بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ : جیونیوز جرگہ میں سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی کا اہم تجزیہ

انہوں نے درج ذیل سوالات کا تجزیہ کیا : 

1- امریکہ کیلئے  بڑا خطرہ چین یا روس ؟ 
2- کیا پاکستان کو بنگلہ دیش جیسے حالات کا سامنا ہوسکتا ہے ؟
3-  اسرائیلی لابی امریکہ میں اتنی مضبوط کیوں ہے ؟ 






 

مسلم امہ ، عالمی منظر اور داخلی تضادات ۔ ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی

 اس بات پر مجھے بہت خوشی ہے کہ جماعتِ اسلامی سے وابستہ اپنے بھائیوں اور بہنوں سے ملاقات کا موقع مل رہا ہے۔ میرے لیے علّامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے شہر لاہور میں آنا بھی بے پناہ خوشی کا باعث ہے، کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنھیں علّامہ اقبال کے سیکڑوں اشعار کا عربی ترجمہ زبانی یاد ہے۔ اسی دوران مجھے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مرقد پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، جن سے مجھے بے حد محبت ہے اور میں نے ان کی کتب اور ملفوظات سے بہت فیض حاصل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سیّدی مودودی کی قبر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، آمین!
ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی

مَیں چونکہ بین الاقوامی تعلقات کی کلاسیں پڑھاتا ہوں، لہٰذا ذرا گہرائی میں جا کر موجودہ عالمی سیاسی منظرنامہ کے اندر اُمتِ مسلمہ کی صورت حال پر عمومی بات کروں گا۔ دورِ حاضر میں ہم دُنیا میں زمینی سطح پر اور سمندروں میں بڑی طاقت ور عالمی قوتوں کے درمیان ایک تاریخی کش مکش کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ موجودہ عالمی سیاست میں بَرّی طاقتوں سے مراد چین، روس اور ہندستان جیسے مشرقی ممالک ہیں،جب کہ بحری طاقتوں سے مراد امریکا اور یورپ ہیں۔

عالمی منظرنامہ


گذشتہ چند عشروں میں کارفرما یک قطبی (Uni-polar)عالمی سیاست میں بین الاقوامی نظام کی باگ ڈور بلاشرکت غیرےامریکا کے ہاتھ میں رہی ہے۔ اب ہم بین الاقوامی نظام میں ایک نئی ٹوٹ پھوٹ کا مشاہدہ کررہے ہیں، اور عالمی طاقت مغرب سے مشرق کی طرف بالخصوص چین کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تزویراتی مفکرین کی اکثریت آج چین کی اُبھرتی ہوئی طاقت کے ظہور کی بات کر رہی ہے۔ ’چین کا طلوع‘ (Rise of China) ایک ایسی اصطلاح ہے، جس کی تکرار مغربی مفکرین،روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے سامنے عالمی میدان میں ایک مسابقت اور ایک کش مکش کو پروان چڑھتا دیکھ رہے ہیں، جسے سردجنگ (Cold War) کی نئی شکل بھی کہا جا سکتاہے، اوراسے پہلے سے قائم سپر پاورزاور ’نئی اُبھرتی سپرپاورز‘ (Emerging Powers )کے درمیان ہمیشہ رہنے والے ٹکراؤ سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ۔

آج ایک طرف چین اور روس کی ابھرتی طاقتیں ہیں اور دوسری طرف امریکا و یورپ روایتی سپرپاورز کے درمیان ٹکراؤ چل رہا ہے ۔اس ٹکراؤ اور کش مکش کو سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا مسلم دُنیا کے ایک ایک فرد کےلیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ان دونوں بَرّی طاقتوں اور بحری قوتوں کے درمیان پس رہے ہیں، موجودہ سپرپاورز اور نئی اُبھرتی ہوئی پاورز کے درمیان پس رہےہیں۔

چین کی ثالثی میں حماس اور فتح کا معاہدہ جو فلسطینی دھڑے بندی ختم کر سکتا ہے



بی بی سی اردو 24 جولائی 2024

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق 23 جولائی کو 14 فلسطینی گروہوں کے نمائندوں نےچین کی دعوت پر بیجنگ میں مصالحتی مذاکرات کے بعد ’تقسیم کے خاتمے اور فلسطینی قومی اتحاد کو مضبوط بنانے سے متعلق بیجنگ اعلامیے‘ پر دستخط کیے ہیں۔

14 فلسطینی گروہوں نے جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کے لیے قومی مفاہمت کی ایک عبوری حکومت بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ یہ معاہدہ بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے جس میں حماس کے سینئر نمائندے موسیٰ ابو مرزوق اور الفتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمود علول شریک تھے۔

واضح رہے کہ فتح اب غرب اردن جبکہ حماس غزہ میں برسراقتدار ہے۔ تاہم 2006 کے انتخابات میں حماس کی کامیابی اور غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ان کے تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے تھے۔

چینی دفترِ خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے اعلامیے میں ’سب سے اہم کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) فلسطینی عوام کی ’واحد نمائندہ‘ ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’مذاکرات کی سب سے اہم اور نمایاں بات غزہ کی جنگ کے بعد کی حکومت کے لیے عبوری قومی مصالحتی حکومت کے قیام پر اتفاق رائے ہے۔‘

اعلامیے میں فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت، تقسیم کے خاتمے کے لیے چین کی مخلصانہ کوششوں کو سراہا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام علاقائی اور بین الاقوامی شرکت کے ساتھ ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جانا چاہئے۔

اعلامیے میں مندرجہ ذیل نکات بھی شامل تھے:

  • اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام۔
  • غرب اردن، یروشلم اور غزہ سمیت فلسطین کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنا۔
  • تمام فلسطینی گروہوں کے اتفاق رائے اور موجودہ بنیادی قانون کے مطابق ایک عبوری قومی مصالحتی حکومت کی تشکیل۔
  • غزہ کی تعمیرِ نو اور منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق جلد از جلد عام انتخابات کی تیاری۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق ایک نئی قومی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور مشترکہ سیاسی فیصلے کرنے کے لیے ایک عارضی متحد قیادت تشکیل دی جائے گی۔

اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ اعلامیے کی شقوں پر مکمل عمل درآمد کے لیے ایک اجتماعی لائحہ عمل قائم کیا جائے گا جس پر عمل درآمد کے لیے ٹائم ٹیبل ہوگا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فلسطین کے 14 بڑے گروہوں کے نمائندوں کے علاوہ مصر، الجزائر، سعودی عرب، قطر، اردن، شام، لبنان، روس اور ترکی کے سفیروں اور نمائندوں نے اختتامی تقریب میں شرکت کی۔

 اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری کشیدگی میں چین کیا چاہتا ہے؟

اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے: عالمی عدالت انصاف

بی بی سی  20جولائی 2024
عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں آباد کاری روکے اور غزہ کی پٹی سمیت ان علاقوں سے غیرقانونی قبضہ فوری ختم کر دے۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اسے ایک جھوٹ پر مبنی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اسرائیلیوں کا وطن ہے جبکہ فلسطینیوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔

امریکہ میں ارب پتی اور بااثر افراد کی محفل جہاں مستقبل کی سمت طے ہوتی ہے

بی بی سی اردو | 13 جولائی 2024

سن ویلی امریکہ کا ایک ایسا ’سمر کیمپ‘ ہے جہاں دنیا بھر میں اثر و رسوخ رکھنے والے ارب پتی افراد کی خصوصی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔

سن ویلی میں جاری امریکہ کے بااثر کاروباری افراد اور ٹائیکونز کی ملاقاتوں کو ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے۔

امریکی صدارتی انتخاب میں صرف چار ماہ باقی رہ گئے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن جہاں بطور صدارتی امیدوار بحث کا موضوع ہیں وہیں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ آخری مباحثے میں ان کی کارکردگی کے بعد یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ارب پتیوں کے سمر کیمپ میں اس مرتبہ موضوعِ گفتگو یہ مباحثہ اور جو بائیڈن ہی ہوں گے۔

ایڈاہو کے ایک ریزورٹ ٹاؤن سن ویلی میں سرمایہ کاری بینک ایلن اینڈ کمپنی کی میزبانی میں منعقد ہونے والے اس کیمپ کا آغاز چار دہائیوں قبل ہوا تھا۔ اسے اشرافیہ کا ایک نجی اجتماع کہا جاتا ہے جس میں حصہ لینے والے تمام افراد سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔

اس سال ایمیزون کے بانی جیف بیزوس، اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹ مین، ایپل کے سی ای او ٹم کک، ڈزنی کے سی ای او باب ایگر، وارنر برادرز کے سی ای او ڈیوڈ زسلاو، مائیکروسافٹ کے شریک بانی بل گیٹس، میڈیا انٹرپرینیور شاری ریڈسٹون سمیت دیگر شخصیات اس میں شرکت کر رہے ہیں۔

بڑے بڑے تجارتی سودوں کا مقام

یہ تمام اشرافیہ سن ویلی اپنے پرائیویٹ جیٹ طیاروں پر آئے ہیں۔

سن ویلی کی سالانہ کانفرنس پہلی بار 1983 میں منعقد کی گئی تھی۔ یہاں نہ صرف بڑے بڑے تجارتی سودے کیے جاتے ہیں بلکہ بڑی بڑی جماعتوں کے رہنما اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ امریکہ کے مستقبل پر بھی تبادلہ خیال کرتے ہیں۔

کیمپ میں اس بار تفریحی کمپنیوں اور میڈیا گروپس کے سربراہان اور ٹیکنالوجی کے میدان کے با اثر اور طاقتور شخصیات بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

کیا روس، یوکرین جنگ دنیا پر امریکہ کی بالادستی اور موجودہ عالمی نظام کے خاتمے کا آغاز ہے؟

زبیر احمد
عہدہ,بی بی سی نیوز
مقام دہلی
3 مار چ 2023
یوکرین پر روس کے حملے کا دوسرا سال شروع ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ مغربی ممالک کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اس جنگ نے موجودہ عالمی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کا نظام اصولوں پر قائم ہے اور ان قوانین میں تبدیلی کے واضح آثار اب موجود ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک (امریکہ اور یورپی ممالک) انڈیا، چین، جنوبی افریقہ اور برازیل جیسے ترقی پذیر ممالک کو روسی جارحیت کے خلاف لڑنے کے لیے اپنا ساتھ دینے پر راضی کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

مغربی ممالک یوکرین پر روس کے حملے کو نہ صرف یورپ پر حملہ بلکہ جمہوری دنیا پر حملہ قرار دے رہے ہیں اور اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقتیں یوکرین پر حملے کی وجہ سے روس کی مذمت کریں۔

لیکن انڈیا اور چین کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے ترقی پذیر ممالک بھی روس اور یوکرین کی جنگ کو پوری دنیا کے لیے درد سر نہیں سمجھتے۔ یہ ممالک بڑی حد تک اس جنگ کو یورپ کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

گذشتہ برس سلوواکیہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے، انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے یورپ پر زور دیا کہ وہ اس ذہنیت سے اوپر اٹھے کہ ’یورپ کے مسائل دنیا کا درد سر ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

’عظیم تعمیرنو منصوبہ‘ اور مستقبل کی دُنیا

حسان احمد | ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن | جولائی 2024

 گذشتہ صدی کے آخر میں ’نئے عالمی نظام‘ [New World Order]، ’تہذیبوں کے تصادم‘ [Clash of Civilization] اور اختتام تاریخ [End of History] کی بحثوں کا شور برپا تھا۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصے میں مغرب میں ’عظیم تعمیرِنو‘ [The Great Reset] کی بحث نہ صرف پوری قوت سے جاری ہے بلکہ دنیا کے طاقت ور افراد کھل کر اس کے حق میں یا مخالفت میں اپنی اپنی رائے کا اظہار بھی کررہے ہیں بلکہ اپنی دولت اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر اپنے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں بھی لگے ہیں۔

دنیا کے مال دار ترین امریکی سیٹھ ایلون مسک نے گذشتہ دنوں اپنی ایکس پوسٹ میں کہا :

The True battle is Extinctionists who want a holocaust for all of Humanity. Vs Expansionists who want to reach the stars and Understand the Universe.

اصل لڑائی دو قوتوں کے درمیان ہے: ’معدومیت پسند‘ ،کہ جو پوری انسانیت کے لیے ہولوکاسٹ چاہتے ہیں، اور’ توسیع پسند‘، کہ جو ستاروں تک پہنچنا اور کائنات کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

یہ ذومعنی ’ٹویٹ‘ یا ’پوسٹ‘ گذشتہ کئی عشروں سے جاری 'تہذیبی تصادم کے تناظر میں نظر آئے گی، لیکن ایلون مسک نے اگلے ٹویٹ میں اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا:

Now Imagine if the Extinctionist philosophy is programmed into Al- No need to imagine - this is already the case with Gemini and ChatGPT.

اب ذرا تصور کریں کہ اگر ’معدومیت پسندوں‘ کے فلسفے کو ’مصنوعی ذہانت‘ [کے پروگرام] میں شامل کردیا جائے۔ [بلکہ] تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کام جیمینی [گوگل کا ’اے آئی‘ پروگرام ] اور چیٹ جی پی ٹی [Chat GPT] پہلے ہی کررہے ہیں۔

ایلون مسک نے یہ پوسٹ ایک خبر کے جواب میں کی ہے، جس کے مطابق ایک مشہور انگریزی فلم [Planet of The Apes] کے اداکاروں نے ایک انٹرویو میں کہا: ’’یوں تو وہ فلم میں انسانوں کو بندروں سے بچاتے نظر آتے ہیں، لیکن حقیقی زندگی میں وہ بندروں کے ساتھ شامل ہونا پسند کریں گے، تاکہ بندروں کے ساتھ مل کر انسانوں کا خاتمہ کرسکیں کیونکہ انسانوں نے دنیا کو برباد کردیا ہے۔ بظاہر تو یہ پوری گفتگو ہی بے معنی اور بےتکی لگتی ہے۔ لیکن صورتِ حال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایلون مسک نے ہنسی مذاق کے ماحول میں ہونے والی اس گفتگو کے پیچھے اُس اصل سوچ پر تنقید کی ہے، جو زمین کے بچائو کے لیے انسانوں کے خاتمے کی حامی ہے۔

جدید ایران کا سیاسی نظام

ایران کا سیاسی نظام کسی کے لیے پیچیدہ ہے تو کسی کے لیے غیر معمولی۔ اس میں جدید دینی طرز حکومت کو جمہوریت کے ساتھ ایک منفرد انداز میں ملایا گیا ہے۔ایران میں صدر اور پارلیمان کو تو لوگ ہی منتخب کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ غیر منتخب شدہ اداروں کا ایک نیٹ ورک قائم ہے جس کی سربراہی رہبر اعلیٰ کرتے ہیں۔


سپریم لیڈر (رہبر اعلیٰ)

ایران کے سیاسی نظام میں سب سے طاقتور عہدہ رہبر اعلیٰ یا سپریم لیڈر کا ہے اور اس عہدے پر آج تک صرف دو لوگ ہی آ سکے ہیں۔ پہلی بار یہ عہدہ سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ روح اللہ خمینی کو ملا تھا اور ان کے بعد اس پر موجودہ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای آئے تھے۔

ایرانی حکمران رضا شاہ پہلوی کی حکومت گِرانے کے بعد خمینی ؒنے اس عہدے کو ایرانی سیاسی ڈھانچے میں سب سے اہم منصب بنایا تھا۔ سپریم لیڈر ایرانی دفاعی فورسز کا کمانڈر اِن چیف بھی ہوتے ہیں اور ملک میں سکیورٹی کے معاملات پر نگرانی رکھتے ہیں۔ وہ عدلیہ کے سربراہ، اثر و رسوخ رکھنے والی نگہبان شوریٰ کے نصف ممبران، نماز جمعہ کے امام اور سرکاری ٹی وی و ریڈیو نیٹ ورکس کے سربراہان کو تعینات کرتے ہیں۔ اس رہبر اعلیٰ کے کنٹرول میں ایسے اربوں ڈالرز کے خیراتی ادارے بھی ہوتے ہیں جو ایرانی معیشت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ سنہ 1989 میں خمینی کی موت کے بعد علی خامنہ ای سپریم لیڈر بنے تھے۔ گذشتہ عرصے میں انھوں نے اپنی پوزیشن اور طاقت کو مستحکم کیا ہے اور حکمرانی کے اس نظام کو درپیش چیلنچز کو دبا کر رکھا ہے۔

صدر

ایران میں ایک صدر کو چار سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، اور کوئی بھی شخص مسلسل ادوار کے بعد تیسری بار صدر نہیں بن سکتا۔ آئین میں اس عہدے کو ملک میں دوسرا سب سے بڑا عہدہ قرار دیا گیا ہے۔ ایرانی صدر ایگزیکٹیو (امور کی انجام دہی کے ذمہ داران) کا سربراہ ہوتا ہے۔ صدر کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں آئین کی عملداری یقینی بنائی جائے۔ مقامی پالیسی اور خارجی اُمور پر صدر کا اثر و رسوخ ہوتا ہے لیکن تمام ریاستی معاملات پر سپریم لیڈر کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ تمام صدارتی امیدواروں کو نگہبان شوریٰ سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ یہ عالم دین اور قانونی ماہرین پر مبنی ایک ادارہ ہے جس میں 12 ممبران ہوتے ہیں۔ سنہ 2021 میں ہونے والے ایرانی صدارتی انتخاب کے لیے 590 افراد نے امیدوار بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر صرف سات افراد کے کاغذات نامزدگی کو منظور کیا گیا۔ خواتین کو صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ملی۔

شیعہ مراجع کی تاریخ، مذہبی حیثیت اور سیاسی اثرورسوخ

علی عثمان قاسمی اور سیمون وولف گانگ فوکث
محقق و مورخ
5 جون 2020 بی بی سی اردو 

آیت اللہ خمینی کے بعد جہاں ایران میں آیت اللہ خامنہ ای مقبول مرجع ہیں وہیں عراق کے آیت اللہ سیستانی کو ملک اور ملک سے باہر شیعوں میں مقبول مرجع تسلیم کیا جاتا ہے

لاہور کے اُردو بازار میں یوں تو بیشتر دوکانیں مدارس اہل سُنت کی کُتب نصاب، تفاسیر، قرآن اور شروحِ حدیث کی خرید و فروخت کا مرکز ہیں مگر چند ایک دکانیں ایسی بھی ہیں جہاں شیعہ فقہ، تاریخ اور تفسیر و حدیث سے متعلق کتب بھی دستیاب ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر وہ اُردو تراجم ہیں جو 1980 کی دہائی کے بعد پاکستان میں قائم ہونے والے شیعہ مدارس اور تحقیقاتی مراکز سے منسلک علما نے کیے ہیں۔ ان علما کی غالب اکثریت ایرانی شہر قُم سے فارغ التحصیل ہے۔

اگر آپ شیعہ کُتب کے تاجر سے توضیح المسائل، جو روزمرّہ کے معاملات، کاروبار، نجاست و پاکیزگی کے مسائل کے حوالے سے فقہی آرا کا مجموعہ کہلاتی ہے، طلب کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ دکاندار آپ سے دو سوالات پوچھے: آپ کِس کی تقلید میں ہیں۔ یعنی فقہی معاملات میں کِس مجتہد کے پیروکار ہیں۔

کتابی تعریف کے مطابق ہر اثناعشری شیعہ کا کِسی زندہ مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے۔ (اگرچہ کچھ ترامیم اور اضافے کے ساتھ اُس مجتہد کی تقلید بھی جاری رکھی جا سکتی ہے جو وفات پا چکا ہو)۔

اگر آپ کِسی کے مقلد ہیں جیسے کہ آیت اللہ سیستانی تو دکان دار آپ کو ان کی توضیح المسائل ہاتھ میں تھما دے گا اور اگر آپ کِسی کی تقلید میں نہیں تو دکان دار اگلا سوال پوچھے گا کہ آیا آپ کو کِسی کٹر مجتہد کی فقہی آرا درکار ہیں یا معتدل کی! اگر جواب کٹر مجتہد ہے تو پھر آپ کو ایران کے آیت اللہ خمینی یا آیت اللہ خامنہ ای کی توضیح المسائل دی جائے گی۔

امریکہ کی مخالفت کے باعث ناکام ہونے والا عالمی کرنسی کا وہ پراجیکٹ جس نے دنیا پر ڈالر کی بالادستی یقینی بنائی

گیلرمو ڈی اولمو
بی بی سی ورلڈ نیوز

یہ 1944 کے موسم گرما کی بات ہے جب نصف دہائی سے جاری دوسری عالمی جنگ کے شعلے کچھ بجھتے دکھائی دے رہے تھے اور ایڈولف ہٹلر اور اُن کے اتحادیوں کی شکست واضح ہونا شروع ہو گئی تھی۔
بریٹن ووڈس کانفرنس میں شامل مندوبین


ایسے میں امریکہ کی ریاست نیو ہیمپشائر کے علاقے بریٹن ووڈس میں 44 ممالک کے مندوبین نے ایک ایسے اجلاس میں شرکت کی جو 22 روز تک جاری رہا۔ اُن کا مقصد: پانچ سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کے بعد نئی عالمی معیشت کی بنیاد طے کرنا تھا۔ 

یہ کانفرنس تاریخ میں ’بریٹن ووڈس کانفرنس‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔

جہاں اس کانفرنس کے دوران بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یا آئی ایم ایف) کی تشکیل اور ورلڈ بینک کے خدوخال پر اتفاق ہوا، وہیں اِن ملاقاتوں میں پیش کیے گئے سب سے انقلابی خیالات میں سے ایک کو مسترد کر دیا گیا: یعنی بینکور۔

بینکور کا تصور دنیا کے تمام ممالک کے لیے ایک مشترکہ کرنسی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

تاہم بینکور کے وجود میں آنے سے قبل ہی اس کی موت نے دنیا میں امریکی ڈالر کی بالادستی کو یقینی بنا دیا۔

مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی انڈیا کی سب سے مقبول جماعت کیسے بنی؟

نیاز فاروقی

بی بی سی، نئی دہلی

6 اپريل 2022

1980 کی دہائی میں انڈیا کی معیشت تباہ کن حال میں تھی۔ سیاسی سطح پر ملک کی نام نہاد ’نچلی ذاتیں‘ اپنے حقوق مانگ رہی تھیں اور ساتھ ہی ہندوتوا کی فرقہ وارانہ سیاست انتخابی شکل اختیار کر رہی تھی۔ 1990 کی دہائی تک ملک کا ایک بڑا حصہ سڑکوں پر تھا اور وہ ایودھیا میں قائم بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کا مطالبہ کر رہا تھا۔

اس جنونی ہجوم کی قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی بنیادی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک (آر ایس ایس) کے رہنما کر رہے تھے۔ ستمبر 1990 میں بی جے پی کے سینئیر رہنما لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سوم ناتھ مندر سے ایک رتھ یاترا کی شروعات کی جس کا مقصد بابری مسجد کی جگہ رام مندر کو تعمیر کرنا تھا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی 

رتھ یاترا کے چند ہی مہینوں کے اندر بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔ ناقدین اور مداح دونوں اس رتھ یاترا کو انڈیا کی برسراقتدار جماعت بی جے پی کی تاریخ میں ایک اہم موڑ سمجھتے ہیں۔

ہندوتوا پر کئی کتابوں کے مصنف دھیریندر جھا کہتے ہیں کہ ’میرے حساب سے اگر رتھ یاترا نہ ہوتی تو بابری مسجد منہدم نہ ہوتی۔ یہ ایک اہم موڑ تھا۔ یہ ایک قسم کی لہر پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی جو بالآخر بابری مسجد کے انہدام پر ختم ہوئی اور بی جے پی کو ایک نئی شکل دی۔‘

انتخابی جمہوریت اور تحریک اسلامی ۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن 
تاریخ اشاعت : دسمبر ۲۰۲۳
آج پاکستان جس نوعیت کے معاشی ، معاشرتی، سیاسی اور ابلاغی بحران سے گزر رہا ہے سابقہ سات دہائیوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اس بحران کے گہرے اثرات ،ریاستی اداروں میں ہی نہیں بلکہ ایک عام شہری کی زندگی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔وہ کوئی تاجر ہو یا سرکاری ملازم، طالب علم اور معلم ہو یا طبیب یا کاشت کار ذہنی کش مکش نے اسے ایک شدید ذہنی انتشار (confusion ) اور سماجی تقسیم (social polarization ) میں مبتلا کر دیا ہے۔خاندان کے افراد ہوں یا ایک بازار میں ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی روابط رکھنے والے دکاندار ،جامعات کے طلبہ و اساتذہ ہوں یا فنی ماہرین ہر جگہ ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی نظر نہیں آرہی۔ اس صورت حال پر بلاکسی تاخیر کے، سنجیدگی کے ساتھ غور اور اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔اگر اس بے چینی کو بڑھنے دیا گیا، جو پاکستان دشمن قوتوں کی خواہش ہے، تو یہ بین الصوبائی کش مکش کی حد تک جا سکتی ہے جو ملکی استحکام اور یک جہتی کے لیے زہر کی حیثیت رکھتی ہے۔

ملک میں polarization یا تقسیم کا ایک ردعمل، ایک گونہ مایوسی، نا اُمیدی اور فرار کی صورت نظر آتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ہزارہا نوجوان جو آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں، ملک سے باہر حصولِ روزگار کی تلاش میں جا رہے ہیں۔یہ عمل ملک میں ذہنی افلاس اور نااُمیدی میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔حالیہ نگران حکومت اور اس سے قبل سیاسی اتحاد کی حکومت معیشت، سیاست، معاشرت، ابلاغ عامہ، ہر سطح پر سخت ناکام رہی ہے۔ عبوری حکومت نواز شریف کو دوبارہ برسرِ اقتدار لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ برسرِ اقتدار طبقے کو شاید زمینی حقائق کا اندازہ نہیں ہے ۔ ابلاغ عامہ پر مکمل قابو پانے کے باوجود، سابق وزیر اعظم جیل میں ہونے کے باوجود رائے عامہ کے جائزوں میں دیگر جماعتوں سے آگے نظر آتے ہیں ۔

کوفیہ: فلسطینی مزاحمت کی شناخت بننے والا رومال کیا ہے اور یہ اتنا مشہور کیسے ہوا؟

بی بی سی اردو   4 دسمبر 2023


سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے اور جوابی کارروائی کے طور پر غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملے نے ایک طرف تباہی اور موت کی کہانیوں کو جنم دیا ہے تو دوسری جانب دنیا بھر میں دونوں اطراف کے حق میں یا صرف خطے میں امن کے قیام کے لیے مظاہرے بھی شروع ہوئے۔


فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں شریک افراد، چاہے وہ عرب ہوں یا نہ ہوں، کو روایتی کوفیہ پہنچے دیکھا گیا۔ کسی نے اسے سر پر اوڑھا تو کسی نے گردن میں کوفیہ ڈال کر فلسطین کی حمایت کا اظہار کیا۔

کوفیہ کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ یقینا یہ ایک سادہ رومال سے بڑھ کر ہے۔ بہت سے فلسطینیوں کے لیے یہ مزاحمت اور جدوجہد کی علامت اور ایک ایسا سیاسی اور ثقافتی آلہ ہے جس کی اہمیت میں 100 سال کے دوران اضافہ ہوا ہے۔

کچھ لوگ اسے فلسطین کا ’غیر سرکاری پرچم‘ بھی کہتے ہیں۔

لیکن اس مخصوص کپڑے کی کہانی کیا ہے اور اس کی علامتی حیثیت اور اہمیت کی کہانی کیا ہے؟

کوفیہ کا آغاز


چند مورخین کے مطابق کوفیہ کی ابتدا ساتویں صدی عیسوی میں عراق کے شہر کوفہ سے ہوئی اور اسی کی وجہ سے کوفیہ کا نام پڑا۔ ایک اور وضاحت کے مطابق کوفیہ اسلام سے پہلے ہی وجود رکھتا تھا۔

سچ جو بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ اس کے استعمال میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ لیکن ابتدا میں اس کی وجوہات سیاسی یا ثقافتی نہیں تھیں۔

بالفور اعلامیہ: سادہ کاغذ پر لکھے گئے 67 الفاظ جنھوں نے مشرق وسطیٰ کی تاریخ بدل ڈالی

بی بی سی اردو ۲نومبر ۲۰۲۳م 

ایک سادہ کاغذ پر لکھے 67 الفاظ نے مشرق وسطی میں ایک ایسے تنازع کا آغاز کیا جو اب تک حل نہیں ہو سکا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع کے دوران، جس میں 1400 اسرائیلی اور ساڑے آٹھ ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، بالفور اعلامیہ کے 106 سال بیت چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی دستاویز تھی جس نے اسرائیل کو جنم دیا اور مشرق وسطی کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

دو نومبر 1917 کو پہلی عالمی جنگ کے دوران لکھی جانے والی اس تحریر میں پہلی بار برطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے کے بعد فلسطین پر برطانیہ کنٹرول حاصل کر چکا تھا۔

عرب اس دستاویز کو ’برطانوی دغا‘ سمجھتے ہیں کیوں کہ سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے میں انھوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ بالفور اعلامیہ کے بعد تقریباً ایک لاکھ یہودی فلسطین پہنچے تھے۔



اس اعلامیے میں کیا کہا گیا؟


یہ اعلامیہ اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر بالفور نے بیرن لیونیل والٹر روتھس چائلڈ کو بھجوایا تھا جو برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے ایک رہنما تھے۔

اس اعلامیہ میں لارڈ روتھس چائلڈ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا:

طیب اردوغان: لیموں پانی اور بیگل بریڈ فروخت کرنے والا نوجوان ترکی کا طاقتور سربراہ کیسے بنا؟

بی بی سی اردو ۲۹ مئی ۲۰۲۳م

طیب اردوغان ترکی کا طاقتور سربراہ کیسے بنا ؟
ایک عام زندگی سے آغاز کرنے کے بعد رجب طیب اردوغان آج ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ 20 سال سے ترکی کی قیادت کر رہے ہیں اور انھوں نے جدید ترک جمہوریہ کے بانی مصطفی کمال اتاترک کے بعد کسی بھی رہنما سے زیادہ اپنے ملک کی تشکیل نو کی ہے۔

اردوغان کے دو دہائیوں سے جاری اقتدار کو مئی 2023 میں ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ایک طاقتور سیاسی اتحاد کے خلاف کانٹے دار مقابلے کا سامنا تھا لیکن صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں کامیابی کے بعد اب ان کے اقتدار کا سفر تیسری دہائی تک بڑھ رہا ہے۔

فروری 1954 میں پیدا ہونے والے اردوغان کے والد ساحلی محافظ (کوسٹ گارڈ) تھے۔ جب رجب طیب اردوغان 13 سال کے تھے تو اُن کے والد نے اپنے پانچ بچوں کی بہتر پرورش کی امید میں استنبول منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔

نوجوان اردوغان نے پیسے کمانے کے لیے لیموں پانی اور تلوں والے بیگلز فروخت کیے جنھیں ترکی میں ’سمیت‘ کہا جاتا ہے۔ استنبول کی مرمرہ یونیورسٹی سے مینجمنٹ میں ڈگری حاصل کرنے سے پہلے انھوں نے ایک اسلامی سکول سے تعلیم حاصل کی۔

ان کی یونیورسٹی ڈگری اکثر تنازعات کا باعث رہی ہے، حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس یونیورسٹی کی مکمل ڈگری نہیں ہے بلکہ یہ ایک کالج ڈپلومہ کے برابر ہے۔ اردوغان نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی ہے۔

انڈیا کی سب سے مشہور کاروباری شخصیت گوتم اڈانی نے اسرائیلی بندرگاہ کا سودا اتنے مہنگے داموں کیوں کیا؟

کرتی دوبے ، نامہ نگار، بی بی سی اردو 1 فروری 2023

انڈیا کی سب سے مشہور کاروباری شخصیت گوتم اڈانی نے اسرائیل کی دوسری بڑی بندرگاہ خرید لی ہے اوراسرائیلی وزیر اعظم نے اس سودے کو اسرائیل و انڈیا کے لیے ایک ’سنگ میل‘ قرار دیا جبکہ گوتم اڈانی کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل میں مزید سرمایہ کاری کریں گے۔

یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اڈانی گروپ کو مشکلات کا سامنا ہے اور دنیا میں سرمایہ کاری پر تحقیق کرنے والی امریکی کمپنی ’ہنڈن برگ‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایشیا کی امیر ترین شخصیات کی فہرست میں اڈانی گروپ کا نام نیچے آ گیا ہے۔

اسی لیے اڈانی گروپ کی جانب سے اسرائیل کے سب سے بڑے تفریحی مقام اور دوسری بڑی تجارتی بندرگاہ کی خریداری پر خاصی لے دے ہو رہی ہے۔

یاد رہے کہ اڈانی گروپ اور اسرائیل کے درمیان یہ معاہدہ گزشتہ عشرے میں اسرائیل میں کسی بھی غیر ملکی کمپنی کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔

دنیا کے بڑے ممالک ضرورت کی اشیا دیگر ممالک سے درآمد کرنے کے بجائے ’خود کفیل‘ ہونے کی پالیسی کیوں اپنا رہے ہیں؟

بی بی سی اردو ، ۳۰ جنوری ۲۰۲۳ء 

سنہ 1989 کے اواخر میں دیوار برلن کے گرنے اور تقریباً دو سال بعد سوویت یونین کے ٹوٹنے سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور عالمگیریت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جس نے عالمی معیشت کو ایک جدید شکل دی۔

لیکن 21ویں صدی میں مختلف بحرانوں نے اس ’گلوبل ویلج‘ کہلائے جانے والی دنیا کا امتحان لیا ہے۔

سنہ 2008 میں وال سٹریٹ سے شروع ہونے والا امریکی معاشی بحران جب پوری دنیا میں پھیل گیا تو اُس کے بعد کچھ لوگوں نے معیشت کے حوالے سے مختلف ممالک کے ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے فوائد پر سوال اٹھایا۔

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور انڈیا میں نریندر مودی جیسی نئی سیاسی شخصیات نے اپنی ضروریات خود پوری کرنے یعنی خود کفیل ہونے جیسے خیال کو ترجیح دینے کے عمل کو فروغ دینا شروع کیا اور یورپ میں برطانیہ نے بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا اور یورپی یونین سے خود مختاری حاصل کر لی۔لیکن عالمگیریت کو سب سے زیادہ دھچکا کووڈ وبا سے لگا، جس کی وجہ سے بہت سے ممالک نے نہ صرف اپنی سرحدیں بند کر دیں بلکہ ماسک سے لے کر ویکسین تک جو وائرس سے نمٹنے کے لیے ضروری تھا تمام طبی آلات کی برآمد بھی روک دی تھی۔

امریکہ قرض لینے کی آخری حد پر

بی بی سی اردو 

21 جنوری 2023ء 

 امریکہ قرض لینے کی آخری حد پر: سپرپاور کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات سمیت ڈالر کی قیمت غیرمستحکم ہونے کے اندیشوں تک

جمعرات کے روز امریکہ قرض لینے کی اپنی طے شدہ آخری حد تک پہنچ گیا جس کے بعد امریکہ کے محکمہ خزانہ نے ادائیگی کے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے چند فوری اور خصوصی اقدامات اٹھائے ہیں۔

قرض کی آخری حد کو چھونے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت اب اس وقت تک مزید رقم قرض نہیں لے سکتی جب تک کانگریس قرض حاصل کرنے کی لِمٹ یعنی حد کو بڑھانے پر راضی نہ ہو جائے۔ اس وقت امریکی حکومت کی قرض حاصل کرنے کی حد تقریباً 31.4 کھرب ڈالر ہے۔

سنہ 1960 کے بعد سے سیاست دانوں نے قرض کی حد میں 78 بار اضافہ، توسیع یا نظر ثانی کی ہے۔ اگر صرف پچھلے چھ ماہ کی بات کی جائے تو تین مرتبہ اس حد پر نظر ثانی کی گئی ہے۔

لیکن اس مرتبہ صورتحال تھوڑی مختلف ہے کیونکہ کانگریس میں معاملات گذشتہ دو ہفتوں سے تناؤ کا شکار ہیں یعنی اس وقت سے جب سے ریپبلکنز نے ایوانِ نمائندگان کا کنٹرول حاصل کیا ہے اور وہ مسلسل اخراجات میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔