لیوہیوبرمین
سرمایہ داری نظام کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’’سرمایہ‘‘ کیا ہوتا ہے۔
عام طور پر لوگ سرمایہ اور دولت کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں، لیکن معاشیات کی سائنس میں ایسا نہیں ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے روزمرہ کی زندگی سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔
فرض کیجیے سینما ہاؤس کے باہر دو دوست فلم کے ٹکٹ خریدنے کے لیے ایک قطار میں کھڑے ہیں ایک دوست دوسرے سے کہتا ہے کہ تم میرے لیے دو ٹکٹ خرید لو اور ایک اپنے لیے۔
وہ اس کو ان تینوں ٹکٹوں کے پیسے دیتا ہے اور خود بھی قطار میں کھڑے ہو کر تین ٹکٹ خرید لیتا ہے۔ اس طرح اس کے پاس تین اپنے اور دوٹکٹ جو اس نے اپنے دوست کے ذریعے خریدے، کل پانچ ٹکٹ ہو گئے۔
ایک اس نے اپنے لیے رکھ لیا لیکن فلم شروع ہونے سے پہلے اس نے چار ٹکٹ آواز لگا کر منافع پر یا بلیک میں فروخت کر دیے۔
اس طرح اس کے پاس جو رقم تھی وہ سرمایہ میں تبدیل ہوگئی۔ دولت یا روپیہ اس وقت سرمایہ بنتا ہے جب اس سے کوئی چیز نفع کمانے کی غرض سے خریدی جاتی ہے۔
اس شخص نے سینما کے ٹکٹ منافع کمانے کی غرض سے خریدے تھے اس لیے جو روپیہ اس میں لگایا (جس میں خوداس کے اور اس کے دوست کے ٹکٹ کی قیمت بھی شامل ہے) وہ سرمایہ تھا۔ اسی طرح جب کسان کپاس کی فصل بیچتا ہے اور اس آمدنی سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرتا ہے تو یہ آمدنی سرمایہ نہیں ہوتی۔
لیکن مل والے کے لیے وہی روپیہ جو اس نے کسان کو دیا سرمایہ ہے کیونکہ وہ کپاس سے دھاگہ بنا کر منافع کمائے گا۔
(روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت : 28 مارچ 2018)