سعدی شیرازی جوسومنات مندر کے کرشمے کا راز جاننے کے لیے برہمن بھی بنے
مرزا اے بی بیگ
بی بی سی اردو، نئی دہلی
دنیا بھر میں ایک زمانے سے کسی کی علمی صلاحیت اور لیاقت کا اظہار اس کی ڈگریاں یا اسناد رہی ہیں لیکن آج سے کوئی سو سال قبل اسی برصغیر میں کسی کی تعلیمی قابلیت اس بات سے جانچی جاتی تھی کہ کیا اس نے ’گلستان‘ اور ’بوستان‘ پڑھ رکھی ہیں۔
یہ دو کتابیں کسی سند سے کم نہیں تھیں اور بہت سی اہم شخصیات کی سوانح میں اس کا فخریہ ذکر بھی ملتا ہے کہ انھوں نے سن بلوغت تک پہنچتے پہنچتے گلستان اور بوستان پڑھ لی تھی، یا کہیں کہیں تو یہ بھی ملتا ہے کہ انھیں یہ کتابیں ازبر تھیں۔
یہ دونوں کتابیں لگ بھگ 750 سال قبل 13ویں صدی میں ابو محمد مصلح الدین بن عبداللہ شیرازی (سعدی شیرازی) نے تصنیف کی تھیں، جن کا سکہ آج تک قائم ہے۔
گلستان کی ایک نظم ’بنى آدم اعضای یکدیگرند‘ (یعنی انسان ایک دوسرے کے اعضا ہیں) کا فقرہ نہ صرف ایران کے سکّے پر کندہ اور رقم ہے بلکہ سنہ 2005 میں نیو یارک میں قائم اقوام متحدہ کے صدر دفتر کو ایران کی جانب سے ایک قالین پیش کیا گیا جس پر یہ پوری نظم تحریر ہے۔
اس کے بارے میں اقوام متحدہ کے سابق صدر بان کی مون نے کہا تھا کہ 'اقوام متحدہ کے داخلی دروازے پر ایک شاندار قالین آویزاں ہے، جو اقوام متحدہ کی دیوار کو مزین کرتا ہے۔ یہ اہل ایران کی طرف سے ایک تحفہ ہے جس پر فارسی کے عظیم شاعر سعدی کے لاجواب الفاظ رقم ہیں۔‘