معیشت و تجارت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
معیشت و تجارت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

عالمی کرنسی وار ( حصہ دوم )

خالد گورایا 

روز نامہ ایکسپریس ، 9 ستمبر 2018 

یاد رہے ایکسپورٹرز اور امپورٹرز اپنا اپنا ’’ذاتی نفع تاجری‘‘ ہر حالت میں حاصل کرتے ہیں چاہے کہ تجارتی خسارہ یا تجارت سرپلس ہوتی ہو ۔ یہ دونوں اشیا کی مہنگائی کا بوجھ عوام کی طرف منتقل کردیتے ہیں۔

اشیا کی لاگتیں بڑھنے کی بنیادی وجہ برطانوی دور غلامی میں برطانوی حکومتی ٹیکس ہوتا تھا ، جو سال میں ایک بار لگتا تھا۔ ملکی بجٹ کے حوالے سے مالی سال 1948-49 کو حکومتی ریونیو 95 کروڑ64 لاکھ روپے تھا اور مالی سال 1955-56 میں ریونیو ایک ارب 27 کروڑ68 لاکھ 6 ہزار روپے تھا ۔ 7 سالوں کے دوران 33.50 فیصد ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا تھا۔

جولائی 1955 کو امریکی حکم پر حکومت نے ملکی کرنسی روپے پر ڈالر ٹیکس Currency Devaluation Minus Economic Development لگادیا تھا جو براہ پورے کی مجموعی معیشت پر لاگو ہوگیا۔ (1)۔ صنعتی کلچر کی لاگتیں اسی CDMED نسبت سے 33.50 فیصد سے بڑھ گئیں جس کے نتیجے میں ملکی صعنتی اشیا مہنگی ہوگئیں اور غیر ملکی اشیا سستی ہوگئیں جس کی وجہ سے امپورٹ بڑھ گئی ۔ ایکسپورٹ کم ہوگئی۔

دراصل برطانیہ درآمدات اور برآمدات پر ٹیکس لگا کر غلام انڈیا کی صنعتیں ختم کرتا تھا۔ امریکا نے براہ راست پورے ملک کی معیشت اور حکمرانوں کو اپنا غلام بنا لیا تھا ۔ یاد رہے کہ امریکی سڈ مڈ جوں جوں ہر حکومت کے دور میں امریکی ادارے آئی ایم ایف کے حکم و شرائط کے ساتھ لگایا جاتا رہا توں توں ملکی صنعتی کلچر ختم ہوتا گیا ۔

بے روزگاری بڑھتی گئی اور ہمارے غریب جوان غیر ملکوں میں جاکر مزدوری کرنے پر مجبور کردیے گئے۔ ان مزدوروں کو غیر ملکوں میں نہایت سستے ڈالروں و دیگر کرنسیوں کے لیے کم سے کم اجرت پر مزدوری یا نوکریاں کرنی پڑیں۔ ذلت آمیزی کے نتیجے میں پاکستان کا وقار آئے روز گرتا گیا۔

عالمی کرنسی وار(حصہ سوم )

خالد گورایا 

رونامہ ایکسپریس ، 12 ستمبر 2018

لیکن برطانوی امراء نے بنگالی ململ کی خریداری بند نہیں کی تو اس پر برطانوی حکومت نے بنگالی کاریگروں کے ہاتھ اور انگلیاں کاٹ دی تھیں اور برطانوی ململ کے غلام ہندوستان میں امپورٹ (داخلے) کے وقت اس پر بہت ہی معمولی ٹیکس رکھا تاکہ برطانوی ململ ہندوستانی ململ سے سستی ہو اور لوگ اس کے سستے ہونے کی وجہ سے ہندوستانی (بنگالی) ململ کے مقابلے میں سستی برطانوی ململ استعمال کریں۔

برطانوی سامراج نے جب پورے ہندوستان پر 1858ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نقاب اتارکر براہ راست تاج برطانی کی حکمرانی قائم کرلی تو انگریزوں نے ایک طرف عوام سے لیا ہوا ٹیکس برطانیہ منتقل کیا دوسرا برطانوی صنعتی کلچر کو غلام انڈیا میں فروغ دیا۔

جن ملکوں کو امریکا نے سڈ مڈ لگا کر معاشی غلام بنا لیا تھا، ان کو آگاہ کرنا ضروری تھا، اس لیے کتاب ’’عالمی عوامی معاشی ازم‘‘ کی اشاعت اپریل 2013ء کے بعد راقم نے مئی 2013ء کو قونصل جنرل Andery V. Demidor اور اتاشی (اٹاچی) Dmitry Bondarenko سے ان کے آفس قونصلیٹ جنرل آف رشین فیڈریشن کراچی کلفٹن میں ملاقات کی اور اپنی کتاب کے صفحے 190-91 پر امریکی صدر ریگن کی ’’ریگن ڈاکٹرائن‘‘ کے فارمولے کا تفصیل سے ذکر دکھایا۔ جس میں امریکی صدر نے سعودی بادشاہ کو آمادہ کیا کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار 2 ملین بیرل سے 9 ملین بیرل تک بڑھا دے۔ اس کے نتیجے میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 30 ڈالر فی بیرل سے گرکر 10 ڈالر فی بیرل تک آگئیں۔
اس طرح 1986ء میں سابقہ سوویت یونین کی معیشت خسارے میں چلی گئی کیونکہ روسی معیشت کا دارومدار تیل کی آمدنی پر تھا۔ امریکا، جنرل ضیا الحق، جنرل حمید گل اور دیگر یورپی و عرب اتحادی 30 دسمبر 1979ء سے 1986ء تک مسلم جہادیوں کو جنگ میں جھونک دینے کے بعد بھی ناکام رہے تھے۔

عالمی کرنسی وار ( حصہ چہارم )

خالد گورایا 

روزنامہ ایکسپریس ، 13 دسمبر 2018

اخباری اطلاع کے مطابق چند روز قبل ترکی نے چین، روس، ایران اور یوکرائن کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد ہی جرمنی چانسلر انجیلا مرکل کا بیان سامنے آیا تھا۔ 17 اگست 2018ء کو روزنامہ ایکسپریس کراچی میں شہ سرخی خبر شایع ہوئی۔ امریکا نے چین اور روس کی متعدد کمپنیوں پر پابندیاں عائد کردیں۔ امریکی محکمہ خزانہ نے شمالی کوریا پر عائد اقتصادی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے پر متعدد روسی اور چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کردیا۔

امریکا پہلی عالمی جنگ میں 16 اپریل 1917ء کو جرمنی کے خلاف شریک ہوا تھا یعنی امریکا 2 سال 8 ماہ 5 دن بعد جنگ شریک ہوا تھا، لیکن اس دوران امریکا یورپی ملکوں کی معاشی تباہی،کرنسی ایکسچنج بحران کا بھرپور مالیاتی ہتھکنڈا استعمال کرکے فائدہ اٹھاتا رہا۔ متحارب ممالک سونے کے معیار سے ہٹ چکے تھے۔ جنگی اخراجات اور جنگ کی وجہ سے اشیا کی قلت اور مہنگائی بڑھ گئی تھی۔

امریکا اپنے سونے کے معیار 20-67 ڈالر فی اونس پرکھڑا تھا۔ یہ معیار 1837ء میں مقرر کیا گیا تھا۔ اسی معیار پر اس نے یورپی ملکوں سے سونا لے کر امریکی اشیا مہنگی فروخت کیں اور فارن ایکسچینج کے لیے امریکی کاغذی ڈالر اپنے سونے کے مقررہ معیار پر سونے کے بدلے فروخت کیے۔ اس طرح امریکا 1914ء سے 1923ء کے دوران پورے یورپ کو ڈالرائز کرچکا۔ یورپی مارکیٹوں میں پونڈ اسٹرلنگ و یورپی کرنسیوں کی جگہ کاغذی ڈالرکا راج تھا۔

کامیابی کیلئے چند اصول

 وارن ایڈورڈ بفٹ
(Warren Edward Buffett)
کامیابی پہلے ہی دن کسی کو نہیں مل جاتی، ہر کامیابی کے پیچھے جہد مسلسل کی ایک طویل داستان ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ناکامی کو اپنی قسمت جان کر ساری عمر اسے کوستے رہنے میں گزار دیتے ہیں اور کچھ اسی ہار کو پتھر مان کر قلعے تعمیر کر دیتے ہیں۔ ہر کامیاب انسان محنت اور جدوجہدکے معنی ومطالب سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے اور یہی دو چیزیں ان کی زندگی کےلیے کچھ اصول متعین کرتی ہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ کامیاب لوگ بااصول اور منظم ہوتے ہیں، جن پر چلتے ہوئے وہ مرحلہ وار پر عزم سفر کو طے کرتے ہیں اور کامیابی کی سند پالیتے ہیں۔ وارن بفٹ، دنیا کی سب سے بڑی ملٹی نیشنل کمپنی تشکیل دینے والے، بیسویں صدی کے سب سے کامیاب سرمایہ کار،انسان دوست شخصیت ،بااثر ترین فرد اور دنیا کے امیر ترین اشخاص میں سے ایک ہیں ۔ وارن بفٹ ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ 

کون جانتا تھا کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں آنکھ کھولنے والا،اسکول بریک میں بچوں میں ٹافیاں اور بسکٹ فروخت کرنے والا یہ بچہ بڑا ہوکر دنیا کا کامیاب سرمایہ کار اور امیر ترین آدمی بن جائے گا۔ وارن بفٹ کی کامیاب زندگی کا اپنا فلسفہ حیات ہے اور اس کے کچھ اصول ہیں، جسے وہ ہر مڈل کلاس،آمدنی میں اضافےکے متلاشی اور خوش حال زندگی گزارنے کے خواہش مند افراد کے لیے بھی وضع کرتے ہیں۔ جو اصول وارن بفٹ کی کاروباری زندگی کا نچوڑ ثابت ہوئےوہ ایک عام شخص کی زندگی میں بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

کفایت شعاری

گزشتہ برس کی ایک رپورٹ کے مطابق وارن بفٹ کے اثاثوں کی کُل مالیت 83ارب ڈالر ہےلیکن اس کے باوجود وارن بفٹ آج بھی اسی گھر میں رہتے ہیں جو انھوں نے1958ء میں31ہزار500ڈالر میں خریدا تھا۔ وارن بفٹ وسائل بڑھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زائد آمدنی کو خرچ کرنے کے بجائےایمرجنسی صورتحال کے لیے محفوظ رکھنا چاہیے۔ جو لوگ کفایت شعاری اپناتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ اپنے کاروبار میں انویسٹ کرسکتے ہیں۔ وارن بفٹ کا کہنا ہے کہ انسان خرچ کرنے کے بعد بچ جانے والے پیسوں کو بچت سمجھتا ہے جبکہ بچت کا اصل تصور تو یہ ہے کہ جو بچت نکالنے کے بعد خرچ کیے جائیں۔

یعنی آں پیغمبرِ بے جبرئیل

بیسویں صدی اگر کسی مفکر کے نام سے منسوب ہو سکتی ہے تو وہ بلا شبہ کارل مارکس ہیں۔کیا اکیسویں صدی میں بھی اسی طرح ان کے افکارکی آب و تاب بر قراررہ سکتی ہے؟

5۔مئی کو دنیا بھر میں مارکس(1818-1883) کا یومِ پیدائش منایاگیا۔زمانی اعتبار سے ان کا تعلق انیسویں صدی سے تھا۔تاہم ان کافکری ظہورصحیح معنوں میں بیسویں صدی میں ہوا۔یہ وہی تھے جن کے افکار نے سرمایہ داری کے خلاف ایک جوابِ دعویٰ ترتیب دیا اور ایک عالم نے اسے قبول کرلیا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اشتراکیت نے سرمایہ داری کو لگام ڈالی ورنہ وسائل کا ارتکازشاید اس سے کہیں بد ترین صورت اختیار کر لیتاجتنا آج دکھائی دیتاہے۔اس لیے مارکس جیسا جلیل القدر مفکر یقیناً یہ استحقاق رکھتا ہے کہ اسے پس ِمرگ بھی یاد کیا جائے ۔

جو لوگ دوسروں کے لیے جیتے اور عزیمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں،وہ عالمِ انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہوتے ہیں۔تاہم کسی کی عظمت کے اعتراف سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم اس کے افکار سے بھی پوری طرح اتفاق رکھتے ہو۔اسی لیے مارکس کی تحسین کے باوجود ،علم کی دنیا میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مارکس ازم اکیسویں صدی میں بھی عالمِ انسانیت کو متبادل فکری ڈھانچہ فراہم کر سکتا ہے؟ 

بیسویں صدی میں ،جب دنیا کے ایک بڑے حصے نے اشتراکیت کوبطورمتبادل نظامِ فکر وریاست قبول کر لیا تواشتراکیت کے نئے مظہر،مارکس ازم، کو یہ موقع ملا کہ وہ عالمِ انسانیت کے لیے اپنی عملی افادیت ثابت کرے۔سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں وہ لوگ برسرِ اقتدار آئے جواس نظامِ فکر کو ایک نظام ِ ریاست میں ڈھالنے کے لیے پُر جوش تھے۔تجربہ سے دنیا نے یہ دریافت کیا کہ یہ جبر کا بدترین نظام ہے جو اشتراکی ریاستوں میں بسنے والوں کا مقدر بنا ہے۔لینن اور سٹالن جیسے لوگوں کے نام ان کی فہرست میں شامل ہوئے جن کے ہاتھ لاکھوں انسانوں کا لہو سے رنگین تھے۔اشترکیت نے جو تصورِ انقلاب دیا،تشدد اس کا جزوِ لاینفک تھا۔

دوسری طرف سرمایہ داری نے چولا بدلا اور خود کو اشتراکی چیلنج کا سامنا کر نے کے لیے تیار کیا۔سرمائے کے ساتھ محنت کی قدر کو کسی حد تک قبول کیا۔فلاحی ریاست کے تصورکو تسلیم کرتے ہوئے، کم ازکم اجرت کا تعین کیا۔جمہوریت کو اختیار کرتے ہوئے،عام آدمی کو مشورے میں شریک کیا اور یوں اس جبر کا خاتمہ کر دیا جو انقلاب کی بنیاد بن سکتا تھا۔مارکسسٹ اسے سرمایہ داری کی ایک چال قرار دیتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ سرمایہ دار نے دراصل غریب طبقات کے ساتھ دھوکہ کیا اور یوں اس انقلاب کے امکانات کو سبو تاژ کیا جو دنیا میں وسائل کی مساوی تقسیم کا نقیب تھا۔

ممکن ہے یہ چال ہو لیکن اس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک کامیاب چال تھی۔اس کے ساتھ جب اشتراکیت بھی کوئی متبادل دینے میں ناکام رہی تو دنیا نے بڑی حد تک سرمایہ داری نظام پر اتفاق کر لیا۔میرا احساس ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں لچک کا ہونا‘ ارتقا کو قبول کر نا اور اس کے ساتھ متبادل کا نہ ہونا ،وہ عوامل ہیں جنہوں نے دنیا کو مجبور کیا کہ وہ سرمایہ داری کو بطور نظام قبول کر لیں۔آج اس امرِ واقعہ سے انکار ممکن نہیں کہ پوری دنیا بالفعل سرمایہ داری پر ایمان لا چکی ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے خمیر میں استحصال شامل ہے۔آج اس نے انسانی ذہانت کو قید کر کے اپنی خدمت پر لگا رکھا ہے۔دنیا کے ذہین ترین لوگ، بالواسطہ یا بلا واسطہ، اس پر مامور ہیں کہ سرمایہ دار کو دولت جمع کرنے کے حربے سکھائیں،اس کے لیے دلائل تراشیں اور اس حیلہ سازی کا معاوضہ پائیں۔علوم کی تشکیل بھی ایسے خطوط پر کی گئی ہے کہ وہ سرمایہ داری کے خدام کا کردار ادا کریں۔اس پس منظر میں عالمِ انسانیت کو یقیناً ایک متبادل کی ضرورت ہے۔یہ متبادل مگر مارکس ازم نہیں ہو سکتا۔

اس کے اسباب متنوع ہیں۔یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے۔صرف اتنی بات کہی جا سکتی ہے کہ مارکس ازم یا اشتراکیت انسانی فطرت سے ہم آہنگ نہیں ہے۔سماجی علوم میں اشتراکیت یا مادیت کے زیرِ اثر جو نظریات پیش کیے گئے اور جن کے تحت انسانی فطرت کی تشکیل کو خارجی اور سماجی عوامل کے تابع ثابت کیاگیا،وہ تاریخ اور عقل کی کسوٹی پر پورا نہیں اترے۔انسانی فطرت آفاقی اصولوں پر قائم ہے۔انسانی رویوں پر خارجی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں مگر فطرتِ انسانی کا جوہر زمان و مکان سے ماورا ہے۔یہی جوہر ہے جس نے نہ تو سرمایہ داری نظام کو پوری طرح قبول کیا اور نہ اشتراکیت کو۔

اس کی ایک معقول وجہ ہے۔سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں اصلاً مادی تصورات ہیں۔یہ انسان کو اوّ ل و آخر ایک مادی وجود قرار دیتے ہیں۔یوں ان کا وظیفہ صرف مادی مطالبات کا جواب فراہم کر نا ہے۔انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک مادی وجود نہیں رکھتا۔اس کا ایک اخلاقی وجود بھی ہے۔اس کے اپنے مطالبات ہیں جو مادی مطالبات کے علاوہ ہیں۔مادیت پر مبنی نظام ہائے فکر اگرچہ اخلاقیات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ اس کی بنیاد بھی مادی وجود میں تلاش کرتے ہیں۔جیسے 'ہیومن ازم ‘پر مبنی نظام ِ اخلاق جو دراصل کسی افادیت پسند (Utilitarianism) تصور پر کھڑا ہے۔انسان کاتاریخی ا ور نفسیاتی مطالعہ ،اس کے بر خلاف یہ بتا تا ہے کہ انسانی اخلاقیات کا ماخذ کہیں اور ہے۔ 

اگر یہ مقدمہ درست ہے تو انسان کو کسی ایسے نظامِ فکر کی ضرورت ہے جواسے مادی ہی نہیں، ایک اخلاقی اور روحانی وجود بھی تسلیم کرتا ہو۔اخلاقی وجود کا استحکام، کسی تصورِ خدا کے بغیر ممکن نہیں۔یہ صلاحیت صرف مذہب میں ہے جوانسان کو ایک 'پورا آدمی‘ تصور کرتے ہوئے،اس کو اپنا مخاطب بناتا ہے۔اسلام مذہب کی جدید ترین،مکمل،سب سے ترقی یافتہ اور آخری شکل ہے۔گویایہی ایک ایسے نظام کی بنیاد بن سکتا ہے جو سرمایہ داری کے عذاب سے انسان کو بچا سکے۔

اگر یہ مقدمہ درست ہے تو اس سے ایک سوال پیدا ہو تا ہے:اہلِ مذہب کو بھی بیسویں صدی میں مواقع ملے۔وہ کیوں کوئی متبادل دینے میں ناکام رہے؟اس کا ایک ہی جواب دیا جا تا ہے کہ وہ مذہب کے خود ساختہ تصورات پر مبنی تجربات تھے۔قصور مذہب کا نہیں، تفہیمِ مذہب کا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ یہی عذر ہے جو مارکس ازم کے علم بردار بھی پیش کرتے ہیں۔وہ لینن یا سٹالن کو مارکس ازم کاحقیقی نمائندہ نہیں سمجھتے۔ان کے خیال میں مارکس کے افکار ہنوز کسی تجربہ گاہ کی تلاش میں ہیں۔

علم کی دنیا میں یہ بحث جاری رہے گی۔میرے نزدیک انسان کی فطرت سے ہم آہنگ نظام ِ فکر وہی ہے جو پیغمبروں کا تجویز کردہ ہے۔انسان اپنی عقل سے جو سوچ سکتا تھا،اس کے حیران کن مظاہر ہمارے سامنے ہیں۔جدید سیاسی افکار اور ریاستی تجربات بھی اس کی مثال ہیں۔ان کے بہت سے پہلو انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہیں جن کی وجہ سے ان کی عالمگیر پزیرائی ہوئی ہے جیسے جمہوریت۔اگر ان میں انسان کے اخلاقی وجود کا اثبات شامل ہوجائے تو یہ انسانی دکھوں کا مداوا کر سکتے ہیں۔جس طرح علامہ اقبال نے 'روحانی جمہوریت‘ کی بات کی تھی۔اگر چہ خود انہوں نے اس تصور کی وضاحت نہیں کی لیکن ان کے علمی کام سے جو مفہوم اخذ ہوتا ہے،وہ یہی ہے کہ جمہوریت میں اگر انسانوں کے سامنے جواب دہی کے ساتھ، خدا کے حضور میں جواب دہی کا احساس شامل ہو جائے تواس سے ایک پرامن معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے۔

مارکس ازم سے اختلاف کے باوجود،مارکس کی عظمت کا اعتراف ،میں اپنے لیے واجب سمجھتا ہوں۔برسوں پہلے ،اقبال نے ہم جیسے لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایاتھا: 
صاحبِ سرمایہ از نسلِ خلیل
یعنی آں پیغمبرِ بے جبرئیل


(خورشید ندیم ، کالم نگار روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت،  7 مئی 2018 ) 

سرمایہ کیا ہے ؟



لیوہیوبرمین
سرمایہ داری نظام کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’’سرمایہ‘‘ کیا ہوتا ہے۔ 

عام طور پر لوگ سرمایہ اور دولت کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں، لیکن معاشیات کی سائنس میں ایسا نہیں ہے۔  اس کو سمجھنے کے لیے روزمرہ کی زندگی سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ 

فرض کیجیے سینما ہاؤس کے باہر دو دوست فلم کے ٹکٹ خریدنے کے لیے ایک قطار میں کھڑے ہیں ایک دوست دوسرے سے کہتا ہے کہ تم میرے لیے دو ٹکٹ خرید لو اور ایک اپنے لیے۔ 

وہ اس کو ان تینوں ٹکٹوں کے پیسے دیتا ہے اور خود بھی قطار میں کھڑے ہو کر تین ٹکٹ خرید لیتا ہے۔ اس طرح اس کے پاس تین اپنے اور دوٹکٹ جو اس نے اپنے دوست کے ذریعے خریدے، کل پانچ ٹکٹ ہو گئے۔
 
ایک اس نے اپنے لیے رکھ لیا لیکن فلم شروع ہونے سے پہلے اس نے چار ٹکٹ آواز لگا کر منافع پر یا بلیک میں فروخت کر دیے۔ 
اس طرح اس کے پاس جو رقم تھی وہ سرمایہ میں تبدیل ہوگئی۔ دولت یا روپیہ اس وقت سرمایہ بنتا ہے جب اس سے کوئی چیز نفع کمانے کی غرض سے خریدی جاتی ہے۔ 

اس شخص نے سینما کے ٹکٹ منافع کمانے کی غرض سے خریدے تھے اس لیے جو روپیہ اس میں لگایا (جس میں خوداس کے اور اس کے دوست کے ٹکٹ کی قیمت بھی شامل ہے) وہ سرمایہ تھا۔ اسی طرح جب کسان کپاس کی فصل بیچتا ہے اور اس آمدنی سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرتا ہے تو یہ آمدنی سرمایہ نہیں ہوتی۔ 

لیکن مل والے کے لیے وہی روپیہ جو اس نے کسان کو دیا سرمایہ ہے کیونکہ وہ کپاس سے دھاگہ بنا کر منافع کمائے گا۔


(روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت : 28 مارچ 2018)