اقبال اور رومی، ڈاکٹر سید عبد اللہ ؒ

اقبال اور رومی
اقبال نے رومی سے کیاکچھ لیا؟ اس کا جواب دینے کے لیے ہمیں صرف اس قدر سمجھنا ہوگا کہ رومی اور اقبال کے درمیان فکری طور پر کن کن باتوں میں مماثلت موجود ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی ماننا ہوگا کہ اس فکری مماثلت کے ساتھ ان دونوں بزرگوں کی نفسی ساخت اور ماحول میں کس حد تک یک رنگی پائی جاتی ہے؟ میرے خیال میں ان دو سوالات کا جواب میرے آج کے موضوع کا ضروری پہلو ہے۔
اقبال نے رومی سے جو خیالات لیے، ان کے تذکرے سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ خاص افکار، رومی کے علاوہ کہیں اور موجود نہیں یا اقبال نے رومی کے سوا کسی اور ماخذسے فیض حاصل ہی نہیں کیا۔ ایسا سمجھنا یقینا غلط ہوگا کیونکہ اقبال و رومی کے بیش تر مشترکہ خیا لات علیحدہ علیحدہ صورت میں بعض دوسرے صوفیوں اور فلسفیوں کے ہاں بھی ملتے ہیں، کچھ فرق ہے تو صرف اس قدر کہ اقبال اور رومی اپنے مجموعی نظامِ فکر کے اعتبار سے ایک دوسرے کے بے حد قریب ہیں اور استفادہ اور کسبِ فیض کے لحاظ سے مجموعی طور پر اقبال نے رومی سے اس درجہ اثر قبول کیا ہے کہ ہم اقبال اور رومی کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔
اقبال کے ماحول کے متعلق صرف اس قدر بتانا کافی ہے کہ جب اقبال نے فکر کی دُنیا میں آنکھ کھولی، اور کائنات اور اس کے مسائل پر نظر ڈالی تو اس وقت مغربی حکمت اور سائنس کا مادہ پر ستانہ نظریۂ علم و عمل کے ہر ہر پہلو پر غالب آچکا تھا۔ طبعی علوم کے انکشافات اور سائنس کی ایجادات کے زیرِ اثر مذہب،اخلاق اور رُوحانیت کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی تھیں۔ کانٹ، سپنسر اور مل کے ـ’’ایں جہانی‘‘ تصورات اور ہیگل کی جدلی منطق نے ما بعدالموت اور اس کے متعلقہ خیالات کے بارے میں شکوک پیدا کرتے ہوئے الحاد، دہریت اور حیوانیت کے لیے ذہن انسانی کے دروازے کھول دیے تھے۔ اس پر ڈارون کے نظریۂ ارتقا، فرائڈ کے نظریۂ جنس اور مارکس کے نظریۂ اِقتصاد نے مذہب اور قدیم تمدّن کا رہا سہاوقار بھی ختم کر دیا، اور چند ے یہ نظر آنے لگا کہ انسانی زندگی کا سارا نظام درہم برہم ہونے کو ہے،اور اس دنیائے کون و فساد میں خود غرضی، جدل اور ہوا و ہوس نے خلوص، ایمان داری اور صلح و آشتی کی جگہ لے لی ہے۔ اس کے علاوہ کل کی ایجاد نے انسان کو گوشت، پوست اور ہڈیوں کا بے روح مجموعہ قرار دے کر بدبخت انسان کو روٹی اور غذا تک سے محروم کرنے کی ٹھان لی ہے۔ زندگی مشکل تو تھی، مرنا بھی مشکل ہو گیا۔ دُنیا جیتے جی جہنم کی آگ میں جلنے لگی۔
ضعفِ ایمان اور بے اطمینانی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اقبال کی حیرت زدہ آنکھوں نے مغربی علُوم پر نظر ڈالی، اور چاہا کہ اطمینان اور سکون کی کوئی ایسی شعاع دکھائی دے جس سے دل کے اندھیرے اور ظلمت کو دور کیا جا سکے مگر فلسفہ و دانش کے ان مغربی ضیا خانوں سے اسے وہ نُور کی کِرن نہ ملی جس کی اُسے تلاش تھی۔ ان حالات میں اقبال نے محسوس کیا کہ مغربی تہذیب سوز یقین سے محروم ہے۔ اہلِ مغرب کی حیات اجتماعی تاجرانہ، عیارا نہ اور بے سوز ہے۔ عالمِ انسانیت نظامِ مغربی کے استیلا اور اس کے ایں جہانی تصور سے جگر چاک ہے۔ اس کے امن کی قبا پارہ پارہ اور اس کے سکون کا خرقہ تار تار ہے۔ اور اسے یقین ہو گیا کہ یورپ کی تہذیب ہی انسانی تہذیب کے صالح اور خوش گوار ارتقا کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کو ایمان اور یقین کی مدد سے راستے سے ہٹانا بنی نوع انسان کا سب سے بڑا فرض ہے۔ اقبال نے اس نصب العین کی طرف بار بار اپنی شاعری اور نثری تصانیف میں اِشارہ کیا ہے۔ اُنھوں نے مقالاتِ مدراس میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا ہے: کہ اس وقت دُنیا کو سب سے زیادہ جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انسانی تہذیب کو پھر سے رُوحانیت سے رُوشناس کرایا جائے۔ اور اس بات کا یقین پیدا کیا جائے کہ ذاتِ خداوندی موجود ہے۔ اور ان ستاروں کے پیچھے کئی ’عوالم‘ اور بھی ہیں جن کا ادراک عقل کی ظاہر بیں آنکھوں سے نہیں بلکہ کشف اور تجلّی کی روشنی سے ہو سکتا ہے۔
اس دشوار اور عظیم الشان کام کی تکمیل کے لیے اقبال نے مولانا جلال الدین رومی کو اپنا رہنما بنایا۔ وہ اقبال کے مُرشد ہی نہیں بلکہ محبوب بھی تھے۔ اقبال کو رومی سے محض نطشے،برگساں وکانٹ کی طرح کی فکری وابستگی ہی نہ تھی بلکہ دونوں کے درمیان روحانی اور عاشقانہ رشتہ نظر آتا ہے۔ اسرارِ خودی سے لے کر ارمغانِ حجاز تک رومی ہی اقبال کے خضرِراہ بنتے ہیں۔ وہی جاوید نامہ کے زندہ رودکو آسمانوں کی طلسماتی فضا میں لے جاتے ہیں اور ملاء ِاعلیٰ کے مکینوں سے ان کا تعارف کراتے ہیں اور جب یہ مرید ہندی مقصدِ زندگی کی تکمیل کر چکنے کے بعد اقوامِ مشرق کو آخری پیغام دیتا ہے تو اس وقت بھی یہی رومی ہاتف بن کر مژدۂ اِنقلاب سناتے ہیں۔ رومی اقبال کی نظر میں کلیم بھی ہیں اور حکیم بھی، مجدد بھی ہیں اور مصلح بھی، شریعت کے علم بردار بھی ہیں اور طریقت کے اسرار کشا بھی۔ غرض سب کچھ جن کی ہدایت سے عصرِحاضر اپنی گم گشتہ روشنی اور تابانی کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے، اقبال کے اپنے الفاظ میں:
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں

اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن
اسی کے فیض سے میری سبو میں ہے جیحوں

گسستہ تار ہے تری خودی کا ساز اب تک
کہ تو ہے نغمۂ رومی سے بے نیاز اب تک
اقبال نے اپنے مرشد رومی سے بڑے بڑے افکار کے بارے میں جو استفادہ کیا، اس کے ذکر سے پہلے یہ سن لینا چاہیے کہ اقبال کے لیے رومی کی داستان حیات بھی بے حد جنوں انگیز اور ولولہ خیز ثابت ہوئی۔ علی الخصوص اس کا وہ باب جس کا تعلق شمس تبریز کے عشق سے ہے۔ مولانا روم کی زندگی کا نمایاں امتیازی وصف ان کا جذبۂ عشق، درد مندی اور سوزو گداز تھا۔ مولانا روم کو شمس تبریز سے مجنونانہ محبت تھی، اور اس حد تک تھی کہ ایک پل ان کے بغیر نہ رَہ سکتے تھے۔
کہتے ہیں کہ جب ایک دفعہ شمس کسی بات پر ناراض ہو کر قونیہ سے تبریز چلے گئے تو مولانا پر کھانا پینا حرام ہو گیا۔ آخر خود تبریز گئے اور منا کر لائے۔ شمس تبریز نے مولانا کی زندگی میں اِنقلاب پیدا کیا۔ وہ پہلے ایک خشک اُصولی اور منطقی تھے لیکن شمس تبریز کی ملاقات نے انھیں روحانی اور باطنی کمالات سے آگاہ کیا۔ بقول علامہ شبلی: ’’شمس کی ملاقات سے پہلے مولانا روم کے شاعرانہ جذبات اسی طرح ان کی طبیعت میں پنہاں تھے، جس طرح پتھر میں آگ ہوتی ہے۔ شمس کی جدائی گویا چقماق تھی اور شرارے ان کی پر جوش غزلیں‘‘۔ رومی نے بہت سی نظمیں شمس تبریز کے فراق میں لکھیں جن میں اِنتہائی درد اور بے قراری پائی جاتی ہے۔ مثلاً وہ نظم جس کے تین اشعار یہ ہیں:
ساربانا! بار بکشا ز اشتراں
شورِ تبریز است و کوے دلبراں

فرِّ فردوس است ایں پالیز را
شعشعۂ عرش است ایں تبریز را

ہر زمانے فوج روح انگیز جاں
از فرازِ عرش بر تبریزیاں
جب شمس تبریز کا انتقال ہوا تو مولانا پر قیامت گزر گئی۔ مریدان با اخلاص اپنے مرشد کے غم میں ہلاک اور خود مولانا صحرائے جنوں میں آوارہ وپریشاں! دراصل محبت بھرے دل کو کسی اور محبوب کی تلاش تھی، اس لیے کہ بے کیمیائے مستی تبدیل غم محال است۔
آخر ایک اور بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ جن کا نام صلاح الدین زرکوب تھا۔ ان کی محبت میں مولانا کو تسلی ملی۔ چنانچہ دیوان میں ان کی شان میں بھی غزلیں موجود ہیں جن میں سے ایک غزل کے تین اشعار یہ ہیں:
مطربا اِسرار ما را باز گو
قصہ ہائے جاں فزا را باز گو

ما دہاں بربستہ ایم از ذکرِ اُو
تو حدیثِ دل کشا را باز گو

چوں صلاح الدیں صلاحِ جانِ ماست
آں صلاحِ جان ہا را باز گو
نو سال کے بعد صلاح الدین زرکوب کا بھی انتقال ہو گیا اور رومی کی جانِ دردمند کو پھر وہی قضیہ پیش آیا۔ یعنی وہی جنون و بے قراری! آخر ان کے دوست اور مرید حسام الدین چلپی ان کے لیے باعث تسلّی بنے ۔ یہی وہ بزرگ ہیں جن کا ذکر مثنوی میں بار بار آتا ہے۔ غرض رومی کی زندگی میں دردمندی اور عشق کی جو فراوانی ہے اس سے کون متاثر نہ ہوگا؟ رومی کی اس مجذوبیت سے اقبال بھی بے حد متاثر ہوئے۔
دوسری چیز جس نے اقبال کو اپنے مرشد کا گرویدہ بنایا وہ عقل پرستی کے خلاف رومی کا جہاد اور جذبۂ عشق و ایمان کی طرف ان کی پر زور دعوت ہے۔ اسلام میں عقل پرستی کا مرض فلسفۂ یونان کے ذریعے پیدا ہوا۔ سقراط اور افلاطون کے ’’ایں جہانی‘‘ خیالات نے حکماے اسلام کو اس قدر متاثر کیا کہ ایک عرصے تک خود قرآن پر فلسفۂ یونان کی روشنی میں نظر ڈالی جاتی رہی۔ اِ س میں شک نہیں کہ فلسفہ کے عام ہو جانے سے فکر اور دماغ کے آزاد انہ عمل کو ترقی ہوئی لیکن اس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ قرآن نے مشاہدے، تجربے اور زندگی میں ہر ساعت تغیّر اور انقلاب کی اہمیّت پر جتنا زور دیا تھا، وہ کمزور ہو گیا۔ اسلام نے روح اور ایما ن کو ساری زندگی کی بنیا د قرار دیا تھا اور اس ایک اُصول کی حفاظت کے ساتھ ساتھ تسخیر کائنات کا جو سبق سکھایا تھا،وہ سب کچھ سقراط کے علمی اور مجردحقائق کے غوروفکر میں گم ہو کر رَہ گیا۔ ان عقل پرستوں کی تائید معتزلہ نے کی جس سے خود مذہب اور خدا کی حقیقت معرض بحث میں آگئی ۔ عقل پرستی کی اس یورش کا مقابلہ اشعریوں نے کیا۔ لیکن اُنھوں نے عقلِ انسانی کے کمالات سے ہی انکار کرنا شروع کر دیا۔ رومی سے پہلے امام غزالی نے عقل پرستی کا کامیاب مقابلہ کیا۔ اور تصوف کو دین کے نظام میں داخل کرتے ہوئے مذہب کی وجدانی بنیاد کو مستحکم کیا۔ لیکن اُنھیں صوفیوں کی زندگی کے بعض پہلوئوں سے کچھ رغبت نہ تھی۔
رومی نے اس عقل پرستی کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ اور اگرچہ غزالی اور دوسرے متکلمین عقل پرستوں کو کئی میدانوں میں شکست دے چکے تھے۔ لیکن چونکہ علم کلام کی بنیاد بھی بیش تر استدلال اور عقلی قیاس پر تھی، اس لیے متکلمین سے عقل پرستی کا کامیاب دفعیہ نہ ہو سکا۔ رومی عقلِ جزوی کے سرے سے مخالف ہیں، وہ عقل کی متعدد اقسام میں سے صرف عقلِ کل اورعقلِ ایمانی کے قائل ہیں، باقی سارے نظام کے منکر اور اس سے بے زار!۔ ان کے نزدیک عقلِ جزوی کی رسائی اصل حقیقت تک نہیں ہو سکتی کیونکہ عقلِ جزوی سراپاوہم ،ظن اور شک میں ڈوبا ہوا ہے۔ عقلِ جزوی انتشار،بدگمانی، خود غرضی اور نفسانیت کا مورث ہے۔ مگرجذبۂ ایمان، جمعیت، اطمینان اور محبت کا خالق۔ رومی استدلالی اور عقلی کیفیتوں پر وجدان اور جذبے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک عرفان اور ایمان کا مرکز دل ہے نہ کہ دماغ۔ ان کے خیال میں زیر کی ابلیس کا خاصہ ہے اور عشق آدم کا زیور۔ ان کے نزدیک اہلِ تن کے علوم بے حقیقت مگر اہلِ دل کا علم یار مونس ہے۔ مجذوبیت کے بعد رومی کے فکر کا یہی پہلو اقبال کے لیے سب سے زیادہ جاذب توجہ ثابت ہوا۔ اور سب سے زیادہ انھی افکار کے بارے میں اقبال نے رومی کی خوشہ چینی کی ہے۔
تیسری چیز جسے ہم فکر رومی میں بہت نمایاں پاتے ہیں وہ رومی کا نظریۂ فقر ہے۔ اسلام میں تصوف کے عناصر ابتدا ہی سے موجود چلے آتے ہیں۔ اور گو کہ ابتدائی زمانہ کے صوفی بہت ہی برگزیدہ لوگ تھے۔ اور ان کی تعلیم کسی طرح مذہب اور عملی زندگی کے متخالف نہ تھی مگر رفتہ رفتہ نوافلاطونی خیالات اور بعض دوسرے نظام ہائے فکر کی آمیزش سے، تصوف میں دُنیا سے بیزاری کا عنصر، بطور ایک سیاسی عقیدے کے شامل ہو گیا۔ جس سے توکّل، تقدیر، فنا اور ترکِ دُنیا کی طرح کے مسائل کی غلط تعبیر پیدا ہوئی۔ یہ فلسفۂ زندگی جس قدر جذبۂ حیات کا قاتل ہے، اسی قدر اسلام کی عملی تعلیم کے منافی بھی ہے۔مولانا جلال الدین رومی نے خود صوفی ہونے کے باوجود اس طرزِ زندگی بلکہ اس نظریۂ زندگی کے خلاف پُر زور آواز بلند کی۔ اور توکّل، جبر، کسب اور دین و دُنیا کے باہمی تعلق پر پیہم اور مسلسل، نہایت مؤثر اور دل نشین پیرائے میں اپنے خیالات کا اِظہار کیا۔
اگرچہ مثنوی رومی کا مطالعہ صدیوں سے جاری تھا اور اب تک ہے مگر رومی کے خیالات کی روح رومی کی وفات کے بعد غائب ہو گئی۔یہ شرف اور خوش بختی اقبال کے نصیب میں تھی کہ اس کی بدولت رومی کے فکر کو دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔ اور پھر سے اس راہبانہ تصور کے خلاف ردّعمل ہوا جس کا سب سے بڑا عقیدہ یہ ہے کہ زندگی ترکِ زندگی کا نام ہے۔
اقبال نے رومی فقر غیور کو اپنی جدیداجتماعی زندگی کی ضرورتوں کے لیے بہترین کیمیاے سعادت پایا۔ چنانچہ سلطانی اور خدمت گری، سروری اور چاکری دونوں حالتوں میں ان کے نزدیک یہ فقر تو ازن اور اعتدال کا ترازوئے مستقیم بن سکتا ہے۔
اِن عناصر سہ گانہ کے بعد میں مختصر اً رومی اور اقبال کےIdealism بنی نوع آدم کے ممکن عروج اور ’مردِ کامل‘ کے متعلق دونوں کے مشترکہ خیالات کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ اقبال آدم خاکی کے ارتقائی عروج کے قائل ہیں۔ رومی بھی انسان کو ارتقائی مخلوق قرار دیتے ہیں۔ اقبال اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ آخر کار انسان ماہِ کامل بن کر رہے گا۔ اور خاکیوں کا فروغ نوریوں سے زیادہ ہو جائے گا۔ نہیں نہیں اس سے بھی آگے گزر کر خدائی فضا کے حریمِ قدس میں داخل ہو جائے گا بلکہ اپنی اصل سے جا ملے گا۔رومی کے نزدیک روح کو بقاے دائمی حاصل ہے۔ پیکرِخاکی کی شکست انسانی تکمیل کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی یہی اقبال کے خیالات ہیں۔ رومی موت کو زندگی کا دروازہ خیال کرتے ہیں، اقبال بھی موت کو نئی زندگی کی صبح قرار دیتے ہیں۔ رومی انسان کے شخصی بقا کو ممکن خیال کرتے ہیں، اقبال بھی یہی استدلال کرتے ہیں۔
غرض یہ اور اس قسم کے بیسیوں مسائل ہیں جو اقبال اور رومی میں مشترک ہیں۔ جن کی پختگی کے لیے ممکن ہے کہ اقبال کے سامنے بعض دوسرے مآخذ بھی ہوں لیکن مجموعی نظام فکر کے اعتبار سے اقبال نے رومی ہی کے سر چشمۂ فیض سے استفادہ کیا ہے۔
اقبال اور رومی کی مماثلتوں کے اس تذکرے کے بعد کچھ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کے بعض اختلافی پہلوئوں کا تذکرہ بھی کیا جائے۔ میرے خیال میں اقبال اور رومی کے درمیان سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ اقبال کا نقطۂ نظر اپنے دعوے اور تعلیم کے برعکس ، محض علمی اور نظری ہے یعنی رومی کے نزدیک جو بات حق الیقین کا درجہ رکھتی ہے۔ اقبال کے نزدیک وہ زیادہ سے زیادہ علم الیقین کی سطح تک آسکتی ہے۔ رومی اور اقبال کی عملی زندگیوں میں جو فرق نظر آتا ہے، وہی فرق ان دونوں کے نقطۂ نظر میں بھی ہے۔ اقبال کو جو شکایت رازی اور غزالی سے ہے وہی شکایت ہم کمتر درجے پر اقبال سے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اقبال سارے دعوے کے باوجود استیلا، جوش، قوت اور تخلیق کا شاعر ہے۔ اقبال کے نزدیک تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب بڑی چیز ہے،مگر اس قدر نہیں جس قدر جنگ و پیکار اور خودی کی نمود۔
یہی وجہ ہے کہ ہم اس کے ابلیس کو بعض اوقات یزداں سے کاندھا ملاتے اور چشمک زنی کرتے دیکھتے ہیں۔ اقبال کا جذباتی اور فکری پہلو مضبوط ہے مگر رومی جذباتی اور جمالیاتی کیفیتوں کے مالک ِکل ہیں۔ اقبال کی خودی کا تصور انفرادی اور اجتماعی ہے،مگر رومی کے نزدیک خودی کا مفہوم تصوف کے عام معانی کے قریب قریب ہے۔ میں نے اس موقع پر رومی اور اقبال کے جو اختلافات نمایاں کیے ہیں، ان سے مقصود صرف اسی قدر ہے کہ اقبال فکرِ رومی کے سمندر کا شناور ہونے کے باوجود اپنے ماحول کے مرعوب کن تصورات سے یکسر بے نیا ز نہیں ہو سکے۔ کیونکہ زندگی اپنے حوالی اور گرد و پیش سے کلیتہً منقطع نہیں ہو سکتی۔ یہ حضرت اقبال کے رُوحانی کمالات کا کرشمہ تھا کہ اُنھوں نے شک اور ضعف ِاِیمان کی اس خوفناک فضا سے نکل کر آج سے سات سو سال پہلے کی ہوائوں میں سانس لینے کی کوشش کی اور انسانیت کی تکمیل کے لیے ماضی کو حال کے ساتھ پیوند دے کر مستقبل کی دیواریں کھڑی کردیں۔
میں خیال کرتا ہوں کہ رومی کی ایمانی حکمت کے سمندر میں ابھی بے شمار موتی موجود ہیں جن کے حصول کے لیے غواصی کا طریقہ رومی کے مرید مگر ہمارے مرشد اقبال نے ہمیں سکھا دیا ہے۔
مآخذ
۱-         اقبال کے منظوم کلام کے علاوہSix Lectures
۲-        Dr. Abdulhakim, Metaphysics of Roomi
۳-        مضمون :اقبال ،رومی-اور نطشے
۴-        عبدالمالک آروی:اقبال کی شاعری
۵-        میر ولی اللہ کا منتخب مثنوی[کذا]
۶-        قاضی تلمذ حسینمراۃ المثنوی
۷-        شبلی: سوانح مولانا روم
۸-        حکمت ِاقبال مرتبہ: غلام دستگیر رشید۔ نفیس اکیڈیمی، حیدر آباد دکن، ۱۹۴۵ء