قومی بیانیہ
پروفیسر مفتی منیب الرحمن
بیانیہ یا Narrativeہماری سیاست وصحافت کی نئی اصطلاح ہے جو اکیسویں صدی میں متعارف ہوئی ،اس سے پہلے شاید کہیں اس کا ذکر آیا ہو ،لیکن ہمارے مطالعے میں نہیں آیا ۔البتہ ایک نئے ''عُمرانی معاہدے‘‘(Social Contract) کی بات کی جاتی رہی ہے ،حالانکہ کسی ملک کا دستور ہی اُس کا عُمرانی معاہدہ ہوتا ہے اور پاکستان کا دستور اتفاقِ رائے سے 14اگست 1973ء کو نافذہوا اور اُس کے بعد سے اب تک اُس میں 22ترامیم ہوچکی ہیں ۔اٹھارہویں ترمیم نے اِسے فیڈریشن سے کنفڈریشن کی طرف سرکا دیا ہے ۔
7ستمبر2015ء کو وزیرِ اعظم ہاوس اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں قومی بیانیہ ترتیب دینے کے لیے ایک مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی تھی :مفتی منیب الرحمن ،مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ،مولانا قاضی نیاز حسین نقوی، مولانا یاسین ظفراور مولانا عبدالمالک۔
میں نے بنیادی مسوّدہ ترتیب دیا ،مولانا قاری محمد حنیف جالندھری شریکِ کار تھے ،پھر اُسے پانچوں تنظیمات کے اکابر کے پاس بھیجا ۔انہوں نے اس کا مطالعہ کیا ،بعض نے کچھ ترامیم تجویز کیں ،کچھ حذف واضافہ کیا اور پھر میں نے حتمی مسودہ 22اکتوبر 2015ء کوکوآرڈی نیٹر نیکٹا جنابِ احسان غنی کو ارسال کیا کہ وہ متعلقہ اہلِ اقتدار کو اِسے دکھادیں اور اگر وہ اس میں کوئی ردّوبدل چاہیں تو اس کی نشاندہی کردیں ۔میں نے اِسے اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جناب جنرل رضوان اختر کو بھی ارسال کیا کہ اگر اس میں وہ اپنا کوئی حصہ ڈالنا چاہیں یا کوئی اضافہ مطلوب ہو تو مطلع کریں ، ہم باہمی مشاورت سے اسے حتمی شکل دیں گے۔ اس دوران میڈیا پر وقتاً فوقتاً بیانیہ کا ذکرآتا رہا ،لیکن سرکار کی طرف سے کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔اُس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتِ وقت کے لیے آئے دن کوئی نیا مسئلہ پیدا ہوجاتاہے یا کوئی نئی اُفتاد نازل ہوجاتی ہے ، انہیں ان چیزوں پر غور کی فرصت ہی نہیں ملتی اور نہ ہی وہ اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں ۔چونکہ ہمارے میڈیا کے کرم فرماحضرات کا ہدف مدارس اور اہلِ مدارس ہوتے ہیں ،اس لیے وہ مشقِ ستم فرماتے رہتے ہیں ۔اُن پر نہ کوئی ذمے داری عائد ہوتی ہے ،نہ اُن کے لیے حُبُّ الوطنی کا کوئی معیار ہے ،نہ ہی ملکی سلامتی کے حوالے سے اُن پر کوئی قید وبند عائد کی جاسکتی ہے ،اُن کی زبان کی کاٹ سے ویسے ہی اہلِ اقتدار لرزاں وترساں رہتے ہیں ،خواہ وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار کی آرزو میں بیٹھے ہوں ۔سو ایک کمزور طبقہ مدارس واہلِ مدارس کا رہ جاتا ہے جس پر مشقِ ناز کی جائے اور یہ بھی اُن کی خواہش رہتی ہے کہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکا جائے اور جتنا ہوسکے ان کی مُشکیں کَسی جائیں ۔لہٰذا ہم نے اپنے تناظر میں یہ بیانیہ ترتیب دیا ۔دو تین ماہ قبل بیانیہ ترتیب دینے کے لیے اہلِ عقل ودانش کی کوئی مجلس ترتیب دی گئی اور ظاہر ہے کہ بنیادی قرطاسِ عمل اِسی عاجز کا ترتیب دیا ہوا تھا ،بیرونِ ملک سفر کی وجہ سے میں خود اِن دانائے روزگار اشخاص کی دانش سے مستفید نہ ہوسکااور محروم رہا۔
البتہ طیور کی زبانی جو اڑتی سی خبر ملی ،وہ یہ تھی کہ نفاذِ شریعت کے مطالبے کا بیانیے سے تعلق نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ایسی کوئی ہوا اُسے لگنی چاہیے ۔ہمیں حیرت ہے کہ جمہوریت کے نام پر کوئی بھی مطالبہ کیا جاسکتا ہے ،لیکن نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے کی جمہوریت میں بھی اجازت نہیں ہے ،سو جمہوریت اور جمہوری اَقدار کس چڑیا کا نام ہے ،یہ بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ویسے تو اسرائیل میں بھی مذہبی جماعتیں سیاسی دوڑ میں شامل ہیں ،جرمنی میں کرسچین ڈیموکریٹس کے نام سے جماعت قائم ہے اور اِن سے اُن کے نظام کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا ،مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے سے ریاست کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں ۔ہمارا مرتّبہ بیانیہ درج ذیل ہے:
ہمارے وطنِ عزیز میںگزشتہ ڈیڑھ عشرے سے داخلی طور پرتخریب وفساد، دہشت گردی اور خروج و بغاوت کی صورتِ حال ہے اوراس کے بار ے میں دینی لحاظ سے لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے ابہامات اوراشکالات واردہو رہے ہیں۔بعض حضرات یہ تاثردیتے رہتے ہیں کہ اس ذہنی نہادکے پیچھے مذہبی محرکات کا رِفرما ہیں اور انہیں دینی مدارس و جامعات سے بھی کسی نہ کسی سطح پر تائید یا ترغیب ملتی رہی ہے۔لہٰذا ہماری دینی اور ملی ذمے داری ہے کہ اس کے ازالے اور حقیقتِ حال کی وضاحت کے لیے اپنا شرعی موقف واضح کریں اور اسی بنا پر ہم نے اسے قومی بیانیے کاعنوان دیا ہے،پس ہمارا موقف حسبِ ذیل ہے:
(1)اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، جس کے دستور کا آغاز اس قومی وملی میثاق سے ہوتا ہے :''اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکتِ غیرے حاکم ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیارو اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہے، وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔ نیز دستورمیں اس بات کا اقراربھی موجود ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا ۔ اگر چہ دستور کے ان حصوں پر کما حقہ عمل کرنے میں شدید کوتاہی رہی ہے ، لیکن یہ بے عملی ہے اور اس کوتاہی کی بنا پر ملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ لہٰذا اس کی بنا پر ملک، حکومتِ وقت یا فوج کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی کا کوئی شرعی جوازنہیں ہے ۔
(2)پاکستان کے آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذِ شریعت کی پر امن جدِّو جُہد کرنا ہر مسلمان کی دینی ذمے داری ہے، یہ پاکستان کے دستور کا تقاضا بھی ہے اور اس کی دستورمیں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ ہماری رائے میں ہمارے بہت سے ملکی اورملّی مسائل کا سبب اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد سے روگردانی ہے ۔حکومت اس حوالے سے پیش رفت کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ کو فعال بنائے اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات پر مبنی قانون سازی کرے، جو کہ دستوری تقاضا ہے ۔
نفاذِ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال ، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی ،تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں جن کا ہمارے ملک کو سامنا ہے ، حرام قطعی ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں ۔یہ ریاست ، ملک و قوم اور وطن کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں، عدمِ استحکام سے دو چار کر رہی ہیں ، تقسیم در تقسیم اور تفرقے کا باعث بن رہی ہیں اور ان کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔ لہٰذا ریاست نے ان کو کچلنے کے لیے ضربِ عَضب کے نام سے جو آپریشن شروع کر رکھا ہے اور قومی اتفاقِ رائے سے جو لائحہ عمل تشکیل دیا ہے ، ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں ۔ اب ہماری مسلّح افواج نے ایک نئی مہم شروع کی ہے ،جس کا عنوان ہے: ''رَدُّ الفَسَاد‘‘،ہم اس کی بھی حمایت کرتے ہیں۔
(3)اکیسویں آئینی ترمیم میں جس طرح دہشت گردی کو''مذہب و مسلک کے نام پر ہونے والی دہشت گردی‘‘کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے، اس کے بارے میں ہمارے تحفظات ہیں۔ دہشت گردی اور ملک کے اندر داخلی فساد کی باقی تمام صورتوں کو یکسر نظر انداز کر دینامذہب کے بارے میں نظریاتی تعصب کا آئینہ دار ہے اور اس امتیازی سلوک کافوری تدارک ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم ریاست اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس سے ملک میں قیامِ امن کے لیے ہمارے عزم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ۔ دہشت گردی کی تازہ لہر کے بعد بھی معلوم ہوا ہے کہ ہماری لبرل جماعتیں مذہب اور اہلِ مذہب کو ہدفِ خاص بنانے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو آمادہ نہیں ہیں اوراِسی لیے تئیسویں ترمیم پر اتفاق رائے نہیں ہوپارہا،اگرچہ اس اختلاف کا سبب در اصل ان کی ایک دوسرے سے شکایات ، گِلے شکوے اور کچھ خدشات ہیں۔
(4)تمام مسالک کے نمائندہ علماء نے2004ء میں اتفاقِ رائے سے شرعی دالائل کی روشنی میں قتلِ ناحق کے عنوان سے خود کش حملوں کے حرامِ قطعی ہونے کا جو فتویٰ جاری کیا تھا، ہم اس کی مکمل تائید و حمایت کرتے ہیں۔نیز لسانی علاقائیت اور قومیت کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کے خلاف مصروفِ عمل ہیں، یہ بھی قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سبب ہیں اور شریعت کی رو سے یہ بھی ممنوع ہے، لہٰذا ضربِ عضب کا دائرہ ان سب تک وسیع کیا جائے۔
(5)مسلمانوںمیں مسالک و مکاتب ِ فکرقرونِ اُولیٰ سے چلے آ رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ان میں دلیل و استدلال کی بنیاد پرفقہی اورنظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہیں گی ۔ لیکن یہ تعلیم وتحقیق کے موضوعات ہیں اور ان کا اصل مقام درس گاہ ہے۔ اِن کو پبلک یا میڈیا میں زیرِ بحث لانا بھی انتشارپیدا کرنے اور وحدتِ ملی کو نقصان پہنچانے کا سبب ہے۔ اِن کو انتظامی اور انضباطی اقدامات سے کنٹرول کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔اس سلسلے میں میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق یا قانون بناکر اسے سختی سے نافذ کرنا بھی حکومت کی ذمے داری ہے اور اس کے لیے وہ کوئی تعزیری اقدام بھی تجویز کر سکتی ہے ۔
(6)فرقہ وارانہ نفرت انگیزی ، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت اور آئین و قانون کی رو سے ناجائز ہے اوریہ ایک قومی اور ملی جرم ہے ۔
(7)تعلیمی اداروں کا، خواہ وہ دینی تعلیم کے ادارے ہوں یا عصری تعلیم کے ، ہر قسم کی عسکریت اورنفرت انگیزی پر مبنی تعلیم یا تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے ۔ اگر کوئی فرد یا ادارہ اس میں ملوث ہے ، تو اس کے خلاف ثبوت وشواہد کے ساتھکارروائی کرنا حکومت کی ذمے داری ہے ۔
(8)دینی مدارس پر مبہم اور غیر واضح الزامات لگانے کا سلسلہ ختم ہوناچاہیے ۔ دینی مدارس کی پانچوں تنظیمات حکومت کو لکھ کر دے چکی ہیں کہ اگراس کے پاس ثبوت و شواہد ہیں کہ بعض مدارس عسکریت ، دہشت گردی یا کسی بھی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث ہیں، تو ان کی فہرست جاری کی جائے۔ وہ خود نتائج کا سامنا کریں یا اپنا دفاع کریں ، ہم ان کا دفاع نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کی حمایت کریں گے ۔
(9) ہم بلا استثنا تمام دینی مدارس میں کسی منفی سرگرمی کی مطلقاً نفی نہیں کر سکتے ،ہماری نظر میں انتہا پسندانہ سوچ اور شدت پسندی کومحض دینی مدارس سے جوڑناغیر منصفانہ سوچ کا مظہر ہے۔ گزشتہ عشرے سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے شواہدسا منے آئے ہیں کہ یہ روش جدیدعصری تعلیمی اداروں اور دیگر اداروں میں بھی فروغ پا رہی ہے، اس کے نتیجے میں مغرب کے پر تَعیُّش ماحول سے نکل کر لوگ وزیرستان آئے ، القاعدہ اور داعش سے ملے، جب کہ یہ جدید تعلیم یافتہ لو گ ہیں۔پس تناسب سے قطعِ نظر یہ فکرہرجگہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ سویہ فکری نِہادجہاں کہیں بھی ہو،ہماری دشمن ہے ۔یہ لوگ دینی مدارس یا جدید تعلیمی اداروں یاکسی بھی ادارے سے متعلق ہوں، ہمارے نزدیک کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں ۔
(10)دینی مدارس کی پانچوں تنظیمات اس بات کا عہد کرتی ہیں کہ دینی تعلیم کھلے ماحول میں ہونی چاہیے اور طلبہ و طالبات پر کسی قسم کا جسمانی یا نظریاتی تشدّدیا جبرروانہیں ہے۔ الحمد للہ ہمارے دینی مدارس کا ماحول کھلا ہے اور اس میں عوام بلا روک ٹوک آ سکتے ہیں اور کوئی چیز مخفی نہیں ہے ، یہ ادارے ملکی قانون کے تحت قائم ہیں اور ملکی قانون کے پابند ہیں اور رہیں گے۔
(11)ہر مکتبہ فکر اور مسلک کو مثبت اندازمیں اپنے عقائد اور فقہی نظریات کی دعوت و تبلیغ کی شریعت اور قانون کی رو سے اجازت ہے ، لیکن اہانت آمیز اور نفرت انگیزی پر مبنی اندازِ بیان کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ اسی طرح صراحت ، کنایہ ، تعریض ، توریہ اور ایہام کسی بھی صورت میں انبیائے کرام و رُسُلِ عظام علیہم السلام اہل بیتِ اطہار و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، شعائرِ اسلام اور ہر مسلک کے مسلمہ اکابرِ امّت کی اہانت کے حوالے سے ضابطہ فوجداری کے آرٹیکل 295 کی تمام دفعات کو لفظاً اور معنیً نافذ کیا جائے اور اگر اس قانون کا کہیں غلط استعمال ہوا ہے ، تو اس کے اِزالے کی احسن تدبیر کی جاسکتی ہے۔فرقہ وارانہ محاذ آرائی کے سدِّ باب کی یہی ایک قابلِ عمل صورت ہے ۔
(12)عالمِ دین اور مفتی کا منصبی فریضہ ہے کہ کلماتِ کفر کو کفر قرار دے اور سائل کو شرعی حکم بتائے ، البتہ کسی شخص کے بارے میں فیصلہ صادر کرناکہ آیا اس نے کفرکا ارتکاب کیا ہے یا کلمہ کفر کہا ہے ، یہ قضا ہے اور عدالت کا کام ہے۔ مفتی کا کام صرف شرعی حکم بتانا ہے ، اس سے آگے ریاست و حکومت اور عدالت کا دائرہ اختیار ہے ۔اسی لیے ہمارے فقہائے کرام نے ''لُزُومِ کفر ‘‘اور ''التِزامِ کفر‘‘ کے فرق کو واضح کیا ہے۔
(13)اس وقت پاکستان میں جدید تعلیم ایک انتہائی منفعت بخش صنعت بن چکی ہے۔ پلے گروپ اور نرسری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک پرائیویٹ تعلیمی ادارے ناقابل یقین حد تک غیر معمولی فیسیں وصول کر رہے ہیں۔اعلیٰ معیاری تعلیم قابلِ فروخت جنس بن چکی ہے اور مالی لحاظ سے کمزور طبقات کی پہنچ سے دور ہے اور اس کے نتیجے میںمعاشرے میں طبقاتی تقسیم کو مستقل حیثیت حاصل ہے، کیونکہ پبلک سیکٹر میں تعلیم کا معیار انتہائی حد تک پست ہے۔ہمیں تعلیم کے پرائیویٹ سیکٹر میں ہونے پر اعتراض نہیں ہے ، اعتراض یہ ہے کہ تعلیم کو صنعت کی بجائے سماجی خدمت کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے ۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک قومی کمیشن قائم کیا جائے جو پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں کے لیے''نہ نفع نہ نقصان‘‘یامناسب منفعت کی بنیادپر فیسوں کا تعین کرے اور انہیں اس بات کا پابند کرے کہ وہ کم از کم پچیس فیصد نادار طلبہ کو میرٹ پر منتخب کر کے مفت تعلیم دیں ۔عصری تعلیم کے پرائیویٹ اداروں میں کئی قسم کی درآمد کی ہوئی نصابی کتب پڑھائی جارہی ہیں اور ان کا نظامِ امتحان بھی بیرونِ ملک اداروں سے وابستہ ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان کے نصاب پر موثر نگرانی کا نظام قائم کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان میں تعلیم پانے والی ہماری نئی نسل اسلامی اور پاکستانی ذہن کی حامل ہو اور سب سے آئیڈیل بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح اسکول گریجوایشن کی سطح تک یکساں نصابِ تعلیم اور نظامِ امتحان رائج ہو۔
(14)پاکستان میں رہنے والے پابندِ آئین وقانون تمام غیرمسلم شہریوں کو جان ومال اور عزت وآبروکے تحفظ اور ملکی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے وہی تمام شہری حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں ۔ہم حقوقِ انسانی کی مکمل پا س داری کا عہد کرتے ہیں۔اِسی طرح پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو اپنی عبادت گاہوں میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پوراپورا حق حاصل ہے ۔
(15)اسلام خواتین کواحترام عطا کرتا ہے اور اُن کے حقوق کی پاس داری کرتا ہے۔ اسلام کے قانونِ وراثت میں خواتین کے حقوق مقرر ہیں۔ان کو جاگیرداری،سرمایہ داری اور قبائلی رسوم پر مبنی سماجی روایات کی بنیادپروراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔بعض صورتوں میں اخلاقی اور معاشرتی دباو ڈال کر وراثت سے دست برداری حاصل کی جاتی ہے۔قرآن سے شادی کا تصور بھی وراثت سے محروم کرنے کی غیر شرعی رسم ہے ۔ وراثت کا استحقاق محض دست برداری سے ختم نہیں ہوتا ، قرآن و سنت کی رو سے تقسیمِ وراثت شریعت کالازمی قانون ہے ۔ شریعت کی رو سے اگر کوئی وارث اپنا حصہ رضا ور غبت سے اورکسی جبر و اکراہ کے بغیر کسی کو دینا چاہے ، تو بھی محض دست برداری کافی نہیں ہے ۔جائیداد مالکانہ طور پر اس کے نام پر منتقل کرنااور اسے اُس پر قبضہ دینا لازمی ہے ، اس کے بعد ہی وہ مالکانہ حیثیت سے تصرف کرسکتا ہے ۔
عورتوں پر تشدد کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور رسول اللہ ﷺنے خطبہ حجۃ الوداع میں عورتوں کے حقوق کی پاس داری پر نہایت تاکید کے ساتھ متوجہ فرمایا ہے ۔خواتین کی جبری شادی ہمارے دیہی اور جاگیردارانہ سماج کی ایک خلافِ شرع روایت ہے اور ریاست کی ذمے داری ہے کہ اسے قانون کی طاقت سے روکے۔ اسلام عورت کے حقِ رائے دہی پر بھی کوئی قدغن نہیں لگاتا اور نہ ہی عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے پر کوئی پابندی ہے، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ شرعی حدود کی پابندی کی جائے ۔
ہم نے دینی مدارس وجامعات کی رجسٹریشن کا میکنزم بھی بناکر دیا ،تمام ضروری کوائف ومعلومات اُس میں شامل کی گئیں اور تفصیلی کوائف کے لیے اصل کیفیت نامہ کے ساتھ ضمنی فارم مرتب کر کے دیے ۔اسی طرح ڈیٹا فارم بھی مرتب کر کے دیا اور طے پایا کہ پہلے سے قائم سوسائٹی ایکٹ یا ٹرسٹ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ مدارس کو قانونی تصور کیا جائے گا اور اُن سے دوبارہ رجسٹریشن کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا ۔یہی اصول سابق صدر جناب جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت کے ساتھ طے پایا تھا اور اُن کے دور میں اس پر عمل رہا ۔ یہ بھی طے پایا کہ پہلے سے رجسٹرڈ مدارس اور نئی رجسٹریشن حاصل کرنے والے مدارس سالانہ ڈیٹا بھی فراہم کریں گے اوراس کے لیے وفاقی وزارتِ مذہبی امور یا وزارتِ تعلیم میں ایک سیل قائم کیا جائے گایا صوبے اس ذمے داری کو انجام دیں گے ۔ہماری معلومات کے مطابق ہمارے تیارے کیے گئے اس مسودہ ٔ قانون کی صوبوں سے منظوری بھی لی گئی ،لیکن پھر اس پر قانون سازی نہ ہوسکی ۔ماضیٔ قریب میں صوبۂ سندھ کی اسمبلی نے ایک متنازعہ بل بنایا ،لیکن وہ اب تک معرضِ التوا میں ہے ،کیونکہ صوبائی وزیرِ اعلیٰ جنابِ سید مراد علی شاہ متعدد وعدوں کے باوجود اتفاقِ رائے کے لیے اب تک کوئی اجلاس منعقد نہیں کرسکے اور حکومت کے اِسی شِعار کی وجہ سے ''تبدیلیٔ مذہب ‘‘کا قانون جو در اصل ''قانونِ امتناعِ قبولِ اسلام ‘‘ ہے،صوبائی اسمبلی سے پاس ہونے کے باوجود قانون نہ بن سکا اور اُس کے بارے میں بھی اتفاقِ رائے کے لیے جنابِ آصف علی زرداری کے وعدے اور ہدایت کے باوجودکوئی اجلاس منعقد نہ ہوسکا۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کو ملامت کرنے میں لگی رہتی ہیں ،لیکن ہمیں سنجیدگی کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی اور سب پنجابی محاورے کے مطابق ''ڈنگ ٹپائو‘‘کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
(روزنامہ دنیا تاریخ اشاعت 25، 27 فروری 2017)