اقبال اور مثالی شخصیت کے تکمیلی مراحل

اقبال اور مثالی شخصیت کے تکمیلی مراحل

پروفیسر سمیع اللہ قریشی 

انسان کی شخصیت مثل ایک شجر کے ہے جس کا تنا، شاخیں اور پتے اجتماعی کوشش کے صلے میں ایک پھول لاتے ہیں۔ یہی وہ گل سرسبد ہے جسے انسان کی زندگی میں اس کا رخ کردار کہا جا سکتا ہے۔ شجر شخصیت کا تنا، شاخیں اور پتے در حقیقت تعلیم و تربیت، خیالات، جذبوں اور ماحول کی دنیا ہے جو شخصیت کے گل کو رخ کردار کا پھول بن کر کھلنے کی توفیق عطا کرتی ہے اور انسان کے شجر شخصیت پر رخ کردار کا یہ انمول پھول برس کی کوشش اور محنت کے بعد ہی کہیں کھلتا ہے۔ شخصیت کا رخ کردار جسے(Attitude) بھی کہا جا سکتا ہے، ایک طرح کی نفسی توانائی جس شخصیت کی پہلو دار اور گوناگوں جہتوں سے فیض یاب ہوتی ہے، اپنی اصل سے کہیں ارفع و بلند ہو کر تخلیقی مقاصد کے لیے بروئے کار لائے جانے کے قابل ٹھہرتی ہے۔
انسان کی ہستی پر من حیث الجموع یہ حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ سب انسانوں کی شخصیت ایک سی ہوتی ہے، البتہ یہ خواہش ضرور کی جا سکتی ہے اور اسے جائز ہی شمار کیا جائے گا کہ بہت سے انسانوں یا زیادہ سے زیادہ انسانوں کی شخصیات میں ہم آہنگی پیدا ہو جائے۔ انسان اپنی فطرت میں نوری یا ناری نہ سہی مگر ایک خاص وحدت کا مالک ضرور ہے، مگر انسانوں میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی الگ شخصیت ہے جو واضح بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی، اور حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ذات میں اس کی شخصیت کا مثبت یا منفی ہونا ہی سب سے زیادہ اہم ہے۔ ہر انسان کی اپنی فطرت اور ذات کے اندر جو کچھ بھی ہنگامہ کار زار برپا ہے، اس میں شخصیت ہی بالآخر ایک نقطہ توازن قرار پاتی ہے۔ انسان بے شک بے شمار تضادات کا مجموعہ ہے مگر یہ کہنا محل نظر ہو گا کہ انسان کا سرے سے کوئی (Synthesis) ہی نہیں ہے۔ ہر شخص میں دیانت اور سچائی کا کچھ نہ کچھ مادہ ضرور ہوتا ہے۔ وہ ہر شخص چونکہ اپنی ذات میں ایک علیحدہ ’’ شخص‘‘ ہے لہٰذا ایک کردار بھی ہے۔ اگر وہ اس کردار کو کھودے یا نظر انداز کیے رکھے تو وہ محض ایک شخص ہے اور اگر وہ اس کرہ دار کو نہ صرف یہ کہ برقرار رکھے بلکہ اس صفت ارتقاء پذیری کی تحریم بھی کرے تو وہ شخص ’’ شخصیت ‘‘ بن سکتا ہے۔
کردار شخصیت کا پیرایہ اظہار ہے اور یہ مکمل بھی ہو سکتا ہے اور نا مکمل بھی، یعنی اچھا بھی اور برا بھی۔ اگر کردار مکمل ہے تو شخصیت کو مکمل اور بھر پور کہا جائے گا اور اگر کردار ناقص یا نا مکمل ہے تو شخصیت نامکمل، ناقص اور منفی رحجانات کی حامل ہو گی۔ مکمل کردار شخصیت کے مثبت رحجانات کے اظہار کا صراط مستقیم ہے اور اس طرح صراط مستقیم پر گامزن ہونے کے لیے بنیادی طور پر فطرت کا شعور لازم ہے جب کہ فطرت انسانی اپنی کنہ میں وہی کچھ ہے جو فطرت ازلی یا فطرت خداوندی ہے۔ اقبال تعمیر شخصیت اور رخ کردار کی تشکیل کے باب میں در حقیقت اسی فطرت ازلی کا نقیب ہے جو فطرت انسانی کا منبع ہے مگر جس سے انسان نے عملاً یا تو ہمیشہ اغماض کیا یا اسے گم شدہ تصور کیا، جسے مثلاً رسل (Russel) کا قول ہے:’’ جہاں تک طبعی قوانین کا تعلق ہے، سائنس نے ان کو سمجھنے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے لیکن اپنے بارے میں ہم اتنا بھی ابھی تک نہیں جان سکے جس قدر ستاروں اور الیکٹرون کے متعلق جانتے ہیں‘‘ اور اقبال کہتے ہیں:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر نہ کر سکا1؎
رسل اور اقبال دونوں نے انسان کی اپنی شخصیت کی پرتوں کو کھولنے اور اس جہان امکانات کی تفہیم کا درباز کرنے کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ قرآن نے واضح الفاظ میں مثالی شخصیت کے رخ کردار کے اس صراط مستقیم کی طلب کی خواہش کو انسان کے ان مطالبوں میں شامل کر دیا ہے جو وہ فطرت ازلی سے حاصل کرتا ہے اور یہ خواہش اپنی ذات میں تعمیر شخصیت کے تخلیقی عمل کی نتیجہ خیز محرک بن جاتی ہے۔
شخص اور شخصیت دو مختلف چیزیں ہیں جن میں بنیادی فرق ظرف کا فرق ہے۔ ایک شخص معاشرے میں اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جس قدر کہ قطرہ دریا میں، لیکن یہی شخص جب شخصیت کے سانچے میں ڈھلتا ہے تو ایک طرح سے پوری معاشری ہیئت پر محیط ہو جاتا ہے۔ شخص، شخصیت کے سانچے میں اس وقت ڈھلتا ہے جب اسے زندگی کرنے کے عمل کے دوران اپنی ذات کے اجتماعی شعور سے رشتہ جوڑنے کے راز کا علم ہو جائے اور پھر اس راز کے کھلنے کے بعد وہ اس پر عمل پیرا بھی ہو جائے۔ چنانچہ شخصیت یا مثالی شخصیت سے مراد کسی ایسے شخص کا وجود ہے جو ہر اعتبار سے انسانیت کے معیار پر پورا اترتا ہو، جو اپنے وجود کو انسانیت کے لیے اور انسانیت کی امانت خیال کرتا ہو۔ شخص کے اندر جوہر انسانیت کی موجودگی ہی اسے شخصیت بخشتی ہے۔ شخص محض وجود ہے جس کے اعمال معاشرے کے قوام پر مثبت یا منفی کسی بھی رنگ میں شدت سے اثر انداز ہو سکتے ہیں، جب کہ مثالی یا مثبت شخصیت ذات اور صفات ہر دو کا خوبصورت اجتماع ہے۔ محض ایک شخص ہونا میرے اور آپ کے معقول اور معتبر ہونے کی دلیل یا ثبوت نہیں۔ یہ ثبوت تو فی الحقیقت شخصیت مہیا کرتی ہے۔ یہ کارنامے فقط شخصیت ہی انجام دے سکتی ہے کہ وہ معمولی کو غیر معمولی بنا دے۔ معاشرے میں عام طور پر چلتے پھرتے لوگ ’’ شخص‘‘ کی ذیل میں آتے ہیں۔ شخصیتیں گنی چنی ہوا کرتی ہیں۔ اقبال کی خودی کا اختیار بھی اپنے اندر شخص سے شخصیت بننے کا مفہوم ہی رکھتا ہے اختیار خودی کا موقع بھی اشخاص کو کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ خودی یا شخصیت ہی وہ رتبہ بلند ہے کہ ملا جس کو مل گیا۔
ایکس وال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ معاشری ہیئت میں منفی شخصیت کی کیا قدر و قیمت ہے، قرآن نے اپنے نظام میں جو ایک روحانی نظام ہے، آدم کے مقابلے میں ابلیس کو پیش کر کے بڑی حکمت سے اس سوال کا جواب پیش کر دیا ہے۔ چنانچہ آدم مثبت اور ابلیس منفی شخصیتوں کے نمائندہ ہیں۔ مگر چونکہ منفی شخصیت کی بنیاد بھی ایک جوش اور تحرک سے ہوتی ہے اس لیے خدا اسے بھی نظر انداز نہیں کرتا چنانچہ زمین پر بھی ایک بہت برا شخص ہر پہلو سے برا نہیں ہوتا۔ اس کی شخصیت کا کوئی نہ کوئی گوشہ اپنے اندر کوئی نہ کوئی عظمت اور تاب ناکی ضرور رکھتا ہے جسے عام طور پر تعصب کے باعث نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اقبال نے بھی فطرت ازلی کے تتبع میں اپنے نظام فکر میں پوری فراغ دلی کا ثبوت دیتا ہے اور ابلیس کی منفی شخصیت میں سے مقصد کی لگن، خود داری، عزت نفس، ہمت و حوصلہ اور بے پناہ عزم کی خوبیوں سے اعراض نہیں کیا۔ قبل اسلام کے عرب جاہلی معاشرے میں مروہ کی جو قدر و قیمت ہو سکتی ہے، ابلیس کی شخصیت میں وہی قدر و قیمت مندرجہ بالا اوصاف کی ہے۔ چنانچہ اقبال نے ابلیس کی ان صفات کو بھی مثالی شخصیت اور مثبت شخصیت کے لازمے شمار کیا ہے اور اس میں ہر گز کوئی قباحت محسوس نہیں کی، مگر اس فرق کے ساتھ کہ منفی شخصیت ان خصائص سے ناجائز انتقاع(Explotation) کرتی ہے جب کہ مثبت شخصیت انہیں اپنی واردات بناتی ہے اور ان تمام صفات کا انتقاع مثبت ہوتا ہے۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ منفی شخصیت اپنی شخصیت کا قصر دوسروں کو فنا کر کے تعمیر کرتی ہے لیکن جلد یا بدیر خود بھی فنا ہو جاتی ہے البتہ مثبت اور مثالی شخصیت دوسروں کے لیے فنا ہو کر زندہ جاوید ہو جاتی ہے اور در حقیقت فنا نہیں ہوتی۔ ایسی ہی شخصیتوں کے خاکستر سے نسل در نسل مثبت شخصیتیں جنم لیتی رہتی ہیں۔ یہی شخصیتیں دیو مالائی ققنس ٹھہرتی ہیں اور ایسی ہی شخصیتوں کا فیض قرن ہا قرن تک جاری و ساری رہتا ہے۔ ان کے برعکس منفی شخصیتیں کالی آندھیوں کی طرح اٹھتی ہیں اور ان کا واحد فریضہ انسانوں کا استحصال ہوا کرتا ہے۔ منفی شخصیت خلا سے گھبرا جاتی ہے اور اس کے پاؤں ایک روز اچانک زمین کو چھوڑ دیتے ہیں، مگر مثبت، مثالی یا قرآن کی زبان میں ایسی شخصیت جو بسطہ فی العلم و الحسم کی مصداق ہے یعنی ایک صاحب ایمان، مخلص، امانت دار اور مضبوط انسان کبھی کسی خلا سے نہیں گھبراتا بلکہ وہ اپنی ذات کی ہمہ گیری سے اسے پر کرتا ہے اور ہر صورت حال سے نپٹ سکتا ہے، تعمیر کرتا ہے، تخلیق میں منہمک رہتا ہے، یہاں تک کہ کوئی بھی پیش آمدہ بحران (Crisis) یا خلدا اس کی ذاتی دیانت و امانت، ایثار و خلوص اور مضبوطی و طاقت سے پر ہو جاتا ہے۔ بلکہ وہ ایسا وجود ہوتی ہے کہ اگر کہیں ٹھہر جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آس پاس، دائیں بائیں معاشرے کی صحت مند حرکت پذیری میں دل کا سکون و طمانیت گھل مل گیا ہے۔ اقبال نے مثالی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے سلسلے میں یہی بات شاہین، مرد مومن اور مرد کامل کے حوالوں سے بہت خوبصورتی کے ساتھ کہہ دی ہے۔ اقبال کے نظام فکر میں شخصیت کے تصور کا ایک مربوط ارتقاء پایا جاتا ہے۔ فکری کرب کے عبوری دور میں اقبال نے ۱۹۱۰ء میں اپنے منتشر افکار کو اختصار کے ساتھ سمیٹنے کی ایک کوشش (Stray Reflection)2؎ میں کی تھی۔ شخصیت، جسے یہاں اقبال نے محض (Personality) کا نام دیا تھا۔ آگے چل کر یہی تصور اقبال کے مایہ ناز تصور خودی میں ڈھل گیا۔د ر حقیقت یہ اس وقت ہوا جب ۱۹۱۵ء میں مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ میں انہیں اپنے تصور شخصیت کا جائزہ لینے اور اپنے نتائج فکر کو شعر کے پیرائے میں اور پھر ۱۹۲۹ء کے قریب اپنے شاندار خطبات میں علمی ڈھب میں پیش کرنے کا موقع ملا۔ Stray Reflection میں شخصیت کے زیر عنوان اقبال نے ایک طرح سے اپنے فلسفہ خودی کی ابتدائی صورت پیش کی ہے۔ تب تک انہوں نے خودی کی اصطلاح اپنے فلسفیانہ مفہوم کے ساتھ پیش نہیں کی تھی۔ تاہم اپنے عظیم نظریہ خودی کا شخصیت یا(Personality) کے عنوان سے ایک تصور انہوں نے ان الفاظ میں اپنی یاد داشتوں میں محفوظ کر لیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ شخصیت کی بقاء کوئی کیفیت نہیں بلکہ ایک طریق عمل ہے۔ میرا خیال ہے کہ روح و بدن کی تفریق نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کئی مذہبی نظام اسی باطل تفریق پر مبنی ہیں۔ انسان اصلاً ایک توانائی، ایک قوت یا قوتوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس کے عناصر کی ترتیب میں اختلاف کی گنجائش ہے۔ ان قوتوں کی ایک مخصوص ترتیب کا نام شخصیت ہے۔ یہاں اس سے کوئی بحث نہیں کہ آیا یہ ترتیب محض اتفاقی ہے۔ میں اسے فطرت کے حقائق میں سے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتا ہوں او ریہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ کیا قوتوں کی یہ مخصوص ترتیب جو ہمیں اتنی عزیز ہے، بعینہ قائم رہ سکتی ہے؟ کیا ممکن ہے کہ یہ قوتیں جس طرح زندہ، صحت مند شخصیت پر عمل پیرا ہیں، اسی رخ پر ان کا عمل جاری رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات ممکن ہے انسانی شخصیت کو ایک دائرہ فرض کیجئے اور یوں سمجھئے کہ قوتوں کی ایک خاص ترتیب کے نتیجے میں ایک دائرہ تشکیل پاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دائرے کے تسلسل کو ہم کس طرح محفوظ کر سکتے ہیں؟ بظاہر اس کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنی شخصیت کو کچھ اس طرح تقویت پہنچائیں کہ اس کے قوائے ترکیبی کو اپنے مقررہ معمول کے مطابق عمل کرنے میں مدد ملے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ فعلیت کی ان تمام صورتوں سے دست بردار ہو جائیں جو شخصیت کی تحلیل کرنے پر آمادہ ہوں مثلاً عجز و انکسار، قناعت، غلامانہ فرماں برداری وغیرہ۔ ان کے خلاف بلند حوصلگی، عالی ظرفی، سخاوت اور اپنی روایات و قوت پر جائز فخر، ایسی چیزیں ہیں جو شخصیت کے احساس کو مستحکم کرتی ہیں۔‘‘
’’ شخصیت انسان کا عزیز ترین سرمایہ ہے، لہٰذا اس کو خیر مطلق قرار دینا چاہیے اور اپنے تمام اعمال کی قدر و قیمت کو ایس معیار پر رکھنا چاہیے۔ خوب وہ ہے جو شخصیت کے احساس کو بیدار رکھے اور ناخوب وہ ہے جو شخصیت کو دبائے اور بالآخر اسے ختم کر دینے کی طرف مائل ہو۔ اگر ہم وہ طرز زندگی اختیار کریں جس سے شخصیت کو تقویت پہنچے تو دراصل ہم موت کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ موت، جس کی ضرب سے ہماری شخصیت کی اندرونی قوتوں کی ترتیب گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ پس شخصیت کی بقاء ہمارے اپنے اختیار میں ہے جس کے حصول کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔ یہ خیال جو یہاں پیش کیا گیا ہے، دور رس نتائج کا حامل ہے۔ کاش اس نقطہ نظر سے اسلام، بدھ مت اور عیسائیت کی تقابلی حیثیت پر بحث کرنے کا مجھے موقع میسر آتا لیکن بد قسمتی سے اس مسئلے کی تفصیلات کا جائزہ لینے کی مجھے فرصت نہیں۔‘‘
یہ ملت پر اقبال کا احسان ہے کہ شخصیت کے موضوع پر ۱۹۱۰ء میں سوچے گئے اس نقطے کو انہوں نے نہ ترک کیا اور نہ ادھورا چھوڑا، بلکہ اگلے چند ہی برسوں میں اسے خودی کے عنوان سے ترتیب دیا اور لکھا کہ:
’’ جہاں اندرونی احساس موجود ہو وہاں خودی گویا اپنا کام کر رہی ہے۔ خود خودی کو ہم اس وقت جانتے ہیں جب وہ کچھ معلوم کر رہی ہو، فیصلہ کر رہی ہو یا عزم کر رہی ہو۔ خودی یا روح کی زندگی ایک قسم کا تناؤ ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خودی اپنے ماحول پر اثر انداز ہو رہی ہے اور ماحول خودی پر اثر انداز ہو رہا ہو اور باہمی اثر اندازی کے اس میدان سے باہر کھڑی نہیں رہتی بلکہ اس کے اندر ایک حکمران قوت کی حیثیت سے موجود رہتی ہے اور اپنے تجربات کے ذریعہ سے اپنی تعمیر اور تربیت کرتی ہے۔‘‘
پھر خودی کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
’’ میری اصل شخصیت ایک چیز نہیں بلکہ ایک فعل قرار پاتی ہے۔ میرا تجربہ ایسے افعال کا ایک سلسلہ ہے جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور جن کو ایک حکمران مقصد کی وحدت ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے ہے۔ میری ساری حقیقت میرے حکمران جذبہ فکر و عمل کے اندر موجود ہے۔ آپ میرا تصور اس طرح سے نہیں کر سکتے کہ گویا میں کوئی چیز ہوں، جو فاصلہ کے اندر کہیں پڑی ہے یا گویا میں مادی دنیا کے اندر موجود تجربات کا ایک سلسلہ ہوں، بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ میری تشریح، تفہیم یا تعریف میرے اندازوں اور فیصلوں کی بناء پر میرے رحجانات فکر و عمل کی بنا پر، میرے عزائم اور مقاصد اور میری آرزوؤں اور امیدوں کی بنا پر کریں۔‘‘
اور کہا کہ:
وجود کیا ہے؟ فقط جوہر خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا3؎
تعمیر شخصیت کے معاملے میں اقبال جس حرکی عملیت (Dynamic Activism) کے قائل ہیں وہ ایک اس قدر زور دار اور طاقتور عمل ہے کہ فرد اور معاشرہ دونوں کی تعمیر و تشکیل کا ضامن بن جاتا ہے۔ اقبال کی یہ حرکی عملیت کچھ تسلیم شدہ بنیادی اور صحت مند اقدار کا صلہ ہے۔ قدروں کے معاملے میں جہاں ایک طرف یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ انسان کی صالح اور صحت مند زندگی کا دار و مدار ان پر ہے، وہاں قدروں کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ خود اپنی ذات میں کوئی قدر (Value) کس قدر جاندار ہے۔ مثبت اقدار کے لیے ضروری ہے کہ ان میں اس قدر استقلال اور پائیداری ہو کہ وہ نت نئی تہذیبی ہستیوں کے ایک ہی جھونکے سے تہ و بالا ہو کر نہ رہ جائیں۔ مثبت قدریں، جو مثبت اور مثالی شخصیت کی تعمیر میں ممد و معاون ہوتی ہیں، زمانوں کے تجربے اور طویل ریاضتوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ شخصیتیں ایسی ہی قدروں کے اتباع میں شخصیتیں بنتی ہیں ۔ نوجوان نسل کی تربیت کے لیے ان کے درمیان مثالی شخصیتوں کا وجود حد درجہ ضروری ہے، کیونکہ محض مطالعہ بے کار بھی ہو سکتا ہے اور بعض حالتوں میں خطرناک بھی۔ علم کو مفید مطلب روپ شخصیتیں ہی دیا کرتی ہیں۔ شخصیتوں کے اسی فیضان نظر سے انسان کا فکر و عمل صرف ایک اور اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ خیر کے اس عمل کا دائرہ پھیل کر پوری معاشری ہیئت پر محیط ہو جاتا ہے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ فرد اور معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے لیے مثبت قدریں کون سی ہیں اور ان کا منبع کیا ہے؟ اقبال کا یہ عقیدہ ہے کہ فرد کی ذات اور کائنات میں ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے، اور تعمیر شخصیت در حقیقت معاشرے میں مثالی شخصیتوں کے وجود کے بھرپور امکان کی شہادت ہے۔ اقبال کے ہاں عبودیت اظہار شخصیت کی سب سے پہلی منزل ہے جو بالواسطہ عمل کو راہ دینے کا باعث بنتی ہے اور عمل ہی انسان کی بالآخر تقدیر ٹھہرتا ہے جو جذبہ جستجو کے ساتھ مملو ہے۔ انہی باتوں میں انسان کی پر خلوص شرکت جہاں اس کی روح میں پاکیزگی، بلند خیالی، ذوق لطیف اور پاک ضمیری پیدا کرتی ہے، وہاں مدنیت کی روح کو بھی عفیف بنا دیتی ہے۔ ذوق عبودیت میں مثالی شخصیت کی تعمیر کا راز پنہاں ہے۔ عبودیت انسان کو خود اپنی ذات پر ایمان لانا بھی سکھاتی ہے اور خدا کی ذات پر بھی۔ اقبال نے تعمیر شخصیت کے اس مرحلے میں یقین محکم اور عمل پیہم کو بھی شامل کر دیا ہے۔ کردار کے کندن بننے کے اس عمل کے نتیجہ میں شخصیت سخت کوش، خارا شگاف، بے خوف، عقابی روح رکھنے والی، بے باک، فولاد مزاج، قاہری اور دلبری کی صفات سے متصف ہو کر ابھرتی ہے اور اس کا دل تپش شوق سے گرم اور سینہ پر تو عشق سے فرزاںہوتا ہے۔
یہ اقبال کے ہاں مثبت شخصیت کے پیکر محسوس کا طلوع ہے۔ یہ شخصیت خود کو پہچان کر خدا کو پہچاننے کے قابل ہے۔ ہزار سجدوں سے نجات پا کر ماسوا سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔ شخصیت کی یہی صفت فرد کو لاہوتی اور ملت کو جبروتی بنا دیتی ہے اور معاشرہ کی یہ شخصیت زمانے کو اپنے ساتھ ڈھالنے کی قوت رکھتی ہے، خود زمانے کے ساتھ نہیں ڈھل جاتی۔ یہ جہاں کے لیے نہیں ہوتی بلکہ جہاں اس کے لیے ہوتا ہے۔ تعمیر شخصیت کے اس مرحلے پر شخصیت کے اوصاف میں طبع بلند، مشرب ناب، دل گرم، نگاہ پاک بیں، جان بے تاب شامل ہو جاتے ہیں اور فرد اپنی ذات میں ایک ایسا کارواں بن جاتا ہے کہ ستارے اس کی گرد راہ ہو جاتے ہیں۔ اس کی فطرت میں ممکنات زندگی کی امانت داری کا رحجان بڑھ جاتا ہے اس کے مزاج میں صداقت، عدالت اور شجاعت کا قوام گاڑھا ہو جاتا ہے۔ وہ دنیا کی امانت کا اہل ٹھہرتا ہے۔ اس کی ایک نگاہ تقدیروں کو بدل کے رکھ دیتی ہے اور شخصیت ولایت، بادشاہی اور علم اشیاء کی جہانگیری کے منصب کے لائق ٹھہرتی ہے۔ اب یہ سیر چشم ہے، خادم بھی ہے اور مخدوم بھی۔ اس کی ذات میں درویشی و سلطانی کا ایک بے نظیر اجتماع ہے۔ اب وہ قطرہ، مثال بے بحر بے پایاں بن جاتا ہے۔ اس کی شخصیت میں سرشت طوفان پوشیدہ ہے اور ہیچ مقداری کے طلسم کا اسیر نہیں رہتا۔ شخصیت کی تعمیر کے ان تعمیری مراحل میں غفاری و قہاری و قدوسی و جبروت، نگاہ بلند، سخن دلنواز اور پر سوزجان کی کیفیات شامل ہیں جن کا صلہ جہاں داری، جہاں بینی، جہاں بانی اور جہاں آرائی ہے۔ اب اس کا سوز ہمہ سوز ہے اور اس کا شباب بے داغ ہے۔ وہ قبیلے کی آنکھ کا تارا ہے، جسورو و غیور ہے۔ اس کی ضوب کاری ہے اور اس کا جگر چیتے کا ہے اور اس کا تجسس شاہین کا سا وہ لہو گرم رکھنے کے لیے پلٹ پلٹ کر جھپٹتا ہے۔
خود شناسی اور خدا شناسی کے طفیل مثالی شخصیت فقر و غناء کے دور میں داخل ہو جاتی ہے جو انسانی کردار کی ایک اعلیٰ ترین صفت ہے۔ جس سے اسرار جہانگیری کھلتے ہیں اور مٹی میں بھی اکسیر کی صفت در آتی ہے۔ شبیر کا وجود اسی فقر و غنا کا مرہون ہے مگر کچھ اسی طرح کہ فقر و غنا کا معیار بلند ہو جاتا ہے۔ فقر شخصیت کے ہاتھ میں ایک ایسی تلوار ہے جو کردار کے محسوس پیکر میں ڈھل کر حیدر کرار اور خالد سیف اللہ بن جاتی ہے۔ یہ بھی تعمیر شخصیت کے مراحل ہیں اور شخصیت تکمیل کی حدود میں داخل ہو رہی ہے۔ اب اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ قرار پاتا ہے۔ وہ غالب و کار آفریں و کار کشا و کار ساز ہو جاتی ہے۔ اسے خالی ہونے کے باوجود نوری نہاد اور بندۂ مولا صفات کی سند عط اہوتی ہے۔ خدا کی نیابت کی پوری پوری اہلیت اس میں آ جاتی ہے۔ پھر ہر لحظہ اس کی ایک نئی شان ہے اور وہ واقعتاً گفتار و کردار میں خدا کی رباہن ہے۔ اب اس کے اسیر حرص و ہوس ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اکل حلال اس کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہ مثالی شخصیت اب اپنی پہچان شرق و غرب کے حوالے سے نہیں کرتی بلکہ گیرندۂ آفاق اور سوار اشہب دوراں بن کر ایک طرح کی روحانی جمہوریت کے ایوان میں داخل ہو جاتی ہے اور انفس و آفاق میں خدا کی آیات کا تماشا کرتی ہے، یہاں تک کہ آیات خداوندی کی قرات کرتی ہوئی خود ایمان کی پختگی کی وہ انتہا بن جاتی ہے کہ اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے آفاق بھی اس میں گم ہو جاتے ہیں۔ یوں تعمیر شخصیت کا عمل اقبال کے نزدیک ایک حقیقت سے دوسری حقیقت کو پہچانتا ہوا نظریے سے واردات کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ ایسی ہی تربیت یافتہ شخصیتوں کا پھیلاؤ خود ملت بیضاء ہے۔ شخصیتوں کی موت، موت نہیں بلکہ ہجرت سوئے دوست ہے اور دم مرگ ان کے لبوں کا تبسم ہی ان کی شخصیتوں کی مثالیت اور عینیت اور ہمہ گیری کا راز فاش کرتا ہے۔
افکار اقبال کے مخاطب عام طور پر نوجوان ہیں۔ اس لیے قومی تشخص کی تشکیل میں اس پہلی کڑی کی تربیت کو اقبال نے اپنی فکری نظام میں ہر جگہ ترجیح دی ہے اور واضح کر دیا ہے کہ احساس کمتری دور کیے بغیر شخصیت کی تعمیر کا عمل کبھی مکمل نہیں ہو سکتا۔ اقبال در حقیقت معرفت نفس کے مبلغ ہیں اور ہر وہ شخص جو اپنی ذات سے گریزاں ہے اور اپنی ذات کے اندر جھانکنے سے خوف زدہ ہے، اسے اس دنیا ہی میں اضطراب اور بے چینی کا عذاب چکھنا ہے، اس کا جہنم وہی ہے جسے قرآن نے نار تطلع علی الافئدۃ سے تعبیر کیا ہے اور آج انسانوں کی اکثریت کے دلوں میں یہی آگ بھڑک رہی ہے۔ افکار اقبال کی روشنی میں شخصیت کے شجر کو اپنی نمو کے مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر جس پھول کو کھلانا ہوتا ہے وہ پھول ملت بیضاء کے نوجوانوں کے سوا کون ہو سکتا ہے۔ کاش ملت بیضاء کے پھولوں میں وہ خوشبو بقدر وافر لوٹ آئے جسے اقبال مشام جاں بنا لینے کو ترستے رہے۔
٭٭٭
حواشی
۱۔ ضرب کلیم، کلیات۔ ص ۶۹/۶۳۱
۲۔ مرتبہ، جاوید اقبال، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۶۱ء

۳۔ ضرب کلیم، کلیات۔ ص ۳۴/۴۹۶