مضامین سید ابوالاعلی مودودی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مضامین سید ابوالاعلی مودودی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

قرآن ، اقامت ِ دین اور مولانا مودودیؒ - پروفیسر خورشید احمد


تجدید و احیاے دین، اسلامی تاریخ کی ایک روشن روایت اور عقیدۂ ختم نبوت کا فطری نتیجہ اور دینِ اسلام کے مکمل ہونے کا تقاضا ہے۔ ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کچھ برگزیدہ بندوں کو اس توفیق سے نوازا کہ وہ دین کی بنیادی دعوت پر مبنی اللہ کے پیغام کو، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے نمونے کی روشنی میں، اپنے دور کے حالات کا جائزہ لے کر بلاکم و کاست پیش کریں۔ دورِحاضر میں جن عظیم ہستیوں کو یہ سعادت حاصل ہوئی، ان میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء - ۱۹۷۹ء) کا نام سرفہرست ہے۔

ویسے تو مسلم تاریخ کے ہر دور میں نشیب و فراز نظر آتا ہے، لیکن ۱۹ویں صدی عیسوی اس اعتبار سے بڑی منفرد ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ میں پہلی بار مسلمان ایک عالمی قوت کی شناخت اور حیثیت سے محروم ہوئے۔ اس دوران چار کمزور ممالک اورنام نہاد حکومتوں کو چھوڑ کر پورا عالمِ اسلام مغرب کی توسیع پسندانہ اور سامراجی قوتوں کے زیرتسلط آگیا۔ یہ صورتِ حال ۲۰ویں صدی کے وسط تک جاری رہی۔ اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ یہ دور مسلم تاریخ کا تاریک ترین دور تھا، جو فکری و نظریاتی اور اخلاقی انحطاط کے ساتھ ساتھ معاشی، سیاسی اور تہذیبی، گویا ہراعتبار سے اُمت کی محکومی کا دور تھا۔

مغربی نظریات پر مولانا مودودیؒ کی گرفت

خان یاسر 


نظریات:


لفظ ’انقلاب‘ کے مفہوم کو متعین کرتے ہوئے کوسِل لیک نے کہا تھا کہ کچھ اصطلاحیں اس قدر مشہور و معروف ہوجاتی ہیں؛ ان کی اتنی مختلف اور بسا اوقات متضاد تعبیریں سامنے آتی ہیں کہ عملاً وہ اصطلاحیں ایک ’نعرہ‘ بن جاتی ہیں۔ ہر بولنے والا اس سے اپنا مفہوم مراد لے سکتا ہے اور لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ پائیں گے کہ کوئی نوجوان اگر اچانک ’’انقلاب‘‘ کی آواز بلند کردے اور مجلس میں این ایس یو آئی، آئی سا، باپسا، اے بی وی پی اور ایس آئی او کے ارکان موجود ہوں تو ہر ایک بلا اختیار ’زندہ باد‘ کا نعرہ لگا دے گا حالانکہ ہر ایک کے انقلاب کا تصور ایک دوسرے سے بالکل جدا بلکہ شاید معاندانہ ہوگا۔ یہ بات جتنی انقلاب کے لیے صحیح ہے اس سے کہیں زیادہ ’نظریہ‘ کے لیے ہے۔ اور پھر اردو میں تو ’نظریہ‘ ذرا زیادہ ہی پائمال ہے۔ جب روزمرہ زندگی میں یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس بات کو صرف سیاق طے کرتا ہے کہ مندرجہ ذیل میں سے متکلم کی مراد کیا ہے۔

مفہوم اول: اپنے نظریہ سے آپ صحیح ہیں لیکن میرے نظریے کے مطابق اپنے بھائی کے ساتھ کسی کو ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ (بطور زاویۂ نظر perspective/viewpoint )

مفہوم ثانی: ہابس کا نظریہ ہے کہ ایک عمرانی معاہدے کے نتیجے میں ریاست کا ظہور ہوا۔ (بطور کسی مفکر کے افکار کا چھوٹا یا بڑا مجموعہ)

مفہوم ثالث: آئن سٹائن کے نظریۂ اضافت نے سائنسی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ (بطور ایک خاص علمی یا تصوراتی حقیقت)

مفہوم رابع: حنفی نظریہ کے مطابق سمندری کیکڑے حلال نہیں ہیں۔ (بطور ایک خاص مکتب فکر)

مفہوم خامس: نیشنلزم ایک ایسا نظریہ ہے، جس نے دنیا میں صرف تباہی پھیلائی ہے۔ (بطور ماڈرن آئیڈیولوجی)

مفہوم سادس: میں صرف جلوس میں مقبول نہیں ہوں بلکہ اپنے گھر،آفس اور بازار میں بھی میرا نظریہ مقبول ہے۔ (بطور ایک مکمل نظام زندگی)

مفہوم خامس و سادس میں ایک باریک سا فرق ہے۔ اسے یوں سمجھیے کہ ایک آدمی (مفہوم خامس کے مطابق) صرف فلسفیانہ سطح پر کمیونسٹ ہے اگر وہ پولت بیورو کی نشستوں میں پامردی دکھاتا ہے؛ جلسے جلوسوں اور احتجاجوں میں شرکت کرتا ہے، سماج اور ریاست کو کمیونسٹ خطوط پر ڈھالنا چاہتا ہے لیکن اپنی ذاتی زندگی میں پوجا پاٹ کا اہتمام کرتا ہے، جینو پہنتا ہے، ذات پات کی پابندیوں کو قبول کرتا ہے، خشوع و خضوع کے ساتھ ہولی دیوالی مناتا ہے، اور عیش و آرام میں زندگی بسر کرتا ہے۔ (مفہوم سادس کے مطابق) اگر وہ نظام زندگی کی سطح پر کمیونسٹ ہوگا تو اس کی زندگی میں یہ دورنگی نہیں پائی جائے گی۔ وہ مارکس اور لینن کے اسوے کے مطابق صرف اجتماعی نہیں اپنی ذاتی زندگی میں بھی ملحد ہوگا۔ سادگی سے زندگی بسر کرے گا۔ خاندان، سماج، اقدار، اور روایات کی پروا نہیں کرے گا۔ یہی معاملہ ان افراد کا بھی ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام ہمارا نظریہ زندگی ہے۔ اگر وہ صرف فلسفیانہ یا دانشورانہ سطح پر مسلمان ہیں تو اجتماعی زندگی میں۔۔۔ تحریر تقریر، احتجاج، نعروں اور فیس بک پر یہ اسلامیت نظر آئے گی لیکن بیٹی کو وراثت دینی ہو؛ بیٹے کی شادی میں جہیز نہ لینا ہو، اسراف نہ کرنا ہو، فجر کی نماز باجماعت پڑھنی ہو۔۔۔ تو اس سلسلے میں کوتاہیاں پائی جائیں گی۔


مولانا مودودی کا تصور حدیث و سنت

خورشید ندیم 


اللہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جو دین اس امت کو منتقل ہوا ہے، وہ تین اجزا پر مشتمل ہے: قرآن مجید، سنت ثابتہ اور حدیث۔ قرآن مجید کے بارے میں امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جو اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور جو پورے اہتمام کے ساتھ اس امت میں ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آج بھی اسی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے جس صورت میں یہ دورصحابہ میں تھا۔ یہی مقام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو حاصل ہے جو عملی تواتر اور دوسرے ذرائع سے، ہر دور میں محفوظ رہی۔ یہ اسی اہتمام کی بنا پر ہے کہ قرآن مجید اور سنت ثابتہ سے حاصل ہونے والے علم کی حیثیت دین اسلام میں علم یقین کی ہے۔ حدیث کا معاملہ، البتہ قرآن مجید اور سنت سے قدرے مختلف ہے۔ روایت حدیث میں احتیاط کا وہ معیار برقرار نہ رکھا جا سکا جس کا مظاہرہ قرآن مجید اور سنت ثابتہ کے باب میں نظر آتا ہے۔ اسی بنا پر، ہر دور میں اس امت کے جلیل القدر محدثین نے تحقیق کے کئی مراحل سے گزارنے کے بعد کسی روایت کو رسول اللہ کی طرف منسوب کیا۔ احادیث کا یہ ذخیرہ زیادہ تر اخبار آحاد پر مشتمل ہے اور ان میں موجود علم کو علم ظن ہی کی حیثیت حاصل ہے۔


سیّد مودودیؒ : ایک مجاہد راہِ حق

مصباح الاسلام فاروقی 

 ترجمہ و تلخیص :رفیع الدین ہاشمی

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ،
 شمارہ، ستمبر 2018

ذیل میں مصباح الاسلام فاروقی مرحوم کی کتاب Introducing Maududi کی تلخیص پیش کی جارہی ہے۔ یہ مختصر سی کتاب ادارہ مطبوعاتِ طلبہ کراچی نے ۱۹۶۸ء میں شائع کی تھی۔
فاروقی صاحب قیامِ لاہور کے زمانے میں جماعت اسلامی پاکستان کے شعبۂ نشرواشاعت سے وابستہ رہے۔ بعدازاں کراچی چلے گئے اور تقریباً دس برس ادارہ معارف اسلامی کراچی میں بطور تحقیق کار کام کیا۔ مولانا کی شخصیت اور کارناموں پر متعدد ملکی اور غیرملکی مصنّفین نے قلم اُٹھایا ہے لیکن مولانا کے کارناموں کو جس پُرخلوص محبت اور ذوق و شوق سے مصباح الاسلام فاروقی نے اُجاگر کیا ہے، وہ دیگر مصنّفین کے ہاں ناپید ہے۔ قارئین ترجمان کے لیے،فاروقی صاحب کی اس تحریر کا اُردو خلاصہ، دل چسپی کا باعث ہوگا۔ خیال رہے کہ یہ تحریر مولانا کی حیات ہی میں ۱۹۶۸ء میں لکھی گئی تھی۔ (ادارہ)

ایسے شخص کے بارے میں قلم اٹھانا، جس نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب، اُسوہ اور دعوت کی طرف اُمت کی راہ نمائی کی ہو اور جو دینِ حق کے قیام کی کوشش کرنے والی ایک تحریک کا سربراہ بھی ہو ، کوئی آسان کام نہیں۔
ایک نظر دیکھا جائے تو مولانا مودودی کی ذات میں قدرت نے بعض ایسی صلاحیتیں جمع کردی ہیں جو تاریخ عالم کی بہت کم شخصیتوں میں ملتی ہیں۔ وہ جس محنت اور تندہی سے کام کر رہے ہیں، وہ عدیم النظیر ہے۔ انھوں نے احیاے اسلام کی ایک عظیم الشان تحریک اٹھائی ہے۔ چناں چہ جب تک دین کے لیے کام پر لوگوں کا ایمان باقی ہے، جماعت اسلامی کو ان کے ذہنوں سے محو نہیں کیا جا سکتا۔

روضۂ نبویؐ پر

نوٹ : روضۃ نبوی ﷺ پر حاضری کے واقعات اور کیفیات  کو ہمارے اکثر دانشورں  شاعروں اور علماء کرام نے قلم بند کیا ہے ،  ہم برصغیر کے چند  مشاھیر کی تحریرکردہ  حاضری کی کیفیات یہاں نقل کررہے ہیں ۔

٭ سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ

جدے سے مدینہ طیبہ تک کا راستہ وہ ہے ، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بکثرت غزوات اور سرایا ہوئے۔ آدمی کا جی چاہتا ہے کہ غزوات کے مقامات دیکھے ، اور ضرور اس راستے میں وہ سب مقامات ہوں گے،لیکن ہم کسی جگہ بھی ان کی کوئی علامت نہ پاسکے۔ اسی افسوس ناک صورتِ حال کا مشاہدہ مدینہ طیبہ میں بھی ہوا۔ کاش، سعودی حکومت اس معاملے میں اعتدال کی روش اختیار کرے، نہ شرک ہونے دے اور نہ تاریخی آثار کو نذرِ تغافل ہونے دے۔

تاریخِ اسلام کے اہم ترین مقامات جن کو ہم سیرتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدینؓ کے عہد ِ تاریخ میں پڑھتے ہیں، اور جن کے دیکھنے کی ہمیں مدت سے تمنا تھی، ان میں سے کسی بھی جگہ کوئی کتبہ لگا ہوا نہ پایا،جس سے معلوم ہوتا کہ یہ فلاں جگہ ہے، حتیٰ کہ حدیبیہ جیسا مقام بھی اس علامت سے خالی ہے، اور بدر جیسے مقام پر بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ بدر ہے۔

۲۷جولائی [۱۹۵۶ء] کو عصر کے بعد ہم لوگ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے، اور اگلے روز تقریباً مغرب کے وقت وہاں پہنچے۔ راستے میں بدر سے گزر ہوا، لیکن حج کے زمانے میں انسان کچھ اس طرح قواعد و ضوابط سے بندھا ہوتا ہے کہ اپنی مرضی سے کہیں جانا ، اور کہیں ٹھیرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ اس لیے دلی تمنا کے باوجود وہاں ٹھیرنا ممکن نہیں ہوا۔

اسلامی ریاست کے دستور کی اوّلین دفعہ

سید ابوالاعلی مودوی ؒ 

ارشاد باری تعالی ہے : 

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا   ( سورۃ النساء  59؀ۧ)

ترجمہ "اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو  اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے ۔"

-----------------------------
مولانا سید ابوالاعلی  مودودی ؒ نے اس آیت کی روشنی میں اسلامی ریاست کے  دستور پر روشنی ڈالی ہے وہ لکھتے ہیں :

" وہ درج زیل اصول پر قائم کیے گئے ہیں :


(۱) اسلامی نظام زندگی میں اصل مُطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک مسلمان سب سے پہلے بندۂ خدا ہے، سب کچھ اس کے بعد ہے۔ مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی دونوں کا مرکز و محوَر خدا کی فرمانبرداری اور اطاعت ہے۔ دُوسری تماسم اطاعتیں اور وفاداریاں اس کے تحت اورتابع ہوں۔ کوئی امر اس اصلی اور بنیادی اطاعت کا حریف نہ ہو۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں ہے۔

(2)اس کے بعد رسول کی اطاعت ہے۔ یہ کوئی مستقل بالذّات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعتِ خدا کی واحد عملی صُورت ہے۔ رسول اس لیے مُطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کر سکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں۔ کوئی اطاعتِ خدا رسُول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے ۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصَانی فقد عصَی اللہ۔” جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی۔“ اور یہی بات خود قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ آگے آرہی ہے۔

سید مودودیؒ کی فکری کاوشوں کی عصری معنویت

ڈاکٹر محمد رفعت 


معروف اسلامی مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۱۹۰۳ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۷۹ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ گویا بیسویں صدی کے بڑے حصے پر آپ کی زندگی محیط ہے۔ اس زمانہ کا مطالعہ کریں تو سید مودودیؒ کی فکری کاوشوں کی معنویت سمجھی جاسکتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اللہ کی ہدایت پر مبنی فکر وپیغام کو خود سمجھنا اور دنیا کے سامنے پیش کرنا اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے۔ دینی فکر کسی شخص کی طرف منسوب نہیں، بلکہ اس کا موزوں نام فکر اسلامی ہے۔ یعنی وہ فکر جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے دین پر ہے۔ اس کو سمجھنے اور اس کی تشریح کرنے میں مسلمانوں کے اہلِ علم نے اہم رول ادا کیا ہے۔ وحی الٰہی پر مبنی اس فکر کی مستند تشریح خود نبی کریمؐ نے فرمائی ہے۔ آپ کے بعد امت کی ہر نسل اسلامی فکر کو سمجھنے کی، اسے ترقی دینے کی اور اس کا انطباق کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ امت کے اہلِ علم میں اپنا نمایاں مقام رکھتے ہیں اور انھوں نے بھی اسلامی فکر کے ارتقاء میں حصہ لیا ہے۔

کچھ عرصے سے بعض دوستوں نے ’فکر مودودیؒ‘ کی اصطلاح کا استعمال شروع کردیا ہے۔ یہ اصطلاح مناسب نہیں۔ جس فکر کو داعیانِ حق کو پیش کرنا ہے، وہ ’فکر مودودی‘ نہیں بلکہ فکر اسلامی ہے۔ اس کو سمجھنا، فروغ دینا اور دنیا کے سامنے پیش کرنا مقصود ہے۔ ہر صاحبِ علم کی طرح سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بڑا کارنامہ یقیناً انجام دیا ہے۔ اس کی قدر کی جانی چاہیے۔ انھوں نے اسلامی فکر کو سمجھنے اور اس کی تشریح کرنے میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔

فکر مودودی کے بارے میں سعودی حکومت کا نیا فیصلہ

(یہ جائزہ رپورٹ، معروف کالم نگار وسعت اللہ خان نے لکھی ہے ، 9 دسمبر 2015  کو  بی بی سی اردو ڈاٹ کام  میں  شائع ہوئی )

انیس سو اناسی (1979ء)  میں جب کنگ فیصل فاؤنڈیشن نے سائنس، مذہب، فلسفے اور خدمات کے شعبوں میں اسلامی دنیا کے نوبیل پرائز کنگ فیصل ایوارڈ کا اجرا کیا تو خدمتِ اسلام کے شعبے میں پہلا فیصل ایوارڈ ( چوبیس قیراط دو سو گرام کا طلائی تمغہ مع دو لاکھ ڈالر ) مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کو دیا گیا۔اگر آپ کنگ فیصل فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کھولیں تو آج بھی مولانا مودودی کا تعارف کچھ یوں ہے ۔

’وہ معروف مذہبی سکالر اور مبلغِ اسلام تھے۔ان کا شمار بیسویں صدی کے صفِ اول کے موثر اسلامی فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ان کی زندگی اور نظریات کو دنیا بھر میں مسلمان اور غیر مسلم محققین نے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ۔وہ ایک وسیع العلم شخصیت تھے جن کی تحریروں نے عالمِ اسلام میں اسلامی اقدار اور روحِ اسلام کو اجاگر کیا۔ انھیں کنگ فیصل ایوارڈ اسلامی صحافت کے فروغ اور برصغیر میں اسلامی نظریات کے احیا کے اعتراف میں عطا کیا گیا۔‘

مغربی فکروفلسفہ پر مولانا مودودیؒ کا تبصرہ

ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی

(صدر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی )

اس حقیقت کے اظہار میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ بیسوی صدی عیسوی کے علم کلام کا تذکرہ مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء) کے بغیر ناقص اور ادھورا ہوگا۔ بلاشبہہ انیسویں صدی میں اس نئے علم کلام کی تشکیل کا آغاز ہو چکا تھا۔ مغربی فکر و فلسفے کے بطن سے جنم لینے والی تہذیب، جو علم اور تلوار دونوں سے مسلح تھی اور اس کا استیلا و غلبہ اس نئے علم کلام کا محوری اور حرکی موضوع تھا۔ اس فکروفلسفے نے عالم اسلام میں وسیع تر کلامی ادبیات کو متاثر کیا اور ایک بھرپور چیلنج بھی پیش کیا۔ بر صغیر کے علما، دانش ور اور مصلحین و مفکرین خاص طور سے طلسمِ مغرب کو بے نقاب کرنے کے لیے کمر بستہ ہوئے اور اس جدوجہد میں عظیم الشان فکری و تحریری سرمایہ چھوڑا۔ برصغیر سے انیسویں صدی کے معذرت خواہ مصلحین میں سرسیّداحمد خان (۱۸۱۷-۱۸۹۸ء)، سیّد امیر علی (۱۸۴۹ء- ۱۹۲۸ء) اور بعض دوسرے اہلِ علم نے مسلمانوں کا مقدمہ پیش کیا، اور ساتھ ہی تنقید مغرب کی تاسیس وتشکیل کی۔ان حضرات کی علمی کوششوں کا حُسن و قُبح اس وقت زیر بحث نہیں ہے ۔

پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ کیا ہے؟

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


سوال : آپ کے نزدیک اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ کیا ہے اور اسے کس طرح حل کیا جاسکتا ہے؟

جواب :میرے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تقریباً وہی ہے جو تمام مسلم ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ لیڈرشپ آخرکار اسلام کو ماننے، سمجھنے اور اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کرنے والوں کے ہاتھ میں آتی ہے ، یا ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ رہتی ہے جو اسلام کا نام لیتے ہوئے یا کھلم کھلا اس کی مخالفت کرتے ہوئے، اپنی قوم کو بگٹٹ غیراسلامی راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر مستقبل قریب میں اس مسئلے کا فیصلہ پہلی صورت کے حق میں نہ ہوا، تو مجھے اندیشہ ہے کہ سارے مسلم ممالک سخت تباہی سے دوچار ہوں گے۔

مذھبی اختلافات

ارشاد باری تعالی ہے " ابتداء میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ ﴿ پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے﴾ تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کجروی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے، اور ان کے ساتھ کتابِ برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے، ان کا فیصلہ کرے۔۔﴿اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتداء میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا۔ نہیں،﴾ اختلاف ان لوگوں نے کیا، جنہیں حق کا علم دیاچکا تھا۔ انھوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔۔ پس جو لوگ انبیا (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے، انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھا دیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ اللہ جسے چاہتا ہے، راہ راست دکھا دیتا ہے۔ "

( سورۃ البقرۃ : 213) 

مولانا مودودیؒ اس آیت کے حوالے سے لکھتے ہیں  " ناواقف لوگ جب اپنی قیاس و گمان کی بنیاد پر ”مذہب“ کی تاریخ مرتب کرتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا شرک کی تاریکیوں سے کی، پھر تدریجی ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تاریکی چھٹتی اور روشنی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آدمی توحید کے مقام پر پہنچا۔

 قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں انسان کی زندگی کا آغاز پوری روشنی میں ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس انسان کو پیدا کیا تھا اس کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہے اور تیرے لیے صحیح راستہ کون سا ہے۔ اس کے بعد ایک مدت تک نسل آدم راہ راست پر قائم رہی اور ایک امت بنی رہی۔

 پھر لوگوں نے نئے نئے راستے نکالے اور مختلف طریقے ایجاد کر لیے۔ اس وجہ سے نہیں کہ ان کو حقیقت نہیں بتائی گئی تھی، بلکہ اس وجہ سے کہ حق کو جاننے کے باوجود بعض لوگ اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے تھے اور آپس میں ایک دوسرے پر ظلم، سرکشی اور زیادتی کرنے کے خواہشمند تھے۔

 اسی خرابی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو مبعوث کرنا شروع کیا۔ یہ انبیا علیہم السلام اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہر ایک اپنے نام سے ایک نئے مذہب کی بنا ڈالے اور اپنی ایک نئی امت بنالے۔ بلکہ ان کے بھیجے جانے کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے اس کھوئی ہوئی راہ حق کو واضح کر کے انہیں پھر سے ایک امت بنا دیں ۔


(تفہیم القرآن ، سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :230 ) 


ایک اورجگہ اسی مضمون کے متعلق ارشاد باری تعالی ہے "  تاہم اگر ان لوگوں کی بےرخی تم (محمد ﷺ) سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو۔  اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کرسکتا تھا، لہٰذا نادان مت بنو۔ " ( سورۃ الانعام : 35 ) 

مولانا مودودی ؒ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں " یعنی اگر صرف یہی بات مطلوب ہوتی کہ تمام انسان کسی نہ کسی طور پر راست رو بن جائیں تو نبی بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے اور مومنوں سے کفار کے مقابلہ میں جدوجہد کرانے اور دعوت حق کو تدریجی تحریک کی منزلوں سے گزروانے کی حاجت ہی کیا تھی۔ یہ کام تو اللہ کے ایک ہی تخلیقی اشارہ سے انجام پا سکتا تھا۔ لیکن اللہ اس کام کو اس طریقہ پر کرنا نہیں چاہتا۔

 اس کا منشاء تو یہ ہے کہ حق کو دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ پھر ان میں سے جو لوگ فکر صحیح سے کام لے کر حق کو پہچان لیں وہ اپنے آزادانہ اختیار سے اس پر ایمان لائیں۔ اپنی سیرتوں کو اس کے سانچے میں ڈھال کر باطل پرستوں کے مقابلہ میں اپنا اخلاقی تفوق ثابت کریں۔ انسانوں کے مجموعہ میں سے صالح عناصر کو اپنے طاقتور استدلال، اپنے بلند نصب العین، اپنے بہتر اصول زندگی اور اپنی پاکیزہ سیرت کی کشش سے اپنی طرف کھینچتے چلے جائیں۔ اور باطل کے خلاف پیہم جدوجہد کر کے فطری ارتقاء کی راہ سے اقامت دین حق کی منزل تک پہنچیں۔ اللہ اس کام میں ان کی رہنمائی کرے گا اور جس مرحلہ پر جیسی مدد اللہ سے پانے کا وہ اپنے آپ کو مستحق بنائیں گے وہ مدد بھی انہیں دیتا چلا جائے گا۔

 لیکن اگر کوئی یہ چاہے کہ اس فطری راستے کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ محض اپنی قدرت قاہرہ کے زور سے افکار فاسدہ کو مٹا کر لوگوں میں فکر صالح پھیلا دے اور تمدن فاسد کو نیست و نابود کر کے مدنیت صالحہ تعمیر کر دے، تو ایسا ہرگز نہ ہوگا کیونکہ یہ اللہ کی اس حکمت کے خلا ف ہے جس کے تحت اس نے انسان کو دنیا میں ایک ذمہ دار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے، اسے تصرف کے اختیارات دیے ہیں، طاعت و عصیان کی آزادی بخشی ہے، امتحان کی مہلت عطا کی ہے، اور اس کی سعی کے مطابق جزا اور سزا دینے کے لیے فیصلہ کا ایک وقت مقرر کردیا ہے۔

( تفہیم القرآن ، سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :24)

آزمائش کی حقیقت


ارشاد باری تعالی  ہے : " ﴿ان ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہوں، تو ﴾ کیا اب وہ اس کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے ساتھ لیے خود سامنے آ موجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے؟ ۔آخر کار سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں۔"  ( سورۃ البقرۃ : 210 )

مولانا مودودی ؒ اس آیت کی تشریح میں  لکھتے ہیں : " یہ الفاظ قابل غور ہیں۔ ان سے ایک اہم حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔ اس دنیا میں انسان کی ساری آزمائش صرف اس بات کی ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھے بغیر مانتا ہے یا نہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی کا اختیار رکھنے کے باوجود فرماں برداری اختیار کرے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انبیا کی بعثت میں، کتابوں کی تنزیل میں، حتّٰی کہ معجزات تک میں عقل کے امتحان اور اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بےپردہ نہیں کردیا ہے کہ آدمی کے لیے مانے بغیر چارہ نہ رہے۔ کیونکہ اس کے بعد تو آزمائش بالکل بےمعنی ہوجاتی ہے اور امتحان میں کامیابی و ناکامی کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔

 اسی بنا پر یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اس وقت کا انتظار نہ کرو، جب اللہ اور اس کی سلطنت کے کارکن فرشتے خود سامنے آ جائیں گے، کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر ڈالا جائے گا۔ ایمان لانے اور اطاعت میں سر جھکا دینے کی ساری قدر و قیمت اسی وقت تک ہے، جب تک حقیقت تمہارے حواس سے پوشیدہ ہے اور تم محض دلیل سے اس کو تسلیم کر کے اپنی دانشمندی کا اور محض فہمائش سے اس کی پیروی و اطاعت اختیار کر کے اپنی اخلاقی طاقت کا ثبوت دیتے ہو۔

 ورنہ جب حقیقت بےنقاب سامنے آجائے اور تم بچشم سر دیکھ لو کہ یہ خدا اپنے تخت جلال پر متمکن ہے، اور یہ ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے، اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں، اور یہ تمہاری ہستی اس کے قبضہ قدرت میں پوری بےبسی کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے، اس وقت تم ایمان لائے اور اطاعت پر آمادہ ہوئے، تو اس ایمان اور اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے؟ اس وقت تو کوئی کٹّے سے کٹّا کافر اور بدتر سے بدتر مجرم و فاجر بھی انکار و نافرمانی کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے کی مہلت بس اسی وقت تک ہے جب تک کہ پردہ کشائی کی وہ ساعت نہیں آتی۔ جب وہ ساعت آگئی، تو پھر نہ مہلت ہے نہ آزمائش، بلکہ وہ فیصلے کا وقت ہے۔



(تفہیم القرآن ، سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :228)

قرآن اور فلسفیانہ تجسُّس

ارشاد باری تعالی ہے "آگاہ رہو! آسمان کے بسنے والے ہوں یا زمین کے، سب کے سب اللہ کے مملوک ہیں۔  اور جو لوگ اللہ کے سوا ﴿ اپنے خود ساختہ﴾ شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نرے وہم و گمان کے پیرو ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں ۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا۔ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ﴿ کھلے کانوں سے پیغمبر کی دعوت کو﴾ سنتے ہیں۔ (سورۃ یونس : 66، 67) 

سید ابوالاعلی مودودی ؒ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں " یہ ایک تشریح طلب مضمون ہے جسے بہت مختصر لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ فلسفیانہ تجسّس، جس کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ اس کائنات میں بظاہر جو کچھ ہم دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اس کے پیچھے کوئی حقیقت پوشیدہ ہے یا نہیں اور ہے تو وہ کیا ہے، دنیا میں ان سب لوگوں کے لیے جو وحی و الہام سے براہ راست حقیقت کا علم نہیں پاتے، مذہب کے متعلق رائے قائم کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ 

کوئی شخص بھی خواہ وہ دہریت اختیار کرے یا شرک یا خدا پرستی، بہرحال ایک نہ ایک طرح کا فلسفیانہ تجسّس کیے بغیر مذہب کے بارے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ اور پیغمبروں نے جو مذہب پیش کیا ہے اس کی جانچ بھی اگر ہو سکتی ہے تو اسی طرح ہو سکتی ہے کہ آدمی، اپنی بساط بھر، فلسفیانہ غور و فکر کر کے اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ پیغمبر ہمیں مظاہرِ کائنات کے پیچھے جس حقیقت کے مستور ہونے کا پتہ دے رہے ہیں وہ دل کو لگتی ہے یا نہیں۔ 

اس تجسّس کے صحیح یا غلط ہونے کا تمام تر انحصار طریق تجسّس پر ہے۔ اس کے غلط ہونے سے غلط رائے اور صحیح ہونے سے صحیح رائے قائم ہوتی ہے۔ اب ذرا جائزہ لے کر دیکھیے کہ دنیا میں مختلف گروہوں نے اس تجسّس کے لیے کون کون سے طریقے اختیار کیے ہیں :

مشرکین نے خالص وہم پر اپنی تلاش کی بنیاد رکھی ہے۔

اشراقیوں اور جو گیوں نے اگرچہ مراقبہ کا ڈھونگ رچایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ہم ظاہر کے پیچھے جھانک کر باطن کا مشاہدہ کرلیتے ہیں، لیکن فی الواقع انہوں نے اپنی اس سراغ رسانی کی بنا گمان پر رکھی ہے۔ وہ مراقبہ دراصل اپنے گمان کا کرتے ہیں، اور جو کچھ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نظر آتا ہے اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ گمان سے جو خیال انہوں نے قائم کرلیا ہے اسی پر تخیل کو جما دینے اور پھر اس پر ذہن کا دباؤ ڈالنے سے ان کو وہی خیال چلتا پھرتا نظر آنے لگتا ہے۔

اصطلاحی فلسفیوں نے قیاس کو بنائے تحقیق بنایا ہے جو اصل میں تو گمان ہی ہے لیکن اس گمان کے لنگڑے پن کو محسوس کر کے انہوں نے منطقی استدلال اور مصنوعی تعقل کی بیساکھیوں پر اسے چلانے کی کوشش کی ہے اور اس کا نام ”قیاس“ رکھ دیا ہے۔

سائنس دانوں نے اگرچہ سائنس کے دائرے میں تحقیقات کے لیے علمی طریقہ اختیار کیا ہے، مگر مابعد الطبیعیات کے حدود میں قدم رکھتے ہی وہ بھی علمی طریقے کو چھوڑ کر قیاس و گمان اور اندازے اور تخمینے کے پیچھے چل پڑے۔

پھر ان سب گروہوں کے اوہام اور گمانوں کو کسی نہ کسی طرح سے تعصب کی بیماری بھی لگ گئی جس نے انہیں دوسرے کی بات نہ سننے اور اپنی ہی محبوب راہ پر مڑنے، اور مڑ جانے کے بعد مڑے رہنے پر مجبور کردیا ۔

قرآن اس طریق تجسّس کو بنیادی طور پر غلط قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم لوگوں کی گمراہی کا اصل سبب یہی ہے کہ تم تلاش حق کی بنا گمان اور قیاس آرائی پر رکھتے ہو اور پھر تعصب کی وجہ سے کسی کو معقول بات سننے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ اسی دہری غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ تمہارے لیے خود حقیقت کو پا لینا تو ناممکن تھا ہی، انبیاء علیہم السلام کے پیش کردہ دین کو جانچ کر صحیح رائے پر پہنچنا بھی غیر ممکن ہوگیا۔

اس کے مقابلہ میں قرآن فلسفیانہ تحقیق کے لیے صحیح علمی و عقلی طریقہ یہ بتاتا ہے کہ پہلے تم حقیقت کے متعلق ان لوگوں کا بیان کھلے کانوں سے، بلاتعصب سنو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قیاس و گمان یا مراقبہ و استدراج کی بنا پر نہیں بلکہ ”علم“ کی بنا تمہیں بتا رہے ہیں کہ حقیقت یہ ہے۔ 

پھر کائنات میں جو آثار (باصطلاح قرآن ”نشانات“) تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آتے ہیں ان پر غور کرو، ان کی شہادتوں کو مرتب کر کے دیکھو، اور تلاش کرتے چلے جاؤ کہ اس ظاہر کے پیچھے جس حقیقت کی نشاندہی یہ لوگ کر رہے ہیں اس کی طرف اشارہ کرنے والی علامات تم کو اسی ظاہر میں ملتی ہیں یا نہیں۔ اگر ایسی علامات نظر آئیں اور ان کے اشارے بھی واضح ہوں تو پھر کوئی وجہ نہیں تم خواہ مخواہ ان لوگوں کو جھٹلاؤ جن کا بیان آثار کی شہادتوں کے مطابق پایا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔ یہی طریقہ فلسفہ اسلام کی بنیاد ہے جسے چھوڑ کر افسوس ہے کہ مسلمان فلاسفہ بھی افلاطون اور ارسطو کے نقش قدم پر چل پڑے۔

قرآن میں جگہ جگہ نہ صرف اس طریق کی تلقین کی گئی ہے، بلکہ خود آثار کائنات کو پیش کر کر کے اس سے نتیجہ نکالنے اور حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی گویا باقاعدہ تربیت دی گئی ہے تاکہ سوچنے اور تلاش کرنے کا یہ ڈھنگ ذہنوں میں راسخ ہوجائے۔ 

چنانچہ اس آیت میں بھی مثال کے طور پر صرف دو آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، یعنی رات اور دن۔ یہ انقلاب لیل و نہار دراصل سورج اور زمین کی نسبتوں میں انتہائی باضابطہ تغیر کی وجہ سے رونما ہوتا ہے۔ یہ ایک عالمگیر ناظم اور ساری کائنات پر غالب اقتدار رکھنے والے حاکم کے وجود کی صریح علامت ہے۔ 

اس میں صریح حکمت اور مقصدیت بھی نظر آتی ہے کیونکہ تمام موجودات زمین کی بےشمار مصلحتیں اسی گردش لیل و نہار کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس میں صریح ربوبیت اور رحمت اور پروردگاری کی علامتیں بھی پائی جاتی ہیں کیونکہ اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ جس نے زمین پر یہ موجودات پیدا کی ہیں وہ خود ہی ان کے وجود کی ضروریات بھی فراہم کرتا ہے۔

 اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالمگیر ناظم ایک ہے، اور یہ بھی کہ وہ کھلنڈرا نہیں بلکہ حکیم ہے اور با مقصد کام کرتا ہے، اور یہ بھی کہ وہی محسن و مربی ہونے کے حیثیت سے عبادت کا مستحق ہے، اور یہ بھی کہ گردش لیل و نہار کے تحت جو کوئی بھی ہے وہ رب نہیں مربوب ہے، آقا نہیں غلام ہے۔ ان آثاری شہادتوں کے مقابلہ میں مشرکین نے گمان و قیاس سے جو مذہب ایجاد کیے ہیں وہ آخر کس طرح صحیح ہو سکتے ہیں ۔

( تفہیم القرآن ، سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :65، سید ابوالاعلی مودودی ؒ )

پاکستان اسلام کی نعمتوں سے محروم کیوں ہے ؟

جماعت اسلامی کے نزدیک پاکستان میں دراصل کسر اس چیز کی نہیں ہے کہ یہاں خدا اور آخرت اور رسالت کے ماننے والوں کی کمی ہے، بلکہ کمی اس چیز کی ہے کہ جس حق کو یہاں کے باشندوں کی اکثریت مانتی ہے وہ عملاً نافذ ہو، اور اسی پر ہمارے ملک کا پورا نظامِ زندگی قائم ہو۔ یہ کوئی معمولی کسر نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی کسر ہے، کیوں کہ اسی کی وجہ سے ہمارا یہ ملک ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود نہ اسلام کی نعمتوں اور برکتوں سے خود فائدہ اُٹھا رہا ہے، نہ دُنیا کے لیے اسلام کی حقانیت کا گواہ بن رہا ہے۔ اور یہ کسر اس لحاظ سے بھی کوئی ہلکی کسر نہیں ہے کہ اسے پورا کر دینا آسان ہو۔ اس کی پشت پر بہت سے طاقت ور اسباب ہیں، جنھیں سخت جدوجہد ہی کے بعد دُور کیا جاسکتا ہے:

  •  ایک طرف ہمارے عوام کی اسلام سے ناواقفیت ہے، جس کی وجہ سے وہ اس دین کے عقیدت مند ہونے کے باوجود اس کی صحیح پیروی سے قاصر ہورہے ہیں۔ 

  •  دوسری طرف ہمارے اندر بہت سے ایسے مانع اصلاح عناصر کی موجودگی ہے، جو اپنے تعصبات کی وجہ سے یا اپنی اغراض کی خاطر مختلف پرانی یا نئی جاہلیتوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور خالص اسلام کے قیام کی راہ روک رہے ہیں۔

  •  تیسری طرف ہمارا ماضی قریب ہے جو ہمیں اس حال میں چھوڑ گیا ہے کہ انگریزی اقتدار نے اپنی تعلیم سے، اپنےتہذیبی و تمدنی اثرات سے، اپنے قوانین سے، اپنے معاشی نظام سے، اور اپنی انتظامی پالیسی سے ہماری زندگی کے ہرشعبے کو غیراسلامی سانچوں میں ڈھال دیا ہے، حتیٰ کہ ہمارے مذہبی عقائد اور ہمارے اخلاق تک کی جڑیں ہلا کررکھ دی ہیں۔

  • ان سب پر مزید یہ کہ انگریز کے رخصت ہو جانے کے بعد جن لوگوں کے ہاتھ میں ہماری قومی زندگی کی باگیں آئی ہیں، اور جن کو اس نوخیز ریاست کی تعمیروتشکیل کے اختیارات ملے ہیں، وہ اگرچہ اسلام ہی کا نام لے کر برسرِاقتدار آئے ہیں، اسلامی دستور کا حلف لے کر ہی حکومت کی کرسیوں پر بیٹھے ہیں، اور دعویٰ یہی کرتے ہیں کہ ہم یہاں اسلام کے مطابق کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن نہ تو وہ اسلام کو جانتے ہیں ، نہ ان کی اپنی زندگیاں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ وہ اسلام کے طریقے پر خود عامل ہیں، اور نہ ان کا اب تک کا طرزِعمل یہ اُمید دلاتاہے کہ ان کے ہاتھوں یہ ملک کبھی فرنگیت کے راستے سے ہٹ کر اسلام کے راستے پر چل سکے گا۔

یہ ہیں وہ بڑے بڑے بنیادی اسباب، جن کی وجہ سے پاکستان میں اس کسر کو پورا کر دینا کوئی آسان کام نہیں ہے کہ یہاں کے باشندوں کی اکثریت جس چیز کو حق جانتی اور مانتی ہے، وہ یہاں عملاً نافذ ہو اور اسی پر یہاں کا پورا نظامِ زندگی قائم ہو۔



([سیّدابوالاعلیٰ مودودی] ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۵۰، عدد۳، رمضان ۱۳۷۷ھ/ جون ۱۹۵۸ء،ص ۱۸-۱۹)

( اشاعت مکرر ، ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، جون 2018)

فتنۂ تکفیر ، سید ابوالاعلی مودودی ؒ

فتنۂ تکفیر 
تحریر :  سید ابوالاعلی مودودی ؒ 
آواز : جاوید اختر 


سیرت کا پیغام

مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ کا " سیرت کا پیغام " کے عنوان سے 1973ء کو  پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ سے اہم  خطاب 



مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودودیؒ کی حیات و افکار


مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودودیؒ کی حیات و افکار 





مفکراسلام سید ابوالاعلی مودودیؒ کی حیات کی چند جھلکیاں


مفکراسلام سید ابوالاعلی مودودیؒ کی زندگی کی چند جھلکیاں 



اما م شاہ ولی اللہ ؒکے فلسفہ و فکر پر ایک تبصرہ


اما م شاہ ولی اللہ ؒکے فلسفہ و فکر پرایک تبصرہ


مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودودی ؒ


"انہوں نے  مابعد الطبیعی مسائل سے ابتداء کی ہے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ  ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص پورے فلسفۂ اسلام کو مدون کرنے کی بنا ڈارہا ہے ،  اس سے پہلے مسلمان جو کچھ فلسفہ میں لکھتے اور کہتے رہے ہیں اس کو محض نادانی سے لوگوں نے فلسفۂ  اسلام کے نام سے موسوم کردیا ہے حالانکہ وہ فلسفۂ اسلام نہیں،  مسلمین  ہے جس کا شجرہ نسب یونا ن روم وایران و ہندوستان سے ملتاہے ۔ فی الواقع جو چیز اس نام سے موسوم کرنے کے لائق ہے ، اس کی داغ بیل سے پہلے اس دہلوی شیخ (شاہ ولی اللہ ) نے ڈالی ہے اگرچہ اصطلاحات وہی قدیم فلسفہ و کلام یا فلسفیانہ تصوف کی زبان سے لی ہیں اور غیر شعوری طور پر بہت سے تخیلات بھی  وہیں سے آگئے جیسا کہ اول اول ہر نئی راہ نکالنے والے کے لیے طبعا ناگزیر ہے مگر پھر بھی تحقیق کا ایک نیا دروازہ کھولنے کی یہ ایک بڑی زبردست کوشش ہے ۔ خصوصا ایسے شدید انحطاط کے دور میں اتنی طاقت ور عقلیت کے آدمی کا ظاہر ہونا بالکل حیرت انگیز ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔
اس فلسفہ میں شاہ صاحب کائنات کا اور پھر کائنات میں انسان کا ایسا تصور قائم کرنے کی سعی کرتے ہیں جو اسلام کے نظام اخلااق وتمدن کے ساتھ  ہم آہنگ اور متحد المزاج ہو سکتاہو یا دوسرے الفاظ میں اگر اس کو شجرہ اسلام کی جڑ قرار دیا جائے تو جڑ میں اور درخت میں جو اس ے پھو ٹا عقلا کوئی فطری مبانیت محسوس نہ کی جاسکتی ہو ۔ کیونکہ جو فلسفہ مسلمانوں میں رائج تھا وہ اسلام کے عملی، اخلاقی ،اعتقادی نظام سے کوئی ربط نہیں رکھتا تھا اسی وجہ سے اس کا رواج جتنا جتنا بڑھا اسی قدر مسلمانوں کی زندگی بگڑتی چلی گئی عقیدہ بھی کمزور ہوا اخلاق بھی ڈھیلے ہوئے اور قوائے عمل بھی سرد پڑگئے ۔ ذہن میں متصادم خیالات کی کش مکش کا یہ طبعی نتیجہ ہے اور یہ اثرات مغربی فلسفہ کے رواج سے بھی رونما ہورہا ہے اور اس لیے وہ بھی کسی طرح نظام اسلام کی فطری اساس نہیں ہوسکتا ۔ میں حیران رہ جاتاہوں جب سنتاہوں کہ شاہ صاحب نے ویدانتی فلسفہ اور اسلامی فلسفہ کو جوڑ لگا کر نئی ہندی قومیت کے لیے فکری اساس فراہم کرنے کی کوشش کی ہے مجھے ان کی کتابوں میں کہیں اس کا سراغ نہیں ملا اور اگر مل جاتا باللہ العظیم کہ مین شاہ صاحب کو مجددین کی فہرست سے خارج کرکے متجددین کی صف میں لے جاکر بیٹھا تا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مابعد الطبیعی فلسفہ کو استوار کرنے کے بعد وہ اس پر ایک نظام اخلاق کی عمارت کھڑی کرتے ہیں اور اس مقام پر انتہائی جذبہ اعتراف کے ساتھ میں دیکھتا ہوں کہ وہ یونانی ایتھکس کی غلامی سے پہلوبچارہے ہیں اس ایتھکس کی غلامی سے جس میں (نصیر الدین طوسی اور ) دوانی جیسے لوگ جا پھنتے ہیں اور جس کا اچھا خاصہ اثر امام غزالی ؒ  تک کے ذہن پر قائم رہا ۔ مگر یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ شاہ صاحب اس کے اثر سے بالکل آزاد  چکے تھے ۔ نظام اخلاق پر وہ ایک اجتماعی فلسفہ کی عمارت اٹھاتے، عدالت ،ضرب محاصل ، انتظام ملک داری اور تنظیم عسکری وغیرہ کی تفصیلات بیان کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان اسباب و علل پر روشنی ڈالتے ہیں جن سے تمدن میں فساد پیدا ہوتا ہے ۔ پھر وہ نظام شریعت عبادات ، احکام اور قوانین کو پیش کر تے ہیں اور ہر ایک چیز کی حکمتین سمجھاتے جاتے ہیں اس  خاص  مضمون پر جو کام انہوں نے کیا ہے وہ اسی نوعیت کا ہے جو ان سے پہلے غزالی ؒ  نے کیا تھا اور قدرتی بات ہے کہ شاہ صاحب ؒ  اس راہ میں  امام موصوف یعنی غزالی سے آگے بڑھ گئے ہیں ۔ عزالدین بن عبد السلام کی تصنیف تو میں نے پڑھی نہیں لیکن امام غزالی ؒ کی احیا ء غور سے بالاستیعاب پڑھی ہے اس کے اسرارالدین کی نوعیت شاہ صاحب ؒ کے فلسفہ اسلام سے مختلف ہے ، غزالی کی تصنیف سے یورپ زدہ لوگوں کی جو یورپ کے الحادی فلسفہ کے زیر اثر ہیں قطعا تسلی نہیں ہو سکتی ۔ بے شک اس کا پڑھنا ایسے شخص کے لیے بےحد مفید ہے جو پہلے سے سچا مسلمان ہو برخلاف اس کے حجۃ اللہ البالغہ کا پڑھنا  ان یورپ زدہ لوگوں کے لیے بھی مفید ہو سکتا ہے ۔ بشر طیکہ کسی قائم کردہ رائے پڑ اڑے رہنے کا خیا  ل  دل سے نکال دیا جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں میں انہوں ے تاریخ ملل و شرائع پر نظر ڈالی ہے اور کم از کم میرے علم کی حدتک وہ پہلے شخص ہیں جس نے اسلام اور جاہلیت کی باہمی کش مکش کا ایک دھندلا سا تصور پیش کیا ہے ۔ نظام اسلام کے اس قدر معقول اور اتنے مرتب خاکے کا پیش ہوجا نا بجائے کود اس امر کی پوری ضمانت ہے کہ اس نصب العین کے لیے جان و تن کی بازی لگادیں خواہ اس نصب العین کو سامنے رکھنے والا کود عملا کسی تحریک کی راہ نمائی کر ے یا نہ کرے مگر جو چیز اس سے بھی زیادہ محرک ثابت ہوئ وہ یہ تھکی کہ شاہ صاحب ؒ نے جاہلی حکومت اور اسلامی حکومت کے فرق بالکل نمایاں کر کے لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور نہ صرف اسلامی حکومت کی خصوصیات کو صاف صاف بیان کر دیا بلکہ بحث کو بہ تکرار ایسے طریقوں سے پیش کیا جس کی وجہ سے اصحاب ایمان کے لئے جاہلی حکومت کو اسلامی حکومت سے بدلنے  کی جد وجہد کیے بغیر چین سے بیٹھنا محال ہو گیا یہ مضمون حجۃ اللہ البالغہ میں کا فی تفصیل کے ساتھ آیا ہے لیکن ازالۃ الخفا تو گویا اسی موضوع پر لکھی گئی ہے ۔ اس کتا ب میں  و ہ احادیث صحیحہ سے ثابت کر تے ہیں کہ خلافت اسلامی اور بادشاہی بالکل دو مختلف الاصل چیزیں ہیں ۔
پھر ایک طرف بادشاہی کو اور اس کے لوازم تمام فتنوں  کو رکھتے ہیں جو بادشاہی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی حیات اجتماعی میں ازروئے تاریخ پیدا ہوئے اور دوسری طر ف خلافت اسلامی  کی خصوصیات  اور شرائط  اور اس کی رحمتوں کو پیش کرتے ہیں جو اسلامی خلافت میں فی الواقع مسلمانوں پر نازل ہو چکی ہیں ۔ اس کے بعد کس طرح ممکن تھا کہ لوگ جن کی تعلیم و تربیت شاہ صاحب ؒ کے ان کی نظریوں کے ماتحت ہوئی تھی ، چین سے بیٹھ جاتے ۔ یہی وجہ تھی کہ شاہ صاحب کی وفات پر پوری نصف صدی بھی گزرنے نہ پائی تھی کہ ہندوستان میں ایک تحریک اٹھ  کھڑی  ہوئی جس کا نصب العین وہی تھا جو شاہ صاحب ؒ انکی نگاہوں کے سامنے روشن کرکے رکھ گئے تھے۔ "(یعنی شیداحمد شہید ؒ  اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک مجاھدین کی طرف اشارہ ہے )