تارے گننا یا اختر شماری انسانی فطرت کا خاصہ رہا ہے اور شاعروں نے نیند اور محبوب کے انتظار کو اخترشماری سے تعبیر کیا ہے۔
رات کے وقت جب آسمان پر نظر جائے اور نیند نہ آئے تو تارے گن گن کر راتیں گزارتی جاتی ہیں، ساتھ ہی ساتھ دل میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ 'آخر اس کائنات میں کتنے تارے ہوں گے؟'
امریکی ماہر فلکیات کارل سیگن نے کہا تھا کہ زمین کے تمام ساحلوں پر ریت کے جتنے ذرے ہیں کائنات میں اس سے کہیں زیادہ تارے ہیں۔
لیکن کیا ان کا یہ دعویٰ درست ہے یا کیا کائنات میں پھیلے تاروں کو شمار میں لایا جا سکتا ہے؟
کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرِ فلکیات پروفیسر گیری گِلمور ہماری کہکشاں میں موجود ستاروں کی گنتی کر رہے ہیں۔
پروفیسر گیری گِلمور اس پروجیکٹ کی قیادت کر رہے ہیں جس کے تحت یورپی خلائی جہاز کے ذریعہ ہماری کہکشاں میں تاروں کی گنتی کی جا رہی ہے۔
ہماری کہکشاں میں دو کھرب ستارے ہیں
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: 'فاصلے کے حساب سے ہماری ٹیم نے جو پہلا ڈیٹا جاری کیا ہے اس میں دو ارب سے کم ستارے ہیں اور یہ ہماری کہکشاں کے مجموعی ستاروں کا محض ایک فیصد ہے۔'
اختر شماری کے اس ماڈل کے مطابق ہماری کہکشاں میں تقریباً دو کھرب ستارے ہو سکتے ہیں۔
لیکن یہ صرف ایک کہکشاں کا معاملہ ہے۔ اس لیے پوری کائنات میں کتنے ستارے ہوں گے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔
پروفیسر گیری گِلمور نے وضاحت کی ہے کہ دوسری کہکشاؤں میں ہماری کہکشاں کے برابر ستارے ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم یہ پتہ لگا سکیں کہ کائنات میں کتنی کہکشائيں تو پھر ستارے کی تعداد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
کل کتنی کہکشائیں؟
صرف ہماری کہکشاں میں 20 ہزار کروڑ ستارے ہیں ,
کائنات میں کہکشاؤں کی تعداد کا پتہ چلانے سے قبل یہ پتہ چلانا ہو گا کہ یہ کتنی روشن ہیں۔
کیا دوسری ساری کہکشائيں ہماری کہکشاں کی طرح ہیں یا پھر وہ اس سے مختلف ہیں؟
پروفیسر گیری گِلمور کہتے ہیں: 'یہ پتہ لگانے کے لیے ہمیں کہکشاؤں کی دوری اور ان کی جسامت کا پتہ لگانا ہو گا۔ اس سے ہم یہ خیال کر سکتے ہیں کہ کائنات ایک خاص طریقے سے پھیل رہی ہے جسے ہبل لا کہتے ہیں۔'
ہبل لا کی مدد سے پروفیسر گیری گِلمور کہکشاؤں کی چمک اور ہم اس کی دوری کے بارے میں پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کائنات میں تقریباً ایک کھرب کہکشائيں ہیں اور ہر کہکشاں میں تقریباً دو کھرب ستارے ہیں۔
اب ان دو ہندوسوں کو ضرب دے کر کائنات میں ستاروں کی تعداد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس طرح مندرجہ ذیل رقم سامنے آئے گی:
20000000000000000000000
یعنی دو کے بعد اس میں 22 صفر۔
اب ساحلوں کا رخ ہو جائے
اس سلسلے میں سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ دنیا میں کتنے سمندر ہیں اور ان کے ساحل کتنے ہیں اور اس کے بعد ساحلوں کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی کی پیمائش کرنی ہو گی۔
اوپن سٹریٹ ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں دنیا بھر کے 20 لاکھ افراد ڈیٹا مشترک کرتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کی حکومتیں بھی اپنا ڈیٹا شیئر کرتی ہیں۔
محقق جنیڈی ڈونچیٹس کہتے ہیں کہ 'اگر ہم اوپن سٹریٹ میپ کے مطابق حساب لگاتے ہیں تو ایک ساحل اوسطاً 1.9 کلومیٹر طویل ہے۔ اس طرح دنیا میں تقریباً تین لاکھ کلو میٹر طویل ریتیلا سمندری ساحل ہے۔
ایک مربع میٹر ریت میں دس ارب ذرات ہوتے ہیں
اب ان کی کثافت کا پتہ لگانا ہو گا۔
یہ بہت مشکل امر ہے۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر ساحل 50 میٹر چوڑے اور تقریباً 25 میٹر گہرے ہوتے ہیں۔
اب ان کو آپس میں ضرب دے کر کثافت کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔
300000000 x 50 x25 = 375000000000 یعنی تین کھرب 75 ارب مربع میٹر
اور ہر مربع میٹر ساحل پر تقریباً دس ارب ذرات موجود ہیں۔
اب تین کھرب 75 ارب کو دس ارب سے ضرب دیں تو جو عدد آئے گا اتنے زمین پر ساحل سمندر کے ذرات ہیں۔
ضرب دینے پر 3.75 کے بعد 21 صفر آتے ہیں۔ جسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ چار کے بعد 21 صفر۔
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کائنات میں 20،000،000،000،000،000،000،000 ستارے ہیں جبکہ زمیں کے سمندری ساحلوں پر 4،000،000،000،000،000،000،000 ریت کے ذرات ہیں۔
اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ کارل سیگن اپنے تخمینے میں بہت حد تک درست ہیں۔ یعنی کائنات میں سمندری ساحلوں پر موجود ریت کے ذرات سے زیادہ ستارے ہیں۔
شاعر اور عاشق بےشک تارے گن گن کر راتیں کالی کرتے رہیں، سائنس دانوں نے ان کی اصل تعداد کا تخمینہ پیش کر دیا ہے۔
------------------------------------------
بی بی سی اردو ، تاریخ اشاعت: 26 جولائی 2018ء