فلسفۂ کائنات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فلسفۂ کائنات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

تاریخِ فلسفۂ مغربی، برٹرینڈ رسل

تاریخِ فلسفۂ مغربی  (History of Western Philosophy) سنہ 1945میں  لکھی گئی ،برطانوی  فلسفی برٹرینڈ رسل  کی کتاب ہے-  یہ  کتاب مغربی فلسفے  کا ،سقراطی  دور  سے قبل  سے لے بیسویں صدی کے اوائل تک،  جائزہ لیتی ہے- اگرچہ اس کتاب کو تعمیم اور بھول چوک کی  بنا پر کافی  تنقید کا  سامنا  رہا  بہرحال یہ ایک کامیاب  کتاب ہے اور اپنی  پہلی اشاعت سے اب تک شایع  ہو رہی ہے۔ جب رسل کو 1950 میں  ادب کا نوبل انعام  دیا  گیا تو  کچھ حوالوں کے مطابق یہ  کتاب اس  انعام کی ایک وجہ بنی-اس  کتاب نے  رسل کو  اپنی زندگی کے  آخری حصّے  میں  مالی تحفظ بھی فراہم  کیا -


پس منظر

یہ کتاب دوسری عالمی جنگ  کے دوران  لکھی گئی، جو تاریخِ فلسفہ کی  لیکچر سیریز پر مبنی تھی، جو  رسل نے بارنس فاؤنڈیشن کے لیے   فلاڈیلفیا  میں 1941اور 1942 میں دیے-   تاریخی تحقیق کا بیشتر کام   رسل کی تیسری بیوی پیٹریسیا  نے  سر انجام دیا - 1943  میں، رسل کو ایک پبلشرکی جانب سے    پیشگی3000  ڈالر  موصول ہوئے اور تبھی  1943 اور 1944 میں انہوں نے یہ کتاب برنمار  کالج  میں رہتے ہوئے مکمل  کی،  جو  1945 میں امریکا اور 1946 میں برطانیہ  میں شایع ہوئی- 1961 کے 'نئے ایڈیشن' میں کوئی نیا مواد شامل نہیں  کیا گیا، ہر چند کہ برطانوی  ایڈیشن میں تصحیح اور معمولی نظرِ ثانی کی گئی تھی  جب کہ  امریکی  ایڈیشن میں  کچھ  نہیں  بدلہ  گیا تھا، یہاں تک  کہ  سپینوزا  کی تاریخ  پیدائش بھی غلط ہی  شایع  کی گئی -

متن 
کتاب کے متن کو تین حصّوں میں، جب کہ  ہرحصے  کو  بیشتر بابوں میں تقسیم کیا گیا ہے -  ہر  باب  ایک  فلسفی،  ایک  فلسفی سوچ یا  دور  پر  مبنی ہے -

قدیم فلسفہ

پیش از سقراط   (بشمول تالس،  فیثاغورث ،  هراکلیتوس،  بارامانیاس،  امپی دوکلیز،  اناکسی مینس،  اناکسا غورث،  لئوکیپوس،  دی مقراطیس  اور پروتاغوراث)
سقراط، افلاطون اور ارسطو
قدیم فلسفہ  پس از ارسطو (سمیت الساخرين، المتشككين، أبيقوري ،رواقیون اور أفلوطين)

کیتھولک فلسفہ

پادری (The Fathers) نام کے باب میں  یہودی اور  اسلامی  فلسفے کو شامل کرتے ہوئے  سینٹ ایمبروز، سینٹ جیروم، سینٹ آگسٹائن، سینٹ بینیڈکٹ اور پوپ گریگوری  کا  ذکر کیا  گیا ہے -
"سکول من " (The Schoolmen) کے باب میں جون  دا  سکوٹ اور تھامس آکویناس پر بحس  شامل کی گئی  ہے -

جدید فلسفہ

نشاۃ ثانیہ سے   ہیوم  تک  (From the Renaissance to Hume)  (بشمول ماکیاولی   ، ایراسمس،  مور،  بیکن، ھوبس ،  رینے دیکارت،  سپینوزا،  لائیبنز،  لوکی،  برکلے اور ہیوم) کا  ذکر ہے -* "روسو سے موجودہ دور تک" ( From Rousseau to the present Day) میں    (سمیت روسو،  کانٹ،   ہیگل،   بائرن،   نٹشے  ،  شوپنهاور ، افادیت پسندوں  ، مارکس،  برگسن ، ولیم جیمز اور جان ڈیوی) کا  ذکر ہے -
آخری باب میں فلسفۂ  منتقی    کا  تجزیہ  رسل  کی اپنی  فکر کا عکاس  ہے -
رد عمل اور بعد کے حالات
 مبصرین کے  ملے جلے رجحان کے باعث   رسل کچھ  مایوس رہے - راجر سکرٹن  لکھتے ہیں کہ کتاب کو زیبا اور دلچسپ انداز   میں  لکھا گیا ہے مگرکتاب  میں  زیادہ  توجہ   دکارتی فلسفے سے  پہلے دور پر دی گئی ہے -  کانٹ  پر لکھے جانے والے مواد میں تعمیم  اور بھول چوک صاف ظاہر ہے - ۔

کائنات میں تارے زیادہ یا ساحلوں پر ریت کے ذرے؟

تارے گننا یا اختر شماری انسانی فطرت کا خاصہ رہا ہے اور شاعروں نے نیند اور محبوب کے انتظار کو اخترشماری سے تعبیر کیا ہے۔

رات کے وقت جب آسمان پر نظر جائے اور نیند نہ آئے تو تارے گن گن کر راتیں گزارتی جاتی ہیں، ساتھ ہی ساتھ دل میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ 'آخر اس کائنات میں کتنے تارے ہوں گے؟'

امریکی ماہر فلکیات کارل سیگن نے کہا تھا کہ زمین کے تمام ساحلوں پر ریت کے جتنے ذرے ہیں کائنات میں اس سے کہیں زیادہ تارے ہیں۔

لیکن کیا ان کا یہ دعویٰ درست ہے یا کیا کائنات میں پھیلے تاروں کو شمار میں لایا جا سکتا ہے؟

کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرِ فلکیات پروفیسر گیری گِلمور ہماری کہکشاں میں موجود ستاروں کی گنتی کر رہے ہیں۔

پروفیسر گیری گِلمور اس پروجیکٹ کی قیادت کر رہے ہیں جس کے تحت یورپی خلائی جہاز کے ذریعہ ہماری کہکشاں میں تاروں کی گنتی کی جا رہی ہے۔

پانی ، بارش ، قرآن اور سائنسی تحقیقات

 ارشاد باری تعالی ہے : 

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ   (الانبیاء : 30 )  " اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا "

پانی ایک بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ مائع ہے۔ یہ تمام حیات کے لیے نہایت اہم ہے۔ پانی نے کرۂ ارض کے ٪70.9 حصّے کو گھیرا ہوا ہے۔
سائنس دان کے مطابق  پانی کیمیائی طور پر یہ ایک ایٹم آکسیجن اور دو ایٹم ہائیڈروجن سے مل کر بنا ہے۔

قرآن کے ایک ہزار سے زیادہ آیات جدید سائنس کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اور اس میں بیسیوں آیات صرف آبیات  یعنی بانی کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آبیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطامبقت رکھتی ہے۔ [ قرآن اور جدید ساینس،"  ڈاکٹرذاکر نائیک، صفحہ 16، اور "  قرآن، بائبل اور جدید ساینس،" : ڈاکٹرمارس بوکائے، صفحہ 125]

قرآن کے مطابق کائنات کی وسعت

" کائنات اتنی وسیع اور اتنی عظیم ہے کہ کوئی بھی شخص ہوش و حواس کے ساتھ یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ اس کو خدا کے سوا کسی اور نے بنایا ہے۔ مگر اس حقیقت کو ماننے کے باوجود انسان کا حال یہ ہے کہ وہ خدا کے سوا دوسری چیزوں کو عظمت کا مقام دیتا ہے۔ یہی وہ غیر معقول رویہ ہے جس کا دوسرا نام شرک ہے۔ خدا کی عظمت اس سے زیادہ ہے کہ وہ لفظوں میں بیان کی جا سکے۔ 

قرآن اور فلسفیانہ تجسُّس

ارشاد باری تعالی ہے "آگاہ رہو! آسمان کے بسنے والے ہوں یا زمین کے، سب کے سب اللہ کے مملوک ہیں۔  اور جو لوگ اللہ کے سوا ﴿ اپنے خود ساختہ﴾ شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نرے وہم و گمان کے پیرو ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں ۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا۔ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ﴿ کھلے کانوں سے پیغمبر کی دعوت کو﴾ سنتے ہیں۔ (سورۃ یونس : 66، 67) 

سید ابوالاعلی مودودی ؒ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں " یہ ایک تشریح طلب مضمون ہے جسے بہت مختصر لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ فلسفیانہ تجسّس، جس کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ اس کائنات میں بظاہر جو کچھ ہم دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اس کے پیچھے کوئی حقیقت پوشیدہ ہے یا نہیں اور ہے تو وہ کیا ہے، دنیا میں ان سب لوگوں کے لیے جو وحی و الہام سے براہ راست حقیقت کا علم نہیں پاتے، مذہب کے متعلق رائے قائم کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ 

کوئی شخص بھی خواہ وہ دہریت اختیار کرے یا شرک یا خدا پرستی، بہرحال ایک نہ ایک طرح کا فلسفیانہ تجسّس کیے بغیر مذہب کے بارے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ اور پیغمبروں نے جو مذہب پیش کیا ہے اس کی جانچ بھی اگر ہو سکتی ہے تو اسی طرح ہو سکتی ہے کہ آدمی، اپنی بساط بھر، فلسفیانہ غور و فکر کر کے اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ پیغمبر ہمیں مظاہرِ کائنات کے پیچھے جس حقیقت کے مستور ہونے کا پتہ دے رہے ہیں وہ دل کو لگتی ہے یا نہیں۔ 

اس تجسّس کے صحیح یا غلط ہونے کا تمام تر انحصار طریق تجسّس پر ہے۔ اس کے غلط ہونے سے غلط رائے اور صحیح ہونے سے صحیح رائے قائم ہوتی ہے۔ اب ذرا جائزہ لے کر دیکھیے کہ دنیا میں مختلف گروہوں نے اس تجسّس کے لیے کون کون سے طریقے اختیار کیے ہیں :

مشرکین نے خالص وہم پر اپنی تلاش کی بنیاد رکھی ہے۔

اشراقیوں اور جو گیوں نے اگرچہ مراقبہ کا ڈھونگ رچایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ہم ظاہر کے پیچھے جھانک کر باطن کا مشاہدہ کرلیتے ہیں، لیکن فی الواقع انہوں نے اپنی اس سراغ رسانی کی بنا گمان پر رکھی ہے۔ وہ مراقبہ دراصل اپنے گمان کا کرتے ہیں، اور جو کچھ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نظر آتا ہے اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ گمان سے جو خیال انہوں نے قائم کرلیا ہے اسی پر تخیل کو جما دینے اور پھر اس پر ذہن کا دباؤ ڈالنے سے ان کو وہی خیال چلتا پھرتا نظر آنے لگتا ہے۔

اصطلاحی فلسفیوں نے قیاس کو بنائے تحقیق بنایا ہے جو اصل میں تو گمان ہی ہے لیکن اس گمان کے لنگڑے پن کو محسوس کر کے انہوں نے منطقی استدلال اور مصنوعی تعقل کی بیساکھیوں پر اسے چلانے کی کوشش کی ہے اور اس کا نام ”قیاس“ رکھ دیا ہے۔

سائنس دانوں نے اگرچہ سائنس کے دائرے میں تحقیقات کے لیے علمی طریقہ اختیار کیا ہے، مگر مابعد الطبیعیات کے حدود میں قدم رکھتے ہی وہ بھی علمی طریقے کو چھوڑ کر قیاس و گمان اور اندازے اور تخمینے کے پیچھے چل پڑے۔

پھر ان سب گروہوں کے اوہام اور گمانوں کو کسی نہ کسی طرح سے تعصب کی بیماری بھی لگ گئی جس نے انہیں دوسرے کی بات نہ سننے اور اپنی ہی محبوب راہ پر مڑنے، اور مڑ جانے کے بعد مڑے رہنے پر مجبور کردیا ۔

قرآن اس طریق تجسّس کو بنیادی طور پر غلط قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم لوگوں کی گمراہی کا اصل سبب یہی ہے کہ تم تلاش حق کی بنا گمان اور قیاس آرائی پر رکھتے ہو اور پھر تعصب کی وجہ سے کسی کو معقول بات سننے کے لیے بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ اسی دہری غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ تمہارے لیے خود حقیقت کو پا لینا تو ناممکن تھا ہی، انبیاء علیہم السلام کے پیش کردہ دین کو جانچ کر صحیح رائے پر پہنچنا بھی غیر ممکن ہوگیا۔

اس کے مقابلہ میں قرآن فلسفیانہ تحقیق کے لیے صحیح علمی و عقلی طریقہ یہ بتاتا ہے کہ پہلے تم حقیقت کے متعلق ان لوگوں کا بیان کھلے کانوں سے، بلاتعصب سنو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم قیاس و گمان یا مراقبہ و استدراج کی بنا پر نہیں بلکہ ”علم“ کی بنا تمہیں بتا رہے ہیں کہ حقیقت یہ ہے۔ 

پھر کائنات میں جو آثار (باصطلاح قرآن ”نشانات“) تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آتے ہیں ان پر غور کرو، ان کی شہادتوں کو مرتب کر کے دیکھو، اور تلاش کرتے چلے جاؤ کہ اس ظاہر کے پیچھے جس حقیقت کی نشاندہی یہ لوگ کر رہے ہیں اس کی طرف اشارہ کرنے والی علامات تم کو اسی ظاہر میں ملتی ہیں یا نہیں۔ اگر ایسی علامات نظر آئیں اور ان کے اشارے بھی واضح ہوں تو پھر کوئی وجہ نہیں تم خواہ مخواہ ان لوگوں کو جھٹلاؤ جن کا بیان آثار کی شہادتوں کے مطابق پایا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔ یہی طریقہ فلسفہ اسلام کی بنیاد ہے جسے چھوڑ کر افسوس ہے کہ مسلمان فلاسفہ بھی افلاطون اور ارسطو کے نقش قدم پر چل پڑے۔

قرآن میں جگہ جگہ نہ صرف اس طریق کی تلقین کی گئی ہے، بلکہ خود آثار کائنات کو پیش کر کر کے اس سے نتیجہ نکالنے اور حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی گویا باقاعدہ تربیت دی گئی ہے تاکہ سوچنے اور تلاش کرنے کا یہ ڈھنگ ذہنوں میں راسخ ہوجائے۔ 

چنانچہ اس آیت میں بھی مثال کے طور پر صرف دو آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، یعنی رات اور دن۔ یہ انقلاب لیل و نہار دراصل سورج اور زمین کی نسبتوں میں انتہائی باضابطہ تغیر کی وجہ سے رونما ہوتا ہے۔ یہ ایک عالمگیر ناظم اور ساری کائنات پر غالب اقتدار رکھنے والے حاکم کے وجود کی صریح علامت ہے۔ 

اس میں صریح حکمت اور مقصدیت بھی نظر آتی ہے کیونکہ تمام موجودات زمین کی بےشمار مصلحتیں اسی گردش لیل و نہار کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس میں صریح ربوبیت اور رحمت اور پروردگاری کی علامتیں بھی پائی جاتی ہیں کیونکہ اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ جس نے زمین پر یہ موجودات پیدا کی ہیں وہ خود ہی ان کے وجود کی ضروریات بھی فراہم کرتا ہے۔

 اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالمگیر ناظم ایک ہے، اور یہ بھی کہ وہ کھلنڈرا نہیں بلکہ حکیم ہے اور با مقصد کام کرتا ہے، اور یہ بھی کہ وہی محسن و مربی ہونے کے حیثیت سے عبادت کا مستحق ہے، اور یہ بھی کہ گردش لیل و نہار کے تحت جو کوئی بھی ہے وہ رب نہیں مربوب ہے، آقا نہیں غلام ہے۔ ان آثاری شہادتوں کے مقابلہ میں مشرکین نے گمان و قیاس سے جو مذہب ایجاد کیے ہیں وہ آخر کس طرح صحیح ہو سکتے ہیں ۔

( تفہیم القرآن ، سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :65، سید ابوالاعلی مودودی ؒ )

کائنات کی تخلیق اور قرآن مجید!


کائنات کی تخلیق اور قرآن مجید!


ڈاکٹر عطا الرحمان
وقت رواں کے ساتھ جیسے سائنسی علوم میں وسعت ہورہی ہے ویسے کائنات کی تخلیق میں ان اہم عناصر کا کردار عیاں ہوتا جارہا ہے جن کے بغیرکائنات کا وجودممکن نہیں ہو تا۔ مثال کے طور پر ایک جاندار خلیے کا پیچیدہ نظام انسانی عقل ودانش کو دنگ کرنے کیلئے کافی ہے۔ بلا شبہ انسانی دماغ ازخود کائنات کا پیچیدہ ترین جز ہے ۔ ہمارے دماغ میںتقریباً سو ارب ایسے خلیے ہیں جو عصبونات (neurons) کہلاتے ہیں اور ہر عصبون (neuron) دس ہزاردوسرے عصبونات سے منسلک ہوتاہے۔ یعنی سو ارب ضرب دس ہزار ایسے راستے ہیں جن پر عصبون میں ربط کے ذریعے خیالات سفر کرتے ہیں۔یہ نہایت پیچیدہ نظام معلومات کو پہنچانے اور آپس میں رابطے کا سبب بنتاہے ۔ لیکن ایک بڑا سوال یہ ہے کہ خیالات کی سالمیاتی بنیادکیا ہے؟ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ خیالات کی دراصل ایک مادی حیثیت ہوتی ہے اور یہ بھی جوہروں اور سالموں سے وجود میں آتے ہیں۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ خیالات اور فکر کے پیچھے کونسے کیمیائی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ انہیں عوامل کے بارے میں ابھی حال ہی میں، ا مریکی جریدے نیورو سائنس(Neuro Science) میں میرے دو مقالے شائع ہوئے ہیں۔ جدید سائنس کے مطابق کائنات کی تخلیق کی ابتداء حالت اکایت (state of singularity) سے آج سے 13.8 ارب سال پہلے ایک انفجار عظیم (big bang) کے نتیجے میں شروع ہوئی۔ انٰفجار عظیم کا تصور بیلجیم (Belgium) کے ایک سائنسدانGeorges Lemaitre نے تقریباً سو سال پہلے پیش کیا تھا جو کہ کیتھولک جامعہ (Catholic University) کے ایک پادری تھے۔ اور وہ ماہرین فلکیات اور طبعیات کے پروفیسر بھی تھے۔ ان کے مطابق پوری کائنات ایک اکائی کی شکل میں ایک نقطے پر مرکوز تھی اور پھر ایک بہت عظیم دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ در حقیقت اس نظرئیے کا ذکر قرآن مجید میں پہلے ہی سے مو جود ہے کہ ایک اکائی سے کائنات بہت بڑے دھماکے کے ذریعے وجود میں آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’ ’ کیا وہ کفار نہیں جانتے کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے انہیں پھاڑ کر جدا کر دیا‘‘ (سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 30)۔کیاGeorges Lemaitre نے یہ اندازہ قرآن کی اس آیت سے لگایا جو کہ آج سے37 14 سال پہلے نازل ہوئی ؟
(University Johannes utenberg) جو کہ شہرمینز (Mainz) جرمنی میں واقع ہے وہاںکے ڈاکٹر الفریڈکارنر جو کہ ایک معروف ماہر ارضیات تھے وہ اس حقیقت پر مندرجہ ذیل الفاظ میں تبصرہ کرتے ہیں ’’ذرا سوچئے محمدﷺکو اس زمانے میں یہ علم کیسے ہوا ،یہ ناقابل یقین ہے کیونکہ سائنسدانوں نے تو یہ معلوما ت ابھی چند سال پہلے ہی حاصل کی ہیں وہ بھی نہایت پیچیدہ اور جدید تکنیکی طریقوں کے ذریعےـ‘‘۔ ان الفاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور قرآن مجید کی حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔
ابتدائی دھماکے کے نتیجے میں توسیع کے بعد کائنات آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوئی اور نیم جوہری ذرات پر مشتمل ایک دھوئیں دار مواد کو جنم دیا جو بالآخر سادے جوہروں (atoms) میں تبدیل ہوئے۔یہ دھوئیں کے دیوقامت بادل کشش ثقل کی وجہ سے آخر کارستاروں اور کہکشاؤں میں تبدیل ہو گئے۔کہکشاؤں کے ’’ دھوئیں ‘‘ جیسے مادے سے تشکیل کا ذکر بھی قرآن پا ک کی سورہٗ دخان میں ہے’’ پھر اس نے کائنات میں تبدیل کردیا جب وہ دھواں تھا‘‘ (القر آن 41:11 )
رابن کولنز کائنات کی تخلیق کے سلسلے میں اپنے ایک مقالے بعنوان ’’The Fine Tuning Design Argument‘‘ میں بیان کرتے ہیں ’’فرض کریں کہ ہم مریخ پر کسی خلائی مہم پر جاتے ہیں جہاں ہمیں ایک گنبد نما کو ئی جگہ ملتی ہے جس کے اندر ہر چیز بالکل صحیح ترتیب میں موجودہو جو کہ زندگی کیلئے بالکل مناسب ہو یعنی حرارت 70درجہ فارن ہائٹ ہو، نمی 50% ہو ، اسکے علاوہ آکسیجن کا گردشی نظام ہو، توانائی کا اجتماع نظام ہو ، اور مکمل خوراک کا پیداواری نظام ہو، بلکہ اسے اور سادہ لفظوں میں لے لیں کہ یہ گنبد نما جگہ ایک جیتا جاگتا مکمل کام کرتا ہو ا حیاتیاتی نظام ہو ۔ آپ کے خیال میں اس سیارے پر اس قسم کی جگہ کو دیکھ کر کوئی کیا نتیجہ اخذ کرے گا؟ کیا ہم یہ سمجھیں گے کہ یہ سب محض اتفاقیہ وجود میں آگیا ہوگا؟ یقینانہیں، بلکہ ہم بلامبالغہ یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ یہ ضرور کسی ذہین عقل کا کارنامہ ہے۔ ہم ایسا کیوں سوچیں گے؟ کیونکہ ایک ذہین تخلیق کار ہی اس قسم کے وجود کی مو جودگی کی وجہ ہو سکتا ہے ـ‘‘ ۔وہ مزید بیان کرتے ہیں ’’ طبعیات میں حالیہ دریافتوں کے مطابق یہ بات طے ہوگئی ہے کہ کائنات کی تخلیق محض کوئی حادثہ نہیں ہو سکتی بلکہ ایک نہایت سمجھدار’’حیاتیاتی نظامـ‘‘ کے مطابق وجود میںآئی ہے ‘‘۔ اور یہ سب محض اتفاق نہیں ہوسکتا کیونکہ کائنات کے تقریباً تمام بنیادی اصول و قوانین نہایت باریک بینی سے بنائے گئے ہیں تاکہ زندگی وجود میں آسکے۔
کائنات کی موجودہ صورت میں تشکیل کیلئے بہت سے عالمگیر طبعیاتی دائم کا خاص مقدار میں ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ کہکشاؤں کی تشکیل، سیاروں کے ابھرنے اور کائنات میں حیات کا وجود ان کے بغیر ناممکن تھا۔ کائنات پر زندگی صرف اسی وقت قائم رہ سکتی ہے جب کچھ مخصوص بنیادی عالمگیر طبعیاتی دائم صرف ایک خاص رقم و میزان میںواقع ہوں ۔ اگر ان میں ذرہ برابر بھی فرق ہوتا تویہ توازن نہیں قائم ہوتااورکائنات کا وجود اور پھر اس میںزندگی کا وجود ممکن نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر اگر انفجار عظیم (big bang) کے دھماکے کی قوت میں نہایت ہی کم فرق ہوتا یعنی ایک بٹا ارب ، ارب ، ارب، ارب، ارب، ارب کروڑ حصّہ کمی آتی تو کائنات کی تخلیق ہی نہ ہو پاتی یا تو یہ خود اپنے آپ میں ہی سمٹ جاتی ، یا اس قدر تیزی سے وجود میں آتی کہ ستارے تخلیق ہی نہ ہو پاتے ، اس کے وجود کیلئے ایک خاص اور بالکل درست توانائی کی مقدار کی ضرورت تھی۔اس کا موازنہ پستول سے نکلی ایسی گولی سے بھی کیا جاسکتا ہے جسکاآپ ایسا صحیح نشانہ لگائیں کہ جس شے پر آپ نشانہ لگا رہے ہیںوہ صرف ایک انچ کے برابر ہو اور وہ ہماری کائنا ت کے دوسرے سرے پر ہویعنی فاصلہ ہدف پچاس ارب نوری سال کے برا بر ہو۔ یہ تقریباً ناممکن ہے بالکل اسی طرح اگر کشش ثقل کی قوت مطلوبہ توازن سے ذرا سی بھی کم یا زیادہ ہو جاتی تو زندگی کو برقرار رکھنے کے ستارے مثلاًسورج کا وجود ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ اور جس زندگی کو ہم جانتے ہیں اس کا وجود ناممکن ہو جا تا ۔ اسی طرح وہ قوت جو کہ پروٹون اور نیوٹرون مضبوط جوہری قوت جوہرمیں یکجا رکھتی ہے ۔اپنی موجودہ مقدار سے ذرہ برابر بھی مختلف ہوتی تو زندگی ناممکن ہو جاتی۔ یہی دلائل دیگر طبعیاتی توازن کیلئے ہیں (جیسا کہ برقی و مقناطیسی قوت، پروٹون کے مقابلے میں نیوٹرون کا وزن وغیرہ)۔ ان سب کو نہا یت باریکی اور تفصیل کے ساتھ تخلیق دیا گیا ہے تاکہ کہکشائیں وجود میں آسکیں اورپھرکرہ ارض پر زندگی نمودار ہو سکے ۔
ان تمام عوامل کا انتہائی باریکی کے ساتھ جو توازن موجود ہے وہ محض اتفاق نہیں ہو سکتاجیسا کہ کشش ثقل کی بدولت ستاروں اور سیارو ں کا آپس میں قریب آنا اور سیاہ توانائی کا اسکے برعکس انہیں پرے کرنا، ان کے بارے میں سورۃٗ رحمان میں ذکر ہے ’’ میزان (توازن) تمام زمین اور آسمانوں میں رکھاگیا ہے‘‘
لامذہب لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ہماری کائنات صرف اربوں کھربوں حادثات کے تسلسل کے نتیجے میں وجود میںآ ّئی ہے۔ حتیٰ کہ اس بنیا دی عالمگیر طبعیاتی دائم کو جھٹلانے کیلئے وہ اس حد تک بھی چلے جاتے ہیں کہ ان کے مطابق یہ ممکن ہے کہ ایسی ان گنت کائناتیں ہونگی اور ایسے بنیا دی عالمگیر طبعیاتی دائم صرف ہماری کائنات میں اتفاقیہ طور پر موجود ہیں اور دیگر کائناتوں میں ان کا ہونا ضروری نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق ہم محض درست کائنات میں ہیں جہاںپرتمام عوامل اور اصول نہایت درستگی کے ساتھ اتفاقیہ طورپر موجو ہیں۔ اسی طرح اتفاقیہ طور پر ہم درست سیاّرے پر موجود ہیں جہاں پانی اور دیگر عناصر موجود ہیں۔یہ جواہر صرف حادثاتی طور پرآپس میںجڑ ے گئے اورحیات کے سالمے (امینو ایسڈ اور نیوکلک ایسڈ وغیرہ) اتفاقیہ طور پر تخلیق ہوئے۔یہ مردہ سالمے اپنی مماثلت کے سالموں کو پہچان کر پھر حادثاتی تسلسل سے جڑتے گئے اور بالآخر ہم انسان وجود میں آئے۔ ایسے مسلسل اتفاقات کو کوئی عقل مندشخص قبول نہیں کرسکتا۔

(آن لائن حوالہ : http://www.dunyapakistan.com/103132/#.WmG5HryWbZ6)

کائنات

کائنات


کائنات کی تعریف سادہ الفاظ میں تو یوں کی جاسکتی ہے کہ وہ سب کچھ جو موجود ہے وہی کائنات ہے۔ اور بنیادی طور پر دو ہی چیزیں ہیں جو موجود کے دائرے میں آتی ہیں 1- مادہ اور 2- توانائی، لہذا کائنات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ تمام مادے اور توانائی کو ملا کر مشترکہ طور پر کائنات کہا جاتا ہے۔ گو عموما کائنات سے مراد اجرام فلکی اور انکے مابین موجود فضائیں اور انکے مربوط نظام لی جاتی ہے جو قدرت کی طرف سے بنائے گئے ہیں مگر درحقیقت کائنات میں وہ سب کچھ ہی شامل ہے جو موجود ہے۔ بعض اوقات اس لفظ کا استعمال انسانی حیات اور اس سے متعلقہ چیزوں کے لیے بھی کیا جاتا ہے اور یہاں بھی اس سے مراد ہر موجود شے کی ہوتی ہے ، یہاں تک کہ انسانی تجربات اور خود انسان بھی اس دائرے میں آجاتے ہیں۔
علم الکائنات کی تعریف کے مطابق کائنات کی تعریف یوں بھی کی جاتی ہے کہ : کائنات؛ ذرات (particles) اور توانائی کی تمام موجودہ اقسام اور زمان و مکاں (space time) کا وہ مجموعہ جس میں تمام عوامل و واقعات رونما ہوتے ہیں۔ کائنات کے قابل مشاہدہ حصوں کے مطالعے سے حاصل ہونے والے شواہد کی مدد سے طبیعیات داں اس کل زمان و مکاں اور اس میں موجود مادے اور توانائی اور اس میں رونما واقعات کے کل مجموعے کو ایک واحد نظام کے تحت تصور کرتے ہوئے اسکی تشریح کے لیے ریاضیاتی مثیل (mathematical model) کو استعمال کرتے ہیں۔
آغاز
آغاز کائنات کے بارے میں دنیا میں ہر زمانے مختلف اور متضاد نظریے ہیں ۔ اس دنیا میں لا تعداد مذاہب کے نظریات بھی شامل ہیں اور فلسفیوں کے نظریات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سائنسی نظریات بھی شامل ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے یہ سب کائنات کی تخلیق پر یقین رکھتے ہیں ۔ یعنی یہ کائنات عدم سے وجود میں آئی اور پہلے کچھ نہیں تھا ۔ خدا نے چاہا کہ وہ جانا جائے، چنانچہ اس نے کائنات کی تخلیق کی ۔ اس نے کہا ہوجا اور کائنات وجود میں آگئی۔ زمین اور آسمان سات دن میں تخلیق ہوئے ۔ ایسے بہت سے نظریات ہیں جن کا ماحاصل یہ ہے کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔ اس میں یہ بحثیں بھی شامل ہیں کہ کائنات میں خدا جاری و ساری ہے، وہ روح کائنات ہے یا اس سے ماورا۔ اسلامی تصورات کے مطابق خدا کائنات سے وراہ الورا ہے۔ لیکن فلسفہ وحدت الوجود نے اس دوئی کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔

بعض دیو مالاؤں میں زمین کو ازل سے تسلیم کیا گیا ہے، گو زندگی کی تخلیق کا تصور بھی اس کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ سائنس بھی ابھی تک کائنات کے کسی بھی حتمی نظریے کا مادی ثبوت پیش نہیں کر سکی ہے ۔ ابتدا سائنس کے لےے ابھی تک حتمی طور پر یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔ ماضی کی جستجو جہاں تک بھی انسانی تحقیق ممکنہ طور پر پہنچی ہے بہر کائنات موجود ہے۔
سائنسی نظریہ
کائنات خود کیا ہے؟ اس کی حدود ثفور ہیں یا یہ لامحدود ہے؟ آیا اس کا کوئی آغاز و انجام ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کے بارے ہمارا علم کہاں تک جاتا ہے اور اگر نہیں ہے اس کی ازلیت و ابدیت کو سائنس کے کن اصولوں کے تحت ثابت کریں گے؟ اس سلسلے میں جدید فلکیات کا کاسمولوجی میں دو متضاد سائنسی نظریے پیش کئے گئے ہیں۔ ایک عظیم دھماکے بگ بین کا نظریہ اور دوسرا یکسانی حالت کا نظریہ۔ یکسانی حالت کے نظریے کے تحت کائنات ہمیشہ سے یکساں حالت میں ہے، جس میں مادہ کی اوسط گنجانی فاصلے یا وقت کے فرق سے گھٹتی بڑھتی نہیں بلکہ یکساں رہتی ہے۔ مادہ خلا میں مسلسل پیدا ہو رہا ہے۔ گو کہ اجزام فلکی دور سے دور جارہے ہیں اور کائنات پھیل رہی ہے۔ س نظریہ پر جدید سائنسی دریافتوں کے ذریعہ اعتراضات ہو چکے ہیں کہ اس کی صداقت شک و شبہ سے بالاتر نہیں رہی ہے۔
عظیم دھماکا ’ بگ بین ‘ کے نظریہ کے مطابق پہلے کائنات کا تمام مادہ ایک انتہائی گنجان نقطہ ( ایٹم ) میں مرکوز تھا، جو آج سے دس بارہ سے لے کر بیس ارب سال پہلے کسی وقت ایک اعظیم دھماکے سے پھٹ گیا ۔ جس سے مادہ ہر سمت بکھرنا شروع ہو گیا ۔ تب سے کائنات پھیل رہی ہے۔ جس وقت دھماکا ہوا اسے کونیاتی وقت کا ’ لمحہ صفر ‘ شمار کیا جاتا ہے اور تب سے کائنات پھیل رہی ہے۔ آہستہ آہستہ اس موجود گرم مادہ کم گنجان ہوتا گیا اور ٹھنڈا بھی ۔ اس نظریہ کے کائناتی مفکرین نے کونیاتی ادوار بھی بتائے ہیں، جن میں کائنات کے رویئے کی تاریخ رقم و مرتب کرنے کی کوشش کی ہے اور اجزام فلکی کی پیڑھیاں بنائی ہیں۔ ایک دور میں اجزام فلکی کی ایک نسل پروان چڑھی، عمر طبعی گزاری اور ختم ہوگئی، پھر دوسری مرتبہ اور پھر تیسری مرتبہ اور یہ عمل مسلسل۔

عظیم دھماکے ’ بگ بین ‘ کا نظریہ سب سے پہلے 1930میں پیش کیا گیا تھا ۔ اب تک اس پر دنیا بھر میں تحقیق ہوچکی ہے اور ان تحیقات سے بھی اس نظریہ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوا۔ لیکن اس پر جو اعترض کیئے گئے۔ ان کے ہر اعتراض کے جواب میں مزید تحقیات کی ایسی سچائیوں سے پردہ اٹھایا کہ سے یہ نظریہ مزید مستحکم ہوتاگیا ۔ اگر یہ نظریہ سائنسی طور پر یکسر غلط ہوتا تو اب تک کی ہزار پہلو تحقیق سے اس کی بے شمار حماقتیں سامنے آجانی چاہے ۔ جب کہ اس کے برعکس ہوا یہ کہ اس کے مقدمات کو درست مان کر ہونے والی تحقیقات نے فلکی طبعی علوم کے مختلف شعبوں نے میں نئی حقیقتوں کو دریافت کیا ہے اور اس کی تعائید مزید کی ہے۔ یہی وجہ ہے آغاز کائنات کے بارے میں اب تک یہی نظریہ سب سے بہتر تسلیم کیا گیا ہے ۔ کائنات کی عمر کے بارے میں تازہ ترین تحقیقات میں 90 ارب سال کی قیاس آرائی کی گئی ہے ۔ تاہم اس سلسلے میں ابھی تک کوئی بات حروف آخر کی حثیت نہیں رکھتی ہے۔ کائنات کے عناصر ترکیبی میں بڑی چیزیں یہ ، کہکشاں ، ستاروں ے وسیع و عریض سلسلے ، ستاروں کے گروہ اور نیبولے ( ستاروں کے درمیان گرد اور گیس کے بادل جو بارےک مادی ذرات پر مشتمل ہیں ) یہ عناصر ترکیبی کروڑوں کی تعداد میں ہیں اور ان عناصر سے بدرجہا چھوٹے عناصر ترکیبی میں شامل ہیں ۔ نظام شمسی ، سیاروں کے گروہ ، سیٹلائٹ ، دم دار ستارے اور شہاب و ثاقب جو کسی جرم فلکی کے گرد گھوم رہے ہیں ۔ ان چھوٹے عناصر کا محل و قوع لاکھوں کروڑوں کہکشاؤں کے درمیان کہیں بھی ہوسکتا ہے۔ ان اجسام کے علاوہ کائنات میں کئی میدان ہائے ثقل اور کئی شعائیں اور تابکاریاں بھی ہیں ، یعنی نوانائی کی مختلف شکلیں بھی ہیں۔
عظیم دھماکے کے فوراً بعد کائنات میں فقط توانائی کی لہریں تھیں ۔ جوں جوں یہ لہریں پھیلتی گئیں ان کی مرتکز تابکار توانائی مادے میں تبدیل ہوگئی ۔ یہ مادے پہلے شاید باریک بخارات کی شکل میں خلائے بسیط میں لامتناہی پھیلا ہوا تھا ۔ پھر یہ سکڑتا گیا اور مرغولوں میں تقسیم ہوگیا ۔ سکڑاؤ کی وجہ سے حرارت پیدا ہوئی ۔ یہ نرم مرغولے بعد میں ٹھوس شکل اختیار کرکے اجزام فلکی بن گئے ۔
گو کائنات لامحدود ہے ۔ لیکن آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت کے مطابق کائنات کا مخصوص حجم ہے ۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیںہے کہ کائنات کا کوئی کنارہ ہے ، جس کے باہر کائنات نہیں ہے ۔ بلکہ کچھ اور ہے ۔ حقیقتاً ایسا تصور کرنا ممکن نہیں ہے ۔ کیوں کہ جہاں آپ کائنات کی کوئی حد تسلیم کریں گے ، یقیقناً وہاں سے کوئی اور چیز شروع ہو جائے گی ۔ یہ کوئی اور چیز کائنات کا حصہ کیوں نہ تسلیم کیا جائے ۔ گو لامتناہی کا تصور کرنا ممکن نہیں ہے ۔ لیکن جدولیات کا بنیادی اصول ہے کہ لامحدود محدود میں تبدیل ہو جاتا ہے اور محدود لامحدود میں ۔ لہذا صداقت تک پہنچنے کے لےے آپ کائنات کو لامحدود سمجھتے ہوئے بھی اسے مخصوص اور متعین تسلیم کریں گے ۔ آئن اسٹائن کے مطابق خلا بذات خود خمدار ہے ۔ خلا ایک سہ العبادی دائرہ ہے ، جس میں کوئی سا بھی ممکنہ خط مستقیم چلتے ہوئے آخر کار اپنے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور یہ کائنات ہر لمحہ یا پھیل رہی ہے یا سکڑ رہی ہے ۔
آئن اسٹائن بعض مقدمات میں عینیت کا شکار ہو جاتا ہے ۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ کائنات کا قطر ساڑھے تین بلین ارب ( پنتیس ارب ) نوری سال ہے ۔ جدولیاتی نقطہ نظر رکھنے والے سائنسی مفکرین نے اس موقف پر نقطہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ اس پیمائش سے کائنات کو محدود تسلیم کیا گیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ایک حد ہے ۔ اگر اس کی حد ہے تو اس کی سرحدوں کے باہر کچھ اور ہے ۔ دوسرے لفظوں میں تعین پسندی ، محدو دیت اور جبریت کے آگے سر تسلیم کیا گیا ہے اور جبر و اختیار کی جدولیات سے آنکھیں چرانے کی کوشش کی گئی ہے ۔
اس نظریہ کی تشریح کرنے والے بعض خیال پرست سائنس دانوں نے ’ عظی تباہی ‘ کے انجام کی پیشن گوئی بھی کی ہے اور یہ بھی پیشن گوئی بھی کی ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب کائنات کا پھیلاؤ رک جائے گا ۔ اور معکوس عمل شروع ہوجائے گا یعنی پھر جو سمٹاؤ شروع ہوگا تو اس کا انجام اسی جہنم کے نقطہ پر ہوگا ، جہاں ساری کائنات جل کر فنا ہوجائے گی ۔ اس بعد وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ دوبارہ یہ عمل شروع ہوگا کہ نہیں ۔
ایک دوسری خیال آرائی یہ بھی ہے کہ کائنات کا پھیلاؤ ایسی انتہاؤں کو چھولے گا ، جس میں تمام مادہ سرد ہو کر یخ بستہ ہوجائے گا ۔ اس یخ میں تمام زندگی ختم ہو جائے گی ۔ اسی کے قریب قریب فنا کا ایک تصور بھی ہے جسے ’ مرگ حرارت ‘ کے نظریہ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس کے مطابق چونکہ حرارت گرم سے ٹھنڈے جسموں کی طرف سفر کرتی ہے۔ لہذا ایک وقت ایسا آئے گا کہ کائنات میں حراری حرکت کا توازن وقوع پزیر ہوجائے گا ۔ اس لمحے ہر حرکت فوراً ختم ہوجائے گی ۔ وہی کائنات کا نقطہ فنائ ہوگا ۔
جدولیاتی نکتہ نظر
کائنات کے بارے میں انسانی علم ارتقائ پر بنیاد رکھتے ہوئے جدلیاتی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کائنات کا بحثیت مجموعی کوئی آغاز و انجام ، کوئی ارتقائ یا کوئی اس کی حدود نہیں ہے ۔ یہ زمان اور مکان دونوں کے حوالے سے لامتناہی ہے ۔ لیکن اس کی لامتناہیت اس کی متناہیت کے ساتھ جدولیاتی رشتہ رکھتی ہے ۔ یعنی کائنات کی مختلف مادی اشکال اپنا آغاز و انجام ، ارتقائ اور حدود رکھتی ہےں ۔ ان سائنس دانوں نے مغربی فلکیات کے جواب میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ مختصر یہ ہے ۔

مکان کے حوالے سے کائنات لامحدود ہے ۔ یعنی کائنات کی کوئی آخری حد ، کوئی سرحد اور کوئی کنارہ نہیں ہے ، جہاں ہم کہیں کہ کائنات ختم ہوگئی ہو ۔ یہ لامحدود ہے ، لیکن یہ لامھدودیت اپنے طور پر آذادنہ محدود چیزوں سے ماورائ قائم بالذات ، اپنا وجود نہیں رکھ سکتی ہے ۔ لامحدودیت اور محدودیت دونوں مل کر وحدت اضداد کی تکمیل کرتے ہیں ۔ محدود لامحدودیت میں تبدیل ہوجاتا ہے اور لامحدودیت محدودیت میں ۔ کائنات کے لامحدود اور محدود ہونے کے جتنے بھی نظریہ اب تک بیان کیئے گئے ہیں ۔ نیوٹن کے کلاسیکی تصور کائنات سے جدید فلکیات تک کوئی سا بھی کائنات کی مھدودیت اور لامحدودیت کی رہنمائی نہیں کرتا ہے ۔ نتیجۃ یہ تمام نظریات بالآخر مابعد طبیعیات اور عینیت میں پناہ یتے ہیں ۔
وقت کے حوالے بھی کائنات لامحدود ہے ، لامتناہی ہے ۔ کائنات میں مادہ لامتناہی طور پر مصروف ارتقائ ہے ۔بحثیت مجموعی کائنات کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی انتہا ۔ بے حرکت کا نظریہ باطل ہے۔ کائنات کے بارے میں علم انسانی کی ترقی بدرجہ اتم یہ ظاہر کرتی ہے کہ کائنات جن اضداد کی وحدت ہے ، وہ ہیں مطلق لامتناہیت اور اضافی محدودیت ۔ انہی ضدین کے اجتماع سے کائنات کی جدولیات متشکل ہوئی ہے ۔
کائنات کیا ہے؟
کائنات ابدی اور مادی دنیا کا نام ہے ۔ مکان کے حوالے سے اس کا پہلو کبریٰ یہ ہے کہ ہمارے نظام شمسی سے باہر اربوں اور کھربوں دوسری کہکشائیں ہیں اور اسی لحات سے کائنات بے حدود و ثفور ہے ۔ اس کی کوئی سرحد ، کوئی ٔکنارہ ، کوئی آخری سرا نہیںہے ۔ پہلو صغیر یہ ہے کہ ذرات کے اندر ایٹم ہیں ایٹم کے اندر عنصری جز کا ایک پیچیدہ ڈھانچہ ہے ۔ اس کی تقسیم در تقسیم کبھی نہ ختم ہونے والی ہے اور بے انتہا ہے ۔ اس پہلو کا کوئی آخری سرا ، کوئی کنارہ ، کوئی آخری حد نہیں ہے ۔
زمان ( وقت ) کے اعتبار سے کائنات کتنے بھی بعید سے بعید میں چلے جائیں ، اس کے پیچھے ایک لامتناہی اور مستقبل میں کتنا ہی آگے چلے جائیں ، جہاں رکیں گے وہاں سے آگے لامتناہی مستقبل ہے ۔ وقت کا کوئی آغاز ہے اور کوئی انجام نہیں ۔ مادے کی ہر صورت اور حرکت کی ہر شکل ہر معروضی وجود کائنات میں شامل ہے ۔ مادے کی ہر صورت اور حرکت کی ہر شکل اور ہر معروضی وجود کائنات میں شامل ہے ۔ کائنات سے باہر موجود ہونے کا کوئی طریقہ ، کوئی رستہ نہیں ہے ۔ یہ ازبس ناممکن ہے ۔

کائنات سے باہر کچھ نہیں ، کائنات ہر شے پر حاوی ہے ، کائنات ہی کل ہے ۔ بعض مغربی سائنسدانوں نے یہ تصور پیش کیا کہ کائنات سے باہر ایک ضد کائنات ہے ۔ جو ضد مادہ پر مشتمل ہے ۔ دراصل جس چیز کو سائنس دان ضد مادہ کہہ رہے ہیں وہ مادہ ہی کی مخصوص شکل ہے ۔ اس کی اندرونی ساخت ایسی ہے جو اس مادے سے مختلف ہے ، جس کو ہماری سائنس کچھ سمجھ سکی ہے اور جس کی مزید پرکھ میں سائنس مصروف کار ہے ۔ یقیناً کائنات میں ایسی مادی صورتیں اپنا معروضی وجود رکھتی ہیں ، جو ہمارے جانے پہنچانے سے مختلف ہیں ۔ یہ چیز خود اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مادہ لامتناہی طور پر قابل تقسیم ہے ۔ اس کی تقسیم در تقسیم کا عمل کہیں نہیں رک سکتا ہے ۔ اس کا کوئی انجام ، کوئی حد ، کوئی آخری کنارہ نہیں ۔ اگر کوئی ایسے اجزام فلکی موجود ہیں جو ضد مادے پر مشتمل ہیں تو یہ سب اجزام فلکی بھی کائنات کا حصہ ہی ہیں ۔ یہ کائنات سے باہر کسی نام نہاد ضد کائنات کا حصہ نہیں۔
کائنات لامتناہی زمان اور لامتناہی مکان کی وحدت پر مشتمل ہے، کائنات کے بارے میں انسانی علم ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا اور نہ کبھی اپنے عروج پر پہنچے گا ۔ انسان کا کائناتی علم جتنا بھی بڑھتا جائے گا اتناہی لامختم رہے گا۔ مغرب کی نام نہاد فلکیات عینیت پرستی کے زیر اثر ہے اور اس کا ذاویہ نگاہ مابعد الطبیعیاتی ہے ۔ ملتا ہے ۔
فنایت
مغربی ماہرین فلکیات یہ باور کرتے ہیں کہ کائنات کا فوری طور پر بھی کوئی نقطہ آغاز ہے اور اس کا من حثیت المجموع بھی ایک سلسلہ ارتقائ ہے ۔ اس سلسلہ میں ایک نظریہ عظیم دھماکا ( بگ بینگ ) کا ہم یعنی کائنات ایک ’ ماقبل کائنات ایٹم ‘ یا ’ ماقبل آتشیں گولے ‘ کے ایک عظیم دھماکے سے پھٹ جانے سے وجود میں آئی ۔دھماکے سے قدیم مادہ ہر سمت بکھر گیا ، وہی کائنات ہے ۔ چونکہ دھماکہ سے مادہ بکھر گیا تو وہ یقیناً مسلسل پھیل رہا ہے ۔ اگر کائنات پھیل رہی ہے تو یقینا یہ محدود کناروں میں بند کائنات ہے جس کے کنارے پھیل رہے ہیں ۔ اگر یہ آغاز رکھتی ہے تو اس کا انجام ، یوم فنا بھی یقینا ضرور ہوگا ۔ مغربی سائنسدانوں نے اس یوم فنا کی بھی پیش گوئی کی ہے ۔ حراری حرکیات کے دوسرے قانون کو بنیاد بنا کر وہ مرگ حرارت کا نظریہ پیش کرتے ہیں ۔ چونکہ حرارت گرم سے ٹھنڈے اجسام کی طرف منتقل ہوتی ہے ۔ یوں پوری کائنات جو اپنی سرحدوں میں بند ہے ایک روز حراری حرکیات کے توازن کو پالے گی اور کل کائنات ایک جامد تالاب میں بدل جائے گی، جس میں تبدیلی کے سب امکانات ختم ہوجائیں گے ۔ ایسا ہی دن کائنات کا آخری دن فنا کا دن ہوگا۔



سٹیفن ہاکنگ ۔۔۔چند تاثرات

سٹیفن ہاکنگ ۔۔۔چند تاثرات 

فزکس میرا میدان نہیں‘ تو کیا میں سٹیفن ہاکنگ کے بارے میں کلام کر نے کا استحقاق رکھتا ہوں؟
اگر ہاکنگ محض ایک ماہرِ طبیعات ہوتے تو میرا جواب نفی میں ہوتا۔ ان کا میدان نظری طبیعات تھا۔ انہوں نے ایسے موضوعات پر کلام کیا جن کا مذہب اور فلاسفے سے بھی علاقہ ہے۔ پھر یہ کہ ان کے سبب سائنس کے مباحث ان لوگوں تک بھی پہنچے جواس علم میں اختصاص نہیں رکھتے۔ بعض لوگ چونکہ سائنس کو مذہب کے بالمقابل ایک ماخذِ علم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور پھر یہ کہ ہما شما کا یہ حق سمجھا جاتا ہے کہ وہ مذہب کے میدان میں طبع آزمائی کرے، قطع نظر اس کے کہ وہ مذہب کے مبادیات سے بھی واقف ہے یا نہیں، اس لیے سٹیفن ہاکنگ صرف ان لوگوں کی دلچسپی کا موضوع نہیں جن کا میدان فزکس ہے۔ یوں ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ جواز پیدا ہو جاتا ہے کہ ان کے بارے میں جاری بحث کا حصہ بن جائیں۔
ہاکنگ کی کتاب 'وقت کی مختصرتاریخ‘ کا شمار سب سے زیادہ بکنے والی کتب (Best Seller) میں ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اس فہرست میں شامل‘ آج تک سب سے کم پڑھی جانی والی کتاب ہے۔ گویا لوگ فیشن کے طور پر خرید تو لیتے ہیں مگر پڑھنے کا حوصلہ یا صلاحیت نہیں رکھتے۔ بعض اوقات کسی وجہ سے‘ ایک مصنف کی کتب کا حوالہ پڑھا لکھا ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ یہ تاثر مستحکم ہو جاتا ہے کہ اس سے عدم واقفیت جہالت کی علامت ہے۔ یوں لوگ اس کی کتابوں کو خرید لیتے ہیں تاکہ بوقتِ ضرورت حوالہ دے سکیں۔ سٹیفن ہاکنگ بھی انہی لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان لوگوں کی یہ برکت ضرور ہوتی ہے کہ کسی بہانے سے ہی‘ علم کی بات تو ہونے لگتی ہے۔
ہاکنگ کی وفات پر‘ صرف اردو اخبارات اور ویب سائٹس پر اتنے مضامین پڑھنے کو ملے کہ خوشگوار حیرت ہوئی۔ لوگوں کی زیادہ دلچسپی مذہب اور سائنس کے باہمی تعلق سے رہی۔ یوں ان مباحث کا احیا ہوا جو صدیوں سے فکر و فلسفے میں زیرِ بحث ہیں۔ ان مضامین سے بھی یہ تاثر ملا کہ لوگ مذہب اور سائنس کو متوازی ماخذاتِ علم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ مقدمہ محلِ نظر ہے۔
یہ محض اتفاق ہے کہ ہاکنگ کا انتقال ہوا تو ماہنامہ 'الرسالہ‘ میرے زیرِ مطالعہ تھا۔ مارچ 2018ء کا یہ شمارہ مولانا وحید الدین خاں کی ایک طویل تحریر پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے 'امتِ مسلمہ کا فائنل رول‘ کو موضوع بنایا ہے۔ مولانا، میرے علم کی حد تک دورِ جدید کے پہلے عالم ہیں جنہوں نے اس بات کا ادراک کیا کہ مذہب کو علمِ جدید کا ایک چیلنج درپیش ہے اور یہ چیلنج ایک نئے علمِ کلام کا متقاضی ہے۔
ماضی میں سرسیّد احمد خان، مولانا شبلی نعمانی اور علامہ اقبال ایسی شخصیات ہو گزری ہیں جنہوں نے اس کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھا۔ سرسیّد نے اپنے عہد کے فلسفۂ سائنس اور سائنسی تحقیق کے نتائج یا مفروضوں کو معیار مان کر مذہبی تصورات کی تاویل کی۔ علامہ اقبال نے فلسفیانہ حوالے سے اس چیلنج کی نشاندہی کی۔ شبلی نے فنی پہلو سے جدید علمِ کلام کا خاکہ پیش کیا۔ ان قابلِ قدر کاوشوں نے فکرِ اسلامی کو آگے بڑھایا اور اس بات کی ضرورت واضح ہوئی کہ مذہب کا مقدمہ علمِ جدید کے معیار پر پورا اترنا چاہیے۔
مولانا وحید الدین خاں کا کام اپنے دائرے میں سب سے منفرد ہے۔ انہوں نے جدید فلسفۂ سائنس کو اچھی طرح سمجھا اور اس کے ساتھ دین کو بھی اصل ماخذات کی روشنی میں جانا۔ ان کے نزدیک جدید سائنس نے اس بات کا موقع پیدا کر دیا ہے کہ اسلام کا مقدمہ پوری علمی شان کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔ جیسے جیسے کائنات کے اسرار سے پردہ اٹھ رہا ہے، مذہب کو سمجھنا آسان تر ہو گیا ہے۔ جدید سائنس نے مسلمانوں کے لیے بظاہر چیلنج مگر بباطن ایک موقع پیدا کر دیا ہے کہ وہ مذہب کا مقدمہ زیادہ قابلِ قبول صورت میں (Convincingly) پیش کر سکیں۔ 1960ء کی دہائی میں انہوں نے اس موضوع پر 'علمِ جدید کا چیلنج‘ کے عنوان سے پہلی کتاب لکھی۔ گزشتہ پانچ دہائیوں میں وہ اس سبجیکٹ پر بہت وقیع لٹریچر سامنے لا چکے ہیں۔
'الرسالہ‘ مارچ کے شمارے میں مولانا وحید الدین نے اپنا یہ مقدمہ دہرایا ہے کہ مغربی تہذیب، جو سائنس کے اصولوں پر کھڑی ہے، اسلام کی محارب نہیں بلکہ موئد و معاون ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اسلام کی بنیاد ہے۔ اس معرفت کا ایک معیار وہ ہے جسے ہم عقلِ عام (Common Sense) کہتے ہیں۔ معرفت کی دوسری سطح 'سائنٹیفک معرفت‘ ہے۔ جدید سائنس نے اس سطح پر مذہب کے مقدمے کو ثابت کرنے کے اسباب پیدا کر دیئے ہیں۔ مو لانا کے الفاظ میں ''سائنس کا موضوع کائنات ہے۔ تقریباً چار سو سال کے مطالعے کے ذریعے سائنس نے جو دنیا دریافت کی، وہ استنباط (Inference) کے اصول پر خالق کے وجود کی گواہی دے رہی ہے‘‘۔ مولانا نے ایک اہم بات یہ لکھی کہ سائنس کا مقدمہ خدا کے وجود کے انکار کا نہیں، لاادری (Agnosticism) کامقدمہ ہے۔ 
اس مضمون کا ایک اقتباس میرے خیال میں بہت اہم ہے جس میں مولانا نے نیوٹن سے سٹیفن ہاکنگ تک کی سائنسی روایت کا احاطہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں ''طبیعاتی سائنس کے میدان میں پچھلی چار صدیوں میں تین انقلابی ڈویلپمنٹ پیش آئی ہیں۔ اوّل برٹش سائنس دان نیوٹن کا مفروضہ کہ کائنات کی بنیادی اینٹ مادہ ہے۔ اس کے بعد بیسویں صدی کے آغاز میں جرمن سائنس دان آئن سٹائن کا یہ نظریہ سامنے آیا کہ کائنات کی تعمیری اینٹ توانائی ہے۔ اور اب آخر میں ہم امریکی سائنس دان ڈیوڈ بام کے نظریاتی دور میں ہیں جبکہ سائنس دانوں کی زیادہ تعداد یہ مان رہی ہے کہ کائنات کی بنیادی اینٹ 'شعور‘ ہے۔ یہ تبدیلیاں لازمی طور پر ایک نئے فلسفے کو جنم دیتی ہیں، جب فلسفہ مادیت سے گزر کر روحانیت تک پہنچ گیا ہے‘‘۔
مولانا وحید الدین نے سٹیفن ہاکنگ کے ایک تصور کا ذکر کیا جسے انہوں نے 'عظیم منصوبہ‘ (Grand Design) کہا۔ وہ سٹیفن ہاکنگ کا ایک جملہ نقل کرتے ہیں: One cannot prove that God does not exist but science made God unnecessary (کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ خدا موجود نہیں؛ تاہم سائنس نے خدا کو غیر ضروری بنا دیا ہے)۔
واقعہ یہ ہے کہ سائنس دان اپنے دائرہ علم میںکلام کرتا اور کوئی رائے دیتا ہے۔ اس سے ماورا امور کی، وہ تائید کرتا ہے نہ تردید۔ وہ کائنات پر غور کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ کوئی 'عظیم منصوبہ‘ کارفرما ہے لیکن وہ منصوبہ ساز کے سوال پر خاموش رہتا ہے۔ مولانا کے نزدیک‘ یہ ناگزیر ہے کہ منصوبہ سامنے آنے پر منصوبہ ساز کا خیا ل پیدا ہو۔ سائنس نے انسان کو عظیم منصوبے تک پہنچا دیا ہے۔ منصوبہ ساز تک پہنچانا مذہب کا کام ہے۔
مولانا وحید الدین خان کا کہنا ہے کہ امتِ مسلمہ کو اس مرحلے پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ کام تخلیق کو خالق سے جوڑنا ہے۔ یہ کائنات کو خالقِ کائنات سے متعلق کرنا ہے۔ خالق اور تخلیق کو الگ کرنے سے الحاد پیدا ہوا۔ اس تعلق کو جوڑنے کے لیے مسیحی اہلِ علم نے قابلِ قدر کام کیا۔ مولانا توجہ دلاتے ہیں''امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فتنۂ الحاد کی فکری اساس کو بے بنیاد ثابت کریں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کے ذریعے فتنۂ الحاد کا خاتمہ کریں، جیسا کہ اس سے پہلے انہوں نے قرآن کی مدد سے شرک کا خاتمہ کیا تھا‘‘۔
میں اگر مولانا سے ملتا تو ان کی خدمت میں عرض کرتا کہ ہمیں ابھی اس سے زیادہ اہم کام درپیش ہیں۔ ہم نے پہلے امریکہ اور مغرب سے لڑنا ہے۔ ہم نے سٹیفن ہاکنگ جیسے لوگوں کی تحقیق سے فائدہ نہیں اٹھانا، انہیں مذہب دشمن ثابت کرنا ہے۔ جب ہم ان فتنوں کا قلع قمع کر لیں گے تو پھر ہمارا غلبہ ہو گا۔ اس کے بعد ہمیں کسی علمی مشقت کی کیا ضرورت؟ دنیا اس کے بغیر ہی ہمارے زیرِِ نگیں ہو گی۔

( خورشید ندیم ، روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت : 19 مارچ 2018) 

مسئلہ فیثاغورث

                     مسئلہ فیثاغورث        

                  

ایسی مثلث جس کا ایک زاویہ عین 90 درجے کا ہو (یعنی زاویہ قائمہ ہو) اس ميں قاعدہ اور ارتفاع (یعنی اونچائی) کے مربع کا حاصل جمع اسكے وتر کے مربع کے برابر ہو گا۔ آسان الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی قائمۃ الزاویہ مثلث کے سب سے بڑے ضلع (یعنی وتر) کا مربع باقی دونوں ضلعوں کے مربعے کے حاصل جمع کے برابر ہوتا ہے۔ 
(انگریزی میں مربع اسکوائر کہلاتا ہے۔
قائمۃ الزاویہ مثلث اس مثلث کو کہتے ہیں جس کا کوئی ایک زاویہ 90 درجے کا ہو۔ کسی بھی مثلث کے نہ دو زاویے 90 درجے کے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی تینوں زاویے 90 درجے کے ہو سکتے ہیں۔
اگر کسی قائمۃ الزاویہ مثلث میں وتر پانچ فٹ لمبا ہے تو باقی دونوں ضلعے لازماً تین فٹ اور چار فٹ کے ہوں گے کیونکہ تین کا مربع (یعنی 9) اور چار کا مربع (یعنی 16) مل کر پانچ کا مربع (یعنی 25) بناتے ہیں۔
اسی طرح اگر ایک دیوار a تین فٹ لمبی ہے اور اس سے متصل دوسری دیوار b چار فٹ لمبی ہے اور دونوں دیواروں کے آخری سروں کے درمیانی فاصلہ c پورے پانچ فٹ کا ہے تو دونوں دیواریں a اور b ایک دوسرے سے 90 درجے کا زاویہ بناتی ہیں۔ راج مزدوروں کی زبان میں یہ دیواریں "گونیوں" میں ہیں یعنی قائمۃ الزاویہ ہیں۔

اس مسئلہ کا نام قدیم یونانی ریاضی دان فیثاغورث کے نام پر ہے جسے روایتاً اس مسئلے کو دریافت کرنے والا مانا جاتا ہے۔ اگرچہ اکثر یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ اس سے پہلے کے لوگوں کو بھی معلوم تھا۔
اس مسئلہ کو حل کرنے کے 370 طریقے موجود ہیں۔
(قاعدہ)2 + (ارتقاع)2 = (وتر)2
{\displaystyle (Base)^{2}+(Perpendicular)^{2}=(Hypotenuse)^{2}\,}


ریاضی میں فیثاغورث کی شہرت کی وجہ کیا ہے؟

عبدالرحمن 

فیثاغورث (570 ق م - 495 ق م) ایک یونانی فلسفی ، مذہبی رہبر اور ریاضی دان تھا۔


وہ ساموس یونانی جزیرے سے جمیا مصر تک گیا۔ اور 530 قبل مسیح میں اطالیہ کی طرف کروٹون کی یونانی نگری میں آ کے بس گیا۔ ادھر اس کے ساتھ اس کے پیروکار رہتے تھے۔اسے اپنے خیالات کی وجہ سے اسے کروٹون چھوڑنا پڑا۔

ریاضی میں اس کی شہرت مسئلہ فیثاغورث کی وجہ سے ہے۔ اس نے ابتدا میں آیونیائی فلسفیوں تھیلس، اناکسی ماندر اور اناکسی مینیز کی تعلیمات کا مطالعہ کیا۔ 

کہا جاتا ہے کہ اسے پولی کریٹس کے استبدادیت سے تنفر کا اظہار کرنے کے باعث ساموس سے نکلنا پڑا۔ تقریباً 530 قبل مسیح میں وہ جنوبی اٹلی میں ایک یونانی کالونی کروٹون میں رہنے لگا اور وہاں مذہبی، سیاسی اور فلسفیانہ مقاصد رکھنے والی ایک تحریک کی بنیاد ڈالی جسے ہم فیثا غورث ازم کے نام سے جانتے ہیں۔ 

فیثا غورث کے فلسفہ کے متعلق ہمیں صرف اس کے شاگردوں کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے۔ فیثاغورث ازم کا مکتب تحریک کی صورت میں مختلف فلسفیوں کے ہاں فروغ پاتا رہا۔ لہٰذا اس میں بالکل مختلف فلسفیانہ نظریات شامل ہو گئے۔

 وسیع تر مفہوم میں بات کی جائے تو ابتدائی فیثا غورث پسندوں کی تحریروں میں دو مرکزی نکات ملتے ہیں: تناسخ ارواح کے متعلق ان کے نظریات، اور ریاضیاتی مطالعات میں ان کی دلچسپی۔ 

ہیراکلیتوس لکھتا ہے: ’’فیثا غورث نے کسی بھی اور انسان سے زیادہ گہرائی میں جا کر تحقیق کی۔‘‘ اس کی تعلیمات کے متعلق اس کی زندگی سے بھی کم تفصیلات میسر ہیں۔ 

ہیگل نے کہا کہ وہ ایک شاندار شخصیت کا مالک اور کچھ معجزاتی قوتوں کا حامل تھا۔ فیثا غورثی سلسلہ اصلاً ایک روحانی اطمینان کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا۔ اس کا مقصد پاکیزگی کے حصول کے لیے طریقہ کار وضع کرنا تھا۔ فیثا غورث نے تناسح کے ایک عقیدے کی تعلیم دی: یہ انسانوں اور جانوروں کو زمین کے بچے ہونے کے ناتے ایک جیسا خیال کرنے کے قدیم اعتقاد کی ترقی یافتہ صورت تھی۔ اس کی بنیاد مخصوص اقسام کی خوراک کھانا ممنوع قرار دینے پر تھی۔ یعنی جانوروں کے گوشت سے پرہیز۔ فیثاغورث پسند دیوتاؤں کو بھینٹ کیا ہوا گوشت کھایا کرتے تھے۔ 

ارسطو کہتا ہے کہ فیثا غورث نیکی پر بحث کرنے والا پہلا شخص تھا، اور اس نے اس کی مختلف صورتوں کو اعداد کے ساتھ شناخت کرنے کی غلطی کی۔ 

ہیراکلیتوس نے تسلیم کیا کہ سائنسی کھوج میں کوئی بھی شخص فیثا غورث کا ہم پلہ نہیں تھا۔ فیثا غورث کے مطابق سب سے بڑی پاکیزگی بے غرض سائنس ہے، اسے مقصد بنانے والا شخص حقیقی فلسفی ہے ۔ 

فیثا غورث پہلا شخص تھا جس نے ریاضی کو تجارت کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا اور اسے ایک قابل تحقیق علم کی صورت دی۔ اس نے اطاعت اور مراقبہ، کھانے میں پرہیز، سادہ لباس اور تجزیہ ذات کی عادت پر زور دیا۔ فیثا غورث پسند لافانیت اور تناسخ ارواح پر یقین رکھتے تھے۔ 

خود فیثا غورث نے بھی دعویٰ کیا کہ وہ کسی سابقہ جنم میں جنگ ٹروجن کا جنگجو یوفوربس تھا اور اسے اجازت دی گئی کہ اپنے تمام سابقہ جنموں کا حافظہ اس زمینی زندگی میں ساتھ لائے۔ 

فیثا غورث پسندوں کی وسیع ریاضیاتی تحقیقات میں طاق اور جفت اعداد پر مطالعہ بھی شامل تھا۔ اُس نے عدد کا تصور قائم کیا جو ان کی نظر میں تمام کائناتی تناسب، نظم و ضبط اور ہم آہنگی کا مطلق اصول ہے۔ اس طریقہ سے اس نے ریاضی کے لیے ایک سائنسی بنیاد قائم کی اور اسے رواج بھی دیا۔

 فلکیات کے معاملے میں فیثا غورث پسندوں نے قدیم سائنسی فکر کو کافی ترقی دی۔ سب سے پہلے اُس نے ہی کرہ ارض کو ایک ایسا کرہ تصور کیا جو دیگر سیاروں کے ہمراہ ایک مرکزی آگ کے گرد محو گردش تھا۔ انہوں نے کائنات کو ایک ہم آہنگ نظام کے تحت حرکت پذیر سمجھا۔ ان کے بعد کائنات کا آہنگ اور نظام تلاش کرنے اور سمجھنے کی کوششیں ہی فلسفہ اور سائنس کا مرکزی مقصد بن گئ۔

--------------
بشکریہ روزنامہ دنیا، تاریخ اشاعت : 18 فروری 2018

سات آسمانوں کی حقیقت

اس کا تعیّن مشکل ہے۔ انسان ہر زمانے میں آسمان، یا با لفاظ دیگر ماورائے زمین کے متعلق اپنے مشاہدات یا قیاسات کے مطابق مختلف تصوّرات قائم کرتا رہا ہے، جو برابر بدلتے رہے ہیں۔

 لہٰذا ان میں سے کسی تصوّر کو بنیاد قرار دے کر قرآن کے ان الفاظ کا مفہُوم متعین کرنا صحیح نہ ہوگا۔

 بس مجملاً اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ زمین سے ماوراء جس قدر کائنات ہے، اسے اللہ نے سات محکم طبقوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔

 یا یہ کہ زمین اس کائنات کے جس حلقہ میں واقع ہے، وہ سات طبقوں پر مشتمل ہے۔  



( تفہیم القرآن : سورة الْبَقَرَة،  حاشیہ نمبر :34 )