جْدید تحقیقات ، تجربات اور انکشافات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
جْدید تحقیقات ، تجربات اور انکشافات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

’اوپن بُک ایگزامینیشن‘: کمرہِ امتحان میں کتابیں کھول کر پرچے حل کرنے کا نظام پاکستان میں قابل عمل ہے؟

روحان احمد
بی بی سی اردو
 ۲۵ فروری ۲۰۲۴

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کمرہِ امتحان میں موجود ہیں اور سوالنامہ آپ کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ اسے دیکھ کر پریشان نہیں ہو رہے کیونکہ آپ کو اجازت ہے کہ آپ اپنی کتابیں کھول کر سوالات کا جواب تلاش کر سکتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ کتابیں کھول کر جواب ڈھونڈنے کو یہاں نقل یا چیٹنگ کا نام بھی نہیں دیا جائے گا اور نہ آپ کو ایسا کرنے پر کوئی سزا دی جائے گی۔

ایسے امتحانات کو ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کہا جاتا ہے اور اس کے تجربات اس خطے میں انڈیا سمیت کئی ممالک میں کیے جا رہے ہیں۔

’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا مقصد کیا ہے؟


’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا مطلب یہ ہے کہ امتحان دیتے وقت طالب علم کتاب یا دیگر مطالعاتی مواد کو دیکھ کر سوالات کے جوابات لکھ سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ لینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علموں کی سوچنے، سمجھنے، تجزیہ کرنے اور تنقیدی نگاہ سے پیچیدگیوں کو حل کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے۔

کیلوری کیا ہے اور یہ اصطلاح کہاں سے آئی؟

بی بی سی اردو
10 جنوری 2023ء

آپ سب جانتے ہی ہیں کہ کھانے میں موجود توانائی کو کیلوریز میں ناپا جاتا ہے، اس لیے ہم میں سے بہت سے لوگ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اگر ہم اپنی کیلوری کی مقدار کو کم کر دیں تو ہم اپنا وزن کم کرنے کا ہدف حاصل کر لیں گے۔

لیکن کیا یہ صحیح نقطہ نظر ہے، یا اس کے بارے میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے؟ کچھ ماہرین نہ صرف کیلوری کے حساب کتاب کو ایک پرانا طریقہ مانتے ہیں بلکہ ان کی یہ بھی دلیل ہے کہ یہ خطرناک ہے۔ ہم یہاں کیلوری کا تاریخی طور پر جائزہ لے رہے ہیں۔

آپ سب جانتے ہی ہیں کہ کھانے میں موجود توانائی کو کیلوریز میں ناپا جاتا ہے، اس لیے ہم میں سے بہت سے لوگ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اگر ہم اپنی کیلوری کی مقدار کو کم کر دیں تو ہم اپنا وزن کم کرنے کا ہدف حاصل کر لیں گے۔

لیکن کیا یہ صحیح نقطہ نظر ہے، یا اس کے بارے میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے؟ کچھ ماہرین نہ صرف کیلوری کے حساب کتاب کو ایک پرانا طریقہ مانتے ہیں بلکہ ان کی یہ بھی دلیل ہے کہ یہ خطرناک ہے۔ ہم یہاں کیلوری کا تاریخی طور پر جائزہ لے رہے ہیں۔

کیلوری کیا ہے اور یہ اصطلاح کہاں سے آئی؟

کیلوری توانائی کی ایک اکائی ہے، جو اکثر کھانے کی اشیا کی غذائی قدر کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

یہ اصطلاح لاطینی لفظ ’کیلر‘ سے آئی ہے، جس کا مطلب گرمی ہے اور یہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے مستعمل ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی میں مالیکیولر نیورو اینڈ کرائنولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر جائلز ییو بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ 'نکولس کلیمنٹ نے کیلوری کی تعریف اس طرح کی ہے کہ یہ سطح سمندر پر ایک لیٹر پانی کو ایک سینٹی گریڈ تک بڑھانے کے لیے لی جانے والی حرارت کی مقدار ہے۔‘

چھٹی حس یا پروپریوسیپشن کیا ہے ؟

بی بی سی اردو 

9 جنوری 2023ء 

 ہم نیند کے دوران بیڈ سے گِرتے کیوں نہیں؟

اگر آپ رات کو آنکھیں بند کریں اور آپ کی آنکھیں صبح سویرے خود بخود ہی کُھل جائیں تو آپ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنھیں اچھی اور پُرسکون نیند میسر ہوتی ہے۔

ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ سوتے وقت ہمارا جسم اور دماغ دونوں حرکت میں ہوتے ہیں۔

ہم خواب دیکھتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، ہنستے ہیں، لوگوں پر چیختے ہیں۔ کبھی چادر اوڑھ لیتے ہیں تو کبھی اتار دیتے ہیں۔ بعض اوقات ساتھ سوئے ہوئے فرد کو لات بھی مار دیتے ہیں۔ اور کچھ لوگ تو بستر پر گھومتے، جھومتے اور جھول لیتے ہیں۔

مگر چاہے ہم 65 سینٹی میٹر کے کیمپنگ بیڈ پر ہوں یا 200 سینٹی میٹر کے کِنگ سائز بیڈ پر، ہم میں سے اکثر لوگ وہیں بیدار ہوتے ہیں جہاں رات سوئے ہوں، اس بات سے قطع نظر کہ خواب خرگوش میں رات کتنی ہی مصروف گزری ہو۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سوتے ہوئے بیڈ سے گرتے کیوں نہیں؟

کائنات کے سب سے اہم سوالوں میں سے ایک حل کے قریب

پال رنکون ، سائنس ایڈیٹر بی بی سی نیوز

16 اپريل 2020

نو سال کے ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد سائنسدانوں کو پتا چلا ہے کہ نیوٹرینوز اور اینٹی نیوٹرینوز اپنی خصوصیات تبدیل مختلف طریقے سے کرتے ہیں

ستارے، کہکشائیں، سیارے سبھی کچھ جو آج وجود میں ہے کائنات کی ایک انوکھی خصوصیت کی وجہ ہے۔

اس خصوصیت کی نوعیت آج تک سائنسدانوں کے لیے ایک معمہ ہے جس کے تحت ’میٹر‘ یعنی مادہ ’اینٹی میٹر‘ پر حاوی ہے۔

اب جاپان میں ایک تجربے کے نتائج سے اس معاملے کو سلجھانے میں مدد ملے گی جو کہ سائنس میں دورِ حاضر کے سب سے بڑے سوالات میں سے ایک ہے۔

کیا فزکس خدا کے وجود کو ثابت کر سکتی ہے؟

بی بی سی اردو ، 24 مارچ 2021

مضمون نگار : مونیکا گریڈی 

( نوٹ : یہ مضمون معلومات میں اضافہ کے لے شائع کیا جارہاہے ، بلاگر کا اس کے مندرجات سے اتفاق لازمی نہیں )

میں خدا پر ایمان رکھتا تھا (میں اب دہریہ ہو چکا ہوں) لیکن میں نے ایک سیمینار میں مندرجہ ذیل سوال سنا، جو کہ سب سے پہلے آئنسٹائین نے اٹھایا تھا، اور یہ سوال سن کر میں ایک دم سے ساکت ہو گیا۔

کیا فزکس خداکے وجود کو ثابت کر سکتی ہے ؟

وہ یہ کہ: ’اگر کسی خدا کا وجود ہے جس نے یہ ساری کائنات اور اس کے تمام قوانین کو تخلیق کیا، تو کیا یہ خدا خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کے تابع ہے یا خدا اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین سے ماورا ہو سکتا ہے، مثلاً روشنی کی رفتار سے تیز سفرکرنا اور اس طرح کئی جگہوں پر ایک ہی وقت میں موجود ہونا۔'

کیا اس سوال کا جواب خدا کے وجود یا عدمِ وجود کو ثابت کرسکتا ہے یا یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں سائنسی ایمپیریسزم (فلسفہ کا یہ نظریہ کہ علم تجربے اور عملی ثبوت سے حاصل ہوتا ہے) اور مذہب کا باہمی مکالمہ ہوتا ہے اور وہاں کسی بات کا کوئی جواب نہیں موجود ہوتا ہے؟ (ڈیوڈ فراسٹ، عمر 67 برس، لاس اینجلیز، امریکہ)۔

مہمان پرندوں کی ہائی پاور ٹرانسمیشن لائنز سے ٹکرا کر ہلاکتوں کے حوالے سے ایک تحقیق اور واڈلا کونج کی کہانی

 بی بی سی اردو ، 21 مئ 2021

 کونجیں اور دیگر پرندے موسم سرما گزارنے کے لیے روس اور آس پاس کے علاقوں سے جنوبی ایشیا کا رخ کرتے ہیں-

بھارت کے وائلڈ لائف انسٹیٹیوٹ دہرہ دون کے ماہرین نے سنہ 2020 میں موسمِ سرما گزارنے کے لیے آنے والے مہمان پرندوں کی ہائی پاور ٹرانسمیشن لائنز سے ٹکرا کر ہلاکتوں کے حوالے سے ایک تحقیق شروع کی تھی اور اسی تحقیق کے لیے انڈیا کی ریاست گجرات کے علاقے واڈلا میں مارچ 2020 میں پہنچنے والی ایک مادہ کونج میں جی پی ایس ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا تھا۔ کونج کو واڈلا کا نام اسی علاقے کی نسبت سے دیا گیا تھا۔

وائلڈ لائف انسٹیٹیوٹ دہرہ دون کے ڈاکٹر سریش کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک سال سے زائد عرصہ تک ٹرانسمیٹر کی مدد سے ہر دس منٹ بعد واڈلا کے سفر کی معلومات حاصل کی جاتی رہی ہیں جس سے پہلی مرتبہ کونجوں کی سرمائی نقل مکانی کے حوالے سے بنیادی اور اہم معلومات حاصل ہو سکی ہیں۔

ڈاکٹر سریش کا کہنا ہے کہ ’واڈلا اس عرصے میں موسم سرما اور گرما اپنی روایتی آماجگاہوں میں گزارنے کے بعد مخصوص راستوں پر سفر کرتی رہی اور جب وہ رواں برس اپریل میں صوبہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں مانی ہور کے مقام پر موجود تھی تو اس کی آخری لوکیشن ہمیں موصول ہوئی جس کے بعد رابطہ ختم ہو گیا۔‘

ڈاکٹر سریش کمار کے مطابق واڈلا سے حاصل ہونے والا ڈیٹا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ’اس سے ہمیں اس کے روٹ کے علاوہ کچھ بنیادی معلومات حاصل ہوئی ہیں جو اس سے پہلے منظرِ عام پر نہیں آئی تھیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ اگر برسوں پہلے ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی ہوتی اور اس کی مدد سے سربیائی کونجوں کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی ہوتیں تو پاکستان اور انڈیا کے علاوہ پورے خطے میں ان کا تحفظ ممکن ہو سکتا تھا۔