گوشۂ مفتی تقی عثمانی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
گوشۂ مفتی تقی عثمانی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مولانا مفتی رفیع عثمانی رحمۃ اللہ عليہ

عزیز الرحمان ابن مفتی محمد کلیم۔

تعارف*:-
مفتي رفيع عثمانى رحمۃ اللہ عليہ

 آپ مفسرِ قرآن و مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مفتی شفیع صاحبؒ کے فرزندِ ارجمند ، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کے بڑے بھائی اور عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفیؒ کے ممتاز اور اخص الخواص خلفا میں سے ہیں ، آپ اپنے ملک و بیرونِ ملک کی جانی پہچانی علمی اور روحانی شخصیت ہیں۔

*نام*:- محمد رفیع ابن مفتی محمد شفیع ابن مولانا محمد یاسین عثمانی ، آپ حضرت عثمان غنیؓ کی اولاد میں سے ہیں ، آپ کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ آپ کا نامِ مبارک حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے رکھا۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ خطاب بمقام :جامع مسجد جامعہ دارالعلوم کراچی ٢٠ جولائی ٢٠١٨ء

  آیت کریمہ کی تشریح  لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين   

عید میلاد النبی ﷺ اور صحابہ کرام کا عمل - مفتی محمد تقی عثمانی




--------------------
یہ بھی پڑھیں !

عید میلاد النبی، ایک غلطی کی نشاندہی۔۔۔۔۔!!


سیرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ

غزوہ ٔ احزاب (جنگ خندق)

تعلیماتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نفسیاتی پہلو ـ شفاقت علی شیخ

معراج النبی ﷺ کے بارے میں نظریات ۔ مفتی منیب الرحمن

سیرت کے مصادر و مآخذ

سید ابوالاعلٰی مودودی ؒ کا ایک نادر خطاب (مکہ مکرمہ میں حج کے دوران)

میں اور میرے رسولﷺ

اسلام کے بین الاقوامی سفیر ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ - ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حقوقِ انسانی: سیرتِ نبویؐ کی روشنی میں ۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

منشورانسانیت : نبی اکرم ﷺکا خطبۂ حجۃ الوداع ، مولانا زاہد الراشدی

مولانا مودودی کا تصور حدیث و سنت

توہین رسالت کا مسئلہ

توہین رسالت کی سزا

صحابہ کرام کی ہجرت حبشہ کا واقعہ

روضۂ نبویؐ پرسید ابوالاعلی مودودی ؒ 

بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے بدھ مت کے اثرات اور تغیرات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے ایران کے سیاسی اور معاشرتی حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے یہویوں اور عیسائیوں کی باہم منافرت - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے رومی سلطنت کے سیاسی اور معاشرتی حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے ہندوستان کے حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ ("")

دین مسیحیت چھٹی صدی عیسوی میں - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ  (1) 

قرآن اور حدیث کا باہمی تعلق اور تدوین حدیث -  مولانا سید سلیمان ندویؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے دنیا کے مذھبی اور سیاسی حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

عہد رسالت میں مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیل

رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں - ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی 

محمد عربی کی نبوت - جاوید احمد غامدی 

اور آپ ﷺ ہنس پڑے !! (قسط دوم )

اسلام اور ریاست - مفتی تقی عثمانی

غیرمنقسم ہندوستان میں قائداعظم کی قیادت میں قیام پاکستان کی جو تحریک چلی‘اس کی بنیاد مسلم قومیت کے نظریے پرتھی‘ انگریزوں اور ہندوئوں کے مقابلے میں جو تمام ہندوستانیوں کو ایک قوم قرار دے کر اکھنڈ بھارت کے حق میں تھے‘ قائداعظم نے پورے زوروشور اور دلائل کی روشنی میں یہ نعرہ لگایا کہ ہندوستان میں دو قومیں بستی ہیں ایک مسلم اور دوسری غیرمسلم‘مسلمان رہنمائوں‘اہل فکر اورعلمائے کرام نے اس کی بھرپورتائید کی اور میرے بچپن میں ’’پاکستان کامطلب کیا؟ لا الہ الااللہ‘‘ کی جو صدائیں گونجتی تھیں‘ان کی دلکش یاد آج بھی کانوں میں محفوظ ہے۔

 آخرکار مسلم اکثریت نے قائداعظم کی اس پکار پر لبیک کہا‘ اور ناقابل فراموش قربانیوں کے بعد ہمالیہ کے دامن میں ارض پاک ایک حقیقت بن کر ابھری‘نظریہ پاکستان کی بنیاد تو واضح تھی لیکن ایک چھوٹا ساحلقہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے دستور پاکستان کیلئے وہ قرارداد مقاصد بااتفاق منظور کی جس نے ملک کا رخ واضح طور پر متعین کردیاکہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے‘اور عوام کے منتخب نمائندے اپنے اختیارات قرآن وسنت کی حدود میں رہ کر استعمال کرسکیں گے‘اور یہ قرارداد 1954‘1956‘1962 اور1973 کے تمام دستوری مسودوں کاالفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ لازمی جز بنی رہی‘ اور آج بھی وہ ہمارے دستور کی وہ دستاویز ہے جس پر ہم فخر کرسکتے ہیں چوتھائی صدی تک بنتی ٹوٹتی اسمبلیوں میں بھی اورباہر بھی اس پر کھلے دل سے بحث ومباحثہ بھی ہوا‘اور بالآخر اس پر پورے ملک کااتفاق ہوگیا پھر اس کی بنیاد پر دستور کی تشکیل کا مرحلہ آیا تویہ دفعہ بھی تمام مسودات دستور میں کسی قابل ذکر اختلاف کے بغیر موجود رہی کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایاجاسکے گا اور موجودہ قوانین کو بھی ان کے سانچے میں ڈھالا جائے گا.

 سن 1973ء کادستور جوآج بھی نافذ ہے‘ اس وقت کے تمام سیاسی اور دینی حلقوں کے اتفاق سے منظور ہوا‘اور اس پر بفضلہ تعالیٰ آج بھی تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہیں اور اس کا مکمل تحفظ چاہتی ہیں جس کا مظاہرہ ا وراس کی مزید تاکید حال ہی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے تاریخی اتفاق سے دوبارہ ہوگئی ہے‘اعلیٰ عدالتوں نے بھی اس دستور کی بنیادی روح کالازمی حصہ قرار دیاہے۔

قرآن کریم اور عربی زبان کی حفاظت

قران کریم کی حفاظت:

قران کریم سے پہلے جو آسمانی کتابیں مختلف انبیاء علیہ السلام پر نازل ہوئیں ‘ ان کی حفاظت کا کوئی وعدہ اللہ تعالی کی طرف سے نہیں کیا گیا تھا چنانچہ وہ اپنی اصلی شکل میں محفوظ نہ رہ سکیں ۔ خود اہل کتاب بھی اس حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہیں اور کوئی کٹر سے کٹر عیسائی یا یہودی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ ان کتابوں میں ہر لفظ الہامی ہے اور ان میں کہیں کوئی غلطی یا تبدیلی نہیں ہوئی ۔ اس کے برخلاف قران کریم نے اپنے بارے میں یہ پیشگی خبر دیدی تھی کہ

"إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ "

" ہم نے اسی قران کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں"

چنانچہ یہ وعدہ حرف با خرف صحیح ثابت ہوا ۔ اور چودہ سو سال کے اس طویل عرصے میں قران کریم کا ایک نقطہ ایک شوشہ تک ضائع نہیں ہوسکا ۔ اور نہ اس میں تحریف و ترمیم کی کوئی کوشش کامیاب ہوسکی ۔ اسلام ہمیشہ مخالفتوں اور عداوتوں کے نرغے میں رہا ہے اور اس کے دشمنوں نے اس کو مغلوب کرنے کی کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن کوئی دشمن قران کریم کو اس دور میں مٹانے ،ضائع کرنے یا بدلنے میں کامیاب نہ ہوسکا جبکہ قران کریم کے نسخے نہایت محدود تھے اور نشر و اشاعت کے وسائل نایاب۔ تورات کو دیکھئے کہ کس طرح بابل کا بادشاہ بخت نصر اٹھتاہے اور بنی اسرائیل کے روایات کے مطابق سوائے حضرت عزیر علیہ السلام کے کسی شخص کو تورات یاد نہیں تھی ۔ اس لئے تمام نسخے ضائع ہوجانے کے بعد انہوں نے اپنے حافظے سے اسے دوبارہ لکھوایا ۔ یا پھر روم کا بادشاہ انیتوکس ایپی پانیس اٹھتا ہے اور خود بنی اسرائیل کی روایات کے مطابق تورات کا ایک ایک نسخہ پھاڑ جلا دیتا ہے یہاں تک کہ کوئی نسخہ باقی نہیں رہتا ، ( دیکھیئے انسائیکلو پیڈیا ‘برٹانیکا ٥٠١ج٣3 مطبوعہ ١٩٥٠ مقالہ ‘ بائبل بحث عہد قدیم ۔ فہرست مسلمہ بحوالہ ۔ السیڈریس دوم ١٤ ۔١٩ تا ٤٨ ، نمبر٢ دیکھیئے بائبل ناکس ورژن میکملن۔ لندن ١٩٦٣ ء مکابیوں کی پہلی کتاب ۔ ١: ٥٩)

اسی طرح انجیل کو دیکھئے کہ کس طرح طیطوس رومی ‘شاہ نیرون’ڈومیشین اور ڈیو کلیشین کے حملوں میں اس کے اصل نسخےنابود ہوجاتے ہیں لیکن قران کریم کا حال یہ ہے کہ اسکے سینکڑوں حملہ آوروں سے سابقہ پڑتا ہے بہت سے مواقع پر مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہے ان کے کتب خانے جلائے جاتے ہیں قدیم کتابوں کے کے بڑے بڑے ذخیرے دریا میں بہا دیے جاتے ہیں قرامطہ کا سیلاب عظیم پورے عالم اسلام پر ٹوٹتا ہے اور قران کریم کی تحریف کی کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا ۔ لیکن یہ کتاب مبین،  اللہ کے وعدے کے مطابق کسی ادنی تغیر کے بغیر نا صرف محفوظ رہتی ہے بلکہ مشرق و مغرب میں اسکی نشر واشاعت کی رفتار بڑھتی ہی چلی جاتی ہے ۔ آج بھی بالفرض (خدانخواستہ) قران کریم کے تمام مکتوب نسخے ناپید ہوجائیں تو لاکھوں فرزندان توحید کے سینے اسکے سچے امانت دار ہے اور اگر کوئی شخص قران کریم کا کوئی لفظ بھی تبدیل کرنا چاہے تو مسلمانوں کے کمسن بچے اس کو پکڑ سکتے ہیں ۔

پھر قران کریم کے صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ معانی کی حفاظت کا جو انتظام اللہ تعالی کیطرف سے کیا گیا ہے وہ خود ایک مستقل تاریخ ہے ۔ مثلا مرورایام سے ہر زبان کے الفاظ میں معانی کے اعتبار سے فرق واقع ہوتا رہتا ہے ۔ چنانچہ عبرانی ، سریانی اور کلدانی زبانیں جن میں پچھلی آسمانی کتابیں نازل ہوئی تھیں، رفتہ رفتہ دنیا سے ناپید ہوگئیں یا ان ایسا عظیم تغیر واقع ہوگیا کہ وہ بالکل نئی زبانیں بن گئیں ۔ لیکن قران کی زبان کو اللہ تعالی نے یہ شرف بخشا ہے کہ وہ ہزارہا تغیرات و انقلابات کے باوجود پوری طرح محفوظ ہے اور اگر کوئی شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ قران کریم کا فلاں لفظ اس دور میں کون سی معنی میں استعمال ہوتا تھا تو وہ نہایت آسانی سے معلوم کر سکتا ہے ۔

عربی زبان کو کسی غیر معمولی طریقے پر محفوظ رکھا گیا ہے اس کا ایک معمولی سا اندازہ اس واقعے سے ہوگا کہ یمن کے شہر زرائب کے اوپر عکاد نامی دو پہاڑ تھے ان پہاڑوں کے رہنے والوں نے یہ عہد کیا ہوا تھا کہ وہ اپنی بستی سے باہر کسی بھی شخص سے نہ شادی بیاہ کا تعلق قائم کریں گے نہ دوستی کا ،نا خود کہیں باہر جائیں گے یہاں تک کہ باہر کا کوئی آدمی ان کے یہاں تین دن سے زیادہ قیام بھی نہیں کر سکتا تھا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اگر باہر کے لوگوں سے ہمارا میل جول بڑھا تو ہماری عربی زبان بگڑ جائی گی یہ لوگ اپنے ان اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہے اور مورخین نے لکھا ہے کہ یہ وہ واحد گروہ ہے جسکی عربی زبان ٹھیٹھ زمانہ جاہلیت کی زبان ہے اور اس میں سرمو فرق نہیں آیا ۔

خلاصہ یہ کہ قران کریم نے جو وعدہ فرمایا تھا کہ اللہ کی یہ کتاب ہمیشہ محفوظ رہے گی ‘ اور خود اللہ اسکی حفاظت کرے گا ‘ اسکی صداقت روز بروز روشن ہوتی چلی جاتی ہے ‘ اور یہ پیشگی خبر سو فیصد درست ثابت ہوئی ہے ۔ 

یہاں قران کریم کی تمام پیشگی خبروں کا استیعاب کرنا نہیں ‘ بلکہ صرف چند مثالیں پیش کرنا مقصود تھا اور ان چند مثالوں کی ہی سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قران کریم نے جو پیشگی خبریں دی تھیں وہ ایسے معجزانہ طریقے سے پوری ہوئی ہیں جس میں کسی انسانی کوشش کا کوئی دخل نہیں ۔


( بشکریہ الحاد ڈاٹ کام : حوالہ : علوم القرآن از مفتی تقی عثمانی )