پاکستان اور ناموس رسالت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پاکستان اور ناموس رسالت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

3 جامعات میں سیرت نبیﷺ چیئرز بنائی جائیں گی۔ وزیر اعظم عمران خان کا اعلان

(اسلام آباد)  وزیر اعظم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت العالمین کا خطاب دیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی پہلی فلاحی ریاست بنائی، فلاحی ریاست وسائل کی وجہ سے نہیں بلکہ احساس سے بنتی ہے۔ ریاست مدینہ کے گیارہ سالہ دور پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ 3 جامعات میں سیرت نبیﷺ چیئرز بنائی جائیں گی۔

اسلام آباد میں رحمۃ اللعالمین ﷺکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کرکٹ کے دنوں میں نام کا مسلمان تھا، والد کے کہنے پر جمعے اورعید کی نماز پڑھتا تھا، اس دوران مجھے ایک اسکالر نے دین کی طرف راغب کیا، نبی کریم ﷺ کی زندگی کو پڑھنے کو بعد میری زندگی میں تبدیلی آئی اور میرے ایمان کے راستے میں حائل رکاوٹیں آہستہ آہستہ ختم ہوگئیں، اللہ نے انسان کو مقصد کے لیے پیدا کیا ہے، اللہ کے وجود پر یقین انسان کی زندگی بدل دیتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے زندگی گزارنے کے دو راستے ہیں، نبی کریمﷺ کا راستہ سیدھا راستہ ہے، سیدھے راستے پر چلنا ایک مسلسل جدوجہد ہے ۔ ریاست مدینہ کے بعد اسلام کے نام پر پاکستان معرض وجود میں آیا،یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کئی لوگ اسلام کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں، انہیں اس فلسفے کی سمجھ ہی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہستی ہیں، نبی ﷺ کے نام پر اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ پاکستان عظیم ملک بنے گا لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے کردار کو بدلنا ہوگا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی پر مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں، ہم نے خاکوں کا معاملہ ہرفورم پر اٹھایا، ہماری کوشش سے ہالینڈ نے پہلی دفعہ گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کو رکوایا۔ اظہار آزادی کے نام پر سوا ارب مسلمانوں کو تکلیف نہیں پہنچا سکتے۔ ہم اس سلسلے میں کنونشن کی تیاری کریں گے، جس میں دنیا کے مختلف ممالک سے دستخط کروائیں گے۔

یہ مسئلہ تو فرع ہے

خورشید ندیم 

روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت 10 اگست 2018ء 

( نوٹ : کالم نگار کی رائی سے بلاگر کا متفق ہونا لازمی نہیں )

قادیانی مسئلہ، مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق ہی کی ایک فرع ہے۔ مذہب اور ریاست کے مابین رشتے کا تعین ہمارا اصل مسئلہ ہے۔ جب تک اسے حل نہیں کیا جائے گا، اس سے نئی نئی شاخیں اگتی رہیں گی۔

1953ء میں، پہلی بار یہ مسئلہ اٹھا۔ 1974ء میں اپنے تئیں ہم نے اس کا حل تلاش کر لیا۔ بھٹو صاحب نے فخر کے ساتھ اعلان کیا کہ انہوں نے نوے سالہ مسئلہ حل کر دیا ہے۔ آج 2018ء میں، ایک نا قابلِ ذکر حکومتی اقدام نے، جس طرح اسے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنا دیا، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسئلہ اب بھی حل نہیں ہوا۔ ضیاالحق صاحب کے عہد میں، جب حدود قوانین کا نفاذ ہوا تو یہ گمان کیا گیا کہ نفاذِ اسلام کا مطالبہ پورا ہو گیا۔ بعد کے واقعات نے بتایا کہ یہ مطالبہ تو سدا بہار ہے۔

تاریخ یہ ہے کہ مذہبی طبقات ہر دور میں ایک مطالبہ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جب وہ مان لیا جاتا ہے تو ایک مختصر مدت کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے۔ کچھ وقت گزرتا ہے تو یہی لوگ نیا مطالبہ لے کر میدان میں نکل آتے ہیں۔ قراردادِ مقاصد منظور ہوئی تو کہا گیا کہ اب ریاست نے کلمہ پڑھ لیا۔ کچھ دن گزرے تو انہی لوگوں نے اسے ایک ایسی برسات قرار دیا جس سے پہلے کوئی گھٹا اٹھی اور نہ جس کے بعد کوئی روئیدگی پیدا ہوئی۔ 1973ء کا آئین منظور ہوا تو کہا گیا کہ منزل آ گئی۔ مگر اسی آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو اسلام دشمن بتا کر اقتدار سے ہٹا دیا گیا اور اس مہم کو نظامِ مصطفیٰ کی تحریک بنا دیا گیا۔

ایک فتنہ گر

خورشید ندیم 

روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت : ا اگست 2018ء 

کالم کے با ضابطہ آغاز سے پہلے دو تمہیدی جملے: اس کالم کا مخاطب اردو پڑھنے والے ہیں جن میں غیر معمولی اکثریت اہلِ پاکستان کی ہے۔ یہ کالم صبح صبح وائٹ ہاؤس اور مغربی مراکزِ اقتدار میں نہیں پڑھا جاتا۔ اس لیے میں نے اہلِ مغرب کو دانستہ اپنے مشوروں سے محروم رکھا ہے۔ اب آئیے کالم کی طرف:

اللہ کا شکر ہے کہ دنیا ایک فتنہ پرور کے شر سے محفوظ رہی۔ خاکوں کا وہ مقابلہ منسوخ ہوا جس نے اہلِ اسلام کو مضطرب کر دیا تھا۔ یہ اضطراب فطری تھا اور اس پر ردِ عمل بھی فطری؛ تاہم ہر واقعہ اپنے پیچھے غور و فکر کا سامان چھوڑ جاتا ہے۔ یہ واقعہ بھی اس سے خالی نہیں۔ میری دانست میں یہ سامان کیا ہے‘ میں چند نکات کی صورت میں واضح کر رہا ہوں۔
1۔ مغرب کسی تہذیبی اکائی کا نام نہیں۔ اس میں کئی تہذیبوں کے رنگ شامل ہیں جن میں ایک رنگ اسلام کا بھی ہے۔ تنوع (Pluralism) اس کے تہذیبی اجزائے ترکیبی میں اہم تر ہے۔ اسلام مدت سے وہاں موجود ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغرب میں اہلِ اسلام کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اسلام کے اثرات بھی پھیلے۔ مغرب کی معاشی اور سماجی ترقی میں مسلمانوں کا کردار اہم ہے۔ یوں ان کو نظر انداز کرنا آسان نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جذبات کا احترام مغرب کی اپنی ضروری ہے۔

نیدرلینڈز کے گستاخانہ خاکے، اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم

مولانا زاھد الراشدی 

روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت:  ۲۹ اگست ۲۰۱۸ء

سینٹ آف پاکستان نے ناموس رسالتؐ کے حوالہ سے ہالینڈ (نیدرلینڈز) میں دس نومبر کو منعقد کی جانے والی گستاخانہ خاکوں کی مجوزہ نمائش کی مذمت کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر ایوانِ بالا میں خطاب کرتے ہوئے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے اور معاملہ کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں مغربی ذہنیت کو جانتا ہوں، وہاں کے عوام کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی، عوام کی بڑی تعداد کو اندازہ ہی نہیں کہ ہمارے دلوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کتنا پیار ہے، انہیں نہیں پتا کہ وہ ہمیں کس قدر تکلیف دیتے ہیں، اور وہ آزادیٔ اظہار کے نام پر اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دنیا کو بتانا چاہیے کہ جیسے ہولوکاسٹ سے ان کو تکلیف ہوتی ہے، گستاخانہ خاکوں سے وہ ہمیں اس سے کہیں زیادہ تکلیف دیتے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ اس معاشرے میں فتنہ اور جذبات بھڑکانا بہت آسان ہے، مغرب میں وہ لوگ جو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں ان کے لیے یہ بہت آسان بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حکومت میں یہ کوشش کریں گے کہ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن) کو اس پر متفق کریں، اس چیز کا بار بار ہونا مجموعی طور پر مسلمانوں کی ناکامی ہے، گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر او آئی سی کو متحرک ہونا ہوگا اور اور اسے اس معاملے میں کوئی پالیسی بنانی چاہیے۔ یہ دنیا کی ناکامی ہے، مغرب میں لوگوں کو اس معاملہ کی حساسیت کا اندازہ نہیں، لہٰذا مسلم دنیا ایک چیز پر اکٹھی ہو اور پھر مغرب کو بتائیں کہ ایسی حرکتوں سے ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے۔

1947ء کے خواب کی حقیقی تعبیر



مضمون نگار : منظورالحسن  ماہنامہ اشراق  ، تاریخ اشاعت : ستمبر 2003ء  ، مضمون کا اصل عنوان : استحکام پاکستان 

1947ء میں ہم نے سوچا تھا کہ ہم کرۂ ارض پر ایک ایسی سلطنت قائم کر رہے ہیں جہاں اسلام اپنے پورے فلسفے اور قانون کے ساتھ نافذالعمل ہوگا۔ چشم عالم ایک مرتبہ پھر اس عدل اجتماعی کا نظارہ کرے گی جو چودہ صدیاں پہلے خلافت راشدہ کی صورت میں ظہور پزیر ہوا تھا۔ اس کا وجود ملت اسلامیہ کے لیے مرکزی ادارے کا کردار ادا کرے گا اور غیر مسلم دنیا کے لیے اسلام کی مشہوددعوت قرار پائے گا۔ اس کے حدودمیں مسلمانوں کی ترقی کی راہیں کسی دوسری قوم کے تعصب سے مسدود نہیں ہوں گی۔ وہ باہم متحد ہو کر اسے اسلام کا ایک مضبوط قلعہ بنا دیں گے اور دیگر مسلمانان عالم کے لیے سہارے اور تعاون کا باعث ہوں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم ایک ایسی ریاست تشکیل دے رہے ہیں جو دور جدید میں فلاحی ریاست کے تمام تر تصورات کی آئینہ دار ہو گی۔ جہاں تفریق وامتیاز کے بغیر شہریوں کو ان کے حقوق میسر ہوں گے اور لوگ یکساں طور پر تعلیم، روزگار، صحت اور امن عامہ کی سہولتوں سے بہرہ مند ہوں گے۔ ہمارا تصور تھا کہ ایک ایسا ملک معرض وجود میں لارہے ہیں جس کا نظم سیاسی جمہوری اقدار پر مبنی ہوگا۔ اس کے عوام اپنا اجتماعی نظام خود تشکیل دیں گے اور انھیں اس میں تبدیلی کرنے اور اپنے حکمرانوں کے تقرر وتنزل کا پورا اختیار حاصل ہوگا۔

’ناموس رسالتؐ ،اعلیٰ عدالتی فیصلہ‘

’ناموس رسالتؐ ،اعلیٰ عدالتی فیصلہ‘


پروفیسر عبدالقدیر سلیم


حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ناموسِ رسالتؐ کو ہدف بنانے والوں کی جانب سے سوشل میڈیا (فیس بک ، ای میل وغیرہ) پر نازیبا، رکیک حملوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں مقدمہ پیش کیا گیا ۔ انھوں نے ۳۱ مارچ ۲۰۱۷ء کو ایک تفصیلی فیصلہ سنایا ۔ پیشِ نظر کتاب میں ۱۷۴ صفحات پر مشتمل اس فیصلے کے ساتھ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ،مفتی محمد تقی عثمانی، جسٹس فدا محمد خاں، عرفان صدیقی___ اور پھر مفتی منیب الرحمٰن، سیّد ساجد علی نقوی ، سیّد حسین مقدسی، الطاف حسن قریشی ، ڈاکٹر محسن نقوی، انصار عباسی، مولانا زاہد الراشدی ، ہارون الرشید ، اوریا مقبول جان، جاوید صدیق ،خورشید احمد ندیم ، جاوید چودھری ، حفیظ اللہ خاں نیازی، بابراعوان، محمدا عجاز الحق، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، ارشاد بھٹی، اسلم خان، اسرار احمد کسانہ، شاہد حنیف کے مضمون بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی وہ انگریزی تقریر (مع اُردو ترجمہ)بھی کتاب میں شامل ہے، جو انھوں نے قومی اسمبلی میں متفقہ قرار داد کے ذریعے قادیانیوں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دینے کے فیصلے اور دستوری ترمیم کے موقعے پر کی تھی۔
ناموسِ رسالتؐ کے اس تاریخی مقدمے کی رُوداد کچھ اس طرح ہے کہ درخواست گزار سلمان شاہد نے وفاقِ پاکستان اور چھے دوسروں کے خلاف جو درخواست دی، اس کی سماعت ۷مارچ ۲۰۱۷ء سے شروع ہوئی اور ۳۱ مارچ کو تاریخی فیصلہ آگیا۔
فیس بک (برقی میڈیا )پر بعض لوگوں نے جو نام نہاد مسلمان تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اُمّہات المومنینؓ ،صحابہ کرامؓ، قرآن مجید اور حد یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شان میں انتہائی گستاخانہ مواد ، خاکے، تصاویر ، تحریروں اور ویڈیوز کی شکل میں نشر کرنا شروع کر دیا تھا۔ درخواست گزارنے ڈائرکٹر جنرل ایف آئی اے کو اس توہین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی، مگر اس پر مذکورہ محکمے کی طرف سے کوئی خاص کارروائی نہیں ہوئی۔
جسٹس شوکت صدیقی لکھتے ہیں: ’’عدالت ہذا کے رُو برو ایک ایسا مقدمہ پیش کیا گیا ہے کہ جس کی تفصیلات نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے ۔ آنکھوں کی اشک باری تو ایک فطری تقاضا تھا۔ میری روح بھی تڑپ کر رہ گئی۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے دل ودماغ پر گزرنے والی کیفیت الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں‘‘۔ (کتابِ مذکور:ص۴۸-۴۹)
عدالت نے چیمبر میں متعلقہ حکام کے سامنے مذکورہ قابلِ اعتراض مواد پیش کیا تو وہ بھی حیران رہ گئے۔ حکومت ِ پاکستان کے سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ: ’’ ذاتِ باری تعالیٰ ، قرآنِ مجید اور دنیا کی معزز ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ ؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ، اہلِ بیت اور ازواجِ مطہراتؓ کے خلاف گھٹیا، اور شرم ناک مہم چلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی‘‘۔ (ایضاً،ص ۵۴)
۳۱ مارچ ۲۰۱۷ء کو مقدمے کی آخری سماعت ہوئی اور جسٹس صدیقی صاحب نے فیصلہ سنا دیا۔ پانچ بلاگرز ، جو ملک سے فرار ہو چکے تھے، انھیں پاکستان واپس لا کر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کی گئی۔ وزارتِ داخلہ کو ہدایت کی گئی کہ ملک میں کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) کی نشان دہی کریں، جو ملک میں گستاخانہ اور فحش مواد کی اشاعت وتشہیر کر رہی ہیں، تا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ محترم جج صاحب نے لکھا ہے: ’’عدالت کسی بھی غیر قانونی فعل اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتی، لیکن ایسے واقعات اسی صورت میں رک سکتے ہیں، جب گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب عناصر کے خلاف بروقت اور دیانت دارانہ کارروائی ہو۔ ایسے مکروہ فعل کے خلاف پوری پاکستانی قوم مدّعی ہوتی ہے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار‘‘۔(ایضاً،ص۶۴)
فیصلے میں مختلف اخباروں کے اقتباسات اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا یہ بیان بھی پیش کیا گیا کہ: ’’قبل اس کے کہ مسلمان سڑکوں پر آجائیں اور ان کے جذبات بے قابو ہو جائیں۔ آئی ٹی کی وزارت کے حکام ، انٹیلی جنس ادارے اور دیگر حساس مراکز فوری اقدام کر کے عوام کے جذبات مشتعل ہونے سے بچائیں‘‘۔ (ایضاً،ص۷۴)
فیصلے میں پاکستان کی مجلس شوریٰ کے ایوان بالا (سینیٹ ) میں ۱۰ مارچ ۲۰۱۷ء اور ایوانِ زیریں (پارلیمنٹ ) کے ۱۴ مارچ ۲۰۱۷ء کی قرار دادوں کا بھی حوالہ دیا گیا، جن میں: ’’دین اور پیغمبر خاتم النبیین ؐ ، نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز مواد کی اشاعت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات‘‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔(ایضاً،ص۷۶)
جہاں تک اس جرم کی سزا کا تعلق ہے ، فاضل جج نے قرآنِ مجید سے سورئہ احزاب (۳۳:۵۷) اور سورۂ توبہ (۹:۶۱-۶۹) کی آیات سے بھی فیصلے میں استشہاد کیا ہے۔ ’’مدینہ کے منافقین کی حرکات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیّت پہنچاتی تھیں، ان کی طعنہ زنی، اور بے ہودہ گفتگو جو وہ لوگ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرتے تھے، انھیں کفروالحاد کی گہرائیوں میں گرا دیتی تھی، جس پر وہ سزا کے مستوجب تھے۔ انھیں آگاہ کیا گیا کہ ان کے اعمال وافعال کو    اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بے ثمر قرار دیے گئے کہ وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک کرتے تھے۔ مسلم قانون داں اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ اچھے اعمال وافعال کو اس دنیا میں اور آخرت میں بے ثمر بنادیا جانا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، اگر اس فوجداری جرم کو سزاے موت کا مستوجب قرار نہ دیا جائے۔ گویا ان مسلم قانون دانوں کے نزدیک آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنہ زنی کرنے کے فعل کی سزا ، سزاے موت سے کم نہیں ہونی چاہیے‘‘ (ایضاً،ص۷۹-۸۰)۔ امام ابن تیمیہؒ نے بھی ایسے شخص کو کافر اور ’مباح الدّم‘ قرار دیاہے۔ گویا وہ سزاے موت کا مستوجب ہے (ایضاً،ص۸۱)۔ یہی موقف امام فخرالدین رازی، امام عمادالدین ابن کثیر ، علامہ شمس الدین قطبی، امام احمد بن علی ابوبکر جصاص ، ابولیث بن سعد کا بھی ہے، جن کے حوالے ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تحریر سے لیے گئے ہیں۔
خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دینِ اسلام کے مخالف اور آپؐ کو ایذا پہنچانے والوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ جن میں کعب بن اشرف، یہود کا سرغنہ، ابورافع (حجاز کا بڑا سوداگر )، ابن خطل(بدگو) شامل تھے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں: ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنیٰ سی بھی بے ادبی، توہین وتنقیص ، تحقیرواستخفاف، خواہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ ، باالفاظِ صریح ہو یا بااندازِ اشارہ وکنایہ ، تحقیر کی نیت سے ہو یا بغیر نیت تحقیر کے، یہ تمام صورتیں گستاخی میں شامل ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات وعادات ، اخلاق واطوار ، آپ ؐ کے اسماے گرامی، اور ارشادات ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ کسی بھی چیز کی ادنیٰ اور معمولی سی تحقیر، یا اس میں کوئی عیب نکالنا بھی گستاخی اور موجب کفر ہے۔ ہر شخص جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس میں عیب اور نقص کا متلاشی ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وکردار ، خصائل اور اوصافِ حمیدہ ، نسبِ پاک کی طہارت وپاکیزگی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وحرمت کی طرف عیب منسوب کرتا ہو، تو نہ صرف یہ کہ ضلالت وگمراہی اُس کا مقدر بن جاتی ہے، بلکہ ایسے بدبخت وجود سے اس زمین کو پاک کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاے اُمت ایسے بدبخت کے واجب القتل ہونے پر متفق ہیں‘‘۔ (ایضاً،ص ۱۰۵-۱۰۶)
اس مسئلے پر اجماع امت کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل منصف نے مسلکِ مالکیہ کے قاضی عیاض اندلسی، حنابلہ کے ابن تیمیہ ، شافعیہ کے تقی الدین علی السبکی اور احناف کے محمد امین شامی کے حوالے دیے ہیں۔ ’اسلام میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی و قانونی حیثیت‘ کے عنوان سے قرآنِ مجید کی آیات وا حادیث، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واحترام کے بارے میں احکام تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
فاضل منصف نے برطانوی ہند میں مروجہ تعزیرات کے حوالوں سے بھی توہین مذہب کے قوانین کے حوالے دیے ہیں: ’’بین الاقوامی انجمنوں واداروں، بین الاقوامی معاہدات، بین الاقوامی اعلامیے ،اور یورپ کے مختلف ممالک کے قانون سے یہ واضح کیا ہے کہ توہین مذہب ، توہین مقدس شخصیات اور افراد واجتماع کے مذہبی جذبات واحساسات کا لحاظ اور اس ضمن میںاظہار ِ راے وتقریروبیان پر مناسب قانونی قدغن دنیا کے تمام مہذب ممالک کا خاصّہ ہے‘‘۔ (ایضاً،ص۱۹۰)
تا ہم، توہین مذہب ومذہبی شخصیت کے الزام پر کسی فرد کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود فیصلہ کرے اور اپنے خیال کے مطابق ’مجرم‘ کو سزا دے ڈالے۔ کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا: ’’___محض ایک جملے میں بیان کردہ وضاحت کو جانچے ، اور بغیر کسی فردِ جرم عائد کیے، بغیر شہادت قلم بند کیے، اسی موقعے پر اپنے تئیں یہ فیصلہ بھی کرے کہ مقتول واجب القتل ہے، اور پھر اسی لمحے اسی مقام پر فی الواقع اپنے ہاتھوں سے سزا کا نفاذ بھی کر ڈالے۔ کوئی معقول انسان مجرم --- کے اس اقدام کا دفاع نہیں کر سکتا، کیوںکہ ہم ایک ایسی ریاست کے باشندے ہیں ، جو ایک دستور ، ایک قانون ، ایک ضابطہ اور ایک طریقِ کار کے ما تحت ہے، اور ہر باشندہ اس امر کا پابند ہے کہ ریاست کی وضع کردہ حدود کے اندر رہے‘‘۔ (ایضاً،ص۲۰۲)
فاضل منصف نے عدالتِ عالیہ لاہور کے ۲۰۱۲ء کے فیصلوں کی طرف توجہ دلائی اور ان کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا:
۱- وزیرِ اعظم کی تشکیل کردہ بین الوزارتی کمیٹی ’’ویب سائٹس پر چوکس نظر رکھے گی اور قابلِ اعتراض مواد کے فتنۂ شہود پر آنے کی صورت میں فوری ایکشن لے گی‘‘۔
۲- آئی سی ٹی ڈویژن کے کرائسز سیل ایسے مواد کا سراغ لگانے اور متعلقہ ویب سائٹس URL کی بلا تاخیر بندش میں کوتاہی یا غفلت کے خلاف سخت قانونی اقدام کیا جائے۔
۳- حکومت اس مسئلے کو اقوامِ متحدہ میں جذبے سے اٹھائے ، تا کہ بین الاقوامی سطح پر قانون سازی ہو سکے۔
۴- اس مسئلے کو اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی میں بھی اجاگر کیا جائے۔
۵- غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ویب سائٹس کو مستقل طور پر بند کر دیا جائے۔ (ایضاً،ص۱۹۹-۲۰۰)
فیصلے میں کہا گیا: [توہین مذہب و توہین اکابرین مذہب کا] ’’گھنائونا فعل ایک سازش کے تحت مسلسل جاری ہے۔ اس لیے وزارت ِ داخلہ اور دیگر متعلق اداروں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ ’فیس بک‘ انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کر کے اس شرانگیزی کا مکمل خاتمہ کرائے ، اور یہ مطالبہ کرے کہ توہین اللہ رب العزت ، توہین رسالتؐ ،توہین امہات المومنین ؓ، توہین اہل بیت اطہارؓ، توہین صحابہ کرامؓ ، اور توہین قرآن پاک کی ناپاک جسارت کرنے والے صفحات کو نہ صرف بند کیا جائے ، بلکہ فیس بک ، انتظامیہ ایسے مواد کو اپنی منفی فہرست میں شامل کرے‘‘۔ (ایضاً،ص۲۱۶)
فاضل منصف کے اس تاریخی فیصلے کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں انھوں نے کئی مقامات پر اپنی قلبی کیفیت کے اظہار کے لیے عربی ، فارسی اور اُردو کے نعتیہ اشعار (بعض جگہ پوری نعتیں ) سے استشہاد کیا ہے۔ ان شعراے کرام میں حسّان بن ثابت ، ابوطالب، عبدالرحمٰن جامی، شیخ سعدی، الطاف حسین حالی، ڈاکٹر محمد اقبال ، عبدالستار خاں نیازی، خالد محمود خالد، نعیم صدیقی اور مظفروارثی شامل ہیں۔ اس سیاق میں حالی کی مُسدّس کے اشعار ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ، مرادیں غریبوں کی بَر لانے والا‘‘ ، ہمارے خیال میں نعت کے بہترین اشعار میں سے ہیں، لیکن فاضل منصف کی نظروں سے رہ گئے ہیں۔
فیصلے کا اختتام بھی چند اشعار پر ہوتا ہے :
میں نہ زاہد ، نہ مجاہد،  نہ مفسر ، نہ حکیم
میری ذات دلِ شرمندۂ عصیاں ہی سہی
کوئی نسبت تو ہوئی رحمتِ عالمؐ سے مجھے
آخری صَف کا مَیں ادنیٰ سا مسلماں ہی سہی
’ناموسِ رسالت ؐ  ، جیسے بنیادی اور حساس مسئلے پر اس تاریخی فیصلے اور دوسری تحریروں کو مرتب کر کے کتابی شکل دینے ، صحت کے ساتھ بعض عربی یا انگریزی عبارتوں کے تراجم کا اہتمام کرنے، تفصیلی اشاریے مرتب کرنے کے لیے کتاب کے مرتب اور ان کے ہم کار شکریے کے مستحق ہیں۔ اس موضوع پر ایک ایسی کتاب منصہ شہود پر آگئی ہے، جو ہمیشہ حوالے کی کتاب تصوّر کی جائے گی۔
(ناموسِ رسالت ؐ : اعلٰی عدالتی فیصلہ، از جسٹس شوکت عزیز صدیقی ، مرتب : سلیم منصور خالد۔ ناشر:منشورات منصورہ لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۲۱۱-۰۴۲۔صفحات:۳۴۸۔ قیمت:۴۸۰ روپے )

یہ ایک مذہبی فیصلہ ہے اور سیکولر بھی! سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو


یہ ایک مذہبی فیصلہ ہے اور سیکولر بھی!

ذوالفقار علی بھٹو


اسلام میں جہاں ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے، وہیں عقیدۂ ختم نبوت بھی اس ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ اگر ایمان و اعتقاد کی یہ بنیاد متزلزل ہوجائے تو اسلام سے وابستگی کی پوری بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے۔
۲۲مئی ۱۹۷۴ء سے شروع ہونے والی ’تحریک ختم نبوت‘ کے دوران پاکستان کی قومی اسمبلی کے تمام ارکان نے بطور تحقیقاتی کمیٹی جب اپنی کارروائی مکمل کرلی، اور دستور میں ترمیم کرکے  منکرینِ ختم نبوت (قادیانیوں) کے غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیا، تب قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے انگریزی میں ایک طویل خطاب کیا۔ ذیل میں اس کا اُردو ترجمہ دیا جارہا ہے۔بعض مخصوص این جی اوز ’قادیانیت‘ کے بارے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں مذکورہ ترمیم کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ یہ مسئلہ تو صرف علما کے ایک طبقے نے اُٹھایا تھا۔ جناب بھٹو کے زیرنظر خطاب سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ فیصلہ پوری قوم نے کیا تھا، جس میں علما اور منتخب عوامی نمایندے بھی شامل تھے اور کوئی ایک ووٹ بھی اس ترمیم کی مخالفت میں نہیں ڈالا گیا تھا۔(مترجم)
جناب اسپیکر، میں جب یہ کہتاہوں کہ یہ فیصلہ ایوان کا متفقہ فیصلہ ہے، تو اس سے میرا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ میں کوئی سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے اس بات پر زور دے رہا ہوں۔ ہم نے اس مسئلے پر ایوان کے تمام ممبروں سے تفصیلی طور پر تبادلۂ خیال کیا، جن میں تمام پارٹیوں اور ہرطبقۂ خیال کے نمایندے موجود تھے۔ اور آج کے روز جو فیصلہ ہوا ہے، یہ ایک قومی فیصلہ ہے۔
یہ پاکستان کے عوام کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے، خواہشات اور ان کے جذبات کا عکاس ہے۔ میں نہیں چاہتا ہے کہ فقط حکومت ہی اس فیصلے کی تحسین کی مستحق قرار پائے، اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی ایک فرد اس فیصلے کی تعریف و تحسین کا حق دار بنے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ مشکل فیصلہ، کئی پہلوئوں سے بہت ہی مشکل فیصلہ، جمہوری اداروں اور جمہوری حاکمیت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا تھا۔
یہ ایک بہت پرانا مسئلہ ہے۔ یہ ۹۰ سال پرانا مسئلہ ہے، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا چلا گیا ہے۔ اس نے ہمارے معاشرے میں بہت سی تلخیاں اور تفرقے پیدا کیے ہیں، لیکن آج کے دن تک اس مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ:   ’یہ مسئلہ ماضی میں بھی پیدا ہوا تھا، ایک بار نہیں بلکہ کئی بار۔‘ ہمیں بتایا گیا کہ: ’ماضی میں اس مسئلے پر جس طرح قابو پایا گیا تھا، اسی طرح اب کی بار بھی ویسے ہی اقدامات سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔‘ مجھے نہیں معلوم کہ ماضی میں اس مسئلے سے کس طرح نبٹا جاتا رہا، لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ ۱۹۵۳ء میں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کیا کِیا گیا تھا۔
۱۹۵۳ء میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے وحشیانہ انداز سے طاقت کا استعمال کیا گیا تھا۔  جناب اسپیکر اور اس ایوان کے محترم ارکان، کسی مسئلے کو دبا دینے سے آپ اس مسئلے کا حل نہیں نکال سکتے۔ اگر اسی طرح کے کچھ صاحبانِ عقل و فہم، حکومت کو یہ مشورہ دیتے کہ عوام پر تشدد کرکے اس مسئلے کو حل کیا جائے اور عوام کے جذبات اور ان کی خواہشات کو کچل دیا جائے، تو ہم شاید اس صورت میں ایک عارضی حل نکال لیتے، لیکن یہ مسئلے کا صحیح اور درست (genuine)حل نہ ہوتا۔ اس سے ابھرے ہوئے جذبات کو دبایا نہ جا سکتا۔ ممکن ہے مسئلہ پس منظر میں چلا جاتا، لیکن یہ مسئلہ ختم نہ ہوتا۔
ہماری موجودہ کوششوں کا مقصد یہ رہا ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے، اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم نے صحیح اور درست حل تلاش کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ درست ہے کہ لوگوں کے جذبات مشتعل ہوئے، اورغیر معمولی احساسات اُبھرے، قانون اور امن و امان کا مسئلہ بھی پیدا ہوا، جایداد اور جانوں کا نقصان ہوا، پریشانی کے لمحات بھی آئے۔ پوری قوم گذشتہ تین ماہ سے تشویش کے عالم میں رہی، کش مکش اور امید اور بے امیدی کے عالم میں رہی۔ طرح طرح کی افواہیں کثرت سے پھیلائی گئیں اور تقریریں کی گئیں۔ مسجدوں اور گلیوں میں بھی تقریروں کا سلسلہ جاری رہا، جس سے اور زیادہ پریشانی ہوئی۔
میں یہاں اس وقت یہ دہرانا نہیں چاہتا کہ ۲۲اور ۲۹ مئی [۱۹۷۴ء] کو کیا ہوا تھا(۱)۔میں موجودہ مسئلے کی فوری وجوہ کے بارے میں بھی کچھ کہنا نہیں چاہتا، کہ یہ مسئلہ کس طرح رونما ہوا، اور کس طرح اس نے جنگل کی آگ کی طرح تمام ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میرے لیے اس وقت یہ مناسب نہیں ہے کہ موجودہ معاملات کی تہہ تک (genesis)جائوں لیکن میں اجازت چاہتا ہوں کہ اس معزز ایوان کی توجہ اس تقریر کی طرف دلائوں، جو میں نے قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے ۱۳جون کے روز کی تھی۔
اس تقریر میں ، میں نے پاکستان کے عوام سے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ: ’یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ بنیادی اور اصولی طور پر مذہبی مسئلہ ہے۔ پاکستان کی بنیاد اسلام ہے۔ پاکستان، مسلمانوں کے مادرِ وطن کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ اگر کوئی ایسا فیصلہ کر لیا جاتا، جسے اس ملک کے مسلمانوں کی اکثریت، اسلام کی تعلیمات اور عقیدے کے خلاف سمجھتی، تو اس سے پاکستان کے مقصدِوجود (raison d'etre)اور اس کے تصور کو بھی خطرناک حد تک صدمہ پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ چونکہ یہ مسئلہ خالص مذہبی مسئلہ تھا، اس لیے میری حکومت کے لیے یا ایک فرد کی حیثیت سے میرے لیے مناسب نہ تھا کہ اس پر ۱۳جون ہی کو کوئی فیصلہ دے دیا جاتا۔
لاہو رمیں مجھے ایسے بہت سے لوگ بھی ملے، جو اس مسئلے کے باعث شدید طور پر مشتعل (agitated)تھے۔ وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ: ’’آپ آج ہی، ابھی ابھی اور یہیں وہ اعلان کیوں نہیں کر دیتے، جو پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت چاہتی ہے۔ اوراگر میں یہ اعلان کر دوں تو اس سے میری حکومت کو بڑی دادوتحسین ملے گی۔ اور ایک فرد کے طور پر نہایت شان دار شہرت اور ناموری حاصل ہوگی‘‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ: ’’اگر آپ نے عوام کی خواہشات کو پورا کرنے کا   یہ موقع گنوا دیا، تو آپ اپنی زندگی کے ایک سنہری موقعے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے‘‘۔
میں نے اپنے ان احباب سے کہاکہ: ’’یہ ایک انتہائی پیچیدہ، گہرا اور نہایت بنیادی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے نے برعظیم کے مسلمانوں کو فکری سطح پر ۹۰ سال سے مشتعل کررکھا ہے اور پاکستان بننے کے ساتھ ہی پاکستان کے مسلمانوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنا ہے‘‘۔ میرے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ میں اس اضطراری (exigencies) موقعے سے فائدہ اٹھانے (Capitalise) کی کوشش میں کوئی فیصلہ کردیتا۔ میں نے ان کرم فرمائوں سے کہا کہ: ’ہم نے پاکستان میں جمہوریت قائم کی ہے۔ ہم نے جمہوریت بحال کی ہے۔ پاکستان کی ایک قومی اسمبلی موجود ہے۔  یہ ملکی مسائل پر بحث کرنے کا سب سے بلند مرتبہ ادارہ ہے۔ میری راے میں،میری ناچیز راے میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پاکستان کی قومی اسمبلی ہی مناسب جگہ ہے اور پاکستان کی قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی کا لیڈر ہونے کی حیثیت سے میں قومی اسمبلی کے ممبروں پر کسی طرح کا دبائو(whip) نہیں ڈالوں گا۔ میں اس مسئلے کے حل کو ارکانِ قومی اسمبلی کے ضمیر پر چھوڑتا ہوں اور اپنی پارٹی کے ارکان کے ضمیر پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود فیصلہ کریں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکانِ سمبلی میری اس بات کی گواہی دیں گے کہ جہاںمیں نے کئی مواقع پر انھیں بلا کر اپنی پارٹی کے موقف سے آگاہ کیا اور انھیں پالیسی کے مطابق ہدایات دی ہیں، اور انھیں پارٹی کے اختیارات دیے ہیں، لیکن اس مسئلے پر اور اس موقعے پر میں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک ممبر کو بھی بلا کر نہ کوئی ہدایت دی ہے اور نہ اس پراثر انداز ہونے کی کوئی کوشش کی ہے۔
آپ کو یہ بتاتے ہوئے جنابِ اسپیکر، مجھے حیرت نہیں ہو رہی کہ اس مسئلے کے باعث اکثر میں پریشان اور راتوں کو نیند سے محروم رہا ہوں۔ اس مسئلے پر جو فیصلہ ہوا ہے، میں اس کی شاخ درشاخ پیچیدگیوں (ramifications) اور اس ردِعمل (repercussion)سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ جس کا اثر، مملکت کی سلامتی(security) پر ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی معمولی سا (light)مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ پاکستان وہ ملک ہے جو برعظیم کے مسلمانوں کی اس خواہش پر وجود میں آیا کہ وہ اپنے لیے علیحدہ مملکت چاہتے تھے، اور اس ملک کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے۔ میں اس فیصلے کو جمہوری طریقے سے راہ یاب کرنے (channelising) میں، اپنے کسی بھی اصول سے انحراف نہیں کررہا:
    l    پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا اصول یہ ہے کہ ’اسلام ہمارا دین ہے۔‘ اسلام کی خدمت پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے اوّلین اہمیت رکھتی ہے۔
    l    ہماری سیاست کا دوسرا اصول یہ ہے کہ ’جمہوریت ہماری سیاست ہے۔‘ چنانچہ ہمارے لیے فقط یہی درست راستہ تھا کہ ہم اس مسئلے کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کرتے۔
    l    اوراس کے ساتھ میں فخرسے کہہ سکتا ہوں کہ ہم اپنی پارٹی کے اس اصول کی بھی پوری طرح پابندی کریں گے کہ ’پاکستان کی معیشت کی بنیاد سوشلزم پر ہو۔‘ ہم سوشلسٹ اصولوں پر یقین رکھتے ہیں۔(۲)
یہ فیصلہ جو کیا گیا ہے، اس فیصلے میں ہم نے اپنے کسی اصول سے انحراف نہیں کیا ہے۔   ہم اپنی پارٹی کے تینوں بنیادی اصولوں پر پختگی سے پابند رہے ہیں۔ میں نے بارہا  یہ بات کہی ہے کہ اسلام کے بنیادی اصول اور اعلیٰ ترین معیارات (norms) سماجی انصاف کے حصول کے تقاضوں کے خلاف نہیں ہیں اور ہم سوشلزم کے ذریعے معاشی استحصال کو ختم کرنے کے حامی ہیں۔
یہ ایک مذہبی فیصلہ بھی ہے اور ایک سیکولرفیصلہ بھی۔ مذہبی فیصلہ اس لحاظ سے ہے کہ یہ فیصلہ ان مسلمانوں کو متاثر کرتا ہے، جو پاکستان میں اکثریت میں ہیں،اور سیکولر فیصلہ(۳) اس لحاظ سے کہ ہم دور جدید میں رہتے بستے ہیں۔ ہمارا آئین ایک دنیاوی آئین ہے، اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ ہر پاکستانی کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ فخرواعتماد سے، بغیر کسی خوف کے اپنے مذہبی عقائد، اپنے طبقے کی امنگوں اور اپنے مکتب فکر (sect) کی سوچ کا اظہار کر سکے۔پاکستان کے آئین میں، پاکستانی شہریوں کو اس امر کی ضمانت دی گئی ہے۔
میری حکومت کے لیے اب یہ بات انتہائی اہم فرض کی حیثیت اختیار کر گئی ہے کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرے۔ یہ نہایت ضروری ہے اور میں اس بات میں کسی قسم کے ابہام (ambiguity) کی گنجایش نہیں رکھنا چاہتا۔ پاکستان کے تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت ہمارا اخلاقی اور مقدس اسلامی فرض ہے۔
میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں جناب اسپیکر،اور اس ایوان سے باہر کے ہر شخص کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ فرض پوری طرح اور مکمل طور پر ادا کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں کسی شخص کے ذہن میں کوئی شبہہ نہیں رہنا چاہیے۔ ہم اپنے ملک میں کسی قسم کی غارت گری(vandalism) اور تہذیب سوزی یا کسی پاکستانی طبقے یا شہری کی توہین اور بے عزتی برداشت نہیں کریں گے۔
جناب اسپیکر، گذشتہ تین مہینوں کے دوران، اور اس بڑے شدید(acute)بحران کے عرصے میں کچھ گرفتاریاں عمل میں آئیں، کئی لوگوں کو جیل بھیجا گیا اور چند مزید اقدامات کیے گئے۔ یہ بھی ہماری منصبی ذمہ داری تھی۔ ہم اس ملک میں بدنظمی اور فسادی عناصر کا غلبہ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ بدنظمی اور سرکش قوتیں حاوی ہو جائیں۔ حفاظتی اقدامات کرنا ہمارے فرائض میں شامل تھا، جن کے تحت ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑا لیکن میں اس موقعے پر، جب کہ تمام ایوان نے متفقہ طور پر ایک اہم فیصلہ کر لیا ہے، آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ہر معاملے پر فوری اور جلد از جلد غور کریں گے۔ اب، جب کہ اس مسئلے کا باب بند ہوچکا ہے، ہمارے لیے یہ ممکن ہو گا کہ ایسے افراد سے نرمی(lenience) برتی جائے۔ مجھے امید ہے کہ    ان لوگوں کو جلد رہا کر دیا جائے گا، جنھوں نے اس عرصے میں اشتعال انگیزی سے کام لیا، یا کوئی اور مسئلہ پیدا کیا تھا۔
جناب اسپیکر، جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ ہم نے اس مسئلے کا   باب بند کر دیا ہے۔ یہ میری کامیابی نہیں، یہ حکومت کی بھی کامیابی نہیں ہے۔ میں بار بار زور دے کر کہتا ہوں کہ یہ کامیابی پاکستان کے عوام کی کامیابی ہے، جس میں ہم بھی شریک ہیں۔ میں اس فیصلے پر سارے ایوان کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ مجھے احساس ہے کہ یہ فیصلہ متفقہ طور پر نہ کیا جاسکتا تھا، اگر تمام ایوان کی جانب سے اور یہاں موجود تمام پارٹیوں کی جانب سے تعاون اور مفاہمت کا جذبہ نہ ہوتا۔
آئین سازی کے وقت بھی ہم میں تعاون اور سمجھوتے کا یہ جذبہ موجود تھا۔ آئین ہمارے ملک کا بنیادی قانون ہے۔ اس آئین کے بنانے میں ۲۷برس صرف ہوئے، اور وہ وقت پاکستان کی تاریخ میں تاریخی اور یاد گار لمحہ تھا، جب اس آئین کو تمام پارٹیوں نے قبول کیا اور پاکستان کی قومی اسمبلی نے اسے متفقہ طور پر منظور کر لیا(۴)۔ اسی جذبے کے تحت ہم نے یہ مشکل فیصلہ بھی کر لیا ہے۔
یہ بات کسے معلوم ہے جناب اسپیکر، کہ مستقبل میں ہمیں مزید مشکل، اور زیادہ مشکل ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔ لیکن میری ناچیز راے میں، میں سوچتا ہوں کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے، یہ مسئلہ سب سے زیادہ مشکل ترین مسئلہ تھا۔ میں شاید یہ سوچنے کی غلطی پر ہوں کہ کل کو اس سے بھی زیادہ پیچیدہ اور مشکل مسائل ہمارے سامنے آسکتے ہیں، جن کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
لیکن، ماضی کو دیکھتے ہوئے، اور اس مسئلے کے تاریخی پہلوئوں پر اچھی طرح غور کرتے ہوئے میں پھر کہوں گا کہ یہ بہت زیادہ مشکل مسئلہ تھا۔ گھر گھر میں اس کا اثر تھا۔ ہر گائوں میں اس کا اثر تھا اور ہر فرد پر اس کا اثر تھا۔ یہ مسئلہ اپنی وسعت کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک عفریت (monster) کی شکل سی اختیار کر گیا۔
ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا ہی تھا۔ ہمیں تلخ حقائق کا دیانت داری سے سامنا کرنا ہی تھا، کہ ہمارے لیے اس سے فرار کی کوئی راہ نہیں تھی۔ بلاشبہہ ہم ٹال مٹول سے کام لینے کے لیے، اس مسئلے کو سپریم کورٹ یا اسلامی مشاورتی کونسل کے سپرد کر سکتے تھے، یا اسلامی سیکرٹریٹ کے سامنے اس کو پیش کر سکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ حکومت اور حتیٰ کہ افراد بھی مسائل کو ٹالنے کا فن جانتے ہیں اور جس کے تحت وہ انھیں جوں کا توں رکھ سکتے ہیں، اور درپیش صورت حال سے نمٹنے کے لیے معمولی اقدامات پر گزارا کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم نے اس مسئلے کو اس انداز سے نبٹانے کی کوشش نہیں کی ہے، کیوںکہ ہم اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔
ہم نے اس مسئلے کو حتمی طور پر حل کرنے کے جذبے سے قومی اسمبلی کو ایک کمیٹی کی صورت میں رازدارانہ اجلاس کرنے کا کام سونپا۔ پھر قومی اسمبلی کے راز دارانہ اجلاس شروع ہوئے۔   قومی اسمبلی کے رازدارانہ اجلاس منعقد کرنے کی کئی وجوہ تھیں۔ اگر قومی اسمبلی اس رازداری سے اجلاس نہ کرتی، تو جناب! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام سچی باتیں اور حقائق ہمارے سامنے آ سکتے تھے؟ اور لوگ اس طرح آزادی اور بغیر کسی جھجک کے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے تھے؟ اگر ان کو معلوم ہوتا کہ یہاں گیلری میں بیٹھنے والوں کا ان پر دبائو ہے اورلوگوں تک ان کی باتیں پہنچ رہی ہیں، اور ان کی تقاریر اور بیانات کو اخبارات کے ذریعے شائع کرکے ان کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے، تو قومی اسمبلی کے ممبر ان اس اعتماد اور کھلے دل سے اپنے خیالات کا اظہار نہ کرسکتے، جیسا کہ انھوں نے ان رازدارانہ اجلاسوں میں اظہار خیال کیا۔
اب ہمیں ان رازدارانہ اجلاسوں کی کارروائی کا کافی عرصے تک احترام کرنا چاہیے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کوئی بات بھی خفیہ نہیں رہتی۔ تاہم اُن باتوں کے عام کرنے کا ایک موزوں وقت ہوتا ہے۔ چونکہ اسمبلی کی کارروائی خفیہ (in camera)رہی ہے، اور ہم نے اسمبلی کے ہر رکن کو، اور ان کے ساتھ ان لوگوں کو بھی، جو ہمارے سامنے پیش ہوئے انھیں یہ کامل یقین دلایا تھا کہ ان کی باتوں کو راز رکھا جائے گا، جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں، ان بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش نہیں کیا جائے گا۔ ان باتوں کو سیاسی یا کسی اور مقصد کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جائے گا۔
میرے خیال میں، ایوان کے لیے یہ ضروری اور مناسب ہے کہ وہ ان اجلاسوں کی کارروائی کو ایک خاص وقت تک راز داری (secrecy) میں رکھے اور ظاہر نہ کرے۔ ایک مناسب وقت گزرنے کے بعد ہمارے لیے ممکن ہوگا کہ ہم ان خفیہ اجلاسوں کی کارروائی کو منظرعام پر لے آئیں،کیوں کہ اس کے ریکارڈ کا ظاہر ہونا بھی ضروری ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان اجلاسوں کے ریکارڈ کو دفن (bury) ہی کر دیا جائے، ہرگزنہیں(Not at all)۔ اگر میں یہ کہوں تو یہ ایک  خلافِ واقعہ اور غیر حقیقت پسندانہ بات ہوگی۔ (۵)
میں فقط یہ کہتا ہوںکہ اگر اس مسئلے کا باب ہمیشہ کے لیے بند کرنے، اور ایک نئے آغاز کے لیے، نئی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے، آگے بڑھنے کے لیے اور قومی مفاد کو محفوظ رکھنے کے لیے اور پاکستان کے حالات معمول پر رکھنے کے لیے، اور اس مسئلے کے حوالے سے ہی نہیں، بلکہ دوسرے مسائل کی بھی مناسبت سے، ہمیں ان اُمور کو خفیہ رکھنا ہوگا۔
میں ایوان پر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کا حل، دوسرے کئی مسائل پر تبادلۂ خیال اور بات چیت اور مفاہمت کا نقیب بنے گا۔ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ یہ حل ہمارے لیے نیک شگونی کا باعث ہے، اور اب ہم آگے بڑھیں گے، اور تمام توقعات، لڑائی جھگڑے کی دعوت دینے والے مسائل کو مفاہمت اور مطابقت کے جذبے سے حل کریں گے۔
جناب اسپیکر، میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ اس معاملے کے بارے میں میرے جو احساسات تھے، انھیں بیان کر چکا ہوں۔ میں ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے۔ یہ ایک فیصلہ ہے، جس کا ہمارے عقائد سے تعلق ہے۔ یہ پورے ایوان اور پوری قوم کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق ہے۔ میرے خیال میں یہ انسانی (humanly)طاقت سے باہر تھا کہ یہ ایوان اس سے بہتر کچھ فیصلہ کر سکتا۔ اسی طرح میرے خیال میں یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کے لیے موجودہ فیصلے سے کم کوئی اور فیصلہ ہو سکتا۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں، جو اس فیصلے سے خوش نہ ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ فیصلہ ناگوار ہو۔ یہ ایک فطری سی بات ہے۔ ہم یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ اس مسئلے کے فیصلے سے تمام لوگ خوش ہوں گے، جو گذشتہ ۹۰سال سے حل نہیں ہو سکا۔ اگر یہ مسئلہ سادہ سا ہوتا اور ہر ایک کو خوش رکھنا ممکن ہوتا، تو یہ مسئلہ بہت پہلے حل ہو گیا ہوتا، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ ۱۹۵۳ء میں بھی ممکن نہیں ہو سکا تھا۔
وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ ۱۹۵۳ء میں حل ہو چکا تھا، وہ لوگ اصل صورت حال کا صحیح تجزیہ نہیں کرتے۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسے لوگ بھی ہیں، جو اس فیصلے پر نہایت ناخوش ہوں گے۔ اب میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں ان لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کروں، لیکن میں یہ کہوں گا کہ یہ ان لوگوں کے طویل المیعاد مفاد میں ہے کہ   یہ مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔ آج یہ لوگ غالباً ناخوش ہی ہوں گے، انھیں یہ فیصلہ پسند نہیں ہوگا اور اس فیصلے پر رنجیدہ ہوں گے۔ لیکن حقیقت پسندی (objectively) سے کام لیتے ہوئے، اور  ذاتی طور پر  ان لوگوں سے یہ کہوں گا، کہ ان کو بھی اس بات پر خوش ہونا ہی چاہیے کہ اس فیصلے سے یہ مسئلہ حل ہوا، اور ان کو آئینی حقوق کی ضمانت حاصل ہوگئی۔
مجھے یاد ہے کہ جب حزبِ اختلاف کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی[م:۲۰۰۳ء] نے یہ تحریک پیش کی، تو انھوں نے ان لوگوں کو فیصلے کی روشنی میں مکمل تحفظ دینے کا ذکر کیا تھا، جو اس فیصلے سے متاثر ہوں گے۔ اس یقین دہانی پر یہ پورا ایوان اور پوری قوم پُرعزم ہے۔ اب یہ ہرپارٹی کا فرض ہے، یہ حکومت کافرض ہے، یہ حزبِ اختلاف کا فرض ہے اور یہ ہر شہری کافرض ہے کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں کی یکساں طور پر حفاظت کرے۔
یہ اَمر واقعہ ہے کہ اسلام کی یہی روح (essence) ہے، اور اس کی نصیحت رواداری ہے۔ مسلمان ہمیشہ رواداری پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اسلام نے فقط رواداری کی تبلیغ نہیں کی، بلکہ پوری تاریخ میں اسلامی معاشرے نے رواداری سے کام لیا ہے۔ اسلامی معاشروں نے اس تیرہ و تاریک زمانے (Dark Days)میں یہودیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا، جب کہ یورپ میں عیسائیت ان پر ظلم کر رہی تھی اور یہودیوں نے سلطنت عثمانیہ میں آکر پناہ لی تھی۔اگر یہودی دوسرے حکمران معاشروں سے بچ کر، عربوں اور ترکوں کے اسلامی معاشرے میں پناہ لے سکتے تھے، تو پھر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری مملکت ایک اسلامی مملکت ہے، ہم مسلمان ہیں، ہم پاکستانی ہیں اور یہ ہمارا مقدس (sacred)فرض ہے کہ ہم تمام فرقوں، تمام لوگوں اور پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں طور پر تحفظ فراہم کریں۔
جناب اسپیکر، ان الفاظ کے ساتھ ہی مَیں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔آپ کا شکریہ!
[ترجمہ: سلیم منصور خالد]
_______________

۱-    ۲۲مئی ۱۹۷۴ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ کا سیاحتی گروپ ریل گاڑی کے ذریعے ملتان سے راولپنڈی کو روانہ ہوا۔ طلبہ کی قیادت اسٹوڈنٹس یونین کے صدر ارباب عالم کر رہے تھے (یاد رہے یہ اسٹوڈنٹس یونین، اسلامی جمعیت طلبہ کے حمایت یافتہ طلبہ پر مشتمل تھی)۔ جیسے ہی ریل گاڑی قادیانی جماعت کے مرکز ربوہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی، تو وہاں قادیانی مبلغین نے ان طلبہ میں اپنی جماعت کے پروپیگنڈا پمفلٹ تقسیم کرنا چاہے۔ تب جواب میں طلبہ نے پمفلٹ لینے کے بجاے ’ختم نبوت زندہ باد‘ ’تاج دارِ ختمِ نبوت زندہ باد‘ اور ’مرزائیت مردہ باد‘ کے نعرے بلند کیے۔ ایک ہفتے کے سیاحتی دورے کے بعد مذکورہ طلبہ، راولپنڈی سے واپس ملتان آرہے تھے۔۲۹مئی۱۹۷۴ء کو جب ان کی ریل گاڑی ربوہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو قادیانی نوجوانوں کی ’فورس‘ نے لاٹھیوں، ڈنڈوں اور آہنی مکوں سے ان طلبہ پر حملہ کر دیا، جس سے متعدد طلبہ بے ہوش اور بہت سے طلبہ بُری طرح زخمی ہوگئے۔ ان مجروح طلبہ کو لے کر گاڑی ربوہ سے چلی اور فیصل آباد پہنچی۔ اسی دوران یہ خبر فیصل آباد پہنچ چکی تھی اور شہر بھر میں اشتعال پھیل گیا تھا۔ اس پر سخت احتجاج شروع ہوگیا جو ملک گیر ’تحریک ختم نبوت‘ میں تبدیل ہو گیا۔ اس طرح پورا پاکستان اس کی لپیٹ میں آگیا۔ اس احتجاج میں پاکستان کے علما، سیاسی جماعتیں، طلبہ تنظیمیں، وکلا، اساتذہ، دانش ور، ادیب اور تاجر شریک ہو گئے۔یہ احتجاج اس وقت ختم ہوا، جب۷ستمبر۱۹۷۴ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے دستور پاکستان میں دوسری ترمیم کا بل منظور کیا، جس کے تحت ختم نبوت کے منکرین کو غیرمسلم قرار دیا گیا۔ یہاں بھٹو صاحب اس واقعے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ (مترجم)
۲-    پیپلزپارٹی کے منشور میں ’سوشلزم‘ بطور پروگرام شامل تھا۔ ہمارا اُس وقت بھی اِس نکتے سے اختلاف تھا اور آج تو دنیا نے خود ۷۳سالہ تجربے سے دیکھ لیا کہ ’سوشلزم‘ انسانی فطرت سے متصادم نظریہ تھا،اور عملاً ۱۹۹۱ء میں اس کا خاتمہ ہوگیا ۔ اب یہ محض یادگار کے طور پر تاریخ کی کتابوں میں محفوظ حوالہ ہے۔
۳-    یہاں وزیراعظم بھٹو کی مراد یہ ہے کہ پارلیمنٹ، ’’عوامی اُمنگوں کے مطابق کثرت آرا سے فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار رکھتی ہے‘‘، اور یہی اصول مغرب کی سیکولر جمہوریت کی بنیاد ہے۔ اس طرح مذہبی بنیادوں  کے علاوہ ہم نے مسلمہ جمہوری اصول کے تحت بھی یہ فیصلہ کیا ہے۔
۴-    اشارہ اس طرف ہے کہ پاکستان میں دستور سازی کا مسئلہ تاخیر کا شکار رہا۔ آخر کار مارچ۱۹۵۶ء میں متفقہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان منظور ہوا، مگر اکتوبر۱۹۵۸ء میں مارشل لا حکومت نے دستور توڑ دیا۔ پھر ۱۹۶۲ء میں اسی مارشل لا حکومت نے ایک دستور مسلط کیا، جسے مارچ ۱۹۶۹ء میں دوسرے مارشل لا نے  ختم کر دیا۔ دسمبر۱۹۷۱ء میں پاکستان کا ایک بازو کٹ گیا۔ باقی ماندہ ملک میں ۲۷برس بعد ۱۹۷۳ء میں آئین بنا۔
۵-    افسوس کہ ہماری حکومتوں نے اس ریکارڈ کو عوام کے لیے نہ کھولا۔ ۲۰۱۰ء میں قومی اسمبلی کی اسپیکر ڈاکٹرفہمیدہ مرزا صاحبہ نے اس کارروائی کو مشتہرکرنے کا اعلان کیا تھا، مگر بعدازاں وہ اس پر عمل نہ کرسکیں۔  افسوس کہ اس کارروائی کو قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر آج تک نہیں فراہم کیا گیا، البتہ اب قومی اسمبلی کی یہ رازدارانہ کارروائی دسمبر ۲۰۱۵ءسے انٹرنیٹ کے حسب ذیل پتے پر موجود ہے:(بشکریہ ترجمان القرآن شمارہ اکتوبر 2017)
----------------------------
یہ بھی پڑھیں !
علامہ اقبال اور فتنہ قادنیت