( صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج کولگام کشمیر )
اردو لسانیات --ایک تعارف |
زبان سے متعلق سنجیدگی سے غور کرنے کا سلسلہ ابتدائی زمانے سے چلا آرہا ہے۔مذہبی مفکروں کے شانہ بہ شانہ اہل علم حضرات جیسے افلاطون اور ارسطو نے بھی زبان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔افلاطون کی کتاب(Cratylus) علمِ زبان کے تعلق سے پہلی کتاب تصور کی جاتی ہے۔واحد جمع‘تذکیروتانیث اور اجزائے کلام کی ابتدائی تعریفیں یونانی دانشور ارسطو سے منسوب ہیں۔ ابجدی تحریر کاآغاز بھی یونان سے ہی ہوا۔قدیم ہندوستانیوں اور عربوں نے زبان کے بارے میں کافی غوروخوض کیا۔اس سلسلے میں پاننی کی (اشٹا دھیائی) خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔
انیسویں صدی میں جرمنی میں زبانوں کے مطالعے کے سلسلے میں اہم شعبہ (Comparative Philology) سامنے آیا۔سر ولیم جونز سے اشارہ پاکر یہ شعبہ، زبانوں کے خاندانی رشتوں کی کھوج میں لگ گیالیکن ان ماہرین زبان کا طریقہ کار محض تاریخی اورکلاسیکی زبانوں تک محدود رہا۔زندہ زبانیں ان کے مطالعے کی توجہ کا مرکز نہ بن سکیں۔
زبان کے مطالعے کی سائنسی بنیادیں بیسویں صدی کے آغاز میں اس وقت شروع ہوئیں جب سویئزرلینڈ کےFeridanand de sasure) (کی کتاب منظرِ عام پر آئی۔ساسور نے پہلی بار زبان کے تقریری روپ کی جانب اہلِ علم کی توجہ مبذول کی۔دیکھتے ہی دیکھتے ماہرین لسانیات کی ایک صحت مند تحریک نے جنم لیا اور اس طرح سے جدید لسانیات کے شعبے کا قیام عمل میں آیا۔
لسانیات، زبان کے سائینسی مطالعے کا نام ہے۔ تعلیمی نظام میں لسانیات کی سب سے بڑی دین یہ ہے کہ ا س نے زبان کی ماہیئت کے شعور کو عام کیاہے یعنی یہ بتانے کی کوشش کی ہے کی زبان کیا ہے۔زبان کواسطور کی دنیا سے نکال کر معروضیت کی روشنی میں پیش کیا۔لسانیات میں زبان کے مطالعے کے دو طریقہ کار وضع ہیں۱۔تاریخی لسانیات ۲۔توضیحی لسانیات
تاریخی لسانیات:(Historical Linguistics ): تاریخی لسانیات میں زبانوں کی تاریخ کا تفصیلی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے ان کی عہد بہ عہد تبدیلیوں کا کھوج لگایاجاتا ہے۔یہاں ان اصولوں اور قواعد کا مطالعہ کیا جاتا ہے جن کے سبب زبانوں میں مختلف قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں یہ تبدیلیاں تلفظ کے اعتبار سے بھی ہوسکتی ہے معنی کے اعتبار سے بھی ہوسکتی ہیں۔
توضیحی لسانیات: ((Discreptive Linguistics: توضیحی لسانیات میں زبان کی توضیح اس کی درج ذیل سطحوں پر کی جاتی ہے۔
۱۔ صوتیات ۲۔فونیمات یا تجزصوتیات ۳۔صرفیا ت یا مارفیمیات ۴۔ نحویات ۵۔معنیات
صوتیات:(Phonetics): اسے لسانیات کی کلید بھی کہا جاتا ہے۔زبان آوازوں کے علامتی اور تصوراتی نظام کا نام ہے۔ انسانی دہن مختلف قسم کی آوازوں کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتا ہے۔ایک آواز دوسری آوازوں سے مل کر زبانوں کو جنم دیتی ہیں۔صوتیات لسانیات کا وہ علمی شعبہء ہے جس میں انسانی اعضائے تکلم سے پیدا ہونے والی ان آوزوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو مختلف زبانوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ اس مطالعے میں آوازوں کی تشکیل، ادائیگی، ترسیل، نیز آوازوں کی ان کے مخارج اور دیگر اعتبار سے درجہ بندی کی جاتی ہے۔
۲۔سماعی صوتیات ۳۔تلفیظی صوتیات
۲۔فونیمات یا تجز صوتیات:((Phonemes: لسانیات کی یہ شاخ، کسی زبان میں کام آنے والی اہم اور تفاعلی آواز کا مطالعہ کرتی ہے۔ایک زبان میں استعمال ہونے والی آوازوں کی تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے لیکن فونیمات کی تعداد محدود اور مقرر ہوتی ہیں۔ اردو میں فونیمات کی صحیح تعداد کے بارے میں بھی علمائے لسانیات کے مابین ذرا سا اختلاف رائے پا یا جاتا ہے۔کوئی ان کی تعداد (۵۸) کوئی(۴۸) اور کوئی(۴۴) قرار دیتا ہے۔ملاحظہ کیجئے: ۱۔اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو از: گوپی چند نارنگ ۲۔ خلیل احمد بیگ از: اردو زبان کی تاریخ ۳۔اردو لسانیات کی تاریخ از: درخشاں زریں
۳۔صرفیات (Morphology ): صرفیات کو اردو میں مارفیمیات بھی کہتے ہیں۔ یہاں الفاظ کی ساخت، اس کے اصول و قواعد اور اس کے استعمال سے بحث ہوتی ہے۔زبان کی چھوٹی سے چھوٹی بامعنی اکائیوں جیسے الفاظ کی تذکیرو تانیث، ان کی تعداد، حالات و کیفیات، زمانہ اور اضداد وغیرہ کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔
۴۔نحویات(:(Syntaxنحویات، کسی زبان میں الفاظ کی مخصوص اور با معنی ترتیب کو کہتے ہیں۔ زبان میں جملوں کی ساخت اور جملوں میں لفظوں کی ترتیب کے قاعدوں کا مطالعہ نحویات کے ذیل میں آتا ہے۔مثلاً( احمد نے کھانا کھایا)۔ یہ اردو نحو کے اعتبار سے الفاظ کی صحیح ترتیب ہے۔اگر اس کے بدلے یوں کہا جائے کہ( کھانا کھایا احمد نے)تو اس کے معنی کی ترسیل پیچیدگی کا باعث بنے گی۔صرف و نحو کو ملاکر زبان کی قواعد کہا جاتا ہے۔
۵۔معنیات(:(Semenaticsلفظوں اور جملوں کے مطالب اور معانی کا مطالعہ معنیات کہلاتا ہے۔ان مطالب کا زبانوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔لفظ اور معنی کے درمیان کیا رشتہ ہے۔یہ رشتہ منطقی ہے یا علامتی۔ان سب حقائق کا کھوج علم ِ معنیات سے لگایا جاتا ہے۔
لسانیات اگرچہ اردو میں ابھی کم سن علمی شعبہ ہے لیکن اس کے ظہور نے مختصر وقت میں اردو زبان کے حق میں وہ کر دکھایا جو روایتی علم زبان سالہاسال نہ کرسکا۔اردو کی بنیاد، اس کی اصل، اس کی جائے وقوع، ہم سایہ زبانوں کے ساتھ اس کا رشتہ بالخصوص ہندی کے ساتھ اس کا بہناپا وغیرہ وغیرہ یہ اور زبان سے جڑی اہم بنیادی باتیں جو ابھی تک دھندلکے میں تھیں روشن ہوئیں۔
لسانیات میں چناچہ تقریر کو تحریر پر تقدم یعنی صوت(آواز) کو حرف پراولیت حاصل ہے۔ اس لئے پہلے اردو زبان کی صوتیات کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا ناگزیر بن جاتا ہے۔
کسی زبان کی آوازوں کا مطالعہ ہم تین زایوں سے کرتے ہیں۔ ۱۔سمعیاتی صوتیات۲۔سماعی صوتیات ۳۔تلفیظی صوتیات
مطالعے کے مندرجہ بالا تینوں طریقے کار آمد ہیں۔ لیکن پہلے دو طریقوں کے لئے مشینوں اور تجربہ گاہوں کی ضرورت ہے۔تلفیظی صوتیات میں ، انسان کے وہ اعضاء جن سے زبان کی آوازیں پیدا ہوتی ہیں، اور جنھیں ادا کرتے وقت خود بولنے والا بھی محسوس کرتا ہے کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔اس لحاظ سے تلفیظی صوتیات کا براہ راست تعلق انسانی اعضائے تکلم سے ہیں۔
قدرت نے انسان کے اعضائے تکلم علاحدہ سے نہیں بنائے ہیں بلکہ جو اعضاء کھانے پینے، سانس لینے اور چیخنے چلانے کے کام آتے ہیں وہی اعضائے نطق بھی ہیں۔
اعضائے تکلم(Organs of speech or Vocal )organs)
جن اعضاء سے زبان کی مختلف اصوات پیدا ہوتی ہیں انھیں اعضائے تکلم یا تکلمی اعضاء کہا جاتا ہے۔اعضائے تکلم کی فہرست حسبِ ذیل ہیں۔
۱۔ہونٹ ۲۔دانت ۳۔مسوڑھے ۴۔سخت تالو(تالو کا درمیانی حصہ) ۵۔نرم تالو(تالو کا پچھلا حصہ) ۶۔نوکِ زبان ۷۔زبان کا پھل ۸۔زبان کا اگلا حصہ ۹۔زبان کا درمیانی حصہ ۱۰۔زبان کا پچھلا حصہ ۱۱۔ لہات (کوّا ) ۱۲۔ناک کا راستہ۱۳۔حلق۱۴۔غشائی پردے
کسی بھی زبان میں کام آنیوالی تمام با معنی آوازوں (صوتیوں ) کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
۱۔مصوتی آوازیں یا مصوتہ(Vowels )( اردو روایتی نام:حروفِ علت):یہ وہ آوازیں ہیں جن کی ادائیگی میں پھیپھڑوں سے آنے والی ہوا بغیر کسی رکاوٹ کے منہ سے خارج ہوتی ہیں مثلاً آ۔ای۔او وغیرہ۔
۲۔مصمتی آوازیں یا مصمتہ(Consonants)(اردو روایتی نام: حروفِ صحیح)یہ وہ آوازیں ہیں جن کی ادائیگی میں پھیپھڑوں سے آنے والی ہوا منہ میں مختلف مقامات پر یا تورُک جاتی ہے یا رگڑ کے ساتھ خارج ہوتی ہے مثلاً پ۔ب۔ج۔ د۔ گ۔ر وغیرہ۔
یہاں یہ بات باور کرنا بجا ہے کہ روایتی قواعد میں ’ حرف‘ کا تصور آواز یعنی’صوت‘ پر غالب ہے اسی لئے صوت کے لئے حرف استعمال ہوا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ حرف آواز نہیں بلکہ تحریری علامت ہے۔
ہر زبان کی طرح اردو کا بھی اپنا صوتی نظام ہے اردو اگرچہ ہند آریائی زبان ہے لیکن عربی وفارسی سے گہر ا اثر لینے کے باعث اس کا صوتی نظام دیگر ہند آریائی زبانوں سے مختلف ہے اس میں خالص ہند آریائی آوازیں بھی ہیں اور خالص عربی اور فارسی آوازیں بھی۔
اردو کے تمام مصوتے پراکرت اور اس کے توسط سے سنسکرت سے ماخوذ ہیں جبکہ مصمتوں کی ایک بڑی تعداد بھی ہند آریائی ماخذسے داخل ہوئی ہے خالص عربی وفارسی مصمتے اردو میں صرف (۶ ) ہیں۔ (ق۔ف۔ز۔ژ۔خ۔غ۔)۔ان میں سے خالص فارسی(ژ) اور خالص عربی(ق) ہے اور باقی عربی فارسی مشترک ہیں۔
اردو مصوتے:
۱۔(اَ)۔۔اَب۔کب۔جب۔وغیرہ
۲۔(آ)۔۔۔آم۔کام۔نام۔دام۔۔
۳۔(اِ)۔۔اِس۔جس۔کس۔مل۔۔
۴۔(ای)۔۔جھیل۔ڈھیل۔کیل۔۔
۵۔(اُ)۔۔اُس۔سُکھ۔مُکھ۔۔۔
۶۔(اُو)۔۔نور۔حور۔دور۔۔۔
۷۔(اے)۔۔۔بیل۔ریل۔کھیل۔۔
۸۔(او)۔۔۔دو۔لو۔جو۔۔۔
۹۔(اے)۔۔ویسا۔پیسا۔ایسا۔۔۔
۱۰۔(اَو)۔۔۔سَو۔جوَ۔نَو۔۔۔۔
اردو میں دو نیم مصوتےSemi-vowels (ی) اور (و) مستعمل ہیں۔ ان کی ادائیگی میں رکاوٹ اس قدر کم ہے کہ مصوتے کے قریب ہوجاتے ہیں۔ اس لئے انھیں ’نیم مصوتہ‘ کہا جاتا ہے۔
اردو مصمتے طرزِ ادائیگیManner of Articulation)) کے اعتبار سے:
ب۔پ۔ت۔ٹ۔د۔ڈ۔ک۔گ۔ق:یہ مصمتے بندشی کہلاتے ہیں۔کیونکہ ان کی ادئیگی میں آواز کی مکمل رکاوٹ ہوتی ہے۔
بھ۔پھ۔تھ۔ٹھ۔دھ۔ڈھ۔کھ۔گھ۔جھ۔چھ۔لھ۔مھ۔نھ:یہ مصمتے ہکار کہلاتے کیونکہ ان کی ادائیگی میں تنفس کی پھسپھساہٹ شامل ہوتی ہے۔انہیں روایتی قواعد میں (مخلوط بہا) کہا جاتا ہے، لیکن یہ مصمتے مخلوط نہیں بلکہ مفردہیں یعنی( بھ) ایک ہی آواز ہے
ان میں (بھ۔پھ۔تھ۔دھ۔ڈھ۔ٹھ۔کھ۔گھ) ہکار بندشی مصمتے ہیں۔
۳۔ج۔جھ۔چ۔چھ۔۔۔نیم بندشی مصمتے ہیں۔
۴۔(ف۔س۔ز۔ش۔ژ۔خ۔غ۔ہ) صفیری مصمتے ہیں کیونکہ یہ آوازیں منہ میں جزوی رکاوٹ یا رگڑ سے پیدا ہوتی ہیں۔
۵۔(ل) یہ پہلوی مصمتہ کہلاتا ہے اس کی ادائیگی میں زبان تالو سے لگتی ہے۔
۶۔(ر۔ڑ)۔یہ ارتعاشی مصمتے ہیں ان کی ادائیگی میں زبان میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔انھیں تھپک دار مصمتے بھی کہا جاتاہے۔
۷۔(ن۔م) یہ انفی مصمتے ہیں ان کی ادائیگی میں ہوا ناک کے راستے سے خارج ہوتی ہیں۔
اردو مصمتے مقامِ ادائیگیPoints of Articulation)) کے اعتبار سے:
دولبی Bilabial) ): پ۔پھ۔ب۔بھ۔م۔ف۔و
دندانی Dental)): ت۔تھ۔د۔دھ۔ن۔س۔ز۔ر۔ل
معکوسی Retroflex)):ٹ۔ٹھ۔ڈ۔ڈھ۔ڑ۔ڑھ
حنکیPalatal)): چ۔چھ۔ج۔جھ۔ش۔ژ۔ی
غشائی: ک۔کھ۔گ۔گھ۔خ۔غ
لہاتی: ق۔ہ
مندرجہ بالا مصمتوں کی نشاندہی ان کے ماخذ کے حوالے سے یوں ہیں:
۱۔ہائیہ آوازیں Aspirsative S ounds)):بھ۔ پھ۔ تھ۔دھ۔ٹھ۔ڈھ۔چھ۔جھ۔کھ۔گھ۔ڑھ۔:(۱۱)یہ تمام آوازیں ہند آریائی ہیں۔ عربی، فارسی یا ترکی زبان سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
۲۔معکوسی آوازیں Retroflex sounds)):
ٹ۔ڈ۔ڑ۔ٹھ۔ڈھ۔ڑھ۔(۶)یہ سبھی آوازیں بھی ہند آریائی ماخذ سے اردو میں داخل ہوئی ہیں۔
۳۔ ب۔ت۔د۔ج۔ک۔م۔ن۔ل۔ر۔س۔ش۔ہ۔و۔ی۔(۱۴) یہ آوازیں ہند آریائی، عربی اور فارسی میں مشترک ہیں۔ ان کا ارتقا اردو میں ہندآریائی ماخذ سے بھی ہوا ہے اور عربی وفارسی سے بھی۔اردو میں ہند آریائی کی اور تین آوازیں بھی ہیں جو فارسی میں بھی پائی جاتی ہیں۔ پ۔ چ۔گ(۳)۔
اردو کے تمام مصوتے مسموعVoiced))ہیں۔ مسموع آوازیں وہ ہیں جن کی ادائیگی میں صوت تانتVocal cords)) میں حرکت پیدا ہو۔مصمتے علی الترتیب مسموع اور غیرمسموعvoiceles ہیں۔
مسموع:ب۔د۔ڈ۔ج۔گ۔م۔ن۔و۔ز۔ژ۔غ۔ر۔ل۔ڑ
غیر مسموع:پ۔ت۔ٹ۔چ۔ک۔ق۔ف۔س۔ش۔خ
اردو مصمتوں کی صحیح تعداد کے بارے میں ماہرین لسانیات کی الگ الگ آرائیں ہیں۔ پروفیسر نارنگ ان کی مجموعی تعداد(۳۴) پروفیسر مسعود حسین خان(۳۷) اور پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ(۳۸) مصمتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جبکہ مصوتوں کے بارے میں سبھی (۱۰) مصوتوں کی نشاندہی کرتے ہیں، سوائے ڈاکٹر عصمت جاوید کے وہ ان کی تعداد (۱۱) بتاتے ہیں دیکھئیے ان کی کتاب(نئی ار دو قواعد)یہاں یہ باقابلِ توجہ ہے مذکورہ بالا فہرست میں مندرجہ ذیل حروف شامل نہیں ہیں۔ ذ۔ض۔ ظ۔ث۔ص۔ح۔ط۔کیونکہ اردو میں ان کی کوئی علاحدہ حیثیت نہیں ان کی صوتی نمائیندگی کے لئے اردو میں دوسرے حروف موجود ہیں جیسے:
۱۔ذ، ض، ظ کے لئے (ز )
۲۔ث، ص کے لئے (س)
۳۔ح کے لئے (ہ)
۴۔ط کے لئے( ت)
ڈاکٹر مسعو د حسین خان نے انھیں (زائد حروف) ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ (ہم صوت حروف ) اور ڈاکٹر عصمت جاوید( تحرئیے) کے نام سے یاد کیا ہے۔دیکھئے:(مقالاتِ مسعود)(اردو کی لسانی تشکیل)(نئی اردو قواعد)۔
فونیمات یا تجصوتیات:Phonemes
زبان میں آواز کا بنیادی تفاعل یہ ہے کہ وہ ایک معنی کو دوسرے سے ممیز کرے۔دنیا کی کوئی زبان اپنی تمام آوازوں سے یہ کام انجام نہیں دیتی صرف وہی آوازیں جو معنوی طور سے ممتاز ہوں ’’فونیم کہلاتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ فونیم، کسی زبان کی وہ آوازیں ہیں جو امتیازِ معنی کا کام دے۔کسی زبان کے فونیم معلوم کرنے کے لئے اس زبان سے الفاظ کے ایسے جوڑے لئے جاتے ہیں جن میں ایک کلامی آواز مشترک اور ایک مختلف ہو اور دونوں الگ الگ معنی رکھتے ہوں مثلاًبل اورپل۔ان میں ’ل‘ کی آواز مشترک ہے لیکن بل کے وہ معنی نہیں جو پل کے ہیں۔ اس لحاظ سے ’ب ‘ اور’ پ ‘ اردو زبان کے دو فونیم قرارپائیں گے۔الفاظ کے یہ جوڑے لسانی اصطلاح میں ’اقلی جوڑے‘ (Minimal Pair)کہلاتے ہیں۔
اردو کے درج ذیل فونیم کی فہرست ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اپنی تصنیف ’’ اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو‘‘ میں پیش کی ہیں
مصمتی فونیم:
۱۔پ۔۔۔۔۔پال۱۳۔ ن(فاصل)۔۔۔۔نال
۲۔ ب۔۔۔۔۔بال۱۴۔ف۔۔۔۔۔۔۔۔فال
۳۔ت۔۔۔۔۔تال۱۵۔س۔۔۔۔۔۔۔۔سال
۴۔د۔۔۔۔۔۔دال۱۶۔ز۔۔۔۔۔۔۔۔۔زال
۵۔ٹ۔۔۔۔۔ٹال۱۷۔ش۔۔۔۔۔۔۔۔شال
۶۔ڈ۔۔۔۔۔۔ڈال۱۸۔خ۔۔۔۔۔۔۔۔خال
۷۔چ۔۔۔۔۔چال۱۹۔غ۔۔۔۔۔۔۔۔غال
۸۔ج۔۔۔۔۔جال۲۰۔ہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہال
۹۔ک۔۔۔۔۔کال۲۱۔ل۔۔۔۔۔۔۔۔لال
۱۰۔گ۔۔۔۔ گال۲۲۔ر۔۔۔۔۔۔۔۔رال
۱۱۔ق۔۔۔۔۔قال۲۳۔ڑ۔۔۔۔۔۔۔۔اجڑ
۱۲۔م۔۔۔۔۔مالڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اجڈ
۲۴۔ ن(واصل)ڈنکا
ن( فاصل)منکا
مصوتی فونیم:
۱۔زبرمَل
۲۔ االف مال
۳۔ زیرمِل
۴۔یمیل
۵۔ پیشمُل
۶۔اُومول
۷۔ے مِیل
۸۔ےمَیل
۹۔ و مُول
۱۰۔َ و مَول
صرفیات یا مارفیمیات Morphology)):
لفظ کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی جو معنی سے متعلق ہو’’ مارفیم’‘ کہلاتی ہے۔ڈاکٹر نذیر احمد ملک ’’مارفیم‘‘ کی تعریف یوں کرتے ہیں:
’’ مارفیم زبان کی صرفی ونحوی (قواعدی سطح پر) پر تجزئیے کی سب سے چھوٹی معنوی اکائی ہے‘‘
زبان کی صرفی و نحوی سطح پر تجزیئے کی سب سے چھوٹی معنوی اکائی جیسے کتاب اور قلم دو مختلف مارفیم ہیںجن کا معنیاتی سطح پر واضح اور متعین معنی ہیں۔ ان مارفیموں کی اگر جمع بنائی جائے تو کتاب سے کتابیں اور قلم سے قلمیں بن جائیں گی۔کتابیں اور قلمیں دو الگ الفاظ ہیں اور اپنے اندر ایک سے زیادہ کتابوں اور قلموں کا مفہوم لئے ہوئے ہیں۔ اس طرح صاف ظاہر ہے کہ۔ ایں۔کے اضافے سے کتاب اور قلم کے معنی میں اضافہ ہوگیا ہے۔اور۔ ایں۔معنیاتی سطح پر ایک الگ اکائی ہے۔جس کی صرفی و نحوی سطح پر کوئی آزادانہ حیثیت نہیں ہے لیکن ایک با معنی لسانیاتی اکائی ہے اور اپنے تفاعل کے با وصف ایک پانبد مارفیم ہے۔اس بناء پر (کتابیں ) اور (قلمیں ) دو الفاظ ہیں لیکن دو دو مارفیموں پر مشتمل ہیں جن میں ایک آزاد اور ایک پانبد مارفیم ہے۔آزاد مارفیم وہ با معنی لسانی اکائی ہے جو آزادانہ طور پر استعمال ہوتی ہیں مثلاً اردو میں ۔یس۔پانبد مارفیم ہے۔
ایک لفظ ایک مارفیم کا بھی ہو سکتا ہے اور کئی مارفیموں پر مشتمل بھی۔مثلاً اردو میں (کتاب) ایک لفظ ہے اور صرف ایک مارفیم ہے۔ (کامیابی) بھی ایک لفظ ہے لیکن تین مارفیموں کام۔یاب۔ی پر مشتمل ہیں ( کام ) ایک آزاد مارفیم ہے جب کہ (یاب) اور(ی) پانبد مارفیم ہیں۔
--------------------------
ماخذات:
۱۔ کشمیری سرمایہ الفاظ کے سرچشمے۔۔۔۔۔۔از۔ڈاکٹر نذیر احمد ملک
۲۔اردو کی تعلیم کے لسانیاتی پہلو۔۔۔۔۔۔۔۔از۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ
۳۔مقالاتِ مسعود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از۔ ڈاکٹر مسعود حسین خان
۴۔اردو زبان کی تاریخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از۔ڈاکٹر مرزاخلیل احمد بیگ
۵۔نئی اردو قواعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از۔ڈاکٹر عصمت جاوید
۶۔اردو لسانیات کی تاریخ۔۔۔۔۔۔۔۔از۔ڈاکٹر درخشاں زریں
۷۔ لسانی تناظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از۔ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ