نقوش اقبال لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
نقوش اقبال لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مناجات جاوید نامہ کا تعارف

مناجات جاوید نامہ کا تعارف

مصنف: عبیداللہ قدسی ،ناشر: اقبال اکادمی پاکستان

تعارف:
رب کے حضور میں اقبال دعا مانگتے ہیں
تیرے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا شوق میری نظر بخش دے
مرے دیدہء ترکی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
امنگیں مری، آرزوئیں مری
امیدیں مری، جستجوئیں مری
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے
ان کی تمنا ہے :
جوانو کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال وپر دے
خدایا آرزو مری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
اقبال نوجوانوں کو حکمت کلیمی سے نوازنا چاہتے ہیں۔ جان افروز ،سینہ تاب، نور بصیرت،جو شرط راہ ہے، وہ عطا کرنا چاہتے ہیں۔ تجلی کی فراوانی سے اپنے دامن کی وسعت میں جو کچھ انہوں نے سمیٹ لیا ہے۔
 حیات بر نفس یا خودی کے بحر بے رواں میں شعور وآگہی کے جو در آبدار ان کو ملے ہیں۔وہ اپنے قافلے میں لٹانے کے لئے بے چین ہیں۔
وہ نوجوانوں کو وہ عرفان وہدایت بخشنا چاہتے ہیں ،جو یقین محکم اور عمل  پیہم کی بنیادیں دے سکے۔وہ دانائے راز اور درویش خدا مست ہیں۔ جن کی ذوق نگاہ نے لا الہ الا ا لا اللہ سے تاب و تب جاودانہ پا کر ان کو شرق وغرب کی قیود سے آزاد کر دیا ہے۔
انسانیت جن مصائب سے دوچار ہے۔ اس کا حل مشرق کے پاس ہے نہ مغرب کے، مغرب کی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں پریشان حالی کا باعث اس کی بنیادی حکمت سے محرومی ہے۔مشرق کی زبوں حالی کا باعث ترقی پذیر ماحول سے ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ ایک جانب تہذیب نو اور عصر حاضر کا طلسم ہوش ربا ہے تو دوسری طرف قدامت، تنگ نظری اور جمود۔یہی دو نسلوں میں تصادم ،کشاکش، اور خلیج کا سبب ہے۔
اس انتشار میں مصنوعی شیرازہ بندی کی کوشش کار گر نہیں ہو سکتی۔ ایسے میں ضرورت ہوتی ہے ۔تدریجی اور اساسی انقلاب کی، جس میں ترقی اور تبدیلی کے ساتھ ازلی اور ابدی حقیقت کار فرما ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس کائنات کی پہنائی میں اپنے آپ کو کھو بیٹھے ہیں۔ہم جزئیات جمع کرکے اس میں کل کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں۔جب ناکامی ہوتی ہے ،تو اسی خود ساختہ نگار خانہ میں اپنے مقام کا تعین کرلیتے ہیں۔ جو اس میں اعلیٰ ہونے کے باوجود ادنیٰ رہتا ہے۔ہیگل نے فکر محض کے ذریعہ حل پیش کیا۔مگر اس کا صدف گوہر سے خالی اور تصور سارا کا سارا خالی رہا۔مارکس کا دل مومن اور دماغ کافر ثابت ہوا۔اور عمل کو اخلاق اور وجدان سے ہم آہنگ نہ کر سکا۔ اقبال آفاق میں گم نہیں ،بلکہ آفاق  ان میں گم ہے۔وہ خودی کاترجمان ہو کر جس سر نہاں تک پہنچتے ہیں۔وہ انہیں حقیقت کا راز داں بنا دیتا ہے۔گرمیء گفتار اور شعلہ کردار بہار فطرت ہے۔ مگر بہار فطرت کردگار فطرت سے ہے۔زمانے کے نشیب وفراز ،گردش روز گار، طلسم روز وشب، نغمہ ء حیات کا زیر وبم سب" کل یوم ھو فی شان" کی تفسیر ہے۔ ترقی وارتقا کے پیچھے کن فیکون کی صدا ہے۔ساری کائنات رزم گاہ شوق وعمل، حدیث ناظرہ ومنظور ہے۔
حقیقت روئے خود را پردہ باف است
کہ او را لذتے در انکشاف است
بخلوت ہم بجلوت نور ذات است
میاں انجمن بودن حیات است
کثرت میں وحدت کی جلوہ نمائی ،زیست کی گہرائیوں میں نور ازل کی جھلک انسان کو من وتو کے باوجود من وتو سے پاک کر دیتی ہے۔ وہ رنگ ونسل ،قبیلہ،و وطینت سے بلند ہو جاتا ہے۔
ہمسایہ جبریل امیں، بندہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں
در گزر مثل کلیم از رود نیل
سوئے آتش گامزن مثل خلیل
نغمہ مردے کہ دارد بوئے دوست
مفت را می برد در کوئے دوست
تخلیق کا عمل ساری کائنات میں جاری وساری ہے۔ ذروں کی خود نمائی، تاروں کی تنک تابی، سبزہ وگل کے جوش نمو سے لے کر ذوق وشوق آرزو تک کہیں قیام وسجود میں ،کہیں رقص بسمل میں،ہر جگہ اس کی کار فرمائی ہے۔لذت انکشاف ہر جگہ ،ہر گام پر ہر سطح پر جاں فزا اور نظر نواز ہے۔ کہیں ٹھہراؤ اور رکاؤ نہیں، ایک ہی جذبہ ہے جو مظاہر فطرت اور کائنات کو قافلہ شوق کا مسافر بنا دیتا ہے۔ یہی جدت وایجاد،ترقی وانقلاب، تشکیل نو اور ارتقاء کی بنیاد ہے۔ اس سے انکار اپنی فطرت سے انکار ہے۔اور قانون الہیٰ سے انحراف ہے۔
آئین نو سے ڈرنا،طرز کہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
جمود وتنگ نظری،کوتاہ بینی اور بے عملی ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔خواہ،ملا میں، صوفی میں، فلسفی میں،کلیسا میں ہو یا دیر وحرم میں۔
سب اپنے بتائے ہوئے زندان میں ہیں اسیر
خاور کے ثوابت ہیں کہ افرنگ کے سیار
پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں
نے جدت گفتار ہے نہ جدت کردار
ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم وپیچ
شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار
ان کے یہاں تو:۔
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
 کا معاملہ ہے۔
زندگی جز لذت پرواز نیست
آشیاں با فطرت اوساز نیست
ایشیا اس لیے پس ماندہ رہ گیا کہ اس کا قلب واردات نو بہ نو سے خالی،اور ذوق عمل سے محروم رہ گیا۔ اور اس کے روز گار اس دیرینہ در میں ساکن ویخ بستہ بے ذوق سفر ہو گئے۔ان کو سخت صدمہ ہے کہ مسلمانوں نے اجتہاد کے دروازے بند کرکے فکر وعمل کی راہیں مسدود کر دیں۔فقیہ شہر قارون لغت ہائے حجازی تو بن گئے،مگر وہ حرف لا الہ کو بھول گئے۔ جس سے سر چشمہ ہدایت پھوٹتا،اور ہر لمحہ نئی تازگی عطا کرتا ہے۔ قوم کی زندگی اور تازگی کا دار ومدار دل کی ان گہرائیوں اور دماغ کی جولانیوں پر منحصر ہے۔ جو نئے تصورات سے روشناس کر اکر تمدن کی بدلتی ہوئی ضروریات سے ہم آہنگ کرکے مزید ارتقا کے امکانات پیدا کر سکے۔ اسلام نے مشاہدہ اور تجربے کی دعوت دے کر استقرائی ذہن کا آغاز کیا۔ جو سائنسی طریقہ کار ہے۔
 فطرت اور تاریخ پر دعوت فکر دے کر ان بنیادوں کی نشان دہی کی،جو قوموں کے عروج وزوال کا باعث ہیں۔عقیدہ تو حید نے دین ولادین کی تقسیم کو ختم کرکے انسانی ارتقا کے لئے کائنات کو جولان گاہ اور حدیث کے مطابق مقدس مسجد بنا دیا تھا۔قرآن کا حیات آفرین پیغام ہر عہد اور عصر کے نئے تقاضوں کے مطابق اس کی ترقی میں حائل ہونے کی بجائے ،اس کو صحیح سمت عطا کرتا ہے۔وہ ہر عہد کو نیا نظام دینے کو تیار ہے۔بشرطیکہ ہم اس کو اپنے دل میں اتار کر دل کی گہرائیوں میں اتار کر اس کی روح کو پہچان لیں۔ وہ فرماتے ہیں:
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
چوں بجاں دررفت جان دیگر شود
جان چوں دیگر شود جہاں دیگر شود
مثل حق پنہاں وہم پیدا است ایں
زندہ وپائندہ وگویا است ایں
اندر او تقدیر ہائے شرق وغرب
سرعت اندیشہ پیدا کن چوں برق
چوں مسلمانان اگر داری جگر
در ضمیر خویش ودر قرآن نگر
صد جہاں تازہ در آیات اوست
عصر ہائے پیچیدہ در آنات اوست
بندہ مومن زآیات خدا است
ہر جہاں اندر برش مثل قبا است
چون کہن گردد جہانے دربرش
می دید قراں جہانے دیگرش
عالمے در سینہ ء ماگم ہنوز
عالم در انتظار قم ہنوز
اقبال اہل فکر ونظر کے لئے وہ عظیم شاہراہ کھولنا چاہتے تھے،جو ہمیں اس سفر مسلسل پر تیز گام کر دے۔جو تخلیق کا منشاء ہو۔ وہ افراتفری بے راہ روی سے محفوظ رہ کر واردات نو اور لذت پرواز سے آشنا کرنا چاہتے ہیں ،طلسم روزگار کے پیچھے نور کی وہ لہر ہے۔ جو راہوں کو ہموار کرکے سمت کا تعین کرکے منزل کا پتا دیتی ہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان تقدیر یزداں بن جاتا ہے۔جو جادہ بھی ہے اور رہبر بھی۔
وہ لکھتے ہیں دین اسلام ،نفس انسانی اور اس کی مرکزی قوتوں کو فنا نہیں کرتا۔ بلکہ عمل کے لئے حدود معین کرتا ہے۔ ان حدود کے معین کرنے کا نام اصطلاح اسلام میں شریعت یا قانون الہیٰ ہے۔شریعت کوقلب کی گہرائیوں سے محسوس کرنے کا نام طریقیت ہے۔’’ یہ ہماری فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جو ہنگامہ ء عالم کو رحمت اللعالمین سے ہم کنار کرکے جودت کردار اور جدت افکار کو تب وتاب جاودانہ عطا کرتی ہے۔
علامہ اقبال کی مناجات حقیقت میں ان کی آرزوؤں اور تمناؤں کا خلاصہ ہے۔ وہ تمنائیں اور آرزوئیں جن کی انہوں نے اپنی تمام عمر اپنے کلام اور بیان سے متنوع پیرایہ ء بیان اور مختلف اسلوب سے اشاعت کی ہے۔
علامہ اقبال نے اس بے پایاں سمندر کو مناجات کے کوزے میں سمو دیا ہے۔ اور قدسی صاحب نے اس کی تفسیر بیان کرکے علامہ کے افکار اور ان کی آرزوؤں سے ایک حد تک نئی نسل کو بہرہ یاب ہونے کا موقع دیا ہے۔
مجھے امید ہے کہ اس کتاب کی اشاعت سے نئی نسل کو علامہ کے عظیم کار ناموں اور تصورات کو تفصیل سے پڑھنے کی آرزو ہو گی۔اور علامہ کا حیات بخش، بصیرت افروز کلام جو جاوید نامہ سے پہنچا ہے۔ اسے بھی اردو میں اس نہجکی شرح کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت محسوس ہو گی۔
(ڈاکٹر جمیلہ خاتون)
پروفیسر گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد کراچی


اقبال اور مثالی شخصیت کے تکمیلی مراحل

اقبال اور مثالی شخصیت کے تکمیلی مراحل

پروفیسر سمیع اللہ قریشی 

انسان کی شخصیت مثل ایک شجر کے ہے جس کا تنا، شاخیں اور پتے اجتماعی کوشش کے صلے میں ایک پھول لاتے ہیں۔ یہی وہ گل سرسبد ہے جسے انسان کی زندگی میں اس کا رخ کردار کہا جا سکتا ہے۔ شجر شخصیت کا تنا، شاخیں اور پتے در حقیقت تعلیم و تربیت، خیالات، جذبوں اور ماحول کی دنیا ہے جو شخصیت کے گل کو رخ کردار کا پھول بن کر کھلنے کی توفیق عطا کرتی ہے اور انسان کے شجر شخصیت پر رخ کردار کا یہ انمول پھول برس کی کوشش اور محنت کے بعد ہی کہیں کھلتا ہے۔ شخصیت کا رخ کردار جسے(Attitude) بھی کہا جا سکتا ہے، ایک طرح کی نفسی توانائی جس شخصیت کی پہلو دار اور گوناگوں جہتوں سے فیض یاب ہوتی ہے، اپنی اصل سے کہیں ارفع و بلند ہو کر تخلیقی مقاصد کے لیے بروئے کار لائے جانے کے قابل ٹھہرتی ہے۔
انسان کی ہستی پر من حیث الجموع یہ حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ سب انسانوں کی شخصیت ایک سی ہوتی ہے، البتہ یہ خواہش ضرور کی جا سکتی ہے اور اسے جائز ہی شمار کیا جائے گا کہ بہت سے انسانوں یا زیادہ سے زیادہ انسانوں کی شخصیات میں ہم آہنگی پیدا ہو جائے۔ انسان اپنی فطرت میں نوری یا ناری نہ سہی مگر ایک خاص وحدت کا مالک ضرور ہے، مگر انسانوں میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی الگ شخصیت ہے جو واضح بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی، اور حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ذات میں اس کی شخصیت کا مثبت یا منفی ہونا ہی سب سے زیادہ اہم ہے۔ ہر انسان کی اپنی فطرت اور ذات کے اندر جو کچھ بھی ہنگامہ کار زار برپا ہے، اس میں شخصیت ہی بالآخر ایک نقطہ توازن قرار پاتی ہے۔ انسان بے شک بے شمار تضادات کا مجموعہ ہے مگر یہ کہنا محل نظر ہو گا کہ انسان کا سرے سے کوئی (Synthesis) ہی نہیں ہے۔ ہر شخص میں دیانت اور سچائی کا کچھ نہ کچھ مادہ ضرور ہوتا ہے۔ وہ ہر شخص چونکہ اپنی ذات میں ایک علیحدہ ’’ شخص‘‘ ہے لہٰذا ایک کردار بھی ہے۔ اگر وہ اس کردار کو کھودے یا نظر انداز کیے رکھے تو وہ محض ایک شخص ہے اور اگر وہ اس کرہ دار کو نہ صرف یہ کہ برقرار رکھے بلکہ اس صفت ارتقاء پذیری کی تحریم بھی کرے تو وہ شخص ’’ شخصیت ‘‘ بن سکتا ہے۔
کردار شخصیت کا پیرایہ اظہار ہے اور یہ مکمل بھی ہو سکتا ہے اور نا مکمل بھی، یعنی اچھا بھی اور برا بھی۔ اگر کردار مکمل ہے تو شخصیت کو مکمل اور بھر پور کہا جائے گا اور اگر کردار ناقص یا نا مکمل ہے تو شخصیت نامکمل، ناقص اور منفی رحجانات کی حامل ہو گی۔ مکمل کردار شخصیت کے مثبت رحجانات کے اظہار کا صراط مستقیم ہے اور اس طرح صراط مستقیم پر گامزن ہونے کے لیے بنیادی طور پر فطرت کا شعور لازم ہے جب کہ فطرت انسانی اپنی کنہ میں وہی کچھ ہے جو فطرت ازلی یا فطرت خداوندی ہے۔ اقبال تعمیر شخصیت اور رخ کردار کی تشکیل کے باب میں در حقیقت اسی فطرت ازلی کا نقیب ہے جو فطرت انسانی کا منبع ہے مگر جس سے انسان نے عملاً یا تو ہمیشہ اغماض کیا یا اسے گم شدہ تصور کیا، جسے مثلاً رسل (Russel) کا قول ہے:’’ جہاں تک طبعی قوانین کا تعلق ہے، سائنس نے ان کو سمجھنے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے لیکن اپنے بارے میں ہم اتنا بھی ابھی تک نہیں جان سکے جس قدر ستاروں اور الیکٹرون کے متعلق جانتے ہیں‘‘ اور اقبال کہتے ہیں:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر نہ کر سکا1؎
رسل اور اقبال دونوں نے انسان کی اپنی شخصیت کی پرتوں کو کھولنے اور اس جہان امکانات کی تفہیم کا درباز کرنے کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ قرآن نے واضح الفاظ میں مثالی شخصیت کے رخ کردار کے اس صراط مستقیم کی طلب کی خواہش کو انسان کے ان مطالبوں میں شامل کر دیا ہے جو وہ فطرت ازلی سے حاصل کرتا ہے اور یہ خواہش اپنی ذات میں تعمیر شخصیت کے تخلیقی عمل کی نتیجہ خیز محرک بن جاتی ہے۔
شخص اور شخصیت دو مختلف چیزیں ہیں جن میں بنیادی فرق ظرف کا فرق ہے۔ ایک شخص معاشرے میں اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جس قدر کہ قطرہ دریا میں، لیکن یہی شخص جب شخصیت کے سانچے میں ڈھلتا ہے تو ایک طرح سے پوری معاشری ہیئت پر محیط ہو جاتا ہے۔ شخص، شخصیت کے سانچے میں اس وقت ڈھلتا ہے جب اسے زندگی کرنے کے عمل کے دوران اپنی ذات کے اجتماعی شعور سے رشتہ جوڑنے کے راز کا علم ہو جائے اور پھر اس راز کے کھلنے کے بعد وہ اس پر عمل پیرا بھی ہو جائے۔ چنانچہ شخصیت یا مثالی شخصیت سے مراد کسی ایسے شخص کا وجود ہے جو ہر اعتبار سے انسانیت کے معیار پر پورا اترتا ہو، جو اپنے وجود کو انسانیت کے لیے اور انسانیت کی امانت خیال کرتا ہو۔ شخص کے اندر جوہر انسانیت کی موجودگی ہی اسے شخصیت بخشتی ہے۔ شخص محض وجود ہے جس کے اعمال معاشرے کے قوام پر مثبت یا منفی کسی بھی رنگ میں شدت سے اثر انداز ہو سکتے ہیں، جب کہ مثالی یا مثبت شخصیت ذات اور صفات ہر دو کا خوبصورت اجتماع ہے۔ محض ایک شخص ہونا میرے اور آپ کے معقول اور معتبر ہونے کی دلیل یا ثبوت نہیں۔ یہ ثبوت تو فی الحقیقت شخصیت مہیا کرتی ہے۔ یہ کارنامے فقط شخصیت ہی انجام دے سکتی ہے کہ وہ معمولی کو غیر معمولی بنا دے۔ معاشرے میں عام طور پر چلتے پھرتے لوگ ’’ شخص‘‘ کی ذیل میں آتے ہیں۔ شخصیتیں گنی چنی ہوا کرتی ہیں۔ اقبال کی خودی کا اختیار بھی اپنے اندر شخص سے شخصیت بننے کا مفہوم ہی رکھتا ہے اختیار خودی کا موقع بھی اشخاص کو کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ خودی یا شخصیت ہی وہ رتبہ بلند ہے کہ ملا جس کو مل گیا۔
ایکس وال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ معاشری ہیئت میں منفی شخصیت کی کیا قدر و قیمت ہے، قرآن نے اپنے نظام میں جو ایک روحانی نظام ہے، آدم کے مقابلے میں ابلیس کو پیش کر کے بڑی حکمت سے اس سوال کا جواب پیش کر دیا ہے۔ چنانچہ آدم مثبت اور ابلیس منفی شخصیتوں کے نمائندہ ہیں۔ مگر چونکہ منفی شخصیت کی بنیاد بھی ایک جوش اور تحرک سے ہوتی ہے اس لیے خدا اسے بھی نظر انداز نہیں کرتا چنانچہ زمین پر بھی ایک بہت برا شخص ہر پہلو سے برا نہیں ہوتا۔ اس کی شخصیت کا کوئی نہ کوئی گوشہ اپنے اندر کوئی نہ کوئی عظمت اور تاب ناکی ضرور رکھتا ہے جسے عام طور پر تعصب کے باعث نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اقبال نے بھی فطرت ازلی کے تتبع میں اپنے نظام فکر میں پوری فراغ دلی کا ثبوت دیتا ہے اور ابلیس کی منفی شخصیت میں سے مقصد کی لگن، خود داری، عزت نفس، ہمت و حوصلہ اور بے پناہ عزم کی خوبیوں سے اعراض نہیں کیا۔ قبل اسلام کے عرب جاہلی معاشرے میں مروہ کی جو قدر و قیمت ہو سکتی ہے، ابلیس کی شخصیت میں وہی قدر و قیمت مندرجہ بالا اوصاف کی ہے۔ چنانچہ اقبال نے ابلیس کی ان صفات کو بھی مثالی شخصیت اور مثبت شخصیت کے لازمے شمار کیا ہے اور اس میں ہر گز کوئی قباحت محسوس نہیں کی، مگر اس فرق کے ساتھ کہ منفی شخصیت ان خصائص سے ناجائز انتقاع(Explotation) کرتی ہے جب کہ مثبت شخصیت انہیں اپنی واردات بناتی ہے اور ان تمام صفات کا انتقاع مثبت ہوتا ہے۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ منفی شخصیت اپنی شخصیت کا قصر دوسروں کو فنا کر کے تعمیر کرتی ہے لیکن جلد یا بدیر خود بھی فنا ہو جاتی ہے البتہ مثبت اور مثالی شخصیت دوسروں کے لیے فنا ہو کر زندہ جاوید ہو جاتی ہے اور در حقیقت فنا نہیں ہوتی۔ ایسی ہی شخصیتوں کے خاکستر سے نسل در نسل مثبت شخصیتیں جنم لیتی رہتی ہیں۔ یہی شخصیتیں دیو مالائی ققنس ٹھہرتی ہیں اور ایسی ہی شخصیتوں کا فیض قرن ہا قرن تک جاری و ساری رہتا ہے۔ ان کے برعکس منفی شخصیتیں کالی آندھیوں کی طرح اٹھتی ہیں اور ان کا واحد فریضہ انسانوں کا استحصال ہوا کرتا ہے۔ منفی شخصیت خلا سے گھبرا جاتی ہے اور اس کے پاؤں ایک روز اچانک زمین کو چھوڑ دیتے ہیں، مگر مثبت، مثالی یا قرآن کی زبان میں ایسی شخصیت جو بسطہ فی العلم و الحسم کی مصداق ہے یعنی ایک صاحب ایمان، مخلص، امانت دار اور مضبوط انسان کبھی کسی خلا سے نہیں گھبراتا بلکہ وہ اپنی ذات کی ہمہ گیری سے اسے پر کرتا ہے اور ہر صورت حال سے نپٹ سکتا ہے، تعمیر کرتا ہے، تخلیق میں منہمک رہتا ہے، یہاں تک کہ کوئی بھی پیش آمدہ بحران (Crisis) یا خلدا اس کی ذاتی دیانت و امانت، ایثار و خلوص اور مضبوطی و طاقت سے پر ہو جاتا ہے۔ بلکہ وہ ایسا وجود ہوتی ہے کہ اگر کہیں ٹھہر جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آس پاس، دائیں بائیں معاشرے کی صحت مند حرکت پذیری میں دل کا سکون و طمانیت گھل مل گیا ہے۔ اقبال نے مثالی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے سلسلے میں یہی بات شاہین، مرد مومن اور مرد کامل کے حوالوں سے بہت خوبصورتی کے ساتھ کہہ دی ہے۔ اقبال کے نظام فکر میں شخصیت کے تصور کا ایک مربوط ارتقاء پایا جاتا ہے۔ فکری کرب کے عبوری دور میں اقبال نے ۱۹۱۰ء میں اپنے منتشر افکار کو اختصار کے ساتھ سمیٹنے کی ایک کوشش (Stray Reflection)2؎ میں کی تھی۔ شخصیت، جسے یہاں اقبال نے محض (Personality) کا نام دیا تھا۔ آگے چل کر یہی تصور اقبال کے مایہ ناز تصور خودی میں ڈھل گیا۔د ر حقیقت یہ اس وقت ہوا جب ۱۹۱۵ء میں مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ میں انہیں اپنے تصور شخصیت کا جائزہ لینے اور اپنے نتائج فکر کو شعر کے پیرائے میں اور پھر ۱۹۲۹ء کے قریب اپنے شاندار خطبات میں علمی ڈھب میں پیش کرنے کا موقع ملا۔ Stray Reflection میں شخصیت کے زیر عنوان اقبال نے ایک طرح سے اپنے فلسفہ خودی کی ابتدائی صورت پیش کی ہے۔ تب تک انہوں نے خودی کی اصطلاح اپنے فلسفیانہ مفہوم کے ساتھ پیش نہیں کی تھی۔ تاہم اپنے عظیم نظریہ خودی کا شخصیت یا(Personality) کے عنوان سے ایک تصور انہوں نے ان الفاظ میں اپنی یاد داشتوں میں محفوظ کر لیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ شخصیت کی بقاء کوئی کیفیت نہیں بلکہ ایک طریق عمل ہے۔ میرا خیال ہے کہ روح و بدن کی تفریق نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کئی مذہبی نظام اسی باطل تفریق پر مبنی ہیں۔ انسان اصلاً ایک توانائی، ایک قوت یا قوتوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس کے عناصر کی ترتیب میں اختلاف کی گنجائش ہے۔ ان قوتوں کی ایک مخصوص ترتیب کا نام شخصیت ہے۔ یہاں اس سے کوئی بحث نہیں کہ آیا یہ ترتیب محض اتفاقی ہے۔ میں اسے فطرت کے حقائق میں سے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتا ہوں او ریہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ کیا قوتوں کی یہ مخصوص ترتیب جو ہمیں اتنی عزیز ہے، بعینہ قائم رہ سکتی ہے؟ کیا ممکن ہے کہ یہ قوتیں جس طرح زندہ، صحت مند شخصیت پر عمل پیرا ہیں، اسی رخ پر ان کا عمل جاری رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات ممکن ہے انسانی شخصیت کو ایک دائرہ فرض کیجئے اور یوں سمجھئے کہ قوتوں کی ایک خاص ترتیب کے نتیجے میں ایک دائرہ تشکیل پاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دائرے کے تسلسل کو ہم کس طرح محفوظ کر سکتے ہیں؟ بظاہر اس کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنی شخصیت کو کچھ اس طرح تقویت پہنچائیں کہ اس کے قوائے ترکیبی کو اپنے مقررہ معمول کے مطابق عمل کرنے میں مدد ملے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ فعلیت کی ان تمام صورتوں سے دست بردار ہو جائیں جو شخصیت کی تحلیل کرنے پر آمادہ ہوں مثلاً عجز و انکسار، قناعت، غلامانہ فرماں برداری وغیرہ۔ ان کے خلاف بلند حوصلگی، عالی ظرفی، سخاوت اور اپنی روایات و قوت پر جائز فخر، ایسی چیزیں ہیں جو شخصیت کے احساس کو مستحکم کرتی ہیں۔‘‘
’’ شخصیت انسان کا عزیز ترین سرمایہ ہے، لہٰذا اس کو خیر مطلق قرار دینا چاہیے اور اپنے تمام اعمال کی قدر و قیمت کو ایس معیار پر رکھنا چاہیے۔ خوب وہ ہے جو شخصیت کے احساس کو بیدار رکھے اور ناخوب وہ ہے جو شخصیت کو دبائے اور بالآخر اسے ختم کر دینے کی طرف مائل ہو۔ اگر ہم وہ طرز زندگی اختیار کریں جس سے شخصیت کو تقویت پہنچے تو دراصل ہم موت کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ موت، جس کی ضرب سے ہماری شخصیت کی اندرونی قوتوں کی ترتیب گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ پس شخصیت کی بقاء ہمارے اپنے اختیار میں ہے جس کے حصول کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔ یہ خیال جو یہاں پیش کیا گیا ہے، دور رس نتائج کا حامل ہے۔ کاش اس نقطہ نظر سے اسلام، بدھ مت اور عیسائیت کی تقابلی حیثیت پر بحث کرنے کا مجھے موقع میسر آتا لیکن بد قسمتی سے اس مسئلے کی تفصیلات کا جائزہ لینے کی مجھے فرصت نہیں۔‘‘
یہ ملت پر اقبال کا احسان ہے کہ شخصیت کے موضوع پر ۱۹۱۰ء میں سوچے گئے اس نقطے کو انہوں نے نہ ترک کیا اور نہ ادھورا چھوڑا، بلکہ اگلے چند ہی برسوں میں اسے خودی کے عنوان سے ترتیب دیا اور لکھا کہ:
’’ جہاں اندرونی احساس موجود ہو وہاں خودی گویا اپنا کام کر رہی ہے۔ خود خودی کو ہم اس وقت جانتے ہیں جب وہ کچھ معلوم کر رہی ہو، فیصلہ کر رہی ہو یا عزم کر رہی ہو۔ خودی یا روح کی زندگی ایک قسم کا تناؤ ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خودی اپنے ماحول پر اثر انداز ہو رہی ہے اور ماحول خودی پر اثر انداز ہو رہا ہو اور باہمی اثر اندازی کے اس میدان سے باہر کھڑی نہیں رہتی بلکہ اس کے اندر ایک حکمران قوت کی حیثیت سے موجود رہتی ہے اور اپنے تجربات کے ذریعہ سے اپنی تعمیر اور تربیت کرتی ہے۔‘‘
پھر خودی کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
’’ میری اصل شخصیت ایک چیز نہیں بلکہ ایک فعل قرار پاتی ہے۔ میرا تجربہ ایسے افعال کا ایک سلسلہ ہے جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور جن کو ایک حکمران مقصد کی وحدت ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے ہے۔ میری ساری حقیقت میرے حکمران جذبہ فکر و عمل کے اندر موجود ہے۔ آپ میرا تصور اس طرح سے نہیں کر سکتے کہ گویا میں کوئی چیز ہوں، جو فاصلہ کے اندر کہیں پڑی ہے یا گویا میں مادی دنیا کے اندر موجود تجربات کا ایک سلسلہ ہوں، بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ میری تشریح، تفہیم یا تعریف میرے اندازوں اور فیصلوں کی بناء پر میرے رحجانات فکر و عمل کی بنا پر، میرے عزائم اور مقاصد اور میری آرزوؤں اور امیدوں کی بنا پر کریں۔‘‘
اور کہا کہ:
وجود کیا ہے؟ فقط جوہر خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا3؎
تعمیر شخصیت کے معاملے میں اقبال جس حرکی عملیت (Dynamic Activism) کے قائل ہیں وہ ایک اس قدر زور دار اور طاقتور عمل ہے کہ فرد اور معاشرہ دونوں کی تعمیر و تشکیل کا ضامن بن جاتا ہے۔ اقبال کی یہ حرکی عملیت کچھ تسلیم شدہ بنیادی اور صحت مند اقدار کا صلہ ہے۔ قدروں کے معاملے میں جہاں ایک طرف یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ انسان کی صالح اور صحت مند زندگی کا دار و مدار ان پر ہے، وہاں قدروں کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ خود اپنی ذات میں کوئی قدر (Value) کس قدر جاندار ہے۔ مثبت اقدار کے لیے ضروری ہے کہ ان میں اس قدر استقلال اور پائیداری ہو کہ وہ نت نئی تہذیبی ہستیوں کے ایک ہی جھونکے سے تہ و بالا ہو کر نہ رہ جائیں۔ مثبت قدریں، جو مثبت اور مثالی شخصیت کی تعمیر میں ممد و معاون ہوتی ہیں، زمانوں کے تجربے اور طویل ریاضتوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ شخصیتیں ایسی ہی قدروں کے اتباع میں شخصیتیں بنتی ہیں ۔ نوجوان نسل کی تربیت کے لیے ان کے درمیان مثالی شخصیتوں کا وجود حد درجہ ضروری ہے، کیونکہ محض مطالعہ بے کار بھی ہو سکتا ہے اور بعض حالتوں میں خطرناک بھی۔ علم کو مفید مطلب روپ شخصیتیں ہی دیا کرتی ہیں۔ شخصیتوں کے اسی فیضان نظر سے انسان کا فکر و عمل صرف ایک اور اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ خیر کے اس عمل کا دائرہ پھیل کر پوری معاشری ہیئت پر محیط ہو جاتا ہے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ فرد اور معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے لیے مثبت قدریں کون سی ہیں اور ان کا منبع کیا ہے؟ اقبال کا یہ عقیدہ ہے کہ فرد کی ذات اور کائنات میں ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے، اور تعمیر شخصیت در حقیقت معاشرے میں مثالی شخصیتوں کے وجود کے بھرپور امکان کی شہادت ہے۔ اقبال کے ہاں عبودیت اظہار شخصیت کی سب سے پہلی منزل ہے جو بالواسطہ عمل کو راہ دینے کا باعث بنتی ہے اور عمل ہی انسان کی بالآخر تقدیر ٹھہرتا ہے جو جذبہ جستجو کے ساتھ مملو ہے۔ انہی باتوں میں انسان کی پر خلوص شرکت جہاں اس کی روح میں پاکیزگی، بلند خیالی، ذوق لطیف اور پاک ضمیری پیدا کرتی ہے، وہاں مدنیت کی روح کو بھی عفیف بنا دیتی ہے۔ ذوق عبودیت میں مثالی شخصیت کی تعمیر کا راز پنہاں ہے۔ عبودیت انسان کو خود اپنی ذات پر ایمان لانا بھی سکھاتی ہے اور خدا کی ذات پر بھی۔ اقبال نے تعمیر شخصیت کے اس مرحلے میں یقین محکم اور عمل پیہم کو بھی شامل کر دیا ہے۔ کردار کے کندن بننے کے اس عمل کے نتیجہ میں شخصیت سخت کوش، خارا شگاف، بے خوف، عقابی روح رکھنے والی، بے باک، فولاد مزاج، قاہری اور دلبری کی صفات سے متصف ہو کر ابھرتی ہے اور اس کا دل تپش شوق سے گرم اور سینہ پر تو عشق سے فرزاںہوتا ہے۔
یہ اقبال کے ہاں مثبت شخصیت کے پیکر محسوس کا طلوع ہے۔ یہ شخصیت خود کو پہچان کر خدا کو پہچاننے کے قابل ہے۔ ہزار سجدوں سے نجات پا کر ماسوا سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔ شخصیت کی یہی صفت فرد کو لاہوتی اور ملت کو جبروتی بنا دیتی ہے اور معاشرہ کی یہ شخصیت زمانے کو اپنے ساتھ ڈھالنے کی قوت رکھتی ہے، خود زمانے کے ساتھ نہیں ڈھل جاتی۔ یہ جہاں کے لیے نہیں ہوتی بلکہ جہاں اس کے لیے ہوتا ہے۔ تعمیر شخصیت کے اس مرحلے پر شخصیت کے اوصاف میں طبع بلند، مشرب ناب، دل گرم، نگاہ پاک بیں، جان بے تاب شامل ہو جاتے ہیں اور فرد اپنی ذات میں ایک ایسا کارواں بن جاتا ہے کہ ستارے اس کی گرد راہ ہو جاتے ہیں۔ اس کی فطرت میں ممکنات زندگی کی امانت داری کا رحجان بڑھ جاتا ہے اس کے مزاج میں صداقت، عدالت اور شجاعت کا قوام گاڑھا ہو جاتا ہے۔ وہ دنیا کی امانت کا اہل ٹھہرتا ہے۔ اس کی ایک نگاہ تقدیروں کو بدل کے رکھ دیتی ہے اور شخصیت ولایت، بادشاہی اور علم اشیاء کی جہانگیری کے منصب کے لائق ٹھہرتی ہے۔ اب یہ سیر چشم ہے، خادم بھی ہے اور مخدوم بھی۔ اس کی ذات میں درویشی و سلطانی کا ایک بے نظیر اجتماع ہے۔ اب وہ قطرہ، مثال بے بحر بے پایاں بن جاتا ہے۔ اس کی شخصیت میں سرشت طوفان پوشیدہ ہے اور ہیچ مقداری کے طلسم کا اسیر نہیں رہتا۔ شخصیت کی تعمیر کے ان تعمیری مراحل میں غفاری و قہاری و قدوسی و جبروت، نگاہ بلند، سخن دلنواز اور پر سوزجان کی کیفیات شامل ہیں جن کا صلہ جہاں داری، جہاں بینی، جہاں بانی اور جہاں آرائی ہے۔ اب اس کا سوز ہمہ سوز ہے اور اس کا شباب بے داغ ہے۔ وہ قبیلے کی آنکھ کا تارا ہے، جسورو و غیور ہے۔ اس کی ضوب کاری ہے اور اس کا جگر چیتے کا ہے اور اس کا تجسس شاہین کا سا وہ لہو گرم رکھنے کے لیے پلٹ پلٹ کر جھپٹتا ہے۔
خود شناسی اور خدا شناسی کے طفیل مثالی شخصیت فقر و غناء کے دور میں داخل ہو جاتی ہے جو انسانی کردار کی ایک اعلیٰ ترین صفت ہے۔ جس سے اسرار جہانگیری کھلتے ہیں اور مٹی میں بھی اکسیر کی صفت در آتی ہے۔ شبیر کا وجود اسی فقر و غنا کا مرہون ہے مگر کچھ اسی طرح کہ فقر و غنا کا معیار بلند ہو جاتا ہے۔ فقر شخصیت کے ہاتھ میں ایک ایسی تلوار ہے جو کردار کے محسوس پیکر میں ڈھل کر حیدر کرار اور خالد سیف اللہ بن جاتی ہے۔ یہ بھی تعمیر شخصیت کے مراحل ہیں اور شخصیت تکمیل کی حدود میں داخل ہو رہی ہے۔ اب اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ قرار پاتا ہے۔ وہ غالب و کار آفریں و کار کشا و کار ساز ہو جاتی ہے۔ اسے خالی ہونے کے باوجود نوری نہاد اور بندۂ مولا صفات کی سند عط اہوتی ہے۔ خدا کی نیابت کی پوری پوری اہلیت اس میں آ جاتی ہے۔ پھر ہر لحظہ اس کی ایک نئی شان ہے اور وہ واقعتاً گفتار و کردار میں خدا کی رباہن ہے۔ اب اس کے اسیر حرص و ہوس ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اکل حلال اس کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہ مثالی شخصیت اب اپنی پہچان شرق و غرب کے حوالے سے نہیں کرتی بلکہ گیرندۂ آفاق اور سوار اشہب دوراں بن کر ایک طرح کی روحانی جمہوریت کے ایوان میں داخل ہو جاتی ہے اور انفس و آفاق میں خدا کی آیات کا تماشا کرتی ہے، یہاں تک کہ آیات خداوندی کی قرات کرتی ہوئی خود ایمان کی پختگی کی وہ انتہا بن جاتی ہے کہ اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے آفاق بھی اس میں گم ہو جاتے ہیں۔ یوں تعمیر شخصیت کا عمل اقبال کے نزدیک ایک حقیقت سے دوسری حقیقت کو پہچانتا ہوا نظریے سے واردات کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ ایسی ہی تربیت یافتہ شخصیتوں کا پھیلاؤ خود ملت بیضاء ہے۔ شخصیتوں کی موت، موت نہیں بلکہ ہجرت سوئے دوست ہے اور دم مرگ ان کے لبوں کا تبسم ہی ان کی شخصیتوں کی مثالیت اور عینیت اور ہمہ گیری کا راز فاش کرتا ہے۔
افکار اقبال کے مخاطب عام طور پر نوجوان ہیں۔ اس لیے قومی تشخص کی تشکیل میں اس پہلی کڑی کی تربیت کو اقبال نے اپنی فکری نظام میں ہر جگہ ترجیح دی ہے اور واضح کر دیا ہے کہ احساس کمتری دور کیے بغیر شخصیت کی تعمیر کا عمل کبھی مکمل نہیں ہو سکتا۔ اقبال در حقیقت معرفت نفس کے مبلغ ہیں اور ہر وہ شخص جو اپنی ذات سے گریزاں ہے اور اپنی ذات کے اندر جھانکنے سے خوف زدہ ہے، اسے اس دنیا ہی میں اضطراب اور بے چینی کا عذاب چکھنا ہے، اس کا جہنم وہی ہے جسے قرآن نے نار تطلع علی الافئدۃ سے تعبیر کیا ہے اور آج انسانوں کی اکثریت کے دلوں میں یہی آگ بھڑک رہی ہے۔ افکار اقبال کی روشنی میں شخصیت کے شجر کو اپنی نمو کے مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر جس پھول کو کھلانا ہوتا ہے وہ پھول ملت بیضاء کے نوجوانوں کے سوا کون ہو سکتا ہے۔ کاش ملت بیضاء کے پھولوں میں وہ خوشبو بقدر وافر لوٹ آئے جسے اقبال مشام جاں بنا لینے کو ترستے رہے۔
٭٭٭
حواشی
۱۔ ضرب کلیم، کلیات۔ ص ۶۹/۶۳۱
۲۔ مرتبہ، جاوید اقبال، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۶۱ء

۳۔ ضرب کلیم، کلیات۔ ص ۳۴/۴۹۶

خطبات اقبال کا پس منظر

خطبات اقبال کا پس منظر
پروفیسر سمیع اللہ قریشی
(۱)
خطبات اقبال کا پس منظر

مسلمانوں میں اپنی فکری میراث اور مذہبی روایت کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کا رحجان بحیثیت ایک تحریک انیسویں صدی میں ہوا۔ رفتہ رفتہ مغربی علوم مشرق میں رواج پانے لگے اور مذہبی مسلمات کو تشکیک کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ ۱۴۰۶ء کے بعد سے جب ابن خلدون نے وفات پائی۔ ۱۸۳۰ء تک اسلامی دنیا علوم و فنون کی ہر شاخ میں فکر تازہ سے محروم ر ہی۔ انہی درمیانی صدیوں میں تہذیب مغرب کی نمو ہوئی اور اس کے عالمگیر امکانات واضح ہوئے۔ انیسویں صدی کی ابتداء میں دنیائے اسلام میں جگہ جگہ ایسے مفکرین ابھرے جنہوں نے چاہا کہ اسلامی تہذیب کے علمی اور ثقافتی ورثے کی تشکیل نو کے سامان کیے جائیں۔ ایسے ہی دوسری صدی ہجری کے معتزلہ اور تعقل پسند اخوان الصفا کی مذہبی تشریحات پھر سے سامنے آنے لگیں تاکہ متکلمین سائنس، فلسفہ اور مذہب کے مسلمات کا تعارض کسی طور رفع کر سکیں، لیکن سابقہ صدیوں میں مغربی نشاۃ ثانیہ سے اغماض برتنے اور تحریک احیائے علوم سے عمداً گریزاں رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان غیر شعوری طور پر غرور کا شکار ہو گئے۔ یہ انیسویں صدی سے ذرا قبل کا ایک تہذیبی حادثہ بلکہ المیہ تھا جو دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ بیت گیا اور اس غرور نے انہیں علوم و فنون کے نئے افق تلاش کرنے سے روک دیا۔
برعظیم پاک و ہند میں حالت قدرے مختلف رہی۔ اگرچہ غرور یہاں بھی کچھ کم نہ تھا، تاہم اٹھارہویں صدی میں شاہ ولی اللہؒ کی صحت مندانہ فکر کے اثرات مسلمان معاشرے نے بالعموم اور آنے والے مفکرین نے بالخصوص بڑی شدت سے قبول کیے۔ اسلامی فکر کی تاریخ میں صدیوں بعد  شاہ ولی اللہ پہلے شخص ہیں کہ اجتہاد سے متعلق ان کی تعلیمات میں اپنے عہد کے علماء کے رویے سے بے اطمینانی کا برملا اظہار ہوا۔ انہوں نے ابن خلدون کے بعد صدیوں کے فاصلے سے خالص عمرانی انداز میں سوچا اور معاشرتی ذمہ داری یا معاشرتی توازن پر زور دیا۔ اس انقلابی فکر میں تغیر کا احساس انیسویں صدی کے آخر میں آ کر ہوا۔ سید جمال الدین افغانی، سرسید احمد خاں، علامہ رشید رضا، فرید وجدی آفندی، مفتی محمد عبدہ، شیخ جوہری طنطاوی وغیرہ ہم ان بزرگوں میں پیش پیش تھے جنہوں نے آگے چل کر اسلام میں عقلیت کی تحریک کو سہارا دیا۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
’’ سرسید احمد خاں کا اثر بحیثیت مجموعی ہندوستان تک محدود رہا۔ غالباً یہ عصر جدید کے پہلے مسلمان تھے جنہوں نے آنے والے دور کی جھلک دیکھ لی تھی۔ سرسید احمد خاں کی حقیقی عظمت اس واقعہ پر مبنی ہے کہ یہ پہلے ہندوستانی مسلمان ہیں جنہوں نے اسلام کو جدید رنگ میں پیش کرنے کی سعی کی اور سر گرم عمل ہوئے۔‘‘  (حرف اقبال)
کچھ اسی قسم کے خیالات کو حالی نے حیات جاوید میں محفوظ کیا ہے:
’’ سرسید کو کسی پہلو سے بھی دیکھا جائے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک بڑا بھاری پتھر تھا جو اسلامی معاشرے کے ٹھہرے ہوئے پانی میں لڑھکا دیا گیا اور اس نے جو لہریں پیدا کیں، وہ آج تک برابر حرکت میں ہیں، خواہ وہ ہمیشہ اس سمت میں نہ ہوں جسے سرسید پسند کرتے  
تھے۔‘‘   
(حیات جاوید)
 سرسید پہلے آدمی ہیں جنہوں نے تقلید محض کو مسلمان کے وقار کے خلاف گردانا۔ چنانچہ برصغیر میں اسلامی فکر کی تشکیل جدید میں جن بزرگوں کی کوششوں کو زیادہ دخل ہے، ان میں نمایاں سرسید، سید امیر علی، مولوی چراغ علی اور اقبال ہیں۔ یہ سب وہ لوگ تھے جنہوں نے قرآن کو اپنا رہنما ٹھہرایا اور تعقل (Rationalism) نیز حصول علم کے جملہ ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ تر وحی الٰہی پر اپنے مذہبی فکر کی بنیاد رکھی۔
(۲)
اقبال جو بیسویں صدی کے مسلمان متکلمین اور فقہا میں بہت نمایاں ہیں اور جو اسلام میں تحریک تعقل کے پرجوش موید تھے، فلسفہ جدید کا طالب ہونے کی وجہ سے انہیں اس بات کا پورا پورا احساس تھا کہ کسی بھی تہذیب کی فکری بنیاد فلسفے پر ہی استوار ہوا کرتی ہے اور اقوام عالم اپنے مخصوص فلسفے کے سہارے ارتقاء کی منزلیں طے کرتی اور سیاسی، ثقافتی، عمرانی، تعلیمی اور معاشی تقاضوں سے عہدہ برآ ہوتی ہیں۔ اپنے مخصوص فلسفہ حیات سے گریز کر کے ہر تہذیب پہلے زوال آمادہ اور رفتہ رفتہ موت کا شکار ہو جاتی ہے۔ تہذیبی زوال آمادگی کا مرض اس وقت لاحق ہوتا ہے جب ان کا انداز فکر و نظر اور علم و عمل عصری تقاضوں کی پروا نہیں کرتا۔ کسی تہذیب پر بیتنے والا یہ لمحہ بے حد نازک ہوتا ہے۔ اقبال جس عہد میں ایک متکلم، فقیہ، فلسفی، شاعر اور تہذیب اسلامی کے نباض کی حیثیت سے ابھرے، برصغیر کے مسلمان عوام ذہنی طور پر پسماندہ، نفسیاتی مریض اور زندگی کی ہر سطح پر احساس محرومی کا شکار تھے۔ وہ صرف ماضی میں گم تھے۔ ان کا حال بے معنی تھا اور مستقبل سے ان کا تعلق صرف مہدی کے موہوم انتظار کی حد تک باقی تھا ورنہ وہ بری طرح مایوس اور قنوطیت کا شکار تھے۔ مسلمانوں کے ماضی کے پرشوکت ہونے میں کوئی کلام نہیں لیکن محض ماضی پرستی کی بناء پر مستقبل اور با وقار مستقبل کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ جس قوم کا اپنے مذہب کی انقلاب آفریں تعلیم پر یقیں باقی نہ رہا ہو وہ عصر حاضر کے تقاضوں اور مستقبل کی ضرورتوں سے خوف زدہ رہنے لگتی ہے۔ نتیجتاً خود اعتمادی اور عمل کی قوت کھو دیتی ہے۔ اپنے ایک مکتوب میں اقبال نے بھی یہی سوچتے ہوئے تحریر کیا:
’’ ہندوستان کے مسلمان کئی صدیوں سے ایرانی تاثرات کے اثر میں ہیں۔ ان کو عربی اسلام سے اور اس کے نصب ا لعین اور غرض و غایت سے آشنائی نہیں۔‘‘
’’ روزگار فقیر‘‘ کے حوالے سے یہ قول بھی انہی کا ہے کہ:
’’ ہندوستان کے مسلمان اس عربی اسلام کو بہت کچھ فراموش کر چکے ہیں اور عجمی اسلام ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے۔‘‘
اور یہ بھی کہا کہ:
’’ اسلام اس وقت گویا زمانے کی کسوٹی پر کسا جا رہا ہے اور شاید اسلام کی تاریخ میں ایسا وقت پہلے کبھی نہیں آیا۔ ‘‘
اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی مادی اور ذہنی پسماندگی کا یہی تاریخی پس منظر تھا جس سے متاثر ہو کر انہوں نے اسلام کی فکری اور ثقافتی ہیئت کی تشکیل جدید کو اپنا موضوع بنایا۔ ۱۹۲۶ء میں سید سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھا:
’’ مسلمانوں پر اس وقت روحانی اعتبار سے وہی زمانہ آ رہا ہے جس کی ابتدا یورپ کی تاریخ میں لوتھر کے عہد سے ہوئی، مگر چونکہ اسلامی تحریک کی کوئی خاص شخصیت رہنما نہیں ہے اس واسطے اس تحریک کا مستقبل خطرات سے خالی نہیں، اور نہ عامہ المسلمین کو یہ معلوم ہے کہ اصلاح لوتھر نے مسیحیت کے لیے کیا نتائج پیدا کیے۔ ‘‘ (اقبال نامہ)
۱۹۲۵ء میں یہی سوچتے ہوئے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نظر سے زمانہ حال کے فقہ (Jurisprudence) پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ہدایت کو ثابت کر دے گاوہی اسلام کا مجدد ہو گا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم۔۔۔۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کو تحریر فرمایا:
’’ افسوس ہے زمانہ حال کے اسلامی فقہا یا تو زمانے کے میلان طبیعت سے بالکل بے خبر ہیں یا قدامت پرستی میں مبتلا ہیں۔ مذہب اسلام اس وقت زمانے کی کسوٹی پر کسا جا رہا ہے۔‘‘
ان حالات میں اور کچھ ایسی ہی سوچ کے تحت اقبال نے فکر اسلامی کی تشکیل جدید کا بیڑا اٹھایا اور مسلمان دانشوروں، ذہین افراد اور طبقہ علماء کے لیے ایسے راستے تجویز کیے جو درخشندہ اور جاندار مستقبل کی طرف لے جاتے ہوں۔ وہ خود خطہ مشرق کے فرد تھے اس لیے مشرقی روایات کی مخالفت کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ انہیں ان روایات پر ناز بھی تھا ۔ دوسری طرف مغربی افکار کو تمام تر رد کر دینا بھی عالمانہ دیانت داری کے خلاف تھا لہٰذا اپنے خطبات میں اقبال نے پوری کوشش کی کہ فکر و دانش اور علوم و فنون کے میدان میں مسلمانوں نے جو کچھ کیا ہے اسے گنایا جائے۔ اقبال نے مشرق و مغرب کے افکار کو متناسب اور موزوں امتزاج کے ساتھ قرآنی معیار علم پر جانچ کر نئی اسلامی فکر کا موضوع بنایا لیکن مغرب سے بس اسی قدر تعلق رکھا کہ متکلم کی حیثیت سے سائنسی رویے اور محسوسات سے رابطہ رکھا جائے کہ (بقول اقبال) یہ بھی اصل میں اسلامی فکر ہی کی میراث ہے۔ تاہم اقبال نے کہیں اور کبھی تہذیب و ثقافت کے ان پہلوؤں کو قبول نہیں کیا، جو دینی اقدار کے برعکس تھے۔ ان کے نزدیک مشرق کی اخلاقی اور مذہبی فضا صرف اس لیے زہر آلود ہوئی کہ عقیدۂ آخرت کے بارے میں مسلمانوں نے مایوس کن غور و فکر کا ثبوت دیا۔ ان حالات میں اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلامی فکر نو کی تشکیل جدید محسوس حقائق ہی پر استوار کی جائے۔
اقبال اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ مسلمانوں نے اپنی نا اہلی اور روحانی افلاس کے سبب وحدت ملت کے مفہوم کو وطنیت اور قوم پرستی میں خبط کر دیا ہے اور وہ ایک طرح سے اپنے روحانی احیاء سے مایوس ہو کر نام نہاد تصوف کی فکری آسودی کی جانب نکل گئے ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ ’’ اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو ذہن انسان کو نسل و وطن کی قیود سے آزاد کر سکتی ہے۔ اس کے امکانات ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔‘‘
چنانچہ مسلم کانفرنس کے خطبہ صدارت ۱۹۳۱ء میں فرمایا:
’’ مگر آپ کے مذہب کا یہ اعلیٰ تخیل مولویوں اور فقہ پرستوں کی دقیانوسی خیال آرائیوں سے رہائی کا طالب ہے۔ روحانی طور پر ہم ایسے خیالات اور جذبات کے قید خانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں جنہیں ہم نے صدیوں کے دوران میں اپنے گردا گرد اپنے ہی ہاتھوں سے بن لیا ہے اور اس بات کے کہنے کی ضرورت ہے (اگرچہ یہ بات بوڑھی نسل کے لیے باعث شرم ہے) کہ ہم نوجوان نسل کو اقتصادی، سیاسی، نیز مذہبی خطرناک مواقع کے لیے، جو موجودہ دور اپنے ہمرا لا رہا ہے، مسلح کرنے سے قاصر رہے ہیں۔‘‘
اقبال سمجھتے تھے کہ اسلام محض عقائد کے مجموعے کا نام نہیں۔ نہ اسے مذہبی اجارہ داروں کی ملکیت تسلیم کیا جا سکتا ہے، بلکہ یہ ایک سراپا حرکت دین ہے اور اسلام ماہیت حیات و کائنات کے عرفان اور اس کے مطابق زندگی کے رحجان اور میلان کا نام ہے، اور اسلام کا مقصد زندگی کو کسی ایک شکل میں جامد کرنا ہرگز نہیں، بلکہ اسے ایک لامتناہی انقلاب و ارتقاء کا راستہ بنانا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ:
’’ اسلام جدید تفکر اور تجربے کی روشنی میں قدم رکھ چکا ہے اور کوئی ولی یا پیغمبر بھی اس کو قرون وسطیٰ کے تصوف کی تاریکی کی طرف واپس نہیں لے جا سکتا۔‘‘ (حرف اقبال)
ایک اور تحریر میں ان کے قلم سے یہ جملے بھی ادا ہوئے کہ:
’’ چونکہ ہمارے فقہا کو ایک عرصہ دراز سے عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ عصرجدید کی داعیات سے بالکل بیگانہ ہیں، لہٰذا اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اس میں از سر نو قوت پیدا کرنے کے لیے اس کی ترکیب و تعمیر کی طرف متوجہ ہوں۔‘‘
اسی طرح قسطنطنیہ(استنبول) کے شعبہ دینیات کے سربراہ کو مشورہ دیتے ہوئے لکھا:
’’ ادارہ دینیات پر کسی ایسے شخص کو پروفیسر متعین کیا جائے جس نے اسلامی دینیات اور جدید یورپین فکر و تصورات کا مطالعہ کیا ہو تاکہ وہ مسلم دینیات کو افکار جدیدہ کا ہم پایہ بنا سکے۔ قدیم اسلامی دینیات کا تار و پود بکھر چکا ہے جس کا مدار زیادہ تر یونانی حکمت پر تھا۔ وقت آ چکا ہے کہ اس کی نئی شیرازہ بندی کی جائے۔ ‘‘ (اقبال نامہ)
(۳)
دسمبر ۱۹۲۸ء کے آخری دنوں میں اقبال کو دعوت دی گئی کہ وہ مدراس مسلم ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام اپنے خطبات پیش کریں۔ چنانچہا قبال نے مدراس کے سہ روزہ قیام کے دوران خطبات دیے۔ جنوبی ہندوستان کے اس عملی سفر میں اقبال بنگلور اور سرنگا پٹم بھی ٹھہرے۔ ایک خطبہ میسور یونیورسٹی میں بھی دیا۔ جنوری ۱۹۲۹ء میں اقبال حیدر آباد دکن پہنچے اور عثمانیہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام خطبات کا دوسرا دور شروع ہوا۔ یہاں سے اقبال علی گڑھ آئے اور مسلم یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ نے ان خطبات کے تیسرے دور کا اہتمام کیا۔ یہاں خطبات کی افتتاحی تقریب کا آغاز وائس چانسلر سر راس مسعود کی تقریر سے ہوا اور اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سید ظفر الحسن صدر شعبہ فلسفہ نے اقبال کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے خطبات اقبال کو ذہنی مائدہ (Intellectual Feast) قرار دیتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا:
’’ اسلام کے اصولوں اور جدید سائنس اور فلسفہ پر اقبال بہت گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان مسائل پر انہیں بھرپور اور تازہ تر معلومات حاصل ہیں۔ ایک نئے فکری نظام کی تشکیل کے لیے وہ حد درجہ صاحب فراست ہیں۔ اسلام اور فلسفہ کو قریب تر لانے پر جو قدرت انہیں حاصل ہے اس میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اسی چیز نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ اس روایت کا ایک دفعہ پھر احیاء کریں جس کا آغاز صدیوں پہلے نظام اور اشعری جیسے علماء نے اس وقت کیا تھا جب ان کا سامنا یونانی علوم اور فلسفہ سے ہوا۔ اپنے خطبات میں جن سے انہوں نے ہمیں نوازا ہے۔ گویا ایک نئے علم کلام کی بنیاد رکھی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ یہ کام صرف وہی کر سکتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر ظفر الحسن نے ان خطبات کو نہ صرف اسلام کے عظیم اصولوں کی شاندار تشریح قرار دیا بلکہ انہیں علمائے وقت کے لیے ’’ معنی خیز ذہنی تحریک‘‘ (Pregnant Suggestions) کا نام بھی دیا۔
۱۹۳۰ء میں جب ان خطبات کا پہلا ایڈیشن لندن سے شائع ہوا تو ان کی تعداد چھ تھی۔ ۱۹۳۴ء میں Aristotelien Society, London کی دعوت پر جب ساتواں خطبہ لکھا گیا تو خفیف لفظی ترمیمات کے ساتھ اسی سال یہ مجموعہ اپنی قطعی اور مکمل شکل میں ’’ The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam‘‘ کے نام سے شائع ہو گیا۔
اقبال کے ہم عصر مستشرق سر ڈینسن راس کو یہ تسلیم کرتے ہی بنی کہ:
’’ خطبات میں اقبال نے اسلام کو مرکز بنا کر ایک بہتر نظام عالم کے قیام کے لیے اپنے نظریات اور مقاصد پیش کیے اور وہ غالباً ان خطبات ہی کی بناء پر زیادہ بہتر طریقہ سے یاد رکھے جائیں گے۔‘‘ (اردو، اقبال نمبر)
(۴)
اسلامی الٰہیات یا اسلامی فکر کی تشکیل نو کے عنوان سے ترتیب دیے گئے ان خطبات کا آغاز جس جملے سے ہوتا ہے وہی دراصل تمام خطبات کی روح ہے یعنی ’’ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو فکر کے مقابلے میں عمل پر زیادہ زور دیتی ہے۔‘‘
دیباچہ بے حد فکر انگیز ہے جس میں اقبال نے کھل کر کہا کہ ’’ صحیح قسم کے سلسلہ ہائے تصوف نے تو بے شک ہم مسلمانوں میں مذہبی احوال و واردات کی تشکیل اور رہنمائی میں بڑی قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں، لیکن آگے چل کر ان کی نمائندگی جن حضرات کے حصے میں آئی، وہ عصر حاضر کے ذہن سے بالکل فائدہ نہ اٹھا سکے وہ آج بھی انہی طریقوں سے کام لے رہے ہیں جو ان لوگوں کے لیے وضع کئے گئے تھے جن کا تہذیبی مطمع نظر بعض اہم پہلوؤں کے لحاظ سے ہمارے مطمع نظر سے بہت مختلف تھا۔ میں نے اسلام کی روایات،فکر، علیٰ ہذا ان ترقیات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو علم انسان کے مختلف شعبوں میں حال ہی میں رونما ہوئیں، الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید سے ایک حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ مطالبہ غلط نہیں کہ مذہب کی بدولت ہمیں جس قسم کا علم حاصل ہوتا ہے اسے سائنس کی زبان میں سمجھا جائے۔ یہ وقت اس طرح کے کسی کام کے لیے بے حد مساعد ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ مذہب اور سائنس میں ایسی ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہو جو سر دست ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں، تاہم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ فلسفیانہ غور و فکر میں قطعیت کوئی چیز نہیں۔ جیسے جیسے جہان علم میں ہمارا قدم آگے بڑھتا ہے، فکر کے لیے نئے نئے راستے کھل جاتے ہیں، اور شاید ان نظریوں سے جو ان خطبات میں پیش کیے گئے ہیں، زیادہ بہتر نظریے ہمارے سامنے آتے جائیں گے ہمارا فرض بہرحال یہ ہے کہ فکر انسانی کے نشوونما پر بہ احتیاط نظر رکھیں اوراس باب میں آزادی کے ساتھ نقد و تنقید سے کام لیتے رہیں۔‘‘
میر غلام بھیک نیرنگ کو خطبات کے ترجمے کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا:
’’ ان خطبات کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔ میرا کام زیادہ تر تعمیر ہی ہے اور اس تعمیر میں میں نے فلسفہ اسلام کی بہترین روایات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے، مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اردو خو ان دنیا کو شاید ان سے فائدہ نہ پہنچے کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے یا سننے والے کو پہلے سے حاصل ہے۔ اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔‘‘
(۵)
مختلف عناوین کے تحت ترتیب دیے گئے ان سات خطبات کے موضوعات بظاہر الگ الگ ہیں لیکن ان میں ایک ایسا تسلسل اور منطقی ربط موجود ہے جو انہیں ایک مکمل کتاب کی شکل دے دیتا ہے۔ خطبات کے موضوعات بالترتیب یہ ہیں:
۱۔ علم اور مذہبی مشاہدات
۲۔ مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار
۳۔ ذات الٰہی کا تصور اور حقیقت دعا
۴۔ خودی، جبر و قدر اور حیات بعد الموت
۵۔ اسلامی ثقافت کی روح
۶۔ الاجتہاد فی اسلام
۷۔ کیا مذہب کا امکان ہے؟
اقبال نے فکر مذہبی کو موضوع قرار دیا ہے۔ یہی چیز اسلام کے واسطے سے الٰہیات اسلامی کہلاتی ہے۔ پہلے دو خطبوں میں علم اور ذرائع علم پر بحث ہے اور فکر و وجدان کی راہ سے ذات الٰہی کا اثبات کیا گیا ہے۔ عقل اور وجدان، علم کے دو معتبر ذرائع ہیں۔ عقل خیالات، اور وجدان، محسوسات کے لیے ذمہ دار ہے مگر وجدان بھی ایک طرح کی اعلیٰ تر عقل ہی ہے اور اسلامی تہذیب کے ارتقاء میں دونوں ممد و معاون ہیں۔ ذرائع علم کی تشریح کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ سماعت تو تاریخ انسانیت کا مطالعہ ہے، بصارت سے مراد فطری علوم یا مطالعہ فطرت ہے او ردل و دماغ میں انسان کی ذہنی اور روحانی صلاحیتیں شامل ہیں۔ جیسے جیسے انسان ان تمام ذرائع کے صحیح استعمال پر قادر ہوتا جائے گا، انفس و آفاق میں خدا کے قوانین اور ان کے اثرات (یا آیات الٰہیہ کی تفہیم) اس پر منکشف ہوتے چلے جائیں گے۔ اقبال کے نزدیک وجدان کی طاقت انسان کے تحت الشعور کا حصہ ہے اس لیے یہ محسوسات کا حصہ بھی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کا کوئی وجود نہیں۔ روح کے وجود سے انکار ممکن نہیں۔ رسول عربی نے وقت یا زمانے کو خدا کہا اور وقت کو عصر حاضر کے فلسفی اور سائنس دان بھی ازلی اور ابدی مانتے ہیں۔ یہ احساس گویا خدا کے تصور کا ایک نیا پہلو ہے۔ یعنی خدا محسوس تو نہیں کیا جا سکتالیکن خود محسوسات کا وجود خدا کا ثبوت ہے۔ اسی کو اقبال وجدانی تجربے کی اہمیت قرار دیتے ہیں۔ یونانی فلسفے کے زیر اثر جونہی مسلمانوں نے عقل و وجدان میں تفریق پیدا کر دی، وہ علوم و فنون میں مغرب سے پیچھے رہ گئے۔ اقبال نے محسوس کیا کہ نظریہ اضافیت، اور زمان و مکان کے نئے نظریات نے عقل و وجدان کا مفہوم وسیع کر دیا ہے۔ اب مسلمانوں کو اسلام کی تہذیبی ترقی کے لیے نئے افق تلاش کرنا ہوں گے۔ چنانچہ تیسرے اور چوتھے خطبے میں ذات الٰہی کا تصور اس کی صفات، انسان، کائنات، حیات بعد الموت، دعا خیر و شر اور جبر و قدر کے مسائل زیر بحث آئے۔ گویا اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ زمان و مکاں میں انسان کا نظریہ حیات کیا ہونا چاہیے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر خدا نہ ہوتا تو اس کا تصور بھی نہ ہوتا کیونکہ معروض کے بغیر تصور کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہی وہ روحانی تجربہ ہے جس سے وجدانی کیفیت نصیب ہوتی ہے اور یہ قوت مادی، حیاتی اور شعوری تین مدارج سے گزر کر نصیب ہوتی ہے۔ حیات ایک ایسا جوہر ہے جو انسانی زندگی کی خارجی اور داخلی سمتوں کو متصل کرتا ہے۔ عالم موجودات میں ہر چیز متحرک ہے اور زندگی میں یقین محکم کے بغیر کسی مثبت عمل کی توقع عبث ہے۔ یہاں اقبال نے خودی کے قدر آفریں اور موثر پہلوؤں پر بحث کی ہے اور انسان کامل کی خودی کو قدر آفریں قرار دیا ہے۔ اقبال کے نزدیک انسان کامل کی خودی بقائے دوام حاصل کرتی ہے۔ مادے کو اقبال نے ایک ایسی روح قرار دیا ہے جو زمان و مکان میں محصور ہے۔ در حقیقت یہی روح وحدت انسانی ہے جو نصب العین کی تلاش میں سر گرم عمل ہے اور اسی نصب العین کو زمان و مکان میں متشکل کرنے کی آرزو دراصل قیام مملکت کا دوسرا نام ہے۔ لہٰذا جو کچھ بھی مادی یا دنیاوی ہے، اس کی اصل روحانی ہے۔ مادی اشیاء کی کوئی حقیقت نہیں جب تک کہ ان کی بنیاد روحانی نہ ہو۔ پس اسلام کے نقطہ نظر سے مملکت، انسانی اداروں کے روحانی پہلو کو اپنے معراج تک پہنچانے کی ایک کوشش ہے۔ اسلامی فکر و فلسفے کا امتیاز یہی ہے کہ مسلمان، روح، مادہ، حیات و ممات اور حیات بعد الموت پر یقین محکم رکھے۔ جب ایسا ہو گا تو اس دنیا میں انسان کے بنیادی مسائل یعنی خدا، تخلیق، دعا، جبر و اختیار اور حیات بعد الموت کے تصورات کا مفہوم آسان ہو جائے گا۔ اسی کے ادراک پر اسلامی ثقافت کی بنیاد ہے۔ اسلامی ثقافت، اسلام کے نظام مدنیت، ریاست اور قانون کی بحث پانچویں اور چھٹے خطبے میں کی گئی ہے۔ اقبال اسلام کی تمدنی تاریخ کو باطنی اور ظاہری دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اسلام کی ظاہری تاریخ مسلمان بادشاہوں کے جاہ و جلال سے عبارت ہے، جب کہ باطنی تاریخ وہ ہے جس پر اسلامی فکر دینی کی تشکیل جدید کی بنیاد ہے۔ اسلام نے تاریخ عالم میں پہلو دار انقلاب برپا کیا۔ علم کی دنیا میں اسلام کا ظہور اپنی ذات میں استقرائی عمل کے ظہور کے مترادف ہے۔ الہامی کتب میں صرف اسلام نے تدبر و تفکر اور مشاہدہ انفس و آفاق کی دعوت عام دی ہے۔ انسان کی تاریخ قرآن کے نزدیک تیسرا ذریعہ علم ہے۔ عروج و زوال اقوام کے بارے میں قرآن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اقوام کو اجتماعی طور پر جانچا جاتاہے اور انہیں اپنی بد کرداریوں کے نتیجے اسی دنیا میں بھگتنا پڑتے ہیں۔ یہ انسانی معاشرے کا سائنسی تقاضا ہے۔ سائنسی تاریخ نگاری کا امکان اس وقت روشن ہوتا ہے جب پختہ عقل، وسیع تجربہ اور زندگی اور وقت کی ماہیت کے بارے میں بعض بنیادی تصورات سے پوری آگاہی حاصل ہو۔ اسلامی ثقافت کا مفہوم اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ مشاہدات کے لیے زاویہ نظر بدلتے ہی تصورات کو نیا مفہوم مل جائے کیونکہ اسلام بذات خود تحریک ہے جو ہر دور کے تغیرات کو اپنے اندر جذب کر کے تجربے اور روایت کو نئے سرے سے منظم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن محض عقیدے کی بجائے عمل یعنی تجربے پر زور دیتا ہے۔ جب تک اسلام ایک تہذیبی قوت رہا، مسلمان دنیا پر چھائے رہے۔ جونہی مذہب عقائد و رسوم کا ایک انبار بنا، اشاعت اسلام اور اسلام کے تہذیبی افق کی وسعت کا عمل رک گیا۔ ارتقاء کے نظریے کو اقبال نے اپنے خطبات میں اسلامی فکر و فلسفے کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ نظریہ ارتقاء کے بارے میں ان کا اہم ترین مرکزی نقطہ یہ تھا کہ اس کا تصور نہ صرف اسلامی فلسفے میں بلکہ قرآن میں بھی پوری طرح موجود ہے۔ اقبال کے نزدیک مذہب کا جوہر صرف اجتہاد سے حاصل ہو سکتا ہے۔ آخری خطبے میں عصر جدید کے فلسفہ اور مذہب کے امکان یا انسان کی تقدیر اور انسانی تہذیب و تمدن کے مستقبل پر غور کیا گیا ہے اور یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ انسان کی تقدیر بہرحال کسی ایسی برتر ہستی سے وابستہ ہے جو کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے اور مذہب اس لیے ایک ناقابل انکار سچائی ہے۔
(۶)
خطبات کے واسطے سے اقبال کو نژاد نو کو یہ بتانا مقصود تھا کہ اگر وہ فکر مغرب کی اس ترقی پسند قوت کو اپنے اندر جذب کر لے جو گزشتہ پانچ صدیوں سے فلسفے اور سائنس کے میدان میں ظہور پذیر ہوئی ہے تو اسلام اپنے پیروؤں کے ذوق تحقیق میں نئی روح پھونک سکتا ہے۔ کچھ یہی افکار خطابانہ نژاد نو کا موضوع ہیں۔ یہاں بھی اقبال تہذیب و افکار مغربی کے بارے میں دنیائے اسلام کے تردد کا ذکر کرتے ہیں اور فکر اسلامی کا از سر نو جائزہ لینے پر زور دیتے ہیں۔ اقبال عقیدتاً اس بات کے قائل تھے کہ فکر مغربی کی یلغار سے بچنے کی صرف یہی صورت ہے کہ اسلامی فکر اور ثقافتی و تمدنی رحجانات مغربی فکر سے اثر پذیر ہوں۔ انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ مغرب کا معاصر فلسفہ، مذہب اور الہام کی روشنی سے بیگانہ ہو کر نہ صرف گمراہ ہو چکا ہے بلکہ اب ایک سائنسی تجربہ گاہ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ انہیں یقین تھا کہ اسلامی افکار کی فلسفیانہ تشکیل نو اور مغربی تمدن کے ادغام سے صحت مند ثقافتی اور فکری نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اقبال تہذیب مغرب کی ہر چیز کو حرف آخر سمجھتے تھے یا اسے بے سوچے سمجھے اختیار کر لینے کے قائل تھے۔ انہوں نے تہذیب جدید کے بے شمار اخلاقی تصورات و اقدار کو پوری جرات کے ساتھ رد بھی کیا، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ یہ چاہتے تھے کہ جدید سیاسی اور معاشی نظام کو ایسی انسانی قدروں کے مطابق ڈھالا جائے جن کی بنیاد اسلام کی آفاقی تعلیم پر ہو۔
(۷)

اقبال کے نزدیک اسلام کے ماضی کی نئی دریافت اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسلام کو زمانہ حال کی اصطلاحوں میں کوئی منقطی بنیاد مہیا کی جائے۔ شاید اسی لیے انہوں نے وحی کے لیے Pragmatic Test کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اپنے موقف کے ثبوت میں جو دلائل اقبال دیتے ہیں وہ پہلے سے قائل لوگوں کو اپنے یقین میں پختہ تر کر دیتے ہیں مگر ایسا بھی نہیں کہ منکرین پر کوئی اثر مرتب نہ کریں۔ اقبال نے اپنے علم کلام کے ذریعے ایک طرح سے علی گڑھ تحریک کو زیادہ مربوط الفاظ میں بیان کیا ہے بلکہ خطبات اسی تحریک کی بلوغت کے شاہد ہیں۔ اقبال کے ان فکری رحجانات کو زندگی کے کئی پہلوؤں میں شناخت کیا جا سکتا ہے۔ اول اقبال نے خطبات میں جو کام اپنے ذمہ لگایا ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن کے اس دعویٰ کو کہ وہ ایک مربوط، جامع اور متحرک نقطہ نظر ہے، ثابت کیا جائے۔ دوسرے اقبال کا موقف یہ ہے کہ تعقل اور ایمان کے درمیان قرآن کسی دوئی اور تفریق کا قائل نہیں۔ وہ مذہب اور سائنس کو اپنے مقاصد میں ایک دوسرے سے الگ نہیں جانتا۔ تیسرے اقبال نے اسلام کے ثقافتی اور فلسفیانہ توارث کو از سر نو تعمیر کرنے کی قابل صد ستائش کوشش کی ہے اور اس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے ہیں، لیکن دین کی موجودگی میں بھی فلسفے کا امکان باقی ہے۔ ایک فلسفی دین کے اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے دین کے افکار کی تشکیل نو میں حصہ لے کر اس کی آب و تاب میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ اقبال خود اس کی بہترین مثال ہے چوتھے وحی و الہام کے سارے انسان سوچ کے جنگل میں بے راہ ہوئے بغیر سفر کر سکتا ہے۔ یہ سفر موجودات کو نئے رشتوں میں منقلب کر کے ایک طرح کی تخلیقی سرگرمی دکھا سکتا ہے۔ اگر وحی کی روشنی کے بغیر محض چند مفروضات کے سہارے فکر کی ایسی عمارت استوار ہو سکتی ہے جس پر مشکل ہی سے منطقی اعتراض وارد ہو سکے تو وحی کی بنیادیں زیادہ پائیدار ثابت ہوں گی۔ پانچویں اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اقبال نے خطبات کے واسطے سے اپنی پوری کوشش کی ہے کہ علم و فنون اور فکر و دانش کے میدان میں مسلمانوں نے جو کچھ پیش کیا ہے، سامنے لایا جائے، مگر اس بات کا کیا علاج کہ من حیث المجموع مسلمانوں نے فلسفے کو کبھی اس قابل خیال نہیں کیا کہ اس کی وساطت سے بھی کون و مکاں او رحیات انسانی کی معنویت کی تفہیم بآسانی ہو سکتی ہے اور یہ کہ دین کے اصولوں کی وضاحت فلسفے کے تعاون سے بھی کی جائے کہ آج خطبات اقبال کے وسیلے سے اسلام کی فکری روایت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر سرسید اور اقبال کی اسلامی فکر کے سوتے خشک ہونے کے لیے چھوڑ دیے گئے اور مسلمانوں نے اپنے آس پاس بہنے والی ندیوں کے تازہ تر پانیوں کو اپنے علوم و فنون اور فکر و دانش کی خاموش اور ساکن جھیل میں آنے سے روکے رکھا تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی امید عبث ہو گی۔