فیض کی نظم تنہائی : ایک اسلوبیاتی مطالعہ - مرزا خلیل احمد بیگ

فیض احمد فیض کی نظم" تنہائی" ( ایک اسلوبیاتی مطالعہ )
(نوٹ : یہ مقالہ : لانگ آئی لینڈ [نیویارک] میں منعقدہ سہ روزہ بین الاقوامی فیض صدی تقریبات میں جون ۲۰۱۱ء میں پڑھا گیا)

’اسلوبیات‘(Stylistics)نسبتہً ایک جدید نظریۂ تنقید ہے۔ ادبی فن پارے کی تنقید و تشریح اور تحلیل و تجزیے کے طریقوں میں گذشتہ صدی کے دوران نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ روایتی طرزِ تنقید کی رو سے ادبی نقاد مصنف کے حوالے کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتا تھا۔ لیکن بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں روسی ہیئت پسندی کے ارتقا اور اُسی زمانے میں فرانس میں فرڈی نینڈڈی سسیور کے انقلاب آفریں لسانی افکار نے، جن سے ساختیات کے سوتے پھوٹے، ادبی تنقید کی کایا ہی پلٹ دی۔ نقاد کی توجہ اب مصنف کے بجائے ادبی فن پارے یا متن پر مرتکز ہونے لگی۔ آگے چل کر رولاں بارت نے ’مصنف کی موت‘ کا اعلان بھی کر دیا۔ اسلوبیاتی نظریۂ تنقید روسی ہئیت پسندی، عملی تنقید، نئی تنقید، اور ساختیاتی وپس ساختیاتی تنقید ہی کی طرح ’متن اساس‘تنقید ہے جس میں تاریخی اور سوانحی حوالوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صر ف ادبی متن کے مطالعے اور تجزیے سے سروکار رکھا جاتا ہے۔ روایتی ادبی تنقید میں نقاد اپنا سارا زور ادبی فن پارے کی تشریح (Interpretation) اور اس کی خوبی یا خامی بیان کرنے میں صرف کر دیتا ہے۔ اُس کا انداز داخلی اور تاثراتی ہوتا ہے۔ اس کے علی الرغم اسلوبیاتی تنقید ادبی متن کی توضیح (Description) اور اُس کے اسلوبی خصائص (Style-features)کو نشان زد کرنا اپنا بنیادی مقصد قرار دیتی ہے۔ اس کا انداز معروضی اور تجزیاتی ہوتا ہے۔

اس امر کا ذکر یہاں بے جا نہ ہو گا کہ اسلوبیات، اطلاقی لسانیات کی ایک شاخ ہے۔ اس لیے اس میں لسانیاتی طریقِ کار اور لسانیاتی حربوں سے خاطر خواہ مدد لی جاتی ہے، اور لسانیات کی تمام سطحوں یعنی صوتی، صرفی لغوی، قواعدی، نحوی اور معنیاتی سطحوں پر ادبی متن کی تحلیل و تجزیے کا کام سرانجام دیا جاتا ہے۔

اس مقالے میں فیض احمد فیضؔ کی نظم ’’تنہائی‘‘ کا اسلوبیاتی تجزیہ صرفی و لغوی سطح پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فیض کی یہ ایک مختصر سی نظم ہے جو اُن کے پہلے مجموعۂ کلام ’نقشِ فریادی‘(۱۹۴۱ء)‘ میں شامل ہے۔ اس نظم میں کل نو مصرعے ہیں۔ اس کی قرأت یوں ہے:

پھر کوئی آیا دلِ زار ! نہیں، کوئی نہیں

راہ رو ہو گا کہیں  اور    چلا  جائے   گا

ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار

لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ

سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گذار

اجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ

گل کرو شمعیں بڑھا دو مے  و مینا و   ایاغ

اپنے بے خواب کواڑوں  کو  مقفل  کر لو

اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا

جیسا کہ ظاہر ہے اس نظم میں رات کی منظر کشی کی گئی ہے، شاعر تنہا ہے، اُسے کسی کا شدت سے انتظار ہے، انتظار کی گھڑیاں طویل تر ہوتی جاتی ہیں اور اسی کے ساتھ شاعر کی مایوسی، اداسی، اور افسردگی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ اردو شعر و ادب میں تنہائی کوئی نیا موزوں نہیں، لیکن فیض کے اسلوبِ بیان اور طرزِ اظہار نے اس نظم کو ایک شاہکار ادبی تخلیق بنا دیا ہے۔

جب ہم اس نظم کے لفظی سرمایے پر غور کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہماری توجہ لغوی ربط و اتصال (Lexical Cohesion) پر مرکوز ہوتی ہے۔ الفاظ کی سطح پر اسلوب کی یہ وہ خصوصیت ہے جس میں کسی ادبی فن پارے کے دو یا دو سے زیادہ الفاظ باہم مربوط (Cohesive) ہوتے ہیں، یعنی ایک دوسرے کے ساتھ ربط، علاقہ یا نسبت رکھتے ہیں۔ زیرِ تجزیہ نظم میں وقوع پذیر ایسے الفاظ کے حسبِ ذیل پانچ زمرے قائم کیے جا سکتے ہیں ـ:

۱- رات، تاروں، شمعیں، چراغ، خوابیدہ، سو گئی۔

۲- راہ رو، راستہ، راہ گذار۔

۳- مے، مینا، ایاغ۔

۴- غبار، خاک۔

۵- کواڑوں، مقفل۔

اس تجزیے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پہلے زمرے میں دوسرے تمام زمروں سے زیادہ الفاظ شامل ہیں، چنانچہ یہ زمرہ بنیادی زمرہ کہلائے گا۔ اس زمرے کا کلیدی لفظ ’رات‘ ہے۔ اس زمرے کے دوسرے الفاظ یعنی تارے، چراغ، شمعیں، خوابیدہ اور سو گئی کلیدی لفظ ’رات‘ سے مناسبت رکھتے ہیں۔ ’رات‘ اور اس سے مناسبت رکھنے والے تمام الفاظ جن کا تعلق زمرۂ اول یا بنیادی زمرے سے ہے، نظم کا Surface structure یعنی خارجی ڈھانچا فراہم کرتے ہیں جو نظم کا بنیادی ڈھانچا ہے۔

’خارج‘ ہی سے ہم ’داخل‘ کی جانب رجوع کرتے ہیں جو اس نظم کا Deep structureہے، جہاں شاعر کے دل کی اداسی اور افسردگی ہمارے دامنِ دل کو کھینچتی ہے۔ رات کا دل کی افسردگی سے گہرا تعلق ہے۔ میرؔ کا دل تو شام ہی سے بجھا سا رہنے لگتا تھا۔ فیض کا دل اُس وقت بجھتا ہے جب رات ڈھل چکی ہوتی ہے، تاروں کا غبار بکھرنے لگتا ہے، راہیں سونی ہو جاتی ہیں، اور کسی کے قدموں کی آہٹ کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ مایوسی اور ناامیدی کی اس گھڑی میں شاعر کا دل دنیا کی ہر چیزسے اچاٹ ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ سامانِ عیش و نشاط بھی اُسے خوش نہیں آتے، چنانچہ وہ قدرے جھنجلا کر کہتا ہے:

گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ

اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو

کیوں کہ اسے اس بات کا پورا یقین ہو چکا ہے کہ، ع

اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا

زیرِ تجزیہ نظم میں Lexical Cohesionکے علاوہ Semantic Cohesion، یعنی معنیاتی ربط و اتصال کی بھی عمدہ مثالیں پائی جاتی ہیں۔ زمرۂ اول یعنی بنیادی زمرے کے بیشتر الفاظ کے ساتھ فیض نے جو فعلی شکلیں استعمال کی ہیں ان میں معنیاتی ربط و اتصال کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ جب ہم ان تراکیب پر غور کرتے ہیں، مثلاً رات کا ڈھلنا، تاروں کا بکھرنا، چراغ کا لڑکھڑانا، شمع کا گل ہونا، چراغ کا خوابیدہ ہو جانا، راہ گذار کا سو جانا تو ہمیں ڈھلنا، بکھرنا، لڑکھڑانا، گل ہونا، خوابیدہ ہونا اور سوجانا جیسے مصادر میں معنی کی صرف ایک ہی رَو دوڑتی ہوتی نظر آتی ہے اور وہ ہے زوال پذیری کی رو جسے امید و نشاط کے خاتمے اور مایوسانہ طرزِ احساس سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، چنانچہ رات، تارے، شمع، چراغ، راہ گذار سبھی مظاہر زوال خوردہ نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رات کا ڈھلنا، تاروں کا بکھرنا، چراغ کا لڑکھڑانا، شمع کا گل ہونا، وغیرہ کو فیض نے نظم میں شعری علائم کے طور پر برتا ہے۔ فرڈی نینڈ ڈی سسیور کی لسانیاتی اصطلاح میں یہ علائم Signifiersکا درجہ رکھتے ہیں جن کا Signified زوال پذیری کا عمل ہے جو ایک حالت یا کیفیت (State) کا نام ہے جس کا گہرا تعلق ذہنی کیفیت (State of mind)سے ہے۔ یاس و افسردگی، اداسی اور دل گیری اِسی ذہنی کیفیت کی ایک شکل ہے جو عالمِ تنہائی میں شدید تر ہو جاتی ہے، اور جس کا اظہار شاعر نے نظم کی ابتدا ہی میں ’’دلِ زار ‘‘ کی ترکیب استعمال کر کے کر دیا ہے۔ نظم ایک ڈرامائی انداز سے شروع ہوتی ہے، لیکن ’’نہیں ‘‘ کی تکرار سے منظر اچانک تبدیل ہو جاتا ہے، ع

پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں، کوئی نہیں

اور اسی ’’نہیں ‘‘ کی دوبارہ تکرار سے نظم اپنی انتہا کو پہنچتی ہے، ع

اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا

’’نہیں ‘‘ جو حرفِ تنکیر ہے نظم میں محرومی کا اشاریہ بن جاتا ہے اور اِس کی تکرار محرومی کے احساس کو شدید تر کر دیتی ہے۔

الفاظ کی سطح پر اس نظم کا تجزیہ کرتے وقت اسلوبیاتِ فیض کی ایک اور خصوصیت کی جانب ہماری توجہ مبذول ہوتی ہے جسے لسانیاتی اصطلاح میں ’فور گراؤنڈنگ‘ (Foregrounding) کہتے ہیں جس سے مراد الفاظ و تراکیب کا وہ نادر اور انوکھا استعمال ہے جو زبان کے عام استعمال یا معمول (Norn) سے ہٹ کر ہوتا ہے اور جو ہماری توجہ فوراً اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ فور گراؤنڈنگ میں زبان کا عام استعمال پس منظر میں چلا جاتا ہے جس کی جانب ہماری کوئی خاص توجہ مبذول نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں زبان کا مخصوص و منفرد اور نادر استعمال پیش منظر میں آ کر کشش کا باعث بنتا ہے۔

فورگراؤنڈنگ کی اصطلاح سب سے پہلے لسانیات کے پراگ اسکول کے ایک ممتاز نقاد اور ماہرِ اسلوبیات مکار و وسکی نے عام زبان اور شاعری کی زبان میں فرق بتلانے کے لیے استعمال کی تھی۔ اس سے اُس کی مراد الفاظ کے غیر عقلی انسلاکات(Illogical combinations)سے تھی جن سے شعری زبان میں تنوع، ندرت اور انوکھا پن پیدا ہوتا ہے اور زبان کے تخلیقی استعمال کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ اُس کا قول ہے کہ’’ شاعری کی زبان کو لازماً فور گراؤنڈڈ ہونا چاہیے‘‘۔ (The language of poetry must be foregrounded)

فیضؔ نے اپنی نظم ’’تنہائی‘‘ میں بعض ایسی نادر تراکیب و انسلاکات اور Expressions استعمال کیے ہیں جو ہماری توجہ فوراً اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں،

مثلاً:

۱- خوابیدہ چراغ۔

۲- بے خواب کواڑ۔

۳- چراغوں کا لڑکھڑانا۔

۴- راہ گذار کا سوجانا۔

۵- راہ گذار کا راستہ تکنا۔

۶- اجنبی خاک۔

۷- اجنبی خاک کا قدموں کے سراغ کو دھند لا دینا۔

ان مثالوں میں شاعر نے ذی روح (Animate) کو غیر ذی روح (Inanimate) کے ساتھ منسلک کر کے غیر عقلی انسلاکات (Illogical combinations)تخلیق کیے ہیں۔ فارسی مصدر خوابیدن یعنی ’سونا‘ ایک جبلی عمل ہے جو صرف ذی روح سے متصف ہے، مثلاً:

سَرھانے میرؔ کے آہستہ بولو

ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے

لیکن فیضؔ نے غیر ذی روح اشیا، مثلاً چراغ کے ساتھ خوابیدہ، کواڑوں کے ساتھ بے خواب اور راہ گذار کے ساتھ سو گئی کے انسلاک سے اظہار میں جدت، ندرت، تنوع اور تازگی پیدا کی ہے، اور اظہار کا یہی انوکھا انداز ہمارے دامنِ دل کو اپنی جانب کھینچتا ہے جسے لسانیاتی اصطلاح میں ’فورگراؤنڈنگ‘ کہتے ہیں۔ اِسی طرح چراغ کا لڑکھڑانا، راہ گذار کا راستہ تکنا، خاک کا اجنبی ہونا، اور اجنبی خاک کا قدموں کے سراغ کو دھندلا دینا جیسے اظہار ات (Expressions) بھی فورگراؤنڈنگ کی حدوں کو چھوتے ہیں۔

اردو کے بعض ناقدین نے فیضؔ پر اپنی تحریروں میں اُن کی نظم ’’تنہائی‘‘ کا بہ طورِ خاص ذکر کیا ہے، لیکن انھیں اس نظم میں پراسراریت اور رومانیت کے وجود اور رجائیت کے عدم وجود کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آیا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظم فیضؔ کے شعری اور تخلیقی اظہار کا ایک بہترین نمونہ ہے۔


------------------
(بشکریہ بزم اردو لائبریری )