فارسی زبان و ادب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فارسی زبان و ادب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیمبرانہ حکمت کے شاعر سعدی شیرازی اور ان کی شاعری اور تصنیفات

 سعدی شیرازی جوسومنات مندر کے کرشمے کا راز جاننے کے لیے برہمن بھی بنے

مرزا اے بی بیگ
بی بی سی اردو، نئی دہلی
31 مئ 2023
پیمبرانہ حکمت کے شاعر سعد شیرازی اور ان کی شاعری 


دنیا بھر میں ایک زمانے سے کسی کی علمی صلاحیت اور لیاقت کا اظہار اس کی ڈگریاں یا اسناد رہی ہیں لیکن آج سے کوئی سو سال قبل اسی برصغیر میں کسی کی تعلیمی قابلیت اس بات سے جانچی جاتی تھی کہ کیا اس نے ’گلستان‘ اور ’بوستان‘ پڑھ رکھی ہیں۔

یہ دو کتابیں کسی سند سے کم نہیں تھیں اور بہت سی اہم شخصیات کی سوانح میں اس کا فخریہ ذکر بھی ملتا ہے کہ انھوں نے سن بلوغت تک پہنچتے پہنچتے گلستان اور بوستان پڑھ لی تھی، یا کہیں کہیں تو یہ بھی ملتا ہے کہ انھیں یہ کتابیں ازبر تھیں۔

یہ دونوں کتابیں لگ بھگ 750 سال قبل 13ویں صدی میں ابو محمد مصلح الدین بن عبداللہ شیرازی (سعدی شیرازی) نے تصنیف کی تھیں، جن کا سکہ آج تک قائم ہے۔

گلستان کی ایک نظم ’بنى آدم اعضای یکدیگرند‘ (یعنی انسان ایک دوسرے کے اعضا ہیں) کا فقرہ نہ صرف ایران کے سکّے پر کندہ اور رقم ہے بلکہ سنہ 2005 میں نیو یارک میں قائم اقوام متحدہ کے صدر دفتر کو ایران کی جانب سے ایک قالین پیش کیا گیا جس پر یہ پوری نظم تحریر ہے۔

اس کے بارے میں اقوام متحدہ کے سابق صدر بان کی مون نے کہا تھا کہ 'اقوام متحدہ کے داخلی دروازے پر ایک شاندار قالین آویزاں ہے، جو اقوام متحدہ کی دیوار کو مزین کرتا ہے۔ یہ اہل ایران کی طرف سے ایک تحفہ ہے جس پر فارسی کے عظیم شاعر سعدی کے لاجواب الفاظ رقم ہیں۔‘

فن ادب اور ادبی تخلیق - ابوالبشر احمد طیب

فن ادب

فن ادب اور ادبی تخلیق
یہ حقیقت ہے کہ انسانیت اور انسانی معاشرت  فلسفہ اور سائنس پر نہیں بلکہ جذبات پر قائم  ہے ، فرض کریں ایک بڈھے شخص کا بیٹا مرگیا ہے اور لاش سامنے پڑی ہے ، یہ شخص اگر سائنسدان سے رائے لے تو جواب ملے گا کہ ایسے اسباب جمع ہوگئے جن کی وجہ سےدوران خون یا دل کی حرکت بندہوگئی ، اسى کا نام موت ہے ، یہ ایک مادی  حادثہ ہے لہذا رونا دھونا بےکار ہے ، رونے سے وہ دو بارہ زندہ نہیں ہوگا۔ لیکن کیا سائنسدا ن خود اس اصول پر عمل پیرا ہوسکتا ہے ، بچوں کا پیار ، ماں کی مامتا ، محبت کا جوش ، غم کا ہنگامہ ، موت کا رنج ، ولادت کی خوشی ، کیا ان چیزوں کو سائنس سے کوئی تعلق ہے ، لیکن یہ چیزیں اگر مٹ جائیں تو زندگی میں سناٹا چھاجائے گا ، اور دنیا قالب بے جان ، شراب بے کیف ، گل بےرنگ ، گوہر بے آب ہوکر رہ جائیگی ، دنیا کی چہل پہل ، رنگینی ، دلآویزی ، دلفریبی ، سائنس  اور فلسفہ کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانی جذبات کی وجہ سے ہے جو عقل کی حکومت سے تقریبا آزاد ہیں ۔

 فن ادب یا تخلیق ادب کو جذبات ہی سے تعلق ہے  اس لیے تاثیر اس کا عنصر ہے ، ادب ہر قسم کے جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے ، اس لیے رنج ، خوشی ، جوش ، استعجاب ، حیرت  میں جواثر ہے وہی ادب میں ہے ، باد سحر کی جھونکے ، آب رواں کی رفتا ر ، پھولوں کی شگفتگی ، غنچوں کا تبسم ، سبزہ کی لہلہاہٹ ، خوشبؤں کی لپٹ ، بادل کی پھوہار ، بجلی کی چمک ، یہ منظر آنکھ کے سامنے ہو تو دل پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، شاعر یا انشا پرداز ان مناظر کو بعینہ پیش کردیتا ہے تو  دل پر ان کا اثر ہوتا ہے ۔  ادب صرف محسوسات کی تصویر نہیں کھینچتا ، بلکہ جذبات اور احساسات کو بھی پیش نظر کردیتا ہے ، اکثر عام انسان اپنے جذبات سے خود واقف نہیں ہوتے اگر ہوتے ہیں تو صرف دھندلاسا نقش نظر آتا ہے ، شاعر یا انشا پر داز ان پس ِپردہ چیزوں کو پیش نظر کردیتا ہے ، دھندلی چیزیں چمک اٹھتی ہیں ، مٹا ہوا نقش اجاگر ہوجاتا ہے ،یہاں تک کہ روحانی تصویر جو کسی آئینہ کے ذریعہ ہم نہیں دیکھ سکتے ، ادب ہمیں دکھا دیتا ہے ۔