جْدید تحقیقات ، تجربات اور انکشافات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
جْدید تحقیقات ، تجربات اور انکشافات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہماری زمین کی ساخت کیسی ہے ؟

زمین ایک پیچیدہ اور متحرک نظام ہے جس کی ساخت اور سیسمولوجیکل خصوصیات ہمیں نہ صرف زمین کی تشکیل اور ارتقاء کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں بلکہ زلزلوں اور دیگر قدرتی مظاہر کے پیچھے موجود سائنسی عمل کو بھی واضح کرتی ہیں۔ ذیل میں اس نظام کے اہم پہلوؤں کی تفصیل دی جا رہی ہے:

1. زمین کی پرتیں اور ساخت

  • قشر (Crust):
    زمین کی بیرونی سطح جو ٹھوس چٹانوں پر مشتمل ہے۔ یہ پرت نسبتاً پتلی ہے اور مختلف جغرافیائی خصوصیات جیسے پہاڑ، میدانی علاقے اور سمندری تہہ پر محیط ہے۔

  • مینٹل (Mantle):
    قشر کے نیچے واقع، مینٹل جزوی طور پر پگھلا ہوا مادہ ہے جو آہستہ آہستہ اپنی حرکات کے ذریعے زمین کی سطح میں تبدیلیاں لاتا ہے۔ یہ پرت زلزلوں اور آتش فشانی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

  • نیوکلیس (Core):
    نیوکلیس دو حصوں پر مشتمل ہے: بیرونی نیوکلیس جو مائع اور اندرونی نیوکلیس جو ٹھوس ہے۔ یہ پرت زمین کے مقناطیسی میدان کی تشکیل میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

اگر سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو تو ہمارے نظام زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟

اگر سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو، جیسا کہ حدیثِ نبوی ﷺ میں ایک بڑی قیامت کی نشانی کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، تو یہ زمین کے موجودہ فزیکل، ماحولیاتی، اور سوشل سسٹمز پر انتہائی گہرے اور ناقابلِ تصور اثرات مرتب کرے گا۔ آئیے اس ممکنہ تغیر کے سائنسی اور سماجی پہلوؤں کا تجزیہ کرتے ہیں:

1. سائنسی اور ماحولیاتی اثرات:

(الف) زمین کی گردش میں بنیادی تبدیلی

  • سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ممکنہ طور پر زمین کی محوری گردش کی سمت میں تبدیلی یا الٹاؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔

  • یہ تبدیلی زمین کے مقناطیسی میدان میں بڑے پیمانے پر خلل پیدا کرے گی، جو مواصلاتی نظام، برقی آلات، اور جی پی ایس پر انحصار کرنے والے نیویگیشن سسٹمز کو تباہ کر سکتی ہے۔

(ب) دن اور رات کے معمولات میں زبردست خلل

  • موجودہ دن رات کے چکر میں شدید بے ترتیبی ہوگی، جس سے موسمیاتی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔

  • درجہ حرارت میں غیر معمولی تبدیلیاں متوقع ہیں، کیونکہ زمین کا ماحولیاتی توازن بگڑ جائے گا۔

(ج) موسمی تبدیلیاں اور قدرتی آفات

  • موسموں کا حساب کتاب بدل جائے گا، اور زراعت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

  • سمندری طوفان، زلزلے، اور سونامی جیسے قدرتی مظاہر شدت اختیار کر سکتے ہیں کیونکہ زمین کا اندرونی توازن متاثر ہوگا۔

2. معاشرتی، تکنیکی، اور اقتصادی اثرات:

(الف) ہوائی اور بحری نیویگیشن

  • ہوائی جہازوں، بحری جہازوں اور زمینی سفر کے تمام نیویگیشن سسٹمز کو ازسرِ نو ترتیب دینا پڑے گا کیونکہ جی پی ایس اور کمپاسز کی سمتیں تبدیل ہو جائیں گی۔

  • مقناطیسی شمال اور جغرافیائی شمال کے درمیان تعلق متاثر ہوگا، جس سے سفری راستے اور نیویگیشن کے اصول مکمل طور پر بدل جائیں گے۔

(ب) بنکنگ سسٹم اور تجارتی امور

  • عالمی وقت کے نظام (UTC) کو مکمل طور پر نئے سرے سے ترتیب دینا پڑے گا، کیونکہ ٹائم زونز کی ترتیب بدل جائے گی۔

  • اسٹاک مارکیٹ، بینکنگ اوقات، اور دیگر مالیاتی نظام متاثر ہوں گے کیونکہ عالمی معیشت ایک مستحکم وقت کے نظام پر منحصر ہے۔

مقناطیس کی دریافت

 مقناطیس کی دریافت ایک قدیم اور دلچسپ تاریخ رکھتی ہے۔ سب سے پہلے انسان نے مقناطیس اور اس کی کشش کو قدرتی طور پر موجود "لوڈ اسٹون"(1) (Lodestone) یا "چمک پتھر" کی مدد سے دریافت کیا، جو قدرتی طور پر مقناطیسی صلاحیت رکھتا ہے۔

قدیم دور میں مقناطیس کی دریافت اور استعمال

1. قدیم یونان (600 ق م)

  • سب سے پہلے یونانی فلسفی "تھلیز آف ملیٹس" (Thales of Miletus) نے 600 قبل مسیح میں مشاہدہ کیا کہ لوڈ اسٹون لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

  • وہ اسے ایک قدرتی خاصیت سمجھتے تھے اور اس پر غور و فکر کرتے رہے، لیکن اسے سائنسی انداز میں بیان نہ کر سکے۔

2. چین (تقریباً 200 ق م)

  • چینیوں نے سب سے پہلے مقناطیس کو سمت معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا۔

  • قدیم چینی قطب نما (Magnetic Compass) 200 قبل مسیح میں استعمال ہونے لگا، جو سمندری جہازوں کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوا۔

  • چینی لوگ "مقناطیسی پتھر" کو ایک چمچ کی شکل میں تراش کر پانی میں رکھتے، جس کا دستہ ہمیشہ جنوب کی طرف اشارہ کرتا۔

3. ہندوستان اور عرب دنیا

  • ہندوستانی اور عربی کتب میں بھی مقناطیس کا ذکر ملتا ہے۔

  • ابن سینا (980-1037) نے اپنی کتاب "کتاب الشفا" میں مقناطیس کی کشش کے اصولوں پر بحث کی۔

  • عرب بحری جہاز راہنمائی کے لیے مقناطیسی پتھر کا استعمال کرتے تھے۔

مجلس تحقیقات ونشریات اسلام ندوۃ العلماء،لکھنؤ

مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ایک تحقیقی و نشریاتی ادارہ ہے جو ندوۃ العلماء کے ما تحت ہے۔ اس ادارہ کا قیام ابو الحسن علی ندوی نے مئی ۱۹۵۹ء میں کیا۔ ۲۰۰۹ء تک اس ادارہ سے شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد 328 سے زائد تھیمجلس تحقیقات و نشریات اسلام کا قیام ابو الحسن علی ندوی نے مئی ۱۹۵۹ء میں ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں کیا۔اس ادارہ کے قیام کے پس منظر کے بارے میں محمد واضح رشید حسنی ندوی لکھتے ہیں:

” علامہ شبلی نعمانی نے جو تصنیفی ادارہ (یعنی دار المصنفین) قائم کیا تھا، اس نے اپنی کوششیں اسلامی اور علمی موضوعات پر مرکوز کر دیں، ان پر تاریخ رنگ غالب تھا۔ لیکن اس عرصہ میں عالم اسلام میں نئے مسائل اور نئی صورت حال پیش آنے لگی مثلا قومیت، نئے مکاتب فکر، فلسفیانہ فتنے اور جارحانہ سیاسی رجحانات سامنے آنے لگے جو فکر اسلامی کے لیے ایک چیلنج تھے۔ اس ضرورت کا احساس مولانا ابو الحسن علی ندوی (ناظم ندوۃ العلماء) کو ہوا اور انہوں نے ندوۃ العلماء میں ایک علمی ادارہ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد سیاست و معاشرت، کلام اور فقہ و شریعت کے مسائل حاضرہ سے بحث اور اسلام کا پیغام اور اس کے عصر حاضر میں قائدانہ صلاحیت کی عصری اسلوب اور ہندوستانی اور عالمی زبانوں میں ترجمانی تھی اس ادارہ سے سب زیادہ سے شائع ہونے کتاب مقالات سیرت مصنفہ ڈاکٹر محمد آصف قدوائی تھی۔ اس ادارہ سے اردو، عربی، ہندی اور انگریزی میں دین و شریعت، عقائد و ارکان اسلام، حدیث و سنت، سیرت طیبہ، خلفائے راشدین اور تاریخ اصلاح و تجدید، نیز ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے تعمیر و رفاہی کاموں کے تعارف میں کتابیں شائع ہوئیں اور ہور ہی ہیں۔"

سوئی کی نوک سے بھی چھوٹا مکھی کا دماغ جہاں سے ملنے والے رازوں نے سائنسدانوں کو حیرت میں مبتلا کیا

پلب گھوش  ( نامہ نگار برائے سائنس، بی بی سی) 


وہ پیروں کے بل چل سکتی ہیں، اُڑ سکتی ہیں، اور نر مکھی تو مادہ مکھی کا دل جیتنے کے لیے پیار بھرے گیت بھی گا سکتی ہے۔ اور یہ سب کچھ ایک ایسے دماغ کی مدد سے ممکن ہوتا ہے جو سوئی کی نوک سے بھی چھوٹا ہوتا ہے۔

پہلی بار سائنسدانوں نے تحقیق کے دوران مکھی کے سوئی کی نوک سے بھی چھوٹے دماغ میں موجود ایک لاکھ 30 ہزار خلیوں کی شکل، مقام اور حتیٰ کہ مکھی کے دماغ میں موجود پانچ کروڑ سے زیادہ ’کنکشنز‘ یعنی رابطوں کی غیر معمولی نشان دہی کی ہے۔

یہ کسی بھی بالغ کیڑے (حشرات) کے دماغ کا کیا گیا اب تک کا سب سے تفصیلی سائنسی جائزہ ہے جسے ماہرین نے انسانی دماغ کو سمجھنے کے عمل میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا ہے۔ مکھی کے دماغ پر تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ اس سائنسی جائزے سے ’سوچنے کے عمل سے متعلق مزید تفصیلات معلوم ہوں گی۔‘

تعارف ادارہ علوم القرآن شبلی باغ ، علی گڑھ اور مجلہ علوم القرآن ششماہی


ادارہ علوم القرآن


قرآن مجید خالق کائنات کی طرف سے انسانیت کے لیے آخری صحیفہ ہدایت اور رہتی دنیا تک کے لیے رب العالمین کی مرضیات کا ترجمان ہے۔ قرآن کریم کی اس عظمت اور اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان کی صحیح شکر گذاری کا تقاضا ہے کہ ہماری فکر و نظر کا محور و مرکز یہی کتاب الہی ہو اور عملی زندگی کے ہر گوشہ میں یہ نور مبین ہمارے لیے حقیقی مشعل راہ ہو۔ قرآنی حقائق و معارف سے فیض یاب ہونے اور اس کے متعین کردہ خطوط پر انفرادی و اجتماعی زندگی کی تعمیر کے لیے ناگزیر ہے کہ اس پر غور و فکر کا سلسلہ بغیر کسی انقطاع کے جاری رہے اور اس کی تعلیم و تشریح کا آوازہ برابر بلند ہو تا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مسلمان کسی دور میں بھی اس احساس سے خالی نہیں رہے، لیکن کتاب اللہ کی عظمت اور اس کی اساسی حیثیت کا تقاضا ہے کہ نگاہیں ہر وقت اس کی طرف متوجہ رہیں، مختلف انداز اور مختلف پہلوؤں سے اس سے ربط و تعلق کو ہمیشہ تازہ و استوار رکھا جائے اور قرآنی علوم و معارف کی توسیع و اشاعت کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رہے۔
اس احساس کے پیش نظر اللہ تعالی کی توفیق و مدد سے ۱۹۸۴ میں ادارہ علوم القرآن کا قیام عمل میں آیا۔

ہیڈ آفس کا سنگ بنیاد


ادارہ علوم القرآن کا قیام ۱۹۸۴ میں عمل میں آیا مگر اس وقت ادارہ کے پاس کوئی مستقل عمارت نہیں تھی لہذا ادارہ جزء وقتی طور پر مختلف مقامات پر رہا۔ ادارہ کے دائرہ کار اور اس کے اغراض و مقاصد مستقل اس بات کے متقاضی تھے کہ ادارہ کی کوئی ذاتی عمارت ہو تا کہ یکسوئی کے ساتھ اس کے اغراض و مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے لہٰذا ۲۴ / اکتوبر ۲۰۰۷ کو شیلی باغ، علی گڑھ میں ادارہ علوم القرآن کے ہیڈ آفس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اور سرسید نگر ، علی گڑھ اس عارضی مقام سے اپنی نئی جگہ پر منتقل ہوا۔

ادارہ کے مقاصد اور دائرہ کار


۱۔  اسلام کے دستور اساسی قرآن کریم کو محور بناکر امت اور انسانیت کو درپیش مسائل کا حل پیش کرنا۔

۲۔  قرآن وسنت کی روشنی میں علوم دینیہ کی تجدید اور علوم جدیدہ کی تطہیر۔

۳۔  قرآن کریم سے متعلق اہم موضوعات پر علمی وتحقیقی کام۔
 

دائرہ کار


۱۔  قرآنی افکار وعلوم کی اشاعت کے لیے ایک معیاری رسالہ کا اجرا ۔

۲۔   قرآنیات سے متعلق اہم موضوعات پر علمی وتحقیقی کتابوں کی تیاری اور اشاعت کا اہتمام۔

۳۔  علوم اسلامیہ بالخصوص قرآنیات سے متعلق ایک وسیع  لائبریری کا قیام۔

۴۔  قرآنیات پر مطالعہ وتحقیق کے لیے طلبہ کی تربیت ونگرانی اور اس مقصد کے حصول کے لیے وظائف ودیگر سہولیات کی فراہمی۔

۵۔  قرآنیات سے متعلق کانفرنس، سیمینار، درس کی مجالس اور مذاکرات کا اہتمام۔

۶۔  علوم اسلامیہ کے مراکز اور ہم مقصد اداروں سے تعاون ورابطہ۔

قرآنیات کی لائبریری

کسی بھی علمی مرکز اور ادارہ کے لیے لائبریری و کتب خانے رگِ جاں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے پیش نظر ادارہ علوم القرآن کے ساتھ ہی اس کی لائبریری کا قیام بھی عمل میں آیا۔ شروع ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ یہ لائبریری قرآنیات کے ساتھ مختص ہو اور اسے قرآنی علوم سے متعلق کتابوں کا ایک ایسا مخزن بنایا جائے جس میں اس اہم موضوع پر مطالعہ و تحقیق کے لیے مختلف زبانوں میں بہترین مواد فراہم ہو سکے اور یہ قرآنیات پر ایک حوالہ (Reference) لائبریری کا کام دے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس جہت میں کوششیں بار آور ہو رہی ہیں۔ اس وقت اس کی لائبریری میں علوم اسلامیہ بالخصوص قرآنیات پر اردو، عربی و انگریزی کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ دستیاب ہے۔

وہ تین خوبیاں جن کی بدولت لوگوں نے نوکری چھوڑ کر اپنے کاروبار میں کامیابی پائی

 ایون ڈیویز
عہدہ,بی بی سی نیوز
7 جون 2024

کیا آپ مزدوری سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور اپنا کاروبار چلانا چاہتے ہیں؟ ترجیحی طور پر ایک ایسا کاروبار جو آپ کے لیے محض لائف سٹائل سے بڑھ کر کچھ ہو یعنی ایسا کاروبار جسے آپ پائیدار بنا کر فروخت کر سکتے ہوں اور جس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر آپ باقی زندگی گزار سکیں۔

بی بی سی نے ایک سریز ’ایسے فیصلے جن سے میں لیڈر بن گیا‘ کے لیے چھ کامیاب کاروباری شخصیات سے بات کی ہے۔ اگرچہ یہ کسی بھی سروے کے لیے بہت ہی مختصر نمونہ ہے مگر ان انٹرویوز سے ہمیں کچھ دلچسپ معلومات ضرور حاصل ہوتی ہیں۔

ویکی شیعہ سائبر سپیس پر موجود آنلائن دائرۃ المعارف کیا ہے ؟

ویکی شیعہ آنلائن دائرۃ المعارف صفحہ اول 
(اس تحریر کی تمام معلومات ویکی شعیہ کے مؤلفین کی طرف سے ہیں )

ویکی شیعہ سائبر سپیس پر موجود ایک آنلائن دائرۃ المعارف ہے جس کا مقصد شیعہ اثناعشریہ اور مکتب اہل بیتؑ سے منسوب دوسرے مذاہب کی شناخت میں دخیل مسائل اور مفاہیم کی وضاحت کرنا ہے۔ ان مفاہیم میں اعتقادات، شخصیات، علوم و معارف(فقہ، اصول فقہ، کلام)، کتب، اماکن، واقعات، آداب و رسوم، مناسک، تاریخ تشیع اور دیگر فرق شیعہ سمیت ایسے تمام مفاہیم شامل ہیں جو کسی نہ کسی طرح اہل بیتؑ اور ان کے پیروکاروں سے مربوط ہوں۔ اسی طرح مذکورہ مقصد کے حصول کیلئے جو الفاظ اور اسامی کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں ان سب کی اس وضاحت بھی اس دائرۃ المعارف میں کی جاتی ہے۔

ویکی شیعہ میں لکھاری کا ذاتی تجزیہ و تحلیل نیز ایسے جدید نظریات سے پرہیز کی جاتی ہے جو ابھی ثابت نہ ہوئے ہوں۔ علمی نظریات اور تاریخی مستندات میں موجود اختلافات کی درستی اور نادرستی کا فیصلہ قارئین کا حق ہے لذا اس سلسلے میں ویکی شیعہ اپنی لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے۔ مذہبی اختلافات کو مد نظر رکھتے ہوئے ویکی شیعہ کے مولفین کی یہ کوشش ہے  کہ جہاں تک ممکن ہو ایسے قدیمی منابع اور مآخذ استعمال کریں جو دونوں بڑے مذاہب (شیعہ اور سنی) کے یہاں مورد تائید ہوں۔

ویکی‌ شیعہ اہل بیت عالمی اسمبلی سے وابستہ ہے۔ یہ دائرۃ المعارف اب تک دنیا کے 22 زبانوں میں نشر ہو رہا ہے اور اردو میں 3,452 مقالے موجود ہیں۔

’اوپن بُک ایگزامینیشن‘: کمرہِ امتحان میں کتابیں کھول کر پرچے حل کرنے کا نظام پاکستان میں قابل عمل ہے؟

روحان احمد
بی بی سی اردو
 ۲۵ فروری ۲۰۲۴

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کمرہِ امتحان میں موجود ہیں اور سوالنامہ آپ کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ اسے دیکھ کر پریشان نہیں ہو رہے کیونکہ آپ کو اجازت ہے کہ آپ اپنی کتابیں کھول کر سوالات کا جواب تلاش کر سکتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ کتابیں کھول کر جواب ڈھونڈنے کو یہاں نقل یا چیٹنگ کا نام بھی نہیں دیا جائے گا اور نہ آپ کو ایسا کرنے پر کوئی سزا دی جائے گی۔

ایسے امتحانات کو ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کہا جاتا ہے اور اس کے تجربات اس خطے میں انڈیا سمیت کئی ممالک میں کیے جا رہے ہیں۔

’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا مقصد کیا ہے؟


’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا مطلب یہ ہے کہ امتحان دیتے وقت طالب علم کتاب یا دیگر مطالعاتی مواد کو دیکھ کر سوالات کے جوابات لکھ سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ لینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علموں کی سوچنے، سمجھنے، تجزیہ کرنے اور تنقیدی نگاہ سے پیچیدگیوں کو حل کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے۔

کیلوری کیا ہے اور یہ اصطلاح کہاں سے آئی؟

بی بی سی اردو
10 جنوری 2023ء

آپ سب جانتے ہی ہیں کہ کھانے میں موجود توانائی کو کیلوریز میں ناپا جاتا ہے، اس لیے ہم میں سے بہت سے لوگ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اگر ہم اپنی کیلوری کی مقدار کو کم کر دیں تو ہم اپنا وزن کم کرنے کا ہدف حاصل کر لیں گے۔

لیکن کیا یہ صحیح نقطہ نظر ہے، یا اس کے بارے میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے؟ کچھ ماہرین نہ صرف کیلوری کے حساب کتاب کو ایک پرانا طریقہ مانتے ہیں بلکہ ان کی یہ بھی دلیل ہے کہ یہ خطرناک ہے۔ ہم یہاں کیلوری کا تاریخی طور پر جائزہ لے رہے ہیں۔

آپ سب جانتے ہی ہیں کہ کھانے میں موجود توانائی کو کیلوریز میں ناپا جاتا ہے، اس لیے ہم میں سے بہت سے لوگ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اگر ہم اپنی کیلوری کی مقدار کو کم کر دیں تو ہم اپنا وزن کم کرنے کا ہدف حاصل کر لیں گے۔

لیکن کیا یہ صحیح نقطہ نظر ہے، یا اس کے بارے میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے؟ کچھ ماہرین نہ صرف کیلوری کے حساب کتاب کو ایک پرانا طریقہ مانتے ہیں بلکہ ان کی یہ بھی دلیل ہے کہ یہ خطرناک ہے۔ ہم یہاں کیلوری کا تاریخی طور پر جائزہ لے رہے ہیں۔

کیلوری کیا ہے اور یہ اصطلاح کہاں سے آئی؟

کیلوری توانائی کی ایک اکائی ہے، جو اکثر کھانے کی اشیا کی غذائی قدر کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

یہ اصطلاح لاطینی لفظ ’کیلر‘ سے آئی ہے، جس کا مطلب گرمی ہے اور یہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے مستعمل ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی میں مالیکیولر نیورو اینڈ کرائنولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر جائلز ییو بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ 'نکولس کلیمنٹ نے کیلوری کی تعریف اس طرح کی ہے کہ یہ سطح سمندر پر ایک لیٹر پانی کو ایک سینٹی گریڈ تک بڑھانے کے لیے لی جانے والی حرارت کی مقدار ہے۔‘

چھٹی حس یا پروپریوسیپشن کیا ہے ؟

بی بی سی اردو 

9 جنوری 2023ء 

 ہم نیند کے دوران بیڈ سے گِرتے کیوں نہیں؟

اگر آپ رات کو آنکھیں بند کریں اور آپ کی آنکھیں صبح سویرے خود بخود ہی کُھل جائیں تو آپ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھیں اچھی اور پُرسکون نیند میسر ہوتی ہے۔

ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ سوتے وقت ہمارا جسم اور دماغ دونوں حرکت میں ہوتے ہیں۔

ہم خواب دیکھتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، ہنستے ہیں، لوگوں پر چیختے ہیں۔ کبھی چادر اوڑھ لیتے ہیں تو کبھی اتار دیتے ہیں۔ بعض اوقات ساتھ سوئے ہوئے فرد کو لات بھی مار دیتے ہیں۔ اور کچھ لوگ تو بستر پر گھومتے، جھومتے اور جھول لیتے ہیں۔

مگر چاہے ہم 65 سینٹی میٹر کے کیمپنگ بیڈ پر ہوں یا 200 سینٹی میٹر کے کِنگ سائز بیڈ پر، ہم میں سے اکثر لوگ وہیں بیدار ہوتے ہیں جہاں رات سوئے ہوں، اس بات سے قطع نظر کہ خواب خرگوش میں رات کتنی ہی مصروف گزری ہو۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سوتے ہوئے بیڈ سے گرتے کیوں نہیں؟

کائنات کے سب سے اہم سوالوں میں سے ایک حل کے قریب

پال رنکون ، سائنس ایڈیٹر بی بی سی نیوز

16 اپريل 2020

نو سال کے ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد سائنسدانوں کو پتا چلا ہے کہ نیوٹرینوز اور اینٹی نیوٹرینوز اپنی خصوصیات تبدیل مختلف طریقے سے کرتے ہیں

ستارے، کہکشائیں، سیارے سبھی کچھ جو آج وجود میں ہے کائنات کی ایک انوکھی خصوصیت کی وجہ ہے۔

اس خصوصیت کی نوعیت آج تک سائنسدانوں کے لیے ایک معمہ ہے جس کے تحت ’میٹر‘ یعنی مادہ ’اینٹی میٹر‘ پر حاوی ہے۔

اب جاپان میں ایک تجربے کے نتائج سے اس معاملے کو سلجھانے میں مدد ملے گی جو کہ سائنس میں دورِ حاضر کے سب سے بڑے سوالات میں سے ایک ہے۔

کیا فزکس خدا کے وجود کو ثابت کر سکتی ہے؟

بی بی سی اردو ، 24 مارچ 2021

مضمون نگار : مونیکا گریڈی 

( نوٹ : یہ مضمون معلومات میں اضافہ کے لے شائع کیا جارہاہے ، بلاگر کا اس کے مندرجات سے اتفاق لازمی نہیں )

میں خدا پر ایمان رکھتا تھا (میں اب دہریہ ہو چکا ہوں) لیکن میں نے ایک سیمینار میں مندرجہ ذیل سوال سنا، جو کہ سب سے پہلے آئنسٹائین نے اٹھایا تھا، اور یہ سوال سن کر میں ایک دم سے ساکت ہو گیا۔

کیا فزکس خداکے وجود کو ثابت کر سکتی ہے ؟

وہ یہ کہ: ’اگر کسی خدا کا وجود ہے جس نے یہ ساری کائنات اور اس کے تمام قوانین کو تخلیق کیا، تو کیا یہ خدا خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کے تابع ہے یا خدا اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین سے ماورا ہو سکتا ہے، مثلاً روشنی کی رفتار سے تیز سفرکرنا اور اس طرح کئی جگہوں پر ایک ہی وقت میں موجود ہونا۔'

کیا اس سوال کا جواب خدا کے وجود یا عدمِ وجود کو ثابت کرسکتا ہے یا یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں سائنسی ایمپیریسزم (فلسفہ کا یہ نظریہ کہ علم تجربے اور عملی ثبوت سے حاصل ہوتا ہے) اور مذہب کا باہمی مکالمہ ہوتا ہے اور وہاں کسی بات کا کوئی جواب نہیں موجود ہوتا ہے؟ (ڈیوڈ فراسٹ، عمر 67 برس، لاس اینجلیز، امریکہ)۔

مہمان پرندوں کی ہائی پاور ٹرانسمیشن لائنز سے ٹکرا کر ہلاکتوں کے حوالے سے ایک تحقیق اور واڈلا کونج کی کہانی

 بی بی سی اردو ، 21 مئ 2021

 کونجیں اور دیگر پرندے موسم سرما گزارنے کے لیے روس اور آس پاس کے علاقوں سے جنوبی ایشیا کا رخ کرتے ہیں-

بھارت کے وائلڈ لائف انسٹیٹیوٹ دہرہ دون کے ماہرین نے سنہ 2020 میں موسمِ سرما گزارنے کے لیے آنے والے مہمان پرندوں کی ہائی پاور ٹرانسمیشن لائنز سے ٹکرا کر ہلاکتوں کے حوالے سے ایک تحقیق شروع کی تھی اور اسی تحقیق کے لیے انڈیا کی ریاست گجرات کے علاقے واڈلا میں مارچ 2020 میں پہنچنے والی ایک مادہ کونج میں جی پی ایس ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا تھا۔ کونج کو واڈلا کا نام اسی علاقے کی نسبت سے دیا گیا تھا۔

وائلڈ لائف انسٹیٹیوٹ دہرہ دون کے ڈاکٹر سریش کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک سال سے زائد عرصہ تک ٹرانسمیٹر کی مدد سے ہر دس منٹ بعد واڈلا کے سفر کی معلومات حاصل کی جاتی رہی ہیں جس سے پہلی مرتبہ کونجوں کی سرمائی نقل مکانی کے حوالے سے بنیادی اور اہم معلومات حاصل ہو سکی ہیں۔

ڈاکٹر سریش کا کہنا ہے کہ ’واڈلا اس عرصے میں موسم سرما اور گرما اپنی روایتی آماجگاہوں میں گزارنے کے بعد مخصوص راستوں پر سفر کرتی رہی اور جب وہ رواں برس اپریل میں صوبہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں مانی ہور کے مقام پر موجود تھی تو اس کی آخری لوکیشن ہمیں موصول ہوئی جس کے بعد رابطہ ختم ہو گیا۔‘

ڈاکٹر سریش کمار کے مطابق واڈلا سے حاصل ہونے والا ڈیٹا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ’اس سے ہمیں اس کے روٹ کے علاوہ کچھ بنیادی معلومات حاصل ہوئی ہیں جو اس سے پہلے منظرِ عام پر نہیں آئی تھیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ اگر برسوں پہلے ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی ہوتی اور اس کی مدد سے سربیائی کونجوں کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی ہوتیں تو پاکستان اور انڈیا کے علاوہ پورے خطے میں ان کا تحفظ ممکن ہو سکتا تھا۔