باب چہارم: جبلِ نور کی خاموشی میں اُترتی روشنی
غارِ حرا کی طرف ایک تنہا سفر
مکہ کے بازار شور و غل سے بھرے ہوتے، قریش کی محفلوں میں قہقہے گونجتے، اور بتوں کے سائے میں لوگ اپنی دنیا بسائے ہوئے تھے۔ مگر ایک دل ایسا بھی تھا جو ان سب سے بیگانہ تھا۔ محمد ﷺ کا دل ان بتوں سے بیزار تھا، ان محفلوں سے خالی، اور اس معاشرے کے جھوٹ، ظلم، اور فریب سے دکھی۔
ان کا دل سچائی کی تلاش میں بے چین رہتا۔
اسی تلاش نے انہیں شہر سے دور، جبلِ نور کے ایک خاموش گوشے، غارِ حرا کی طرف کھینچنا شروع کیا۔
غار کی خاموشی، دل کا مکالمہ
یہ کوئی عام پہاڑ نہ تھا، اور نہ یہ غار عام تنہائی رکھتی تھی۔ یہاں ہر طرف خامشی تھی، مگر یہ خاموشی مردہ نہ تھی— یہ گویا سننے والی خاموشی تھی، سوالوں سے بھری ہوئی، آنکھیں بند کیے انتظار کرتی ہوئی۔
محمد ﷺ یہاں دنوں اور راتوں تک قیام فرماتے۔ کبھی پہاڑوں کو تکتے، کبھی آسمان کو۔ دل ہی دل میں اللہ کو پکارتے، مگر الفاظ زباں پر نہ آتے۔
وہ جانتے تھے کہ کوئی ذات ہے جو انہیں دیکھ رہی ہے، جو اس دنیا کے پردوں کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کی مالک ہے۔
وہ رات جس کا انتظار صدیوں نے کیا
رمضان کی ایک رات تھی— نہ کوئی غیر معمولی شور، نہ آسمان پر کوئی رنگین منظر۔ مگر کائنات کی دھڑکن کسی پوشیدہ ولولے سے بھر گئی تھی۔