ادبیات اسلامی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ادبیات اسلامی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


حکومت و فرماں روائی اور غلبہ و استیلا کی دو قسمیں ہیں

• ایک ذہنی اور اخلاقی غلبہ

• دوسرا سیاسی اور مادی غلبہ

پہلی قسم کا غلبہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنی فکری قوتوں میں اتنی ترقی کر جائے کہ دوسری قومیں اسی کے افکار پر ایمان لے آئیں‘ اسی کے تخیلات‘ اسی کے معتقدات‘ اسی کے نظریات دماغوں پر چھا جائیں‘ ذہنیتیں اسی کے سانچے میں ڈھلیں‘ تہذیب اسی کی تہذیب ہو‘ علم اسی کا علم ہو‘ اسی کی تحقیق کو تحقیق سمجھا جائے اور ہر وہ چیز باطل ٹھہرائی جائے جس کو وہ باطل ٹھہرائے۔ دوسری قسم کاغلبہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنی مادی طاقتوں کے اعتبار سے اتنی قوی بازو ہو جائے کہ دوسری قومیں اس کے مقابلے میں اپنی سیاسی و معاشی آزادی کو برقرار نہ رکھ سکیں اور کلی طور پر، یا کسی نہ کسی حد تک وہ غیر قوموں کے وسائل ثروت پر قابض اور ان کے نظم مملکت پر حاوی ہو جائے۔

اس کے مقابلے میں مغلوبیت اور محکومیت کی بھی دو قسمیں ہیں:

• ایک ذہنی مغلوبیت

• دوسری سیاسی مغلوبیت

ان دونوں قسموں کی صفات کو اُن صفات کا عکس سمجھ لیجیے جو اوپر غلبے کی دو قسموں کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔

ہندستان میں اسلامی تہذیب کا انحطاط - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی



دنیائے اسلام کا بیش تر حصہ اُن ممالک پر مشتمل ہے جو صدرِ اول کے مجاہدین کی کوششوں سے فتح ہوئے ہیں۔ ان کو جن لوگوں نے فتح کیا تھاوہ ملک گیری اور حصول غنائم کے لیے نہیں بلکہ خدا کے کلمے کو دنیا میں بلند کرنے کے لیے سروں سے کفن باندھ کر نکلے تھے۔ وہ طلبِ دنیا کے بجائے طلبِ آخرت کے نشے میں سرشار تھا۔ اس لیے انھوں نے اپنے مفتوحین کو مطیع و باج گزار بنانے پر اکتفا نہ کیا، بلکہ انھیں اسلام کے رنگ میں رنگ دیا۔ ان کی پوری آبادی یا اس کے سواد اعظم کو ملتِ حنیفی میں جذب کرلیا۔ علم و عمل کی قوت سے ان میں اسلامی فکر اور اسلامی تہذیب کو اتنا راسخ کر دیا کہ وہ خود تہذیب اسلامی کے علم بردار اور علوم اسلامی کے معلم بن گئے۔ ان کے بعد وہ ممالک ہیں جو اگرچہ صدر اول کے بعد اُس عہد میں فتح ہوئے جب کہ اسلامی جوش سرد ہو چکا تھا اور فاتحین کے دلوں میں خالص جہاد فی سبیل اللہ کی روح سے زیادہ ملک گیری کی ہوس نے جگہ لے لی تھی‘ لیکن اس کے باوجود اسلام وہاں پھیلنے اور جڑ پکڑ لینے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے ان ممالک میں کلیتہً ایک قوی مذہب اور قومی تہذیب کی حیثیت حاصل کرلی۔

بدقسمتی سے ہندستان کا معاملہ ان دونوں قسم کے ممالک سے مختلف ہے۔ صدرِ اول میں اس ملک کا بہت تھوڑا حصہ فتح ہوا تھا اور اس تھوڑے سے حصے پر بھی جو کچھ اسلامی تعلیم و تہذیب کے اثرات پڑے تھے‘ ان کو باطنیت کے سیلاب نے ملیا میٹ کر دیا۔ اس کے بعد جب ہندستان میں مسلمانوں کی فتوحات کا اصلی سلسلہ شروع ہوا تو فاتحوں میں صدر اول کے مسلمانوں کی خصوصیات باقی نہیں رہی تھیں۔ انھوں نے یہاں اشاعتِ اسلام کے بجائے توسیعِ مملکت میں اپنی قوتیں صرف کیں اور لوگوں سے اطاعتِ خدا و رسول کے بجائے اپنی اطاعت اور باج گزاری کا مطالبہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدیوں کی فرماں روائی کے بعد بھی ہندستان کا سوادِ اعظم غیر مسلم رہا۔ یہاں اسلامی تہذیب جڑ نہ پکڑ سکی‘ یہاں کے باشندوں میں سے جنھوں نے اسلام قبول کیا ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا کوئی خاص انتظام نہ کیا گیا‘ نو مسلم جماعتوں میں قدیم ہندوانہ خیالات اور رسم و رواج کم و بیش باقی رہے‘ اور خود باہر کے آئے ہوئے قدیم الاسلام مسلمان بھی اہل ہند کے میل جول سے مشرکانہ طریقوں کے ساتھ رواداری برتنے اور بہت سی جاہلانہ رسوم کا اتباع کرنے لگے۔

مغربی تہذیب کی خود کشی - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


سیاست‘ تجارت‘ صنعت و حرفت اور علوم و فنون کے میدانوں میں مغربی قوموں کے حیرت انگیز اقدامات کو دیکھ کر دل اور دماغ سخت دہشت زدہ ہو جاتے ہیں۔ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید ان قوموں کی ترقی لازوال ہے‘ دنیا پر ان کے غلبے اور تسلط کا دائمی فیصلہ ہو چکا ہے‘ ربع مسکون۱؂ کی حکومت اور عناصر کی فرماں روائی کا انھیں ٹھیکہ دے دیا گیا ہے، اور ان کی طاقت ایسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگئی ہے کہ کسی کے اکھاڑے نہیں اکھڑ سکتی۔

ایسا ہی گمان ہر زمانے میں ان سب قوموں کے متعلق کیا جاچکا ہے جو اپنے اپنے وقت کی غالب قومیں تھیں۔ مصر کے فراعنہ‘ عرب کے عاد و ثمود‘ عراق کے کلدانی‘ ایران کے اکاسرہ‘ یونان کے جہانگیر فاتح‘ روم کے عالم گیر فرماں روا مسلمانوں کے جہاں کشا مجاہد‘ تاتار کے عالم سوز سپاہی‘ سب اس کرہ خاکی کے اسٹیج پر اسی طرح غلبہ و قوت کے تماشے دکھا چکے ہیں۔ ان میں سے جس جس کے کھیل کی باری آئی‘ اس نے اپنی چلت پھرت کے کرتب دکھا کر اسی طرح دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ہر قوم جب اٹھی ہے تو وہ اسی طرح دنیا پر چھا گئی ہے۔ اسی طرح اس نے چار دانگ عالم میں اپنی شوکت و جبروت کے ڈنکے بجائے ہیں۔ اسی طرح دنیا نے مبہوت ہو کر گمان کیا ہے کہ ان کی طاقت لازوال ہے، مگر جب ان کی اجل پوری ہوگئی اور حقیقت میں لازوال طاقت رکھنے والے فرماں روا نے ان کے زوال کا فیصلہ صادر کر دیا‘ تو وہ ایسے گرے کہ اکثر تو صفحۂ ہستی سے ناپید ہوگئے، اوربعض کا نام و نشان اگر دنیا میں باقی رہا بھی تو وہ اس طرح کہ وہ اپنے محکوموں کے محکوم ہوئے‘ اپنے غلاموں کے غلام بنے‘ اپنے مغلوبوں کے مغلوب ہو کر رہے

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ۔ (آل عمران۳ ۱۳۷)

لارڈ لوتھین کا خطبہ - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


جنوری کے آخری ہفتے میں علی گڑھ یونی ورسٹی کا کانووکیشن (جلسہ تقسیم اسناد) کے موقع پر لارڈ لوتھین نے جو خطبہ دیا ہے‘ وہ درحقیقت اس قابل ہے کہ ہندستان کے تعلیم یافتہ (جدید اور قدیم دونوں) اس کو گہری نظر سے دیکھیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔ اس خطبے میں ایک ایسا آدمی ہمارے سامنے اپنے دل و دماغ کے پردے کھول رہا ہے جس نے علومِ جدیدہ اور ان کی پیدا کردہ تہذیب کو دور سے نہیں دیکھا ہے بلکہ خود اس تہذیب کی آغوش میں جنم لیا ہے اور اپنی زندگی کے ۵۶ سال اسی سمندر کی غواصی میں گزارے ہیں۔ وہ پیدائشی اور خاندانی یورپین ہے‘ آکسفورڈ کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ راؤنڈ ٹیبل جیسے مشہور رسالے کا ایڈیٹر رہ چکا ہے اور قریب قریب ۲۱ سال سے سلطنتِ برطانیہ کے مہمات امور میں ذمہ دارانہ حصہ لیتا ہے۔ وہ کوئی بیرونی ناظر نہیں ہے بلکہ مغربی تہذیب کے اپنے گھر کا آدمی ہے اور وہ ہم سے بیان کرتا ہے کہ اس گھر میں اصل خرابیاں کیا ہیں‘ کس وجہ سے ہیں اور اس کے گھر کے لوگ اس وقت درحقیقت کس چیز کے پیاسے ہو رہے ہیں۔

ایک حیثیت سے یہ خطبہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے سبق آموز ہے کیونکہ اس سے ان کو معلوم ہوگا کہ مغربی علوم اور ان کی پیدا کردہ تہذیب نری تریاق ہی تریاق نہیں ہے بلکہ اس میں بہت کچھ زہر بھی ملا ہوا ہے۔ جن لوگوں نے اس معجون کو بنایا اور صدیوں استعمال کیا وہ آج خود آپ کو آگاہ کر رہے ہیں کہ خبردار اس معجون کی پوری خوراک نہ لینا۔ یہ ہمیں تباہی کے کنارے پہنچا چکی ہے اور تمھیں بھی تباہ کرکے رہے گی۔ ہم خود ایک تریاق خالص کے محتاج ہیں۔ اگرچہ ہمیں یقین کے ساتھ معلوم نہیں‘ مگر گمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ تریاق تمھارے پاس موجود ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنے تریاق کو خاک میں ملا کر ہماری زہر آلود معجون کے مزے پر لگ جاؤ۔

ترکی میں مشرق و مغرب کی کشمکش - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

خطباتِ خالدہ ادیب خانم


ترکی کی مشہور فاضل و مجاہد خاتون خالدہ ادیب خانم اب سے کچھ مدت قبل جامعہ اسلامیہ کی دعوت پر ہندستان تشریف لائیں تھیں اور انھوں نے دہلی میں چند خطبات ارشاد فرمائے تھے جن کا اردو ترجمہ جامعہ کے فاضل پروفیسر ڈاکٹر سید عابد حسین صاحب نے ترکی میں مشرق و مغرب کی کشمکش کے نام سے کیا ہے۔ ان سطور میں ہم اس مجموعہ خطبات پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالیں گے۔

دنیائے اسلام میں اس وقت دو ملک ایسے ہیں جن کو دو مختلف حیثیتوں سے مسلمانان عالم کی پیشوائی کا مرتبہ حاصل ہے۔ ذہنی حیثیت سے مصر اور سیاسی حیثیت سے ٹرکی۔

مصر کے ساتھ اممِ اسلامیہ کے تعلقات نسبتاً زیادہ گہرے ہیں‘ کیونکہ اس کی زبان ہماری بین الملی زبان‘ عربی ہے‘ اس کالٹریچر تمام دنیا کے مسلمانوں میں پھیلتا ہے‘ اس کے ذہنی اثرات چین سے مراکش تک پہنچتے ہیں‘ اوروہی مسلمانوں کے درمیان ربط اور تفاہم اور واقفیت حالات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بخلاف اس کے ترکی قوم کی مجاہدانہ زندگی‘ اور مغربی تقدمات کے مقابلے میں اس کی شجاعانہ مدافعت‘ اور ناموسِ ملی کے لیے اس کی قربانیوں کا سکہ تو بلاشبہ تمام عالم اسلامی پر بیٹھا ہوا ہے، اور اسی وجہ سے اس کو مسلمانوں میں سرداری اور پیشوائی کا منصب حاصل ہے‘ لیکن زبان کی اجنبیت‘ اور ربط وتفاہم کے فقدان نے ٹرکی اور اکثر ممالکِ اسلامیہ کے درمیان ایک گہرا پردہ حائل کر دیا ہے جس کے سبب سے ترکی قوم کے ذہنی ارتقا اور اس کی دماغی ساخت اور اس کے تمدنی‘ سیاسی‘ مذہبی اور علمی تحولات کے متعلق ہماری واقفیت بہت محدود ہے۔ خصوصاً حال کے دس بارہ برسوں میں جو انقلاب ٹرکی میں رونما ہوئے ان کے باطنی اسباب اور ان کی اصلی روح کو جاننے اور سمجھنے کا موقع تو ہم کو بہت ہی کم ملا ہے۔ بہت سے لوگ ترکوں سے سخت ناراض ہیں‘ بعض ان کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہیں‘ بعض ان کی مغربیت کو اپنی مغربیت پرستی کے لیے برہان قاطع بنائے بیٹھے ہیں، مگر مستند معلومات کسی کے پاس بھی نہیں ہیں اور جو تھوڑی بہت معلومات ہیں بھی تو وہ ٹرکی جدید کی روح کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

عقلیت کا فریب (۱) - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

 (1)عقلیت کا فریب
اسلامی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے نیم پختہ یا بالکل خام نوجوانوں کے مذہبی خیالات پر مغربی تعلیم اور تہذیب کا جو اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ اُن تحریروں اور تقریروں سے ہوسکتا ہے جو اس قسم کے لوگوں کی زبان و قلم سے آئے دن نکلتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں صوبہ متحدہ کے ایک مسلمان گریجویٹ صاحب کا ایک مضمون ہماری نظر سے گزرا جس میں انھوں نے اپنی سیاحتِ چین و جاپان کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے

’’ہمارے ساتھ جو چینی مسافر ہیں وہ انتہا کے بلا نوش اور شراب خور ہیں۔ سور کا گوشت تو ان کی جان ہے۔ اب میں نے عیسائیت کی ترقی کا راز سمجھا۔ چینی اپنے قدیم مذہب کی پیروی کونئی تعلیم کے ساتھ عار پاتا ہے۔ اس کو اسلام قبول کرنے میں تامل نہ ہوتا، اگر وہ اس کو سمجھتا ہوتا، مگر اسلام اس کو اس کی تمام مرغوب غذاؤں سے محروم کر دیتا ہے۔ چار و ناچار عیسائی ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ عجب نہیں کہ آئندہ چین کا سرکاری مذہب عیسائیت ہوجائے۔ میں سور کے گوشت کے معاملے میں اہل یورپ اور اہل چین کے نو مسلموں کے ساتھ ذرا ڈھیل دینا پسند کرتا ہوں۔ قرآن سے بھی مجھے اس کے قطعی حرام ہونے میں شک ہے۔ زیادہ بریں نیست کہ اہل عرب کے لیے کسی خاص وجہ سے حرام کر دیا گیا ہو، مگر ایسے ممالک میں جہاں اس کے بغیر (فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَاعَادٍ) ہو جائے تو کیا ہرج ہے؟

تجدد کا پائے چوبیں - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

تجدد کا پائے چوبیں
ماہ جون ۱۹۳۳ء کے نگار میں حضرت نیاز فتح پوری نے ترجمان القرآن پر ایک مفصل تبصرہ فرمایا ہے جس کے لیے میں ان کا شکرگزار ہوں۔ اگرچہ عموماً رسائل و جرائد کے انتقادات پر بحث کرنے اور ان پر جوابی نقد کرنے کا دستور نہیں ہے لیکن چونکہ ناقد فاضل نے اپنے تبصرے میں ایسے خیالات کا اظہار کیا ہے جو اُن کے مذہب تجدد کے مخصوص اصول و مبادی سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی اصلاح کرناترجمان القرآن کے اولین مقاصد میں سے ہے‘ اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان پر اظہار خیال کے پہلے موقع سے فائدہ اٹھاؤں۔ وہ لکھتے ہیں

اس رسالے کا مقصود اس کے نام سے ظاہر ہے‘ یعنی مطالبِ قرآنی اور تعلیماتِ فرقانی کو ان کی صحیح روشنی میں لوگوں کے سامنے پیش کرنا۔ یقیناًاس مقصود کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا، لیکن جیسا کہ خود فاضل اڈیٹر نے ظاہر کیا ہے‘ عہد حاضر میں اس مدّعا کی تکمیل آسان نہیں۔ عہد ماضی میں جب مذہب نام صرف اسلاف پرستی و قدامت پرستی کا تھا‘ کسی شخص کا مبلغ یا مصلح بن جانا دشوار نہ تھا، لیکن اب جب کہ علوم جدیدہ اور اکتشافاتِ حاضرہ نے عمل و خیال کی بالکل نئی طرح ڈال کرحریت فکر و ضمیر کی دولت سے دماغوں کو مالا مال کردیا ہے‘ مذہب صرف اس دلیل کی بنیاد پر زندہ نہیں رہ سکتا کہ اس کے اسلاف کا طرز عمل بھی یہی تھا‘ اور وہ بھی وہی سوچتے تھے جو اَب بتایا جاتا ہے۔

ہمارے نظام تعلیم کا بنیادی نقص - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


مسلم یونی ورسٹی کورٹ نے اپنے گزشتہ سالانہ اجلاس (منعقدہ اپریل ۱۹۳۶ء) میں ایک ایسے اہم مسئلے کی طرف توجہ کی ہے جو ایک عرصے سے توجہ کا محتاج تھا‘ یعنی دینیات اورعلوم اسلامیہ کے ناقص طرز تعلیم کی اصلاح اور یونی ورسٹی کے طلبا میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کی ضرورت۔


جہاں تک جدید علوم و فنون اور ادبیات کی تعلیم کا تعلق ہے حکومت کی قائم کی ہوئی یونی ورسٹیوں میں اس کا بہتر سے بہتر انتظام موجود ہے۔ کم از کم اتنا ہی بہتر جتنا خود علی گڑھ میں ہے۔ محض اس غرض کے لیے مسلمانوں کواپنی ایک الگ یونی ورسٹی قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ ایک مستقل قومی یونی ورسٹی قائم کرنے کا تخیل جس بنا پر مسلمانوں میں پیدا ہوا اور جس بنا پر اس تخیل کو مقبولیت حاصل ہوئی وہ صرف یہ ہے کہ مسلمان جدید علوم سے استفادہ کرنے کے ساتھ ’مسلمان‘ بھی رہنا چاہتے ہیں۔ یہ غرض سرکاری کالجوں اوریونی ورسٹیوں سے پوری نہیں ہوتی۔ اسی کے لیے مسلمانوں کو اپنی ایک اسلامی یونی ورسٹی کی ضرورت ہے۔ اگر ان کی اپنی یونی ورسٹی بھی یہ غرض پوری نہ کرے، اگر وہاں سے بھی ویسے ہی گریجویٹ نکلیں جیسے سرکاری یونی ورسٹیوں سے نکلتے ہیں‘ اگر وہاں بھی محض دیسی صاحب لوگ یا ہندی وطن پرست یا اشتراکی ملاحدہ ہی پیدا ہوں‘ تو لاکھوں روپیہ کے صَرف سے ایک یونی ورسٹی قائم کرنے اور چلانے کی کون سی خاص ضرورت ہے۔

ملت کی تعمیر نو کا صحیح طریقہ - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


اصلاح اور انقلاب دونوں کا مقصد کسی بگڑی ہوئی حالت کا بدلنا ہوتا ہے، لیکن دونوں کے محرکات اورطریق کار میں اساسی فرق ہوا کرتا ہے۔ اصلاح کی ابتدا غور و فکر سے ہوتی ہے، ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچ بچار کرکے انسان حالات کا جائزہ لیتا ہے‘ خرابی کے اسباب پر غور کرتا ہے‘ خرابی کے حدود کی پیمائش کرتا ہے، اس کے ازالے کی تدبیریں دریافت کرتا ہے، اور اُس کو دور کرنے کے لیے صرف اسی حد تک تخریبی قوت استعمال کرتا ہے‘ جس حد تک اس کا استعمال ناگزیر ہو۔ بخلاف اس کے انقلاب کی ابتدا غیظ و غضب اور جوشِ انتقام کی گرمی سے ہوتی ہے۔ خرابی کے جواب میں ایک دوسری خرابی مہیا کی جاتی ہے، جس بے اعتدالی سے بگاڑ پیدا ہوا تھا اس کا مقابلہ ایک دوسری بے اعتدالی سے کیا جاتا ہے، جو برائیوں کے ساتھ اچھائیوں کو بھی غارت کر دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بسا اوقات ایک اصلاح پسند کو بھی وہی کرنا پڑتا ہے جو ایک انقلاب پسند کرتا ہے۔ دونوں نشتر لے کر جسم کے ماؤف حصے پر حملہ آور ہوتے ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ اصلاح پسند پہلے اندازہ کرلیتا ہے کہ خرابی کہاں ہے اور کتنی ہے۔ پھر نشتر کو اسی حد تک استعمال کرتا ہے جس حد تک خرابی کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے اور نشتر کے ساتھ ساتھ مرہم بھی تیار رکھتا ہے، لیکن انقلاب پسند اپنے جوشِ غضب میں آنکھیں بند کرکے نشتر چلاتا ہے‘اچھے برے کا امتیاز کیے بغیر کاٹتا چلا جاتا ہے‘ اور مرہم کا خیال اگر اس کے دل میں آتا بھی ہے تو اس وقت جب خوب قطع و برید کر لینے اور جسم کے ایک اچھے خاصے حصے کو غارت کر چکنے کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔

بغاوت کا ظہور - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


قوم دو طبقوں پر مشتمل ہوا کرتی ہے

• ایک طبقہ عوام

• دوسرا طبقہ خواص

طبقہ عوام اگرچہ کثیر التعداد ہوتا ہے‘ اور قوم کی عددی قوت اسی طبقے پر مبنی ہوتی ہے‘ لیکن سوچنے اور رہنمائی کرنے والے دماغ اس گروہ میں نہیں ہوتے۔ نہ یہ لوگ علم سے بہرہ ور ہوتے ہیں‘ نہ ان کے پاس مالی قوت ہوتی ہے‘ نہ یہ جاہ و منزلت رکھتے ہیں‘ نہ حکومت کا اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے قوم کو چلانا ان لوگوں کاکام نہیں ہوتا‘ بلکہ محض چلانے والوں کے پیچھے چلنا ان کاکام ہوتا ہے۔ یہ خود راہیں بنانے اور نکالنے والے نہیں ہوتے بلکہ جو راہیں ان کے لیے بنا دی جاتی ہیں انھی پر چل پڑتے ہیں۔ راہیں بنانے اور ان پر پوری قوم کے چلانے والے دراصل خواص ہوتے ہیں جن کی ہر بات اور ہر روش اپنی پشت پر دماغ‘ دولت‘ عزت اور حکمت کی طاقتیں رکھتی ہے اور قوم کو طوعاً و کرہاً انھی کی پیروی کرنی پڑتی ہے۔ پس یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ قوم کی اصلی طاقت اس کے عوام نہیں بلکہ خواص ہوتے ہیں۔ انھی پر قوم کے بننے اور بگڑنے کا مدار ہوتا ہے۔ ان کی راست روی پوری قوم کی راست روی پر اور ان کی گمراہی پوری قوم کی گمراہی پر منتج ہوتی ہے۔ جب کسی قوم کی بہتری کے دن آتے ہیں تو ان میں ایسے خواص پیدا ہوتے ہیں جو خود راہ راست پر چلتے اور پوری قوم کو اس پر چلاتے ہیں:

وَجَعَلَٰنھُمْ اَءِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْھِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ۔(الانبیاء ۔۲۱۷۳)

[اور ہم نے ان کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے انھیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی ہدایت کی۔]

اجتماعی فساد - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


قرآن مجید میں ایک قاعدہ کلیہ یہ بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے کہ کسی قوم کو خواہ مخواہ برباد کردے، دراں حالیکہ وہ نیکوکار ہو:

وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّ اَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ۔ (ہود۱۱ ۱۱۷) 

[اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ظلم سے تباہ کر دے حالانکہ اس کے باشندے نیک عمل کرنے والے ہوں۔]

ہلاک و برباد کر دینے سے مراد صرف یہی نہیں کہ بستیوں کے طبقے الٹ دیے جائیں‘ اور آبادیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے بلکہ اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قوموں کا شیرازہ بکھیر دیا جائے‘ ان کی اجتماعی قوت توڑ دی جائے‘ ان کو محکوم و مغلوب اور ذلیل و خوار کر دیا جائے۔ قائدہ مذکور کی بنا پر بربادی اور ہلاکت کی جملہ اقسام میں سے کوئی قسم بھی کسی قوم پر نازل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ خیر و صلاح کے راستے کو چھوڑ کر شر و فساد اور سرکشی و نافرمانی کے طریقوں پر نہ چلنے لگے اور اس طرح خود اپنے اوپر ظلم نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قاعدے کو ملحوظ رکھ کر جہاں کہیں کسی قوم کو مبتلائے عذاب کرنے کا ذکر فرمایا ہے‘ وہاں اس کا جرم بھی ساتھ ساتھ بیان کر دیا ہے تاکہ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ وہ ان کی اپنی ہی شامتِ اعمال ہے جو اُن کی دنیا اور آخرت دونوں کو خراب کرتی ہے

ایمان اور اطاعت - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

ایمان اور اطاعت
اجتماعی نظم خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو، اور کسی غرض و غایت کے لیے ہو‘ اپنے قیام و استحکام اور اپنی کامیابی کے لیے دو چیزوں کا ہمیشہ محتاج ہوتا ہے

٭ ایک یہ کہ جن اصولوں پر کسی جماعت کی تنظیم کی گئی ہو وہ اس پوری جماعت اور اس کے ہر فردکے دل و دماغ میں خوب بیٹھے ہوئے ہوں اور جماعت کا ہر فرد اُن کو ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتا ہو۔

٭ دوسرے یہ کہ جماعت میں سمع و اطاعت کا مادہ موجودہو‘ یعنی اس نے جس کسی کو اپنا صاحب امر تسلیم کیا ہو‘ اس کے احکام کی پوری طرح اطاعت کرے‘ اس کے مقرر کیے ہوئے ضوابط کی سختی کے ساتھ پابند رہے‘ اور اس کی حدود سے تجاوز نہ کرے۔

یہ ہر نظام کی کامیابی کے لیے ناگزیر شرطیں ہیں۔ کوئی نظام خواہ وہ نظام عسکری ہو‘ یا نظام سیاسی‘ یا نظام عمرانی‘ یا نظام دینی‘ ان دونوں شرطوں کے بغیر نہ قائم ہوسکتاہے‘ نہ باقی رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مقصد کو پہنچ سکتا ہے۔

مسلمان کا حقیقی مفہوم - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

مسلمان کا حقیقی مفہوم
ہماری روز مرہ کی بول چال میں بعض ایسے الفاظ اور فقرے رائج ہیں جن کو بولتا تو ہر شخص ہے‘مگر سمجھتے بہت کم ہیں۔ کثرتِ استعمال نے ان کا ایک اجمالی مفہوم لوگوں کے ذہن نشین کر دیا ہے۔ بولنے والا جب ان الفاظ کو زبان سے نکالتا ہے تو وہی مفہوم مراد لیتا ہے، اور سننے والا جب انھیں سنتا تو اسی مفہوم کو سمجھتا ہے، لیکن وہ گہرے معانی جن کے لیے واضع نے ان الفاظ کو وضع کیا تھا‘ جہلا تو درکنار اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی معلوم نہیں ہوتے۔

مثال کے طور پر ’اسلام‘ اور ’مسلمان‘ کو لیجیے۔ کس قدرکثرت سے یہ الفاظ بولے جاتے ہیں اور کتنی ہمہ گیری کے ساتھ انھوں نے ہماری زبانوں پر قبضہ کرلیا ہے؟ مگر کتنے بولنے والے ہیں جو ان کو سوچ سمجھ کربولتے ہیں؟ اور کتنے سننے والے ہیں جو انھیں سن کر وہی مفہوم سمجھتے ہیں جس کے لیے یہ الفاظ وضع کیے گئے تھے؟ غیر مسلموں کو جانے دیجیے۔ خود مسلمانوں میں ۹۹فی صدی بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی ایسے ہیں جو اپنے آپ کو’مسلمان‘ کہتے ہیں اور اپنے مذہب کو اسلام کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ مسلمان ہونے کے معنی کیا ہیں اور لفظ ’اسلام‘ کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ آئیے آج تھوڑا سا وقت ہم انھی الفاظ کی تشریح میں صَرف کریں۔

اعتقاد اور عمل کے لحاظ سے اگر آپ لوگوں کے احوال پر نگاہ ڈالیں گے تو عموماً تین قسم کے لوگ آپ کو ملیں گے:

مسلمان کی طاقت کا اصلی منبع - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

مسلمان کی طاقت کا اصلی مبع
دوسری صدی ہجری کی ابتدا کا واقعہ ہے کہ سجستان در حج ۱؂ کے فرماں رواں نے جس کا خاندانی لقب رتبیل تھا، بنی امیہ کے عمال کو خراج دینا بند کر دیا۔ پیہم چڑھائیاں کی گئیں، مگر وہ مطیع نہ ہوا۔ یزید بن عبدالمالک اموی کے عہد میں جب اس کے پاس طلبِ خراج کے لیے سفارت بھیجی گئی تو اس نے مسلمانوں کے سفرا سے دریافت کیا:

“وہ لوگ کہاں گئے جو پہلے آیا کرتے تھے؟ ان کے پیٹ فاقہ زدوں کی طرح پٹخے ہوئے ہوتے تھے۔ پیشانیوں پر سیاہ گٹے پڑے رہتے تھے اور کھجوروں کی چپلیں پہنا کرتے تھے۔”

کہا گیا کہ وہ لوگ تو گزر گئے۔

رتبیل نے کہا:

“اگرچہ تمھاری صورتیں ان سے زیادہ شان دار ہیں‘ مگر وہ تم سے زیادہ عہد کے پابند تھے، تم سے زیادہ طاقت وَر تھے۔”

مورخ لکھتا ہے کہ یہ کہہ کر رتبیل نے خراج ادا کرنے سے انکار کر دیا اور تقریباً نصف صدی تک اسلامی حکومت سے آزاد رہا۔

یہ اس عہد کا واقعہ ہے جب تابعین و تبع تابعین کثرت سے موجود تھے۔ ائمہ مجتہدین کا زمانہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کو صرف ایک صدی گزری تھی۔ مسلمان ایک زندہ اور طاقت وَر قوم کی حیثیت سے دنیا پر چھا رہے تھے‘ ایران‘ روم‘ مصر‘ افریقہ‘ اسپین وغیرہ ممالک کے وارث ہو چکے تھے اور ساز و سامان‘ شان و شوکت‘ اور دولت و ثروت کے اعتبار سے اس وقت دنیا کی کوئی قوم ان کی ہم پلہ نہ تھی۔ یہ سب کچھ تھا۔ دلوں میں ایمان بھی تھا، احکام شریعت کی پابندی اب سے بہت زیادہ تھی‘ سمع و طاعت کا نظام قائم تھا،پوری قوم میں ایک زبردست ڈسپلن پایا جاتا تھا، مگر پھر بھی جو لوگ عہد صحابہ کے فاقہ کش، خستہ حال صحرا نشینوں سے زور آزمائی کر چکے تھے، انھوں نے ان سروسامان والوں اور ان بے سروسامانوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق محسوس کیا۔ یہ کس چیز کا فرق تھا؟

فلسفہ تاریخ والے اس کو محض بداوت و حضریت کے فرق پر محمول کریں گے۔ وہ کہیں گے کہ پرانے بادیہ نشین زیادہ جفا کش تھے اور بعد کے لوگوں کو دولت اور تمدن نے عیش پسند بنا دیا تھا، مگر میں کہوں گا کہ یہ فرق دراصل ایمان‘ خلوص نیت‘ اخلاق اور اطاعت خدا اور رسولؐ کا فرق تھا۔ مسلمانوں کی اصلی قوت یہی چیزیں تھیں‘ ان کی قوت نہ کثرت تعداد پر مبنی تھی‘ نہ اسباب و آلات کی افراط پر‘ نہ مال و دولت پر‘ نہ علوم و صناعات کی مہارت پر‘ نہ تمدن و حضارت کے لوازم پر۔وہ صرف ایمان و عمل صالح کے بل پر ابھرے تھے۔ اسی چیز نے ان کو دنیا میں سربلند کیا تھا۔ اسی نے قوموں کے دلوں میں ان کی دھاک اور ساکھ بٹھا دی تھی۔ جب قوت و عزت کا یہ سرمایہ ان کے پاس تھا تو یہ قلت تعداد اور بے سروسامانی کے باوجود طاقت وَر اور معزز تھے، اور جب یہ سرمایہ ان کے پاس کم ہو گیا تو کثرت تعداد اور سروسامان کی فراوانی کے باوجود کمزور اور بے وقعت ہوتے چلے گئے۔

رتبیل نے ایک دشمن کی حیثیت سے جو کچھ کہا وہ دوستوں اور ناصحوں کے ہزار وعظوں سے زیادہ سبق آموز ہے۔ اس نے دراصل یہ حقیقت بیان کی تھی کہ کی قوم کی اصلی طاقت اس کی آراستہ فوجیں‘ اس کے آلات جنگ‘ اس کے خوش رو، خوش پوش سپاہی‘ اور اس کے وسیع ذرائع و وسائل نہیں ہیں‘ بلکہ اس کے پاکیزہ اخلاق‘ اس کی مضبوط سیرت‘ اس کے صحیح معاملات‘ اور اس کے بلند تخیلات ہیں۔ یہ طاقت وہ روحانی طاقت ہے جو مادی وسائل کے بغیر دنیا میں اپنا سکہ چلا دیتی ہے۔ خاک نشینوں کو تخت نشینوں پر غالب کر دیتی ہے۔ صرف زمینوں کا وارث ہی نہیں بلکہ دلوں کا مالک بھی بنا دیتی ہے۔ اس طاقت کے ساتھ کھجور کی چپلیاں پہننے والے‘ سوکھی ہڈیوں والے‘ بے رونق چہروں والے، چیتھڑوں میں لپٹی ہوئی تلواریں رکھنے والے لوگ دنیا پر وہ رعب‘ وہ سطوت و جبروت‘ وہ قدر و منزلت، وہ اعتبار و اقتدار جما دیتے ہیں جو اس طاقت کے بغیر شان دار لباس پہننے والے‘ برے ڈیل ڈول والے‘ بارونق چہروں والے‘ اونچی بارگاہوں والے‘ بڑی بڑی منجنیقیں اور ہولناک دبابے رکھنے والے نہیں جما سکتے۔ اخلاقی طاقت کی فراوانی مادی وسائل کے فقدان کی تلافی کر دیتی ہے، مگر مادی وسائل کی فراوانی اخلاقی طاقت کے فقدان کی تلافی کبھی نہیں کرسکتی۔ اس طاقت کے بغیر محض مادی وسائل کے ساتھ اگر غلبہ نصیب ہو بھی گیا تو ناقص اور عارضی ہو گا۔ کامل اور پائدار نہ ہوگا۔ دل کبھی مسخر نہ ہوں گے۔ صرف گردنیں جھک جائیں گی، اور وہ بھی اکڑنے کے پہلے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے مستعد رہیں گی۔

کسی عمارت کا استحکام اُس کے رنگ و روغن‘ نقش و نگار‘ زینت و آرائش صحن و چمن اور ظاہری خوش نمائی سے نہیں ہوتا۔ نہ مکینوں کی کثرت‘ نہ ساز و سامان کی افراط اور اسباب و آلات کی فراوانی اس کو مضبوط بناتی ہے۔ اگر اس کی بنیادیں کمزور ہوں‘ دیواریں کھوکھلی ہوں‘ ستونوں کو گھن لگ جائے‘ کڑیاں اور تختے بوسیدہ ہو جائیں تو اس کو گرنے سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی‘ خواہ وہ مکینوں سے خوب معمور ہو‘ اور اس میں کروڑوں روپے کا مال و اسباب بھرا پڑا ہو‘ اور اس کی سجاوٹ نظروں کو لبھاتی اور دلوں کو موہ لیتی ہو۔ تم صرف ظاہر کو دیکھتے ہو۔ تمھاری نظریں مد نظر پر اٹک کر رہ جاتی ہیں۔ مگر حوادث زمانہ کا معاملہ نمائشی مظاہر سے نہیں بلکہ اندرونی حقائق سے پیش آتا ہے۔ وہ عمارت کی بنیادوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ دیواروں کی پختگی کا امتحان لیتے ہیں۔ ستونوں کی استواری کو جانچتے ہیں۔ اگرچہ یہ چیزیں مضبوط اور مستحکم ہوں تو زمانے کے حوادث ایسی عمارت سے ٹکرا کر پلٹ جائیں گے اور وہ ان پر غالب آجائے گی خواہ وہ زینت و آرائش سے یکسر محروم ہو، ورنہ حوادث کی ٹکریں آخر کار اس کو پاش پاش کرکے رہیں گی اور وہ اپنے ساتھ مکینوں اور اسبابِ زینت کو بھی لے بیٹھے گی۔

ٹھیک یہی حال حیات قومی کا بھی ہے۔ ایک قوم کو جو چیز زندہ اور طاقت وَر اور سر بلند بناتی ہے وہ اس کے مکان‘ اس کے لباس‘ اس کی سواریاں‘ اس کے اسباب عیش‘ اس کے فنونِ لطیفہ‘ اس کے کارخانے‘ اس کے کالج نہیں ہیں‘ بلکہ وہ اصول ہیں جن پر اس کی تہذیب قائم ہوتی ہے‘ اور پھر ان اصولوں کا دلوں میں راسخ ہونا اور اعمال پر حکمران بن جانا ہے۔ یہ تین چیزیں یعنی اصول کی صحت‘ ان پر پختہ ایمان اور عملی زندگی پر ان کی کامل فرماں روائی‘ حیاتِ قومی میں وہی حیثیت رکھتی ہیں جو ایک عمارت میں اس کی مستحکم بنیادوں‘ اس کی پختہ دیواروں اور اس کے مضبوط ستونوں کی ہے۔ جس قوم میں یہ تینوں چیزیں بدرجہ اتم موجود ہوں وہ دنیا پر غالب ہو کر رہے گی۔ اس کا کلمہ بلند ہوگا‘ خدا کی زمین میں اس کا سکہ چلے گا‘ دلوں میں اس کی دھاک بیٹھے گی‘ گردنیں اس کے حکم کے آگے جھک جائیں گی اور اس کی عزت ہوگی‘ خواہ وہ جھونپڑیوں میں رہتی ہو‘ پھٹے پرانے کپڑے پہنتی ہو‘ فاقوں سے اس کے پیٹ پٹخے ہوئے ہوں‘ اس کے ہاں ایک بھی کالج نہ ہو‘ اس کی بستیوں میں ایک بھی دھواں اڑانے والی چمنی نظر نہ آئے‘ اور علوم و صناعات میں وہ بالکل صفر ہو۔ تم جن چیزوں کو سامانِ ترقی سمجھ رہے ہو وہ محض عمارت کے نقش و نگار ہیں‘ اس کے قوائم و ارکان نہیں ہیں۔ کھوکھلی دیواروں پر اگر سونے کے پترے بھی چڑھا دو گے تو وہ ان کو گرنے سے نہ بچا سکیں گے۔

یہی بات ہے جس کو قرآن مجید بار بار بیان کرتا ہے۔ وہ اسلام کے اصولوں کے متعلق کہتا ہے کہ وہ اس اٹل اور غیر متغیر فطرت کے مطابق ہیں جس پر خدا نے انسان کو پیداکیا ہے۔ اس لیے جو دین ان اصولوں پر قائم کیا گیا ہے وہ دین قیم ہے۔ یعنی ایسا دین جو معاش و معاد کے جملہ معاملات کو ٹھیک ٹھیک طریقوں پر قائم کر دینے والا ہے

فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاط فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَاط لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِط ذٰلِکَ الدِّیْنَ الْقَیِّمُ ق وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ (الروم۳۰۳۰)

پس (اے نبیؐ اور نبیؐ کے پیروؤ!) یک سو ہو کر اپنا رخ اِس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہوجاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

پھر وہ کہتا ہے کہ اس دین قیم پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ‘ اس پر ایمان لاؤ اور اس کے مطابق عمل کرو۔ اس کا نتیجہ خود بخود ظاہر ہوگا کہ دنیا میں تم ہی سربلند ہو گے‘ تم ہی کو زمین کا وارث بنایا جائے گا‘ تم ہی خلعتِ خلافت سے سرفراز ہوگے

۱۔ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ۔ (الانبیاء۲۱۱۰۵)

[زمین کے وارث ہمارے نیک بند ہوں گے۔]

۲۔ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ (آل عمران۳ ۱۳۹)

[تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔]

۳۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ۔ (النور۲۴۵۵)

[اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنائے گا۔]

۴۔ وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ‘ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ۔ (المائدہ۵ ۵۶)

[اور جو اللہ اور اُس کے رسولؐ اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنالے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے۔]

بخلاف اس کے جو لوگ بظاہر دین کے دائرے میں داخل ہیں‘ مگر دین نہ تو ان کے دلوں میں بیٹھا ہے اور نہ ان کی زندگی کا قانون بنا ہے‘ ان کے ظاہر تو بہت شان دار ہیں وَاِذَا رَاَیْتَھُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُھُمْ(۶۳۴) اور ان کی باتیں بہت مزیدار ہیں وَاِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِھِمْ۔(۶۴۴)،مگر حقیقت میں وہ لکڑی کے کندے ہیں جن میں جان نہیںکَاَنَّھُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ(۶۳۴) وہ خدا سے بڑھ کر انسانوں سے ڈرتے ہیں یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْاَشَدَّ خَشْیَۃً۔(۴۷۷)۔ ان کے اعمال سراب کی طرح ہیں کہ دیکھنے میں پانی نظر آئیں مگر حقیقت میں کچھ نہیں اَعْمَالُھُمْ کَسَرَابٍ بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَاءً حَتّٰی اِذَا جَاءَ ہ‘ لَمْ یَجِدْہُ شَیْءًا(۲۴ ۳۹)۔ ایسے لوگوں کو اجتماعی قوت کبھی نصیب نہیں ہوسکتی‘ کیونکہ ان کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ خلوص نیت کے ساتھ کسی کام میں اشتراک عمل نہیں کرسکتے بَاْسُھُمْ بَیْنَھُمْ شَدِیْدٌ تَحْسَبُھُمْ جَمِیْعًا وَّ قُلُوْ بُھُمْ شَتّٰی۔(۵۹۴)۔ان کو وہ قوت ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی جو صرف مومنین صالحین کا حصہ ہے۔ لَایُقَاتِلُوْ نَکُمْ جَمِیْعًا اِلاَّ فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوْمِنْ وَّرَاءِ جُدُرٍ(۵۹۱۴)۔ ان کو دنیا کی امامت کا منصب کبھی نہیں ملے گا قَالَ لَایَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ(۲۱۲۴)۔ ان کے لیے بجز اس کے اور کوئی انجام نہیں کہ دنیا میں بھی ذلت و خواری اور آخرت میں بھی عذاب و عقاب لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَھُمْ فِی الْآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (۲۱۱۴)

آپ تعجب کریں گے کہ قرآن نے مسلمانوں کی ترقی اور ان کے ایک حکمراں جماعت بننے اور سب پر غالب آجانے کا ذریعہ صرف ایمان و عمل صالح کو قرار دیا، اور کہیں یہ نہیں کہا کہ تم یونی ورسٹیاں بناؤ‘ کالج کھولو‘ کارخانے قائم کرو‘ جہاز بناؤ‘ کمپنیاں قائم کرو‘ بینک کھولو‘ سائنس کے آلات ایجاد کرو‘ اور لباس‘ معاشرت‘ انداز و اطوار میں ترقی یافتہ قوموں کی نقل کرو۔ نیز اس نے تنزل و انحطاط اور دنیا و آخرت کی ذلت اوررسوائی کا واحد سبب بھی نفاق کو ٹھہرایا، نہ کہ ان اسباب کے فقدان کو جنھیں آج کل دنیا اسباب ترقی سمجھتی ہے،لیکن اگر آپ قرآن کی اسپرٹ کو سمجھ لیں تو آپ کا یہ تعجب خود رفع ہو جائے گا۔

سب سے پہلی بات جس کا سمجھنا ضروری ہے یہ ہے کہ ’مسلمان‘ جس شے کا نام ہے اس کا قوام بجز اسلام کے اور کوئی چیز نہیں ہے۔ مسلم ہونے کی حیثیت سے اس کی حقیقت صرف اسلام سے متحقق ہوتی ہے۔ اگر وہ اس پیغام پر ایمان رکھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور ان قوانین کا اتباع کرے جن کو آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے نازل کیا گیا ہے‘ تو اس کا اسلام متحقق ہو جائے گا خواہ ان چیزوں میں کوئی چیز اس کے ساتھ شامل نہ ہو جو اسلام کے ماسوا ہیں۔ بخلاف اس کے اگر وہ ان تمام زیوروں سے آراستہ ہو جو زینتِ حیاتِ دنیا کے قبیل سے ہیں، مگر ایمان اس کے دل میں نہ ہو اور قوانین اسلامی کے اتباع سے اس کی زندگی خالی ہو تو وہ گریجویٹ ہوسکتا ہے‘ ڈاکٹر ہوسکتا ہے‘ کارخانہ دار ہوسکتا ہے‘ بینکر ہو سکتا ہے‘ جنرل یا امیر البحر ہوسکتا ہے‘ مگر مسلمان نہیں ہوسکتا۔ پس کوئی ترقی کسی مسلمان شخص یا قوم کی ترقی نہ ہوگی جب تک کہ سب چیزوں سے پہلے اس شخص یا قوم میں حقیقت اسلامی متحقق نہ ہو جائے۔ اس کے بغیر وہ ترقی خواہ کسی اورکی ترقی ہو مسلمان کی ترقی نہ ہوگی‘ اور ایسی ترقی ظاہر ہے کہ اسلام کا نصب العین نہیں ہوسکتی۔

پھر ایک بات تو یہ ہے کہ کوئی قوم سرے سے مسلمان نہ ہو‘ اور اس کے افکار و اخلاق اور نظامِ اجتماعی کی اساس اسلام کے سوا کسی اورچیز پر ہو۔ ایسی قوم کے لیے بلاشبہ یہ ممکن ہے کہ یہ ان اخلاقی‘ سیاسی‘ معاشی اور عمرانی اصولوں پر کھڑی ہوسکے جو اسلام سے مختلف ہیں‘ اور اس ترقی کے منتہیٰ کو پہنچ جائے جس کو وہ اپنے نقطہ نظر سے ترقی سمجھتی ہو، لیکن یہ بالکل ایک امر دیگر ہے کہ کسی قوم کے افکار‘ اخلاق‘ تمدن‘ معاشرت‘ معیشت اور سیاست کی بنیاد اسلام پر ہو‘ اور اسلام ہی میں وہ عقیدے اور عمل دونوں کے لحاظ سے ضعیف ہو۔ ایسی قوم مادی ترقی کے وسائل خواہ کتنی ہی کثرت اور فراوانی کے ساتھ مہیا کرلے‘ اس کا ایک مضبوط اور طاقت وَر قوم کی حیثیت سے اٹھنا اور دنیا میں سربلند ہونا قطعاً غیر ممکن ہے کیونکہ اس کی قومیت اور اس کے اخلاق اور تہذیب کی اساس جس چیز پر ہے‘ وہی کمزور ہے اور اساس کی کمزوری ایسی کمزوری ہے جس کی تلافی محض اوپری زینت کے سامان کبھی نہیں کرسکتے۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علوم و فنون اور مادی ترقی کے وسائل کی جائز اہمیت سے انکار ہے۔ مطلب صرف یہ ہے کہ مسلمان قوم کے لیے یہ تمام چیزیں ثانوی درجے پر ہیں۔ اساس کا استحکام ان سب پر مُقدّم ہے۔ وہ جب مستحکم ہو جائے تو مادی ترقی کے وہ تمام وسائل اختیار کیے جاسکتے ہیں اور کیے جانے چاہییں جو اس بنیاد کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں لیکن اگر وہی مضمحل ہو‘ دل میں اسی کی جڑیں کمزور ہوں اور زندگی پر اس کی گرفت ڈھیلی ہو‘ تو انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے قوم کے اخلاق کا فاسد ہونا سیرتوں کا بگڑ جانا‘ معاملات کا خراب ہو جانا‘ نظام اجتماعی کا سست ہونا اور قوتوں کا پراگندہ ہو جانا ناگزیر ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوسکتا ہے کہ قوم کی طاقت کمزور ہو جائے اور بین الملی قوتوں کے ترازو میں اس کا پلڑا روز بروز ہلکا ہوتا چلا جائے یہاں تک کہ دوسری قومیں اس پر غالب آجائیں۔ ایسی حالت میں مادی اسباب کی فراوانی اور سند یافتہ فضلا کی افراط اور خارجی زیب و زینت کی چمک دمک کسی کام نہیں آسکتی۔

ان سب سے بڑھ کر ایک اور بات بھی ہے۔ قرآن حکیم نہایت وثوق کے ساتھ کہتا ہے کہ

تم ہی سربلند ہوگے اگر تم مومن ہو، اور اللہ کی پارٹی والے ہی غالب ہوں گے اور جو لوگ ایمان اور عمل صالح سے آراستہ ہوں گے ان کو زمین کی خلافت ضرور ملے گی‘‘۔(۳۱۳۹۔۵۵۶۔۲۴۵۵)

اس وثوق کی بنیاد کیا ہے؟ کس بنا پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دوسری قومیں خواہ کیسے ہی مادی وسائل کی مالک ہوں ان پر مسلمان صرف ایمان اورعمل صالح کے اسلحے سے غالب آئیں گے؟

اس عقدے کو خود قرآن حل کرتا ہے:

۱۔ یَٰاَیُّھَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہ‘ط اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہ‘ط وَاِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَیْءًا لاَّ یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ط ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُo مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖط اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ (الحج۔۲۲۷۳۔۷۴)

[لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے۔ اس کو غور سے سنو۔ خدا کو چھوڑ کر تم جن چیزوں کو پکارتے ہو، وہ ایک مکھی تک کو پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں اگرچہ وہ سب اس کام کے لیے مل کر زور لگائیں اور اگر ایک مکھی اُن سے کوئی چیز چھین لے تو اس سے وہ چیز چھڑا لینے کی قدرت بھی ان میں نہیں۔ مطلوب بھی ضعیف اور اس کا طالب بھی ضعیف۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسی کرنی چاہیے تھی حالانکہ درحقیقت اللہ ہی قدرت اورعزت والا ہے۔]

۲۔ مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِج اِتَّخَذَتْ بَیْتًاط وَاِنَّ اَوْھَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِ۔ (العنکبوت۲۹۴۱)

[جن لوگوں نے خدا کے سوا دوسروں کو کار ساز ٹھہرایا‘ ان کی مثال ایسی ہے جیسے مکڑی کہ وہ گھر بناتی ہے حالانکہ سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا گھرہے۔]

مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مادی طاقتوں پر اعتماد کرتے ہیں‘ ان کا اعتماد دراصل ایسی چیزوں پر ہے جو بذاتِ خود کسی قسم کی بھی قوت نہیں رکھتیں۔ ایسے بے زوروں پر اعتماد کرنے کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی ویسے ہی بے زور ہو جاتے ہیں جیسے ان کے سہارے بے زور ہیں۔ وہ اپنے نزدیک جو مستحکم قلعے بناتے ہیں وہ مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہیں۔ ان میں کبھی یہ طاقت ہو ہی نہیں سکتی کہ ان لوگوں کے مقابلے میں سر اٹھا سکیں جو حقیقی قدر و عزت رکھنے والے خدا پر اعتماد کرکے اٹھیں

فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوْثْقٰیق لَاانْفِصَامَ لَھَا۔ (البقرہ۲ ۲۵۶)

[جوطاغوت کو چھوڑ کر اللہ پر ایمان لے آیا اس نے مضبوط رسی تھام لی جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے۔]

قرآن دعوے کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ جب کبھی اہل ایمان اور اہل کفر کا مقابلہ ہوگا تو غلبہ اہلِ ایمان کو حاصل ہوگا:

۱۔ وَلَوْ قٰتَلَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَایَجِدُوْنَ وَلِیَّا وَّ لَا نَصِیْرًا o سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً۔(الفتح۴۸ ۲۲۔۲۳)

[اور اگر وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ہے تم سے جنگ کریں گے تو ضرور پیٹھ پھیر جائیں گے اور کوئی یارومددگار نہ پائیں گے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے اور تم کبھی اللہ کی سنت میں تغیر نہ پاؤ گے۔]

۲۔ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا۔ (آل عمران۳۱۵۱)

[ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے کیونکہ انھوں نے خدائی میں اُن چیزوں کو شریک کرلیا ہے جن کو خدا نے کوئی تمکن نہیں بخشا ہے۔]

اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص خدا کی طرف سے لڑتا ہے اس کے ساتھ خدائی طاقت ہوتی ہے اور جس کے ساتھ خدائی طاقت ہو اُس کے مقابلے میں کسی کا زور چل ہی نہیں سکتا۔

ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰی لَھُمْ۔ (محمد۴۷۱۱)

وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ج (الانفال۸۱۷)

[یہ اس لیے کہ ایمان داروں کا مددگار تو اللہ ہے اور کافروں کا مددگار کوئی نہیں۔ جب تو نے تیر پھینکا تو وہ تو نے نہیں پھینکا بلکہ خدا نے پھینکا۔]

یہ تو مومن صالح کی سطوت کا حال ہے۔ دوسری طرف یہ بھی خدا کا قانون ہے کہ جو شخص ایمان دار ہوتا ہے‘ جس کی سیرت پاکیزہ ہوتی ہے، جس کے اعمال نفسانیت کی آلودگیوں سے پاک ہوتے ہیں‘ جو ہوائے نفس اور اغراضِ نفسانی کے بجائے خدا کے مقرر کیے ہوئے قانون کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے‘ اس کی محبت دلوں میں بیٹھ جاتی ہے‘ دل آپ ہی آپ اس کی طرف کھنچنے لگتے ہیں‘ نگاہیں اس کی طرف احترام سے اٹھتی ہیں، معاملات میں اس پر اعتماد کیا جاتا ہے‘ دوست تو دوست دشمن تک اُس کو صادق سمجھتے ہیں اور اس کے عدل‘ اُس کی عفت اور اس کی وفا شعاری پر بھروسہ کرتے ہیں

۱۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۔(مریم۱۹ ۹۶)

[جو لوگ ایمان لے آئے اور جنھوں نے نیک عمل کیے‘ اللہ ان کی محبت دلوں میں ڈال دے گا۔]

۲۔ یُثَبِتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ۔ (ابراہیم۱۴۲۷)

[ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کے ساتھ جما دیتا ہے‘ دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔]

۳۔ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ‘ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ (النحل۱۶ ۹۷)

[جو کوئی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور اس کے ساتھ وہ مومن بھی ہو تو ہم ضرور اس کو بہترین زندگی بسر کرائیں گے اور ان بہترین اعمال کا اجر دیں گے جو وہ کرتے رہے۔]

مگر یہ سب کس چیز کے نتائج ہیں؟ محض زبان سے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہنے کے نہیں‘ مسلمانوں کے سے نام رکھ لینے اور معاشرت کے چند مخصوص اطوار اختیار کرنے اور چند گنی چنی رسمیات ادا کرلینے کے نہیں۔ قرآن حکیم ان نتائج کے ظہور کے لیے ایمان اور عمل صالح کی شرط لگاتا ہے۔ اس کا منشا یہ ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کی حقیقت تمھارے قلب و روح میں اس قدر جاگزیں ہوجائے کہ تمھارے تخیلات و افکاراور اخلاق و معاملات سب پر اسی کا غلبہ ہو‘ تمھاری ساری زندگی اسی کلمہ طیبہ کے معنوی قالب میں ڈھل جائے‘ تمھارے ذہن میں کوئی ایسا خیال راہ نہ پاسکے جو اس کلمے کے معنی سے مختلف ہو اور تم سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جو اس کلمے کے مقتضی کے خلاف ہو۔ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہْ کو زبان سے ادا کرنے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ تمھاری زندگی میں اس کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو جائے۔ تمھاری رگ رگ میں تقویٰ کی روح سرایت کر جائے۔ اللہ کے سوا تمھاری گردن کسی طاقت کے آگے نہ جھکے۔ اللہ کے سوا تمھارا ہاتھ کسی کے آگے نہ پھیلے۔ اللہ کے سوا کسی کا خوف تمھارے دل میں نہ رہے۔ تمھاری محبت اور تمھارا بغض اللہ کے سوا کسی اور کے لیے نہ ہو۔ اللہ کے قانون کے سوا تمھاری زندگی پرکسی اور کا قانون نافذ نہ ہو۔ تم اپنے نفس اور اس کی ساری خواہشوں اور اس کے تمام مرغوبات و محبوبات کو اللہ کی خوشنودی پر قربان کر دینے کے لیے ہر وقت تیار رہو۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے مقابلے میں تمھارے پاس سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ]ہم نے سنا اور اطاعت کی[ کے سوا کوئی اور قول و فعل نہ ہو۔ جب ایسا ہوگا تو تمھاری قوت صرف تمھارے اپنے نفس اور جسم کی قوت نہ ہو گی، بلکہ اُس اَحکَمُ الْحَاکَمِیْن کی قوت ہوگی جس کے آگے زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً و کرہاً سربسجود ہے اور تمھاری ذات اس نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ کے جلووں سے منور ہو جائے گی جو تمام عالم کا حقیقی محبوب و معشوق ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عہد میں یہی چیز مسلمانوں کو حاصل تھی۔ پھر اس کا نتیجہ جو کچھ ہوا‘ تاریخ کے اوراق اس پر شاہد ہیں۔ اس زمانے میں جس نے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہکہا اس کی کایا پلٹ گئی۔ مس خام سے یکایک وہ کندن بن گیا۔ اس کی ذات میں ایسی کشش پیدا ہوئی کہ دل اس کی طرف کھینچنے لگے۔ اس پر جس کی نظر پڑتی وہ محسوس کرتا کہ گویا تقویٰ اور پاکیزگی اور صداقت کو مجسم دیکھ رہا ہے۔ وہ ان پڑھ‘ مفلس‘ فاقہ کش‘ پشمینہ پوش اور بوریا نشین ہوتا‘ مگر پھر بھی اس کی ہیبت دلوں میں ایسی بیٹھتی کہ بڑے بڑے شان و شوکت والے فرماں رواؤں کو نصیب نہ تھی۔ ایک مسلمان کا وجود گویا ایک چراغ تھا کہ جدھر وہ جاتا اس کی روشنی اطراف و اکناف میں پھیل جاتی اور اس چراغ سے سیکڑوں ہزاروں چراغ روشن ہو جاتے۔ پھر جو اس روشنی کو قبول نہ کرتا اور اس سے ٹکرانے کی جرأت کرتا تو اس کو جلانے اور فنا کر دینے کی قوت بھی اس میں موجود تھی۔

ایسی ہی قوت ایمانی اور طاقت و سیرت رکھنے والے مسلمان تھے کہ جب وہ ساڑھے تین سو سے زیادہ نہ تھے تو انھوں نے تمام عرب کو مقابلے کا چیلنج دے دیا، اور جب وہ چند لاکھ کی تعداد کو پہنچے تو ساری دنیا کو مسخر کرلینے کے عزم سے اٹھ کھڑے ہوئے اور جو قوت ان کے مقابلے پر آئی پاش پاش ہوگئی۔

جیسا کہ کہا جاچکا ہے مسلمانوں کی اصلی طاقت یہی ایمان اور سیرت صالحہ کی طاقت ہے جو صرف ایک لا الہ الا اللہ کی حقیقت دل میں بیٹھ جانے سے حاصل ہوتی ہے، لیکن اگر یہ حقیقت دل میں جاگزیں نہ ہو‘ محض زبان پر یہ الفاظ جاری ہوں مگر ذہنیت اور عملی زندگی میں کوئی انقلاب برپا نہ ہو‘ لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی انسان وہی کا وہی رہے جو اس سے پہلے تھا اور اس میں اور لاالہ الا اللہ کا انکار کرنے والوں میں اخلاقی و عملی حیثیت سے کوئی فرق نہ ہو‘ وہ بھی انھی کی طرح غیراللہ کے آگے گردن جھکائے اور ہاتھ پھیلائے‘ انھی کی طرح غیر اللہ سے ڈرے اور غیر خدا کی رضا چاہے اور غیر خدا کی محبت میں گرفتار ہو‘ انھی کی طرح ہوائے نفس کا بندہ ہو اور قانون الٰہی کو چھوڑ کر انسانی قوانین‘ یا اپنے نفس کی خواہشات کا اتباع کرے‘ اس کے خیالات اور ارادوں اور نیتوں میں بھی وہی گندگی ہو جو ایک غیر مومن کے خیالات‘ ارادات اور نیات میں ہوسکتی ہے اور اس کے اقوال و افعال و معاملات بھی ویسے ہی ہوں جیسے ایک غیر مومن کے ہوتے ہیں تو پھر مسلمان کو نا مسلمان پر فوقیت کس بنا پر ہو؟ اورروح ایمان اور روح تقویٰ نہ ہونے کی صورت میں ایک مسلمان ویسا ہی ایک بشر تو ہے جیسا ایک نامسلمان ہے۔ اس کے بعد مسلم اور غیر مسلم کا مقابلہ صرف جسمانی طاقت اور مادی وسائل ہی کے اعتبار سے ہوگا‘ اور اس مقابلے میں جو طاقت وَر ہوگا وہ کمزور پر غالب آجائے گا۔

ان دونوں حالتوں کا فرق تاریخ کے صفحات میں اتنا نمایاں ہے کہ ایک نظر میں دیکھا جاسکتا ہے، یا تو مٹھی بھر مسلمانوں نے بڑی بڑی حکومتوں کے تختے الٹ دیے تھے اور اٹک کے کنارے سے لے کر اٹلانٹک کے سواحل تک اسلام پھیلا دیا تھا، یا اَب کروڑوں مسلمان دنیا میں موجود ہیں اور غیر مسلم طاقتوں سے دبے ہوئے ہیں۔ جن آبادیوں میں کروڑوں مسلمان بستے ہیں اور ان کو بستے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں وہاں اب بھی کفر و شرک موجود ہے۔

(ترجمان القرآن، شوال ۱۳۵۳ھ۔ جنوری ۱۹۳۴ء)


کیش مرداں نہ کہ مذہب گوسفنداں - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

کیش مرداں نہ کہ مذہب گو سفنداں
مسئلہ سود پر میرے مضامین کو دیکھ کر ایک خیال کا بار بار اظہارکیا گیا ہے کہ ’’موجودہ زمانے میں سرمایہ داری نظام‘ سیاسی طاقت کے ساتھ ہمارے گرد و پیش کی پوری معاشی دنیا پر مسلط ہو چکا ہے۔ معیشت کی گاڑی اصول سرمایہ داری کے پہیوں پر چل رہی ہے‘ سرمایہ دار ہی اس کو چلا رہے اور وہی قومیں اس کے ذریعے سے منزلِ ترقی کی طرف بڑھ رہی ہیں جن کے لیے پیدایشِ دولت اور صَرفِ دولت کے باب میں کوئی مذہبی یا اخلاقی قیدنہیں ہے۔ دوسری طرف ہماری اجتماعی قوت منتشر ہے۔ دنیا کے نظم معیشت کو بدلنا تو درکنار ہم خود اپنی قوم میں بھی اسلامی نظمِ معیشت کو از سر نو قائم کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اب اگر ہماری مذہبی قیود ہم کو زمانے کے چلتے ہوئے نظام معاشی میں پورا پورا حصہ لینے سے روک دیں تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ ہماری قوم معاشی ترقی و خوش حالی کے ذرائع سے فائدہ اٹھانے میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائے گی۔ ہم مفلس ہوتے جائیں گے اور ہمسایہ قومیں دولت مند ہوتی چلی جائیں گی۔ پھر ہماری یہ معاشی کمزوری ہم کو سیاسی‘ اخلاقی اور تمدنی حیثیت سے بھی ذلیل اور پست کرے گی۔ یہ محض وہم اور اندیشہ نہیں ہے بلکہ واقعات کی دنیا میں یہی نتیجہ ہم کونظر آرہا ہے‘ برسوں سے نظر آرہا ہے‘ اور مستقبل میں ہمارا جو کچھ انجام ہونے والا ہے اس کے آثار کچھ ایسے دھندلے نہیں ہیں کہ ان کو نہ دیکھا جاسکتا ہو۔ پس ہم کو محض شریعت کا قانون بتانے سے کیا فائدہ؟ اسلام کے معاشی اصول بیان کرنے سے کیا حاصل؟ ہم کو یہ بتاؤ کہ ان حالات میں اسلامی قانون کی پابندی کے ساتھ ہمارے لیے اپنی معاشی حالت کو سنبھالنے اور ترقی کی منزلیں طے کرنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟ اگر نہیں ہے تو دو صورتوں میں سے ایک صورت یقیناًپیش آئے گی

۱۔ یا تو مسلمان بالکل تباہ ہو جائیں گے۔

۲۔ یا پھر وہ بھی دوسری قوموں کی طرح مجبور ہوں گے کہ ایسے تمام قوانین کی پابندی سے آزاد ہو جائیں جو زمانے کا ساتھ نہیں دے سکتے۔

یہ سوال صرف مسئلہ سود ہی تک محدود نہیں ہے۔ دراصل اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اگر زندگی کے تمام شعبوں میں سے محض معیشت ہی کا شعبہ ایسا ہوتا جس پر ایک غیر اسلامی نظام مسلط ہوگیا ہوتا تو شاید معاملہ نسبتاً بہت ہلکا ہوتا، مگر واقعات کی شہادت کچھ اور ہے۔ اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نظر ڈالیے۔ خود اپنے حالات کا جائزہ لے کر دیکھیے۔ زندگی کا کون سا شعبہ ایسا پایا جاتا ہے جس پر غیر اسلام کا تسلط نہیں ہے؟کیا اعتقادات اور افکار و تخیلات پر الحاد و دہریت یا کم از کم شک و ریب کا غلبہ نہیں؟ کیا تعلیم پر ناخدا شناسی کی حکومت نہیں؟ کیا تمدن و تہذیب پر فرنگیت کا استیلا نہیں؟ کیا معاشرت کی جڑوں تک میں مغربیت اتر نہیں گئی ہے؟ کیا اخلاق اس کے غلبے سے محفوظ ہیں؟ کیا معاملات اس کے تسلط سے آزاد ہیں؟ کیا قانون اور سیاست اور حکومت کے اصول و فروع نظریات اور عملیات میں سے کوئی چیز بھی اس کے اثر سے پاک ہے؟

جب حال یہ ہے تو آپ اپنے سوال کو معیشت اور اس کے بھی صرف ایک پہلو تک کیوں محدود رکھتے ہیں؟ اس کو وسیع کیجیے، پوری زندگی پر پھیلا دیجیے۔ یوں کہیے کہ زندگی کے دریا نے اپنا رخ بدل دیا ہے۔ پہلے وہ اس راستے پر بہہ رہا تھا جو اسلام کا راستہ تھا، اب وہ اس راستے پر بہہ رہا ہے جو غیر اسلام کا راستہ ہے۔ ہم اس کے رخ کو بدلنے کی قوت نہیں رکھتے۔ ہم میں اتنی قوت بھی نہیں کہ اس کی رو کے خلاف تیر سکیں۔ ہم کو ٹھہرنے میں بھی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ اب ہمیں کوئی ایسی صورت بتاؤ کہ ہم مسلمان بھی رہیں اور اس دریا کے بہاؤ پر اپنی کشتی کو چھوڑ بھی دیں‘ عازمِ کعبہ بھی رہیں اور اس قافلے کا ساتھ بھی نہ چھوڑیں جو ترکستان کی طرف جا رہا ہے۔ ہم اپنے خیالات‘ نظریات‘ مقاصدِ اصول حیات اور مناہج عمل میں نا مسلمان بھی ہوں اور پھر مسلمان بھی ہوں۔ اگر ان اضداد کو جمع کرنے کی کوئی صورت تم نے نہ نکالی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تم ہم اسی دریا کے ساحل پر مر رہیں گے‘ یا پھر یہ اسلام کا لیبل جو ہماری کشتی پرلگا ہوا ہے ایک دن کھرچ ڈالا جائے گا اور یہ کشتی بھی دوسری کشتیوں کے ساتھ دریا کے دھارے پر بہتی نظر آئے گی۔

ہمارے روشن خیال اور ’تجدد پسند‘ حضرات جب کسی مسئلے پر گفتگو فرماتے ہیں تو ان کی آخری حجت‘ جو اِن کے نزدیک سب سے قوی حجت ہے‘ یہ ہوتی ہے کہ زمانے کا رنگ یہی ہے‘ ہوا کا رخ اسی طرف ہے‘ دنیا میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پھر ہم اس کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں اور مخالفت کرکے زندہ کیسے رہ سکتے ہیں۔اخلاق کا سوال ہو، وہ کہیں گے کہ دنیا کا معیارِ اخلاق بدل چکا ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ مسلمان اس پرانے معیارِ اخلاق پر کیسے قائم رہیں؟ پردے پر بحث ہو، ارشاد ہوگا کہ دنیا سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ مراد یہ ہوئی کہ جو چیز دنیا سے اٹھ چکی ہے اس کو مسلمان کیسے نہ اٹھائیں۔ تعلیم پر گفتگو ہو، ان کی آخری دلیل یہ ہوگی کہ دنیا میں اسلامی تعلیم کی مانگ ہی نہیں۔ مدّعا یہ کھلا کہ مسلمان بچے وہ جنس بن کر کیسے نکلیں جس کی مانگ نہیں ہے اور وہ مال کیوں نہ بنیں جس کی مانگ ہے۔ سود پر تقریر ہو، ٹیپ کا بند یہ ہو گا کہ اب دنیا کاکام اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ گویا مسلمان کسی ایسی چیز سے احتراز کیسے کرسکتے ہیں جو اب دنیا کاکام چلانے کے لیے ضروری ہوگئی ہے۔ غرض یہ کہ تمدن‘ معاشرت‘ اخلاق‘ تعلیم‘ معیشت‘ قانون‘ سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں سے جس شعبے میں بھی وہ اصولِ اسلام سے ہٹ کر فرنگیت کا اتباع کرنا چاہتے ہیں‘ اس کے لیے زمانے کا رنگ اور ہوا کا رخ اور دنیا کی رفتار وہ آخری حجت ہوتی ہے جو اس تقلیدِ مغربی یادرحقیقت اس جزوی ارتداد کے جواز پر برہان قاطع سمجھ کر پیش کی جاتی ہے‘ اور خیال کیا جاتا ہے کہ عمارتِ اسلامی کے اجزا میں سے ہر اس جز کو ساقط کر دینا فرض ہے جس پر اس دلیل سے حملہ کیا جائے۔

ہم کہتے ہیں کہ شکست و ریخت کی یہ تجویزیں جن کو متفرق طور پر پیش کرتے ہو‘ ان سب کو ملا کر ایک جامع تجویز کیوں نہیں بنا لیتے؟ مکان کی ایک ایک دیوار، ایک ایک کمرے اور ایک ایک دالان کو گرانے کی علیحدہ علیحدہ تجویزیں پیش کرنے‘ اور ہر ایک پر فردًافردًابحث کرنے میں فضول وقت ضائع ہوتا ہے۔ کیوں نہیں کہتے کہ یہ پورا مکان گرا دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا رنگ زمانے کے رنگ سے مختلف ہے‘ اس کا رخ ہوا کے رخ سے پھرا ہوا ہے اور اس کی وضع اُن مکانوں سے کسی طرح نہیں ملتی جو اَب دنیا میں بن رہے ہیں۔

جن لوگوں کے حقیقی خیالات یہی ہیں اُن سے تو بحث کرنا فضول ہے۔ ان کے لیے تو صاف اور سیدھا سا جواب یہی ہے کہ اس مکان کو گرانے اور اس کی جگہ دوسرا مکان بنانے کی زحمت آپ کیوں اٹھاتے ہیں؟ جو دوسرا خوش وضع‘ خوش نما‘ خوش رنگ مکان آپ کو پسند آئے اس میں تشریف لے جائیے۔ اگر دریا کے دھارے پر بہنے کا شوق ہے تو اس کشتی کا لیبل کھرچنے کی تکلیف بھی کیوں اٹھائیے؟ جو کشتیاں پہلے سے بہہ رہی ہیں انھی میں سے کسی میں نقل مقام فرما لیجیے۔ جو لوگ اپنے خیالات‘ اپنے اخلاق‘ اپنی معاشرت‘ اپنی معیشت‘ اپنی تعلیم‘ غرض اپنی کسی چیز میں بھی مسلمان نہیں ہیں اور مسلمان رہنا نہیں چاہتے اُن کے برائے نام مسلمان رہنے سے اسلام کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے۔ وہ خدا پرست نہیں‘ ہوا پرست ہیں۔اگر دنیا میں بت پرستی کا غلبہ ہو جائے تو یقیناًوہ بتوں کو پوجیں گے۔ اگر دنیا میں برہنگی کا رواج عام ہو جائے تو یقیناًوہ اپنے کپڑے اتار پھینکیں گے۔ اگر دنیا نجاستیں کھانے لگے تو یقیناًوہ کہیں گے کہ نجاست ہی پاکیزگی ہے اور پاکیزگی تو سراسر نجاست ہے۔ ان کے دل اور دماغ غلام ہیں اور غلامی ہی کے لیے گھڑے گئے ہیں۔ آج فرنگیت کا غلبہ ہے‘ اس لیے اپنے باطن سے لے کر ظاہر کے ایک ایک گوشے تک وہ فرنگی بننا چاہتے ہیں۔ کل اگر حبشیوں کا غلبہ ہو جائے تو یقیناًوہ حبشی بنیں گے۔ اپنے چہروں پر سیاہیاں پھیریں گے‘ اپنے ہونٹ موٹے کریں گے‘ اپنے بالوں میں حبشیوں کے سے گھونگھر پیدا کریں گے‘ ہر اس شے کی پوجا کرنے لگیں گے جو حبش سے ان کو پہنچے گی۔ ایسے غلاموں کی اسلام کو قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ بخدا اگر کروڑوں کی مردم شماری میں سے ان سب منافقوں اور غلام فطرت لوگوں کے نام کٹ جائیں اور دنیا میں صرف چند ہزار وہ مسلمان رہ جائیں جن کی تعریف یہ ہو کہ

یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ‘ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاءِمٍ۔ (المائدہ۵۵۴)

[وہ اللہ کے محبوب ہوں اور اللہ ان کا محبوب ہو‘ مسلمانوں کے لیے نرم اور کافروں پر سخت ہوں‘ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہوں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا انھیں خوف نہ ہو۔]

تو اسلام اب سے بدرجہا زیادہ طاقت وَر ہوگا اور ان کروڑوں کا نکل جانا اس کے حق میں ایسا ہوگا جیسے کسی مریض کے جسم سے پیپ اور کچ لہو نکل جائے۔

نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآءِرَۃٌ۔ (المائدہ۵۵۲

[ہم کو خوف ہے کہ ہم پر مصیبت آجائے گی۔]

یہ آج کوئی نئی آواز نہیں ہے۔ بہت پرانی آواز ہے جو منافقوں کی زبان سے بلند ہوتی رہی ہے۔ یہی آواز نفاق کی اس بیماری کا پتہ دیتی ہے جو دلوں میں چھپی ہوئی ہے۔ اسی آواز کو بلند کرنے والے ہمیشہ مخالفین اسلام کے کیمپ کی طرف لپکتے رہے ہیں۔ ہمیشہ سے انھوں نے اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کو پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق ہی سمجھا ہے۔ ہمیشہ سے ان کو احکام خدا و رسولؐ کا اتباع گراں ہی گزرتا رہا ہے۔ اطاعت میں جان و مال کا زیاں اور نافرمانی میں حیاتِ دنیا کی ساری کامرانیاں ہمیشہ سے ان کو نظر آتی رہی ہیں۔ پس ان کی خاطر خدا کی شریعت کو نہ ابتدا میں بدلا گیا تھا‘ نہ اب بدلا جاسکتا ہے‘اور نہ کبھی بدلاجائے گا۔ یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے، نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے‘ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک‘ اور پانی کے بہاؤ پر پہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ اُن بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہوں‘ جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاؤ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہوں‘ جو صبغۃ اللّٰہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہاؤ پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینش کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس راستے پر رواں کر دے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست ہے‘ صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رخ اس راستے سے پھیر دیا ہے تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے کے لیے راضی ہو جائے۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے‘ وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا‘ اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صَرف کر دے گا‘ کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پروا نہ ہوگی‘ وہ ہر اس نقصان کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو‘ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں، اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہو جائیں‘ اور پانی کی موجیں اس کو نیم جاں کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں‘ تب بھی اس کی روح ہرگز شکست نہ کھائے گی‘ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔

قرآن تمھارے سامنے ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں تمھارے سامنے ہیں۔ ابتدا سے لے کر آج تک کے علم بردار ان اسلام کی زندگیاں تمھارے سامنے ہیں۔ کیا ان سب سے تم کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہوا جدھر اڑائے ادھر اڑ جاؤ؟ پانی جدھر بہائے ادھر بہہ جاؤ؟ زمانہ جو رنگ اختیار کرے اسی رنگ میں رنگ جاؤ؟ اگر مدعا یہی ہوتا تو کسی کتاب کے نزول اور کسی نبی ؑ کی بعثت کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ہوا کی موجیں تمھاری ہدایت کے لیے اور حیاتِ دنیا کا بہاؤ تمھاری رہنمائی کے لیے اور زمانے کی نیرنگیاں تمھیں گرگٹ کی روش سکھانے کے لیے کافی تھیں۔ خدا نے کوئی کتاب ایسی ناپاک تعلیم دینے کے لیے نہیں بھیجی اور نہ اس غرض کے لیے کوئی نبی مبعوث کیا۔ اس ذات حق کی طرف سے تو جو پیغام بھی آیا ہے اس لیے آیا ہے کہ دنیا جن غلط راستوں پر چل رہی ہے ان سب کو چھوڑ کر ایک سیدھا راستہ مقرر کرے‘ اس کے خلاف جتنے راستے ہوں ان کو مٹائے‘ اوردنیا کو ان سے ہٹانے کی کوشش کرے‘ ایمان داروں کی ایک جماعت بنائے جو نہ صرف خود اس سیدھے راستے پر چلیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کریں۔ انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین نے ہمیشہ اسی غرض کے لیے جہاد کیا ہے۔ اس جہاد میں اذیتیں اٹھائی ہیں۔ نقصان برداشت کیے ہیں اور جانیں دی ہیں۔ ان میں سے کسی نے مصائب کے خوف یا منافع کے لالچ سے رفتار زمانہ کو کبھی اپنا مقتدا نہیں بنایا۔ اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ہدایتِ آسمانی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں نقصان اورمشکلات اور خطرات دیکھتا ہے اور ان سے خوف زدہ ہو کر کسی ایسے راستے پر جانا چاہتا ہے جس پر چلنے والے اس کو خوشحال‘ کامیاب اور سربلند نظر آتے ہیں‘ تو وہ شوق سے اپنے پسندیدہ راستے پر جائے، مگر وہ بزدل اور حریص انسان اپنے نفس کو اور دنیا کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب اور اس کے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کربھی اس کا پیرو ہے؟ نافرمانی خود ایک بڑا جرم ہے۔ اس پر جھوٹ اور فریب اور منافقت کا اضافہ کرکے آخر کیا فائدہ اٹھانا مقصود ہے؟

یہ خیال کہ زندگی کا دریا جس رخ بہہ گیا ہے اس سے وہ پھیرا نہیں جاسکتا عقلاً بھی غلط ہے اور تجربہ و مشاہدہ بھی اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ دنیا میں ایک نہیں سیکڑوں انقلاب ہوئے ہیں اور ہر انقلاب نے اس دریا کے رخ کو بدلا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال خود اسلام ہی میں موجود ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا یہ دریا کس رخ پر بہہ رہا تھا؟ کیا تمام دنیا پر کفر و شرکت کا غلبہ نہ تھا؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغ دار نہ بنا رکھا تھا؟ کیا اخلاق پر فواحش‘ معاشرت پر نفس پرستی‘ معیشت پر ظالمانہ جاگیرداری و سرمایہ داری‘ اور قانون پر بے اعتدالی کا تسلط نہ تھا؟ مگر ایک تنِ واحد نے اٹھ کر تمام دنیا کو چیلنج دے دیا۔ تمام اُن غلط خیالات اور غلط طریقوں کو رد کر دیاجو اس وقت دنیا میں رائج تھے۔ ان سب کے مقابلے میں اپنا ایک عقیدہ اور اپنا ایک طریقہ پیش کیا‘ اور چند سال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دنیا کے رخ کو پھیر کر اور زمانے کے رنگ کو بدل کر چھوڑا۔

تازہ ترین مثال اشتراکی تحریک کی ہے۔ انیسویں صدی میں سرمایہ داری کا تسلط اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ کوئی بزدل مرغ بادنمااُس وقت یہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ جو نظام ایسی ہولناک سیاسی اور جنگی قوت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے اُس کو الٹ دینا بھی ممکن ہے، مگر انھی حالات میں ایک شخص کارل مارکس نامی اٹھا اور اس نے اشتراکیت کی تبلیغ شروع کی۔ حکومت نے اس کی مخالفت کی۔ وطن سے نکالا گیا۔ ملک ملک کی خاک چھانتا پھرا۔ تنگ دستی اور مصیبت سے دوچار ہوا، مگر مرنے سے پہلے اشتراکیوں کی ایک طاقت وَر جماعت پیدا کرگیا۔ جس نے چالیس سال کے اندر نہ صرف روس کی سب سے زیادہ خوفناک طاقت کو الٹ کر رکھ دیا بلکہ تمام دنیا میں سرمایہ داری کی جڑیں ہلا دیں اور اپنا ایک معاشی اور تمدنی نظریہ اس قوت کے ساتھ پیش کیا کہ آج دنیا میں اس کے متبعین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے، اور ان ممالک کے قوانین بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں جن پر سرمایہ داری کی حکومت گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہے، مگر انقلاب یا ارتقا ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے‘ اورقوت ڈھل جانے کا نام نہیں ڈھال دینے کا نام ہے‘ مڑجانے کو قوت نہیں کہتے‘ موڑ دینے کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا‘ جو لوگ اپنا کوئی اصول‘ کوئی مقصد حیات‘ کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں‘ جو بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں‘ جو خطرات و مشکلات کے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں‘ جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو‘ جو ہر سانچے میں ڈھل جانے اور ہر دباؤ سے دب جانے والے ہوں‘ ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا صرف بہادر مردوں کاکام ہے۔ انھی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کارخ پھیرا ہے، دنیا کے خیالات بدلے ہیں، مناہجِ عمل میں انقلاب برپا کیا ہے، زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کر چھوڑا ہے۔

پس یہ نہ کہو کہ دنیا جس راستے پر جارہی ہے اس سے وہ پھیری نہیں جاسکتی اور زمانے کی جو روش ہے اس کا اتباع کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کرنے کے بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا سچا اعتراف کرنا چاہیے، اور جب تم اس کا اعتراف کرلو گے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لیے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہوسکتا ہے‘ نہ کوئی اصول اور نہ کوئی ضابطہ۔ اس کو تو ہرزور آور سے دبنا پڑے گا۔ ہر طاقت وَر کے آگے جھکنا پڑے گا۔ وہ کبھی اپنے کسی اصول اور کسی ضابطے کا پابند نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مذہب اس کے لیے اپنے اصول بدلتا چلا جائے تو وہ سرے سے کوئی مذہب ہی نہ رہے گا۔

یہ بھی ایک دھوکا ہے کہ اسلام کی قیود تمھاری خوش حالی اورترقی میں مانع ہیں۔ آخر تم اسلام کی کس قید کی پابندی کر رہے ہو؟ کون سی قید ہے جس سے تم آزاد نہیں ہوئے؟ اورکون سی حد ہے جس کو تم نے نہیں توڑا؟ تم کو جوچیزیں تباہ کر رہی ہیں ان میں سے کس کی اجازت اسلام نے تم کو دی تھی؟ تم تباہ ہو رہے ہو اپنی فضول خرچیوں سے جن کے لیے کروڑوں روپے کی جایدادیں تمھارے قبضے سے نکلتی جا رہی ہیں۔ کیا اسلام نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ تم کو خود تمھاری بری عادتیں تباہ کر رہی ہیں۔ اس مفلسی کی حالت میں بھی سینما اور کھیل تماشے تمھاری آبادی سے بھرے رہتے ہیں۔ ہر شخص لباس اور زینت و آرائش کے سامانوں پر اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ تمھاری جیبوں سے ہر مہینے لکھو کھا روپیہ بے ہودہ رسموں اور نمائشی افعال اور جاہلانہ اشغال میں صَرف ہو جاتا ہے۔ ان میں سے کس کو اسلام نے تمھارے لیے حلال کیا تھا؟ سب سے بڑی چیز جس نے تم کو تباہ کر دیا ہے وہ ادائے زکوٰۃ میں غفلت اور آپس کی معاونت سے بے پروائی ہے۔ کیا اسلام نے یہ چیز تم پر فرض نہ کی تھی؟ پس حقیقت یہ ہے کہتمھاری معیشت کی بربادی اسلامی قیود کی پابندی کا نتیجہ نہیں بلکہ ان سے آزادی کا نتیجہ ہے۔ رہی ایک سود کی پابندی تو وہ بھی کہاں قائم ہے؟ کم ازکم ۹۵ فی صدی مسلمان بغیر کسی حقیقی مجبوری کے سود پر قرض لیتے ہیں۔ کیا اسلامی احکام کی پابندی اسی کا نام ہے؟ مال دار مسلمانوں میں سے بھی ایک بڑا حصہ کسی نہ کسی شکل میں سود کھا ہی رہا ہے۔ باقاعدہ ساہوکاری نہ کی تو کیا ہوا‘ بینک اور بیمہ اور سرکاری بانڈس اور پراویڈنٹ فنڈس کا سود تو اکثر و بیش تر ما ل دار مسلمان کھاتے ہیں۔ پھر وہ حرمتِ سود کی قید کہاں ہے جس پر تم اپنی معاشی خستہ حالی کا الزام رکھتے ہو؟

عجیب پر لطف استدلال ہے کہ مسلمانوں کی عزت اور قومی طاقت کا مدار دولت مندی پر ہے‘ اور دولت کا مدار سود کے جواز پر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو ابھی تک یہی خبر نہیں کہ عزت اور طاقت کا مدار دراصل ہے کس چیز پر۔ محض دولت ہرگز وہ چیز نہیں ہے جو کسی قوم کو معزز اور طاقت وَر بناتی ہو۔ تمھارا ایک ایک شخص اگر لکھ پتی اور کروڑ پتی بن جائے مگر تم میں کیریکٹر کی طاقت نہ ہو تو یقین رکھو کہ دنیا میں تمھاری کوئی عزت نہ ہوگی۔ بخلاف اس کے اگر تم میں درحقیقت اسلامی سیرت موجود ہو‘ تم صادق اور امین ہو‘ لالچ اور خوف سے پاک ہو‘ اپنے اصول میں سخت اور اپنے معاملات میں کھرے ہو‘ حق کو حق اور فرض کو فرض سمجھنے والے ہو‘ حرام و حلال کی تمیز کو ہر حال میں ملحوظ رکھنے والے ہو‘ اور تم میں اتنی اخلاقی قوت موجود ہو کہ کسی نقصان کا خوف اور کسی فائدے کی طمع تم کو راستی سے نہ ہٹا سکے اور کسی قیمت پر تمھارا ایمان نہ خریدا جاسکے‘ تو دنیا میں تمھاری ساکھ قائم ہو جائے گی‘ دلوں میں تمھاری عزت بیٹھ جائے گی۔ تمھاری بات کا وزن لکھ پتی کی پوری دولت سے زیادہ ہوگا‘ تم جھونپڑیوں میں رہ کر اور پیوند لگے کپڑے پہن کر بھی دولت سراؤں میں رہنے والوں سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھے جاؤ گے اور تمھاری قوم کو ایسی طاقت حاصل ہوگی جس کو کبھی نیچا نہیں دکھایا جاسکتا۔ عہد صحابہؓ کے مسلمان کس قدر مفلس تھے۔ جھونپڑیوں اورکمبل کے خیموں میں رہنے والے‘ تمدن کی شان و شوکت سے ناآشنا‘ نہ ان کے لباس درست‘ نہ غذا درست‘ نہ ہتھیار درست‘ نہ سواریاں شان دار، مگر ان کی جو دھاک اور ساکھ دنیا میں تھی وہ نہ اموی عہدمیں مسلمانوں کو نصیب ہوئی‘ نہ عباسی عہدمیں اور نہ بعد کے کسی عہد میں۔ ان کے پاس دولت نہ تھی مگر کریکٹر کی طاقت تھی جس نے دنیا میں اپنی عزت اورعظمت کا سکہ بٹھا دیا تھا۔ بعد والوں کے پاس دولت آئی‘ حکومت آئی، تمدن کی شان و شوکت آئی، مگر کوئی چیز بھی کریکٹر کی کمزوری کا بدل فراہم نہ کرسکی۔

تم نے تاریخ اسلام کا سبق تو فراموش ہی کر دیا ہے‘ مگر دنیا کی جس قوم کی تاریخ چاہو اٹھا کر دیکھ لو‘ تم کو ایک مثال بھی ایسی نہ ملے گی کہ کسی قوم نے محض سہولت پسندی اور آرام طلبی اور منفعت پرستی سے عزت اور طاقت حاصل کی ہو۔ تم کسی ایسی قوم کو معزز اور سربلند نہ پاؤں گے جو کسی اصول اورکسی ڈسپلن کی پابند نہ ہو‘ کسی بڑے مقصد کے لیے تنگی اور مشقت اور سختی برداشت نہ کرسکتی ہو‘ اور اپنے اصول و مقاصد کے لیے اپنے نفس کی خواہشات کو اور خود اپنے نفس کو بھی قربان کر دینے کا جذبہ نہ رکھتی ہو۔ یہ ڈسپلن اور اصول کی پابندی اوربڑے مقاصد کے لیے راحت و آسائش اور منافع کی قربانی کسی نہ کسی رنگ میں تم کو ہرجگہ نظر آئے گی۔ اسلام میں اس کا رنگ کچھ اور ہے اور دوسری ترقی یافتہ قوموں میں کچھ اور۔ یہاں سے نکل کر تم کسی اور نظام تمدن میں جاؤ گے تو وہاں بھی تم کو اس رنگ میں نہ سہی، کسی دوسرے رنگ میں ایک نہ ایک ضابطے کا پابند ہونا پڑے گا‘ ایک نہ ایک ڈسپلن کی گرفت برداشت کرنی ہوگی۔ چند مخصوص اصولوں کے شکنجے میں بہرحال تم جکڑے جاؤ گے‘ اور تم سے کسی مقصداور کسی اصول کی خاطر قربانی کا مطالبہ ضرور کیا جائے گا۔ اگر اس کا حوصلہ تم میں نہیں ہے‘ اگر تم صرف نرمی اور کشادگی اور مٹھاس ہی کے متوالے ہو اورکسی سختی‘ کسی کڑواہٹ کو گوارا کرنے کی طاقت تم میں نہیں ہے تو اسلام کی قید و بند سے نکل کر جہاں چاہو جاکر دیکھ لو۔ کہیں تم کو عزت کا مقام نہ ملے گا، اور کسی جگہ طاقت کا خزانہ تم نہ پاسکو گے۔ قرآن نے اس قاعدے کلیے کو صرف چار لفظوں میں بیان کیا ہے اور وہ چار لفظ ایسے ہیں جن کی صداقت پر پوری تاریخ عالم گواہ ہے

اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (الم نشرح ۹۴۶)

یُسر کا دامن ہر حال میں عُسر کے ساتھ وابستہ ہے۔ جس میں عُسر کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں وہ کبھی یُسر سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔

(ترجمان القرآن، صفر ۱۳۵۵ھ۔ مئی ۱۹۳۶ء)


مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحہ عمل - مولانا سید ابوالاعلی مودودی

مسلمانوں کے لیے 
جدید تعلیمی پالیسی
 اور لائحہ عمل 
یہ وہ نوٹ ہے جو مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کی مجلسِ اصلاحِ نصابِ دینیات کے استفسارات کے جواب میں بھیجا گیا تھا۔ اگرچہ اس میں خطاب بظاہر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے ہے‘ لیکن دراصل اس کے مخاطب مسلمانوں کے تمام تعلیمی ادارات ہیں۔ جس تعلیمی پالیسی کی توضیح اس نوٹ میں کی گئی ہے‘ اسے اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے ناگزیر ہے۔ علی گڑھ ہو یا دیوبند یا ندوہ یا جامعہ ملیہ‘ سب کا طریقۂ کار اب زائد المیعاد ہوچکا ہے‘ اگر یہ اس پر نظرثانی نہ کریں گے تو اپنی افادیت بالکل کھودیں گے۔

مسلم یونی ورسٹی کورٹ اس امر پر تمام مسلمانوں کے شکریے کا مستحق ہے کہ اس نے اپنے ادارے کے بنیادی مقصدیعنی طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کی طرف توجہ کی، اور اس کو روبعمل لانے کے لیے آپ کی مجلس کاتقرر کیا۔ اس سلسلے میں جو کاغذات یونی ورسٹی کے دفتر سے بھیجے گئے ہیں ان کو میں نے پورے غور و خوض کے ساتھ دیکھا۔ جہاں تک دینیات اورعلوم اسلامیہ کے موجودہ طریق تعلیم کا تعلق ہے اس کے ناقابل اطمینان ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ جو نصاب اس وقت پڑھایا جا رہا ہے وہ یقیناًناقص ہے، لیکن مجلس کے معزز ارکان کی جانب سے جو سوالات مرتب کیے گئے ہیں‘ ان کے مطالعے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مجلس کے پیش نظر صرف ترمیمِ نصاب کا سوال ہے‘ اور غالبًا یہ سمجھا جارہا ہے کہ چند کتابوں کو خارج کر کے چند دوسری کتابیں رکھ دینے سے طلبہ میں ’اسلامی اسپرٹ‘ پیدا کی جاسکتی ہے۔ اگر میرا قیاس صحیح ہے تو میں کہوں گا کہ یہ اصلی صورت حال کا بہت ہی نامکمل اندازہ ہے۔ دراصل ہم کو اس سے زیادہ گہرائی میں جاکر یہ دیکھنا چاہیے کہ قرآن‘ حدیث‘ فقہ اورعقائد کی اس تعلیم کے باوجود جو اس وقت دی جارہی ہے‘طلبا میں ’’حقیقی اسلامی اسپرٹ‘‘ پیدا نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ اگر محض موجودہ نصاب دینیات کا نقص ہی اس کی وجہ ہے تو اس نقص کو دور کرنا بلاشبہ اس خرابی کو رفع کر دینے کے لیے کافی ہو جائے گا، لیکن اگر اس کے اسباب زیادہ وسیع ہیں‘ اگر آپ کی پوری تعلیمی پالیسی میں کوئی اساسی خرابی موجود ہے تو اصلاح حال کے لیے محض نصاب دینیات کی ترمیم ہرگز کافی نہ ہوگی۔ اس کے لیے آپ کو اصلاحات کا دائرہ زیادہ وسیع کرنا ہوگا۔ خواہ وہ کتنا ہی محنت طلب اور مشکلات سے لبریز ہو۔ میں نے اس مسئلے پر اسی نقطہ نظر سے غور کیا ہے‘ اور جن نتائج پر میں پہنچا ہوں انھیں امکانی اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔

میرا یہ بیان تین حصوں مشتمل ہوگا:

• پہلے حصے میں یونی ورسٹی کی موجودہ تعلیمی پالیسی پر تنقیدی نظر ڈال کر اس کی اساسی خرابیوں کو واضح کیا جائے گا اور یہ بتایا جائے گا کہ مسلمانوں کے حقیقی مفاد کے لیے اب ہماری تعلیمی پالیسی کیا ہونی چاہیے۔

• دوسرے حصے میں اصلاحی تجاویز پیش کی جائیں گی۔

• اور تیسرے حصے میں ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر سے بحث کی جائے گی۔

اس وقت مسلم یونی ورسٹی میں جو طریق تعلیم رائج ہے وہ تعلیمِ جدید اور اسلامی تعلیم کی ایک ایسی آمیزش پر مشتمل ہے جس میں کوئی امتزاج اور کوئی ہم آہنگی نہیں۔ دو بالکل متضاد اور بے جوڑ تعلیمی عنصروں کو جوں کا توں لے کر ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے۔ ان میں یہ صلاحیت پیدا نہیں کی گئی کہ ایک مرکب علمی قوت بن کر کسی ایک کلچر کی خدمت کرسکیں۔ یک جائی و اجتماع کے باوجود یہ دونوں عنصر نہ صرف ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں‘ بلکہ ایک دوسرے کی مزاحمت کرکے طلبہ کے ذہن کو دو مخالف سمتوں کی طرف کھینچتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے قطع نظر‘ خالص تعلیمی نقطہ نگاہ سے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ تعلیم میں اس قسم کے متبائن اور متزاحم عناصرکی آمیزش اصلاً غلط ہے‘ اور اس سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔

اسلامی نقطہ نظر سے یہ آمیزش اور بھی زیادہ قباحت کا سبب بن گئی ہے‘کیونکہ اول تو خود آمیزش ہی درست نہیں ہے‘پھر اس پر مزید خرابی یہ ہے کہ آمیزش بھی مساویانہ نہیں ہے۔ اس میں مغربی عنصر بہت طاقت ور اور اسلامی عنصر اس کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔ مغربی عنصر کو پہلا فائدہ تو یہ حاصل ہے کہ وہ ایک عصری عنصر ہے جس کی پشت پر رفتار زمانہ کی قوت اور ایک عالم گیر حکمراں تمدن کی طاقت ہے۔ اس کے بعد وہ ہماری یونی ورسٹی کی تعلیم میں ٹھیک اسی شان اور اسی طاقت کے ساتھ شریک کیا گیا ہے جس کے ساتھ وہ ان یونی ورسٹیوں میں ہے اور ہونا چاہیے جو مغربی کلچر کی خدمت کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ یہاں مغربی علوم و فنون کی تعلیم اس طور پر دی جاتی ہے کہ ان کے تمام اصول اور نظریات مسلمان لڑکوں کے صاف اور سادہ لوح دل پر ایمان بن کر ثبت ہو جاتے ہیں اور ان کی ذہنیت کلیۃً مغربی سانچے میں ڈھل جاتی ہے‘ حتیٰ کہ وہ مغربی نظر سے دیکھنے اور مغربی دماغ سے سوچنے لگتے ہیں‘ اور یہ اعتقاد ان پر مسلط ہو جاتا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی چیز معقول اور باوقعت ہے تو وہی ہے جو مغربی حکمت کے اصول و مبادی سے مطابقت رکھتی ہو۔ پھر ان تاثرات کو مزید تقویت اس تربیت سے پہنچتی ہے جو ہماری یونی ورسٹی میں عملاً دی جارہی ہے۔ لباس‘ معاشرت‘ آداب و اطوار‘ رفتار و گفتار‘ کھیل کود‘ غرض کون سی چیز ہے جس پر مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی رجحانات کا غلبہ نہیں ہے۔ یونی ورسٹی کا ماحول اگر پورا نہیں تو ۹۵ فی صدی یقیناًمغربی ہے اور ایسے ماحول کے جو اثرات ہوسکتے ہیں اور ہوا کرتے ہیں ان کو ہر صاحب نظر خود سمجھ سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی عنصر نہایت کمزور ہے۔ اول تو وہ اپنی تمدنی و سیاسی طاقت کھوکر ویسے ہی کمزور ہو چکا ہے۔ پھر ہماری یونی ورسٹی میں اس کی تعلیم جن کتابوں کے ذریعے سے دی جاتی ہے وہ موجودہ زمانے سے صدیوں پہلے لکھی گئی تھیں۔ ان کی زبان اور ترتیب و تدوین ایسی نہیں جو عصری دماغوں کو اپیل کرسکے۔ ان میں اسلام کے ابدی اصولوں کو جن حالات اور جن عملی مسائل پر منطبق کیا گیا ہے‘ ان میں سے اکثر اب در پیش نہیں ہیں‘ اور جو مسائل اب درپیش ہیں ان پر ان اصولوں کو منطبق کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ مزید براں اس تعلیم کی پشت پر کوئی تربیت‘ کوئی زندہ ماحول‘ عملی برتاؤ اور چلن بھی نہیں۔ اس طرح مغربی تعلیم کے ساتھ اسلامی تعلیم کی آمیزش اور بھی زیادہ بے اثر ہو جاتی ہے۔ ایسی نامساوی آمیزش کا طبیعی نتیجہ یہ ہے کہ طلبا کے دل و دماغ پر مغربی عنصر پوری طرح غالب آجائے اور اسلامی عنصر محض ایک سامان مضحکہ بننے کے لیے رہ جائے‘ یا زیادہ سے زیادہ اس لیے کہ زمانہ ماضی کے آثار باقیہ کی طرح اس کا احترام کیا جائے۔

میں اپنی صاف گوئی پر معافی کا خواستگارہوں‘ مگر جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اس کو بے کم و کاست بیان کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ میری نظر میں مسلم یونی ورسٹی کی دینی و دنیاوی تعلیم بحیثیت مجموعی بالکل ایسی ہے کہ آ پ ایک شخص کو از سر تا پا غیر مسلم بناتے ہیں۔ پھر اس کی بغل میں دینیات کی چند کتابوں کا ایک بستہ دے دیتے ہیں‘ تاکہ آپ پر اسے غیر مسلم بنانے کا الزام عائد نہ ہو‘ اور اگر وہ اس بستے کو اٹھا کر پھینک دے (جس کی وجہ دراصل آپ ہی کی تعلیم ہوگی) تو وہ خود ہی اس فعل کے لیے قابل الزام قرار پائے۔ اس طرز تعلیم سے اگر آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ یہ مسلمان پیدا کرے گا تو یہ یوں سمجھنا چاہیے کہ آپ معجزے اور خرقِ عادت کے متوقع ہیں کیونکہ آپ نے جو اسباب مہیا کیے ہیں ان سے قانونِ طبیعی کے تحت تو یہ نتیجہ کبھی برآمد نہیں ہوسکتا۔ فی صدی ایک یا دو چار طالب علموں کا مسلمان (کامل اعتقادی و عملی مسلمان) رہ جانا کوئی حجت نہیں۔ یہ آپ کی یونی ورسٹی کے فیضانِ تربیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کا ثبوت ہے کہ جو اس فیضان سے اپنے ایمان و اسلام کو بچا لے گیا وہ دراصل فطرت ابراہیمی پر پیدا ہوا تھا۔ ایسے مستثنیات جس طرح علی گڑھ کے فارغ التحصیل اصحاب میں پائے جاتے ہیں، اسی طرح ہندستان کی سرکاری یونی ورسٹیوں، بلکہ یورپ کی یونی ورسٹیوں کے مُتَخَرِجِیْن میں بھی مل سکتے ہیں جن کے نصاب میں سرے سے کوئی اسلامی عنصر ہے ہی نہیں۔

اب اگر آپ ان حالات اور اس طرز تعلیم کو بعینہ باقی رکھیں اور محض دینیات کے موجودہ نصاب کو بدل کر زیادہ طاقت ور نصاب شریک کر دیں تو اس کا حاصل صرف یہ ہوگا کہ فرنگیت اور اسلامیت کی کشمکش زیادہ شدید ہو جائے گی۔ ہر طالب علم کا دماغ ایک رزم گاہ بن جائے گا جس میں یہ دو طاقتیں پوری طاقت کے ساتھ جنگ کریں گی اور بالاخر آپ کے طلبا تین مختلف گروپوں میں بٹ جائیں گے

• ایک وہ جن پر فرنگیت غالب رہے گی‘ عام اس سے کہ وہ انگریزیت کے رنگ میں ہو‘ یا ہندی وطن پرستی کے رنگ میں، یا ملحدانہ اشتراکیت کے رنگ میں۔

• دوسرے وہ جن پر اسلامیت غالب رہے گی‘ خواہ اس کا رنگ گہرا ہو یا فرنگیت کے اثر سے پھیکا پڑ جائے۔

• تیسرے وہ جو نہ پورے مسلمان ہوں گے، نہ پورے فرنگی۔

ظاہر ہے کہ تعلیم کا یہ نتیجہ بھی کوئی خوشگوار نتیجہ نہیں۔ نہ خالص تعلیمی نقطہ نظر سے اس اجتماعِ نقیضین کو مفید کہا جاسکتا ہے‘ اور نہ قومی نقطہ نظر سے ایسی یونی ورسٹی اپنے وجود کو حق بجانب ثابت کرسکتی ہے جس کے نتائج کا ۳/ ۲ حصہ قومی مفاد کے خلاف اور قومی تہذیب کے لیے نقصانِ کامل کا مترادف ہو۔ کم از کم مسلمانوں کی غریب قوم کے لیے تو یہ سودا بہت ہی مہنگا ہے کہ وہ لاکھوں روپے کے خرچ سے ایک ایسی ٹکسال جاری رکھے جس میں سے ۳۳ فی صدی سکے تو مستقل طور پر کھوٹے نکلتے رہیں‘ اور ۳۳ فی صدی ہمارے خرچ پر تیار ہو کر غیروں کی گود میں ڈال دیے جائیں‘ بلکہ بالآخر خود ہمارے خلاف استعمال ہوں۔

مذکورہ بالا بیان سے دو باتیں اچھی طرح واضح ہو جاتی ہیں:

• اولاً تعلیم میں متضاد عناصر کی آمیزش اصولی حیثیت سے غلط ہے۔

• ثانیاً اسلامی مفاد کے لیے بھی ایسی آمیزش کسی طرح مفید نہیں‘ خواہ وہ اس قسم کی غیرمساوی آمیزش ہو۔ جیسی اب تک رہی ہے‘ یا مساوی کر دی جائے‘ جیسا کہ اب کرنے کا خیال کیا جارہا ہے۔

ان امور کی توضیح کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری رائے میں یونی ورسٹی کی تعلیمی پالیسی اب کیا ہونی چاہیے۔

یہ ظاہر ہے کہ ہر یونی ورسٹی کسی کلچر کی خادم ہوتی ہے۔ ایسی مجرد تعلیم جو ہر رنگ اور ہر صورت سے خالی ہو، نہ آج تک دنیا کی کسی درس گاہ میں دی گئی ہے‘ نہ آج دی جاری ہے۔ ہر درس گاہ کی تعلیم ایک خاص رنگ اور ایک خاص صورت میں ہوتی ہے اور اس رنگ و صورت کا انتخاب پورے غور و فکر کے بعد، اس مخصوص کلچر کی مناسبت سے کیا جاتا ہے جس کی خدمت وہ کرنا چاہتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ کی یونی ورسٹی کس کلچر کی خدمت کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اگر وہ مغربی کلچر ہے تو اس کو مسلم یونی ورسٹی نہ کہیے‘ نہ اس میں دینیات کا ایک نصاب رکھ کر خواہ مخواہ طالب علموں کو ذہنی کش مکش میں مبتلا کیجیے، اور اگر وہ اسلامی کلچر ہے تو آپ کو اپنی یونی ورسٹی کی پوری ساخت بدلنی پڑے گی اور اس کی ہیئتِ ترکیبی کو ایسے طرز پر ڈھالنا ہوگا کہ وہ بحیثیت مجموعی اس کلچر کے مزاج اور اس کی اسپرٹ کے مناسب ہو‘ اور نہ صرف اس کا تحفظ کرے بلکہ اس کو آگے بڑھانے کے لیے ایک اچھی طاقت بن جائے۔

جیسا کہ میں اوپر ثابت کر چکا ہوں کہ موجودہ حالت میں تو آپ کی یونی ورسٹی اسلامی کلچر کی نہیں بلکہ مغربی کلچر کی خادم بنی ہوئی ہے۔ اس حالت میں اگر صرف اتنا تغیر کیا جائے کہ دینیات کے موجودہ نصاب کو بدل کر زیادہ طاقت ور کر دیا جائے اور تعلیم و تربیت کے باقی تمام شعبوں میں پوری مغربیت برقرار رہے تو اس سے بھی یہ درس گاہ اسلامی کلچر کی خادم نہیں بن سکتی۔ اسلام کی حقیقت پر غور کرنے سے یہ بات خود بخود آپ پر منکشف ہو جائے گی کہ دنیوی تعلیم و تربیت اور دینی تعلیم کو الگ کرنا اور ایک دوسرے سے مختلف رکھ کر ان دونوں کو یکجا جمع کر دینا بالکل لا حاصل ہے۔ اسلام مسیحیت کی طرح کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جس کا دین دنیا سے کوئی الگ چیز ہو۔ وہ دنیا کو دنیا والوں کے لیے چھوڑ کر صرف اعتقادات اور اخلاقیات کی حد تک اپنے دائرے کو محدود نہیں رکھتا۔اس لیے مسیحی دینیات کی طرح اسلام کے دینیات کو دنیویات سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کا اصل مقصد انسان کو دنیا میں رہنے اور دنیا کے معاملات انجام دینے کے لیے ایک ایسے طریقے پر تیار کرنا ہے‘ جو اس زندگی سے لے کر آخرت کی زندگی تک سلامتی‘ عزت اور برتری کا طریقہ ہے۔ اس غرض کے لیے وہ اس کی فکر و نظر کو درست کرتا ہے۔ اس کے اخلاق کو سنوارتا ہے‘ اس کی سیرت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالتا ہے، اس کے لیے حقوق و فرائض متعین کرتا ہے اور اس کو اجتماعی زندگی کا ایک خاص نظام وضع کر کے دیتا ہے۔

افراد کی ذہنی و عملی تربیت‘ سوسائٹی کی تشکیل و تنظیم اور زندگی کے تمام شعبوں کی تربیت و تعدیل کے باب میں اس کے اصول و ضوابط سب سے الگ ہیں۔ انھی کی بدولت اسلامی تہذیب ایک جداگانہ تہذیب کی شکل اختیار کرتی ہے‘ اور مسلمان قوم کا بحیثیت ایک قوم کے زندہ رہنا انھی کی پابندی پر منحصر ہے۔ پس جب حال یہ ہے تو ’اسلامی دینیات‘ کی اصلاح ہی بے معنی ہو جاتی ہے اگر زندگی اور اس کے معاملات سے اس کا ربط باقی نہ رہے۔ اسلامی کلچر کے لیے وہ عالم دین بے کارہے جو اسلام کے عقائد اور اصول سے واقف ہے مگر ان کو لے کر علم و عمل کے میدان میں بڑھنا اور زندگی کے دائم التغیر احوال و مسائل میں ان کو برتنا نہیں جانتا۔ اسی طرح اس کلچر کے لیے وہ عالم دین بھی بے کار ہے جو دل میں تو اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے، مگر دماغ سے غیراسلامی طریق پر سوچتا ہے‘ معاملات کو غیر اسلامی نظر سے دیکھتا ہے اور زندگی کو غیر اسلامی اصولوں پر مرتب کرتا ہے۔ اسلامی تہذیب کے زوال اور اسلامی نظام تمدن کی ابتری کا اصل سبب یہی ہے کہ ایک مدت سے ہماری قوم میں صرف انھی دو قسموں کے عالم پیدا ہو رہے ہیں‘ اور دنیوی علم و عمل سے علم دین کا رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔

اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسلامی کلچر پھر سے جوان ہو جائے اور زمانے کے پیچھے چلنے کے بجائے آگے چلنے لگے‘ تو اس ٹوٹے ہوئے رابطہ کو پھر قائم کیجیے، مگر اس کو قائم کرنے کی صورت یہ نہیں ہے کہ دینیات کے نصاب کو جسم تعلیمی کی گردن کا قلاوہ یا کمر کا پشتارہ بنا دیا جائے۔ نہیں، اس کو پورے نظام تعلیم و تربیت میں اس طرح اتار دیجیے کہ وہ اس کا دوران خون‘ اس کی روح رواں، اس کی بینائی و سماعت‘ اس کا احساس و ادراک‘ اس کا شعور و فکر بن جائے‘ اور مغربی علوم و فنون کے تمام صالح اجزا کو اپنے اندر جذب کرکے اپنی تہذیب کا جز بناتا چلا جائے۔ اس طرح آپ مسلمان فلسفی‘ مسلمان سائنس دان‘ مسلمان ماہرین معاشیات‘ مسلمان مقنن‘ مسلمان مدبرین‘ غرض تمام علوم و فنون کے مسلمان ماہر پیدا کرسکیں گے جو زندگی کے مسائل کو اسلامی نقطہ نظر سے حل کریں گے‘ تہذیب حاضر کے ترقی یافتہ اسباب و وسائل سے تہذبِ اسلامی کی خدمت لیں گے‘ اور اسلام کے افکار و نظریات اور قوانین حیات کو روح عصری کے لحاظ سے از سر نو مرتب کریں گے‘ یہاں تک کہ اسلام از سر نو علم و عمل کے ہر میدان میں اسی امامت و رہنمائی کے مقام پر آجائے گا جس کے لیے وہ درحقیقت دنیا میں پیدا کیا گیا ہے۔

یہ ہے وہ تخیل جو مسلمانوں کی جدید تعلیمی پالیسی کا اساسی تخیل ہونا چاہیے۔ زمانہ اس مقام سے بہت آگے نکل چکا ہے جہاں سرسید ہم کو چھوڑ گئے تھے۔ اب اگر زیادہ عرصے تک ہم اس پر قائم رہے تو بحیثیت ایک مسلم قوم کے ہمارا ترقی کرنا تو درکنار‘ زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔

(۲)

اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اوپر جس تعلیمی پالیسی کا ہیولیٰ میں نے پیش کیا ہے اس کو صورت کالباس کس طرح پہنایا جاسکتا ہے۔

۱۔ مسلم یونی ورسٹی کے حدود میں ’فرنگیت‘ کا کلی استیصال کر دینا نہایت ضروری ہے۔ اگر ہم اپنی قومی تہذیب کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا نہیں چاہتے تو ہمارا فرض ہے کہ اپنی نئی نسلوں میں فرنگیت کے ان روز افزوں رجحانات کا سدباب کریں۔ یہ رجحانات دراصل غلامانہ ذہنیت اور چھپی ہوئی احساس ونائت (Inferiority complex)کی پیداوار ہیں۔ پھر جب ان کا عملی ظہور‘ لباس‘ معاشرت‘ آداب و اطوار اور بحیثیت مجموعی پورے ماحول میں ہوتا ہے تو یہ ظاہر اور باطن دونوں طرف سے نفس کا احاطہ کر لیتے ہیں‘ اور اس میں شرفِ قومی کا رمق برابر احساس نہیں چھوڑتے۔ ایسے حالات میں اسلامی تہذیب کا زندہ رہنا قطعی ناممکن ہے۔ کوئی تہذیب محض اپنے اصولوں اور اپنے اساسی تصورات کے مجرد ذہنی وجود سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ عملی برتاؤں سے پیدا ہوتی ہے اور اسی سے نشوونما پاتی ہے۔ اگر عملی برتاؤ مفقود ہو جائے تو تہذیب اپنی طبیعی موت مرجائے گی‘ اور اس کا ذہنی وجود بھی برقرار نہ رہ سکے گا۔ پس سب سے مقدم اصلاح یہ ہے کہ یونی ورسٹی میں ایک زندہ اسلامی ماحول پیدا کیا جائے۔ آپ کی تربیت ایسی ہونی چاہیے جو مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اپنی قومی تہذیب پر فخر کرنا سکھائے‘ ان میں اپنی قومی خصوصیات کا احترام بلکہ عشق پیدا کرے‘ ان میں اسلامی اخلاق اور اسلامی سیرت کی روح پھونک دے‘ ان کو اس قابل بنا دے کہ وہ اپنے علم اور اپنی تربیت یافتہ ذہنی صلاحیتوں سے اپنے قومی تمدن کو شائستگی کے بلند مدارج کی طرف لے چلیں۔

۲۔ اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کا انحصار بڑی حد تک معلمین کے علم و عمل پر ہے۔ جو معلم خود اس روح سے خالی ہیں‘ بلکہ خیال اورعمل دونوں میں اس کے مخالف ہیں ان کے زیر اثر رہ کر متعلمین میں اسلامی اسپرٹ کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟ آپ محض عمارت کا نقشہ بنا سکتے ہیں‘ مگر اصلی معمار آپ نہیں، آپ کے تعلیمی اسٹاف کے ارکان ہیں۔ فرنگی معماروں سے یہ امید رکھنا کہ وہ اسلامی طرز تعمیرپر عمارت بنائیں گے‘ کریلے کی بیل سے خوشۂ انگور کی امید رکھنا ہے۔ محض دینیات کے لیے چند ’مولوی‘ رکھ لینا ایسی صورت میں بالکل فضول ہوگا جب کہ دوسرے تمام یا اکثر علوم کے پڑھانے والے غیر مسلم یا ایسے مسلمان ہوں جن کے خیالات غیر اسلامی ہوں، کیونکہ وہ زندگی اور اس کے مسائل اور معاملات کے متعلق طلبا کے نظریات اور تصورات کو اسلام کے مرکز سے پھیر دیں گے‘ اور اس زہر کا تریاق محض دینیات کے کورس سے فراہم نہ ہوسکے گا۔ لہٰذا خواہ کوئی فن ہو‘ فلسفہ ہو یا سائنس‘ معاشیات ہو یا قانون‘ تاریخ ہو یا کوئی اور علم‘ مسلم یونی ورسٹی میں اس کی پروفیسری کے لیے کسی شخص کا محض ماہر فن ہونا کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پورا اورپکا مسلمان ہو۔ اگر مخصوص حالات میں کسی غیر مسلم ماہر فن کی خدمات حاصل کرنی پڑیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن عام قائدہ یہی ہونا چاہیے کہ ہماری یونی ورسٹی کے پروفیسر وہ لوگ ہوں جو اپنے فن میں ماہر ہونے کے علاوہ یونی ورسٹی کے اساسی مقصد یعنی اسلامی کلچر کے لیے خیالات اور اعمال دونوں کے لحاظ سے مفید ہوں۔

۳۔ یونی ورسٹی کی تعلیم میں عربی زبان کو بطور ایک لازمی زبان کے شریک کیا جائے۔ یہ ہمارے کلچر کی زبان ہے۔ اسلام کے مآخذ اصلیہ تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے۔ جب تک مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ قرآن اور سنت تک بلاواسطہ دسترس حاصل نہ کرے گا‘ اسلام کی روح کو نہ پاسکے گا‘ نہ اسلام میں بصیرت حاصل کرسکے گا۔ وہ ہمیشہ مترجموں اور شارحوں کا محتاج رہے گا‘ اور اس طرح کی روشنی اس کو براہِ راست آفتاب سے کبھی نہ مل سکے گی، بلکہ مختلف قسم کے رنگین آئینوں کے واسطے ہی سے ملتی رہے گی‘ آج ہمارے جدید تعلیم یافتہ حضرات اسلامی مسائل میں ایسی ایسی غلطیاں کر رہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کی ابجد تک سے ناواقف ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ قرآن اور سنت سے استفادہ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں رکھتے۔آگے چل کر پراونشل اٹانومی کے دور میں جب ہندستان کی مجالس مقننہ کو قانون سازی کے زیادہ وسیع اختیارات حاصل ہوں گے اور سوشل رفارم کے لیے نئے نئے قوانین بنائے جانے لگیں گے۔ اس وقت اگر مسلمانوں کی نمائندگی ایسے لوگ کرتے رہے جو اسلام سے ناواقف ہوں اور اخلاق‘ معاشرت اور قانون کے مغربی تصورات پر اعتقاد رکھتے ہوں‘ تو جدید قانون سازی سے مسلمانوں میں سوشل ریفارم ہونے کے بجائے انٹی سوشل ڈیفارم ہوگی اور مسلمانوں کا اجتماعی نظام اپنے اصولوں سے اور زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا۔ پس عربی زبان کے مسئلے کو محض ایک زبان کا مسئلہ نہ سمجھیے‘ بلکہ یوں سمجھیے کہ یہ آپ کی یونی ورسٹی کے اساسی مقصد سے تعلق رکھتا ہے اور جو چیز اساسیات (Funadamentals)سے تعلق رکھتی ہو اس کے لیے سہولت کا لحاظ نہیں کیا جاتا‘ بلکہ ہر حال میں اس کی جگہ نکالنی پڑتی ہے۔

۴۔ ہائی اسکول کی تعلیم میں طلبہ کو حسب ذیل مضامین کی ابتدائی معلومات حاصل ہونی چاہییں۔

الف۔ عقائد

اس مضمون میں عقائد کی خشک کلامی تفصیلات نہ ہونی چاہییں، بلکہ ایمانیات کو ذہن نشین کرنے کے لیے نہایت لطیف انداز بیان اختیارکرنا چاہیے جو فطری وجدان اورعقل کو اپیل کرنے والا ہو۔

طلبہ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کے ایمانیات دراصل کائنات کی بنیادی صداقتیں ہیں اور یہ صداقتیں ہماری زندگی سے ایک گہرا ربط رکھتی ہیں۔

ب۔ اسلامی اخلاق

اس مضمون میں مجرد اخلاقی تصورات نہ پیش کیے جائیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اور انبیاء علیھم السلام کی سیرتوں سے ایسے واقعات لے کر جمع کیے جائیں جن سے طلبا کو معلوم ہو کہ ایک مسلمان کے کریکٹر کی خصوصیات کیا ہیں اور مسلمان کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔

ج۔احکام فقہ

اس مضمون میں حقوق اللہ اور حقوق العباد اور شخصی کردار کے متعلق اسلامی قانون کے ابتدائی اور ضروری احکام بیان کیے جائیں جن سے واقف ہونا ہر مسلمان کے لیے ناگزیر ہے، مگر اس قسم کے جزئیات اس میں نہ ہونے چاہییں جیسے ہماری فقہ کی پرانی کتابوں میں آتے ہیں کہ مثلاً کنویں میں چوہا گر جائے تو کتنے ڈول نکالے جائیں۔ ان چیزوں کے بجائے عبادات اور احکام کی معنویت‘ ان کی روح اور ان کے مصالح طلبہ کے ذہن نشین کرنے چاہییں۔ ان کو یہ بتانا چاہیے اسلام تمھارے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کیا پروگرام بتاتا ہے اور یہ پروگرام کس طرح ایک صالح سوسائٹی کی تخلیق کرتا ہے۔

د۔ اسلامی تاریخ

یہ مضمون صرف سیرت رسولؐ اور دور صحابہؓ تک محدود رہے۔ اس کے پڑھانے کی غرض یہ ہونی چاہیے کہ طلبہ اپنے مذہب اور اپنی قومیت کی اصل سے واقف ہو جائیں اور ان کے دلوں میں اسلامی حمیت کا صحیح احساس پیدا ہو۔

ر۔عربیت

عربی زبان کا محض ابتدائی علم جو ادب سے ایک حد تک مناسبت پیدا کر دے۔

س۔قرآن صرف اتنی استعداد کہ لڑکے کتاب اللّٰہ کو روانی کے ساتھ پڑھ سکیں۔ سادہ آیتوں کو کسی حد تک سمجھ سکیں اور چند سورتیں بھی ان کو یاد ہوں۔

(۵) کالج کی تعلیم میں ایک نصاب عام ہونا چاہیے جو تمام طلبہ کو پڑھایا جائے۔ اس نصاب میں حسب ذیل مضامین ہونے چاہییں۔

الف۔ عربیت انٹرمیڈیٹ میں عربی ادب کی متوسط تعلیم ہو۔ بی اے میں پہنچ کر اس مضمون کو تعلیم قرآن کے ساتھ ضم کر دیا جائے۔

ب۔ قرآن انٹرمیڈیٹ میں طلبہ کو فہم قرآن کے لیے مستعد کیا جائے۔ اس مرحلے میں صرف چند مقدمات ذہن نشین کرا دینے چاہئییں۔ قرآن کا محفوظ اور تاریخی حیثیت سے معتبر ترین کتاب ہونا۔ اس کا وحی الٰہی ہونا۔ تمام مذاہب کی اساسی کتابوں کے مقابلے میں اس کی فضیلت۔ اس کی بے نظیر انقلاب انگیز تعلیم۔ اس کے اثرات نہ صرف عرب پر بلکہ تمام دنیا کے افکار اور قوانینِ حیات پر۔ اس کا انداز بیان اور طرزاستدلال۔ اس کا حقیقی مدعا۔

بی۔ اے میں اصل قرآن کی تعلیم دی جائے۔ یہاں طرز تعلیم یہ ہونا چاہیے کہ طلبا خود قرآن کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں اور استاد ان کی مشکلات کو حل اور ان کے شبہات کو رفع کرتا جائے۔ اگر مفصل تفسیر اور جزئی بحثوں سے اجتناب ہو، اور صرف مطالب کی توضیح پر اکتفا کیا جائے تو دو سال میں با آسانی پورا قرآن پڑھایا جاسکتا ہے۔

ج۔ تعلیمات اسلامی اس مضمون میں طلبہ کو پورے نظام اسلامی سے روشناس کرا دیا جائے۔ اسلام کی بنیاد کن اساسی تصورات پر قائم ہے۔ ان تصورات کی بنا پر وہ اخلاق اور سیرت کی تشکیل کس طرح کرتا ہے۔ پھر اس سوسائٹی کی زندگی کو وہ معاشرت‘ معیشت‘ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں کن اصولوں پر منظم کرتا ہے۔ اس کے اجتماعی نظام میں فرد اور جماعت کے درمیان حقوق و فرائض کی تقسیم کس ڈھنگ پر کی گئی ہے۔ حدود اللہ کیا ہیں۔ ان حدود کے اندر مسلمان کو کس حد تک فکرو عمل کی آزادی حاصل ہے اور ان حدود کے باہر قدم نکالنے سے نظام اسلامی پر کیا اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ یہ تمام امور جامعیت کے ساتھ نصاب میں لائے جائیں اور اس کو چار سال کے مدارج تعلیمی پر ایک مناسبت کے ساتھ تقسیم کر دیا جائے۔

۶۔ نصاب عام کے بعد علوم اسلامیہ کو تقسیم کرکے مختلف علوم و فنون کی اختصاصی تعلیم میں پھیلا دیجیے اور ہر فن میں اسی فن کی مناسبت سے اسلام کی تعلیمات کو پیوست کیجیے۔ مغربی علوم و فنون بجائے خود سب کے سب مفید ہیں‘ اور اسلام کو ان میں سے کسی کے ساتھ بھی دشمنی نہیں‘ بلکہ جواباً میں یہ کہوں گا کہ جہاں تک حقائق علمیہ کا تعلق ہے اسلام ان کا دوست ہے اور وہ اسلام کے دوست ہیں۔ دشمنی دراصل علم اور اسلام میں نہیں بلکہ مغربیت اور اسلام میں ہے۔ اکثر علوم میں اہل مغرب اپنے چند مخصوص اساسی تصورات‘ بنیادی مفروضات (Hypothesis)،نقطہ ہائے آغاز(Starting Points)اور زاویہ حائے نظر رکھتے ہیں جو بجائے خود ثابت شدہ حقائق نہیں ہیں بلکہ محض ان کے اپنے وجدانیات ہیں۔ وہ حقائق علمیہ کو اپنے ان وجدانیات کے سانچے میں ڈھالتے ہیں‘ اور اس سانچے کی مناسبت سے ان کو مرتب کرکے ایک مخصوص نظام بنا لیتے ہیں۔ اسلام کی دشمنی دراصل انھی وجدانیات سے ہے۔ وہ حقائق کا دشمن نہیں بلکہ اس وجدانی سانچے کا دشمن ہے جس میں ان حقائق کو ڈھالا اور مرتب کیا جاتا ہے۔ وہ خود اپنا ایک مرکزی تصور‘ ایک زاویۂ نظر‘ ایک نقطہ آغاز فکر، ایک وجدانی سانچہ رکھتا ہے جو اپنی اصل اور فطرت کے اعتبار سے مغربی سانچوں کی عین ضد واقع ہوا ہے۔

اب یہ سمجھ لیجیے کہ اسلامی نقطہ نظر سے ضلالت کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ مغربی علوم و فنون سے حقائق لیتے ہیں‘ بلکہ یہ ہے کہ آپ مغرب ہی سے اس کا وجدانی سانچہ بھی لے لیتے ہیں۔ فلسفہ‘ سائنس‘ تاریخ‘ قانون‘ سیاسیات‘ معاشیات اور دوسرے علمی شعبوں میں آپ خود ہی تو اپنے نوجوان اور خالی الذہن طلبا کے دماغوں میں مغرب کے اساسی تصورات بٹھاتے ہیں‘ ان کی نظر کا فوکس مغربی زاویہ نظر کے مطابق جماتے ہیں‘ مغربی مفروضات کو مسلمات بناتے ہیں۔ استدلال و استشہاد اور تحقیق و تفحیص کے لیے صرف وہی ایک نقطہ آغاز ان کو دیتے ہیں جو اہل مغرب نے اختیار کیا ہے اور تمام علمی حقائق اور مسائل کو اسی طرز پر مرتب کرکے ان کے ذہن میں اتار دیتے ہیں جس طرز پر اہل مغرب نے ان کو مرتب کیا ہے۔ اس کے بعد آپ چاہتے ہیں کہ تنہا دینیات کا شعبہ انھیں مسلمان بنا دے۔ یہ کس طرح ممکن ہے؟ وہ شعبہ دینیات کیا کرسکتا ہے جس مں مجرد تصورات ہوں۔ حقائقِ علمیہ اور مسائلِ حیات پر ان تصورات کا انطباق نہ ہو بلکہ طلبہ کے ذہن میں جملہ معلومات کی ترتیب ان تصورات کے بالکل برعکس ہو۔ یہی گمراہی کا سرچشمے ہے۔ اگر آپ گمراہی کا سدباب کرنا چاہتے ہیں تو اس سرچشمے کے مصدر پر پہنچ کر اس کا رخ پھیر دیجیے اور تمام علمی شعبوں کو وہ نقطہ آغاز‘ وہ زاویہ نظر‘ وہ اساسی اصول دیجیے جو قرآن نے آپ کودیے ہیں۔ جب اسی وجدانی سانچے میں معلومات مرتب ہوں گی اور اس نظر سے کائنات اور زندگی کے مسائل کو حل کیا جائے گا تب آپ کے طلبہ ’مسلم طلبہ‘ بنیں گے اور آپ کہہ سکیں گے کہ ہم نے ان میں اسلامی سپرٹ پیدا کی، ورنہ ایک شعبے میں اسلام اور باقی تمام شعبوں میں غیر اسلام رکھ دینے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ آپ کے فارغ التحصیل طلبہ فلسفہ میں غیر مسلم‘ سائنس میں غیر مسلم‘ قانون میں غیر مسلم‘ سیاسیات میں غیر مسلم‘ فلسفہ تاریخ میں غیر مسلم‘ معاشیات میں غیر مسلم ہوں گے اور ان کا اسلام محض چند اعتقادات اور چند مذہبی مراسم کی حد تک محدود رہ جائے گا۔

۷۔ بی‘ ٹی‘ ایچ اور ایم‘ ٹی‘ ایچ کے امتحانات کو بند کر دیجیے۔ نہ ان کی کوئی ضرورت، نہ فائدہ۔ جہاں تک علوم اسلامیہ کے مخصوص شعبوں کا تعلق ہے ان میں سے ہر ایک شعبے کو اسی کے مماثل علم کے مغربی شعبے کے انتہائی کورس میں داخل کر دیجیے۔ مثلاً فلسفے میں حکمت اسلامیہ اور اسلامی فلسفے کی تاریخ اور فلسفیانہ افکار کے ارتقا میں مسلمانوں کا حصہ۔ تاریخ میں تاریخ اسلام اور اسلامی فلسفہ تاریخ‘ قانون میں اسلامی قانون کے اصول اور فقہ کے وہ ابواب جو معاملات سے متعلق ہیں۔ معاشیات میں اسلامی معاشیات کے اصول اور فقہ کے وہ حصے جو معاشی مسائل سے متعلق ہیں۔ سیاسیات میں اسلام کے نظریات سیاسی اور اسلامی سیاسیات کے نشووارتقا کی تاریخ اور دنیا کے سیاسی افکار کی ترقی میں اسلام کا حصہ۔ (قس علیٰ ھذا)

۸۔ اس کورس کے بعد علوم اسلامیہ میں ریسرچ کے لیے ایک مستقل شعبہ ہونا چاہیے جو مغربی یونی ورسٹیوں کی طرح اعلیٰ درجے کی علمی تحقیق پر سند فضیلت (Doctrate)دیا کرے۔ اس شعبے میں ایسے لوگ تیار کیے جائیں جو مجتہدانہ طرز تحقیق کی تربیت پا کر نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے تمام دنیا کی نظری و فکری رہنمائی کے لیے مستعد ہوں۔

(۳)

حصہ دوم میں جس طرز تعلیم کا خاکہ میں نے پیش کیا ہے وہ بظاہر ناقابل عمل معلوم ہوتا ہے لیکن میں کافی غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ توجہ اور محنت اور صَرف مال سے اس کو بتدریج عمل میں لایا جاسکتا ہے۔

یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ آپ کسی راہ میں پہلا قدم اٹھاتے ہی منزل کے آخری نشان پر نہیں پہنچ سکتے۔ کام کی ابتدا کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کی تکمیل کا پورا سامان پہلے سے آپ کے پاس موجود ہو۔ ابھی تو آپ کو صرف عمارت کی بنیاد رکھنی ہے‘ اور اس کا سامان اس وقت فراہم ہوسکتا ہے۔ موجودہ نسل میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس طرز تعمیر پر بنیادیں رکھ سکتے ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت سے جو نسل اٹھے گی وہ دیواریں اٹھانے کے قابل ہوگی۔ پھر تیسری نسل ایسی نکلے گی جس کے ہاتھوں یہ کام ان شاء اللہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ جو درجہ کمال کم از کم تین نسلوں کی مسلسل محنت کے بعد حاصل ہوسکتا ہے‘ اس کو آج ہی حاصل کرلینا ممکن نہیں، لیکن تیسری نسل میں عمارت کی تکمیل تب ہی ہوسکے گی کہ آپ آج اس کی بنیاد رکھ دیں، ورنہ اگر اس کے درجۂ کمال کو اپنے سے دور پاکر آپ نے آج سے اس کی ابتدا ہی نہ کی، حالانکہ ابتدا کرنے کے اسباب آپ کے پاس موجود ہیں‘ تو یہ کام کبھی انجام نہ پائے گا۔

چونکہ میں اس اصلاحی اقدام کا مشورہ دے رہا ہوں اس لیے یہ بھی میرا فرض ہے کہ اس کو عمل میں لانے کی تدابیر بھی پیش کروں۔ اپنے بیان کے اس حصے میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس طرز تعلیم کی ابتدا کس طرح کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے قابل عمل تدبیریں کیا ہیں

۱۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے لیے عقائد‘ اسلامی اخلاق اور احکام شریعت کا ایک جامع کورس حال ہی میں سرکار نظام کے محکمہ تعلیمات نے تیار کرایا ہے اس کو ضروری ترمیم و اصلاح سے بہت کار آمد بنایا جاسکتا ہے۔

عربی زبان کی تعلیم قدیم طرز کی وجہ سے جس قدر ہولناک ہوگئی تھی الحمد للہ کہ اب وہ کیفیت باقی نہیں رہی ہے۔ اس کے لیے جدید طریقے مصر و شام اور خود ہندستان میں ایسے نکل آئے ہیں جن سے باآسانی یہ زبان سکھائی جاسکتی ہے۔ ایک خاص کمیٹی ان لوگوں کی مقرر کی جائے جو عربی تعلیم کے جدید طریقوں میں علمی و عملی مہارت رکھتے ہیں اور ان کے مشورے سے ایک ایسا کورس تجویز کیا جائے جس میں زیادہ تر قرآن ہی کو عربی کی تعلیم کا ذریعہ بنایا گیا ہو۔ اس طرح تعلیم قرآن کے لیے الگ وقت نکالنے کی بھی ضرورت نہ رہے گی، اور ابتدا ہی سے طلبہ کو قرآن سے مناسبت پیدا ہو جائے گی۔

اسلامی تاریخ کے بکثرت رسالے اردو زبان میں لکھے جاچکے ہیں۔ ان کو جمع کر کے بنظر غور دیکھا جائے اور جو رسائل مفید پائے جائیں ان کو ابتدائی جماعتوں کے کورس میں داخل کرلیا جائے۔

مقدم الذکر دونوں مضامین کے لیے روزانہ صرف ایک گھنٹہ کافی ہوگا۔ رہی اسلامی تاریخ تو یہ مضمون کوئی الگ وقت نہیں چاہتا۔ تاریخ کے عمومی نصاب میں اس کو ضم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ ہائی اسکول کی تعلیم کے موجودہ نظم میں کوئی زیادہ تغیر کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ تغیر کی ضرورت جو کچھ بھی ہے نصاب تعلیم اور تعلیمی اسٹاف میں ہے۔ دینیات کی تدریس اور اس کے مدرس کا جو تصور آپ کے ذہن میں اب تک رہا ہے اس کو نکال دیجیے۔ اس دور کے لڑکوں اور لڑکیوں کی ذہنیت اور ان کے نفسیات کو سمجھنے والے مدرس رکھیے۔ ان کو ایک ترقی یافتہ نصاب تعلیم دیجیے اور اس کے ساتھ ایسا ماحول پیدا کیجیے جس میں ’اسلامیت‘ کے بیج کو بالیدگی نصیب ہوسکے۔

۲۔ کالج کے لیے نصاب عام کی جو تجویز میں نے پیش کی ہے اس کے تین اجزا ہیں

(الف)عربیت، (ب) قرآن، (ج) تعلیمات اسلامی

ان میں سے عربیت کو آپ ثانوی لازمی زبان کی حیثیت دیجیے۔ دوسری زبانوں میں سے کسی کی تعلیم اگر طلبہ حاصل کرنا چاہیں تو ٹیوٹرس کے ذریعے سے حاصل کرسکتے ہیں، مگر کالج میں جو زبان ذریعۂ تعلیم ہے‘ اس کے بعد صرف عربی زبان ہی لازم ہونی چاہیے۔ اگر نصاب اچھا ہو اور پڑھانے والے آزمودہ کار ہوں تو انٹرمیڈیٹ کے دو سالوں میں طلبہ کے اندر اتنی استعداد پیدا کی جاسکتی ہے کہ وہ بی ۔ اے میں پہنچ کر قرآن کریم کی تعلیم خود قرآن کی زبان میں حاصل کرسکیں۔

قرآن کے لیے کسی تفسیر کی حاجت نہیں۔ ایک اعلیٰ درجے کا پروفیسر کافی ہے جس نے قرآن کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہو اور جو طرز جدید پر قرآن پڑھانے اور سمجھانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ وہ اپنے لیکچروں سے انٹرمیڈیٹ میں طلبا کے اندر قرآن فہمی کی ضروری استعداد پیدا کرے گا۔ پھر بی۔ اے میں ان کو پورا قرآن اس طرح پڑھا دے گا کہ وہ عربیت میں بھی کافی ترقی کر جائیں گے اور اسلام کی روح سے بھی بخوبی واقف ہو جائیں گے۔

تعلیمات اسلامی کے لیے ایک جدید کتاب لکھوانے کی ضرورت ہے جو ان مقاصد پر حاوی ہو جن کی طرف میں نے حصہ دوم کے نمبر ۵ ضمن (ج) میں اشارہ کیا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا کہ میں نے خود اِن مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ایک کتاب اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی کے عنوان سے لکھنی شروع کی تھی جس کے ابتدائی تین باب ترجمان القرآن میں محرم ۱۳۵۲ھ سے شعبان ۱۱۳۵۳؂ھ تک کے پرچوں میں شائع ہوئے ہیں۔ اگر اس کو مفید سمجھا جائے تو میں اس کی تکمیل کرکے یونی ورسٹی کی نذر کردوں گا۔

ان مضامین کے لیے کالج کی تعلیم کے موجودہ نظم میں کسی تغیر کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ عربیت کے لیے وہی وقت کافی ہے جو آپ کے ہاں ثانوی زبان کے لیے ہے۔ قرآن اور تعلیمات اسلامیہ دونوں کے لیے باری باری سے وہی وقت کافی ہوسکتا ہے جو آپ کے ہاں دینیات کے لیے مقرر ہے۔

۳۔ زیادہ تر مشکل اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں پیش آئے گی جسے میں نے حصہ دوم کے نمبر۶‘ ۷ میں پیش کیا ہے۔ اس کے حل کی تین صورتیں ہیں جن کو بتدریج اختیار کیا جاسکتا ہے

الف۔ ایسے پروفیسر تلاش کیے جائیں (اور وہ ناپید نہیں ہیں) جو علوم جدیدہ کے ماہر ہونے کے ساتھ قرآن اور سنت میں بھی بصیرت رکھتے ہوں‘ جن میں اتنی اہلیت ہو کہ مغربی علوم کے حقائق کو ان کے نظریات اور ان کی وجدانی اساس سے الگ کر کے اسلامی اصول و نظریات کے مطابق مرتب کرسکیں۔

ب۔ اسلامی فلسفۂ قانون‘ اصول قانون و فلسفہ تشریع‘ سیاسیات‘ عمرانیات‘ معاشیات‘ تاریخ و فلسفہ تاریخ وغیرہ کے متعلق عربی‘ اردو‘ انگریزی‘ جرمن اور فرنچ زبانوں میں جس قدر لٹریچر موجود ہے اس کی چھان بین کی جائے۔ جو کتابیں بعینہ لینے کے قابل ہوں ان کا انتخاب کرلیا جائے اور جن کو اقتباس یا حذف و ترمیم کے ساتھ کار آمد بنایا جاسکتا ہو ان کو اسی طریق پر کام میں لایا جائے۔ اس غرض کے لیے اہل علم کی ایک خاص جمعیت مقرر کرنی ہوگی۔

ج۔ چند ایسے فضلا کی خدمات حاصل کی جائیں جو مذکورہ بالا علوم پر جدید کتابیں تالیف کریں۔ خصوصیت کے ساتھ اصول فقہ‘ احکام فقہ‘ اسلامی معاشیات‘ اسلام کے اصول عمران‘ اور حکمت قرآنیہ پر جدید کتابیں لکھنا نہایت ضروری ہے‘ کیونکہ قدیم کتابیں اب درس و تدریس کے لیے کارآمد نہیں ہیں‘ ارباب اجتہاد کے لیے تو بلاشبہ ان میں بہت اچھا مواد مل سکتا ہے مگر ان کو جوں کا توں لے کر موجود زمانے کے طلبہ کو پڑھانا بالکل بے سود ہے۔

اس میں شک نہیں کہ سردست ان تینوں تدبیروں سے وہ مقصد بدرجہ کمال حاصل نہ ہوگا جو ہمارے پیش نظر ہے۔ بلاشبہہ اس تعمیر جدید میں بہت کچھ نقائص پائے جائیں گے لیکن اس سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ صحیح راستے پر پہلا قدم ہوگا۔ اس میں جو کوتاہیاں رہ جائیں گی ان کو بعد کی نسلیں پورا کریں گی یہاں تک کہ اس کے تکمیلی ثمرات کم از کم پچاس سال بعد ظاہر ہوں گے۔

۴۔ اسلامی ریسرچ کا شعبہ قائم کرنے کا ابھی موقع نہیں۔ اس کی نوبت چند سال بعد آئے گی۔ اس لیے اس کے متعلق تجاویز پیش کرنا قبل از وقت ہے۔

۵۔ میری تجاویز میں فرقی اختلافات کی گنجائش بہت کم ہے۔ تاہم اس باب میں علمائے شیعہ سے استصواب کیا جائے کہ وہ کس حد تک اس طرز تعلیم میں شیعہ طلبہ کو سنی طلبہ کے ساتھ رکھنا پسند کریں گے۔ اگر وہ چاہیں تو شیعہ طلبا کے لیے خود کوئی اسکیم مرتب کریں‘ مگر مناسب یہ ہوگا کہ جہاں تک ہوسکے تعلیم میں فروعی اختلافات کو کم سے کم جگہ دی جائے اور مختلف فرقوں کی آئندہ نسلوں کو اسلام کے مشترک اصول و مبادی کے تحت تربیت کیا جائے۔

۶۔ سر محمد یعقوب کے اس خیال سے مجھے پورا اتفاق ہے کہ وقتاً فوقتاً علماو فضلا کو اہم مسائل پر لیکچر دینے کے لیے دعوت دی جاتی رہے۔ میں چاہتا ہوں کہ علی گڑھ کو نہ صرف ہندستان کا بلکہ تمام دنیائے اسلام کا دماغی مرکز بنا دیا جائے۔ آپ اکابر ہندستان کے علاوہ مصر‘ شام‘ ایران‘ ٹرکی اور یورپ کے مسلمان فضلا کو بھی دعوت دیجیے کہ یہاں آکر اپنے خیالات‘ تجربات اور نتائجِ تحقیق سے ہمارے طلبہ میں روشنی فکر اورروح حیات پیدا کریں۔ اس قسم کے خطبات کافی معاوضہ دے کر لکھوائے جانے چاہئییں تاکہ وہ کافی وقت محنت اور غور و فکر کے ساتھ لکھے جائیں اور ان کی اشاعت نہ صرف یونی ورسٹی کے طلبا کے لیے بلکہ عام تعلیم یافتہ پبلک کے لیے بھی مفید ہو۔

۷۔ اسلامی تعلیم کے لیے کسی ایک زبان کو مخصوص کرنا درست نہیں۔ اردو‘ عربی اور انگریزی تینوں زبانوں میں سے کسی ایک زبان میں بھی اس وقت نصاب کے لیے کافی سامان موجود نہیں ہے، لہٰذا سردست ان میں سے جس زبان میں بھی جو مفید چیز مل جائے اس کو اسی زبان میں پڑھانا چاہیے۔ دینیات اور علوم اسلامیہ کے معلمین سب کے سب ایسے ہونے چاہییں جو انگریزی اور عربی دونوں زبانیں جانتے ہوں۔ اب کوئی یک رخا آدمی صحیح معلم دینیات نہیں ہوسکتا۔

میں اپنے اس بیان کی اس طوالت پر عذر خواہ ہوں‘ مگر اتنی تطویل و تفصیل میرے لیے ناگزیر تھی‘ کیونکہ میں بالکل ایک نئے راستے کی طرف دعوت دے رہا ہوں جس کے نشانات کو پہچاننے میں خود مجھے غور و فکر کے کئی سال صَرف کرنے پڑے ہیں۔ میں حتماً اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں کہ مسلمانوں کے مستقل قومی وجود اور ان کی تہذیب کے زندہ رہنے کی اب کوئی صورت بجز اس کے نہیں ہے کہ ان کے طرز تعلیم و تربیت میں انقلاب پیدا کیا جائے اور وہ انقلاب ان خطوط پر ہو جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیے ہیں۔ میں اس سے بے خبر نہیں ہوں کہ ایک بڑی جماعت ایسے لوگوں کی موجود ہے‘ اور خود علی گڑھ میں ان کی کمی نہیں‘ جو میرے ان خیالات کو ایک دیوانے کا خواب کہیں گے۔ اگر ایسا ہو تو مجھے کوئی تعجب نہ ہوگا۔ پیچھے دیکھنے والوں نے آگے دیکھنے والوں کو اکثر دیوانہ ہی سمجھا ہے، اور ایسا سمجھنے میں وہ حق بجانب ہیں لیکن جو کچھ میں آج دیکھ رہا ہوں‘ چند سال بعد شاید میری زندگی ہی میں وہ اس کو بچشم سر دیکھیں گے اور ان کو اس وقت اصلاحِ حال کی ضرورت محسوس ہوگی جب طوفان سر پر ہوگا اور تلافیِ مافات کے مواقع کم تر رہ جائیں گے۔

(ترجمان القرآن، جمادی الاخری ۱۳۵۵ھ۔ اگست ۱۹۳۶ء)