مشاہیر اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مشاہیر اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی شخصیت ، افکار اور کتب

ڈاکٹر برہان احمد فاروقی (1906–1995) برصغیر کے ان نابغۂ روزگار مفکرین میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اسلامی فکر، فلسفہ، اور اقبالیات میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ نہ صرف ایک بلند پایہ فلسفی اور ماہر مابعد الطبیعات تھے بلکہ ایک ایسے صاحبِ بصیرت مصلح تھے جنہوں نے مسلمانوں کی فکری اور سیاسی تشکیلِ نو کے لیے اپنے قلم اور تدریس کو وقف کر دیا۔ ان کی شخصیت میں علم، حلم، اور تدبر کا حسین امتزاج تھا، اور ان کا علمی مقام آج بھی اہلِ علم کے لیے چراغِ راہ ہے۔

ولادت اور ابتدائی تعلیم
ڈاکٹر برہان احمد فاروقی 12 نومبر 1906ء کو ہندوستان کے علمی و ثقافتی شہر امروہہ میں پیدا ہوئے، جو علم و ادب کی روایت کا حامل تھا۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے ملتان میں حاصل کی، جو اُس زمانے میں علم و دین کا گہوارہ تھا۔ بعد ازاں، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے فلسفہ اور مابعد الطبیعات جیسے گہرے علمی موضوعات میں مہارت حاصل کی۔

علی گڑھ، اقبال اور فلسفیانہ تربیت
علی گڑھ یونیورسٹی میں انہیں معروف فلسفی ڈاکٹر سید ظفر الحسن جیسے استادِ گرامی کا قرب نصیب ہوا، جن کی علمی سرپرستی نے فاروقی صاحب کے فکری افق کو وسعت بخشی۔ تاہم، ان کی فکری شخصیت کی اصل تشکیل علامہ محمد اقبال کی صحبت میں ہوئی۔ اقبال کے ساتھ ان کے گہرے تعلقات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال ہی کی خواہش پر انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ حضرت مجدد الف ثانی کے نظریۂ توحید پر لکھا۔ یہ مقالہ بعد ازاں "حضرت مجدد الف ثانی کا نظریۂ توحید" کے عنوان سے 1940ء میں شائع ہوا اور اسلامی فلسفے میں ایک سنگِ میل قرار پایا۔

ڈاکٹر محمد عبد اللہ دراز(1894ء–1958ء) : مصر کے ممتاز عالم، مفسر، محدث اور فلسفی

شیخ محمد عبد اللہ دراز (1894ء–1958ء) مصر کے ممتاز عالم، مفسر، محدث اور فلسفی تھے جو جامعہ ازہر سے وابستہ رہے۔ آپ نے قرآن، اخلاقیات اور مذاہبِ عالم پر گہرے علمی اور روحانی مضامین تحریر کیے۔ ان کی خاص پہچان قرآن کو موضوعاتی اور وحدانی انداز میں سمجھنے کی علمی بصیرت تھی۔ انہوں نے اسلامی فکر کو مغربی فلسفے کے مقابل ایک مضبوط فکری و اخلاقی متبادل کے طور پر پیش کیا، اور اپنی مشہور کتاب "دستور الأخلاق في القرآن" کے ذریعے اسلامی اخلاقیات کا علمی و فلسفیانہ دفاع کیا۔

ابتدائی زندگی 

 محمد عبد اللہ دراز 8 نومبر 1894ء کو مصر کے موجودہ صوبہ کفر الشیخ کے ایک گاؤں "محلۃ دیائے" میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ عبد اللہ دراز ایک فقیہ اور ماہر لسانیات تھے، جنہوں نے امام شاطبی کی مشہور کتاب "الموافقات" پر شروحات تحریر کیں۔

آپ نے 1905ء میں اسکندریہ کے دینی مدرسے میں داخلہ لیا۔ 1912ء میں الازہر سے ثانویہ (ثانوی تعلیم) کی سند حاصل کی، اور 1916ء میں "شہادتِ عالمیہ" (عالمیت کی ڈگری) حاصل کی۔ 1928ء میں آپ کو الازہر کے اعلیٰ شعبے میں تدریس کے لیے منتخب کیا گیا۔ 1946ء میں آپ کو علمی بعثت کے تحت فرانس بھیجا گیا، اور 1947ء میں پیرس کی مشہور جامعہ سوربون سے آپ نے اعلیٰ اعزاز کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔

فرانس سے واپسی کے بعد آپ نے جامعہ قاہرہ، دارالعلوم، اور کلیہ زبان عربیہ (کلیہ اللغۃ العربیۃ) میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ 1949ء میں آپ کو "ہیئۃ کبار العلماء" (بزرگ علماء کی مجلس) کی رکنیت عطا ہوئی۔

1958ء میں، جب آپ پاکستان کے شہر لاہور میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شریک تھے، تو وہیں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ فرانس سے واپسی سے لے کر وفات تک آپ نے کئی اہم ذمہ داریاں نبھائیں، جن میں اعلیٰ تعلیمی پالیسی کی کمیٹی، اعلیٰ نشریاتی کونسل، اور الازہر کی ثقافتی مشاورتی کمیٹی کی رکنیت شامل ہے۔ نیز، وزارتِ عظمٰی کے اجلاسوں میں آپ کا نام منصبِ شیخ الازہر کے لیے زیر غور آیا تھا، جس کے بعد شیخ التونسی خضر حسین کو منتخب کیا گیا۔

پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات : وہ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر اور ممتاز مذہبی و سیاسی رہنما تھے۔

 پروفیسر ساجد میرؒ، مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر اور ممتاز مذہبی و سیاسی رہنما، 3 مئی 2025 کو 86 برس کی عمر میں ساہیوال میں انتقال کر گئے۔ ان کی وفات دل کا دورہ پڑنے کے باعث ہوئی۔ ان کی نماز جنازہ آج رات 10 بجے ساہیوال میں ادا کی جائے گی۔

پروفیسر ساجد میرؒ 2 اکتوبر 1938 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز (1960) اور اسلامیات میں ماسٹرز (1969) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ انہوں نے نائجیریا میں تدریسی خدمات انجام دیں اور 1985 میں وطن واپس آ کر مذہبی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔

پروفیسر ساجد میرؒ نے 1994 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہو کر پارلیمانی سیاست میں قدم رکھا۔ انہوں نے پانچ مرتبہ سینیٹ کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور سینیٹ کی سائنس و ٹیکنالوجی کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے۔

مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر کی حیثیت سے انہوں نے چالیس سال سے زائد عرصہ قیادت کی، اور فروری 2025 میں ساتویں مرتبہ امیر منتخب ہوئے۔ انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ مذہبی سفارت کاری میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات پر وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیراعظم نواز شریف اور دیگر سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ایک بصیرت افروز رہنما قرار دیا گیا۔

پروفیسر خورشید احمدؒ: ایک فکری قافلہ سالار، اسلامی دانش کا مینارِ نور

ملتِ اسلامیہ ایک اور فکری و روحانی ستون سے محروم ہو گئی۔ جماعت اسلامی کے بانی اراکین میں سے ایک، نامور اسلامی مفکر، ماہرِ معیشت، مدبر، معلم، محقق، اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی فکر کے سفیر، پروفیسر خورشید احمدؒ، رضائے الٰہی سے انتقال فرما گئے۔ ان کے انتقال سے اسلامی تحریک، فکر و دانش اور معاشی بصیرت کی ایک توانا آواز خاموش ہو گئی، مگر ان کا چھوڑا ہوا فکری سرمایہ تا قیامت چراغِ ہدایت بنا رہے گا۔

شخصیت 

پروفیسر خورشید احمدؒ 1932ء میں دہلی (برطانوی ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ نے کم عمری ہی میں علم، مطالعہ اور فکر کے ایسے جوہر دکھائے جو غیر معمولی تھے۔ آپ کی شخصیت میں علم و عمل، بصیرت و حکمت، تدبر و تدریس اور قیادت و خاکساری کا ایک حسین امتزاج تھا۔ آپ علامہ اقبالؒ کے فکری وارث اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے نظریاتی و تنظیمی رفیقِ خاص تھے۔

تعلیم و علمی پس منظر

خورشید احمدؒ نے معاشیات میں گریجویشن اور پھر ماسٹرز کیا۔ بعد ازاں، بین الاقوامی اسلامی معاشیات کے میدان میں آپ نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ آپ نے مغرب کی معیشت کا گہرا مطالعہ کیا، مگر اسے آنکھیں بند کر کے قبول نہ کیا بلکہ اسے اسلامی اصولوں کے آئینے میں پرکھا۔ لندن اسکول آف اکنامکس سے پی ایچ ڈی مکمل کی اور اسلامی معاشیات کا ایک نیا بیانیہ پیش کیا، جس نے پوری دنیا کے علمی حلقوں میں اسلامی معاشی فکر کو ایک سنجیدہ اور مربوط نظام کے طور پر متعارف کروایا۔

شیخ محمد متولی الشعراوی: ایک عظیم مفسر، عالمِ دین اور فکری رہنما

محمد متولی الشعراوی (15 اپریل 1911ء / 17 ربیع الأول 1329ھ - 17 جون 1998ء / 22 صفر 1419ھ) ایک معروف مفسر، عالم دین اور مصر کے وزیر اوقاف تھے۔ وہ اپنی مخصوص انداز کی قرآنی تفسیر "خواطر" کے ذریعے مشہور ہوئے، جس میں انہوں نے قرآن کریم کے مفاہیم کو سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کیا، جس کی وجہ سے وہ عرب اور اسلامی دنیا کے لاکھوں مسلمانوں تک پہنچے۔ بعض لوگوں نے انہیں "امام الدعاۃ" (داعیوں کا امام) کا لقب دیا۔

شیخ محمد متولی الشعراوی

پیدائش

محمد متولی الشعراوی 15 اپریل 1911ء کو مصر کے صوبہ دقہلیہ کے ضلع مِیت غمر کے ایک گاؤں "دقادوس" میں پیدا ہوئے۔

تعلیم

انہوں نے گیارہ برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔ 1922ء میں وہ الزقازيق کے ابتدائی مدرسہ ازہریہ میں داخل ہوئے اور شروع ہی سے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل طالبعلم ثابت ہوئے۔ 1923ء میں انہوں نے ابتدائیہ ازہریہ کی سند حاصل کی اور ثانویہ ازہریہ میں داخلہ لیا۔ وہاں ان کی دلچسپی شعر و ادب میں مزید بڑھ گئی اور ان کے ساتھیوں نے انہیں طلبہ یونین اور "جمعیت الأدباء" (ادباء کی انجمن) کا صدر منتخب کیا۔ اس دور میں ان کے ہم عصر افراد میں ڈاکٹر محمد عبدالمنعم خفاجی، شاعر طاہر ابو فاشا، استاد خالد محمد خالد، ڈاکٹر احمد ہیكل اور ڈاکٹر حسن جاد شامل تھے، جو اپنی تحریریں انہیں دکھاتے اور ان سے اصلاح لیتے۔

شیخ الشعراوی کی زندگی میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب ان کے والد نے انہیں جامعہ ازہر، قاہرہ بھیجنا چاہا، جبکہ وہ گاؤں میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیتی باڑی کرنا چاہتے تھے۔ والد کے اصرار پر انہوں نے ایک چال چلی اور بہت ساری علمی و دینی کتابوں کی فرمائش کی تاکہ والد ان کے اخراجات سے گھبرا جائیں اور انہیں گاؤں میں رہنے دیں، مگر والد نے ان کی چال سمجھ لی اور تمام کتابیں خرید کر دے دیں، اور کہا: "بیٹے! میں جانتا ہوں کہ یہ کتابیں تمہارے نصاب میں شامل نہیں ہیں، مگر میں چاہتا ہوں کہ تم ان سے علم حاصل کرو۔"

1937ء میں انہوں نے جامعہ ازہر میں کلیہ اللغہ العربیہ (عربی زبان کی فیکلٹی) میں داخلہ لیا اور اس دوران قومی تحریکوں میں بھی سرگرم رہے۔ 1919ء کی برطانوی سامراج کے خلاف تحریک ازہر شریف سے اٹھی تھی اور الشعراوی بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مظاہروں میں شریک ہوتے اور خطبے دیتے، جس کی پاداش میں انہیں کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔ 1934ء میں وہ طلبہ یونین کے صدر بھی منتخب ہوئے۔

خاندانی زندگی

شیخ الشعراوی کی شادی ان کے والد کے انتخاب سے ہوئی، جبکہ وہ ابھی ثانویہ ازہریہ میں تھے۔ انہوں نے اس فیصلے کو قبول کیا اور اس ازدواجی زندگی سے ان کے تین بیٹے: سامی، عبد الرحیم، اور احمد اور دو بیٹیاں: فاطمہ اور صالحہ پیدا ہوئیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کامیاب ازدواجی زندگی کی بنیاد باہمی محبت، رضا مندی اور ہم آہنگی پر ہوتی ہے۔

پیشہ ورانہ زندگی

1940ء میں انہوں نے جامعہ ازہر سے گریجویشن مکمل کیا اور 1943ء میں تدریس کی اجازت کے ساتھ عالمیہ کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد انہیں طنطا کے دینی مدرسے میں معلم مقرر کیا گیا۔ پھر وہ الزقازيق اور اسکندریہ کے مدارس میں بھی تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1950ء میں وہ سعودی عرب گئے اور جامعہ ام القری میں شریعت کے استاد مقرر ہوئے۔

سعودی عرب میں انہیں عقائد کی تدریس کرنی پڑی، جبکہ ان کی اصل تخصص عربی زبان میں تھی، مگر انہوں نے اپنی غیرمعمولی تدریسی صلاحیتوں سے اس مضمون میں بھی کمال حاصل کیا۔ 1963ء میں جب صدر جمال عبدالناصر اور سعودی بادشاہ سعود کے درمیان سیاسی اختلافات پیدا ہوئے تو عبدالناصر نے الشعراوی کو مصر واپس بلا لیا اور انہیں جامعہ ازہر کے شیخ حسن مأمون کے دفتر کا ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔

بعد ازاں وہ الجزائر میں ازہری تعلیمی مشن کے سربراہ کے طور پر بھیجے گئے، جہاں انہوں نے سات سال تک خدمات انجام دیں۔ اسی دوران 1967ء میں عرب-اسرائیل جنگ (جسے مصر میں "نكسة" یعنی شکست کہا جاتا ہے) ہوئی، جس پر الشعراوی نے سجدہ شکر ادا کیا۔ بعد میں انہوں نے وضاحت کی کہ اس شکرانے کا سبب یہ تھا کہ مصر کو ایک ایسی حالت میں فتح نہیں ملی جب وہ سوویت کمیونزم کے زیر اثر تھا، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو دین کے خلاف فتنہ پیدا ہو سکتا تھا۔

مصر واپسی پر انہیں وزارت اوقاف میں مختلف ذمہ داریاں دی گئیں، جن میں مغربی مصر کے محکمہ اوقاف کے ڈائریکٹر، تبلیغ اور فکر کے نائب سیکرٹری، اور جامعہ ازہر کے نائب سیکرٹری کے عہدے شامل تھے۔ بعد ازاں وہ سعودی عرب لوٹ گئے اور جامعہ عبد العزیز میں تدریس کرنے لگے۔

1976ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ممدوح سالم نے انہیں اپنی کابینہ میں وزیر اوقاف اور امور ازہر کا قلمدان سونپ دیا، جہاں وہ 1978ء تک رہے۔

اہم خدمات اور مناصب

  • طنطا، اسکندریہ اور الزقازيق کے دینی مدارس میں تدریس

  • 1950ء میں سعودی عرب میں جامعہ ام القری کے مدرس

  • 1960ء میں معہد طنطا ازہری کے ناظم

  • 1961ء میں وزارت اوقاف میں تبلیغی امور کے ڈائریکٹر

  • 1964ء میں جامعہ ازہر کے شیخ کے دفتر کے ڈائریکٹر

  • 1966ء میں الجزائر میں ازہری مشن کے سربراہ

  • 1970ء میں جامعہ عبد العزیز (مکہ مکرمہ) میں مہمان استاد

  • 1972ء میں جامعہ عبد العزیز میں اعلیٰ تعلیمات کے شعبے کے صدر

  • 1976ء میں وزیر اوقاف و امور ازہر

  • 1980ء میں مجلس شورٰی کے رکن

  • 1987ء میں مجمع اللغہ العربیہ (عربی زبان و ادب کی اکادمی) کے رکن

الشیخ اسامہ الرفاعی - مفتی اعظم سوریا

الشیخ اسامہ الرفاعی ایک ممتاز شامی عالم دین اور مبلغ ہیں، جو 1944 میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دمشق یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور وہاں کے مختلف مساجد میں خطابت کے فرائض انجام دیے۔ تاہم، شامی حکومت کی طرف سے ان پر دباؤ بڑھنے کے بعد، وہ سعودی عرب اور ترکی ہجرت کر گئے۔

مفتی اعظم سوریا شیخ اسامہ رفاعی 

شیخ اسامہ الرفاعی کو شامی انقلاب کی حمایت کی وجہ سے شہرت ملی، جو کہ سابق صدر بشار الاسد کے خلاف تھا۔ نظام کے سقوط کے بعد، مارچ 2025 میں، انہیں نو منتخب شامی صدر احمد الشرع نے ملک کا مفتی اعظم مقرر کیا۔

پیدائش اور خاندانی پس منظر

شیخ اسامہ عبد الکریم الرفاعی 1944 میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ وہ مشہور عالم دین شیخ عبد الکریم الرفاعی کے بڑے صاحبزادے اور معروف داعی شیخ ساریہ الرفاعی کے بھائی ہیں۔

تعلیم اور علمی سفر

انہوں نے ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم دمشق میں حاصل کی اور 1971 میں دمشق یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں ڈگری حاصل کی۔ دینی علوم میں ان کی ابتدائی تربیت ان کے والد شیخ عبد الکریم الرفاعی نے کی۔ مزید برآں، انہوں نے کئی مشہور علماء سے بھی کسبِ علم کیا، جن میں شیخ خالد الجیباوی، عبد الغنی الدقر، احمد الشامی، محمود زیدان اور سعید الافغانی شامل ہیں۔

أبو إسحاق الحوینی: ایک عظیم محدث اور عالمِ دین

پیدائش اور ابتدائی زندگی

حجازی محمد یوسف شریف، جو اپنی کنیت "ابو اسحاق الحوینی" کے نام سے مشہور ہوئے، 10 جون 1956ء کو مصر کے صوبہ کفر الشیخ کے شہر الریاض کے گاؤں "حوین" میں پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ ان کا تعلق ایک متوسط دیہاتی خاندان سے تھا جو زراعت سے وابستہ تھا۔

ابو اسحاق حوینی : ایک عظیم محدث اور عالم دین

ان کے والد گاؤں کے معزز افراد میں شمار ہوتے تھے، اور انہوں نے اپنے بیٹے کا نام "حجازی" رکھا، جو حج کے مبارک موسم کی نسبت سے تھا۔ ان کی والدہ بھی علم کے میدان میں ان کے لیے ایک مضبوط سہارا تھیں۔

ابتدائی طور پر، انہوں نے اپنی کنیت "ابو الفضل" رکھی کیونکہ انہیں مشہور محدث حافظ ابن حجر عسقلانی سے محبت تھی، بعد ازاں انہوں نے اپنی کنیت تبدیل کرکے "ابو اسحاق" رکھ لی۔ اس کی ایک وجہ امام شاطبی سے ان کی عقیدت تھی، جبکہ ایک اور روایت کے مطابق، انہوں نے یہ کنیت مشہور صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے متاثر ہو کر اختیار کی۔

تعلیم اور علمی سفر

انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے قریبی اسکول "الوزاریہ" میں حاصل کی، جبکہ ثانوی تعلیم کفر الشیخ کے "الشهيد عبد المنعم رياض" اسکول میں مکمل کی، جہاں وہ سائنسی مضامین میں دلچسپی رکھتے تھے۔ بعد ازاں، انہوں نے قاہرہ کی جامعہ عین شمس کے کلیۃ الألسن (لسانیات) میں داخلہ لیا اور ہسپانوی زبان میں امتیازی نمبروں سے گریجویشن کیا۔

اپنی اعلیٰ کارکردگی کے باعث انہیں ایک تعلیمی وفد کے ساتھ اسپین بھیجا گیا، لیکن وہاں زیادہ دیر نہ رہ سکے اور جلد ہی مصر واپس آکر علومِ شرعیہ کے حصول میں لگ گئے۔

علومِ شرعیہ کی طرف میلان

تعلیمی سفر کے دوران، وہ رفتہ رفتہ دینی علوم کی طرف مائل ہوئے۔ انہوں نے قاہرہ میں معروف عالم دین اور خطیب شیخ عبد الحمید کشک کی تقاریر سننی شروع کیں، جو ان کی دینی بیداری کا پہلا سبب بنی۔

ڈاکٹر محمد حسان کی شخصیت اور خدمات

تعارف

ڈاکٹر محمد حسان عصرِ حاضر کے ممتاز مصری علماء میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ ایک جید محدث، نامور خطیب، اور موثر مبلغ ہیں، جنہوں نے اپنی خطابت، تدریس، اور علمی کتب کے ذریعے اسلامی تعلیمات کی ترویج کی ہے۔ مصر اور دیگر عرب ممالک میں ان کی علمی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

تعلیم و اساتذہ

محمد حسان نے ابتدائی دینی تعلیم روایتی عربی مدارس سے حاصل کی اور بعد میں جامعہ الازہر میں اپنی علمی پیاس بجھائی۔ انہوں نے معروف محدثین اور علماء سے حدیث، تفسیر، فقہ، اور دیگر اسلامی علوم میں مہارت حاصل کی۔

دعوتی خدمات

ڈاکٹر محمد حسان کی دعوتی خدمات وسیع ہیں۔ انہوں نے مصر سمیت کئی عرب و اسلامی ممالک میں تبلیغی اور اصلاحی خطبات دیے، جن میں قرآن و سنت کی بنیاد پر امت کی اصلاح پر زور دیا جاتا ہے۔ ان کی تقریریں عام فہم اور مدلل ہوتی ہیں، جو عوام و خواص دونوں میں مقبول ہیں۔

تصانیف و علمی کام

ان کے علمی کام میں کئی موضوعات پر تحریریں شامل ہیں، جن میں عقیدہ، فقہ، حدیث، اور اسلامی معاشرت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ان کی تصانیف علمی گہرائی اور استدلال پر مبنی ہوتی ہیں، جو طلبہ علم اور علماء کے لیے نہایت مفید ہیں۔

میڈیا اور خطابت

ڈاکٹر محمد حسان نے جدید میڈیا کو بھی اپنی دعوت کے لیے استعمال کیا۔ وہ مختلف اسلامی ٹی وی چینلز پر پروگرامز کرتے رہے ہیں، جہاں انہوں نے اسلامی تعلیمات کو سادہ اور موثر انداز میں پیش کیا۔ یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز پر ان کے خطبات لاکھوں افراد دیکھتے اور سنتے ہیں۔

مشکلات و آزمائشیں

اپنی حق گوئی کی وجہ سے انہیں بعض اوقات مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ انہیں مختلف حکومتوں اور اداروں کی طرف سے تنقید اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، لیکن وہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہے اور امت کو اتحاد اور تقویٰ کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔

اثر و رسوخ

ڈاکٹر محمد حسان کا اثر عرب دنیا میں بہت گہرا ہے۔ وہ ایک ایسے عالم ہیں جنہوں نے نوجوان نسل کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنے کی ترغیب دی۔ ان کے خطبات اور دروس نے بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا۔

مشہور تابعی ، حضرت عمر فاروق ؓ کے پوتے سالم بن عبد اللہ کی شخصیت

 سالم بن عبد اللہ (وفات: ذوالحجہ 106ھ مطابق مئی 725ء) مدینہ کے ان تابعین میں تھے۔ جو علم و عمل کے امام تھے ۔

نام ونسب

سالم نام، ابو عمر کنیت، عمر فاروق کے نامور فرزند عبد اللہ بن عمر کے خلف الصدق تھے۔دادھیال کی طرح ان کا نانہال بھی روشن وتاباں تھا، عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں یزد گرد شاہنشاہ ایران کی جو لڑکیاں گرفتار ہوئی تھیں، ان میں سے ایک عبد اللہ بن عمر کو دی گئی تھی۔سالم اسی کے بطن سے تھے، اس طرح ان کی رگوں میں ایران کے شاہی خاندان کا خون بھی شامل تھا۔[2]

فضل وکمال

سالم کے والد حضرت عبداللہ بن عمر ان بزرگوں میں تھے جو علم و عمل کا پیکر اور زہد و ورع کی تصویر تھے۔ان کی تعلیم و تربیت نے انھیں بھی اپنا مثنیٰ بنادیا تھا،ارباب سیر کا متفقہ بیان ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی تمام اولادوں میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ عبداللہ تھے اور عبد اللہ کی اولادوں میں اُن کے مشابہ سالم تھے [3] اس طرح سالم گویا عمر فاروق کا نقشِ ثانی تھے۔ ان کا شمار مدینہ کے ان تابعین میں تھا جو اقلیم و عمل دونوں کے فرماں روا تھے علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ سالم فقیہ، حجت اور ان مخصوص علما میں تھے، جن کی ذات علم وعمل دونوں کی جامع تھی [4] امام نووی لکھتے ہیں کہ سالم کی امامت ،جلالت، زہد وورع اور علوئے مرتبت پر سب کا اتفاق ہے۔ [5]

تفسیر

تفسیر، حدیث، فقہ جملہ فنون میں ان کو یکساں درک تھا۔لیکن شدتِ احتیاط کی وجہ سے قرآن کی تفسیر نہ بیان کرتے تھے [6] اسی لیے مفسر کی حیثیت سے انھوں نے کوئی خاص شہرت نہیں حاصل کی۔

علامہ عنایت اللہ خان مشرقی رحمۃ اللہ علیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

علامہ عنایت اللہ مشرقی 
علامہ عنایت اللہ خان مشرقی رحمۃ اللہ علیہ ہماری قوم کے اندر ایک منفرد سیرت و کردار کے لیڈر تھے۔ اگرچہ ہمیں کبھی ان کے نظریات سے پورا پورا اتفاق نہ ہو سکا، لیکن اس امر میں ہمیں کبھی شک نہیں ہوا کہ اپنی قوم کی سربلندی کے لیے ان کے دل کے اندر بڑا غیرمعمولی جوش و جذبہ تھا۔ وہ اسلام اور غلبہ کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے، اس وجہ سے اس دور میں مسلمانوں کی بے بسی پر ان کا دل بہت کڑھتا تھا۔

 انھوں نے اس حیرت انگیز تضاد سے بڑا گہرا تاثر لیا کہ مسلمان قومیں اسلام کی مدعی ہیں، لیکن دنیا میں ذلیل و خوار ہیں اور مغربی قومیں اسلام کی منکر ہیں، لیکن نہ صرف مشرق کی غیرمسلم قوموں پر، بلکہ خود مسلمانوں پر بھی حاوی اور غالب ہیں۔ جب انھوں نے اس صورت حال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی تو ان کی نظر اس بات کی طرف گئی کہ ہم مسلمان صرف اسلام کی چند روایات کے پرستار بن کر رہ گئے ہیں اور اسلام کا اصلی کردار دنیا کی غالب قوموں نے اپنا رکھا ہے۔ 

ان غالب قوموں کے کردار میں سب سے زیادہ ابھری ہوئی چیز جو ان کو نظر آئی، وہ ان کا عسکری جوش و جذبہ اور ان کی فوجی تنظیم تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ اور ایشیا کے متعدد ملکوں میں عسکری تحریکیں بڑے زور و شور سے اٹھیں اور ستم رسیدہ ممالک کے حساس لوگوں کو ان تحریکوں نے اپیل کیا۔

مولانا ظفر احمد انصاری : شخصیت اور کردار



مولانا محمد ظفر احمد انصاری (پیدائش: 1908ء - وفات: 20 دسمبر، 1991ء ) پاکستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین، ماہر قانون، دانشور، مصنف اور سابق رکن قومی اسمبلی تھے۔

مولانا ظفر احمد انصاری 1908ء کو منڈارہ، الہ آباد ضلع، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ 1930ء میں انھوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن،1933ء اسی یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا اور سرکاری ملازمت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

1942ء میں ان کی ملاقات نوابزادہ لیاقت علی خان سے ہوئی جن کی تحریک پر آپ نے سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوکر خود کو قیام پاکستان کی جدوجہد کے لیے وقف کر دیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سینٹرل پارلیمانی بورڈ کے سیکریٹری اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے عہدوں پر فائز رہے۔ 

قیام پاکستان کے بعد انھیں قرارداد مقاصد کا متن تیار کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1951ء میں ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور انھیں مشہور 22نکات پر متفق کرنے کا مشکل کام بھی ان کا زندہ جاوید کارنامہ ہے۔ 1956ء اور 1973ء کے دساتیر کی تدوین اور تسوید میں بھی انھوں نے فعال کردار کیا۔ 

1970ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے آزاد رکن منتخب ہوئے۔

 1983ء میں انھیں پاکستان کے سیاسی نظام کے تعین کے لیے دستوری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا، ضعیف العمری کے باوجود انھوں نے دن رات ایک کرکے یہ رپورٹ مکمل کی جو انصاری کمیشن رپورٹ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس رپورٹ میں انھوں نے ان اقدامات کی سفارش کی جو مستقبل کی حکومت کے لیے بنیاد بن سکتے تھے مگر اس وقت کے صدر، صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اس کمیشن کی رپورٹ سے کوئی استفادہ نہیں کیا اور یوں مولانا ظفر احمد انصاری کی یہ محنت رائیگاں گئی۔ 

مولانا ظفر احمد انصاری نے اسلامی آئین اور ہمارے دستوری مسائل :نظریاتی پہلو کے نام سے دو کتابیں بھی تصنیف کی

 ۱۔ اسلامی آئین

۲۔ ہمارے دستوری مسائل :نظریاتی پہلو

۳۔ 1956ء اور 1973ء کے آئین کی تدوین اور تسوید

۴۔ انصاری کمیشن رپورٹ کی سفارشات 

مولانا ظفر احمد انصاری 20 دسمبر، 1991ء کو اسلام آباد، پاکستان میں وفات پاگئے اور وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ 

علامہ پیر محمد کرم شاہ الازہری کی شخصیت

محمد کرم شاہ الازہری' ایک صوفی و روحانی بزرگ 1971ء سے مسلسل حدیث شریف کی اہمیت نیز اس کی فنی، آئینی اور تشریعی حیثیت کے موضوع پر شاہکار کتاب سنت خیر الانام، فقہی، تاریخی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دیگر اہم موضوعات پر متعدد مقالات و شذرات آپ کی علمی، روحانی اور ملی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی اس کی شاخوں کی صورت میں بر صغیر کی بے نظیر علمی تحریک اور معیاری دینی کتب کی اشاعت و ترویج کا عظیم اشاعتی ادارہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز ان کے علاوہ ہیں۔


نام و نسب
آپ کے نام کے بارے میں آپ کا اپنا قول ہے کہ 'حضرت پیر کھارا صاحب'،پیرمحمدکرم شاہ المعروف 'ٹوپی والے سرکار' کے ساتھ آپ کے خانوادہ کے نسبی تعلقات ہیں۔ اس لیے آپ کے جدِ امجد پیر امیر شاہ نے انہی کی نسبت سے آپ کا نام محمد کرم شاہ تجویز فرمایا آپ کا شجرہ نسب شیخ السلام مخدوم بہاءالدین زکریا ملتانی سہروردی سے جا ملتا ہے۔

کنیت
آپ کی کنیت ابو الحسنات آپ کے بڑے صاحبزادے اور موجودہ سجادہ نشین محمد امین الحسنات شاہ صاحب کے نام سے منسوب ہے۔

پیدائش
آپ کی پیدائش رمضان المبارک 1336ھ بمطابق یکم جولائی 1918ء سوموار کی شب بعد نماز تراویح بھیرہ، ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ آپ کے والد پیر محمد شاہ ہاشمی تھے۔

تعلیمی مراحل
خاندانی روایت کے مطابق آپ کی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا ثقہ روایت یہ ہے کہ حافظ دوست محمد سے تعلیم کا آغاز ہوا استاد صاحب انتہائی سادہ مزاج اور نیک طبیت تھے۔ قرآن پاک کی جلد بندی کا کام کرکے رزق حلال کماتے تھے پوری زندگی کسی کے لیے بوجھ نہ بنے نہایت ملنسار اور خلیق تھے۔ جن اساتذہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کی ان کے نام یہ ہیں۔

محمد مرسی : مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر کی زندگی پر ایک نظر


بی بی سی اردو | 18 جون 2019

محمد مرسی جمہوری طور پر منتخب ہونے والے مصر کے پہلے صدر تھے لیکن صرف ایک ہی برس کے بعد تین جولائی سنہ 2013 کو فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

فوج کے اس اقدم سے پہلے محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو چکے تھے تاہم انھوں نے فوج کے اس الٹی میٹم کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ سنہ 2011 میں حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے سیاسی بحران کو جلد از جلد حل کیا جائے۔

تختہ الٹ دیے جانے کے بعد چار ماہ تک محمد مرسی کو نامعلوم مقامات پر قید رکھا گیا اور پھر ستمبر سنہ 2013 میں حکومت نے اعلان کیا کہ اب ان پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے گا۔

حکومت کا الزام تھا کہ محمد مرسی نے اپنے حامیوں کو صحافی اور حزب مخالف کے دو رہنماؤں کو قتل کرنے پر اکسایا اور کئی دیگر افراد کو غیر قانونی طور پر قید کیا اور ان پر تشدد کروایا تھا۔حکومت نے یہ الزامات صدارتی محل کے باہر ہونے والے ان ہنگاموں کی بنیاد پر عائد کیے تھے جن میں اخوان المسلمین کے کارکنوں اور حزب مخالف کے مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا تھا۔

محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے 14 دیگر سرکردہ رہنماؤں پر قائم کیے جانے والے ان مقدامات کی سماعت نومبر سنہ 2013 میں شروع ہوئی۔

مقدمے کی پہلی سماعت پر کٹہرے میں کھڑے محمد مرسی نے نہ صرف چیخ چیخ کر کہا تھا کہ انھیں ’فوجی بغاوت‘ کا شکار کیا گیا ہے بلکہ انھوں نے اس عدالت کو ماننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا ’ملک کے آئین کے مطابق میں جمہوریہ کا صدر ہوں اور مجھے زبردستی قید کیا گیا ہے۔‘

لیکن اپریل سنہ 2015 میں محمد مرسی اور ان کے دیگر ساتھیوں کو 20، 20 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ اگرچہ انھیں اپنے کارکنوں کو قتل پر اکسانے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا تاہم انھیں مظاہرین کو حراست میں لینے اور ان پر تشدد کرنے کے جرائم کا مرتکب پایا گیا۔

سید قطب شہید کی معروف نظم : اخی انت حر وراء السدود | یہ نظم قید کے آخری ایام میں شہادت سے قبل تحریر کی تھی۔



مصر کے معروف مصنف اور اخوان المسلمون کے شہید رہنما سید قطب نے قید کے آخری ایام میں ایک خوبصورت ایمان افروز نظم تحریر کی تھی، جس کا دلکش اردو ترجمہ محترم خلیل احمد حامدی صاحب نے قطب شہید کی تصنیف "معالم فی الطریق" کے اردو ترجمہ "جادہ و منزل" میں کیا ہے ۔

أخي أنت حر وراء السدود۔۔۔۔۔۔۔۔ أخي أنت حر بتلك القیود
إذا كنت باللہ مستعصما۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فماذا يضيرك كيد العبيد

اے میرے ہمدم تو طوق و سلاسل کے اندر بھی آزاد ہے 
اے میرے دمساز! تو آزاد ہے، رکاوٹوں کے باوجود
اگر تیرا اللہ پر بھروسہ ہے 
 تو اِن غلام فطرت انسانوں کی چالیں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں