پاکستان کے مسائل اور ان کا حل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پاکستان کے مسائل اور ان کا حل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پاکستان الیکشن 2018ء پر ایک دلچسپ تبصرہ

ایاز امیر 

کالم کا اصل عنوان : ہلا کے رکھ دیا

روزنامہ دنیا،  تاریخ اشاعت : 28 جولائی 2018 ء 

صحیح زلزلہ تو 1970ء کا انتخاب لے کر آیا تھا۔ سات دسمبر کی شام جب نتائج آنے لگے تو یوں لگا کہ سب کچھ اُلٹ پُلٹ ہو گیا ہے۔ بڑے بڑے ناموں اور برجوں‘ جن کے بارے میں خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ہاریں گے، کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اُتنے بڑے پیمانے پہ نہ سہی لیکن اِن انتخابات میں بھی بہت سارے جھٹکے لگے اور بڑے بڑے نام اُڑ کے رہ گئے۔ 

شاہد خاقان عباسی کا مری سے ہار جانا ، بلاول بھٹو کا لیاری میں ہارنا، مولانا فضل الرحمان کا اپنے دونوں حلقوں میں پٹ جانا۔ اس الیکشن کے کمالات میں ہمیشہ یاد رہیں گے۔ چوہدری نثار علی خان پہ ہنسی آتی ہے۔ کتنی اکڑ تھی‘ لیکن اِن انتخابات میں ساری خاک میں مل گئی۔ قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں کے علاوہ صوبائی سیٹ سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ الیکشن سے پہلے کیسی کیسی ان کی پریس کانفرنسیں ٹی وی پہ دکھائی جاتی تھیں۔ مہینوں اُن کا قبضہ پنجاب ہاؤس اسلام آباد پر برقرار رہا اور وہیں یہ پریس کانفرنسیں منعقد ہوتیں ۔ میڈیا کا بھی قصور نہیں ۔ اکثر غلط اندازے لگائے جاتے ہیں اور اِنہی کی بدولت نثار علی خان کو قومی لیول کا لیڈر سمجھا جانے لگے۔ اب حساب برابر ہو گیا ہے۔ 

پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ کیا ہے؟

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


سوال : آپ کے نزدیک اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ کیا ہے اور اسے کس طرح حل کیا جاسکتا ہے؟

جواب :میرے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تقریباً وہی ہے جو تمام مسلم ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ لیڈرشپ آخرکار اسلام کو ماننے، سمجھنے اور اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کرنے والوں کے ہاتھ میں آتی ہے ، یا ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ رہتی ہے جو اسلام کا نام لیتے ہوئے یا کھلم کھلا اس کی مخالفت کرتے ہوئے، اپنی قوم کو بگٹٹ غیراسلامی راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر مستقبل قریب میں اس مسئلے کا فیصلہ پہلی صورت کے حق میں نہ ہوا، تو مجھے اندیشہ ہے کہ سارے مسلم ممالک سخت تباہی سے دوچار ہوں گے۔

پاکستان اسلام کی نعمتوں سے محروم کیوں ہے ؟

جماعت اسلامی کے نزدیک پاکستان میں دراصل کسر اس چیز کی نہیں ہے کہ یہاں خدا اور آخرت اور رسالت کے ماننے والوں کی کمی ہے، بلکہ کمی اس چیز کی ہے کہ جس حق کو یہاں کے باشندوں کی اکثریت مانتی ہے وہ عملاً نافذ ہو، اور اسی پر ہمارے ملک کا پورا نظامِ زندگی قائم ہو۔ یہ کوئی معمولی کسر نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی کسر ہے، کیوں کہ اسی کی وجہ سے ہمارا یہ ملک ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود نہ اسلام کی نعمتوں اور برکتوں سے خود فائدہ اُٹھا رہا ہے، نہ دُنیا کے لیے اسلام کی حقانیت کا گواہ بن رہا ہے۔ اور یہ کسر اس لحاظ سے بھی کوئی ہلکی کسر نہیں ہے کہ اسے پورا کر دینا آسان ہو۔ اس کی پشت پر بہت سے طاقت ور اسباب ہیں، جنھیں سخت جدوجہد ہی کے بعد دُور کیا جاسکتا ہے:

  •  ایک طرف ہمارے عوام کی اسلام سے ناواقفیت ہے، جس کی وجہ سے وہ اس دین کے عقیدت مند ہونے کے باوجود اس کی صحیح پیروی سے قاصر ہورہے ہیں۔ 

  •  دوسری طرف ہمارے اندر بہت سے ایسے مانع اصلاح عناصر کی موجودگی ہے، جو اپنے تعصبات کی وجہ سے یا اپنی اغراض کی خاطر مختلف پرانی یا نئی جاہلیتوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور خالص اسلام کے قیام کی راہ روک رہے ہیں۔

  •  تیسری طرف ہمارا ماضی قریب ہے جو ہمیں اس حال میں چھوڑ گیا ہے کہ انگریزی اقتدار نے اپنی تعلیم سے، اپنےتہذیبی و تمدنی اثرات سے، اپنے قوانین سے، اپنے معاشی نظام سے، اور اپنی انتظامی پالیسی سے ہماری زندگی کے ہرشعبے کو غیراسلامی سانچوں میں ڈھال دیا ہے، حتیٰ کہ ہمارے مذہبی عقائد اور ہمارے اخلاق تک کی جڑیں ہلا کررکھ دی ہیں۔

  • ان سب پر مزید یہ کہ انگریز کے رخصت ہو جانے کے بعد جن لوگوں کے ہاتھ میں ہماری قومی زندگی کی باگیں آئی ہیں، اور جن کو اس نوخیز ریاست کی تعمیروتشکیل کے اختیارات ملے ہیں، وہ اگرچہ اسلام ہی کا نام لے کر برسرِاقتدار آئے ہیں، اسلامی دستور کا حلف لے کر ہی حکومت کی کرسیوں پر بیٹھے ہیں، اور دعویٰ یہی کرتے ہیں کہ ہم یہاں اسلام کے مطابق کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن نہ تو وہ اسلام کو جانتے ہیں ، نہ ان کی اپنی زندگیاں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ وہ اسلام کے طریقے پر خود عامل ہیں، اور نہ ان کا اب تک کا طرزِعمل یہ اُمید دلاتاہے کہ ان کے ہاتھوں یہ ملک کبھی فرنگیت کے راستے سے ہٹ کر اسلام کے راستے پر چل سکے گا۔

یہ ہیں وہ بڑے بڑے بنیادی اسباب، جن کی وجہ سے پاکستان میں اس کسر کو پورا کر دینا کوئی آسان کام نہیں ہے کہ یہاں کے باشندوں کی اکثریت جس چیز کو حق جانتی اور مانتی ہے، وہ یہاں عملاً نافذ ہو اور اسی پر یہاں کا پورا نظامِ زندگی قائم ہو۔



([سیّدابوالاعلیٰ مودودی] ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۵۰، عدد۳، رمضان ۱۳۷۷ھ/ جون ۱۹۵۸ء،ص ۱۸-۱۹)

( اشاعت مکرر ، ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، جون 2018)

کیا مذھب کاروبار ہے ؟

میڈیا نے مذہب کی خدمت کی ہے یا اسے بازیچۂ اطفال بنادیا ہے؟ 

ایک سرمایہ دارانہ نظام میں میڈیا کے کردار کو سمجھے بغیر،اس سوال کا جواب نہیں مل سکتا۔سرمایہ داری کا صرف ایک مذہب ہے: سرمایہ۔یہی فاتح ِعالم ہے اور یہی بادشاہ گر۔ ہر اخلاقی قدر اس کے لیے بے معنی ہے،اگر اس کے ساتھ کوئی مادی فائدہ وابستہ نہیں۔ اس کی بقا اس میں ہے کہ سرمایے میں مسلسل اضافہ ہو تا رہے۔ اس کے لیے اسے دست و بازو کی ضرورت ہے۔ آلات درکار ہیں۔ میڈیا بھی ایسا ہی ایک آلہ ہے۔

سرمایہ ہر اس چیز کا مخالف ہے جو اس کی بڑھوتی میں مانع ہو۔ مثال کے طورپر مذہب۔ مثال کے طور پر وطن۔ مذہب اخلاقی قیود عائد کرتا ہے۔ یہ قیود سرمایے کی بے لگام دوڑمیں رکارٹ بنتی ہیں۔ یوں مذہب اس کا معاون نہیں ہو سکتا۔ وطن بھی جغرافیائی حدود کا تعین کر تا ہے۔ سرمایہ چاہتا کہ سرحدیںاس کی رسائی کو محدود نہ کریں۔ اس طرح اسے سرحدوں کی پابندی بھی قبول نہیں۔ 

انسان کا شاکلہ مگر ایسا ہے کہ وہ مذہب اور وطن کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ مذہب اس کے اخلاقی وجود کا مطالبہ ہے ا ور وطن مادی بقا کا۔ سرمائے نے ان بنیادوں کو متزلزل ضرور کیا ہے مگرانہیں ڈھا نہیں سکا۔ اس نے ان کے لیے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس نے ان تصورات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ سادہ لفظوں میں مذہب اور وطن سے وابستہ جذبات کو جنسِ بازار بنا دیا۔

وطن کے معاملے میں اس نے ایک حل تلاش کیا۔قومی ریاست کے وجود کو باقی رکھتے ہوئے، عالمگیریت کا تصور دیا اور یوں سرمایے کے لیے ان سرحدوں کو بے معنی بنا دیا۔ یا پھر وطن کو لوکل مارکیٹ کے حوالے سے دیکھا۔ مذہب کے باب میں دو کام کیے گئے۔ میڈیا کے آلے کو استعمال کرتے ہوئے، ایک تو اس نے مذہب کو انفوٹینمنٹ کاشعبہ بنا دیا۔اب مذہبی پروگراموں کواس طرح ڈیزائن کیا گیا جیسے انٹر ٹینمنٹ کا کوئی پروگرام ہو تا ہے۔زرق برق لباس اور خواتین کو لازماً اس کا حصہ بنایا گیا۔ بات مزید آگے بڑھی تومذہبی پروگرام براہِ راست فلم اور ٹی وی اداکاروں کے حوالے کرد یے گئے۔
 
سالوں پہلے میں نے ایک مقبول ٹی وی چینل پر ایک علمی و مذہبی پروگرام کی میزبانی کا آغاز کیا۔ ایک دو پروگرام نشر ہوئے تو مجھے چینل کے مالک کا فون آیا۔ انہوں نے پروگرام کومقبول بنانے کے لیے مشورے دیے۔ مثال کے طور پر پروگرام میںمیری آنکھیں مسکرانی چاہئیں وغیرہ۔ سادہ لفظوں میںمجھے ایک بھرپور اداکار ہو نا چاہیے۔ انہوں نے مجھے ایک میزبان آن لائن کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ مجھے ان کو سامنے رکھنا چاہیے۔

میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ سب کچھ میرے بس میں نہیں۔ایک تو مذہب میرے لیے ایک سنجیدہ معاملہ ہے ۔دوسرا یہ کہ طبعاً میں کوئی مصنوعی لبادہ نہیں اوڑھ سکتا۔میں جیسا ہوں ویسا ہی دکھائی بھی دوں گا۔ یہ درست ہے کہ ہر میڈیم کے اپنے تقاضے ہیں اور میں انہیں پورا کرنے کی کوشش کروں گا‘ لیکن ایک حد تک۔ اس کے لیے میں اپنی فطری شخصیت قربان نہیں کر سکتا۔ میں ویسا ہی پروگرام کرتا رہا جیسے پہلے کر رہا تھا۔ اس تجربے سے مجھ پر واضح ہوا کہ میڈیا مذہبی پروگراموں کو کس زاویے سے دیکھتا ہے۔ میں ان کے حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ باوجود مخالفت کے، یہ پروگرام کم وبیش پانچ سال تک جاری رہااور انہوں نے مجھ سے دوبارہ اس طرح کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔تاہم،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ یا کوئی اور چینل ،اس کے بعد اس طرز کا پروگرام شروع کر نے کا حوصلہ نہیں کر سکا۔

مذہبی پروگراموں کے ساتھ دوسرا معاملہ یہ ہوا کہ انہیں سیاسی ٹاک شوز کی طرز پر ڈیزائن کیا گیا۔ جس طرح اہلِ سیاست کے اختلافات کو ابھار کر ریٹنگ لی گئی، اسی طرح مذہبی و مسلکی اختلافات کو بھی نمایاں کیا گیا۔ جس پروگرام پر اب پیمرا کو ایکشن لینا پڑا اس میں بھی یہی ہوا۔ حیات و ممات کا مسئلہ نیا نہیں۔اس پربلا مبالغہ بیسیوں کتابیں لکھی گئیں۔ اسے ایک علمی اختلاف مانا گیا۔ اس اختلاف کی بنیاد پر کبھی کسی کو دائرہ اسلام سے نہیں نکالا گیا۔ پیشہ ور واعظین کا معاملہ البتہ دوسرا ہے۔

ٹی پروگراموں میں ان اختلافات کو ابھارنے کے لیے ان لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے جن کا کام ہی مسلکی بنیادوں پر معاشرے کو تقسیم کر ناہے۔ سماج میں جن کی دینی خدمت یہی ہے کہ انہوں نے مسلکی اختلافات کو کفر و اسلام کا مسئلہ بنا کر پیش کیا۔ ہر مسلک میں دوطرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ایک وہ جو اپنی بات سنجیدگی اور دلیل سے کہتے اور دوسروں کے بارے میں فتوے کی زبان میں گفتگو نہیں کرتے۔ دوسرے وہ جو مناظرہ باز ہیں اور لوگوں کے مذہبی جذبا ت کو ابھار کر فرع کو اصل بناتے اور یوں مذہب کے نام پر فتنہ برپا کرتے ہیں۔ ٹی وی چینلز کے مذہبی پروگراموں میں دوسری طرز کے لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔

میڈیا جب تک سرمایے کے کھیل کا ایک حصہ ہے، اس کے لیے مذہب کی یہ حیثیت کہ وہ جنسِ بازار ہے، تبدیل نہیں ہو سکتی۔وہ مذہبی پروگرام اس لیے پیش نہیں کرتا کہ اسے لوگوں کے اخلاقی وجود کی سلامتی سے کوئی دلچسپی ہے۔ وہ یہ پروگرام اس لیے دکھاتا ہے کہ پاکستان ایک مذہبی معاشرہ ہے اور یہاں مذہبی پروگراموں کے ناظر موجود ہیں۔ وہ مذہب کے زاویے سے نہیں ،ناظرین یعنی مارکیٹ کے حوالے سے دیکھتا ہے۔ چونکہ ہم ایک سرمایہ دارانہ نظام میں زندہ ہیں،اس لیے جب اس کے خلاف اقدام ہوتا ہے،اس نظام کے دوسرے ادارے اس کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ان کے خلاف فیصلہ دیا۔یہ فیصلہ ایک دن بھی نافذ نہ ہو سکا۔

یہاں میں 'دنیا‘ ٹی وی کے ا ستثنا کا ذکر کروں گا۔اس چینل پر دو مذہبی پروگرام ہو رہے ہیں۔ایک محترم جاوید احمدصاحب غامدی کا 'علم و حکمت‘اوردوسرا 'پیامِ صبح‘۔اب جاوید صاحب کی شائستگی اور متانت میں کس کو کلام ہو گا۔انیق احمد صاحب بھی مذہب کے تقدس اور سنجیدگی کو مجروح نہیں ہونے دیتے۔ان پروگراموں میں پیش کی جانے والی آرا سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان سے کسی فتنے کے پیدا ہونے کا احتمال نہیں۔فتنہ اختلافِ رائے سے نہیں رویے سے جنم لیتاہے کہ آپ اختلاف کو کس پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔

یہ مثال بتاتی ہے کہ اگر میڈیا کاکوئی ادارہ چاہے تو مذہب کو جنسِ بازار بنانے سے روک سکتا ہے۔یہ تو ممکن نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک حصہ ہوتے ہوئے،اس کی قلبِ ماہیت ہو جائے اور وہ دعوت و اصلاح کا ایک ادارہ بن جائے لیکن کم ازکم یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر فتنہ برپا کر نے کا سبب نہ بنے۔میڈیا کے ذمہ داروں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر،اس باب میں جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے،وہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہیں۔آخراپنے کاروباری مفادات کے لیے کوئی ادارہ یا فرد سماج کی زندگی سے کیسے بے نیاز ہو سکتا ہے؟ 

حل ایک ہی ہے۔ہر چینل کرنٹ افیئرز اور نیوز کی طرح مذہبی افیئرز کاشعبہ قائم کرے اور اس کی ذمہ داری کسی ایسے فرد کو سونپے جو مذہب کو جانتا ہو، بالخصوص سماجیاتِ مذہب کو۔وہی مذہبی پروگرام ترتیب دینے کا ذمہ دار ہو۔اسی طرح رمضان وغیرہ میں گھنٹوں رمضان کے نام پر کاروبار نہ کیا جائے۔کاروبار کو کاروبار ہی کی طرح کریں۔البتہ دو گھنٹے مذہب کے لیے وقف کریں اور اس وقت کو مذہب کی نظر سے دیکھیں ،سرمایہ کی نگاہ سے نہیں۔اب جو رمضان نشریات ہوتی ہیں،ان کا مذہب سے کیا تعلق ہے؟

بعض لوگ اس سے بڑھ کرمذہب کی کوئی خدمت نہیں کر سکتے کہ وہ مذہب سے دور رہیں۔ٹی و ی چینلز کو اس باب میں ان کی مدد کر نی چاہیے اورانہیں مذہبی پروگراموں سے دور رکھنا چاہیے۔ اگر چینلزخودیہ کام کرگزریں تو پھر پیمرا کو پابندی لگانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

( خورشید ندیم ، کالم نگار روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت 29 مئی 2018 )

نظم اجتماعی کا قیام اور آئین کی دفعہ 63،62

نظمِ اجتماعی کی اقامت، ضروریاتِ زندگی میں سے ہے۔ جس طرح پانی کے بغیر فرد کی بقا ممکن نہیں، اسی طرح کسی حکومت کے بغیر سماجی بقا ممکن نہیں۔ اسی لیے نظمِ اجتماعی کے قیام کو ہر بات پر مقدم رکھا گیا ہے۔
اہلِ اسلام پر وہ حادثہ بیت گیا جس کا خیال ہی ان کے لیے سوہانِ روح تھا۔ رسالت مآبﷺ زمینی رفقا کو چھوڑ کر، اپنے رفیقِ اعلیٰ کی جانب روانہ ہوئے تو صحابہ کو یوں لگا کہ زندگی تھم گئی ہے۔ عمر ابن خطاب جیسے بلند حوصلہ کا دل بیٹھنے لگا۔ جن کو مگر اللہ کے آخری رسولﷺ کا نائب بننا تھا، انہیں اللہ نے ہمت دی۔ انہوں نے اپنے آپ کو تھاما۔ ان کی آواز بلند ہوئی تو بے چین دلوں کو جیسے قرار آنے لگا: ''تم میں سے جو محمدﷺ کی عبادت کرتے تھے، وہ جان لیں کہ آپ دنیا سے رخصت ہوئے‘ جو اللہ کی عبادت کرتا ہے، وہ جان لے کہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا...‘‘۔

معلوم ہوا کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں نئی حکومت کا سوال اٹھ گیا ہے۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ جیسا صاحبِ بصیرت جانتا تھا کہ اگر یہ مسئلہ بگڑ گیا تو امتِ محمدﷺ میں وہ انتشار پیدا ہو جائے گا کہ سب کچھ بکھر جائے گا۔ ابھی رسالت مآبﷺ کی تدفین نہیں ہوئی تھی۔ اللہ کی امانت، ام المومنین سیدہ عائشہؓ اور سیدنا علی ؓ کے سپرد ہوئی اور صدیقِ اکبرؓ، فاروقِ اعظمؓ کے ساتھ رسول اللہ کی امانت کے تحفظ کے لیے دوڑ پڑے۔ یہ امانت امتِ مسلمہ تھی۔ اس کی بقا اتنی اہم تھی کہ اسے تدفینِ پیغمبر پر مقدم رکھا گیا۔ یہ ابو بکر صدیقؓ جیسی جلیل القدر شخصیات کی دور بینی تھی جس نے اس امت کو مجتمع رکھا۔

اللہ کا دین فطرتِ سلیم پر کھڑا ہے۔ اب صدیوں کا تہذیبی تجربہ بطور دلیل اس کی پشت پر کھڑا ہے۔ تجربہ یہ ہے کہ نظمِ اجتماعی ایک سماج کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہ دیگر سماجی ضروریات پر مقدم ہے۔ لازم ہے کہ سب سے پہلے اس کا اہتمام ہو۔ تجربے نے یہ بھی بتا دیا کہ محض نظمِ اجتماعی کافی نہیں ہے۔ اس نظم کا مضبوط ہونا بھی ضروری ہے۔ مضبوط نظم وہی ہوتا ہے جسے وسیع پیمانے پر عوامی اعتماد حاصل ہو۔ نظمِ اجتماعی کی مضبوطی اس پر منحصر نہیں کہ حکمران نیک ہے یا برا۔ اس کی مضبوطی کا انحصار اس پر ہے کہ اسے عوامی اعتماد حاصل ہے یا نہیں۔

سقیفہ بنی ساعدہ میں جب حقِ حکمرانی کا سوال اٹھا تو قریش کے حق میں فیصلہ ہوا۔ اس کی دلیل یہ نہیں دی گئی کہ وہ انصار سے زیادہ نیک یا متقی ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ لوگ ان کے پیچھے چلتے ہیں۔ گویا ان کی قیادت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس دلیل کو سب نے تسلیم کیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ صدیق کے حق میں اور بہت سے دلائل موجود تھے‘ لیکن جسے اصول کی حیثیت حاصل ہوئی، وہ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کا یہ فرمان تھا کہ 'الائمہ من القریش‘... لیڈر قریش میں سے ہوں گے۔

اسلام اور انسانی تجربات پر مبنی افکار، دونوں اس پر متفق ہیں کہ نظمِ اجتماعی کا قیام لازم ہے اور یہ کہ حکمرانی کا اصل حق دار وہ ہے جسے عوام کا اعتماد حاصل ہے۔ سیدنا عمرؓ نے سقیفہ بنی ساعدہ میں ہونے والے فیصلے کو مزید موکد کرتے ہوئے، اس بات کے بارے میں ہر ابہام کا خاتمہ کر دیا۔ آخری حج کے موقع پر، آپ تک کسی کی یہ بات پہنچی کہ اگر حضرت عمرؓ کا انتقال ہوا تو میں فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا۔ آخر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی بیعت بھی ایسے ہی ہوئی تھی اور وہ کامیاب ہو گئی تھی۔ سیدنا عمر ؓ نے سنا تو اسے ایک غلط فہمی قرار دیا اور یہ کہا کہ میں مدینہ پہنچ کر اس کا ازالہ کروں گا۔

حضرت عمرؓ نے مدینہ پہنچ کر ایک تقریر کی۔ یہ بخاری میں نقل ہوئی ہے۔ مولانا مودودی نے اس کا ترجمہ کیا ہے: ''اگر میں ایسا نہ کرتا اور خلافت کا تصفیہ کیے بغیر ہم لوگ مجلس سے اٹھ جاتے تو اندیشہ تھا کہ راتوں رات لوگ کہیں کوئی غلط فیصلہ نہ کر بیٹھیں اور ہمارے لیے اس پر راضی ہونا بھی مشکل ہو اور بدلنا بھی مشکل۔ یہ فعل اگر کامیاب ہوا تو آئندہ کے لیے نظیر نہیں بنایا جا سکتا۔ تم میں ابو بکرؓ جیسی بلند و بالا اور مقبول شخصیت کا آدمی اور کون ہے؟ اب اگر کوئی شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی کے ہاتھ پر بیعت کرے گا تو وہ اور جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی‘ دونوں اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کریں گے۔‘‘ اسی لیے مولانا خلافتِ راشدہ کو 'انتخابی خلافت‘ قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کا کہنا بھی یہی تھا کہ قرآن مجید سے ہمیں نظمِ اجتماعی کا جو اصول ملتا ہے وہ الیکشن ہے۔

اسلام سمیت دنیا کے ہر نظامِ فکر میں حکمرانوں کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ یہ اوصاف نظامِ اجتماعی کے قیام کی نہیں، اس کی کامیابی اور نتیجہ خیزی کی ضرورت ہیں۔ قیام کی ضرورت اور کامیابی کی ضرورت دونوں میں فرق ہے۔ قیام کی ضرورت سے مراد یہ ہے کہ اس کے بغیر نظمِ اجتماعی کا وجود جائز نہیں۔ کامیابی کی ضرورت یہ ہے کہ اس کے بغیر مطلوب نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔

اس بات کو اقامتِ صلوٰۃ کی مثال سے مزید واضح کیا جا سکتا ہے۔ بدن کی طہارت اور وضو ضروریاتِ نماز میں سے ہیں۔ اگر بدن ناپاک ہے یا وضو نہیں ہے تو نماز نہیں ہو گی۔ خشوع و خضوع نماز کے معیاری ہونے کے لیے ضروری ہے۔ اس میں کمی رہ گئی تو نماز ہو جائے گی مگر ظاہر ہے کہ مطلوبہ معیار حاصل نہیں ہو گا۔ اب اگر خشوع و خضوع تو ہو لیکن وضو نہ ہو تو نماز نہیں ہو گی۔ بالکل ایسے ہی حکمران نیک ہو لیکن اسے لوگوں کا اعتماد حاصل نہ ہو تو اس کا اقتدار جائز نہیں ہو گا۔

ہمارے سیاسی و صحافی حلقوں میں جب حکمرانوں کے انتخاب کی بات ہوتی ہے تو اس فرق کو سامنے نہیں رکھا جاتا کہ کس بات کا تعلق ضروریات سے ہے اور کس کا مطالبات سے۔ اس فرق کو نظر انداز کرنے سے وہ بحث پیدا ہوئی جس کا تعلق آئین کی دفعہ 62 اور 63 سے ہے یا لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے ہے جس میں ان انتخابی اصلاحات کو کالعدم قرار دیا گیا جن میں امیدوار کی اہلیت کو بیان کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اب ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا ہے۔
اس فیصلے کی حکمت واضح ہے۔ عوام کی رائے سے نظمِ اجتماعی کا قیام، اجتماعی زندگی کو مستحکم رکھنے کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے قیام کو اس بنیاد پر مؤخر نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے پاس مطلوبہ اوصاف کے لوگ موجود نہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ نماز کا وقت ہو چلا ہو اور ہمارے پاس مطلوبہ اوصاف کا امام موجود نہ ہو۔ اب جس طرح امام کے انتظار میں قیامِ صلوٰۃ کو موخر نہیں کیا جا سکتا اسی طرح مطلوبہ اوصاف کے حامل افراد کے نہ ہونے سے امامتِ کبریٰ کے قیام کو بھی موخر نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی یہ جائز ہے کہ چند افراد جسے نیک اور صالح کہیں اسے حکمران بنا دیں اور اس کو نظر انداز کر دیں کہ اسے عوام کا اعتماد حاصل ہے یا نہیں۔ہمارے اہلِ دانش بنیادی ضرورت کو غیر ضروری بلکہ خلافِ اسلام سمجھتے ہیں اور اضافی ضرورت کو بنیادی۔

ایک مستحکم سیاسی نظام ہماری اجتماعی سلامتی اور بقا کے لیے ضروری ہے۔ یہ نظام اسی وقت میسر آ سکتا جب بروقت اور شفاف انتخابات ہوں اور اقتدار اسے ملے جسے عوام کی اکثریت اس منصب پر دیکھنا چاہتی ہے۔ ہمیں یہ کوشش جاری رکھنی چاہیے کہ جو لوگ اقتدار تک پہنچیں، ان میں وہ اوصاف موجود ہوں جو ایک کامیاب حکومت کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے لیے قانون بنایا جا سکتا لیکن اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ عوام کی شعوری تربیت کی جائے تاکہ وہ بہتر لوگوں کا انتخاب کریں۔

(خورشید ندیم ، کالم نگار روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت 4جون 2018)

پھانسی کے سائے میں لکھے مضامین

مارچ 1922ء میں جب گاندھی کو ہندوستان میں تحریک عدم تعاون کے قائد کی حیثیت سے گرفتارکیا گیا تو اس نے وکیل کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس نے اقبال جرم کرتے ہوئے جج کو ایک قابل اعتراض مواد کا بھی پتہ بتا دیا جسے نظر انداز کردیا گیا تھا، جب گاندھی نے عدالت میں بتایا کہ اس نے وفاداری و تعاون چھوڑ کر انحراف کی راہ کیوں اپنائی تو یہ مزید گاندھی کا مقدمہ نہ رہا بلکہ سامراجی نظام کے مقدمے میں تبدیل ہوکر رہ گیا، اس نے جج سے کہا کہ اگر یہ نظام ٹھیک ہے تو پھر یہ اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس کے لیے سخت سے سخت سزا کا فیصلہ سنائے لیکن اگر اسے کوئی خلش محسوس ہوتی ہے تو اس کا فرض بنتا ہے کہ نوکری سے استعفیٰ دے دے۔

اس سے چند عشروں بعد ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا میں مارٹن لوتھرکنگ نے گاندھی کے ان ہی تصورات میں تھوڑی جمع تفریق کرکے ان پر عمل کرنا شروع کر دیا، اس نے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ ’’ناحق ملا دکھ نجات کا باعث ہوتا ہے‘‘۔ جب کہ سترہویں صدی میں انگلستان میں جارج فاکس نے کویکروں کی ایک تحریک کی بنیاد رکھی تھی انھوں نے پر امن عدم تعاون کی رسم ڈالی جسے وہ نا انصافی کے خلاف بہترین رد عمل تصور کرتے تھے۔

گاندھی نے اسے ہی ایک سیاسی فلسفے میں تبدیل کیا تھا کویکروں نے غلامی کے خلاف عدالتوں میں اپیلیں دائرکیں بائیکاٹ کیے اور لوگوں کو یہ نعرہ دیا کہ ’’کیا میں ایک انسان اور بھائی نہیں ہوں‘‘ عوامی احتجاج کی یہ پہلی بڑی تحریک تھی اس کے بعد کے پچاس برسوں کے عرصے میں مظاہروں کا رواج پورے یورپ میں پھیلتا چلا گیا اور 1849ء تک بے نوا لوگوں کے لیے اپنیباتدوسروں تک پہنچانے کا ایک پسندیدہ حربہ بن گیا۔

انسان جب تک خود کو تقدیر یا تاریخ کے رحم و کرم پر چھوڑتا رہا، ذلیل و خوار ہوتا رہا اور جب جب اس نے ناانصافیوں،معاشی قتل عام، عدم مساوات کے خلا ف بغاوتیں کیں اس نے لاتعداد سکھ پا لیے۔ اس لیے کہ بغاوت ہی ایک بے معنیٰ زندگی کو معنی ٰ دینے کا واحد طریقہ ہے۔ آج پاکستان کے بیس کروڑ انسان لوٹ کھسوٹ، ناانصافیوں، معاشی قتل عام کے غلیظ نظام کی چکی میں بری طرح پسے جا رہے ہیں، لیکن کہیں سے کوئی گاندھی، مارٹن لوتھرکنگ یا جارج فاکس نہیں آ رہا ہے جوآکر کہے کہ اگر یہ نظام ٹھیک ہے تو پھر ان بیس کروڑ انسانوں کو اور سخت سے سخت سزائیں دو۔ لیکن اگر ہمیں کوئی خلشمحسوس ہو تو پھر ہم سب بیس کروڑ انسانوں کا فرض بنتا ہے ہم اس نظام کے خلاف بغاوت کر دیں ’’کیا ہم ایک انسان اور بھائینہیں ہیں‘‘ کیا ہمارے سینوں میں دل نہیں پتھر لگے ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے پیٹ لکڑیوں کے بنے ہوئے ہیں ؟

کیا ہمارے ذہن سیمنٹ اورگارے سے تشکیل شدہ ہیں؟ کیا ہمارے احساسات، جذبات اینٹوں اور بجری سے بنے ہوئے ہیں۔ کیاہم سب بیس کروڑ مجسمے اور مقبرے ہیں؟ کیا اس ملک میں صرف چند ہزار امیر و کبیر انسان ہی بستے ہیں۔ یا پھر یہ کہ ہم سباکیس کروڑ لوگ اپنی اپنی قبروں میں لیٹے مردے ہیں جن کی کوئی خواہشیں، ضروریات، تمنائیں اور آرزوئیں نہیں ہیں اور جن کے پیٹ بھی مردہ ہو چکے ہیں۔ جن کو رہنے کے لیے گھروں کی نہیں بلکہ قبروں کی ضرورت ہے۔ ایلیٹ نے کہا تھا ’’جب سماج میں تبدیلیاں اچھی طرح جم جاتی ہیں تو پھر ایک نئے راستے کی ضرورت پڑنے لگتی ہے۔‘‘ ذہن میں رہے کہ بوسیدہ دیواروں کو توڑ کر ہی نئی عمارت کی تعمیر کی جا سکتی ہے اور شاید ایسا ہونے کی شروعات بھی ہو چکی ہے۔

فوچک چیکو سلوواکیا کی کمیونسٹ پارٹی کا لیڈر اور ایک ترقی پسند ادیب تھا، جب جرمنوں نے چیکو سلوواکیا پر قبضہ کیا تو جرمن نازی اسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئے اور بے حد جسمانی اذیت کے بعد بالاخر انھوں نے اسے ستمبر 1943ء میں قتل کرڈالا، فوچک نے اپنی گرفتاری کے ایام میں مضامین لکھے جو چیک جیل کا نگران محفو ظ کرتا رہا، جب چیکو سلوواکیا آزا د ہوا توان مضامین کو اس کی بیوی نے کتابی شکل میں شایع کر دیا جس کا نام ’’پھانسی کے سایہ میں لکھے ہوئے مضامین‘‘ ہے۔ فوچک نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے ’’میں نے اپنی زندگی کی فلم کو سیکڑوں بار دیکھ لیا ہے میں اس کی ہزاروں تفصیلوں سے واقف ہوں ا ب میں اسے لکھ ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں، چاہے جلاد کی پھانسی کا پھندا کتاب ختم کرنے سے پہلے ہی میرا گلا گھونٹ دے۔ پھر بھی لاکھوں کروڑوں انسان اس کا خوش آیند انجام دیکھنے کے لیے باقی رہ جائیں گے ۔‘‘

ہم بیس کروڑ پاکستانی بھی اپنی انتہائی وحشت ناک، المناک اور اذیتناک فلم روز دیکھ رہے ہیں اور اس کی ہزاروں تفصیلوں سے اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں ہو سکتا ہے کہ وقت کا جلاد ہمیں وقت سے پہلے ختم کر دے لیکن ہمارا ایمان ہے کہ پھر بھی لاکھوں کروڑوں انسان اس کا خوش آیند انجام دیکھنے کے لیے باقی رہ جائیں گے۔ نظام کی تبدیلی کا سورج ہمارے ملک میں ضرورطلوع ہو گا ہم یا باقی بچنے والے اپنا نصیب اور ملک کا مقدر ضرور تبدیل ہوتے دیکھیں گے کیونکہ ناحق ملا دکھ ہمیشہ نجات کاباعث ہوتا ہے۔ وہ صبح ضرور آئے گی جب ہمارے جلاد، ہمارے قاتل، لٹیرے، راشی، کمیشن خور، کرپٹ، بدبو دار اور غلیظنظام کے چوکیدار چھپتے پھر رہے ہونگے، معافیاں مانگ رہے ہوں گے لیکن انھیں نہ تو معافی ملے گی اور نہ ہی چھپنے کی کوئی جگہ دستیاب ہو گی۔

(   آفتاب احمد خانزادہ کالم نگار روزنامہ ایکسپریس ، 9مئی 2018)

پاکستان میں مادری زبانوں کا احیاء

ڈاکٹر اعجاز منظور

 کالم نگارروزنامہ  جنگ


(ہر سال 21فروری کو مادری زبانوں کا دن عالمی سطح پر منایا جاتا ہے ) ۔ اس دن کے بین الاقوامی سطح پر منائے جانے کا پاکستان سے گہرا تعلق ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں مادری زبانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اقوام متحدہ نے اس دن کو عالمی سطح پرہر سال منانے کا اعلان اس احساس کے تحت کیا تھا کہ ہر روز کئی زبانیں ہمیشہ کے لئے مٹ جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان زبانوں کے بولنے والوں کی تاریخ اور ثقافت بھی معدوم ہوجاتی ہے۔دنیا میں مختلف مادری زبانیں اس لئے مٹ رہی ہیں کہ ان کے بولنے والے چھوٹے گروہ ہیں،جو ختم ہو رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ یہاں ان زبانوں کے معدوم ہوجانے کا خطرہ ہے جن کو بولنے والے کروڑوں کی تعداد میںہیں۔ اقوام متحدہ نے ایک چارٹر کے ذریعے ممبر ملکوں پر لازم کیا تھا کہ وہ مادری زبانوں کے تحفظ کے لئے اقدامات اٹھائیںلیکن پاکستان میں اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ 


اقوام متحدہ نے اس دن کو سالانہ منانے کا اعلان 1999میں کیا تھا۔تب سے لے کر اب تک یہ دن ہر سال ساری دنیا میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اکیس فروری کا دن اس لئے مقررکیا گیا کہ اس دن 1952میں ڈھاکہ یونیورسٹی، جگن ناتھ یو نیورسٹی اور ڈھاکہ میڈیکل کالج کے کچھ طلبا کو ڈھاکہ ہائی کورٹ کے قریب شہید کردیا گیا تھا:ان طلباکا مطالبہ  تھا کہ مشرقی پاکستان میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی زبان کو بھی سرکاری سطح پر تسلیم کیاجائے۔ بعض تاریخ دانوں کی نظر میں پاکستان کا مستقبل اسی دن سے مخدوش ہو گیا تھا۔ اگرچہ بنگالی کو مشرقی پاکستان کی زبان تسلیم کر لیا گیا تھا لیکن مسلمان بنگالیوں نے اس دن کو فراموش نہیں کیا اور ان طلبہ کی یاد میں شہید مینار تعمیر کیا۔ پاکستانی ریاست نے اس سانحے سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور مغربی پاکستان میں مادری زبانوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔


پاکستان میں مادری زبانوں کو انگریز ی نو آبادیاتی نظام کے زمانے سے ہی نظر انداز کیا گیا۔ انگریز حکمرانوں نے جب 1849میں پنجاب کی سلطنت پر قبضہ کیا تو اس نے اس علاقے میں اردو کا نفاذ کیا۔ انگریزوں کی اس حکمت عملی کے پس منظر میں اس زمانے کی علاقائی سیاست تھی جس کا یہاں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔البتہ سندھ میں انگریز نے سندھی زبان کے رسم الخط کو معیاری بنا کر لاگو کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے پاکستان میں صرف سندھی زبان ہے جسے صوبائی سطح پر سرکاری زبان تسلیم کیا جاتا ہے۔ 


جب انگریز نوکر شاہی پنجاب اور سرحد میں اردو کا نفاذ کر رہی تھی تو اس وقت اس کے مختلف افسروں کے درمیان کافی بحث مباحثہ ہو رہا تھا۔ یہ مباحثہ انگریز افسروں کی خط و کتابت ’پنجاب میں اردو کا نفاذ‘ نامی کتاب میں شائع ہوچکا ہے جسے چوہدری محمد رفیق نے مرتب کیا۔ انگریز افسروں کی اس خط و کتابت میں شاہ پور (حالیہ سرگودھا) کے ڈپٹی کمشنر، میجر ولسن نے بہت دور رس باتیں کیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر زبان کا مقصد خواندگی کو بڑھانا ہے تو وہ مقصد صرف مادری زبان کے نفاذ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اپنی دلیل کو واضح کرنے کے لئے اس نے برطانیہ کی مثال دی اور کہا کہ جب تک برطانیہ میں لاطینی زبان نافذ رہی خواندگی کی شرح بہت ہی معمولی تھی، پھر جب فرانسیسی کو لایا گیا تو یہ شرح قدرے بہتر ہوئی لیکن عوامی خواندگی کا مسئلہ اسی وقت حل ہوا جب انگریزی کو اپنایا گیا۔ میجر ولسن کی پیشگوئی ڈیڑھ سو سال گزرنے کے بعد بھی درست ثابت ہوئی ہے کیونکہ پاکستان میں اب بھی خواندگی کی شرح بہت نیچے ہے۔ 


پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں خواندہ لوگ بھی نیم پڑھے لکھے ہیں۔ عمومی طور پر پڑھنے لکھنے کا بنیادی مقصد حصول علم نہیں بلکہ رٹا لگا کر امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے والوں کا زیادہ تر وقت انگریزی اور اردو سیکھنے میں صرف ہوتا ہے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں جانکاری بہت محدود رہ جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ریاست نے اپنی نظریاتی ضرورتوں کے لئے اردو نافذ توکئے رکھی لیکن کلیدی کاروبار انگریزی میں ہی ہوتا رہا ہے۔ اس وجہ سے اردو زبان کی نشووارتقا کا عمل بھی جاری نہیں ہوا۔ اردو زبان کے ساتھ کئی حل طلب مسائل ہیں لیکن پھر بھی یہ رابطے کی زبان کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اب جگہ جگہ انگریزی میڈیم اسکول کھلنے سے اردو میں تعلیم اور بھی کمزور ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے اس کے مختلف علوم کے اظہار کرنے کی سکت اور بھی کم ہو رہی ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان جیسے ملکوں میں زبان کی سیاست کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ 


پاکستان میں مادری زبانوں میں تعلیم کی عدم موجودگی سے قومی شناخت کا بھی مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ چونکہ زبان محض الفاظ کا مجموعہ ہونے کی بجائے پوری قومی تاریخ اور ثقافت کا اظہار ہوتی ہے اس لئے اس سے لا علمی اپنے پورے تہذیب و تمدن کی نفی ہوتی ہے۔ جب پنجابی یا پختون اپنے بزرگوں کے دئیے ہوئے علم سے بے بہرہ ہوتے ہیں تو وہ اس خلا کو اجنبی افکار سے پر کرتے ہیں یا پھر خالی الذہن ہوتے ہوئے نچلے درجے کے تعصبات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ فرقہ پرستی اور ذات برادری کے توہمات میں جکڑے رہتے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے رجحان میں اضافے کی وجہ نئی نسلوں کا اپنے قومی ورثوں سے بیگانہ ہونا بھی ہے۔ اس علاقے میں مقامی مفکرین (جن کو عام طور صوفی کہا جاتا ہے) کے انسانیت کے پرچار کے بنیادی فلسفے کو نظرانداز کیا گیا جس سے مذہبی بنیاد پرستی نے جنم لیا۔ جب پنجابی یا پختون بلھے شاہ یا خوشحال خان خٹک کے انسان پرست افکار سے نابلد ہوتا ہے تو وہ اپنے ذہن کو قدامت پرست روایتی خیالات سے بھرتا ہے جس سے اس کی ذہنی ایج منفی سمت اختیار کر لیتی ہے۔ یہ اتفاقیہ امر نہیں ہے کہ اب جب ریاست مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام کرنا چاہتی ہے تو وزیر اعظم نواز شریف میاں محمد بخش کے اس طرح کے اشعار پڑھتے ہوئے سنائی دیتے ہیں:


مسجد ڈھا دے مندر ڈھاہ دے، ڈھا دے جو کجھ ڈھیندا


اک بندیاں دا دل نہ ڈھاویں رب دلاں وچ رہندا


(مسجد گرادے، مندر گرادے اور چاہے جو مرضی گرادے لیکن کسی انسان کا دل نہیں توڑنا، کیونکہ دل میں خدا بستا ہے)۔


معاشی پہلو سے بھی مادری زبانوں کا مثبت کردار مسلمہ حقیقت ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ایشیا کے جن ممالک نے تیز تر ترقی کی ہے انہوں نے اپنا بنیادی ذریعہ تعلیم مادری زبانوں کو ہی بنایا ہے۔چین، جاپان، جنوبی کوریا اور اس علاقے کے بہت سے ممالک نے برق رفتار معاشی ترقی کی ہے اور اس کے لئے انہوں نے اپنی مادری زبانوں کو ترقی دی ہے۔ ان ممالک میں بہت کم لوگ انگریزی سے آشنا ہیں لیکن اس سے ان ممالک کی معاشی اور سماجی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔ اس لئے اگر پاکستان جیسے ممالک کو ترقی کرنا ہے تو انہیں مادری زبانوں کی ترویج کرنا ہوگی۔