خطبات اقبال کا پس منظر

خطبات اقبال کا پس منظر
پروفیسر سمیع اللہ قریشی
(۱)
خطبات اقبال کا پس منظر

مسلمانوں میں اپنی فکری میراث اور مذہبی روایت کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کا رحجان بحیثیت ایک تحریک انیسویں صدی میں ہوا۔ رفتہ رفتہ مغربی علوم مشرق میں رواج پانے لگے اور مذہبی مسلمات کو تشکیک کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ ۱۴۰۶ء کے بعد سے جب ابن خلدون نے وفات پائی۔ ۱۸۳۰ء تک اسلامی دنیا علوم و فنون کی ہر شاخ میں فکر تازہ سے محروم ر ہی۔ انہی درمیانی صدیوں میں تہذیب مغرب کی نمو ہوئی اور اس کے عالمگیر امکانات واضح ہوئے۔ انیسویں صدی کی ابتداء میں دنیائے اسلام میں جگہ جگہ ایسے مفکرین ابھرے جنہوں نے چاہا کہ اسلامی تہذیب کے علمی اور ثقافتی ورثے کی تشکیل نو کے سامان کیے جائیں۔ ایسے ہی دوسری صدی ہجری کے معتزلہ اور تعقل پسند اخوان الصفا کی مذہبی تشریحات پھر سے سامنے آنے لگیں تاکہ متکلمین سائنس، فلسفہ اور مذہب کے مسلمات کا تعارض کسی طور رفع کر سکیں، لیکن سابقہ صدیوں میں مغربی نشاۃ ثانیہ سے اغماض برتنے اور تحریک احیائے علوم سے عمداً گریزاں رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان غیر شعوری طور پر غرور کا شکار ہو گئے۔ یہ انیسویں صدی سے ذرا قبل کا ایک تہذیبی حادثہ بلکہ المیہ تھا جو دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ بیت گیا اور اس غرور نے انہیں علوم و فنون کے نئے افق تلاش کرنے سے روک دیا۔
برعظیم پاک و ہند میں حالت قدرے مختلف رہی۔ اگرچہ غرور یہاں بھی کچھ کم نہ تھا، تاہم اٹھارہویں صدی میں شاہ ولی اللہؒ کی صحت مندانہ فکر کے اثرات مسلمان معاشرے نے بالعموم اور آنے والے مفکرین نے بالخصوص بڑی شدت سے قبول کیے۔ اسلامی فکر کی تاریخ میں صدیوں بعد  شاہ ولی اللہ پہلے شخص ہیں کہ اجتہاد سے متعلق ان کی تعلیمات میں اپنے عہد کے علماء کے رویے سے بے اطمینانی کا برملا اظہار ہوا۔ انہوں نے ابن خلدون کے بعد صدیوں کے فاصلے سے خالص عمرانی انداز میں سوچا اور معاشرتی ذمہ داری یا معاشرتی توازن پر زور دیا۔ اس انقلابی فکر میں تغیر کا احساس انیسویں صدی کے آخر میں آ کر ہوا۔ سید جمال الدین افغانی، سرسید احمد خاں، علامہ رشید رضا، فرید وجدی آفندی، مفتی محمد عبدہ، شیخ جوہری طنطاوی وغیرہ ہم ان بزرگوں میں پیش پیش تھے جنہوں نے آگے چل کر اسلام میں عقلیت کی تحریک کو سہارا دیا۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
’’ سرسید احمد خاں کا اثر بحیثیت مجموعی ہندوستان تک محدود رہا۔ غالباً یہ عصر جدید کے پہلے مسلمان تھے جنہوں نے آنے والے دور کی جھلک دیکھ لی تھی۔ سرسید احمد خاں کی حقیقی عظمت اس واقعہ پر مبنی ہے کہ یہ پہلے ہندوستانی مسلمان ہیں جنہوں نے اسلام کو جدید رنگ میں پیش کرنے کی سعی کی اور سر گرم عمل ہوئے۔‘‘  (حرف اقبال)
کچھ اسی قسم کے خیالات کو حالی نے حیات جاوید میں محفوظ کیا ہے:
’’ سرسید کو کسی پہلو سے بھی دیکھا جائے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک بڑا بھاری پتھر تھا جو اسلامی معاشرے کے ٹھہرے ہوئے پانی میں لڑھکا دیا گیا اور اس نے جو لہریں پیدا کیں، وہ آج تک برابر حرکت میں ہیں، خواہ وہ ہمیشہ اس سمت میں نہ ہوں جسے سرسید پسند کرتے  
تھے۔‘‘   
(حیات جاوید)
 سرسید پہلے آدمی ہیں جنہوں نے تقلید محض کو مسلمان کے وقار کے خلاف گردانا۔ چنانچہ برصغیر میں اسلامی فکر کی تشکیل جدید میں جن بزرگوں کی کوششوں کو زیادہ دخل ہے، ان میں نمایاں سرسید، سید امیر علی، مولوی چراغ علی اور اقبال ہیں۔ یہ سب وہ لوگ تھے جنہوں نے قرآن کو اپنا رہنما ٹھہرایا اور تعقل (Rationalism) نیز حصول علم کے جملہ ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ تر وحی الٰہی پر اپنے مذہبی فکر کی بنیاد رکھی۔
(۲)
اقبال جو بیسویں صدی کے مسلمان متکلمین اور فقہا میں بہت نمایاں ہیں اور جو اسلام میں تحریک تعقل کے پرجوش موید تھے، فلسفہ جدید کا طالب ہونے کی وجہ سے انہیں اس بات کا پورا پورا احساس تھا کہ کسی بھی تہذیب کی فکری بنیاد فلسفے پر ہی استوار ہوا کرتی ہے اور اقوام عالم اپنے مخصوص فلسفے کے سہارے ارتقاء کی منزلیں طے کرتی اور سیاسی، ثقافتی، عمرانی، تعلیمی اور معاشی تقاضوں سے عہدہ برآ ہوتی ہیں۔ اپنے مخصوص فلسفہ حیات سے گریز کر کے ہر تہذیب پہلے زوال آمادہ اور رفتہ رفتہ موت کا شکار ہو جاتی ہے۔ تہذیبی زوال آمادگی کا مرض اس وقت لاحق ہوتا ہے جب ان کا انداز فکر و نظر اور علم و عمل عصری تقاضوں کی پروا نہیں کرتا۔ کسی تہذیب پر بیتنے والا یہ لمحہ بے حد نازک ہوتا ہے۔ اقبال جس عہد میں ایک متکلم، فقیہ، فلسفی، شاعر اور تہذیب اسلامی کے نباض کی حیثیت سے ابھرے، برصغیر کے مسلمان عوام ذہنی طور پر پسماندہ، نفسیاتی مریض اور زندگی کی ہر سطح پر احساس محرومی کا شکار تھے۔ وہ صرف ماضی میں گم تھے۔ ان کا حال بے معنی تھا اور مستقبل سے ان کا تعلق صرف مہدی کے موہوم انتظار کی حد تک باقی تھا ورنہ وہ بری طرح مایوس اور قنوطیت کا شکار تھے۔ مسلمانوں کے ماضی کے پرشوکت ہونے میں کوئی کلام نہیں لیکن محض ماضی پرستی کی بناء پر مستقبل اور با وقار مستقبل کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ جس قوم کا اپنے مذہب کی انقلاب آفریں تعلیم پر یقیں باقی نہ رہا ہو وہ عصر حاضر کے تقاضوں اور مستقبل کی ضرورتوں سے خوف زدہ رہنے لگتی ہے۔ نتیجتاً خود اعتمادی اور عمل کی قوت کھو دیتی ہے۔ اپنے ایک مکتوب میں اقبال نے بھی یہی سوچتے ہوئے تحریر کیا:
’’ ہندوستان کے مسلمان کئی صدیوں سے ایرانی تاثرات کے اثر میں ہیں۔ ان کو عربی اسلام سے اور اس کے نصب ا لعین اور غرض و غایت سے آشنائی نہیں۔‘‘
’’ روزگار فقیر‘‘ کے حوالے سے یہ قول بھی انہی کا ہے کہ:
’’ ہندوستان کے مسلمان اس عربی اسلام کو بہت کچھ فراموش کر چکے ہیں اور عجمی اسلام ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے۔‘‘
اور یہ بھی کہا کہ:
’’ اسلام اس وقت گویا زمانے کی کسوٹی پر کسا جا رہا ہے اور شاید اسلام کی تاریخ میں ایسا وقت پہلے کبھی نہیں آیا۔ ‘‘
اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی مادی اور ذہنی پسماندگی کا یہی تاریخی پس منظر تھا جس سے متاثر ہو کر انہوں نے اسلام کی فکری اور ثقافتی ہیئت کی تشکیل جدید کو اپنا موضوع بنایا۔ ۱۹۲۶ء میں سید سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھا:
’’ مسلمانوں پر اس وقت روحانی اعتبار سے وہی زمانہ آ رہا ہے جس کی ابتدا یورپ کی تاریخ میں لوتھر کے عہد سے ہوئی، مگر چونکہ اسلامی تحریک کی کوئی خاص شخصیت رہنما نہیں ہے اس واسطے اس تحریک کا مستقبل خطرات سے خالی نہیں، اور نہ عامہ المسلمین کو یہ معلوم ہے کہ اصلاح لوتھر نے مسیحیت کے لیے کیا نتائج پیدا کیے۔ ‘‘ (اقبال نامہ)
۱۹۲۵ء میں یہی سوچتے ہوئے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نظر سے زمانہ حال کے فقہ (Jurisprudence) پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ہدایت کو ثابت کر دے گاوہی اسلام کا مجدد ہو گا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم۔۔۔۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کو تحریر فرمایا:
’’ افسوس ہے زمانہ حال کے اسلامی فقہا یا تو زمانے کے میلان طبیعت سے بالکل بے خبر ہیں یا قدامت پرستی میں مبتلا ہیں۔ مذہب اسلام اس وقت زمانے کی کسوٹی پر کسا جا رہا ہے۔‘‘
ان حالات میں اور کچھ ایسی ہی سوچ کے تحت اقبال نے فکر اسلامی کی تشکیل جدید کا بیڑا اٹھایا اور مسلمان دانشوروں، ذہین افراد اور طبقہ علماء کے لیے ایسے راستے تجویز کیے جو درخشندہ اور جاندار مستقبل کی طرف لے جاتے ہوں۔ وہ خود خطہ مشرق کے فرد تھے اس لیے مشرقی روایات کی مخالفت کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ انہیں ان روایات پر ناز بھی تھا ۔ دوسری طرف مغربی افکار کو تمام تر رد کر دینا بھی عالمانہ دیانت داری کے خلاف تھا لہٰذا اپنے خطبات میں اقبال نے پوری کوشش کی کہ فکر و دانش اور علوم و فنون کے میدان میں مسلمانوں نے جو کچھ کیا ہے اسے گنایا جائے۔ اقبال نے مشرق و مغرب کے افکار کو متناسب اور موزوں امتزاج کے ساتھ قرآنی معیار علم پر جانچ کر نئی اسلامی فکر کا موضوع بنایا لیکن مغرب سے بس اسی قدر تعلق رکھا کہ متکلم کی حیثیت سے سائنسی رویے اور محسوسات سے رابطہ رکھا جائے کہ (بقول اقبال) یہ بھی اصل میں اسلامی فکر ہی کی میراث ہے۔ تاہم اقبال نے کہیں اور کبھی تہذیب و ثقافت کے ان پہلوؤں کو قبول نہیں کیا، جو دینی اقدار کے برعکس تھے۔ ان کے نزدیک مشرق کی اخلاقی اور مذہبی فضا صرف اس لیے زہر آلود ہوئی کہ عقیدۂ آخرت کے بارے میں مسلمانوں نے مایوس کن غور و فکر کا ثبوت دیا۔ ان حالات میں اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلامی فکر نو کی تشکیل جدید محسوس حقائق ہی پر استوار کی جائے۔
اقبال اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ مسلمانوں نے اپنی نا اہلی اور روحانی افلاس کے سبب وحدت ملت کے مفہوم کو وطنیت اور قوم پرستی میں خبط کر دیا ہے اور وہ ایک طرح سے اپنے روحانی احیاء سے مایوس ہو کر نام نہاد تصوف کی فکری آسودی کی جانب نکل گئے ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ ’’ اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو ذہن انسان کو نسل و وطن کی قیود سے آزاد کر سکتی ہے۔ اس کے امکانات ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔‘‘
چنانچہ مسلم کانفرنس کے خطبہ صدارت ۱۹۳۱ء میں فرمایا:
’’ مگر آپ کے مذہب کا یہ اعلیٰ تخیل مولویوں اور فقہ پرستوں کی دقیانوسی خیال آرائیوں سے رہائی کا طالب ہے۔ روحانی طور پر ہم ایسے خیالات اور جذبات کے قید خانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں جنہیں ہم نے صدیوں کے دوران میں اپنے گردا گرد اپنے ہی ہاتھوں سے بن لیا ہے اور اس بات کے کہنے کی ضرورت ہے (اگرچہ یہ بات بوڑھی نسل کے لیے باعث شرم ہے) کہ ہم نوجوان نسل کو اقتصادی، سیاسی، نیز مذہبی خطرناک مواقع کے لیے، جو موجودہ دور اپنے ہمرا لا رہا ہے، مسلح کرنے سے قاصر رہے ہیں۔‘‘
اقبال سمجھتے تھے کہ اسلام محض عقائد کے مجموعے کا نام نہیں۔ نہ اسے مذہبی اجارہ داروں کی ملکیت تسلیم کیا جا سکتا ہے، بلکہ یہ ایک سراپا حرکت دین ہے اور اسلام ماہیت حیات و کائنات کے عرفان اور اس کے مطابق زندگی کے رحجان اور میلان کا نام ہے، اور اسلام کا مقصد زندگی کو کسی ایک شکل میں جامد کرنا ہرگز نہیں، بلکہ اسے ایک لامتناہی انقلاب و ارتقاء کا راستہ بنانا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ:
’’ اسلام جدید تفکر اور تجربے کی روشنی میں قدم رکھ چکا ہے اور کوئی ولی یا پیغمبر بھی اس کو قرون وسطیٰ کے تصوف کی تاریکی کی طرف واپس نہیں لے جا سکتا۔‘‘ (حرف اقبال)
ایک اور تحریر میں ان کے قلم سے یہ جملے بھی ادا ہوئے کہ:
’’ چونکہ ہمارے فقہا کو ایک عرصہ دراز سے عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ عصرجدید کی داعیات سے بالکل بیگانہ ہیں، لہٰذا اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اس میں از سر نو قوت پیدا کرنے کے لیے اس کی ترکیب و تعمیر کی طرف متوجہ ہوں۔‘‘
اسی طرح قسطنطنیہ(استنبول) کے شعبہ دینیات کے سربراہ کو مشورہ دیتے ہوئے لکھا:
’’ ادارہ دینیات پر کسی ایسے شخص کو پروفیسر متعین کیا جائے جس نے اسلامی دینیات اور جدید یورپین فکر و تصورات کا مطالعہ کیا ہو تاکہ وہ مسلم دینیات کو افکار جدیدہ کا ہم پایہ بنا سکے۔ قدیم اسلامی دینیات کا تار و پود بکھر چکا ہے جس کا مدار زیادہ تر یونانی حکمت پر تھا۔ وقت آ چکا ہے کہ اس کی نئی شیرازہ بندی کی جائے۔ ‘‘ (اقبال نامہ)
(۳)
دسمبر ۱۹۲۸ء کے آخری دنوں میں اقبال کو دعوت دی گئی کہ وہ مدراس مسلم ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام اپنے خطبات پیش کریں۔ چنانچہا قبال نے مدراس کے سہ روزہ قیام کے دوران خطبات دیے۔ جنوبی ہندوستان کے اس عملی سفر میں اقبال بنگلور اور سرنگا پٹم بھی ٹھہرے۔ ایک خطبہ میسور یونیورسٹی میں بھی دیا۔ جنوری ۱۹۲۹ء میں اقبال حیدر آباد دکن پہنچے اور عثمانیہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام خطبات کا دوسرا دور شروع ہوا۔ یہاں سے اقبال علی گڑھ آئے اور مسلم یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ نے ان خطبات کے تیسرے دور کا اہتمام کیا۔ یہاں خطبات کی افتتاحی تقریب کا آغاز وائس چانسلر سر راس مسعود کی تقریر سے ہوا اور اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سید ظفر الحسن صدر شعبہ فلسفہ نے اقبال کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے خطبات اقبال کو ذہنی مائدہ (Intellectual Feast) قرار دیتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا:
’’ اسلام کے اصولوں اور جدید سائنس اور فلسفہ پر اقبال بہت گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان مسائل پر انہیں بھرپور اور تازہ تر معلومات حاصل ہیں۔ ایک نئے فکری نظام کی تشکیل کے لیے وہ حد درجہ صاحب فراست ہیں۔ اسلام اور فلسفہ کو قریب تر لانے پر جو قدرت انہیں حاصل ہے اس میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اسی چیز نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ اس روایت کا ایک دفعہ پھر احیاء کریں جس کا آغاز صدیوں پہلے نظام اور اشعری جیسے علماء نے اس وقت کیا تھا جب ان کا سامنا یونانی علوم اور فلسفہ سے ہوا۔ اپنے خطبات میں جن سے انہوں نے ہمیں نوازا ہے۔ گویا ایک نئے علم کلام کی بنیاد رکھی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ یہ کام صرف وہی کر سکتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر ظفر الحسن نے ان خطبات کو نہ صرف اسلام کے عظیم اصولوں کی شاندار تشریح قرار دیا بلکہ انہیں علمائے وقت کے لیے ’’ معنی خیز ذہنی تحریک‘‘ (Pregnant Suggestions) کا نام بھی دیا۔
۱۹۳۰ء میں جب ان خطبات کا پہلا ایڈیشن لندن سے شائع ہوا تو ان کی تعداد چھ تھی۔ ۱۹۳۴ء میں Aristotelien Society, London کی دعوت پر جب ساتواں خطبہ لکھا گیا تو خفیف لفظی ترمیمات کے ساتھ اسی سال یہ مجموعہ اپنی قطعی اور مکمل شکل میں ’’ The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam‘‘ کے نام سے شائع ہو گیا۔
اقبال کے ہم عصر مستشرق سر ڈینسن راس کو یہ تسلیم کرتے ہی بنی کہ:
’’ خطبات میں اقبال نے اسلام کو مرکز بنا کر ایک بہتر نظام عالم کے قیام کے لیے اپنے نظریات اور مقاصد پیش کیے اور وہ غالباً ان خطبات ہی کی بناء پر زیادہ بہتر طریقہ سے یاد رکھے جائیں گے۔‘‘ (اردو، اقبال نمبر)
(۴)
اسلامی الٰہیات یا اسلامی فکر کی تشکیل نو کے عنوان سے ترتیب دیے گئے ان خطبات کا آغاز جس جملے سے ہوتا ہے وہی دراصل تمام خطبات کی روح ہے یعنی ’’ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو فکر کے مقابلے میں عمل پر زیادہ زور دیتی ہے۔‘‘
دیباچہ بے حد فکر انگیز ہے جس میں اقبال نے کھل کر کہا کہ ’’ صحیح قسم کے سلسلہ ہائے تصوف نے تو بے شک ہم مسلمانوں میں مذہبی احوال و واردات کی تشکیل اور رہنمائی میں بڑی قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں، لیکن آگے چل کر ان کی نمائندگی جن حضرات کے حصے میں آئی، وہ عصر حاضر کے ذہن سے بالکل فائدہ نہ اٹھا سکے وہ آج بھی انہی طریقوں سے کام لے رہے ہیں جو ان لوگوں کے لیے وضع کئے گئے تھے جن کا تہذیبی مطمع نظر بعض اہم پہلوؤں کے لحاظ سے ہمارے مطمع نظر سے بہت مختلف تھا۔ میں نے اسلام کی روایات،فکر، علیٰ ہذا ان ترقیات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو علم انسان کے مختلف شعبوں میں حال ہی میں رونما ہوئیں، الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید سے ایک حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ مطالبہ غلط نہیں کہ مذہب کی بدولت ہمیں جس قسم کا علم حاصل ہوتا ہے اسے سائنس کی زبان میں سمجھا جائے۔ یہ وقت اس طرح کے کسی کام کے لیے بے حد مساعد ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ مذہب اور سائنس میں ایسی ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہو جو سر دست ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں، تاہم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ فلسفیانہ غور و فکر میں قطعیت کوئی چیز نہیں۔ جیسے جیسے جہان علم میں ہمارا قدم آگے بڑھتا ہے، فکر کے لیے نئے نئے راستے کھل جاتے ہیں، اور شاید ان نظریوں سے جو ان خطبات میں پیش کیے گئے ہیں، زیادہ بہتر نظریے ہمارے سامنے آتے جائیں گے ہمارا فرض بہرحال یہ ہے کہ فکر انسانی کے نشوونما پر بہ احتیاط نظر رکھیں اوراس باب میں آزادی کے ساتھ نقد و تنقید سے کام لیتے رہیں۔‘‘
میر غلام بھیک نیرنگ کو خطبات کے ترجمے کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا:
’’ ان خطبات کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔ میرا کام زیادہ تر تعمیر ہی ہے اور اس تعمیر میں میں نے فلسفہ اسلام کی بہترین روایات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے، مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اردو خو ان دنیا کو شاید ان سے فائدہ نہ پہنچے کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے یا سننے والے کو پہلے سے حاصل ہے۔ اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔‘‘
(۵)
مختلف عناوین کے تحت ترتیب دیے گئے ان سات خطبات کے موضوعات بظاہر الگ الگ ہیں لیکن ان میں ایک ایسا تسلسل اور منطقی ربط موجود ہے جو انہیں ایک مکمل کتاب کی شکل دے دیتا ہے۔ خطبات کے موضوعات بالترتیب یہ ہیں:
۱۔ علم اور مذہبی مشاہدات
۲۔ مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار
۳۔ ذات الٰہی کا تصور اور حقیقت دعا
۴۔ خودی، جبر و قدر اور حیات بعد الموت
۵۔ اسلامی ثقافت کی روح
۶۔ الاجتہاد فی اسلام
۷۔ کیا مذہب کا امکان ہے؟
اقبال نے فکر مذہبی کو موضوع قرار دیا ہے۔ یہی چیز اسلام کے واسطے سے الٰہیات اسلامی کہلاتی ہے۔ پہلے دو خطبوں میں علم اور ذرائع علم پر بحث ہے اور فکر و وجدان کی راہ سے ذات الٰہی کا اثبات کیا گیا ہے۔ عقل اور وجدان، علم کے دو معتبر ذرائع ہیں۔ عقل خیالات، اور وجدان، محسوسات کے لیے ذمہ دار ہے مگر وجدان بھی ایک طرح کی اعلیٰ تر عقل ہی ہے اور اسلامی تہذیب کے ارتقاء میں دونوں ممد و معاون ہیں۔ ذرائع علم کی تشریح کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ سماعت تو تاریخ انسانیت کا مطالعہ ہے، بصارت سے مراد فطری علوم یا مطالعہ فطرت ہے او ردل و دماغ میں انسان کی ذہنی اور روحانی صلاحیتیں شامل ہیں۔ جیسے جیسے انسان ان تمام ذرائع کے صحیح استعمال پر قادر ہوتا جائے گا، انفس و آفاق میں خدا کے قوانین اور ان کے اثرات (یا آیات الٰہیہ کی تفہیم) اس پر منکشف ہوتے چلے جائیں گے۔ اقبال کے نزدیک وجدان کی طاقت انسان کے تحت الشعور کا حصہ ہے اس لیے یہ محسوسات کا حصہ بھی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کا کوئی وجود نہیں۔ روح کے وجود سے انکار ممکن نہیں۔ رسول عربی نے وقت یا زمانے کو خدا کہا اور وقت کو عصر حاضر کے فلسفی اور سائنس دان بھی ازلی اور ابدی مانتے ہیں۔ یہ احساس گویا خدا کے تصور کا ایک نیا پہلو ہے۔ یعنی خدا محسوس تو نہیں کیا جا سکتالیکن خود محسوسات کا وجود خدا کا ثبوت ہے۔ اسی کو اقبال وجدانی تجربے کی اہمیت قرار دیتے ہیں۔ یونانی فلسفے کے زیر اثر جونہی مسلمانوں نے عقل و وجدان میں تفریق پیدا کر دی، وہ علوم و فنون میں مغرب سے پیچھے رہ گئے۔ اقبال نے محسوس کیا کہ نظریہ اضافیت، اور زمان و مکان کے نئے نظریات نے عقل و وجدان کا مفہوم وسیع کر دیا ہے۔ اب مسلمانوں کو اسلام کی تہذیبی ترقی کے لیے نئے افق تلاش کرنا ہوں گے۔ چنانچہ تیسرے اور چوتھے خطبے میں ذات الٰہی کا تصور اس کی صفات، انسان، کائنات، حیات بعد الموت، دعا خیر و شر اور جبر و قدر کے مسائل زیر بحث آئے۔ گویا اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ زمان و مکاں میں انسان کا نظریہ حیات کیا ہونا چاہیے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر خدا نہ ہوتا تو اس کا تصور بھی نہ ہوتا کیونکہ معروض کے بغیر تصور کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہی وہ روحانی تجربہ ہے جس سے وجدانی کیفیت نصیب ہوتی ہے اور یہ قوت مادی، حیاتی اور شعوری تین مدارج سے گزر کر نصیب ہوتی ہے۔ حیات ایک ایسا جوہر ہے جو انسانی زندگی کی خارجی اور داخلی سمتوں کو متصل کرتا ہے۔ عالم موجودات میں ہر چیز متحرک ہے اور زندگی میں یقین محکم کے بغیر کسی مثبت عمل کی توقع عبث ہے۔ یہاں اقبال نے خودی کے قدر آفریں اور موثر پہلوؤں پر بحث کی ہے اور انسان کامل کی خودی کو قدر آفریں قرار دیا ہے۔ اقبال کے نزدیک انسان کامل کی خودی بقائے دوام حاصل کرتی ہے۔ مادے کو اقبال نے ایک ایسی روح قرار دیا ہے جو زمان و مکان میں محصور ہے۔ در حقیقت یہی روح وحدت انسانی ہے جو نصب العین کی تلاش میں سر گرم عمل ہے اور اسی نصب العین کو زمان و مکان میں متشکل کرنے کی آرزو دراصل قیام مملکت کا دوسرا نام ہے۔ لہٰذا جو کچھ بھی مادی یا دنیاوی ہے، اس کی اصل روحانی ہے۔ مادی اشیاء کی کوئی حقیقت نہیں جب تک کہ ان کی بنیاد روحانی نہ ہو۔ پس اسلام کے نقطہ نظر سے مملکت، انسانی اداروں کے روحانی پہلو کو اپنے معراج تک پہنچانے کی ایک کوشش ہے۔ اسلامی فکر و فلسفے کا امتیاز یہی ہے کہ مسلمان، روح، مادہ، حیات و ممات اور حیات بعد الموت پر یقین محکم رکھے۔ جب ایسا ہو گا تو اس دنیا میں انسان کے بنیادی مسائل یعنی خدا، تخلیق، دعا، جبر و اختیار اور حیات بعد الموت کے تصورات کا مفہوم آسان ہو جائے گا۔ اسی کے ادراک پر اسلامی ثقافت کی بنیاد ہے۔ اسلامی ثقافت، اسلام کے نظام مدنیت، ریاست اور قانون کی بحث پانچویں اور چھٹے خطبے میں کی گئی ہے۔ اقبال اسلام کی تمدنی تاریخ کو باطنی اور ظاہری دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اسلام کی ظاہری تاریخ مسلمان بادشاہوں کے جاہ و جلال سے عبارت ہے، جب کہ باطنی تاریخ وہ ہے جس پر اسلامی فکر دینی کی تشکیل جدید کی بنیاد ہے۔ اسلام نے تاریخ عالم میں پہلو دار انقلاب برپا کیا۔ علم کی دنیا میں اسلام کا ظہور اپنی ذات میں استقرائی عمل کے ظہور کے مترادف ہے۔ الہامی کتب میں صرف اسلام نے تدبر و تفکر اور مشاہدہ انفس و آفاق کی دعوت عام دی ہے۔ انسان کی تاریخ قرآن کے نزدیک تیسرا ذریعہ علم ہے۔ عروج و زوال اقوام کے بارے میں قرآن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اقوام کو اجتماعی طور پر جانچا جاتاہے اور انہیں اپنی بد کرداریوں کے نتیجے اسی دنیا میں بھگتنا پڑتے ہیں۔ یہ انسانی معاشرے کا سائنسی تقاضا ہے۔ سائنسی تاریخ نگاری کا امکان اس وقت روشن ہوتا ہے جب پختہ عقل، وسیع تجربہ اور زندگی اور وقت کی ماہیت کے بارے میں بعض بنیادی تصورات سے پوری آگاہی حاصل ہو۔ اسلامی ثقافت کا مفہوم اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ مشاہدات کے لیے زاویہ نظر بدلتے ہی تصورات کو نیا مفہوم مل جائے کیونکہ اسلام بذات خود تحریک ہے جو ہر دور کے تغیرات کو اپنے اندر جذب کر کے تجربے اور روایت کو نئے سرے سے منظم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن محض عقیدے کی بجائے عمل یعنی تجربے پر زور دیتا ہے۔ جب تک اسلام ایک تہذیبی قوت رہا، مسلمان دنیا پر چھائے رہے۔ جونہی مذہب عقائد و رسوم کا ایک انبار بنا، اشاعت اسلام اور اسلام کے تہذیبی افق کی وسعت کا عمل رک گیا۔ ارتقاء کے نظریے کو اقبال نے اپنے خطبات میں اسلامی فکر و فلسفے کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ نظریہ ارتقاء کے بارے میں ان کا اہم ترین مرکزی نقطہ یہ تھا کہ اس کا تصور نہ صرف اسلامی فلسفے میں بلکہ قرآن میں بھی پوری طرح موجود ہے۔ اقبال کے نزدیک مذہب کا جوہر صرف اجتہاد سے حاصل ہو سکتا ہے۔ آخری خطبے میں عصر جدید کے فلسفہ اور مذہب کے امکان یا انسان کی تقدیر اور انسانی تہذیب و تمدن کے مستقبل پر غور کیا گیا ہے اور یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ انسان کی تقدیر بہرحال کسی ایسی برتر ہستی سے وابستہ ہے جو کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے اور مذہب اس لیے ایک ناقابل انکار سچائی ہے۔
(۶)
خطبات کے واسطے سے اقبال کو نژاد نو کو یہ بتانا مقصود تھا کہ اگر وہ فکر مغرب کی اس ترقی پسند قوت کو اپنے اندر جذب کر لے جو گزشتہ پانچ صدیوں سے فلسفے اور سائنس کے میدان میں ظہور پذیر ہوئی ہے تو اسلام اپنے پیروؤں کے ذوق تحقیق میں نئی روح پھونک سکتا ہے۔ کچھ یہی افکار خطابانہ نژاد نو کا موضوع ہیں۔ یہاں بھی اقبال تہذیب و افکار مغربی کے بارے میں دنیائے اسلام کے تردد کا ذکر کرتے ہیں اور فکر اسلامی کا از سر نو جائزہ لینے پر زور دیتے ہیں۔ اقبال عقیدتاً اس بات کے قائل تھے کہ فکر مغربی کی یلغار سے بچنے کی صرف یہی صورت ہے کہ اسلامی فکر اور ثقافتی و تمدنی رحجانات مغربی فکر سے اثر پذیر ہوں۔ انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ مغرب کا معاصر فلسفہ، مذہب اور الہام کی روشنی سے بیگانہ ہو کر نہ صرف گمراہ ہو چکا ہے بلکہ اب ایک سائنسی تجربہ گاہ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ انہیں یقین تھا کہ اسلامی افکار کی فلسفیانہ تشکیل نو اور مغربی تمدن کے ادغام سے صحت مند ثقافتی اور فکری نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اقبال تہذیب مغرب کی ہر چیز کو حرف آخر سمجھتے تھے یا اسے بے سوچے سمجھے اختیار کر لینے کے قائل تھے۔ انہوں نے تہذیب جدید کے بے شمار اخلاقی تصورات و اقدار کو پوری جرات کے ساتھ رد بھی کیا، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ یہ چاہتے تھے کہ جدید سیاسی اور معاشی نظام کو ایسی انسانی قدروں کے مطابق ڈھالا جائے جن کی بنیاد اسلام کی آفاقی تعلیم پر ہو۔
(۷)

اقبال کے نزدیک اسلام کے ماضی کی نئی دریافت اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسلام کو زمانہ حال کی اصطلاحوں میں کوئی منقطی بنیاد مہیا کی جائے۔ شاید اسی لیے انہوں نے وحی کے لیے Pragmatic Test کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اپنے موقف کے ثبوت میں جو دلائل اقبال دیتے ہیں وہ پہلے سے قائل لوگوں کو اپنے یقین میں پختہ تر کر دیتے ہیں مگر ایسا بھی نہیں کہ منکرین پر کوئی اثر مرتب نہ کریں۔ اقبال نے اپنے علم کلام کے ذریعے ایک طرح سے علی گڑھ تحریک کو زیادہ مربوط الفاظ میں بیان کیا ہے بلکہ خطبات اسی تحریک کی بلوغت کے شاہد ہیں۔ اقبال کے ان فکری رحجانات کو زندگی کے کئی پہلوؤں میں شناخت کیا جا سکتا ہے۔ اول اقبال نے خطبات میں جو کام اپنے ذمہ لگایا ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن کے اس دعویٰ کو کہ وہ ایک مربوط، جامع اور متحرک نقطہ نظر ہے، ثابت کیا جائے۔ دوسرے اقبال کا موقف یہ ہے کہ تعقل اور ایمان کے درمیان قرآن کسی دوئی اور تفریق کا قائل نہیں۔ وہ مذہب اور سائنس کو اپنے مقاصد میں ایک دوسرے سے الگ نہیں جانتا۔ تیسرے اقبال نے اسلام کے ثقافتی اور فلسفیانہ توارث کو از سر نو تعمیر کرنے کی قابل صد ستائش کوشش کی ہے اور اس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے ہیں، لیکن دین کی موجودگی میں بھی فلسفے کا امکان باقی ہے۔ ایک فلسفی دین کے اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے دین کے افکار کی تشکیل نو میں حصہ لے کر اس کی آب و تاب میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ اقبال خود اس کی بہترین مثال ہے چوتھے وحی و الہام کے سارے انسان سوچ کے جنگل میں بے راہ ہوئے بغیر سفر کر سکتا ہے۔ یہ سفر موجودات کو نئے رشتوں میں منقلب کر کے ایک طرح کی تخلیقی سرگرمی دکھا سکتا ہے۔ اگر وحی کی روشنی کے بغیر محض چند مفروضات کے سہارے فکر کی ایسی عمارت استوار ہو سکتی ہے جس پر مشکل ہی سے منطقی اعتراض وارد ہو سکے تو وحی کی بنیادیں زیادہ پائیدار ثابت ہوں گی۔ پانچویں اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اقبال نے خطبات کے واسطے سے اپنی پوری کوشش کی ہے کہ علم و فنون اور فکر و دانش کے میدان میں مسلمانوں نے جو کچھ پیش کیا ہے، سامنے لایا جائے، مگر اس بات کا کیا علاج کہ من حیث المجموع مسلمانوں نے فلسفے کو کبھی اس قابل خیال نہیں کیا کہ اس کی وساطت سے بھی کون و مکاں او رحیات انسانی کی معنویت کی تفہیم بآسانی ہو سکتی ہے اور یہ کہ دین کے اصولوں کی وضاحت فلسفے کے تعاون سے بھی کی جائے کہ آج خطبات اقبال کے وسیلے سے اسلام کی فکری روایت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر سرسید اور اقبال کی اسلامی فکر کے سوتے خشک ہونے کے لیے چھوڑ دیے گئے اور مسلمانوں نے اپنے آس پاس بہنے والی ندیوں کے تازہ تر پانیوں کو اپنے علوم و فنون اور فکر و دانش کی خاموش اور ساکن جھیل میں آنے سے روکے رکھا تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی امید عبث ہو گی۔