اردو زبان و ادب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اردو زبان و ادب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

نیاز فتح پوری کی اہم تصنیفات

نیاز فتح پوری کی تصنیفات 
نیاز فتح پوری برصغیر پاک و ہند کے ممتاز عقلیت پسند دانشور، شاعر، انشا پرداز، افسانہ نگار اور نقاد تھے۔وہ  1884ء میں یوپی کے ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔

 مدرسہ اسلامیہ فتح پور، مدرسہ عالیہ رامپور اور دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے حاصل کی۔ 1922ء میں اردو کا معروف ادبی و فکری رسالہ، "نگار" جاری کیا۔

 ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں 1962ء میں بھارت نے نیاز کو "پدما بھوشن" کے خطاب سے نوازا۔ 

31 جولائی 1962ء کو وہ ہجرت کر کے کراچی آ گئے۔ حکومت پاکستان نے بھی نیاز کو "نشان سپاس" سے نوازا۔


سرطان کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد 24 مئی 1966ء کو نیاز فتحپوری کا انتقال ہوا۔


ان کی تصنیفات آن لائن پڑھیں  !

Mukhtar Printing Works, Lucknow
1949
Mohammad Tufail
1946
انتقادیاتحصہ - 001
Abdul Haq Academy, Hyderabad
1944
انتقادیاتشمارہ نمبر-012

معروف ادیب ، نقاد محمد حسن عسکری کی تصنیفات

معروف نقاد محمد حسن عسکری اور ان کی تصنیفات 
محمد حسن عسکری (پیدائش: 5 نومبر 1919ء- وفات: 18 جنوری 1978ء) پاکستان کے نامور اردو زبان و ادب کے نامور نقاد، مترجم، افسانہ نگار اور انگریزی ادب کے استاد تھے۔ انہوں نے اپنے تنقیدی مضامین اور افسانوں میں جدید مغربی رجحانات کو اردو دان طبقے میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

حالات زندگی

محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء کو سراوہ، میرٹھ، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان اصل نام اظہار الحق تھا جبکہ محمد حسن عسکری کے والد کا نام محمد معین الحق تھا۔ وہ بلند شہر میں کورٹ آف وارڈز میں ملازم تھے۔ وہاں سے وہ والی شکار پور رگھوراج کے یہاں بطور اکاؤنٹنٹ چلے گئے جہاں انھوں نے 1945ء تک ملازمت کی۔ انھوں نے 1936ء میں مسلم ہائی اسکول بلند شہر سے میٹرک اور 1938ء میں میرٹھ کالج سے انٹر پاس کیا۔ الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے اور پھر 1942ء میں انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ اس یونیورسٹی میں انھوں نے فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے استفادہ کیا۔

اردو میں اسلامی ادب کی تحریک ۔ پروفیسر مہر اختر وہاب

اردو میں اسلامی ادب کی تحریک -
پروفیسر مہر اختر وہاب
اسلامی ادب کی تحریک اردو ادب کی اہم ادبی تحریک ہے ۔ اسلامی ادب کا نظریہ ہر عہد ، ہر ملک اور ہر زبان کے ادب میں ایک توانا فکر رہا ہے۔اسلامی ادب کی تحریک کی فکری اساس میں توحید ، رسالت اور آخرت میں جواب دہی کے تصورات بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ اس نظریہ کی ہمہ گیری یہ ہے کہ حیات کائنات اور انسان کے بارے میں کوئی ایسا سوال نہیں ہے جس کا واضح اور تسلی بخش جواب اس کے پاس نہ ہو۔ادب اسلامی کی اصطلاح کو ماضی میں اعتراضات اور غلط فہمیوں کی متعدد یلغاروں کا سامنا کرنا پڑا ہے،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریک ادب اسلامی کے ابتدائی ایّام میں اس کی صف میں کہنہ مشق مقام و مرتبہ رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے شامل ہونے کی زحمت گوارہ نہ کی ۔ تحریک ادب اسلامی نے اردو ادب کو بلاشبہ ایک سمت و رفتار عطا کی ہے عصر حاضر میں ترقی پسندی اور جدیدیت کے درمیان ایک تیسرا واضح اور نمایاں رجحان تعمیری ادب یا اسلامی ادب کا سامنے آیا ہے اس حلقہ سے وابستہ فنکاروں نے ہر صنف ادب میں کچھ نمایاں کوششیں ضرور کی ہیں ۔پروفیسر فروغ احمد اسلامی ادیبوں میں ممتاز مقام کے حامل ہیں ، ڈھاکہ میں رہتے ہوئے وہ اردو ادب میں اسلامی رجحانات کے فروغ میں ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ 1968ء میں ان کی ایک کتاب ’’ اسلامی ادب کا جائزہ‘‘ لاہور سے شائع ہوئی تھی جس میں اسلامی ادب کی نظریاتی اساس،اس کا تاریخی پس منظر اور اردو ادب پر اسلامی تحریکات کے اثرات پر مضامین شامل ہیں۔ اسی طرح پروفیسر اسرار حمد سہاوری نے ’’ادب اور اسلامی قدریں ‘‘ کے عنوان سے باہمی تعلق، ادب اور مقصدیت ،ادب کے اجزائے ترکیبی جذبہ و حسن ادا ، اسلامی ادب کی خصوصیات ،اسلامی ادب کے موضوع وغیرہ پر بہت تفصیل سے لکھا گیا ہے۔


 اسلامی تحقیق و تنقید کے میدان میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی شخصیت ناقابل فراموش ہے۔ آپ نے ’’اسلامی ادب‘‘ کے عنوان سے ایک مجموعہ مضامین شائع کیا جس سے پہلی بار اسلامی ادب کے خدوخال نمایاں ہوئے۔ زیر نظر کتاب ’’اردو میں اسلامی ادب کی تحریک‘‘ مہر اختر وہاب کی تصنیف ہے اس کتاب میں ان سیاسی ،تہذیبی ، دینی اور ادبی روایات کا جائزہ لیاگیا ہے جس کی روشنی میں اسلامی ادب کی تحریک نے اپنا سفر شروع کیا ۔ اسلامی ادب کی تحریک کا آغاز ، نشور وارتقاء اس کے مختلف ادوار اور اسلامی ادب کی خصوصیات وغیرہ کو اس کتاب میں زیر بحث لایا گیا ہے ۔اس تحریک کے فروغ میں محمد حسن عسکری کے کردار کو بالخصوص اجاگر کیا گیا ہے ۔نیز اس کتاب میں اسلامی ادب کی تحریک کے ردِّ عمل کا جائزہ لیتے ہوئے برصغیر کے اہم ادبیوں اور نقادوں کے اسلامی ادب پر کیے گئے اہم اعتراضات کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔یہ اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے جس میں اسلامی ادب کی تحریک پر مفصل بحث گئی ہے ۔(م۔ا)

 مطالعہ کیلے کتاب  آن لائن  دستیاب ہے  : 

معروف ادبی رسالہ نقوش کے شمارے

ڈراما کب اور کیوں وجود میں آیا ۔۔۔ ڈاکٹر اے ایم چشتی

ڈراما کب اور کیوں وجود میں آیا ؟
 ڈراما ایک ایسی کہانی ہے جو چند کرداروں کی مدد سے اسٹیج پر اسٹیج کے دیگر لوازمات کے ساتھ تماشائیوں کی موجودگی میں عملی طور پر پیش کی جاتی ہے۔ اس کہانی کا بنیادی مقصد تفکراتِ غم کا مداوا اور معاشرتی اصلاح ہے۔ لیکن سنسکرت قواعد کی رو سے ڈراما ایک ایسی نظم ہے جسے دیکھا جا سکے یا ایسی نظم جسے دیکھا اور سنا جا سکے۔(۱)

 دراصل شاعری پڑھنے اور سننے کی چیز ہے، اور ڈراما پڑھنے، سننے اور دیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حرکت و عمل ڈرامے کا بنیادی ستون ہے۔جب کوئی ادیب یا شاعر زندگی کے کسی واقعہ کو بیان کرتا ہے تو وہ ایک رہبر کی طرح ہمیں زندگی کی سیر کراتا ہے۔ لیکن جب کوئی ڈراما نویس کسی واقعہ کو پیش کرتا ہے تو وہ صرف زندگی بیان نہیں کرتا، بلکہ زندگی کو پوری شان اور آن بان سے پیش کرتا ہے۔ ایک ایسی زندگی جو چلتی پھرتی، ہنستی بولتی یا پھر نالاں و گراں، آسودہ اور تھکی ہوئی۔

 واضح رہے کہ جدید ڈراموں میں ڈراما نگار ناول یا افسانہ نویس کی طرح زندگی کی مختلف تہوں میں چھپے حالات و واقعات کو بھی پیش کرتا ہے اور ان حالات و واقعات کو حرکت و عمل کا لباس بھی زیب تن کرواتا ہے۔ جس وجہ سے ڈراما نہ صرف تفریح مہیا کرتا ہے بلکہ لوگوں کو ایجوکیٹ بھی کرتا ہے، اور مخاطبین کا نقطہ نظر بدلنے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ ڈرامے میں تفنّن، تفریح اور اصلاح کا گہرا امتزاج پایا جاتا ہے۔ یہ ایک ٹیم ورک ہے۔ اس کی تخلیق میں مصنّف، اداکار، تماشائی، اسٹیج اور اسٹیج کے دیگر لوازمات مصروفِ عمل ہوتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر قمر اعظم ہاشمی:

اردو لسانیات -- ایک تعارف - ڈاکٹر محمد حسین

( صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج کولگام کشمیر )
اردو لسانیات --ایک تعارف 

زبان سے متعلق سنجیدگی سے غور کرنے کا سلسلہ ابتدائی زمانے سے چلا آرہا ہے۔مذہبی مفکروں کے شانہ بہ شانہ اہل علم حضرات جیسے افلاطون اور ارسطو نے بھی زبان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔افلاطون کی کتاب(Cratylus) علمِ زبان کے تعلق سے پہلی کتاب تصور کی جاتی ہے۔واحد جمع‘تذکیروتانیث اور اجزائے کلام کی ابتدائی تعریفیں یونانی دانشور ارسطو سے منسوب ہیں۔ ابجدی تحریر کاآغاز بھی یونان سے ہی ہوا۔قدیم ہندوستانیوں اور عربوں نے زبان کے بارے میں کافی غوروخوض کیا۔اس سلسلے میں پاننی کی (اشٹا دھیائی) خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔

انیسویں صدی میں جرمنی میں زبانوں کے مطالعے کے سلسلے میں اہم شعبہ (Comparative Philology) سامنے آیا۔سر ولیم جونز سے اشارہ پاکر یہ شعبہ، زبانوں کے خاندانی رشتوں کی کھوج میں لگ گیالیکن ان ماہرین زبان کا طریقہ کار محض تاریخی اورکلاسیکی زبانوں تک محدود رہا۔زندہ زبانیں ان کے مطالعے کی توجہ کا مرکز نہ بن سکیں۔

زبان کے مطالعے کی سائنسی بنیادیں بیسویں صدی کے آغاز میں اس وقت شروع ہوئیں جب سویئزرلینڈ کےFeridanand de sasure) (کی کتاب منظرِ عام پر آئی۔ساسور نے پہلی بار زبان کے تقریری روپ کی جانب اہلِ علم کی توجہ مبذول کی۔دیکھتے ہی دیکھتے ماہرین لسانیات کی ایک صحت مند تحریک نے جنم لیا اور اس طرح سے جدید لسانیات کے شعبے کا قیام عمل میں آیا۔

لسانیات --تعارف اور اہمیت - ڈاکٹر رابعہ سرفراز

لسانیات -- تعارف اور اہمیت 
ایسوسی ایٹ پروفیسرشعبہ اردو

گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی فیصل آباد

لسانیات اس علم کو کہتے  ہیں جس کے  ذریعے  زبان کی ماہیت ‘تشکیل‘ارتقا‘زندگی اور موت کے  متعلق آگاہی حاصل ہوتی ہے۔زبان کے  بارے  میں  منظم علم کو لسانیات کہا جاتا ہے۔یہ ایسی سائنس ہے  جو زبان کو اس کی داخلی ساخت کے  اعتبار سے  سمجھنے  کی کوشش کرتی ہے۔ ان میں  اصوات‘خیالات‘سماجی صورتِ احوال اور معنی وغیرہ شامل ہیں ۔ لسانیات میں  زبان خاص معنی میں  استعمال ہوتی ہے۔اشاروں  کی زبان یاتحریر لسانیات میں  مرکزی حیثیت نہیں  رکھتی۔لسانیات میں  زبانی کلمات کے  مطالعے  کو تحریر کے  مقابلے  میں  زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔اس کی متعدد وجوہات ہیں ۔

۱۔انسانی تہذیب کے  ارتقا میں  انسان زبان پہلے  بولنا شروع ہُوا اور تحریر بہت بعد میں  ایجاد ہوئی۔

۲۔بچہ پہلے  بولنا شروع کرتاہے  اور بعد میں  لکھنا سیکھتاہے۔

۳۔دنیا میں  سب ہی انسان بولنا جانتے  ہیں  لیکن مقابلتاً کم لوگ لکھنا جانتے  ہیں ۔

۴۔بہت سی ایسی چیزیں  جو زبانی گفتگو میں  شامل ہوتی ہیں  ‘تحریر میں  ظاہر نہیں  کی جاتیں ۔

ابوالاعجاز حفیظ صدیقی کے  بقول:

مولانا عبد السلام ندوی کی تصنیفات

مولانا عبد السلام ندوی کی تصنیفات 

Matba Maarif, Azamgarh
1922


Matba Maarif, Azamgarh



Matba Maarif, Azamgarh
1948


ڈاکٹر سید عابد حسین کی تصنیفات

ڈاکٹر سید عابد حسین ہندوستان کے مشہور محقق، ادیب اور ڈراما نگار  25 جولائی 1896ء کو بھوپال (ہندوستان) میں سید حامد حسین کے گھر پیدا ہوئے۔   “ہندوستانی قومیت اور قومی تہذیب”، “ترکی میں مغرب و مشرق کی کشمکش” اور “قومی تہذیب کا مسئلہ” جیسی کتب کے خالق ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے “شریر لڑکا”، “پردۂ غفلت” اور “فادسٹ” جیسے شاہکار ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ آپ نے 13 دسمبر 1978 ء کو دہلی میں وفات پائی۔



Syed Mohammad Shah
1944


Maktaba Jamia Limited, New Delhi
1976


Director Qaumi Council Bara-e- Farogh-e-Urdu Zaban New Delhi
2011


گوپی چند نارنگ کی تصنیفات


گوپی چند نارنگ کی تصنیفات
گوپی چند نارنگ 11 فروری 1931ء کو ڈکی، زیریں پنجاب میں پیدا ہوئے ۔  پروفیسر گوپی چند نارنگ کو عہد حاضر کا صف اول کا اردو نقاد، محقق اور ادیب مانا جاتا ہے۔ گو کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ دہلی میں مقیم ہیں مگر وہ باقاعدگی سے پاکستان میں اردو ادبی محافل میں شریک ہوتے ہیں جہاں ان کی علمیت کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اردو کے جلسوں اور مذاکروں میں شرکت کرنے کے لیے وہ ساری دنیاکا سفر کرتے رہتے ہیں اورانہیں سفیر اردو کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ جہاں انہیں بھارت میں پدم بھوشن کا خطاب مل چکا ہے وہیں انہیں پاکستان میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا ہے۔  وہ بھارت کے سب سے اہم ادبی ادارے ساہتیہ اکادمی کے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں ۔



Niyaz Ahmad
1991


Waqar-ul-Hasan Siddiqi
2006


Bhartiya Gyanpeeth, New Delhi
2016

پروفیسر مسعود حسین خاں کی تصنیفات

پروفیسر مسعود حسین خاں کی تصنیفات
پروفیسر مسعود حسین خاں
مسعود حسین خان (28 جنوری 1919ء-16 اکتوبر 2010ء) ماہر لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سماجییات کے پروفیسر اوردہلی میں موجود مرکزی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر ہیں۔ 16 اکتوبر 2010ء کو ان کی وفات ہوئی۔

ان کا شاہکار" مقدمہ تاریخ زبان اردو"  ہے جس میں انہوں نے اردو زبان کی تاریخ اور اس کے آغاز و ارتقا پر مفصل بحث کی ہے۔ اردو زبان کے آغاز کی متعدد رجحانات اور اقوال کا انہوں نے موازنہ کیا ہے اور سب پر تنقیدی بحث کی ہے۔ اس ضمن میں ان کی یہ کتاب بہت مستند مانی جاتی ہے اور اکثریت نے ان کی تھیوری کو قبول کیا ہے۔ ان کی دوسری کتاب اردو زبان و ادب ہے جو 1954ء میں شائع ہوئی اور بام عروج کو پہونچی۔ ان کی کتب کے لئے ملاحظہ کریں - 

Shoba-e-Lisaniyat Muslim University Aligarh
1986

Shoba-e-Lisaniyat Muslim University Aligarh
1973

Shoba-e-Lisaniyat Muslim University Aligarh
1973

Iqbal Institute Kashmir University Srinagar
1983

Iqbal Institute Kashmir University Srinagar
1983

آشیاں جل گیا، گُلستاں لُٹ گیا، ہم قفس سے نِکل کر ...راز آلہ آبادی

کلامِ شاعر بزبانِ شاعر فیض احمد فیض - ﮨﻢ ﺳﺎﺩﮦ ﮨﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺗﮭﮯ، ﮐﯽ ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﭘﺬﯾﺮﺍﺋﯽ ﺟﺲ ﺑﺎﺭ ﺧﺰﺍﮞ ﺁﺋﯽ، ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮐﮧ ﺑﮩﺎﺭ ﺁﺋﯽ خصوصی پڑھنت براے آواز خزانہ ۔ لطف اللہ خان

سید احمد شاہ بخاری " پطرس" اقوام متحدہ کی گیارہویں سالگرہ کے موقع پر اردو میں تقریر سترہ اکتوبر اکتوبر انیس سو چھپن October 17، 1956

داستانِ تاریخِ اردو ؛ فورٹ ولیم کالج کا دور - پروفیسر حامد حسن قادری

ادبی تنقید کے لسانی مضمرات ۔۔۔ مرزا خلیل احمد بیگ (٭)

(۱)

یہ امر محتاجِ دلیل نہیں کہ کسی زبان میں ’تنقید‘ اس وقت معرضِ وجود میں آتی ہے جب اس زبان میں ادب کا فروغ عمل میں آ چکا ہوتا ہے۔ ادب کی تخلیق کے لیے اس کے خالق یعنی مصنف (Author) کا ہونا بھی ضروری ہے۔ مصنف، تخلیق اور تنقید یہ تینوں مل کر ایک مثلث بناتے ہیں۔ مصنف اور تخلیق کے درمیان رشتہ پہلے استوار ہوتا ہے، اور تخلیق کا تنقید (یا نقاد) کے ساتھ رشتہ بعد میں قائم ہوتا ہے۔ تخلیق کلیۃً مصنف کے تابع ہوتی ہے، یعنی کہ جیسا اور جس خیال، نظریے یا طرزِ فکر کا مصنف ہو گا ویسی ہی اس کی تخلیق ہو گی۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ادب اپنے سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہ ایک قدیم تصور ہے، اور یہ بات اس لیے درست نہیں کہ سماج خواہ کیسا بھی ہو، ادب ویسا ہی ہو گا جیسا کہ اس کے مصنف کی منشا ہو گی۔ بہت سی باتیں جو سماج میں کہیں نظر نہیں آتیں ، لیکن ادب میں ان کا وجود ہوتا ہے۔ اسی طرح بہت سی باتیں جو سماج کا حصہ ہیں ، ادب میں ان کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے یا سماج کے تابع ہوتا ہے، درست نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مصنف بھی جو سماج کا ایک فرد ہوتا ہے، سماج کے تابع (یا پورے طور پر تابع) نہیں ہوتا۔ وہ کبھی کبھی سماج سے بغاوت بھی کر بیٹھتا ہے، اس کے بنائے ہوئے اصولوں اور قاعدوں کی نفی بھی کرتا ہے، اور اس کے بندھنوں اور پابندیوں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے، کیوں کہ اس کی اپنی آئیڈیا لوجی ہوتی ہے جواس کی رہبری کرتی ہے۔

ي سیاست، اور اخلاقیات (جس کا مذہب سے گہرا تعلق ہے)، دونوں سماجی ادارے ہیں اور ہر سماج کسی نہ کسی طور پر سیاسی/ مذہبی / اخلاقی بندھنوں میں جکڑا ہوتا ہے۔ مصنف کی آزادانہ روش یا اس کی باغیانہ فکر یا آئیڈیالوجی سماجی اداروں کے نظریات اور ان کے زریں اصولوں کو صد فی صد تسلیم کرنے کی پابند نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر پریم چند کے افسانوی مجموعے ’سوزِ وطن‘(۱) کی، اور اخلاقی وجوہ کی بنا پر ایک دوسرے افسانوی مجموعے ’انگارے‘(۲) کی ضبطی عمل میں آئی تھی۔

پروفیسر ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ کی تصنیفات

Educational Book House, Aligarh
2016


Mirza Khalil Ahmad Beg
1985


Director Qaumi Council Bara-e- Farogh-e-Urdu Zaban New Delhi
2014


مغرب کے چند اسلوبیاتی نظریہ ساز- مرزا خلیل احمد بیگ کی کتاب ’تنقید اور اسلوبیاتی تنقید‘ کا ایک حصہ

لسانیات کی روشنی میں ادبی فن پارے کے مطالعے اور تجزیے کو ’اسلوبیات‘ (Stylistics)  کا نام دیا گیا ہے۔ لسانیات زبانوں کے سائنسی مطالعے کا نسبۃً ایک جدید علم ہے۔ اس شعبۂ علم کا اپنا  مخصوص طریقۂ کار ہے جسے بروئے عمل لاتے ہوئے یہ زبانوں کے مطالعے اور تجزیے کا کام انجام دیتا ہے۔ لسانیاتی طریقۂ کار کا اطلاق جب ادب کے مطالعے میں کیا جاتا ہے تو یہ مطالعہ اسلوبیات (Stylistics)  کہلاتا ہے۔ 


اسے اسلوبیاتی تنقید بھی کہتے ہیں۔ اسلوبیات اسلوب کے سائنسی مطالعے کا بھی نام ہے۔ چوں کہ ادب کا ذریعۂ اظہار زبان ہے، اس لیے اسلوب کی تشکیل و تعمیر، زبان کے اشتراک کے بغیر نا ممکن ہے۔ اسی لیے اسلوب کو ادبی فن پارے کی ان لسانی خصوصیات سے تعبیر کیا جاتا ہے جو اسے انفرادیت بخشتی ہیں اور جن کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں مصنف کی تصنیف یا تخلیق ہے۔ زبان کا بنیادی ڈھانچا اگرچہ ایک ہوتا ہے، لیکن زبان کے استعمال کی نوعیت ہر شاعر اور ادیب کے یہاں جداگانہ ہوتی ہے۔ اسی لیے ہر ادبی فن کار کا اسلوب بھی جداگانہ ہوتا ہے اور جب اس کا اسلوب اس درجہ مخصوص ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی پہچان یا شناخت بن جائے تو اسے صاحبِ اسلوب کہا جانے لگتا ہے۔