" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
ہمارا سورج ایک ’تنہا خانہ بدوش‘ ہے لیکن کیا اس کا کوئی جڑواں بھائی بھی تھا؟
جیمز ویپ ٹیلیسکوپ کو ایک سال کے دوران کیا کیا نظر آیا ؟
بی بی سی اردو
تاریخ اشاعت : 27 دسمبر 2022ء
یہ دنیا کے لیے 10 ارب ڈالر کا تحفہ تھا، ایسی مشین جو اس کائنات میں ہمیں ہماری حیثیت سے روشناس کروانے والی تھی۔
آج سے ایک برس قبل جیمز ویب سپیس ٹیلیسکوپ (یعنی دسمبر 2021 ء) کرسمس کے موقع پر لانچ کی گئی تھی۔ اس کی منصوبہ بندی، ڈیزائننگ اور تیاری میں تین دہائیاں لگی تھیں۔
![]() |
جیمز ویپ ٹیلیسکوپ کو ایک سال کے دوران کیا کیا نظر آیا ؟ |
کئی لوگوں کو اس حوالے سے خدشات تھے کہ مشہورِ زمانہ ہبل سپیس ٹیلیسکوپ کی جانشین کہلائی جانے والی یہ دوربین کیا واقعی توقعات پر پوری اتر سکے گی۔
ہمیں اس کی لانچ کے بعد کچھ مہینے انتظار کرنا پڑا جس دوران اس کا شاندار ساڑھے چھ میٹر قطر والا شیشہ کھلا اور اس نے خود کو فوکس کیا۔ اس دوران اس کے دیگر سسٹمز بھی ٹیسٹنگ اور کیلیبریشن سے گزرتے رہے۔
مگر پھر یہ بالکل وہی چیز ثابت ہوئی جو کہ کہا جا رہا تھا۔ امریکہ، یورپ اور کینیڈا کے خلائی اداروں نے جولائی میں اس کی پہلی رنگین تصوایر جاری کیں۔
اس صفحے پر آگے موجود تصاویر وہ ہیں جو شاید آپ کی نظر سے نہ گزری ہوں۔
جیمز ویب ٹیلیسکوپ کے بارے میں آپ سب سے پہلے جو چیز نوٹ کریں گے وہ یہ کہ یہ ایک انفراریڈ ٹیلیسکوپ ہے۔ یہ آسمان کو روشنی کی اُن ویو لینتھس (طول الموج) میں بھی دیکھ سکتی ہے جو ہماری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔
ماہرینِ فلکیات اس کے مختلف کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے کائنات کے مختلف حصوں کا جائزہ لیتے ہیں، جیسے کہ گیس اور دھول کے ان بلند و بالا ٹاورز کا۔
عدم سے وجود کا معمہ
عدم سے وجود کا پُراصرار معمہ:
بِگ بینگ یا 'اِنفجارِ کبیر' سے پہلے کیا موجود تھا؟
پہلا مادّہ
ناسا کی دوربین جیمز ویب
22نومبر 2021، بى بى سے اردو
سائنسدانوں کو امید ہے کہ جیمز ویب ٹیلی سکوپ خلا میں ان ستاروں کو ڈھونڈ پائے گی جو ساڑھے 13 ارب سال پہلے کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئے۔
ناسا کے گوڈارڈ سپیس فلائٹ سینٹر کی ماہر فلکیات ڈاکٹر امبر نکول سٹروگن کہتی ہیں کہ ’اس قدر بڑی اور بلند نظر ٹیلی سکوپ کا سب سے دلچسپ پہلو یہ خیال ہے کہ ایسے بہت سے سوال ہیں جن کو پوچھنے کے بارے میں ہم نے ابھی تک سوچا بھی ںہیں۔‘
’یہ خیال کہ ہم کائنات کے بارے میں وہ چیزیں جان سکیں گے جو مکمل طور پر ہمیں حیران کر دیں گی، میرے لیے یہ اس دوربین کا سب سے دلچسپ پہلو ہے۔‘
لیکن یہ کام کیسے کرے گی اور یہ کب تک ممکن ہو گا کہ ہم اس کے ذریعے اصل کہکشاؤں کو دیکھ سکیں گے؟
بڑے فلکیاتی آئینے کا استعمال
جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ مدار میں اب تک بھیجے جانے والے سب سے بڑے فلکیاتی آئینے کا استعمال کرے گی جس کا قطر ساڑھے چھ میٹر ہے۔ یہ فلکیاتی آئینہ اتنا بڑا ہے کہ اسے مکمل طور پر کھلنے میں دو ہفتے تک کا وقت لگے گا۔
جمیز ویب ٹیلی سکوپ امریکی خلائی ادارے ناسا، یورپی خلائی ادارے اور کینیڈین خلائی ادارے کا 10 ارب ڈالر کی لاگت کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کو آریان فائیو راکٹ کے ذریعے فرانسیسی گنی سے زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر دور خلا میں چھوڑا جائے گا۔
زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر کے اپنے مشاہداتی مقام تک پہنچنے کے لیے اس ٹیلی سکوپ کو 30 دن تک سفر کرنا پڑے گا۔
بلیک ہول کی پہلی تصویر
![]() |
بلیک ہول کی پہلی تصویر |
کائنات میں تارے زیادہ یا ساحلوں پر ریت کے ذرے؟
