔نوام چومسکی ایک عالمی شہرت یافتہ لسانی ماہر، فلسفی اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ انہیں جدید لسانیات کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے، خاص طور پر ان کے نظریہ گرامر نے زبان کی تفہیم میں انقلاب برپا کیا۔ چومسکی نے عالمی سیاست، معاشی نابرابری اور میڈیا کے کردار پر گہری تنقید کی، اور اپنی تحریروں میں طاقتور ریاستوں کی پالیسیوں کا شدید مقابلہ کیا۔ ان کی کتابیں جیسے "Manufacturing Consent" نے میڈیا اور معاشرتی ڈھانچوں پر ان کے تنقیدی نظریات کو عالمی سطح پر مقبول کیا۔)

میزبان:

"خواتین و حضرات، آج کے اس مکالمے میں ہم ایک ایسی شخصیت پر بات کریں گے جنہوں نے لسانیات، سیاست اور سماجی تنقید کے میدان میں ایک نیا انقلاب برپا کیا۔ وہ شخص ہے، نوام چومسکی۔ نوام چومسکی نہ صرف جدید لسانیات کے بانی ہیں بلکہ ان کا شمار عالمی سطح پر ایک ممتاز سیاسی دانشور کے طور پر بھی کیا جاتا ہے۔ آج ہم ان کی زندگی، شخصیت، افکار، خدمات اور نظریات پر تفصیل سے بات کریں گے۔"

میزبان:
"نوام چومسکی، آپ کی زندگی کا آغاز 7 دسمبر 1928 کو امریکہ کے شہر فلاڈلفیا میں ہوا۔ آپ ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم لسانیات اور فلسفہ میں ہوئی، اور آپ نے ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ آپ کا علم و فہم نہ صرف لسانیات بلکہ سیاست، سماجی تنقید، اور عالمی مسائل پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔ سب سے پہلے، ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ آپ کی شخصیت پر آپ کے ابتدائی سالوں کا کیا اثر تھا؟"

نوام چومسکی:
"میرے ابتدائی سالوں میں میری والدہ اور والد کی تعلیم اور علم کا اثر بہت زیادہ تھا۔ میرے والد خود بھی ایک لسانی ماہر تھے اور میری والدہ ایک تعلیمی شخصیت تھیں۔ میرے خاندان نے ہمیشہ سوچنے، سوال کرنے، اور تنقید کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ میری زندگی کی ابتدائی سالوں میں ہی میں نے یہ سیکھا کہ علم صرف کتابوں تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ ہمیں اپنے گرد و نواح کے معاشرتی مسائل اور سیاسی تنقیدوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔"

میزبان:
"چومسکی صاحب، آپ نے لسانیات کے میدان میں ایک نئی راہ متعارف کروائی۔ آپ نے 'پرانٹیکٹیکل لسانیات' اور 'معیاری لسانیات' پر کام کیا اور 'نظریہ گرامر' پیش کیا۔ آپ کے اس کام نے لسانیات کے شعبے میں انقلاب برپا کیا۔ آپ کے اس نظریے کو لے کر آپ کی اہم تصانیف کیا ہیں؟"

اسلام دو ہزار پچاس تک دنیا کا مقبول ترین مذہب بن جائے گا: سروے

امریکی تحقیقاتی ادارے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام اگلے 33 برسوں میں عیسائیت کی جگہ لے گا۔

امریکی تحقیقاتی ادارے پیوریسرچ سنٹر کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق اسلام دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ عیسائیت کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے اور 2050 تک اسلام عیسائیت کی جگہ لے کر پہلے نمبر پر آجائے گا۔ رپورٹ کے مطابق 2050 تک مسلمان یورپی آبادی کا دس فیصد جبکہ امریکی آبادی کا 2اعشاریہ 1فیصد ہو جائیں گے اور 31کروڑ مسلمانوں کی تعداد کے ساتھ بھارت پہلے نمبر پر ہو گا۔

دنیا کی آبادی کا 62فیصد مسلمان ایشیائی ممالک انڈونیشیا، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، ایران اور ترکی میں بستے ہیں۔ پیو نے انتالیس مسلم ممالک میں شرعی قانون کے نفاذ کے حوالے سے سروے کیا۔ افغانستان میں 99فیصد، عراق میں 91فیصد جبکہ پاکستان میں 84فیصد افراد نے شرعی قوانین کے نفاذ کی حمایت کی۔ 

2010 میں سامنے آنے والے اعدادوشمار کے مطابق عالمی آبادی میں 23فیصد حصہ مسلمان ہیں۔

وہ مبینہ چینی سائبر حملے جن میں ٹرمپ کے فون تک کو نشانہ بنایا گیا



مائیک وینڈلنگ
عہدہ,بی بی سی نیوز

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ہیکرز جو امریکہ کی بڑی مواصلاتی کمپنیوں اور اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں، ان کا تعلق چین کی حکومت سے ہے۔

ہیکنگ کے ایک تازہ ترین واقعے میں امریکی وزارت خزانہ کو نشانہ بنایا گیا جسے امریکی حکام ’بڑا واقعہ‘ قرار دے رہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ہیکرز ملازمین کے ورک سٹیشن اور اہم دستاویزات تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے تاہم چین نے ان واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے خلاف یہ تازہ ترین سائبر حملے حالیہ مہینوں میں سامنے آئے ہیں۔

ان سائبر حملوں میں ہیک کیا ہوا؟


امریکی وزارت خزانہ میں ہیکنگ کے واقعے کے بعد اکتوبر میں دو اہم امریکی صدارتی مہمات کو ہدف بنایا گیا۔

ایف بی آئی اور سائبر سکیورٹی اینڈ انفراسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی (سی آئی ایس اے) کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی مہمات کو ہدف بنانے والے کرداروں کا تعلق ’عوامی جمہوریہ چین‘ سے ہے۔

بدلتا عالمی منظرنامہ اور تنازعات: 2024 کی جنگوں نے نئی دشمنیاں کیسے پیدا کیں اور 2025 میں کیا ہو گا؟


فرینک گارڈنر
عہدہ,بی بی سی نامہ نگار برائے سکیورٹی
1 جنوری 2025
سنہ 2001 میں جب نائین الیون حملوں کے بعد میں نے بی بی سی کے لیے گلوبل سکیورٹی کے نامہ نگار کے طور پر کام کرنا شروع کیا تب سے لے کر اب تک یہ سال سب سے زیادہ ہنگامہ خیز رہا ہے۔

شام میں صدر بشارالاسد کی اچانک معزولی، شمالی کوریا کے فوجیوں کا روس کے لیے جنگ لڑنا، یوکرین کا برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے بھیجے گئے میزائلوں سے روس پر حملہ، روس کو ایرانی میزائلوں کی فراہمی، امریکی اسلحے سے مسلح اسرائیل کے غزہ اور لبنان پر فضائی حملے، یمن سے اسرائیل پر میزائلوں کا داغا جانا۔

تنازعات کا ایک جال دکھائی دیتا ہے جس میں سب پھنسے نظر آتے ہیں: اس ساری صورتحال کے پیشِ نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں جاری تنازعات اور جنگیں پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ آپس میں منسلک ہیں۔

لیکن اس سب سے پہلے ایک چیز واضح کرتے چلیں کہ یہ تیسری عالمی جنگ نہیں ہے۔ حالانکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن مغربی ممالک کو یوکرین کو مزید اسلحہ فراہم کرنے سے باز رکھنے کے لیے تیسری عالمی جنگ سے ڈرا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ 

تاہم یہ بات تو واضح ہے کہ دنیا میں چل رہے بیشتر تنازعات کا ایک عالمی تناظر ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساری چزیں ایک دوسری سے کیسے جڑی ہوئی ہیں۔

اس کے لیے ہم مشرقی یورپ میں فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے چل رہی جنگ سے شروع کرتے ہیں۔

ہماری دہلیز پر جاری یورپ کی جنگ


’ان کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ یہاں مرنے آ رہے ہیں۔ یہ ان کے لیے بہت بڑا سر پرائز ہوگا۔‘ یہ کہنا تھا یوکرینی فوج کے رستم نوگودین کا۔یوکرین میں میدانِ جنگ سے ایسی میڈیا رپورٹس سامنے آئیں کہ روس کی جانب سے لڑنے کے لیے آنے والے شمالی کوریا کے بیشر فوجی انٹرنیٹ پر پورن دیکھنے میں مگن ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جو ان کو اپنے ملک میں دستیاب نہیں۔

تاہم ان سب خبروں سے ہٹ کر جو بات سب سے زیادہ قابل غور ہے وہ یہ کہ شمالی کوریا کے فوجیوں کی اس جنگ میں شرکت نے اس تنازع کو نیا رخ دے دیا ہے۔ ان کی آمد کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے یوکرین سے پابندی ہٹالی کہ وہ ان کے فراہم کردہ دور تک مار کرنے والے میزائلوں سے روس کی حدود کے اندر حملہ نہیں کر سکتا۔

شمالی کوریا سے آنے والے فوجیوں کی تعداد 10 ہزار سے 12 ہزار کے درمیان ہے۔ تاہم اتنی تعداد بھی یوکرین جیسے ملک کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے جسے افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے۔

اگلے مورچوں پر موجود یوکرینی کمانڈر رستم نوگودین کہتے ہیں کہ شمالی کوریا سے آنے والے فوجی اتنے اچھے نہیں لیکن اس کے باوجود 10 ہزار فوجی تقریباً دو بریگیڈ کی مشترکہ تعداد ہوتی ہے۔ ’یاد رکھیے کہ محض دو بریگیڈ نے روس کو خارکیو سے پیچھے دھکیل دیا تھا۔‘

انڈیا کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے وہ اقدامات جنھوں نے انڈیا کو بدل کر رکھ دیا

ابھینو گویل
عہدہ,بی بی سی ہندی، نئی دہلی

سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ سنہ 2004 سے 2014 تک انڈیا کے وزیر اعظم رہے۔ انھیں اگر دنیا بھر میں اقتصادی ماہر کے طور پر دیکھا جاتا ہے تو انڈیا میں انھیں اقتصادی لبرلائزیشن کے ہیرو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

منموہن سنگھ کو سنہ 1991 میں اس وقت کے وزیر وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کی قیادت والی کانگریس پارٹی کی حکومت میں وزیر خزانہ بنایا گیا تھا۔

سنہ 1999 اور 2004 میں انھوں نے لوک سبھا کے انتخابات میں بطور کانگریس امیدوار شرکت کی لیکن انھیں کامیابی نہ مل سکی تاہم جب اکثریت حاصل کرنے والی کانگریس پارٹی کی رہنما سونیا گاندھی نے وزیر اعظم بننے کی دوڑ سے کنارہ کشی اختیار کر لی تو یہ ذمہ داری ڈاکٹر منموہن سنگھ کو سونپی گئی۔

ان کے دس سالہ دور میں کئی بڑے فیصلے کیے گئے جو سنگ میل ثابت ہوئے۔ ہم یہاں ان کے سات اہم کاموں کا ذکر کر رہے ہیں۔

1۔ معلومات کا حق


معلومات کا حق یعنی رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں 12 اکتوبر سنہ 2005 کو ملک میں نافذ کیا گیا۔

اس قانون کے تحت انڈین شہریوں کو سرکاری اہلکاروں اور اداروں سے معلومات حاصل کرنے کا حق ملا۔

یہ وہ حق ہے جو شہریوں کو باخبر فیصلے کرنے اور مرضی کے مطابق طاقت استعمال کرنے والوں سے سوال کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

آر ٹی آئی کا اثر پنچائیت سے لے کر پارلیمنٹ تک ثابت ہو چکا ہے۔ اس سے نہ صرف افسر شاہی کو ہٹانے میں مدد ملی بلکہ بیوروکریسی کے تاخیر کرنے والے رویے کو بھی دور کرنے میں مدد ملی۔

عالمی تنازعات اور اسلحہ سازوں کی ’چاندی‘: وہ کمپنیاں جنھوں نے صرف ایک سال میں 632 ارب ڈالر کمائے



شکیل اختر
عہدہ,بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
دنیا بھر میں جاری تنازعات یوکرین، روس اور اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگوں کا سب سے زیادہ فائدہ اسلحہ بنانے والی امریکی کمپنیوں کو ہوا ہے۔

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹٹیوٹ (سپری) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سنہ 2023 میں دنیا بھر میں فروخت ہونے والا 50 فیصد جنگی سامان صرف امریکی کمپنیوں نے بنایا تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس امریکی کمپنیوں نے 317 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔

سپری کے مطابق امریکہ کے بعد اس فہرست میں دوسرے نمبر پر چین ہے جس کی کمپنیوں نے گذشتہ برس دنیا بھر میں 130 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار فروخت کیے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں ہتھیار بنانے والی دنیا کی ٹاپ 100 کمپنیوں نے 632 ارب ڈالر کا جنگی ساز و سامان فروخت کیا جو کہ 2022 کے مقابلے میں چار اعشاریہ دو فیصد زیادہ ہے۔

دنیا بھر میں جاری تنازعات کے سبب روس اور اسرائیل میں واقع چھوٹی کمپنیوں کے منافع میں سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

افغانستان کا دریائے آمو جہاں تیل اور گیس کی تلاش میں چین اور روس پیش پیش ہیں۔



بی بی سی اردو 24 نومبر 2024 
خطے کے دو طاقتور ترین ممالک روس اور چین ان دنوں افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں میں تعاون کے لیے مصروف عمل دکھائی دے رہے ہیں، جس کی تازہ ترین مثال ان دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کا حال ہی میں افغانستان کا دورہ ہے۔

چند روز قبل روسی سرمایہ کاروں کے ایک وفد نے کابل کا دورہ کر کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں اور اس دوران افغانستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے مطابق طالبان کے زیرِ انتطام افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل نے 17 نومبر کو ایک رپورٹ میں کہا کہ ’نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر نے کابل میں روسی اور افغان سرمایہ کاروں کے ایک گروہ سے ملاقات کی ہے۔

روسی سرمایہ کاروں نے ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ روس مختلف شعبوں میں افغانستان میں نہ صرف سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے بلکہ اپنے تجربات بھی ان کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہے۔روسی سرمایہ کاروں نے توانائی، صنعت، تجارت، نقل و حمل، زراعت، ریلوے اور صحت سمیت بنیادی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’اجلاس میں روسی تاجروں کی جانب سے انفراسٹرکچر، صنعت، تجارت، ٹرانسپورٹ، زراعت، ریلوے اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔‘

رپورٹ کے مطابق عبدالغنی برادر نے کہا کہ طالبان حکومت روسی سرمایہ کاروں کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی اور ملک میں پُرامن ماحول ان کی سرگرمیوں کے لیے سازگار ثابت ہو گا۔

یاد رہے کہ افغانستان میں چین کی کمپنی افچین کی جانب سے دریائے آمو کے بیسن (طاس) میں تیل کے مزید 18 کنوؤں کی کھدائی اور گیس کی تلاش کی تلاش کا کام بھی شروع کیا جا چکا ہے۔

افغانستان میں روسی سرمایہ کاری

ایک ایسے وقت میں جب ایک چینی کمپنی کی مدد سے شمالی افغانستان میں خام تیل نکالنے کا کام جاری ہے، چین کی طرح روس بھی اس بات کا خواہاں ہے کہ افغانستان میں گیس، تیل اور توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے۔

روس نے اس مد میں ذرائع نقل و حمل، زراعت اور صنعت کے شعبوں اور افغانستان میں سابق سوویت یونین کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں بھی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

ان منصوبوں سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ روس افغانستان کے ساتھ اقتصادی شراکت دار اور جغرافیائی سیاسی اتحادی دونوں کی طرز پر تعلقات کو وسعت دینے پر آمادہ ہے۔

عرب کہاں ہیں؟ فلسطین کے مسلم ہمسائے ماضی کی طرح اس کی حمایت کیوں نہیں کر رہے؟

پولا روساس،  عہدہ,بی بی سی نیوز ورلڈ،  30 اکتوبر 2024


’عرب کہاں ہیں؟ عرب کہاں ہیں؟‘

یہ وہ فقرہ ہے جو اسرائیلی بمباری سے تباہ حال عمارتوں کے ملبے سے زندہ بچ نکلنے والے، اپنے ہاتھوں میں مردہ بچے اٹھائے اور بے بسی سے کیمرے کے سامنے چیختے غزہ کے ہر شخص کے منھ سے ادا ہوتا ہے۔

غزہ کے باسی بار بار پوچھ رہے ہیں اور اس بات پر حیران ہیں کہ ان کے عرب ہمسایہ ممالک اسرائیلی بمباری کے خلاف ان کا دفاع کیوں نہیں کر رہے؟

گذشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے تمام نظریں مشرق وسطیٰ پر لگی تھیں اور سب کے ذہن میں یہ سوال تھے کہ اسرائیل کی جانب سے ردعمل کتنا شدید اور طویل ہو گا؟ اور خطے کے عرب ممالک کے عوام اور حکومتیں کیا ردعمل دیں گی؟آج تک پہلے سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں مل سکا: اسرائیلی بمباری نے غزہ کی پٹی میں تباہی برپا کر دی اور اب تک 42500 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں لیکن اس کے تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

دوسرے سوال کے جواب کا کچھ حصہ واضح ہے، اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ عرب دنیا کے دارالحکومتوں میں بڑے پیمانے پر احتجاج یا مظاہرے ہوں گے تو انھیں مایوسی ہو گی۔ اگرچہ عرب ممالک کی آبادی کی بڑی تعداد کی حمایت اور جذبات فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے ہیں لیکن ان ممالک میں مظاہروں کو محدود رکھا گیا۔

قاہرہ میں امریکی یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنس کے پروفیسر ولید قاضیہ نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’جہاں تک عرب ممالک کی حکومتوں کا تعلق ہے تو ان کا ردعمل یا تو بہت کمزور یا مایوس کن رہا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اسرائیل پر روایتی تنقید یا قطر اور مصر کی حکومتوں کی جانب سے اس تنازعے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کے علاوہ کسی نے بھی فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا۔

بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ : جیونیوز جرگہ میں سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی کا اہم تجزیہ

انہوں نے درج ذیل سوالات کا تجزیہ کیا : 

1- امریکہ کیلئے  بڑا خطرہ چین یا روس ؟ 
2- کیا پاکستان کو بنگلہ دیش جیسے حالات کا سامنا ہوسکتا ہے ؟
3-  اسرائیلی لابی امریکہ میں اتنی مضبوط کیوں ہے ؟ 






 

مسلم امہ ، عالمی منظر اور داخلی تضادات ۔ ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی

 اس بات پر مجھے بہت خوشی ہے کہ جماعتِ اسلامی سے وابستہ اپنے بھائیوں اور بہنوں سے ملاقات کا موقع مل رہا ہے۔ میرے لیے علّامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے شہر لاہور میں آنا بھی بے پناہ خوشی کا باعث ہے، کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنھیں علّامہ اقبال کے سیکڑوں اشعار کا عربی ترجمہ زبانی یاد ہے۔ اسی دوران مجھے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مرقد پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، جن سے مجھے بے حد محبت ہے اور میں نے ان کی کتب اور ملفوظات سے بہت فیض حاصل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سیّدی مودودی کی قبر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، آمین!
ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی

مَیں چونکہ بین الاقوامی تعلقات کی کلاسیں پڑھاتا ہوں، لہٰذا ذرا گہرائی میں جا کر موجودہ عالمی سیاسی منظرنامہ کے اندر اُمتِ مسلمہ کی صورت حال پر عمومی بات کروں گا۔ دورِ حاضر میں ہم دُنیا میں زمینی سطح پر اور سمندروں میں بڑی طاقت ور عالمی قوتوں کے درمیان ایک تاریخی کش مکش کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ موجودہ عالمی سیاست میں بَرّی طاقتوں سے مراد چین، روس اور ہندستان جیسے مشرقی ممالک ہیں،جب کہ بحری طاقتوں سے مراد امریکا اور یورپ ہیں۔

عالمی منظرنامہ


گذشتہ چند عشروں میں کارفرما یک قطبی (Uni-polar)عالمی سیاست میں بین الاقوامی نظام کی باگ ڈور بلاشرکت غیرےامریکا کے ہاتھ میں رہی ہے۔ اب ہم بین الاقوامی نظام میں ایک نئی ٹوٹ پھوٹ کا مشاہدہ کررہے ہیں، اور عالمی طاقت مغرب سے مشرق کی طرف بالخصوص چین کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تزویراتی مفکرین کی اکثریت آج چین کی اُبھرتی ہوئی طاقت کے ظہور کی بات کر رہی ہے۔ ’چین کا طلوع‘ (Rise of China) ایک ایسی اصطلاح ہے، جس کی تکرار مغربی مفکرین،روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے سامنے عالمی میدان میں ایک مسابقت اور ایک کش مکش کو پروان چڑھتا دیکھ رہے ہیں، جسے سردجنگ (Cold War) کی نئی شکل بھی کہا جا سکتاہے، اوراسے پہلے سے قائم سپر پاورزاور ’نئی اُبھرتی سپرپاورز‘ (Emerging Powers )کے درمیان ہمیشہ رہنے والے ٹکراؤ سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ۔

آج ایک طرف چین اور روس کی ابھرتی طاقتیں ہیں اور دوسری طرف امریکا و یورپ روایتی سپرپاورز کے درمیان ٹکراؤ چل رہا ہے ۔اس ٹکراؤ اور کش مکش کو سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا مسلم دُنیا کے ایک ایک فرد کےلیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ان دونوں بَرّی طاقتوں اور بحری قوتوں کے درمیان پس رہے ہیں، موجودہ سپرپاورز اور نئی اُبھرتی ہوئی پاورز کے درمیان پس رہےہیں۔

چین کی ثالثی میں حماس اور فتح کا معاہدہ جو فلسطینی دھڑے بندی ختم کر سکتا ہے



بی بی سی اردو 24 جولائی 2024

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق 23 جولائی کو 14 فلسطینی گروہوں کے نمائندوں نےچین کی دعوت پر بیجنگ میں مصالحتی مذاکرات کے بعد ’تقسیم کے خاتمے اور فلسطینی قومی اتحاد کو مضبوط بنانے سے متعلق بیجنگ اعلامیے‘ پر دستخط کیے ہیں۔

14 فلسطینی گروہوں نے جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کے لیے قومی مفاہمت کی ایک عبوری حکومت بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ یہ معاہدہ بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے جس میں حماس کے سینئر نمائندے موسیٰ ابو مرزوق اور الفتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمود علول شریک تھے۔

واضح رہے کہ فتح اب غرب اردن جبکہ حماس غزہ میں برسراقتدار ہے۔ تاہم 2006 کے انتخابات میں حماس کی کامیابی اور غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ان کے تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے تھے۔

چینی دفترِ خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے اعلامیے میں ’سب سے اہم کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) فلسطینی عوام کی ’واحد نمائندہ‘ ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’مذاکرات کی سب سے اہم اور نمایاں بات غزہ کی جنگ کے بعد کی حکومت کے لیے عبوری قومی مصالحتی حکومت کے قیام پر اتفاق رائے ہے۔‘

اعلامیے میں فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت، تقسیم کے خاتمے کے لیے چین کی مخلصانہ کوششوں کو سراہا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام علاقائی اور بین الاقوامی شرکت کے ساتھ ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جانا چاہئے۔

اعلامیے میں مندرجہ ذیل نکات بھی شامل تھے:

  • اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام۔
  • غرب اردن، یروشلم اور غزہ سمیت فلسطین کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنا۔
  • تمام فلسطینی گروہوں کے اتفاق رائے اور موجودہ بنیادی قانون کے مطابق ایک عبوری قومی مصالحتی حکومت کی تشکیل۔
  • غزہ کی تعمیرِ نو اور منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق جلد از جلد عام انتخابات کی تیاری۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق ایک نئی قومی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور مشترکہ سیاسی فیصلے کرنے کے لیے ایک عارضی متحد قیادت تشکیل دی جائے گی۔

اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ اعلامیے کی شقوں پر مکمل عمل درآمد کے لیے ایک اجتماعی لائحہ عمل قائم کیا جائے گا جس پر عمل درآمد کے لیے ٹائم ٹیبل ہوگا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فلسطین کے 14 بڑے گروہوں کے نمائندوں کے علاوہ مصر، الجزائر، سعودی عرب، قطر، اردن، شام، لبنان، روس اور ترکی کے سفیروں اور نمائندوں نے اختتامی تقریب میں شرکت کی۔

 اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری کشیدگی میں چین کیا چاہتا ہے؟

اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے: عالمی عدالت انصاف

بی بی سی  20جولائی 2024
عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں آباد کاری روکے اور غزہ کی پٹی سمیت ان علاقوں سے غیرقانونی قبضہ فوری ختم کر دے۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اسے ایک جھوٹ پر مبنی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اسرائیلیوں کا وطن ہے جبکہ فلسطینیوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔

امریکہ میں ارب پتی اور بااثر افراد کی محفل جہاں مستقبل کی سمت طے ہوتی ہے

بی بی سی اردو | 13 جولائی 2024

سن ویلی امریکہ کا ایک ایسا ’سمر کیمپ‘ ہے جہاں دنیا بھر میں اثر و رسوخ رکھنے والے ارب پتی افراد کی خصوصی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔

سن ویلی میں جاری امریکہ کے بااثر کاروباری افراد اور ٹائیکونز کی ملاقاتوں کو ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے۔

امریکی صدارتی انتخاب میں صرف چار ماہ باقی رہ گئے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن جہاں بطور صدارتی امیدوار بحث کا موضوع ہیں وہیں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ آخری مباحثے میں ان کی کارکردگی کے بعد یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ارب پتیوں کے سمر کیمپ میں اس مرتبہ موضوعِ گفتگو یہ مباحثہ اور جو بائیڈن ہی ہوں گے۔

ایڈاہو کے ایک ریزورٹ ٹاؤن سن ویلی میں سرمایہ کاری بینک ایلن اینڈ کمپنی کی میزبانی میں منعقد ہونے والے اس کیمپ کا آغاز چار دہائیوں قبل ہوا تھا۔ اسے اشرافیہ کا ایک نجی اجتماع کہا جاتا ہے جس میں حصہ لینے والے تمام افراد سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔

اس سال ایمیزون کے بانی جیف بیزوس، اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹ مین، ایپل کے سی ای او ٹم کک، ڈزنی کے سی ای او باب ایگر، وارنر برادرز کے سی ای او ڈیوڈ زسلاو، مائیکروسافٹ کے شریک بانی بل گیٹس، میڈیا انٹرپرینیور شاری ریڈسٹون سمیت دیگر شخصیات اس میں شرکت کر رہے ہیں۔

بڑے بڑے تجارتی سودوں کا مقام

یہ تمام اشرافیہ سن ویلی اپنے پرائیویٹ جیٹ طیاروں پر آئے ہیں۔

سن ویلی کی سالانہ کانفرنس پہلی بار 1983 میں منعقد کی گئی تھی۔ یہاں نہ صرف بڑے بڑے تجارتی سودے کیے جاتے ہیں بلکہ بڑی بڑی جماعتوں کے رہنما اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ امریکہ کے مستقبل پر بھی تبادلہ خیال کرتے ہیں۔

کیمپ میں اس بار تفریحی کمپنیوں اور میڈیا گروپس کے سربراہان اور ٹیکنالوجی کے میدان کے با اثر اور طاقتور شخصیات بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

کیا روس، یوکرین جنگ دنیا پر امریکہ کی بالادستی اور موجودہ عالمی نظام کے خاتمے کا آغاز ہے؟

زبیر احمد
عہدہ,بی بی سی نیوز
مقام دہلی
3 مار چ 2023
یوکرین پر روس کے حملے کا دوسرا سال شروع ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ مغربی ممالک کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اس جنگ نے موجودہ عالمی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کا نظام اصولوں پر قائم ہے اور ان قوانین میں تبدیلی کے واضح آثار اب موجود ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک (امریکہ اور یورپی ممالک) انڈیا، چین، جنوبی افریقہ اور برازیل جیسے ترقی پذیر ممالک کو روسی جارحیت کے خلاف لڑنے کے لیے اپنا ساتھ دینے پر راضی کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

مغربی ممالک یوکرین پر روس کے حملے کو نہ صرف یورپ پر حملہ بلکہ جمہوری دنیا پر حملہ قرار دے رہے ہیں اور اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقتیں یوکرین پر حملے کی وجہ سے روس کی مذمت کریں۔

لیکن انڈیا اور چین کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے ترقی پذیر ممالک بھی روس اور یوکرین کی جنگ کو پوری دنیا کے لیے درد سر نہیں سمجھتے۔ یہ ممالک بڑی حد تک اس جنگ کو یورپ کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

گذشتہ برس سلوواکیہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے، انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے یورپ پر زور دیا کہ وہ اس ذہنیت سے اوپر اٹھے کہ ’یورپ کے مسائل دنیا کا درد سر ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

’عظیم تعمیرنو منصوبہ‘ اور مستقبل کی دُنیا

حسان احمد | ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن | جولائی 2024

 گذشتہ صدی کے آخر میں ’نئے عالمی نظام‘ [New World Order]، ’تہذیبوں کے تصادم‘ [Clash of Civilization] اور اختتام تاریخ [End of History] کی بحثوں کا شور برپا تھا۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصے میں مغرب میں ’عظیم تعمیرِنو‘ [The Great Reset] کی بحث نہ صرف پوری قوت سے جاری ہے بلکہ دنیا کے طاقت ور افراد کھل کر اس کے حق میں یا مخالفت میں اپنی اپنی رائے کا اظہار بھی کررہے ہیں بلکہ اپنی دولت اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر اپنے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں بھی لگے ہیں۔

دنیا کے مال دار ترین امریکی سیٹھ ایلون مسک نے گذشتہ دنوں اپنی ایکس پوسٹ میں کہا :

The True battle is Extinctionists who want a holocaust for all of Humanity. Vs Expansionists who want to reach the stars and Understand the Universe.

اصل لڑائی دو قوتوں کے درمیان ہے: ’معدومیت پسند‘ ،کہ جو پوری انسانیت کے لیے ہولوکاسٹ چاہتے ہیں، اور’ توسیع پسند‘، کہ جو ستاروں تک پہنچنا اور کائنات کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

یہ ذومعنی ’ٹویٹ‘ یا ’پوسٹ‘ گذشتہ کئی عشروں سے جاری 'تہذیبی تصادم کے تناظر میں نظر آئے گی، لیکن ایلون مسک نے اگلے ٹویٹ میں اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا:

Now Imagine if the Extinctionist philosophy is programmed into Al- No need to imagine - this is already the case with Gemini and ChatGPT.

اب ذرا تصور کریں کہ اگر ’معدومیت پسندوں‘ کے فلسفے کو ’مصنوعی ذہانت‘ [کے پروگرام] میں شامل کردیا جائے۔ [بلکہ] تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کام جیمینی [گوگل کا ’اے آئی‘ پروگرام ] اور چیٹ جی پی ٹی [Chat GPT] پہلے ہی کررہے ہیں۔

ایلون مسک نے یہ پوسٹ ایک خبر کے جواب میں کی ہے، جس کے مطابق ایک مشہور انگریزی فلم [Planet of The Apes] کے اداکاروں نے ایک انٹرویو میں کہا: ’’یوں تو وہ فلم میں انسانوں کو بندروں سے بچاتے نظر آتے ہیں، لیکن حقیقی زندگی میں وہ بندروں کے ساتھ شامل ہونا پسند کریں گے، تاکہ بندروں کے ساتھ مل کر انسانوں کا خاتمہ کرسکیں کیونکہ انسانوں نے دنیا کو برباد کردیا ہے۔ بظاہر تو یہ پوری گفتگو ہی بے معنی اور بےتکی لگتی ہے۔ لیکن صورتِ حال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایلون مسک نے ہنسی مذاق کے ماحول میں ہونے والی اس گفتگو کے پیچھے اُس اصل سوچ پر تنقید کی ہے، جو زمین کے بچائو کے لیے انسانوں کے خاتمے کی حامی ہے۔

جدید ایران کا سیاسی نظام

ایران کا سیاسی نظام کسی کے لیے پیچیدہ ہے تو کسی کے لیے غیر معمولی۔ اس میں جدید دینی طرز حکومت کو جمہوریت کے ساتھ ایک منفرد انداز میں ملایا گیا ہے۔ایران میں صدر اور پارلیمان کو تو لوگ ہی منتخب کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ غیر منتخب شدہ اداروں کا ایک نیٹ ورک قائم ہے جس کی سربراہی رہبر اعلیٰ کرتے ہیں۔


سپریم لیڈر (رہبر اعلیٰ)

ایران کے سیاسی نظام میں سب سے طاقتور عہدہ رہبر اعلیٰ یا سپریم لیڈر کا ہے اور اس عہدے پر آج تک صرف دو لوگ ہی آ سکے ہیں۔ پہلی بار یہ عہدہ سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ روح اللہ خمینی کو ملا تھا اور ان کے بعد اس پر موجودہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای آئے تھے۔

ایرانی حکمران رضا شاہ پہلوی کی حکومت گِرانے کے بعد خمینی ؒنے اس عہدے کو ایرانی سیاسی ڈھانچے میں سب سے اہم منصب بنایا تھا۔ سپریم لیڈر ایرانی دفاعی فورسز کا کمانڈر اِن چیف بھی ہوتے ہیں اور ملک میں سکیورٹی کے معاملات پر نگرانی رکھتے ہیں۔ وہ عدلیہ کے سربراہ، اثر و رسوخ رکھنے والی نگہبان شوریٰ کے نصف ممبران، نماز جمعہ کے امام اور سرکاری ٹی وی و ریڈیو نیٹ ورکس کے سربراہان کو تعینات کرتے ہیں۔ اس رہبر اعلیٰ کے کنٹرول میں ایسے اربوں ڈالرز کے خیراتی ادارے بھی ہوتے ہیں جو ایرانی معیشت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ سنہ 1989 میں خمینی کی موت کے بعد علی خامنہ ای سپریم لیڈر بنے تھے۔ گذشتہ عرصے میں انھوں نے اپنی پوزیشن اور طاقت کو مستحکم کیا ہے اور حکمرانی کے اس نظام کو درپیش چیلنچز کو دبا کر رکھا ہے۔

صدر

ایران میں ایک صدر کو چار سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، اور کوئی بھی شخص مسلسل ادوار کے بعد تیسری بار صدر نہیں بن سکتا۔ آئین میں اس عہدے کو ملک میں دوسرا سب سے بڑا عہدہ قرار دیا گیا ہے۔ ایرانی صدر ایگزیکٹیو (امور کی انجام دہی کے ذمہ داران) کا سربراہ ہوتا ہے۔ صدر کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں آئین کی عملداری یقینی بنائی جائے۔ مقامی پالیسی اور خارجی اُمور پر صدر کا اثر و رسوخ ہوتا ہے لیکن تمام ریاستی معاملات پر سپریم لیڈر کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ تمام صدارتی امیدواروں کو نگہبان شوریٰ سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ یہ عالم دین اور قانونی ماہرین پر مبنی ایک ادارہ ہے جس میں 12 ممبران ہوتے ہیں۔ سنہ 2021 میں ہونے والے ایرانی صدارتی انتخاب کے لیے 590 افراد نے امیدوار بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر صرف سات افراد کے کاغذات نامزدگی کو منظور کیا گیا۔ خواتین کو صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ملی۔

شیعہ مراجع کی تاریخ، مذہبی حیثیت اور سیاسی اثرورسوخ

علی عثمان قاسمی اور سیمون وولف گانگ فوکث
محقق و مورخ
5 جون 2020 بی بی سی اردو 

آیت اللہ خمینی کے بعد جہاں ایران میں آیت اللہ خامنہ ای مقبول مرجع ہیں وہیں عراق کے آیت اللہ سیستانی کو ملک اور ملک سے باہر شیعوں میں مقبول مرجع تسلیم کیا جاتا ہے

لاہور کے اُردو بازار میں یوں تو بیشتر دوکانیں مدارس اہل سُنت کی کُتب نصاب، تفاسیر، قرآن اور شروحِ حدیث کی خرید و فروخت کا مرکز ہیں مگر چند ایک دکانیں ایسی بھی ہیں جہاں شیعہ فقہ، تاریخ اور تفسیر و حدیث سے متعلق کتب بھی دستیاب ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر وہ اُردو تراجم ہیں جو 1980 کی دہائی کے بعد پاکستان میں قائم ہونے والے شیعہ مدارس اور تحقیقاتی مراکز سے منسلک علما نے کیے ہیں۔ ان علما کی غالب اکثریت ایرانی شہر قُم سے فارغ التحصیل ہے۔

اگر آپ شیعہ کُتب کے تاجر سے توضیح المسائل، جو روزمرّہ کے معاملات، کاروبار، نجاست و پاکیزگی کے مسائل کے حوالے سے فقہی آرا کا مجموعہ کہلاتی ہے، طلب کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ دکاندار آپ سے دو سوالات پوچھے: آپ کِس کی تقلید میں ہیں۔ یعنی فقہی معاملات میں کِس مجتہد کے پیروکار ہیں۔

کتابی تعریف کے مطابق ہر اثناعشری شیعہ کا کِسی زندہ مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے۔ (اگرچہ کچھ ترامیم اور اضافے کے ساتھ اُس مجتہد کی تقلید بھی جاری رکھی جا سکتی ہے جو وفات پا چکا ہو)۔

اگر آپ کِسی کے مقلد ہیں جیسے کہ آیت اللہ سیستانی تو دکان دار آپ کو ان کی توضیح المسائل ہاتھ میں تھما دے گا اور اگر آپ کِسی کی تقلید میں نہیں تو دکان دار اگلا سوال پوچھے گا کہ آیا آپ کو کِسی کٹر مجتہد کی فقہی آرا درکار ہیں یا معتدل کی! اگر جواب کٹر مجتہد ہے تو پھر آپ کو ایران کے آیت اللہ خمینی یا آیت اللہ خامنہ ای کی توضیح المسائل دی جائے گی۔

امریکہ کی مخالفت کے باعث ناکام ہونے والا عالمی کرنسی کا وہ پراجیکٹ جس نے دنیا پر ڈالر کی بالادستی یقینی بنائی

گیلرمو ڈی اولمو
بی بی سی ورلڈ نیوز

یہ 1944 کے موسم گرما کی بات ہے جب نصف دہائی سے جاری دوسری عالمی جنگ کے شعلے کچھ بجھتے دکھائی دے رہے تھے اور ایڈولف ہٹلر اور اُن کے اتحادیوں کی شکست واضح ہونا شروع ہو گئی تھی۔
بریٹن ووڈس کانفرنس میں شامل مندوبین


ایسے میں امریکہ کی ریاست نیو ہیمپشائر کے علاقے بریٹن ووڈس میں 44 ممالک کے مندوبین نے ایک ایسے اجلاس میں شرکت کی جو 22 روز تک جاری رہا۔ اُن کا مقصد: پانچ سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کے بعد نئی عالمی معیشت کی بنیاد طے کرنا تھا۔ 

یہ کانفرنس تاریخ میں ’بریٹن ووڈس کانفرنس‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔

جہاں اس کانفرنس کے دوران بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یا آئی ایم ایف) کی تشکیل اور ورلڈ بینک کے خدوخال پر اتفاق ہوا، وہیں اِن ملاقاتوں میں پیش کیے گئے سب سے انقلابی خیالات میں سے ایک کو مسترد کر دیا گیا: یعنی بینکور۔

بینکور کا تصور دنیا کے تمام ممالک کے لیے ایک مشترکہ کرنسی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

تاہم بینکور کے وجود میں آنے سے قبل ہی اس کی موت نے دنیا میں امریکی ڈالر کی بالادستی کو یقینی بنا دیا۔