مشاہیر اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مشاہیر اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

شیخ محمد متولی الشعراوی: ایک عظیم مفسر، عالمِ دین اور فکری رہنما

محمد متولی الشعراوی (15 اپریل 1911ء / 17 ربیع الأول 1329ھ - 17 جون 1998ء / 22 صفر 1419ھ) ایک معروف مفسر، عالم دین اور مصر کے وزیر اوقاف تھے۔ وہ اپنی مخصوص انداز کی قرآنی تفسیر "خواطر" کے ذریعے مشہور ہوئے، جس میں انہوں نے قرآن کریم کے مفاہیم کو سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کیا، جس کی وجہ سے وہ عرب اور اسلامی دنیا کے لاکھوں مسلمانوں تک پہنچے۔ بعض لوگوں نے انہیں "امام الدعاۃ" (داعیوں کا امام) کا لقب دیا۔

شیخ محمد متولی الشعراوی

پیدائش

محمد متولی الشعراوی 15 اپریل 1911ء کو مصر کے صوبہ دقہلیہ کے ضلع مِیت غمر کے ایک گاؤں "دقادوس" میں پیدا ہوئے۔

تعلیم

انہوں نے گیارہ برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔ 1922ء میں وہ الزقازيق کے ابتدائی مدرسہ ازہریہ میں داخل ہوئے اور شروع ہی سے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل طالبعلم ثابت ہوئے۔ 1923ء میں انہوں نے ابتدائیہ ازہریہ کی سند حاصل کی اور ثانویہ ازہریہ میں داخلہ لیا۔ وہاں ان کی دلچسپی شعر و ادب میں مزید بڑھ گئی اور ان کے ساتھیوں نے انہیں طلبہ یونین اور "جمعیت الأدباء" (ادباء کی انجمن) کا صدر منتخب کیا۔ اس دور میں ان کے ہم عصر افراد میں ڈاکٹر محمد عبدالمنعم خفاجی، شاعر طاہر ابو فاشا، استاد خالد محمد خالد، ڈاکٹر احمد ہیكل اور ڈاکٹر حسن جاد شامل تھے، جو اپنی تحریریں انہیں دکھاتے اور ان سے اصلاح لیتے۔

شیخ الشعراوی کی زندگی میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب ان کے والد نے انہیں جامعہ ازہر، قاہرہ بھیجنا چاہا، جبکہ وہ گاؤں میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیتی باڑی کرنا چاہتے تھے۔ والد کے اصرار پر انہوں نے ایک چال چلی اور بہت ساری علمی و دینی کتابوں کی فرمائش کی تاکہ والد ان کے اخراجات سے گھبرا جائیں اور انہیں گاؤں میں رہنے دیں، مگر والد نے ان کی چال سمجھ لی اور تمام کتابیں خرید کر دے دیں، اور کہا: "بیٹے! میں جانتا ہوں کہ یہ کتابیں تمہارے نصاب میں شامل نہیں ہیں، مگر میں چاہتا ہوں کہ تم ان سے علم حاصل کرو۔"

1937ء میں انہوں نے جامعہ ازہر میں کلیہ اللغہ العربیہ (عربی زبان کی فیکلٹی) میں داخلہ لیا اور اس دوران قومی تحریکوں میں بھی سرگرم رہے۔ 1919ء کی برطانوی سامراج کے خلاف تحریک ازہر شریف سے اٹھی تھی اور الشعراوی بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مظاہروں میں شریک ہوتے اور خطبے دیتے، جس کی پاداش میں انہیں کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔ 1934ء میں وہ طلبہ یونین کے صدر بھی منتخب ہوئے۔

خاندانی زندگی

شیخ الشعراوی کی شادی ان کے والد کے انتخاب سے ہوئی، جبکہ وہ ابھی ثانویہ ازہریہ میں تھے۔ انہوں نے اس فیصلے کو قبول کیا اور اس ازدواجی زندگی سے ان کے تین بیٹے: سامی، عبد الرحیم، اور احمد اور دو بیٹیاں: فاطمہ اور صالحہ پیدا ہوئیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کامیاب ازدواجی زندگی کی بنیاد باہمی محبت، رضا مندی اور ہم آہنگی پر ہوتی ہے۔

پیشہ ورانہ زندگی

1940ء میں انہوں نے جامعہ ازہر سے گریجویشن مکمل کیا اور 1943ء میں تدریس کی اجازت کے ساتھ عالمیہ کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد انہیں طنطا کے دینی مدرسے میں معلم مقرر کیا گیا۔ پھر وہ الزقازيق اور اسکندریہ کے مدارس میں بھی تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1950ء میں وہ سعودی عرب گئے اور جامعہ ام القری میں شریعت کے استاد مقرر ہوئے۔

سعودی عرب میں انہیں عقائد کی تدریس کرنی پڑی، جبکہ ان کی اصل تخصص عربی زبان میں تھی، مگر انہوں نے اپنی غیرمعمولی تدریسی صلاحیتوں سے اس مضمون میں بھی کمال حاصل کیا۔ 1963ء میں جب صدر جمال عبدالناصر اور سعودی بادشاہ سعود کے درمیان سیاسی اختلافات پیدا ہوئے تو عبدالناصر نے الشعراوی کو مصر واپس بلا لیا اور انہیں جامعہ ازہر کے شیخ حسن مأمون کے دفتر کا ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔

بعد ازاں وہ الجزائر میں ازہری تعلیمی مشن کے سربراہ کے طور پر بھیجے گئے، جہاں انہوں نے سات سال تک خدمات انجام دیں۔ اسی دوران 1967ء میں عرب-اسرائیل جنگ (جسے مصر میں "نكسة" یعنی شکست کہا جاتا ہے) ہوئی، جس پر الشعراوی نے سجدہ شکر ادا کیا۔ بعد میں انہوں نے وضاحت کی کہ اس شکرانے کا سبب یہ تھا کہ مصر کو ایک ایسی حالت میں فتح نہیں ملی جب وہ سوویت کمیونزم کے زیر اثر تھا، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو دین کے خلاف فتنہ پیدا ہو سکتا تھا۔

مصر واپسی پر انہیں وزارت اوقاف میں مختلف ذمہ داریاں دی گئیں، جن میں مغربی مصر کے محکمہ اوقاف کے ڈائریکٹر، تبلیغ اور فکر کے نائب سیکرٹری، اور جامعہ ازہر کے نائب سیکرٹری کے عہدے شامل تھے۔ بعد ازاں وہ سعودی عرب لوٹ گئے اور جامعہ عبد العزیز میں تدریس کرنے لگے۔

1976ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ممدوح سالم نے انہیں اپنی کابینہ میں وزیر اوقاف اور امور ازہر کا قلمدان سونپ دیا، جہاں وہ 1978ء تک رہے۔

اہم خدمات اور مناصب

  • طنطا، اسکندریہ اور الزقازيق کے دینی مدارس میں تدریس

  • 1950ء میں سعودی عرب میں جامعہ ام القری کے مدرس

  • 1960ء میں معہد طنطا ازہری کے ناظم

  • 1961ء میں وزارت اوقاف میں تبلیغی امور کے ڈائریکٹر

  • 1964ء میں جامعہ ازہر کے شیخ کے دفتر کے ڈائریکٹر

  • 1966ء میں الجزائر میں ازہری مشن کے سربراہ

  • 1970ء میں جامعہ عبد العزیز (مکہ مکرمہ) میں مہمان استاد

  • 1972ء میں جامعہ عبد العزیز میں اعلیٰ تعلیمات کے شعبے کے صدر

  • 1976ء میں وزیر اوقاف و امور ازہر

  • 1980ء میں مجلس شورٰی کے رکن

  • 1987ء میں مجمع اللغہ العربیہ (عربی زبان و ادب کی اکادمی) کے رکن

الشیخ اسامہ الرفاعی - مفتی اعظم سوریا

الشیخ اسامہ الرفاعی ایک ممتاز شامی عالم دین اور مبلغ ہیں، جو 1944 میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دمشق یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور وہاں کے مختلف مساجد میں خطابت کے فرائض انجام دیے۔ تاہم، شامی حکومت کی طرف سے ان پر دباؤ بڑھنے کے بعد، وہ سعودی عرب اور ترکی ہجرت کر گئے۔

مفتی اعظم سوریا شیخ اسامہ رفاعی 

شیخ اسامہ الرفاعی کو شامی انقلاب کی حمایت کی وجہ سے شہرت ملی، جو کہ سابق صدر بشار الاسد کے خلاف تھا۔ نظام کے سقوط کے بعد، مارچ 2025 میں، انہیں نو منتخب شامی صدر احمد الشرع نے ملک کا مفتی اعظم مقرر کیا۔

پیدائش اور خاندانی پس منظر

شیخ اسامہ عبد الکریم الرفاعی 1944 میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ وہ مشہور عالم دین شیخ عبد الکریم الرفاعی کے بڑے صاحبزادے اور معروف داعی شیخ ساریہ الرفاعی کے بھائی ہیں۔

تعلیم اور علمی سفر

انہوں نے ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم دمشق میں حاصل کی اور 1971 میں دمشق یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں ڈگری حاصل کی۔ دینی علوم میں ان کی ابتدائی تربیت ان کے والد شیخ عبد الکریم الرفاعی نے کی۔ مزید برآں، انہوں نے کئی مشہور علماء سے بھی کسبِ علم کیا، جن میں شیخ خالد الجیباوی، عبد الغنی الدقر، احمد الشامی، محمود زیدان اور سعید الافغانی شامل ہیں۔

أبو إسحاق الحوینی: ایک عظیم محدث اور عالمِ دین

پیدائش اور ابتدائی زندگی

حجازی محمد یوسف شریف، جو اپنی کنیت "ابو اسحاق الحوینی" کے نام سے مشہور ہوئے، 10 جون 1956ء کو مصر کے صوبہ کفر الشیخ کے شہر الریاض کے گاؤں "حوین" میں پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ ان کا تعلق ایک متوسط دیہاتی خاندان سے تھا جو زراعت سے وابستہ تھا۔

ابو اسحاق حوینی : ایک عظیم محدث اور عالم دین

ان کے والد گاؤں کے معزز افراد میں شمار ہوتے تھے، اور انہوں نے اپنے بیٹے کا نام "حجازی" رکھا، جو حج کے مبارک موسم کی نسبت سے تھا۔ ان کی والدہ بھی علم کے میدان میں ان کے لیے ایک مضبوط سہارا تھیں۔

ابتدائی طور پر، انہوں نے اپنی کنیت "ابو الفضل" رکھی کیونکہ انہیں مشہور محدث حافظ ابن حجر عسقلانی سے محبت تھی، بعد ازاں انہوں نے اپنی کنیت تبدیل کرکے "ابو اسحاق" رکھ لی۔ اس کی ایک وجہ امام شاطبی سے ان کی عقیدت تھی، جبکہ ایک اور روایت کے مطابق، انہوں نے یہ کنیت مشہور صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے متاثر ہو کر اختیار کی۔

تعلیم اور علمی سفر

انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے قریبی اسکول "الوزاریہ" میں حاصل کی، جبکہ ثانوی تعلیم کفر الشیخ کے "الشهيد عبد المنعم رياض" اسکول میں مکمل کی، جہاں وہ سائنسی مضامین میں دلچسپی رکھتے تھے۔ بعد ازاں، انہوں نے قاہرہ کی جامعہ عین شمس کے کلیۃ الألسن (لسانیات) میں داخلہ لیا اور ہسپانوی زبان میں امتیازی نمبروں سے گریجویشن کیا۔

اپنی اعلیٰ کارکردگی کے باعث انہیں ایک تعلیمی وفد کے ساتھ اسپین بھیجا گیا، لیکن وہاں زیادہ دیر نہ رہ سکے اور جلد ہی مصر واپس آکر علومِ شرعیہ کے حصول میں لگ گئے۔

علومِ شرعیہ کی طرف میلان

تعلیمی سفر کے دوران، وہ رفتہ رفتہ دینی علوم کی طرف مائل ہوئے۔ انہوں نے قاہرہ میں معروف عالم دین اور خطیب شیخ عبد الحمید کشک کی تقاریر سننی شروع کیں، جو ان کی دینی بیداری کا پہلا سبب بنی۔

ڈاکٹر محمد حسان کی "تفسیر القرآن للمعاصرین" – ایک علمی تجزیہ اور تبصرہ

تعارف

ڈاکٹر محمد حسان عصرِ حاضر کے ممتاز مصری علماء میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ ایک جید محدث، نامور خطیب، اور موثر مبلغ ہیں، جنہوں نے اپنی خطابت، تدریس، اور علمی کتب کے ذریعے اسلامی تعلیمات کی ترویج کی ہے۔ مصر اور دیگر عرب ممالک میں ان کی علمی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

تعلیم و اساتذہ

محمد حسان نے ابتدائی دینی تعلیم روایتی عربی مدارس سے حاصل کی اور بعد میں جامعہ الازہر میں اپنی علمی پیاس بجھائی۔ انہوں نے معروف محدثین اور علماء سے حدیث، تفسیر، فقہ، اور دیگر اسلامی علوم میں مہارت حاصل کی۔

دعوتی خدمات

ڈاکٹر محمد حسان کی دعوتی خدمات وسیع ہیں۔ انہوں نے مصر سمیت کئی عرب و اسلامی ممالک میں تبلیغی اور اصلاحی خطبات دیے، جن میں قرآن و سنت کی بنیاد پر امت کی اصلاح پر زور دیا جاتا ہے۔ ان کی تقریریں عام فہم اور مدلل ہوتی ہیں، جو عوام و خواص دونوں میں مقبول ہیں۔

تصانیف و علمی کام

ان کے علمی کام میں کئی موضوعات پر تحریریں شامل ہیں، جن میں عقیدہ، فقہ، حدیث، اور اسلامی معاشرت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ان کی تصانیف علمی گہرائی اور استدلال پر مبنی ہوتی ہیں، جو طلبہ علم اور علماء کے لیے نہایت مفید ہیں۔

میڈیا اور خطابت

ڈاکٹر محمد حسان نے جدید میڈیا کو بھی اپنی دعوت کے لیے استعمال کیا۔ وہ مختلف اسلامی ٹی وی چینلز پر پروگرامز کرتے رہے ہیں، جہاں انہوں نے اسلامی تعلیمات کو سادہ اور موثر انداز میں پیش کیا۔ یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز پر ان کے خطبات لاکھوں افراد دیکھتے اور سنتے ہیں۔

مشکلات و آزمائشیں

اپنی حق گوئی کی وجہ سے انہیں بعض اوقات مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ انہیں مختلف حکومتوں اور اداروں کی طرف سے تنقید اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، لیکن وہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہے اور امت کو اتحاد اور تقویٰ کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔

اثر و رسوخ

ڈاکٹر محمد حسان کا اثر عرب دنیا میں بہت گہرا ہے۔ وہ ایک ایسے عالم ہیں جنہوں نے نوجوان نسل کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنے کی ترغیب دی۔ ان کے خطبات اور دروس نے بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا۔

مشہور تابعی ، حضرت عمر فاروق ؓ کے پوتے سالم بن عبد اللہ کی شخصیت

 سالم بن عبد اللہ (وفات: ذوالحجہ 106ھ مطابق مئی 725ء) مدینہ کے ان تابعین میں تھے۔ جو علم و عمل کے امام تھے ۔

نام ونسب

سالم نام، ابو عمر کنیت، عمر فاروق کے نامور فرزند عبد اللہ بن عمر کے خلف الصدق تھے۔دادھیال کی طرح ان کا نانہال بھی روشن وتاباں تھا، عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں یزد گرد شاہنشاہ ایران کی جو لڑکیاں گرفتار ہوئی تھیں، ان میں سے ایک عبد اللہ بن عمر کو دی گئی تھی۔سالم اسی کے بطن سے تھے، اس طرح ان کی رگوں میں ایران کے شاہی خاندان کا خون بھی شامل تھا۔[2]

فضل وکمال

سالم کے والد حضرت عبداللہ بن عمر ان بزرگوں میں تھے جو علم و عمل کا پیکر اور زہد و ورع کی تصویر تھے۔ان کی تعلیم و تربیت نے انھیں بھی اپنا مثنیٰ بنادیا تھا،ارباب سیر کا متفقہ بیان ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی تمام اولادوں میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ عبداللہ تھے اور عبد اللہ کی اولادوں میں اُن کے مشابہ سالم تھے [3] اس طرح سالم گویا عمر فاروق کا نقشِ ثانی تھے۔ ان کا شمار مدینہ کے ان تابعین میں تھا جو اقلیم و عمل دونوں کے فرماں روا تھے علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ سالم فقیہ، حجت اور ان مخصوص علما میں تھے، جن کی ذات علم وعمل دونوں کی جامع تھی [4] امام نووی لکھتے ہیں کہ سالم کی امامت ،جلالت، زہد وورع اور علوئے مرتبت پر سب کا اتفاق ہے۔ [5]

تفسیر

تفسیر، حدیث، فقہ جملہ فنون میں ان کو یکساں درک تھا۔لیکن شدتِ احتیاط کی وجہ سے قرآن کی تفسیر نہ بیان کرتے تھے [6] اسی لیے مفسر کی حیثیت سے انھوں نے کوئی خاص شہرت نہیں حاصل کی۔

علامہ عنایت اللہ خان مشرقی رحمۃ اللہ علیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

علامہ عنایت اللہ مشرقی 
علامہ عنایت اللہ خان مشرقی رحمۃ اللہ علیہ ہماری قوم کے اندر ایک منفرد سیرت و کردار کے لیڈر تھے۔ اگرچہ ہمیں کبھی ان کے نظریات سے پورا پورا اتفاق نہ ہو سکا، لیکن اس امر میں ہمیں کبھی شک نہیں ہوا کہ اپنی قوم کی سربلندی کے لیے ان کے دل کے اندر بڑا غیرمعمولی جوش و جذبہ تھا۔ وہ اسلام اور غلبہ کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے، اس وجہ سے اس دور میں مسلمانوں کی بے بسی پر ان کا دل بہت کڑھتا تھا۔

 انھوں نے اس حیرت انگیز تضاد سے بڑا گہرا تاثر لیا کہ مسلمان قومیں اسلام کی مدعی ہیں، لیکن دنیا میں ذلیل و خوار ہیں اور مغربی قومیں اسلام کی منکر ہیں، لیکن نہ صرف مشرق کی غیرمسلم قوموں پر، بلکہ خود مسلمانوں پر بھی حاوی اور غالب ہیں۔ جب انھوں نے اس صورت حال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی تو ان کی نظر اس بات کی طرف گئی کہ ہم مسلمان صرف اسلام کی چند روایات کے پرستار بن کر رہ گئے ہیں اور اسلام کا اصلی کردار دنیا کی غالب قوموں نے اپنا رکھا ہے۔ 

ان غالب قوموں کے کردار میں سب سے زیادہ ابھری ہوئی چیز جو ان کو نظر آئی، وہ ان کا عسکری جوش و جذبہ اور ان کی فوجی تنظیم تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ اور ایشیا کے متعدد ملکوں میں عسکری تحریکیں بڑے زور و شور سے اٹھیں اور ستم رسیدہ ممالک کے حساس لوگوں کو ان تحریکوں نے اپیل کیا۔

مولانا ظفر احمد انصاری : شخصیت اور کردار



مولانا محمد ظفر احمد انصاری (پیدائش: 1908ء - وفات: 20 دسمبر، 1991ء ) پاکستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین، ماہر قانون، دانشور، مصنف اور سابق رکن قومی اسمبلی تھے۔

مولانا ظفر احمد انصاری 1908ء کو منڈارہ، الہ آباد ضلع، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ 1930ء میں انھوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن،1933ء اسی یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا اور سرکاری ملازمت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

1942ء میں ان کی ملاقات نوابزادہ لیاقت علی خان سے ہوئی جن کی تحریک پر آپ نے سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوکر خود کو قیام پاکستان کی جدوجہد کے لیے وقف کر دیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سینٹرل پارلیمانی بورڈ کے سیکریٹری اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے عہدوں پر فائز رہے۔ 

قیام پاکستان کے بعد انھیں قرارداد مقاصد کا متن تیار کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1951ء میں ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور انھیں مشہور 22نکات پر متفق کرنے کا مشکل کام بھی ان کا زندہ جاوید کارنامہ ہے۔ 1956ء اور 1973ء کے دساتیر کی تدوین اور تسوید میں بھی انھوں نے فعال کردار کیا۔ 

1970ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے آزاد رکن منتخب ہوئے۔

 1983ء میں انھیں پاکستان کے سیاسی نظام کے تعین کے لیے دستوری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا، ضعیف العمری کے باوجود انھوں نے دن رات ایک کرکے یہ رپورٹ مکمل کی جو انصاری کمیشن رپورٹ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس رپورٹ میں انھوں نے ان اقدامات کی سفارش کی جو مستقبل کی حکومت کے لیے بنیاد بن سکتے تھے مگر اس وقت کے صدر، صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اس کمیشن کی رپورٹ سے کوئی استفادہ نہیں کیا اور یوں مولانا ظفر احمد انصاری کی یہ محنت رائیگاں گئی۔ 

مولانا ظفر احمد انصاری نے اسلامی آئین اور ہمارے دستوری مسائل :نظریاتی پہلو کے نام سے دو کتابیں بھی تصنیف کی

 ۱۔ اسلامی آئین

۲۔ ہمارے دستوری مسائل :نظریاتی پہلو

۳۔ 1956ء اور 1973ء کے آئین کی تدوین اور تسوید

۴۔ انصاری کمیشن رپورٹ کی سفارشات 

مولانا ظفر احمد انصاری 20 دسمبر، 1991ء کو اسلام آباد، پاکستان میں وفات پاگئے اور وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ 

علامہ پیر محمد کرم شاہ الازہری کی شخصیت

محمد کرم شاہ الازہری' ایک صوفی و روحانی بزرگ 1971ء سے مسلسل حدیث شریف کی اہمیت نیز اس کی فنی، آئینی اور تشریعی حیثیت کے موضوع پر شاہکار کتاب سنت خیر الانام، فقہی، تاریخی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دیگر اہم موضوعات پر متعدد مقالات و شذرات آپ کی علمی، روحانی اور ملی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی اس کی شاخوں کی صورت میں بر صغیر کی بے نظیر علمی تحریک اور معیاری دینی کتب کی اشاعت و ترویج کا عظیم اشاعتی ادارہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز ان کے علاوہ ہیں۔


نام و نسب
آپ کے نام کے بارے میں آپ کا اپنا قول ہے کہ 'حضرت پیر کھارا صاحب'،پیرمحمدکرم شاہ المعروف 'ٹوپی والے سرکار' کے ساتھ آپ کے خانوادہ کے نسبی تعلقات ہیں۔ اس لیے آپ کے جدِ امجد پیر امیر شاہ نے انہی کی نسبت سے آپ کا نام محمد کرم شاہ تجویز فرمایا آپ کا شجرہ نسب شیخ السلام مخدوم بہاءالدین زکریا ملتانی سہروردی سے جا ملتا ہے۔

کنیت
آپ کی کنیت ابو الحسنات آپ کے بڑے صاحبزادے اور موجودہ سجادہ نشین محمد امین الحسنات شاہ صاحب کے نام سے منسوب ہے۔

پیدائش
آپ کی پیدائش رمضان المبارک 1336ھ بمطابق یکم جولائی 1918ء سوموار کی شب بعد نماز تراویح بھیرہ، ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ آپ کے والد پیر محمد شاہ ہاشمی تھے۔

تعلیمی مراحل
خاندانی روایت کے مطابق آپ کی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا ثقہ روایت یہ ہے کہ حافظ دوست محمد سے تعلیم کا آغاز ہوا استاد صاحب انتہائی سادہ مزاج اور نیک طبیت تھے۔ قرآن پاک کی جلد بندی کا کام کرکے رزق حلال کماتے تھے پوری زندگی کسی کے لیے بوجھ نہ بنے نہایت ملنسار اور خلیق تھے۔ جن اساتذہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کی ان کے نام یہ ہیں۔

محمد مرسی : مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر کی زندگی پر ایک نظر


بی بی سی اردو | 18 جون 2019

محمد مرسی جمہوری طور پر منتخب ہونے والے مصر کے پہلے صدر تھے لیکن صرف ایک ہی برس کے بعد تین جولائی سنہ 2013 کو فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

فوج کے اس اقدم سے پہلے محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو چکے تھے تاہم انھوں نے فوج کے اس الٹی میٹم کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ سنہ 2011 میں حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے سیاسی بحران کو جلد از جلد حل کیا جائے۔

تختہ الٹ دیے جانے کے بعد چار ماہ تک محمد مرسی کو نامعلوم مقامات پر قید رکھا گیا اور پھر ستمبر سنہ 2013 میں حکومت نے اعلان کیا کہ اب ان پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے گا۔

حکومت کا الزام تھا کہ محمد مرسی نے اپنے حامیوں کو صحافی اور حزب مخالف کے دو رہنماؤں کو قتل کرنے پر اکسایا اور کئی دیگر افراد کو غیر قانونی طور پر قید کیا اور ان پر تشدد کروایا تھا۔حکومت نے یہ الزامات صدارتی محل کے باہر ہونے والے ان ہنگاموں کی بنیاد پر عائد کیے تھے جن میں اخوان المسلمین کے کارکنوں اور حزب مخالف کے مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا تھا۔

محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے 14 دیگر سرکردہ رہنماؤں پر قائم کیے جانے والے ان مقدامات کی سماعت نومبر سنہ 2013 میں شروع ہوئی۔

مقدمے کی پہلی سماعت پر کٹہرے میں کھڑے محمد مرسی نے نہ صرف چیخ چیخ کر کہا تھا کہ انھیں ’فوجی بغاوت‘ کا شکار کیا گیا ہے بلکہ انھوں نے اس عدالت کو ماننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا ’ملک کے آئین کے مطابق میں جمہوریہ کا صدر ہوں اور مجھے زبردستی قید کیا گیا ہے۔‘

لیکن اپریل سنہ 2015 میں محمد مرسی اور ان کے دیگر ساتھیوں کو 20، 20 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ اگرچہ انھیں اپنے کارکنوں کو قتل پر اکسانے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا تاہم انھیں مظاہرین کو حراست میں لینے اور ان پر تشدد کرنے کے جرائم کا مرتکب پایا گیا۔

سید قطب شہید کی معروف نظم : اخی انت حر وراء السدود | یہ نظم قید کے آخری ایام میں شہادت سے قبل تحریر کی تھی۔



مصر کے معروف مصنف اور اخوان المسلمون کے شہید رہنما سید قطب نے قید کے آخری ایام میں ایک خوبصورت ایمان افروز نظم تحریر کی تھی، جس کا دلکش اردو ترجمہ محترم خلیل احمد حامدی صاحب نے قطب شہید کی تصنیف "معالم فی الطریق" کے اردو ترجمہ "جادہ و منزل" میں کیا ہے ۔

أخي أنت حر وراء السدود۔۔۔۔۔۔۔۔ أخي أنت حر بتلك القیود
إذا كنت باللہ مستعصما۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فماذا يضيرك كيد العبيد

اے میرے ہمدم تو طوق و سلاسل کے اندر بھی آزاد ہے 
اے میرے دمساز! تو آزاد ہے، رکاوٹوں کے باوجود
اگر تیرا اللہ پر بھروسہ ہے 
 تو اِن غلام فطرت انسانوں کی چالیں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں

مولانا وحید الدین خان : سیرت و کردار


 مولانا وحیدالدین خان صاحب اپنے کردار کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

"اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں امت مسلمہ کے احیاءکی تحریک باہمی سطح پر چل رہی ہے۔ اس میں امت کے تمام درد مند افراد شریک ہیں۔ میں نے اپنے مطالعے میں پایا کہ احیاءملت کی یہ تحریکیں ننانوے فیصد کی حد تک اسی پہلو پر چل رہی ہے جس کو آپ اسلام کا عملی پہلو کہہ رہے ہیں۔ آپ دیکھیں تو ان میں سے کوئی نماز اور روزہ اور حج جیسے اسلامی اعمال کا نظام قائم کرنے میں مصروف ہے۔ کسی نے اسلام کی سماجی پہلووں پر اپنی توجہ لگا رکھی ہے، کوئی اسلام کے سیاسی ڈھانچے کو زندہ کرنا چاہتا ہے۔ کوئی مسجد اور مدرسے کے نظام کو قائم کرنے میں مصروف ہے ، کوئی مسلمانوں کے خاندانی نظام کو اسلامی احکام پر تشکیل دینا چاہتا ہے۔ کوئی ملی مسائل، یا کمیونٹی ورک کے میدان میں محنت کر رہا ہے وغیرہ۔ لیکن میں نے اپنے تجربہ میں پایا کہ عصری اسلوب میں اسلام کی اسپرٹ کو جگانے کا کام کوئی نہیں کررہا ۔ اس لئے ہم نے اپنے آپ کو اس چھوٹے ہوئے کام میں لگا دیا ہے۔ گویا کہ ہمارا مشن احیاءملت کے مجموعی کام میں ایک تتمّہ (Supplement) کی حیثیت رکھتا ہے۔ موجودہ حالات میں یہی چیز ممکن اور قابل عمل ہے۔ احیاءملت کا موجودہ کام جو عالمی سطح پر انجام پا رہا ہے۔ اس کی حیثیت ایک پراسس (Process) کی ہے، اس پر اسس میں ساری تحریکیں اور سارے اجزائے ملی شریک ہیں۔ ہمارا مشن بھی اس پراسس کا ایک حصہ ہے ، یہ پراسس گویا کہ ایک بلا اعلان تقسیم کار کا معاملہ ہے۔ اس پراسس کے مختلف اجزاءمیں کوئی ایک بھی ساری ملی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا اور نہ کر رہا ہے۔ ہر ایک کسی ایک پہلو سے ملت کی خدمت انجام دے رہا ہے، ہر ایک کو اپنی نیت اور اپنے اخلاص کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے یہاں انعام ملے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملت کے اندر تنقید نہیں ہونی چاہیئے، حقیقت یہ ہے کہ دوسری ضرورتوں کی طرح تنقید بھی ملت کی ایک ناگزیر پر ضرورت ہے، تنقید حدیث کے الفاظ میں (المومن مرآة المومن) ایک مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ ہے کے اصول کی تکمیل ہے علمی تنقید ہمیشہ ذہنی ارتقاءکا ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر علمی تنقید کا طریقہ ختم کیا جائے تو اس کے نتیجے میں صرف یہی نہیں ہو گا کہ علمی تنقید باقی نہیں رہے گی، بلکہ ذہنی ارتقاءکا عمل رُک جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ذہنی جمود پید اہو جائے گا جو کسی گروہ کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔" (بحوالہ الرسالہ مارچ 2007، 142-3

علم کلام کی بنیاد ، مقصد اور افادیت ! جاوید احمد غامدی


 

تعارف جامعہ دارالعلوم کراچی ۔ مفتی رفیع عثمانی ؒ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلّی علی رسولہ الکریم

جامعہ دارالعلوم کراچی، دینی درس گاہوں کے اس مقدس سلسلے کی ایک کڑی ہے جو اس برّصغیر میں اللہ کے کچھ نیک بندوں نے انگریزی استعمار کی تاریک رات میں دین کی شمعیں روشن رکھنے کے لئے قائم کیا تھا دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃاﷲ علیہ اور حضرت مولانا رشید احمدگنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفقاء انگریز کے خلاف ۱۸۵۷ء کے جہاد میں بنفس نفیس شریک تھے۔ لیکن انگریز کے سیاسی اقتدار کے مستحکم ہونے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ اب محاذجنگ تبدیل ہوچکاہے، اب انگریز کی کوشش پوری منصوبہ بندی کے ساتھ یہ ہے کہ مسلمانوں کو سیاسی طور پر زیر کرنے کے بعدفکری طور پر بھی اپنا غلام بنایا جائے۔ جس کے لئے وہ ایک ایسا نظام رائج کررہاہے جو مسلمانوں کے دل پر مغربی افکار کا سِکہّ جمائے اس کے ساتھ ساتھ انگریز کی کوشش یہ ہے کہ اسلامی علوم کو سینے سے لگانے والوں پر معاش کے تمام دروازے بند کردیئے جائیں۔ اس لئے ان علماء کرام اور بزرگان دین نے رُوکھی سوکھی کھاکر، اور موٹاجھوٹا پہن کر دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی، اور ایسے سر فروش علماء کرام کی ایک بڑی جماعت تیار کردی جو دنیا کی چمک دمک سے منہ موڑ کر کچے مکانوں اور تنگ حجروں میں دینی علوم کے چراغ کو وقت کی آندھیوں سے بچاتے رہے، تاکہ اس سیاسی مغلوبیت کے دور میں مسلمان اپنی معاشرت، اخلاق، عبادت اور باہمی معاملات میں اسلامی احکام و اقدار کو چھوڑکر غیروں کے طریقوںکی تقلید نہ کرنے لگیں، اور پھر جب کبھی مسلمانوں کو سیاسی اقتدار واپس ملے تو انہیں سرورِ کونین، محسن انسانیت حضرت محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کا لایاہوا دین اپنی صحیح شکل و صورت میں محفوظ مل جائے۔ اس طرح حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا لگایا ہوا چمن جس پر خزاں نے ڈیرے جمالیے تھے، وہ دوبارہ سرسبز و شاداب ہونے لگا۔

سید روح الله موسوی خمینی

سید روح‌ اللہ موسوی خمینی (1902-1989ء)، امام خمینی کے نام سے مشہور، شیعہ مرجع تقلید اور ایران کے اسلامی انقلاب کے رہبر اور بانی ہیں۔ آپ نے سنہ 1962ء سے ایران میں پہلوی نظام بادشاہت کے خلاف علی الاعلان جدوجہد شروع کی۔ حکومت وقت نے دو مرتبہ آپ کو گرفتار کیا۔ دوسری مرتبہ آپ کو پہلے ترکی اور پھر عراق جلاوطن کردیا۔ حوزہ علمیہ نجف میں 13 سال تک انقلابی افراد کی قیادت کی اور ساتھ ہی دینی علوم کی تدریس اور تالیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایران میں حکومت کے خلاف عوامی تحریکوں میں تیزی آنے کے بعد یکم فروری سنہ 1979ء کو آپ ایران واپس آئے۔ 11 فروری سنہ 1979ء کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اپنی عمر کے آخری لمحات تک اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر اور قائد رہے۔
سید روح اللہ موسوی خمینی ؒ

ولایت مطلقہ فقیہ آپ کا سب سے اہم سیاسی نظریہ ہے جو تشیع کے اعتقادات پر مبنی ہے۔ آپ نے ایران کی اسلامی حکومت اور اس کے آئین کو اسی نظریے کے مطابق تشکیل دینے کی کوشش کی۔ امام خمینی کی نظر میں اسلامی حکومت کے قیام کا فلسفہ ہی فقہ اور شریعت کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ فقہ کے بارے میں اسی نظریے کی بنا پر آپ فقہ کے روایتی ڈھانچے کو محفوظ رکھتے ہوئے اس میں جدت پسندی کے قائل تھے۔ اجتہاد میں زمان و مکان کی تاثیر کا نظریہ اور بعض دیگر مؤثر فتوے اسی نقطہ نظر کا نتیجہ ہیں۔

دنیا کے تمام مسلمان خاص طور پر شیعہ آپ کے ساتھ والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ آپ کے جنازے کی تشییع میں تقریباً ایک کروڑ افراد نے شرکت کی جو اب تک پوری دنیا میں تشییع جنازہ کا سب سے بڑا اجتماع شمار کیا جاتا ہے۔ ہر سال آپ کے مرقد پر برسی منائی جاتی ہے جس میں سیاسی اور مذہبی شخصیات شرکت کرتی ہیں۔

آپ حوزہ علمیہ کے رائج علوم یعنی فقہ اور اصول کے علاوہ اسلامی فلسفہ اور عرفان نظری میں بھی صاحب نظر اور صاحب تالیف تھے۔ اسی طرح آپ کا شمار علمائے اخلاق میں بھی ہوتا تھا اور حوزہ علمیہ قم میں تدریس کے دوران آپ مدرسہ فیضیہ میں درس اخلاق بھی دیا کرتے تھے۔ آپ نہایت سادہ زیست اور زاہدانہ طریقت کے مالک تھے۔