پاکستان اسلام کی نعمتوں سے محروم کیوں ہے ؟

جماعت اسلامی کے نزدیک پاکستان میں دراصل کسر اس چیز کی نہیں ہے کہ یہاں خدا اور آخرت اور رسالت کے ماننے والوں کی کمی ہے، بلکہ کمی اس چیز کی ہے کہ جس حق کو یہاں کے باشندوں کی اکثریت مانتی ہے وہ عملاً نافذ ہو، اور اسی پر ہمارے ملک کا پورا نظامِ زندگی قائم ہو۔ یہ کوئی معمولی کسر نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی کسر ہے، کیوں کہ اسی کی وجہ سے ہمارا یہ ملک ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود نہ اسلام کی نعمتوں اور برکتوں سے خود فائدہ اُٹھا رہا ہے، نہ دُنیا کے لیے اسلام کی حقانیت کا گواہ بن رہا ہے۔ اور یہ کسر اس لحاظ سے بھی کوئی ہلکی کسر نہیں ہے کہ اسے پورا کر دینا آسان ہو۔ اس کی پشت پر بہت سے طاقت ور اسباب ہیں، جنھیں سخت جدوجہد ہی کے بعد دُور کیا جاسکتا ہے:

  •  ایک طرف ہمارے عوام کی اسلام سے ناواقفیت ہے، جس کی وجہ سے وہ اس دین کے عقیدت مند ہونے کے باوجود اس کی صحیح پیروی سے قاصر ہورہے ہیں۔ 

  •  دوسری طرف ہمارے اندر بہت سے ایسے مانع اصلاح عناصر کی موجودگی ہے، جو اپنے تعصبات کی وجہ سے یا اپنی اغراض کی خاطر مختلف پرانی یا نئی جاہلیتوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور خالص اسلام کے قیام کی راہ روک رہے ہیں۔

  •  تیسری طرف ہمارا ماضی قریب ہے جو ہمیں اس حال میں چھوڑ گیا ہے کہ انگریزی اقتدار نے اپنی تعلیم سے، اپنےتہذیبی و تمدنی اثرات سے، اپنے قوانین سے، اپنے معاشی نظام سے، اور اپنی انتظامی پالیسی سے ہماری زندگی کے ہرشعبے کو غیراسلامی سانچوں میں ڈھال دیا ہے، حتیٰ کہ ہمارے مذہبی عقائد اور ہمارے اخلاق تک کی جڑیں ہلا کررکھ دی ہیں۔

  • ان سب پر مزید یہ کہ انگریز کے رخصت ہو جانے کے بعد جن لوگوں کے ہاتھ میں ہماری قومی زندگی کی باگیں آئی ہیں، اور جن کو اس نوخیز ریاست کی تعمیروتشکیل کے اختیارات ملے ہیں، وہ اگرچہ اسلام ہی کا نام لے کر برسرِاقتدار آئے ہیں، اسلامی دستور کا حلف لے کر ہی حکومت کی کرسیوں پر بیٹھے ہیں، اور دعویٰ یہی کرتے ہیں کہ ہم یہاں اسلام کے مطابق کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن نہ تو وہ اسلام کو جانتے ہیں ، نہ ان کی اپنی زندگیاں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ وہ اسلام کے طریقے پر خود عامل ہیں، اور نہ ان کا اب تک کا طرزِعمل یہ اُمید دلاتاہے کہ ان کے ہاتھوں یہ ملک کبھی فرنگیت کے راستے سے ہٹ کر اسلام کے راستے پر چل سکے گا۔

یہ ہیں وہ بڑے بڑے بنیادی اسباب، جن کی وجہ سے پاکستان میں اس کسر کو پورا کر دینا کوئی آسان کام نہیں ہے کہ یہاں کے باشندوں کی اکثریت جس چیز کو حق جانتی اور مانتی ہے، وہ یہاں عملاً نافذ ہو اور اسی پر یہاں کا پورا نظامِ زندگی قائم ہو۔



([سیّدابوالاعلیٰ مودودی] ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۵۰، عدد۳، رمضان ۱۳۷۷ھ/ جون ۱۹۵۸ء،ص ۱۸-۱۹)

( اشاعت مکرر ، ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن ، جون 2018)