پاکستان کا بیانیہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پاکستان کا بیانیہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

قومی بیانیہ ، پروفیسر مفتی منیب الرحمن

قومی بیانیہ 

 پروفیسر مفتی منیب الرحمن


بیانیہ یا Narrativeہماری سیاست وصحافت کی نئی اصطلاح ہے جو اکیسویں صدی میں متعارف ہوئی ،اس سے پہلے شاید کہیں اس کا ذکر آیا ہو ،لیکن ہمارے مطالعے میں نہیں آیا ۔البتہ ایک نئے ''عُمرانی معاہدے‘‘(Social Contract) کی بات کی جاتی رہی ہے ،حالانکہ کسی ملک کا دستور ہی اُس کا عُمرانی معاہدہ ہوتا ہے اور پاکستان کا دستور اتفاقِ رائے سے 14اگست 1973ء کو نافذہوا اور اُس کے بعد سے اب تک اُس میں 22ترامیم ہوچکی ہیں ۔اٹھارہویں ترمیم نے اِسے فیڈریشن سے کنفڈریشن کی طرف سرکا دیا ہے ۔
7ستمبر2015ء کو وزیرِ اعظم ہاوس اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں قومی بیانیہ ترتیب دینے کے لیے ایک مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی تھی :مفتی منیب الرحمن ،مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ،مولانا قاضی نیاز حسین نقوی، مولانا یاسین ظفراور مولانا عبدالمالک۔
میں نے بنیادی مسوّدہ ترتیب دیا ،مولانا قاری محمد حنیف جالندھری شریکِ کار تھے ،پھر اُسے پانچوں تنظیمات کے اکابر کے پاس بھیجا ۔انہوں نے اس کا مطالعہ کیا ،بعض نے کچھ ترامیم تجویز کیں ،کچھ حذف واضافہ کیا اور پھر میں نے حتمی مسودہ 22اکتوبر 2015ء کوکوآرڈی نیٹر نیکٹا جنابِ احسان غنی کو ارسال کیا کہ وہ متعلقہ اہلِ اقتدار کو اِسے دکھادیں اور اگر وہ اس میں کوئی ردّوبدل چاہیں تو اس کی نشاندہی کردیں ۔میں نے اِسے اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جناب جنرل رضوان اختر کو بھی ارسال کیا کہ اگر اس میں وہ اپنا کوئی حصہ ڈالنا چاہیں یا کوئی اضافہ مطلوب ہو تو مطلع کریں ، ہم باہمی مشاورت سے اسے حتمی شکل دیں گے۔ اس دوران میڈیا پر وقتاً فوقتاً بیانیہ کا ذکرآتا رہا ،لیکن سرکار کی طرف سے کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔اُس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتِ وقت کے لیے آئے دن کوئی نیا مسئلہ پیدا ہوجاتاہے یا کوئی نئی اُفتاد نازل ہوجاتی ہے ، انہیں ان چیزوں پر غور کی فرصت ہی نہیں ملتی اور نہ ہی وہ اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں ۔چونکہ ہمارے میڈیا کے کرم فرماحضرات کا ہدف مدارس اور اہلِ مدارس ہوتے ہیں ،اس لیے وہ مشقِ ستم فرماتے رہتے ہیں ۔اُن پر نہ کوئی ذمے داری عائد ہوتی ہے ،نہ اُن کے لیے حُبُّ الوطنی کا کوئی معیار ہے ،نہ ہی ملکی سلامتی کے حوالے سے اُن پر کوئی قید وبند عائد کی جاسکتی ہے ،اُن کی زبان کی کاٹ سے ویسے ہی اہلِ اقتدار لرزاں وترساں رہتے ہیں ،خواہ وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار کی آرزو میں بیٹھے ہوں ۔سو ایک کمزور طبقہ مدارس واہلِ مدارس کا رہ جاتا ہے جس پر مشقِ ناز کی جائے اور یہ بھی اُن کی خواہش رہتی ہے کہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکا جائے اور جتنا ہوسکے ان کی مُشکیں کَسی جائیں ۔لہٰذا ہم نے اپنے تناظر میں یہ بیانیہ ترتیب دیا ۔دو تین ماہ قبل بیانیہ ترتیب دینے کے لیے اہلِ عقل ودانش کی کوئی مجلس ترتیب دی گئی اور ظاہر ہے کہ بنیادی قرطاسِ عمل اِسی عاجز کا ترتیب دیا ہوا تھا ،بیرونِ ملک سفر کی وجہ سے میں خود اِن دانائے روزگار اشخاص کی دانش سے مستفید نہ ہوسکااور محروم رہا۔
البتہ طیور کی زبانی جو اڑتی سی خبر ملی ،وہ یہ تھی کہ نفاذِ شریعت کے مطالبے کا بیانیے سے تعلق نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ایسی کوئی ہوا اُسے لگنی چاہیے ۔ہمیں حیرت ہے کہ جمہوریت کے نام پر کوئی بھی مطالبہ کیا جاسکتا ہے ،لیکن نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے کی جمہوریت میں بھی اجازت نہیں ہے ،سو جمہوریت اور جمہوری اَقدار کس چڑیا کا نام ہے ،یہ بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ویسے تو اسرائیل میں بھی مذہبی جماعتیں سیاسی دوڑ میں شامل ہیں ،جرمنی میں کرسچین ڈیموکریٹس کے نام سے جماعت قائم ہے اور اِن سے اُن کے نظام کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا ،مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے سے ریاست کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں ۔ہمارا مرتّبہ بیانیہ درج ذیل ہے:
ہمارے وطنِ عزیز میںگزشتہ ڈیڑھ عشرے سے داخلی طور پرتخریب وفساد، دہشت گردی اور خروج و بغاوت کی صورتِ حال ہے اوراس کے بار ے میں دینی لحاظ سے لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے ابہامات اوراشکالات واردہو رہے ہیں۔بعض حضرات یہ تاثردیتے رہتے ہیں کہ اس ذہنی نہادکے پیچھے مذہبی محرکات کا رِفرما ہیں اور انہیں دینی مدارس و جامعات سے بھی کسی نہ کسی سطح پر تائید یا ترغیب ملتی رہی ہے۔لہٰذا ہماری دینی اور ملی ذمے داری ہے کہ اس کے ازالے اور حقیقتِ حال کی وضاحت کے لیے اپنا شرعی موقف واضح کریں اور اسی بنا پر ہم نے اسے قومی بیانیے کاعنوان دیا ہے،پس ہمارا موقف حسبِ ذیل ہے:
(1)اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، جس کے دستور کا آغاز اس قومی وملی میثاق سے ہوتا ہے :''اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکتِ غیرے حاکم ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیارو اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہے، وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔ نیز دستورمیں اس بات کا اقراربھی موجود ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا ۔ اگر چہ دستور کے ان حصوں پر کما حقہ عمل کرنے میں شدید کوتاہی رہی ہے ، لیکن یہ بے عملی ہے اور اس کوتاہی کی بنا پر ملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ لہٰذا اس کی بنا پر ملک، حکومتِ وقت یا فوج کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی کا کوئی شرعی جوازنہیں ہے ۔ 
(2)پاکستان کے آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذِ شریعت کی پر امن جدِّو جُہد کرنا ہر مسلمان کی دینی ذمے داری ہے، یہ پاکستان کے دستور کا تقاضا بھی ہے اور اس کی دستورمیں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ ہماری رائے میں ہمارے بہت سے ملکی اورملّی مسائل کا سبب اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد سے روگردانی ہے ۔حکومت اس حوالے سے پیش رفت کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ کو فعال بنائے اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات پر مبنی قانون سازی کرے، جو کہ دستوری تقاضا ہے ۔ 
نفاذِ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال ، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی ،تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں جن کا ہمارے ملک کو سامنا ہے ، حرام قطعی ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں ۔یہ ریاست ، ملک و قوم اور وطن کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں، عدمِ استحکام سے دو چار کر رہی ہیں ، تقسیم در تقسیم اور تفرقے کا باعث بن رہی ہیں اور ان کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔ لہٰذا ریاست نے ان کو کچلنے کے لیے ضربِ عَضب کے نام سے جو آپریشن شروع کر رکھا ہے اور قومی اتفاقِ رائے سے جو لائحہ عمل تشکیل دیا ہے ، ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں ۔ اب ہماری مسلّح افواج نے ایک نئی مہم شروع کی ہے ،جس کا عنوان ہے: ''رَدُّ الفَسَاد‘‘،ہم اس کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ 
(3)اکیسویں آئینی ترمیم میں جس طرح دہشت گردی کو''مذہب و مسلک کے نام پر ہونے والی دہشت گردی‘‘کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے، اس کے بارے میں ہمارے تحفظات ہیں۔ دہشت گردی اور ملک کے اندر داخلی فساد کی باقی تمام صورتوں کو یکسر نظر انداز کر دینامذہب کے بارے میں نظریاتی تعصب کا آئینہ دار ہے اور اس امتیازی سلوک کافوری تدارک ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم ریاست اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس سے ملک میں قیامِ امن کے لیے ہمارے عزم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ۔ دہشت گردی کی تازہ لہر کے بعد بھی معلوم ہوا ہے کہ ہماری لبرل جماعتیں مذہب اور اہلِ مذہب کو ہدفِ خاص بنانے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو آمادہ نہیں ہیں اوراِسی لیے تئیسویں ترمیم پر اتفاق رائے نہیں ہوپارہا،اگرچہ اس اختلاف کا سبب در اصل ان کی ایک دوسرے سے شکایات ، گِلے شکوے اور کچھ خدشات ہیں۔
(4)تمام مسالک کے نمائندہ علماء نے2004ء میں اتفاقِ رائے سے شرعی دالائل کی روشنی میں قتلِ ناحق کے عنوان سے خود کش حملوں کے حرامِ قطعی ہونے کا جو فتویٰ جاری کیا تھا، ہم اس کی مکمل تائید و حمایت کرتے ہیں۔نیز لسانی علاقائیت اور قومیت کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کے خلاف مصروفِ عمل ہیں، یہ بھی قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سبب ہیں اور شریعت کی رو سے یہ بھی ممنوع ہے، لہٰذا ضربِ عضب کا دائرہ ان سب تک وسیع کیا جائے۔ 
(5)مسلمانوںمیں مسالک و مکاتب ِ فکرقرونِ اُولیٰ سے چلے آ رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ان میں دلیل و استدلال کی بنیاد پرفقہی اورنظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہیں گی ۔ لیکن یہ تعلیم وتحقیق کے موضوعات ہیں اور ان کا اصل مقام درس گاہ ہے۔ اِن کو پبلک یا میڈیا میں زیرِ بحث لانا بھی انتشارپیدا کرنے اور وحدتِ ملی کو نقصان پہنچانے کا سبب ہے۔ اِن کو انتظامی اور انضباطی اقدامات سے کنٹرول کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔اس سلسلے میں میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق یا قانون بناکر اسے سختی سے نافذ کرنا بھی حکومت کی ذمے داری ہے اور اس کے لیے وہ کوئی تعزیری اقدام بھی تجویز کر سکتی ہے ۔
(6)فرقہ وارانہ نفرت انگیزی ، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت اور آئین و قانون کی رو سے ناجائز ہے اوریہ ایک قومی اور ملی جرم ہے ۔ 
(7)تعلیمی اداروں کا، خواہ وہ دینی تعلیم کے ادارے ہوں یا عصری تعلیم کے ، ہر قسم کی عسکریت اورنفرت انگیزی پر مبنی تعلیم یا تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے ۔ اگر کوئی فرد یا ادارہ اس میں ملوث ہے ، تو اس کے خلاف ثبوت وشواہد کے ساتھکارروائی کرنا حکومت کی ذمے داری ہے ۔ 
(8)دینی مدارس پر مبہم اور غیر واضح الزامات لگانے کا سلسلہ ختم ہوناچاہیے ۔ دینی مدارس کی پانچوں تنظیمات حکومت کو لکھ کر دے چکی ہیں کہ اگراس کے پاس ثبوت و شواہد ہیں کہ بعض مدارس عسکریت ، دہشت گردی یا کسی بھی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث ہیں، تو ان کی فہرست جاری کی جائے۔ وہ خود نتائج کا سامنا کریں یا اپنا دفاع کریں ، ہم ان کا دفاع نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کی حمایت کریں گے ۔ 
(9) ہم بلا استثنا تمام دینی مدارس میں کسی منفی سرگرمی کی مطلقاً نفی نہیں کر سکتے ،ہماری نظر میں انتہا پسندانہ سوچ اور شدت پسندی کومحض دینی مدارس سے جوڑناغیر منصفانہ سوچ کا مظہر ہے۔ گزشتہ عشرے سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے شواہدسا منے آئے ہیں کہ یہ روش جدیدعصری تعلیمی اداروں اور دیگر اداروں میں بھی فروغ پا رہی ہے، اس کے نتیجے میں مغرب کے پر تَعیُّش ماحول سے نکل کر لوگ وزیرستان آئے ، القاعدہ اور داعش سے ملے، جب کہ یہ جدید تعلیم یافتہ لو گ ہیں۔پس تناسب سے قطعِ نظر یہ فکرہرجگہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ سویہ فکری نِہادجہاں کہیں بھی ہو،ہماری دشمن ہے ۔یہ لوگ دینی مدارس یا جدید تعلیمی اداروں یاکسی بھی ادارے سے متعلق ہوں، ہمارے نزدیک کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں ۔ 
(10)دینی مدارس کی پانچوں تنظیمات اس بات کا عہد کرتی ہیں کہ دینی تعلیم کھلے ماحول میں ہونی چاہیے اور طلبہ و طالبات پر کسی قسم کا جسمانی یا نظریاتی تشدّدیا جبرروانہیں ہے۔ الحمد للہ ہمارے دینی مدارس کا ماحول کھلا ہے اور اس میں عوام بلا روک ٹوک آ سکتے ہیں اور کوئی چیز مخفی نہیں ہے ، یہ ادارے ملکی قانون کے تحت قائم ہیں اور ملکی قانون کے پابند ہیں اور رہیں گے۔ 
(11)ہر مکتبہ فکر اور مسلک کو مثبت اندازمیں اپنے عقائد اور فقہی نظریات کی دعوت و تبلیغ کی شریعت اور قانون کی رو سے اجازت ہے ، لیکن اہانت آمیز اور نفرت انگیزی پر مبنی اندازِ بیان کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ اسی طرح صراحت ، کنایہ ، تعریض ، توریہ اور ایہام کسی بھی صورت میں انبیائے کرام و رُسُلِ عظام علیہم السلام اہل بیتِ اطہار و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، شعائرِ اسلام اور ہر مسلک کے مسلمہ اکابرِ امّت کی اہانت کے حوالے سے ضابطہ فوجداری کے آرٹیکل 295 کی تمام دفعات کو لفظاً اور معنیً نافذ کیا جائے اور اگر اس قانون کا کہیں غلط استعمال ہوا ہے ، تو اس کے اِزالے کی احسن تدبیر کی جاسکتی ہے۔فرقہ وارانہ محاذ آرائی کے سدِّ باب کی یہی ایک قابلِ عمل صورت ہے ۔ 
(12)عالمِ دین اور مفتی کا منصبی فریضہ ہے کہ کلماتِ کفر کو کفر قرار دے اور سائل کو شرعی حکم بتائے ، البتہ کسی شخص کے بارے میں فیصلہ صادر کرناکہ آیا اس نے کفرکا ارتکاب کیا ہے یا کلمہ کفر کہا ہے ، یہ قضا ہے اور عدالت کا کام ہے۔ مفتی کا کام صرف شرعی حکم بتانا ہے ، اس سے آگے ریاست و حکومت اور عدالت کا دائرہ اختیار ہے ۔اسی لیے ہمارے فقہائے کرام نے ''لُزُومِ کفر ‘‘اور ''التِزامِ کفر‘‘ کے فرق کو واضح کیا ہے۔
(13)اس وقت پاکستان میں جدید تعلیم ایک انتہائی منفعت بخش صنعت بن چکی ہے۔ پلے گروپ اور نرسری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک پرائیویٹ تعلیمی ادارے ناقابل یقین حد تک غیر معمولی فیسیں وصول کر رہے ہیں۔اعلیٰ معیاری تعلیم قابلِ فروخت جنس بن چکی ہے اور مالی لحاظ سے کمزور طبقات کی پہنچ سے دور ہے اور اس کے نتیجے میںمعاشرے میں طبقاتی تقسیم کو مستقل حیثیت حاصل ہے، کیونکہ پبلک سیکٹر میں تعلیم کا معیار انتہائی حد تک پست ہے۔ہمیں تعلیم کے پرائیویٹ سیکٹر میں ہونے پر اعتراض نہیں ہے ، اعتراض یہ ہے کہ تعلیم کو صنعت کی بجائے سماجی خدمت کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے ۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک قومی کمیشن قائم کیا جائے جو پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں کے لیے''نہ نفع نہ نقصان‘‘یامناسب منفعت کی بنیادپر فیسوں کا تعین کرے اور انہیں اس بات کا پابند کرے کہ وہ کم از کم پچیس فیصد نادار طلبہ کو میرٹ پر منتخب کر کے مفت تعلیم دیں ۔عصری تعلیم کے پرائیویٹ اداروں میں کئی قسم کی درآمد کی ہوئی نصابی کتب پڑھائی جارہی ہیں اور ان کا نظامِ امتحان بھی بیرونِ ملک اداروں سے وابستہ ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان کے نصاب پر موثر نگرانی کا نظام قائم کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان میں تعلیم پانے والی ہماری نئی نسل اسلامی اور پاکستانی ذہن کی حامل ہو اور سب سے آئیڈیل بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح اسکول گریجوایشن کی سطح تک یکساں نصابِ تعلیم اور نظامِ امتحان رائج ہو۔ 
(14)پاکستان میں رہنے والے پابندِ آئین وقانون تمام غیرمسلم شہریوں کو جان ومال اور عزت وآبروکے تحفظ اور ملکی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے وہی تمام شہری حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں ۔ہم حقوقِ انسانی کی مکمل پا س داری کا عہد کرتے ہیں۔اِسی طرح پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو اپنی عبادت گاہوں میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پوراپورا حق حاصل ہے ۔
(15)اسلام خواتین کواحترام عطا کرتا ہے اور اُن کے حقوق کی پاس داری کرتا ہے۔ اسلام کے قانونِ وراثت میں خواتین کے حقوق مقرر ہیں۔ان کو جاگیرداری،سرمایہ داری اور قبائلی رسوم پر مبنی سماجی روایات کی بنیادپروراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔بعض صورتوں میں اخلاقی اور معاشرتی دباو ڈال کر وراثت سے دست برداری حاصل کی جاتی ہے۔قرآن سے شادی کا تصور بھی وراثت سے محروم کرنے کی غیر شرعی رسم ہے ۔ وراثت کا استحقاق محض دست برداری سے ختم نہیں ہوتا ، قرآن و سنت کی رو سے تقسیمِ وراثت شریعت کالازمی قانون ہے ۔ شریعت کی رو سے اگر کوئی وارث اپنا حصہ رضا ور غبت سے اورکسی جبر و اکراہ کے بغیر کسی کو دینا چاہے ، تو بھی محض دست برداری کافی نہیں ہے ۔جائیداد مالکانہ طور پر اس کے نام پر منتقل کرنااور اسے اُس پر قبضہ دینا لازمی ہے ، اس کے بعد ہی وہ مالکانہ حیثیت سے تصرف کرسکتا ہے ۔
عورتوں پر تشدد کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور رسول اللہ ﷺنے خطبہ حجۃ الوداع میں عورتوں کے حقوق کی پاس داری پر نہایت تاکید کے ساتھ متوجہ فرمایا ہے ۔خواتین کی جبری شادی ہمارے دیہی اور جاگیردارانہ سماج کی ایک خلافِ شرع روایت ہے اور ریاست کی ذمے داری ہے کہ اسے قانون کی طاقت سے روکے۔ اسلام عورت کے حقِ رائے دہی پر بھی کوئی قدغن نہیں لگاتا اور نہ ہی عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے پر کوئی پابندی ہے، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ شرعی حدود کی پابندی کی جائے ۔ 
ہم نے دینی مدارس وجامعات کی رجسٹریشن کا میکنزم بھی بناکر دیا ،تمام ضروری کوائف ومعلومات اُس میں شامل کی گئیں اور تفصیلی کوائف کے لیے اصل کیفیت نامہ کے ساتھ ضمنی فارم مرتب کر کے دیے ۔اسی طرح ڈیٹا فارم بھی مرتب کر کے دیا اور طے پایا کہ پہلے سے قائم سوسائٹی ایکٹ یا ٹرسٹ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ مدارس کو قانونی تصور کیا جائے گا اور اُن سے دوبارہ رجسٹریشن کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا ۔یہی اصول سابق صدر جناب جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت کے ساتھ طے پایا تھا اور اُن کے دور میں اس پر عمل رہا ۔ یہ بھی طے پایا کہ پہلے سے رجسٹرڈ مدارس اور نئی رجسٹریشن حاصل کرنے والے مدارس سالانہ ڈیٹا بھی فراہم کریں گے اوراس کے لیے وفاقی وزارتِ مذہبی امور یا وزارتِ تعلیم میں ایک سیل قائم کیا جائے گایا صوبے اس ذمے داری کو انجام دیں گے ۔ہماری معلومات کے مطابق ہمارے تیارے کیے گئے اس مسودہ ٔ قانون کی صوبوں سے منظوری بھی لی گئی ،لیکن پھر اس پر قانون سازی نہ ہوسکی ۔ماضیٔ قریب میں صوبۂ سندھ کی اسمبلی نے ایک متنازعہ بل بنایا ،لیکن وہ اب تک معرضِ التوا میں ہے ،کیونکہ صوبائی وزیرِ اعلیٰ جنابِ سید مراد علی شاہ متعدد وعدوں کے باوجود اتفاقِ رائے کے لیے اب تک کوئی اجلاس منعقد نہیں کرسکے اور حکومت کے اِسی شِعار کی وجہ سے ''تبدیلیٔ مذہب ‘‘کا قانون جو در اصل ''قانونِ امتناعِ قبولِ اسلام ‘‘ ہے،صوبائی اسمبلی سے پاس ہونے کے باوجود قانون نہ بن سکا اور اُس کے بارے میں بھی اتفاقِ رائے کے لیے جنابِ آصف علی زرداری کے وعدے اور ہدایت کے باوجودکوئی اجلاس منعقد نہ ہوسکا۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کو ملامت کرنے میں لگی رہتی ہیں ،لیکن ہمیں سنجیدگی کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی اور سب پنجابی محاورے کے مطابق ''ڈنگ ٹپائو‘‘کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ 

(روزنامہ دنیا تاریخ اشاعت 25، 27 فروری 2017)

پاکستانی قومی بیانیے کی تشکیل


پاکستانی قومی بیانیے کی تشکیل

حبیب الرحمٰن چترالی


قومی بیانیہ (National Narrative )دراصل قوم کی نظریاتی شناخت اور فکر وعمل کا ترجمان ہوتا ہے، جس پر قوم متفق ہو یا جمہوری اصول کے مطابق قوم کی اکثریت کا اتفاق راے پایا جاتا ہو۔ قومی بیانیہ نظریاتی بھی ہو سکتا ہے اور سیکولر بھی۔ مصورِپاکستان علامہ اقبال ؒ نے اسلامی نظریے کا مغرب کے سیکولر نظریے سے تقابل کر کے یہ فرمایا تھا   ؎
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی
قوم رسولِؐ ہاشمی کا بیانیہ ، میثاق ریاستِ مدینہ میںجاری کیا گیا تھا۔ عصر حاضر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانیوں نے جنوبی ایشیا کی اس نئی ریاست کی تشکیل کے وقت عہد کیا تھا کہ سیرتِ رسول ؐ کی روشنی میں زمانۂ حال میں مملکت خدادادِ پاکستان کے قو می بیانیہ کی تشکیل کی ضرورت کو ہم اُجاگر کریں گے اور فکر وعمل کے نئے اہداف کی طرف رہنمائی کی کوشش کریں گے، تاکہ ریاستی سطح پر عہداول اور عہد ثانی میں وحدتِ فکروعمل پیدا ہو۔

تجدید اور تجدّد
 دین اور اسلامی نظریے کو اگر اصل یا بنیاد قراد دیا جائے توعصر حاضر کے تغیرات پر دو قسم کے جواب ہو سکتے ہیں۔ ایک ’تجدید‘ کا اور دوسرا ’تجدّد‘ کا۔ زمانے کے تغیرات کو مدّ نظر رکھ کر دین کو  بلاکم وکاست بیان کرنے کا نام ’تجدید‘ ہے جو کہ مستحسن ہے، اور زمانے کے تقاضوں کے نام پر  دین کو بدل ڈالنے کا نام ’تجدّد‘ ہے، جس کی ایک نظریاتی ریاست میں گنجایش نہیں ۔ کیوں کہ بندگان خدا کے لیے اصل وفاداری کا مرکز خداے وحدہ لاشریک کی ذات وصفات ہے، جس کی تعبیر ’توحیدی بیانیہ‘ سے کی جاسکتی ہے۔ اس وحدتِ فکروعمل کو دوئی کے سانچے میں ڈال کر جو بھی    قومی بیانیہ ترتیب دیا جائے، وہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے نزدیک مردُود ہے، کیوں کہ وحی (Revelation) کے ذریعے قرآن کریم ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اللہ شرک اور مشرکانہ فکروعمل کو ہرگز معاف نہیں کرتا اور اپنے بندوں کے باقی گناہوں کو بخش دیتا ہے  ؎
باطل دُوئی پسند ہے ، حق لاشریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول

آسمانی بیانیہ میں تحریف اور توحیدی بیانیہ
انجیل مقدس اور دوسری آسمانی کتابوں میں تحریف کا بنیادی پہلو بھی یہی تھا کہ ان کے ’توحیدی بیانیہ‘ کو مشتبہ بنا دیا گیا۔ اس میں ترمیم واضافہ کر کے بندوں کے نام ربّ کے پیغام کو   بنی اسرائیل نے اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ انجیل میں سب سے خطرناک تحریف یہ کی گئی: ’’جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو ‘‘۔ یہ وہ مشرکانہ بیانیہ ہے، جس کے ذریعے عیسائیوں کے عقیدئہ توحید پر ضرب لگائی گئی۔
’آسمانی بیانیہ‘ تبدیل کرنے کی اس جسارت نے ان قوموں کو مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ  اور ضَّآلِّیْنَ بنادیا اور امت مسلمہ کو اس جسارت عظیم سے بچنے کی تاکید نماز کی ہر رکعت میں کی گئی ۔ رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا کہ مغضوب قوم یہودی ہیں اور گمراہ اور ضال نصاریٰ ہیں، جب کہ انعام یافتہ ہونے کی علامت ’توحیدی بیانیہ ‘ کو قرار دیا گیا، جو رسول ہاشمی ؐ کی حقیقی قیادت میں ریاست کا بیانیہ تھا۔ اس بیانیے کو اللہ کے رسولؐ نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ محمد رسول اللہ کے سانچے میں ڈھال کر ایمان کی بنیاد قرار دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بگڑی ہوئی تاریخ کو دوبارہ توحیدی بیانیے پر استوار کرنے کے لیے کفروشرک کے خلاف ریاست مدینہ کے اندر آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو سخت جدوجہد اور بذریعہ قرآن جہاد عظیم کرنا پڑا۔ قرآن کے الفاظ میں:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ (الفتح ۴۸:۲۹)اللہ کے پیغمبر محمد ؐ اور ان کی معیت میں اہل ایمان کفار پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔
قرآن کریم نے اہل ایمان کے لیے اس بیانیے کو لازوال رشتے سے تعبیر کیا:
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق (البقرہ ۲:۲۵۶)جو بھی طاغوت کا انکار کر دے اور اللہ پر ایمان لے آئے گویا اس نے نہ ٹوٹنے والی رسی کو تھام لیا۔

قومی بیانیہ اور دو طرفہ حکمت عملی
درحقیقت ریاست اور ملت اسلامیہ کا ’قومی بیانیہ‘ ہی ان کا عروۃ الوثقٰی اور حبل اللہ  ہے، جو آپس میں’مفاہمت‘ اور دشمن کے ساتھ ’مزاحمت‘ کی دوطرفہ حکمت عملی کی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ یہ کسی بھی نظریاتی ریاست کی پالیسی سازی کا محور ہونا چاہیے، جو رب کائنات کو اپنا ملجا وماویٰ بنائے اور مشرکانہ بیانیے کو اپنے لیے ضرب کاری کا ہدف سمجھے، اور حق وباطل کے اشتراک کو ہرگز قبول نہ کرے۔ یہی وجہ تھی جب کفارِ قریش مکّہ نے آپ ؐ کے چچا ابو طالب کو آپؐ کے پاس بھیجا تو رسولِؐ خدا کا جواب بلاخوف وخطران کے ہر لالچ کا توڑ تھا:
خدا کی قسم! اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر کہیں کہ  آفتاب ومہتاب کے عوض میں اس بیانیے کو ترک کر دوں تومیں ہرگز اسے ترک نہ کروں گا۔ یہاں تک کہ یا تو اللہ اس دین کو غالب کر دے یا میں اس راہ میں جان دے دوں۔ (سیرت ابن ہشام، جلداوّل ، ص ۲۶۶)
یہ تھی سنت نبوی ؐ، یعنی ایک نظریاتی مملکت کے سربراہ اوّل کا لائحہ عمل اور ایکشن پلان۔{ FR 584 } عصر حاضر کا بیانیہ اگر رسولؐ اللہ کے بیانیے سے متصادم ہے تو نبی کریمؐ کی سنت کو چھوڑنے والا ہرحکمران اپنے دعویٰ ایمان میں جھوٹا ہے اور ان کا دین دینِ سماوی نہیں بلکہ اکبر کے ’دین الٰہی‘ کا بیانیہ ہی ثابت ہوگا جسے مجدّد الف ثانی نے اپنی ضرب کاری سے نیست و نابود کر کے رکھ دیا۔

قومی بیانیہ اور درپیش چیلنج
 بے شک امن وترقی تجدید کے باوصف ہماری ضرورت ہے مگر اپنی تہذیب ونظریے کی قیمت پر ہرگز نہیں ۔ لہٰذا، عصر حاضر میں ’قومی بیانیہ ‘ کے حوالے سے ہماری نظریاتی مملکت پاکستان کو جو چیلنج درپیش ہیں، کیا ترقی کی خاطر یا پھر باطل کے ڈر کے پیش نظر ان چیلنجوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا جائے اور ایک نظریاتی ریاست کے بجاے ایک مجبور محض (functional ) اور سیکورٹی اسٹیٹ کی حیثیت کو قبول کرلیاجائے، یا پھر ہم بیرونی آقائوں کی خوشنودی کے لیے پاکستان کی مشکیں ترغیب و ترہیب (Carrot and Stick) کی پالیسی کے شکنجے میں کَس دینا چاہتے ہیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ مداہنت کی پالیسی ہوگی جسے سورئہ مائدہ میں یہ کہہ کر منع کیا گیا ہے (جو صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی تھی) ۔
اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ (المائدہ ۵:۳) آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہو گئے ہیں، لہٰذا اب تم ان سے   نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔
درحقیقت غزوئہ احزاب نے کفار کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ وہ عملی اور اعصابی جنگ ہار گئے تھے۔ اسلامی ریاست اتنی مضبوط ہو گئی تھی اور اسلام کی طاقت اتنی زبردست ہو گئی کہ کفار جارح کو معلوم ہو گیا کہ اب ان کے پاس وہ طاقت ہے کہ اگر ہم لڑیں گے تو یہ ہمیں شکست دے ڈالیں گے۔ ریاست مدینہ میں جنگ احزاب کے پس منظر میں مشرکینِ قریش اور یہود نے بیسیوں قبائل کو ساتھ لے کر ’اتحادی فوجیں‘ (Coalition Forces )ترتیب دے کر ریاست مدینہ کے خاتمے کا سوچا تھا۔ ان کی شکست کے بعد رسولؐ اللہ نے فرمایا تھا: اَلْآنَ نَغْزُوْہُمْ وَلَا یَغْزُوْنَنَا (بخاری، کتاب المغازی)۔ گویا اب وقت گیا کہ یہ تم پر چڑھ چڑھ کر آرہے تھے اور اپنے شر کے بیانیے کو تم پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔ وقت آگیا ہے کہ اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے اور وہ دفاع کرنے پر مجبور ہوں گے۔
’جہادی بیانیہ‘ صرف دفاعی جنگ کا نام نہیں ہے بلکہ باطل کے خلاف اقدامی جنگ (Aggresive War )بھی ہے۔ بیسیوں غزوات اور سرّیوں سے آںحضوؐر اور آپ کے صحابہ ؓ نے  توحیدی بیانیے کو اعلاے کلمۃ اللہ کی رفعتوں سے ہم کنار کیا ۔ ہمیشہ مشرکوں، کافروں اور منافقوں کی یہ دلّی تمنا ہوتی ہے کہ نظام حیات ان کی منشا کے مطابق بدلا جائے، جب کہ رب کائنات اپنا فرمان اتار کر اپنی منشا کے مطابق نبویؐ لائحہ عمل کو نافذ دیکھنا چاہتا ہے اور حکم دیتا ہے : اَلَالَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ط (اعراف ۷:۵۴) ’’خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے‘‘، اور وَجَاہِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا o (الفرقان ۲۵:۵۲) ’’تم اس قرآن کو لے کر ان سے جہاد کبیر کرو ‘‘۔
عالمِ اسلام میں اب یہ جاہلی حکمت عملی اپنے عروج پر ہے۔ماضی میں اس جاہلی فتنے کو میکیاولی اور قدیم چانکیائی فلسفہ نے خوب تقویت دی۔ جب نوآبادیاتی دور کا آغاز ہوا تو ولندیزی، پرتگیزی اور انگریزی استعمار نے جھوٹ اور مکاری پر مبنی بیانیے کو فروغ دے کر مسلم سلطنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۔ خلافت عثمانیہ کے حصے کر دیے ۔ دین اور دنیاکی دوئی کا فلسفہ گھڑ کر مسلم سیاسی قوتوں کو مذہب کے مقابلے میں لا کھڑا کیا اور ہر قومی ادارے سے مذہب و دین کا خاتمہ کرکے فرقہ واریت کو پروان چڑھایا۔ اس طرح اسپین اور افریقہ سے لے کر برعظیم پاک وہند تک سارے مسلمان سیاسی اور مذہبی لحاظ سے لامتناہی ٹکڑوں میں بٹ کر آپس میں دست وگریبان ہوگئے کیوں کہ وہ خلافت کے سائبان سے محروم ہو کر بالادست سیکولر قوتوں کے دست نگر بن گئے تھے۔ مزاحمت اگر تھی تو وہ صرف علماے حق کی طرف سے تھی۔ اس لیے کہ سیاسی قوت ہاتھ سے چلے جانے کے بعد جہادی بیانیہ، ریاست کا بیانیہ نہ رہا بلکہ علماے حق عوام الناس تک اللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کاپورا نزلہ علما پر گرا دیا گیا۔ معاشرے میں ان کو  بے حیثیت بنا دیا گیا اور ہزاروں علما کو شہید کیا گیا۔ برطانوی فوج میں چار لاکھ سے زائد مقامی افراد بھرتی کیے گئے جن میں سے دو لاکھ فوجی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ لوگ تاجِ برطانیہ کے لیے تقویت اور مزاحم قوتوں اور علما کے لیے تعذیب کا سبب بنے۔ دراصل اس لیے کہ شرک کا بیانیہ ظلم وستم پر مبنی ہوتا ہے، جس کے ذریعے کمزور اہل ایمان کو تختۂ مشق بنایا جاتا ہے:
وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ (البروج ۸۵:۸) ان سے ان کے انتقام لینے کی اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اللہ غالب اور محمود پر ایمان رکھتے تھے۔

قومی بیانیہ سے انحراف
 قیام پاکستان کے وقت دو قومی نظریے کی بنیاد پر لازوال جدوجہد تاریخ کا حصہ ہے  کیوں کہ پوری قوم ایک بیانیے پر متحد ہو گئی تھی ۔ تا ہم ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کے سانحے کے رُونما ہونے کے بعد اسلامی بیانیے کے خلاف زور دار ابلاغی مہم چلائی گئی۔  اس کو سیکولرزم کی فتح  سمجھ کر بائیں بازو کے دانش وَروں نے سیکولر بیانیہ اپنانے کا مشورہ دیا۔ اس کے مقابلے میں دوسرا مضبوط موقف دائیں بازو کے دانش وَروں کا تھا کہ سقوطِ مشرقی پاکستان دراصل نظریۂ پاکستان کے ترجمان اسلامی بیانیے سے انحراف کا نتیجہ تھا۔
اس موقعے پر جب سبط حسن نے بائیں بازو کے سیکولر موقف پر زور دیا توا لطاف گوہر نے صاف لکھا کہ پاکستان کی تخلیق کا مقصد اسلامی ریاست کی تخلیق تھا۔ صدر ایوب خان کی کابینہ میں الطاف گوہر ماڈرنزم کے پرچار ک تھے مگر وہ جدیدیت کو مذہبیت کی نفی نہیں سمجھتے تھے۔ اسی طرح  ۱۹۸۵ء میں سبط حسن کے جواب میں معروف وکیل اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن خالد ایم اسحاق نے کئی مضامین لکھے جو ڈان میں شائع ہوئے۔ وہ اسلامی نظریے پر مبنی بیانیے کے حق میں تھے۔  خالد اسحاق ایڈووکیٹ نے مدلل انداز میں اسلامی ریاست کے حوالے سے الطاف گوہر کے موقف کی بھر پور تائید کی اور ریاست اور مذہب کو الگ الگ خانے میں رکھنے کی اہل نصاریٰ کے موقف (Narrative) پر زور دار تنقید کی۔ اقبالؒ نے بھی اسلامی نقطۂ نظر سے پاپائیت کی سخت مخالفت تو کی تھی، مگر دین کے مقصد کے حصول کے لیے ریاست کے وسیلے کے استعمال کے وہ بھرپور حامی تھے  ؎
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
 جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
قائداعظم محمد علی جناح یورپ میں علمی نشوونما پا کر ابتدا میں مذہب اور ریاست کے جدائی کے قائل تھے، مگر ۱۹۳۸ء سے ان کا نقطۂ نظر اس وقت بدل گیا جب مولانا اشرف علی تھانویؒ کی طرف سے بھیجے گئے علما کے چھے رکنی وفد نے پٹنہ میں بیرسٹر عبدالعزیز کے گھر میں قائداعظم سے ملاقات کی۔ ڈھائی گھنٹے کی گفتگو کے بعد جناح نے مولانا ظفر احمد عثمانی اور مولانا شبیر احمد عثمانی اور وفد کے دیگر ارکان کے سامنے علانیہ کہا:’’کسی اور مذہب میں دین اور ریاست ایک دوسرے سے جدا ہوں یا نہ ہوں، مجھے خوب سمجھ آ گیا ہے کہ اسلام میں دین اور سیاست ایک دوسرے سے جدا نہیں‘‘۔
دیوبند کے ان علما کاقائد اعظم کے ساتھ علمی اور سیاسی تعاون ہمیشہ جاری رہا۔ ۱۹۴۶ء میں پاکستان کے حق میں صوبہ سرحد کا ریفرنڈم جیتنے کے بعد قائد نے ان دونوں علما کو مبار ک باد دی اور ایک نشت میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒکے سوال کے جواب میں کہا کہ سیاست سے دست بردار ہوکر لندن منتقل ہونے کے بعد میری واپسی آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے پر ہوئی تھی۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں ۱۹۴۷ء میں پاکستان کا جھنڈا لہرانے کا سہرا بھی قائد کے حکم پر  انھی دو علما کے سر رہا اور وصیت کے مطابق قائد کی نماز جنازہ بھی مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے پڑھائی  ع
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
ہمارے ہاں یہ بحث ۷۰ سال سے جاری ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد مبارک باد کا مستحق ہے کہ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۱۲ء کے دوران Pakistan Between Secularism and Islam: Ideology, issues and Conflict کے موضوع پر مقالہ جات اور سیمی نار ز کی کارروائی شائع کر کے قوم کو یک سُو کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، جس کا سہرا پروفیسر خورشید احمد اور محقق ڈاکٹر طارق جان کے سر ہے۔ توحیدی بیانیہ کو پروان چڑھانے کے لیے ہر قسم کی ابلاغی اور اداراتی کوششیں لائقِ تحسین ہیں۔

مغربی عصری بیانیہ اور شریعت محمدی ؐ
عصر حاضر میں جدید مغرب کے فلاسفروں نے   Humanism  یا تحریک انسانیت کے نام سے جو بیانیہ دیا ہے، اس میں انسان کو خاکم بدہن اللہ تعالیٰ اور وحی (Revelation)  کے مقابلے میں عقلیت (Rationalism) کو تقدس کا درجہ دیا ہے اور حلال وحرام کے شرعی احکام کی جگہ ’Utilitarianism ‘ یعنی افادیت پسندی کو اپنے تجدد سے ’شریعت‘ قرار دیا ہے۔ حالاںکہ تمام مذاہب سماوی کی رُو سے حاکمیت اعلیٰ کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے، اور اسلامی شریعت میں سنتِ رسول ؐ کی آئینی حیثیت بھی مسلّم ہے، کیوں کہ اسوئہ رسول ؐ کی پیروی کے بغیر کوئی بھی بیانیہ ہدایت سے محروم رہے گا۔ حاکمیت اعلیٰ اور سیرت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ریاست مدینہ میں کوئی تجاوز نہیں کر سکتا تھا تو آئیڈیل کی حیثیت سے دستورِ پاکستان میں ان حدود کا خیال رکھا گیا اور قانون سازی اور دستوری سازی میں قرار داد مقاصد اور توہین رسالتؐ اور خاتم الانبیا کی عظمت اور تقدس کے اصولوں سے انحراف کی کوئی گنجایش نہیں چھوڑی گئی ۔ دستور کے مطابق قرآن وسنت ہمارے قومی فکروعمل کے بنیادی مآخذ اور ہمارے عقیدے کی بنیاد شریعت ہی ہمارا نظام حیات ہے۔ شریعت دراصل اُخروی کامیابی کی خاطر زمینی وسائل اور انسانی صلاحیتوں کے استعمال کے نبویؐ منہج اور ضابطے (Code of Conduct) کا نام ہے، تا کہ بحیثیت خلیفہ، انسان کے ہاتھوں زمینی اقتدار ،آسمانی اقدار کی روشنی میں قائم رہے۔ اسی کو امانت اور اسی کو اللہ سے عہد کہا گیا ہے اور یہی وہ توحیدی بیانیہ ہے، جسے میر حجاز ؐ نے انسانیت کے سامنے پیش کیا اور طاغوت سے انسان کو خلاصی بخشی ۔اس توحیدی بیانیے کا اصل مقصد ومدعا بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر رب کی بندگی میں دینا تھا تا کہ دنیا اصلاح اور امن وسلامتی کا مسکن بن جائے۔
اقبال کے نزدیک یہ سب کچھ دین اسلام اور میر حجاز ؐ کی برکت سے ہے: ع  از کلیدِ دیں درِدنیا کُشاد۔ گویا پیغمبر وہ ہستی ہیں، جنھوں نے دین کی کلید سے دنیا کے دروازے واکر دیے اور وسیلۂ دنیا کو مقصد دین کا ذریعہ بنایا اور ترکِ دنیا کو ناجائز قرار دیا۔

مستضعفین کا بیانیہ اور ہمارے قائدین
زمینی حقائق کے مطابق بیانیہ (Narrative) دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک ظالم متکبرین کا بیانیہ اور دوسر امستضعفین کا بیانیہ ۔ ظالم اور مظلوم ، طاقت وَر (Oppresor) اور کمزور (Oppressed) کے رویے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کمزوروں اور پسے ہوئے مستضعفین کو غلبہ دے کر ان پر احسان کرنا چاہتا ہے تا کہ مستکبرین اپنا بیانیہ کمزور قوموں پر بزور نافذ نہ کرسکیں:
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَo (القصص ۲۸:۵) اور ہم جہاں بھر کے کمزوروں پر یہ احسان کرنا چاہتے ہیں اور ان کو قیادت اور زمین کی وراثت عطا کرنا چاہتے ہیں۔
چونکہ صدق وعدل پر مبنی قرآن کا بیانیہ بھی طاقت کا متقاضی ہے جو ریاستی سطح پر اداروں کی تمکین اور سیاسی قوت کے حصول کے بغیر ممکن نہیں۔ گذشتہ صدی میں برعظیم کے اندر کمزور مسلمانوں پر اللہ کا یہ احسان اس طرح ہوا کہ رب غفور نے ہمیں بلدۃ طیبہ، یعنی پاکستان دیا۔  ساتھ ہی ہندو اکثریت کے غرور کو بھی خاک میں ملا دیا کیوں کہ وہ رائج الوقت جمہوری اصول کے مطابق برعظیم کی ۲۵ فی صد مسلمان اقلیت پر حکمرانی کرنا چاہتے تھے۔
برعظیم کی ایسی اعصاب شکن بحرانی کیفیت میں اللہ تعالیٰ نے احسان کے طور پر مسلمانوں کو فکری اور عملی طور پر ایک بصیرت افروز اور صاحب کردار قیادت عطا کی۔ بلاشبہہ، ڈاکٹر محمد اقبال اور محمد علی جناح اس کے سرخیل تھے۔ وہ اپنی عظمت رفتہ کے حصول کے لیے ریاست مدینہ کو آئیڈیل سمجھتے تھے اور اسلام کے بیانیے پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے۔ دونوں قائدین اعلیٰ پاے کے مفکر اور مدّبر اور قانون دان تھے۔ انھوں نے علاحدہ اور خود مختار اسلامی ریاست کے حصول کے لیے قانونی اور سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور برعظیم کے کمزور مسلمانوں کی قیادت کا حق ادا کیا۔ اسلامی نظریے پر قائداعظم کا یقین اتنا پختہ تھا کہ پاکستان بننے سے پہلے ایک سو مرتبہ اور پاکستان بننے کے بعد ۱۴ مرتبہ انھوں نے اپنی تقریروں میں اسلام کے نظریاتی بیانیے پر زور دیا۔
پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے آئین کی تشکیل سے قبل قرار دادِ مقاصد، یعنی Objective Resolution منظور کی، جو حقیقی قومی بیانیے کی عکاس تھی اور میثاقِ مدینہ کا پر تو، اور ایک نظریاتی مملکت کی سنگ میل بھی۔

توحیدی بیانیہ اور قومی آزمایش
قرار دادِ مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے میں اوّل روز سے بڑی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔  اسی توحیدی بیانیے کی پاداش میں اس کے روح رواں نواب زادہ لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا، جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انھوں نے امت مسلمہ کو یک جا کرنے کے لیے ڈاکٹر محمد اسد کو عالمی مشن پر بھیجا تھا۔ جب وہ تین اسلامی ملکوں کا دور کر کے ترکی پہنچے تو باطل غالب قوتوں کو خلافت اسلامی کے دوبارہ احیا کا خطرہ کھٹکنے لگا ۔پھر قائداعظم کے ایما پر قائم کردہ ’ادارہ اسلامی تعمیرنو‘ کہ جس کی سربراہی محمد اسد کو سونپی گئی تھی، اس ادارے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور تمام ریکارڈ غائب کردیا گیا۔ پورے ۶۸ سال بعد ۴۰صفحات پر مبنی اس قومی ادارے کا بیانیہ اب دوبارہ منظر عام پر آ گیا ہے۔ یہ عملی توحیدی بیانیہ بوجوہ عصر حاضر کے ’قیصر‘ کے لیے خدائی کا حصہ مانگنے والے مشرکوں کو اور مشرکانہ بیانیے کے پیروکار منافقوں کو ایک نظر نہیںبھاتا تھا۔ کیوں کہ اس کے پس منظر میں مصورِ پاکستان اور قائداعظم کا وژن جھلکتا تھا، جنھوں نے چٹان کی طرح استقامت دکھا کر عالمی باطل  قوتوں کو جمہوری طریقے سے شکست سے دوچار کیا تھا، اور اسلامی بیانیے کے قانونی نفاذ کے لیے ایک جدید فلاحی اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی تھی۔
قانونی اور دستوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اسلامی جمہوری مملکت میں وقفے وقفے سے مارشل لا کا نفاذ اور جسٹس محمدمنیر کے ہاتھوں اسلامی بیانیے کو مشتبہ بنانے کے لیے قائداعظم محمدعلی جناح کی کردار کشی اسی گہری سازش کا شاخسانہ ہیں، جسے سلینہ کریم نے اپنی کتاب Secular Jinnah میں بڑی محنت سے علمی طور پر طشت ازبام کیا ہے،اور سیکولر بیانیے کی مکارانہ بنیادوں کو ہلا دیا ہے۔
اہل دانش کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ قرارداد مقاصد کے دستوری بیانیے کے خلاف ترتیب دیے جانے والے بیانیے کو مسترد کریں اور عوام الناس کو شعوری طور پر بیدار کریں کیوں کہ ہم اپنی قومی ریاست کو خدائی کے مقام پر براجمان نہیں دیکھنا چاہتے ۔ ورنہ یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کی احسان فراموشی ہو گی اور اپنے محسن قائدین سے غداری بھی، جنھوں نے رزم حق و باطل کے لیے اصل معیار کو حلقۂ یاراں کے لیے روز روشن کی طرح واضح کر دیا تھا اور آپس میں نظریاتی یک جہتی کے فوائد کو عملاً چراغ مصطفویؐ کی روشنی میں ثابت کر دکھایا تھا۔ اقبال کے بقول یہ جہادی بیانیہ شراربولہبی کے لیے ستیزہ کاری کا پیغام ہے :
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرار بُولہبی
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
(یہ تحریر  عالمی ترجمان القرآن  میں شائع ہوئی )