کتابیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کتابیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

گوپی چند نارنگ کی تصنیفات


گوپی چند نارنگ کی تصنیفات
گوپی چند نارنگ 11 فروری 1931ء کو ڈکی، زیریں پنجاب میں پیدا ہوئے ۔  پروفیسر گوپی چند نارنگ کو عہد حاضر کا صف اول کا اردو نقاد، محقق اور ادیب مانا جاتا ہے۔ گو کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ دہلی میں مقیم ہیں مگر وہ باقاعدگی سے پاکستان میں اردو ادبی محافل میں شریک ہوتے ہیں جہاں ان کی علمیت کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اردو کے جلسوں اور مذاکروں میں شرکت کرنے کے لیے وہ ساری دنیاکا سفر کرتے رہتے ہیں اورانہیں سفیر اردو کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ جہاں انہیں بھارت میں پدم بھوشن کا خطاب مل چکا ہے وہیں انہیں پاکستان میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا ہے۔  وہ بھارت کے سب سے اہم ادبی ادارے ساہتیہ اکادمی کے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں ۔



Niyaz Ahmad
1991


Waqar-ul-Hasan Siddiqi
2006


Bhartiya Gyanpeeth, New Delhi
2016

پروفیسر مسعود حسین خاں کی تصنیفات

پروفیسر مسعود حسین خاں کی تصنیفات
پروفیسر مسعود حسین خاں
مسعود حسین خان (28 جنوری 1919ء-16 اکتوبر 2010ء) ماہر لسانیات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سماجییات کے پروفیسر اوردہلی میں موجود مرکزی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر ہیں۔ 16 اکتوبر 2010ء کو ان کی وفات ہوئی۔

ان کا شاہکار" مقدمہ تاریخ زبان اردو"  ہے جس میں انہوں نے اردو زبان کی تاریخ اور اس کے آغاز و ارتقا پر مفصل بحث کی ہے۔ اردو زبان کے آغاز کی متعدد رجحانات اور اقوال کا انہوں نے موازنہ کیا ہے اور سب پر تنقیدی بحث کی ہے۔ اس ضمن میں ان کی یہ کتاب بہت مستند مانی جاتی ہے اور اکثریت نے ان کی تھیوری کو قبول کیا ہے۔ ان کی دوسری کتاب اردو زبان و ادب ہے جو 1954ء میں شائع ہوئی اور بام عروج کو پہونچی۔ ان کی کتب کے لئے ملاحظہ کریں - 

Shoba-e-Lisaniyat Muslim University Aligarh
1986

Shoba-e-Lisaniyat Muslim University Aligarh
1973

Shoba-e-Lisaniyat Muslim University Aligarh
1973

Iqbal Institute Kashmir University Srinagar
1983

Iqbal Institute Kashmir University Srinagar
1983

فرمان فتح پوری کی کتابیں

ڈاکٹر فرمان فتح پوری پاکستان سے تعلق رکھنے والے مصنف، محقق، ماہرِ لسانیات، نقاد، معلم اور مدیر تھے۔ وہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سربراہ اور اردو لغت بورڈ کے مدیر اعلیٰ بھی رہے۔




Progressive Book Club
1993

Maktaba Jamia Limited, New Delhi
1982

اردو املا اور رسم الخط
(اصول و مسائل)
Niyaz Ahmad
1977

Muqtadra Qaumi Zaban,Pakistan
1990

Maktaba-e-Aliya Lahore
1982

Educational Publishing House, Delhi
1994

Majlis-e-Taraqqi-e-Adab, Lahore
1972

Syed Waqar Moin
2004

Anjuman Taraqqi Urdu, Pakistan
1992


Educational Publishing House, Delhi
2013

Bekan Books Multan
1988

Firoz Sons Pvt Ltd Lahore
1988

Anjuman Taraqqi Urdu, Pakistan
1971

Halq-e-Niyaz-o-Nigar, Karachi
1974

Urdu academy Sindh,Karachi
1978


Saiqa Book Depot Delhi
1969

Qamar Kitab Ghar Karachi
1977


Muqtadra Qaumi Zaban,Pakistan
1986

Halq-e-Niyaz-o-Nigar, Karachi
1995

Syed Waqar Moin
2005

Aaina-e-Adab, Lahore
1972

Qamar Kitab Ghar Karachi
1980

Syed Waqar Moin
2009

Izhar sons Urdu Bazar, Lahore
1970

قمر زمانی بیگم
علامہ نیاز فتحپوری کی انوکھی داستان معاشقہ
Urdu academy Sindh,Karachi
1979

میر انیس
(حیات اور شاعری)
Urdu academy Sindh,Karachi
1976

نصف الملاقات
مشاہیر کے خطوط مع سوانحی کوائف
Bekan Books Multan
2005

Qamar Kitab Ghar Karachi
1974

National Book Foundation, Islamabad
1977

National Book Foundation Lahore


ادب اور ادبی مکالمے - رفیع الزمان زبیری

ساٹھ سال سے زیادہ وقت گزرا شفیع عقیل نے اس دورکی ممتاز ادبی شخصیتوں سے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ ان کے یہ انٹرویو شورش کاشمیری کے ہفتہ وار رسالے ’’چٹان‘‘ میں شایع ہوئے، عقیل کراچی میں تھے، وہ لکھتے ہیں کہ جس زمانے میں یہ انٹرویو کیے گئے اس وقت چار پانچ ایسی شخصیتیں تھیں جو ان کے ہاتھ نہ آ سکیں اور ادب اور ادبی مسائل پر ان کے خیالات وہ قلم بند نہ کر سکے۔ ان میں چراغ حسن حسرت، منٹو اور قدرت اﷲ شہاب شامل ہیں۔ تاہم جن شخصیات سے وہ ان کے خیالات معلوم کرنے میں کامیاب ہوئے ان کا اس دور کے ادبی ماحول کی تخلیق میں کلیدی کردار رہا ہے۔ شفیع عقیل کے یہ انٹرویو محفوظ رہے اور پھر بہت بعد میں انھوں نے انھیں مرتب کر کے ’’ادب اور ادبی مکالمے‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع کیا۔

شفیع عقیل نے ادب کے حوالے سے دو اہم سوالوں کے جوابات معلوم کرنے کی خاص طور پر کوشش کی۔ ایک یہ کہ ہمارا نظریہ ادب کیا ہونا چاہیے؟ اور دوسرا یہ کہ اردو تنقید نگاری کا معیار کیا ہے اور تنقید نگار کیا کر رہے ہیں؟ سب سے پہلے انھوں نے جوشؔ صاحب سے یہ دو سوال کیے۔ پہلے سوال کا جواب انھوں نے یہ دیا ’’ادب پوری زندگی پر حاوی ہے، ہم اس کو کسی ایک نظریے میں پابند نہیں کر سکتے‘‘ دوسرے سوال کا جواب تھا ’’حقیقی تنقید ناممکنات میں سے ہے اب جو چیز ناممکن ہے میں اس کے متعلق کیا کہوں۔‘‘

کتب خانہ اسکندریہ

کتب خانہ اسکندریہ کی بنیادبطلیموسی فرمانروا سوتر اول نے اسکندریہ کے مقام پر رکھی لیکن اس کے بیٹے فیلاڈلفس (Philadelphus) کی علم پروی اور کتابوں سے دلچسپی نے کتب خانہ اسکندریہ کوجلد ہی اس قابل بنا دیا کہ ایتھنز کی علمی وثقافتی مرکزیت وہاں سمٹ آئی۔ اصحاب علم وفضل دور دور سے اس علمی مرکز کی طرف جوق در جوق کھنچے چلے آتے تھے۔

کتب خانہ اسکندریہ 
کتکتب خانہ اسکندریہ کا قیام بھی نینوا کے کتب خانہ کی طرح شاہی سرپرستی میں عمل میں آیا۔ اگرچہ دونوں کتب خانوں کے قیام کا درمیانی وقفہ چار صدیوں پر محیط ہے لیکن ان دونوں کتب خانوں میں بعض امور میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ باوجود مطالعاتی مواد میں اختلاف (نینوا کا کتب خانہ جوکتب خانہ اشور بنی پال کے نام سے جانا جاتا ہے اس میں الواح سفالی یعنی مٹی کی تختیوں پر لکھا جاتا تھااور اسکندریہ کے کتب خانے میںقرطاس مصریپر) کے ماہرین نے ان دونوں کی اندونی تنظیم، مواد کی درجہ بندیاور کتب کی پیداوار کے طریق کار میں کافی حن تک مطابقت موجود ہے۔ یہ کتب خانہ ایک کثیر المقاصد عجا ئب گھر میں قائم کیا گیا تھا جو رصدگاہ، ادارہ علم الابدان، ادارہ نشر و اشاعت اور کتب خانہ کی عمارت پر مشتمل تھا۔ مورخین کے نزدیک اس علمی ادارے کو دنیا کی سب سے پہلی جامعہ یا سائنسی اکادمی ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔

تحریری مواد

کتابیں جھانکتی ہیں

شاکر احمد فاضل

معروف ڈراما نویس اور گیت نگار گلزار (پ: ۱۹۳۴ء، دینہ) کی یہ نظم پڑھیے تو خوب صورت لگے اور سوچیے تو کڑوی لگے۔ اس میں کڑوی سچائیوں کو بڑی خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ نظم حوالۂ قرطاس ہے ، تا کہ قاری اس نظم کو نہ صرف پڑھے بلکہ محسوس بھی کر سکے:

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے ،
بڑی حسرت سے تکتی ہیں ،
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، 
اب اکثر، گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے ۔
جو قدر یں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ بناتی تھیں
وہ سارے اُدھڑے اُدھڑے ہیں ۔
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹُنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ ،
جن پر اب کوئی معنی نہیں اُگتے ۔
بہت سی اصطلاحیں ہیں ،
جو مٹی کے سکُوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں ،
گلاسوں نے انھیں متروک کر ڈالا
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحہ پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے
بس اِک جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر ،
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پر رکھ کر لیٹ جاتے تھے ،
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آیندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
ان کا کیا ہو گا ؟

تاریخ اور تصورِ تاریخ

خورشید ندیم 

روز نامہ دنیا ، 25 جون 2018 ء 

تحریکِ پاکستان اپنے عروج پر تھی تو مسلم لیگی حلقوں میں ایک نعرہ گونجتا تھا: مسلم ہے تومسلم لیگ میں آ۔تقسیمِ ہند کے مطالبے میںاسی وقت وزن پیدا ہو سکتا تھا جب مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت قرار پاتی۔

تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوا تو مسلم لیگ کایہ نعرہ ابھی امر واقعہ نہیں بناتھا۔کانگرس سمیت بہت سی جماعتیں تھیں جو خود کو مسلمانوں کا نمائندہ قرار دیتی تھیں‘تاہم 1945-46 ء کے انتخابات نے مسلم لیگ کی یہ حیثیت مستحکم کر دی کہ وہ مسلمانوں کی اگر واحد نہیں تو سب سے بڑی جماعت ضرور ہے۔اس بنیاد پر کانگرس اور انگریز سرکار نے مسلم لیگ کو مسلمانوں کا حقیقی نمائندہ مان لیا۔پاکستان کا قیام مسلم لیگ کی جیت تھی۔یوں اس نئی مملکت کی باگ ڈور فطری طور پر مسلم لیگ کے ہاتھ میں آ گئی۔ اس طرح وہ مسلمان پس منظر میں چلے گئے ‘جو مسلم لیگ کے ہم نوا نہیں تھے۔

انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر

انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثرمولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی سب سے مشہور اور اثر انگیز کتاب  ہے اس کا عربی نام  ہے "ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين" ( مسلمانوں کے تنزل سے دنیا کو کیا نقصان پہونچا؟  مصر کے نامور اہل قلم سید قطب نے اس  پر اہم مقدمہ اور جامع  تبصرہ لکھا ہے وہ یہاں نقل کیا جاتا ہے اس سے مقدمہ نگار کی سلامت فکر اور مصنف کتاب کے بارے میں ان کے  تاثرات کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ۔ 

"عصر حاضر کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں میں خود اعتمادی پیدا کی جائے، ان میں ماضی پر اعتماد مستقبل کے بارہ میں امید اور حوصلہ پیدا ہو، اس دین پر ان کا ایمان و یقین تازہ اور زندہ ہوجائے جس کا نام تو وہ لیتے ہیں، لیکن اس کی حقیقت سے نا آشنا ہیں، ان کا تعلق اس دین سے زیادہ تر نسلی اور موروثی ہے، اور انہوں نے اس کو بہت کم سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

اس موضوع پر تمام قدیم وجدید لٹریچر میں بہترین کتابیں جو میری نظر سے گزری ہیں، ان میں مولانا ابو الحسن علی ندوی کی جدید تصنیف "ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين" ( مسلمانوں کے تنزل سے دنیا کو کیا نقصان پہونچا؟ اردو کتاب کا نام  " انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ) خاص مقام رکھتی ہے۔

علامہ سید سابق مصری کی کتاب" فقہ السنّہ " کا تعارف

علامہ سید سابق مصری کی کتاب " فقہ السنہ " اردو 
 سید سابق کی کتاب" فقہ السنّہ " کا تعارف  اردو مترجم ،  محمد عبدالکبیرمحسن  ناشر: مکتبہ اسلامیہ، حلیمہ سنٹر، اُردو بازار، لاہور۔ 

آخرت کی جواب دہی کے احساس سے سرشار ہرمسلمان مرد اور خاتون، بڑا اور چھوٹا یہ چاہتا ہے کہ میں اس فانی دُنیا میں اس طرح زندگی گزاروں کہ آنے والے کل میں، اللہ کے پسندیدہ فرد کی حیثیت سے نامۂ اعمال پیش کرسکوں۔ اس مقصد کے لیے ایک مفتی سے لے کر ایک عام مسلمان تک یہ چاہتا ہے کہ وہ اسلامی شریعت کی منشا جانے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے روشنی لے۔ یہ کوشش دینی سوال و جواب اور فتاویٰ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔

زیرنظر انسائی کلوپیڈیائی کتاب ۲۰ویں صدی کے دوران عرب اور غیرعرب دُنیا میں رہنمائی کا بڑے پیمانے پر فریضہ انجام دے چکی ہے، جسے پڑھنا اور اپنے پاس رکھنا ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ سیّد سابق جیسے معروف فقیہہ اور مدبّر (جنوری ۱۹۱۵ء- ۲۷فروری ۲۰۰۰ء) الازہر یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ وہ دورِ طالب علمی ہی سے الاخوان المسلمون کے جاں نثاروں کے ہم قدم بن گئے۔ اخوان کے ہزاروں پروانوں کی فقہی تربیت کے لیے السیّد سابق نے اس عظیم کتاب کی ترتیب و تدوین کی ذمہ داری سنبھالی اور بڑی خوبی و کامیابی سے اسے مدون کیا۔

سیّد سابق نے اس ذخیرئہ رہنمائی میں مختلف فقہی مکاتب ِ فکر کے علمی افادات کو ہرذہنی تحفظ سے بالاتر رہ کر پڑھا اور کتاب و سنّت کی روشنی میں پرکھا۔ پھراس مطالعہ و تحقیق اور دینِ اسلام کی حکمت کو بڑی آسانی اور عام فہم زبان میں ڈھال دیا۔

زیرنظر کتاب کا یہ بھی اعزاز ہے کہ ۲۰ویں صدی میں علمِ حدیث کے ماہر ناصرالدین البانی ؒ نے اس کتاب پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے بہترین کتاب بھی قرار دیا۔ ڈاکٹر حافظ عبدالکبیرمحسن نے بڑی محنت سے اس کا رواں اور شُستہ اُردو ترجمہ کیا ہے، اور محمد سرورعاصم مدیر مکتبہ اسلامیہ لاہور نے بڑی محبت اور خوب صورتی سے اسے زیورِطباعت سے آراستہ کیا ہے۔

یقینی بات ہے کہ ہر صاحب ِ ذوق اس کتا ب کا استقبال کرے گا۔ یہ کتاب اَب تک انگریزی، فارسی، ترکی، ازبکی، روسی، بوسنیائی، تھائی، ملیالم زبانوں کے علاوہ اُردو میں بھی دو تین مختلف مترجمین کی توجہ اور ترجمانی کا مرکز بن چکی ہے۔(س م خ)

(ماہنامہ عالمی ترجان القرآن ، بانی سید ابوالاعلی مودودی ؒ،  تاریخ اشاعت مئی 2018) 

'نقوشِ سیرت' پروفیسر ڈاکٹر شیر محمد زمان چشتی



پاکستان کے معروف محقق پروفیسر ڈاکٹر شیر محمد زمان چشتی کے سالہا سال کے مطالعہ اور علمی تجربہ کا نچوڑ 'نقوشِ سیرت' ہے جو 234 صفحات پر مشتمل ہے۔ خوبصورت جلد میں یہ کتاب نہایت دیدہ زیب ہے۔ 2007ء میں اسے 'پروگریسو بکس' اُردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے۔
کتاب کی ابتدا میں ملک کے معروف سکالر اُستادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی رحمة اللہ علیہ، معروف ادیب اور عربی زبان کے فاضل اجل پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی اورممتاز دانش ور پروفیسر عبدالجبار شاکرکے تبصرے ہیں جو38 صفحات تک ہیں ۔ تینوں فضلا نے اس کتاب پر نہایت علمی اور مفصل انداز میں تبصرے کیے ہیں ۔ ص 1
ص 39 پر 'عرضِ مؤلف' کے عنوان سے صرف ایک ورق لکھا گیا ہے۔ اس میں صاحب کتاب کی منکسر مزاجی ملاحظہ ہو:
'' احباب کی محبت نے جانا کہ شاید ان کی طرح کچھ اور اہل درد بھی ان کلمات کی شکستگی کو گلے لگا لیں ؛ پر اپنی کم مائیگی کو سر بازار لانا دیوانگی کا تقاضا کرتا ہے۔ نصیبوں والے ہی ایسے جنوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں ۔ 'فرزانگی' کا حجاب اوڑھنے والوں ، دنیا کی طرف دیکھنے والوں ، میں یہ جسارت کہاں سے آئے!... اس کشمکش میں انجامِ کار احباب کے خلوص اور اس ناچیزکے بارے میں ان کی حسن ظنی کی فتح ہوئی۔'' ص 2
یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ''آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری''کے زیر عنوان چار مقالات پر مشتمل ومحتوی ہے۔ دوسرے حصہ 'سیرت نگاری کے دو مناہج' میں دو مقالات شامل ہیں جب کہ تیسرے حصہ 'اُردو میں سیرت پر چند حالیہ تصانیف' میں تین مقالات شامل ہیں ، آخر میں اسماء الرجال، اسماے اماکن اور اسماے کتب کی فہارس کے ساتھ اشاریہ مرتب کیا گیا ہے۔
کتاب کی چند خصوصیات
یہ کتاب بہت سی خوبیوں سے مزین ہے جن میں سے ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سیرتِ نبویؐ اور اسلام کے حقائق کو ہمارے دور کے لیے نمونہ ثابت کرتے ہوئے ہر مقام پر کوئی نہ کوئی پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ حدیبیہ میں رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:
ابو جندل کو رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کے دوران ہی قریش کے سفیر سہیل بن عمرو کے حوالے کر دیا، کیونکہ یہ طے ہو چکا تھا۔ ہم نے بھی ایک عہد کیا جس کی صداے باز گشت ہمارے بچوں ، بوڑھوں ، مردوں ، عورتوں کی زبان کا وِرد ہو گئی۔ ''پاکستان کا مطلب کیا: لا إله إلا اﷲ'' کا نعرہ قریہ قریہ، گاؤں گاؤں گونجا۔ پینتیس برس ہوئے رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ ستائیسویں کی مبارک شب کہ ربّ ِجلیل نے ایک مردِ عظیم کے ہاتھوں اپنا وعدہ پورا فرما دیا۔ ہمارے حصے کی شق باقی رہی، کیا ہم اپنا قرض اُتار چکے؟ ہم نے ارضِ پاکستان کو لا إله إلا اﷲ کا جیتا جاگتا نقشہ بنانے میں کہاں تک پیش رفت کی؟ ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی پر کہاں تک اخلاقیات و تعلیماتِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ چڑھا۔ ص 3
اُسلوبِ نگارش
اندازِ نگارش میں عجیب چاشنی ہے۔ بطورِ مثال:
اعلانِ نبوت کا دسواں سال ہے۔ ابو طالب رخصت ہوئے پھر سیدہ خدیجہؓ نے بھی داعی ٔاجل کی پکار پر عین منجدھار میں اس رفیق ؐ کی رفاقت توڑ دی جسے کملی اُڑھا اُڑھا کے بارِ نبوت اٹھانے کی تشفیاں دی تھیں ۔ عم نصیر بھی گیا، رفیق وزیر بھی رخصت ہوا۔ مصائب آندھیاں بن گئیں ۔ یہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اپنی دُھن میں تن من دَھن اسی طرح دعوت کی راہ میں لٹانے کو تیار ۔ ص 4
علمی و لغوی مباحث
مصنف نے دوسرا مقالہ '' محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم؛ نبی ٔرحمت و عزیمت'' کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس میں کئی علمی اور لغوی نکتے بیان کیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے:
''بے محل نہ ہو گا اگر یہاں اس نکتے کی بھی صراحت کر دی جائے کہ اﷲ تعالیٰ کے بیشتر صفاتی نام انسانوں اور دیگر مخلوق کے لیے بھی استعمال ہو سکتے ہیں ۔ مثلاً رحیم کو لیجیے، یہ اسم قرآن مجید میں ہی رسولِ کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مؤمنین کے لیے شفقت اور رافت و رحمت کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَ‌سُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِ‌يصٌ عَلَيْكُم بِٱلْمُؤْمِنِينَ رَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِيمٌ ...﴿١٢٨﴾...سورة التوبہ 

اس آیت ِکریمہ میں ربّ ِرحیم کے دو صفاتی ناموں رؤف اور رحیم کا استعمال حضورصلی اللہ علیہ وسلم سرورِ کائنات کے لیے فرمایا گیا ہے۔ رحیم کی جمع رُحماء ہے جس کا استعمال حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ؓ کے لیے ہوا ہے: مُّحَمَّدٌ رَّ‌سُولُ ٱللَّهِ ۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلْكُفَّارِ‌ رُ‌حَمَآءُ بَيْنَهُمْ ۖ...﴿٢٩﴾...سورة الفتح 6
اَحَدکا کلمہ سورئہ اخلاص کی آیت نمبر۱ میں ذاتِ باری کے لیے اور آیت ۴ میں 'کفواً' کی صفت کے طور آیا ہے۔ اس کلمہ سے مؤنث کا صیغہ اِحدٰی قرآنِ کریم میں جا بجا استعمال ہوا ہے۔ خالق کا لفظ کسی ادب پارے یا فن پارے کی تخلیق کرنے والے کے لیے عام بولا جاتا ہے۔ حکیم، حلیم، عظیم، متین، رفیع، شکور، ظاہر، حاکم...علیٰ ہذا القیاس ربّ ِکریم کے بیسیوں صفاتی ناموں کا استعمال انسان یا دیگر مخلوق کے لیے بھی ہوتا ہے۔'' 7
مزید لکھتے ہیں :
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا فیض بلا قید ِزمان، عالم حاضر و عالم مستقبل، ہر زماں اور اہل زماں کے لیے جاری ہے۔ دوست کی دوستی، جاں نثار کی جاں سپاری، صاحب ِخیر و خلوص کی غم گساری، اعداے کینہ پرورکا عناد، مجوسی و صابی کا فساد، خاکی کا عجز، عالی کا فخر، ابلہ کی سادہ لوحی، حبی نیس کی عبقریت، غریب کی غربت، قریب کی قربت... ہر کیفیت میں محمد مطفیس صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا در کشادہ، فتح مکہ کے جلال و جبروت میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت و سطوت اور شان و شکوہ ہو یا بازارِ طائف کا انبوہ، اور اس میں لہولہان بے بس پردیسی کی بے چارگی، ہر عالم میں رحمت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ، آن بان میں ، نہ کمی نہ تغیر اور کیسے ہو کہ {وَرَ‌حْمَتِى وَسِعَتْ كُلَّ شَىْءٍ}8 شہنشاہِ ربّ العالمین نے خود محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمة للعالمین کے تاج سے سرفراز فرمایا۔ یہی عالمین کے کلمہ کی حکمت و جامعیت ہے۔'' ص 9

''آج اکنافِ عالم میں اُمت ِمسلمہ گھمبیر مسائل میں ہی گرفتار نہیں ، اس کا تشخص اور وجود بھی معرضِ خطر میں ہے۔ یہ ''اسلام خطرے میں ہے!'' کا روایتی نعرہ نہیں بلکہ ہمارے گرد و پیش کی ایک معروضی حقیقت ہے۔ شرق و غرب، دائیں اور بائیں کی نظریاتی جنگ، اشتراکیت وشیوعیت اور مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی سرد جنگ ٹھنڈی ہو چکی ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے پالیسی ساز بین الاقوامی بساط پر اپنی عملی سیاست اور دسیسہ کاری سے اور Huntington جیسے دانش ور نظریہ ساز اپنی تحریروں میں یہ پیغام دینے میں کسی اِخفا، اِیما یا اِبہام سے کام نہیں لے رہے کہ ان کا ہدف 'اسلامی بنیاد پرستی'(Islamic Fundamentalism)ہے۔'' ص 10
آج سے تقریباً 65 برس پہلے جنوبی ہند کے ایک درد مند مسلمان کے نام اپنے خط میں حکیم الامت علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ نے لکھا تھا:
"I am glad to hear that the Prophet's Birthday invoked great enthusism in South India. I believe the personality of the Prophet is the only force which can bring together the scattered forces of Islam in this country 11".
نقوشِ سیرت کا مرکز و محور ؛اطاعت ِ رسول
کتاب کے تیسرے مقالہ کا موضوع 'اطاعت ِرسول ؛ فوز و فلاح کا ذریعہ' ہے۔ یہ ان صدارتی کلمات پر مشتمل ہے جو شیخ زاید اسلامک سنٹر پنجاب، لاہور میں منعقدہ 'سیرتِ رحمت کائنات' منعقدہ 16؍مئی 2006ء میں پڑھے گئے۔ فرماتے ہیں :
''رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آقا و مولا پر ایمان ہی یقینا دنیا اور آخرت میں نجات کا باعث ہے۔ سرخ روئی کا ذریعہ ہے، فلاح اور کامیابی کا وسیلہ ہے، اس کے بغیر سب کچھ نا مکمل ہے۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ کے الفاظ میں ہم تمام زہد و تقویٰ کے باوجود، سب علم و فضیلت کے باوجود، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے ساتھ محبت و اطاعت کا تعلق قائم نہ کر سکیں تو سچی بات یہ ہے کہ سبھی کچھ بے کار ہے۔'' ص 12
مزیداس طرح رقمطراز ہیں :
''صداقت کبھی پرانی نہیں ہوتی، سچائی کبھی باسی نہیں ہوتی، خواہ اسے لاکھوں بار دہرایا جائے۔ یہ مصرع ''اور تم خوار ہوئے تارک ِقرآں ہو کر'' کبھی اپنی حقیقت کھو نہیں سکتا۔ آج ہم اپنے اِرد گرد مسلمان کی خواری، تذلیل اور بے بسی کے جو شرمناک منظر دیکھ رہے ہیں ، ان کی وجہ ترکِ قرآن اور حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فقدان ہے۔'' ص 13
مغرب کے لوگوں کے نظریہ کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
ان کے نزدیک اب واحد ہدف اسلام ہی ہے۔ وہ تہذیبوں کی آڑ میں یہ سب کچھ کہتے ہیں اور ہم ان کی Duplicity کا رونا روتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کی تعریف ایک جگہ پر کچھ اور کرتے ہیں ، دوسری جگہ کچھ اور کرتے ہیں ۔ یہ ہماری اپنی سادہ لوحی ہے۔ ہمارا اپنا ابلہ پن ہے کہ ہم نہیں پہچانتے کہ وہ تہذیبوں کے تصادم کا اعلان کرچکے ہیں تو آپ ان سے یہ توقع کیوں کرتے ہیں کہ وہ فلسطین کے بارے میں بھی وہی پالیسی اختیار کریں ، اسرائیل کے اندر اسرائیلی دہشت گردی کو بھی اسی نظر سے دیکھیں جس نظر سے وہ کسی مسلمان ملک میں ، یا کسی بھی مسلمان تنظیم یا فرد کی طرف سے ظاہر ہونے والی دہشت گردی کو دیکھتے ہیں ۔ ص 14
آپ کے چوتھے مقالے کا عنوان''اسلامی فلاحی ریاست؛ اُسوئہ حسنہ کی روشنی میں '' ہے۔ یہ مقالہ وزارتِ مذہبی اُمور کی قومی سیرت کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالات پر تبصرہ ہے۔ فرماتے ہیں :
مناسب ہو گا کہ گفتگو کے آغاز میں ہی ایک اہم نکتہ کی تصریح کر دی جائے۔ دورِ جدید میں فلاحی ریاست کی متعدد تعبیریں کی گئی ہیں ، ان نظریات اور اصطلاحی تعریفوں کی تفاصیل کا یہ موقع نہیں ۔ نہایت اختصار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریاست کے شہریوں کی تمام ضروریات کی فراہمی اور مادی بہبود ان کا مرکزی نقطہ ہے۔ خوراک، لباس، رہائش، تعلیم، صحت ِعامہ وغیرہ سب اس کے دائرہ میں آتے ہیں ۔ اس فلاحی تصور کے یہ سب عناصر اسلامی ریاست کے نمایاں ارکان بھی ہیں ۔ اس ضمن میں کوئی فرق ہے تو یہی کہ مغرب میں ان تصورات کی تاریخ زیادہ سے زیادہ تین سو سال پرانی ہے اور اس کا عملی نفاد تو ماضی قریب کی بات ہے۔ سویڈن، ناروے، ڈنمارک اور برطانیہ کے نام بطورِ مثال لیے جا سکتے ہیں مگر اسلامی تاریخ میں یہ نظام خلافت ِراشدہ میں ہی مستحکم ہو چکا تھا۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا یہ مشہور قول کہ ''فرات کے کنارے پر کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائے گا تو عمرؓ سے اس کی پرسش ہو گی۔'' فلاح کے ہمہ گیر اور آفاقی نظریہ کی وضاحت کرتا ہے۔ مزید برآں انسان کی حقیقی فلاح کا تعین اسلامی معاشرہ میں قرآن و سنت کی قائم کردہ حدود و قیود کی حفاظت میں ہے۔ سیکولر نظام کی یہ آزادی یہاں نہیں کہ جس چیز کو پارلیمنٹ جائز قرار دے، وہی نافذ العمل ٹھہرے گی۔ اس نظریہ کے اِبطال کے لیے مغربی پارلیمانی اداروں کے بعض ایسے حالیہ قوانین کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جن کا صراحت سے ذکر بھی اس مجلس کے تقدس کے خلاف سمجھتا ہوں ۔ ص 15
آخر میں لکھتے ہیں :
آئیے اس تاریخ ساز دن میں اپنے آپ کو پاک کرنے کے عزم میں اہل پاکستان کی قیادت کیجیے کہ ہم ظلم بے انصافی، بد دیانتی، فرض سے بے پروائی اور کوتاہی، قومی امانت میں خیانت، مسرفانہ شان و شوکت، اور زبانوں ، صوبوں ، فرقوں جیسی نا حق بنیادوں پر مبنی منافرت کے راستے چھوڑ کر عدل و انصاف، سادگی اور سچائی، اسلامی اخوت و محبت، اتحاد، معاشرتی مساوات، اور حق کے لیے ہر مشکل میں انفرادی و اجتماعی جہاد کا وہ شعار اپنائیں جو اس ملت کی پہچان ہے۔ جس نے اپنی عقیدتوں اور محبتوں کو فخر انسانیت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام کر دیا ہو اور اِمارت، سیاست، جھوٹی بڑائی اور سرداری، منصب اور مال کی نمائش، جَور و جفا، ظلم و تشدد کے پٹے کی بجائے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا مرصع ہار اپنی شخصیتوں کی زینت بنا لیا ہو۔ علماے کرام اور قائدین عوام کو نفاذِ شریعت اور استحکامِ جمہوریت کے نعرے مبارک، مگر خدارا اپنی مثال، اپنے نمونے، اپنی شیریں بیانی اور اپنی شعلہ مقالی کے ساتھ اہل پاکستان کو ان محمدی صفات (علی صاحبہا الصلوة والتسلیم) کی طرف بھی دعوت دیجئے جو اس ملت کی سچی فلاح کے لیے مضبوط بنیاد اور اقوامِ عالم کی صف میں 'پاکستانی' کے لفظ کے لیے سچے احترام کی ضمانت مہیا کرتی ہے۔ ص 16
'سیرت نگاری کے دومناہج' کے عنوان کے تحت تین مقالات تحریر کیے ہیں ۔ پہلے میں 'خطبات ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم'کے عنوان سے لکھا ہے جبکہ دوسرے عنوان 'سیرت نگاری، قرآن کی روشنی میں 'دو کتب پر تبصرہ فرمایا ہے جو دراصل الگ الگ معلوماتی مقالے ہیں ۔ ص 17
عنوان 'خطباتِ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم' میں ڈاکٹر محمد میاں صدیقی کی تالیف 'خطباتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم' پرنہ صرف تبصرہ ہے بلکہ ۲۰ صفحات پرمشتمل ایک معلومات افزا مقالہ بھی ہے۔ جس تبصرہ میں اس کتاب کے علاوہ خطباتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی ہوئی دیگر کتب کا مختصر تعارف اور ناقدانہ تبصرہ بھی ہے۔ علاوہ ازیں بعض مستشرقین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا تذکرہ ہے۔
Bennett اور Browne کی کتاب Thus spoke the Holy Prophet (یوں ارشاد فرمایا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے) بطورِ مثال پیش کی جا سکتی ہے جس کا عنوان صراحتہً بتا رہاہے کہ گفتہ ہاے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کا موضوع ہیں ۔ بایں ہمہ اس کے دیباچہ کا پہلا جملہ ہی یہ ہے :
"This volume comprises gleanings from the Holy Qur'an and the Traditions of the Holy Prophet of Islam".
''اس جلد میں قرآن پاک اور احادیث ِنبویؐ کا انتخاب شامل ہے''۔ ص 18
فرماتے ہیں :
اس واضح عنوان کے باوجود 158 صفحات کی اس کتاب کا اکثر و بیشتر حصہ قرآنِ مجید کی منتخب آیات کے انگریزی ترجمے پر مشتمل ہے۔ ص 19
بالکل یہی صورت حال سٹینلے لین پول(Stanley Lane Poole) کی مرتب کردہ کتاب کی ہے جسے "The Table-talk of Prophet Muhammad" کا عنوان دیا گیا ہے۔ 'انٹروڈکشن' کے اختتام پر جس حصے کا آغاز ہوتا ہے اسے "The Speeches at Makkah" کا ذیلی عنوان دیا گیا ہے۔(سٹینلے لین پول) ص 20
اسکے بعد آنے والے حصے کا ذیلی عنوان "The Speeches at Madina" ہے۔ص 21 ان گمراہ کن عنوانات کے تحت ذیلی عنوانات کے ضمن میں جو کچھ لکھا گیا ہے، وہ سب قرآنِ کریم کی مختلف سورتوں سے منتخب آیات کا انگریزی ترجمہ ہے۔
آخری حصے کا ذیلی عنوان The Table-talk of Prophet Muhammad ہے۔ ص 22 اس حصّے کا مواد احادیث و سیرت سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے، اگرچہ اس حصے میں پچھلے اجزا کے برعکس حوالے نہیں دیے گئے۔ واضح رہے کہ یہ دونوں مصنّفین اسلام کے خلاف تعصب اور بغض و عناد کے لیے معروف نہیں ہیں ۔بلکہ لین پول کا شمار بجا طور پر اسلامی تاریخ وثقافت سے ہمدردی رکھنے والے مصنّفین میں ہوتا ہے اور سلطان صلاح الدین ایوبی پر ان کی کتاب ایک معرکہ آرا چیز ہے۔ جہاں یہ اُلجھن اِرادی نہیں ، وہاں اس کا باعث قرآن کے بارے میں اہل مغرب کا وہ ناقص تصور ہے جو مسیحی برادری کے نزدیک بائبل(Bible)، بالخصوص عہد نامہ جدید (New Testament) کی اناجیل اربعہ(Gospels) کی اِلہامی حیثیت سے پیدا ہوتا ہے۔ ص 23
اس طرح مسلم فاضل مصنّفین کاحال ہے۔ جناب شمس بریلوی کی فاضلانہ تصنیف 'سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت' پیش نظر ہے جومئی ۱۹۸۵ء میں مدینہ پبلشنگ کمپنی کی طرف سے شائع کی گئی۔ یہ کتاب متعدد ظاہری و معنوی خوبیوں سے مزین ہے اور اس موضوع پر صاحب ِکتاب کے وقیع و دقیق مطالعہ پر دلالت کرتی ہے۔بایں ہمہ کتاب کے پہلے پونے دو سو صفحات عرب قبائل کی لسانی خصوصیات کے پس منظر میں اعجازِ قرآن کی خاصی طویل بحث پر مشتمل ہیں حالانکہ کتاب کا عنوان 'سرورِکونین کی فصاحت'ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اصل کتاب صفحہ۲۰۳ پر 'حدیث شریف کا اُسلوبِ بیان اور اس کی فصاحت و بلاغت' کے عنوان سے شروع ہوتی ہے۔ ص 24  ڈاکٹر صاحب نے سیرت ِنبوی پر آٹھ عربی کتب کے نام مع مؤلفین لکھے ہیں جو خطباتِ نبوی کے موضوع پر ہیں ۔ ص 25
'خطباتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم' کے موضوع پر معاصرانہ تالیفات میں مولاناایم، جی محمد عبیدالاکبر کی تالیف The Orations of Muhammad اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے کہ اس کا مسودہ 1944ء میں کلکتہ یونیورسٹی کی ایم اے کی ڈگری کے لیے تحقیقی مقالے کے طور پر پروفیسر ڈاکٹر ایم زیڈ صدیقی کی نگرانی میں تیار کیا گیا تھا جو اس یونیورسٹی میں عربی، فارسی، اردو کے شعبے کے صدر تھے۔ کتاب کے انگریزی مقدمے میں جو ۱۹ صفحات پر مشتمل ہے، خطبات کی نوعیت پر مؤثر و مفید بحث کی گئی ہے۔ ڈاکٹر زمان صاحب ہر مناسب موقع پر تربیت واصلاح کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، یہاں بھی ان کا خوبصورت ناصحانہ انداز ملاحظہ فرمائیے:
لیکن افسوس یہ ہے کہ اس تحقیقی کام میں بھی منتخب متون کے مصادر کا حوالہ بالالتزام نہیں دیا گیا۔ ص 26
1343ھ؍1944ء میں مولوی محمد عبداﷲ خان صاحب،سابق پروفیسر مہندر کالج پٹیالہ نے 'خطباتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم' کے عنوان سے اپنی تالیف دائرة المعارف لاہور سے شائع کی۔ ابتدائی 30 صفحات میں تبلیغ اسلام کے آغاز تک سیرت پاک کا مختصر خاکہ پیش کیا گیا ہے۔اس کے بعد کل 34خطبات عربی متن اور اُردو ترجمے کے ساتھ دیے گئے ہیں ۔ کہیں کہیں ترجمے کے ساتھ توضیحی اشارات بھی دے دیے گئے ہیں مگر اس تالیف کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ایک خطبے کے اختتام اور دوسرے خطبے کے آغاز کے درمیان واقعاتی ربط بھی قائم کر دیا گیا ہے مثلاً دوسرے خطبے کے اختتام(صفحہ 32) اور تیسرے خطبے کے آغاز(صفحہ 41) کے درمیان 8 صفحات پر ان دو خطبوں کے درمیانی عرصے میں رونما ہونے والے واقعات کا خلاصہ ہے۔ ص 27
سیدنصیر الاجتہادی کی ایک کتاب نھج الفصاحة کے نام سے مطبوع ہے جو 493 صفحات پر مشتمل ہے جس میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکاتیب، مکالمات، مناظرے، فیصلے، اقوال اور دعائیں بھی شامل ہیں ۔ تمام ارشادات کے عربی متن کے ساتھ شگفتہ اُردو ترجمہ دیا گیا ہے۔ ص 28
اسی طرح پروفیسر امتیاز احمد سعید مرحوم کی تالیف 'خطباتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم'1981ء میں مطبوعاتِ حرمت راولپنڈی کے زیر اہتمام شائع ہوئی جس میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے 62 اقتباسات کا صرف اُردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ ہر اقتباس سے پہلے چند سطروں میں اس خطبے کا موقع و محل بیان کر دیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں 21 مصادر کی ایک فہرست شامل ہے اور ہر اقتباس کے بعد ماخذ کا حوالہ بھی دے دیا گیا ہے۔ ص 29
ڈاکٹر محمد میاں صدیقی کی کتاب میں جو خطباتِ نبویؐ جمع کیے ہیں ، انہیں حدیث و سیرت کی مختلف کتابوں سے اَخذ کیا گیا ہے۔ خطبے کا متن نقل کرنے کے بعد اس کا ترجمہ دیا ہے، اس کے بعد تشریح۔ صرف خطبے کے اہم حصوں ہی کی نہیں دی گئی بلکہ اس بات کی بھی وضاحت ہے کہ اس خطبے کا پس منظر کیا تھا۔ آخر میں مآخذ ِ و مصادر کی نشاندہی بھی کر دی ہے۔
خطبات کے متون و ترجمے سے پہلے 34 صفحات پر مشتمل سیرتِ طاہرہ کا ایک مختصر جائزہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اختصار میں سوانحی تشنگی کا باقی رہ جانا ایک بدیہی امر ہے۔بالخصوص ہجرت کے بعد مدینہ میں پیش آنے والے واقعات کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر اس تعارفی حصے کا اصل مقصد یہ ہے کہ قاری کے ذہن کو فرموداتِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی روح تک پہنچنے اور ان کی حکمت اور قدر و قیمت کے صحیح ادراک کے لیے تیار کیا جائے۔ گویا صیغہ اعلام کی معاصرانہ زبان میں یہ ایک طرح کا curtain-raiserہے، جو خطباتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اس مفہوم میں اپنا مقصد خاطر خواہ کامیابی سے پورا کرتا ہے۔ اس کا ترجمہ صحت اور شگفتگی سے کیا گیا ہے اور اس میں عالمانہ تشریحات بھی ہیں ۔ ص 30
ایک اور قابل ذکر کتاب ابو القاسم پایندہ کی تالیف نہج الفصاحة ہے۔ آغاز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسل مکی فصاحت و بلاغت پر 150 سے زائد صفحات کا خاصا مبسوط مقدمہ ہے،جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عربی متن اور فارسی ترجمے کے ساتھ دیے گئے ہیں ۔پہلا حصّہ 'مجموعہ کلماتِ قصار'(مختصر ارشادات کا مجموعہ) ہے۔ مکمل کتاب 648 صفحات پر مشتمل ہے۔ ص 31
شیخ موسیٰ بن عبداﷲ زنجانی(1341ھ) کی تالیف مدینة البلاغة کے عنوان کے تحت شائع ہوئی جو کہ 563 صفحات پر مشتمل ہے۔ مؤلف شیعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ، تاہم معروف شیعی مصادر کے علاوہ سنّی مآخذ سے بھی استفادہ کیا ہے۔ قسم اوّل میں 36 خطباتِ نبوی بترتیب سنواتِ نبوت جمع کیے گئے ہیں۔ ص 32
ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں :
''یہاں ایک اور مجموعہ خطبات کا ذکر بھی ضروری ہے، کیونکہ کئی ذی علم اصحاب اسے انتہائی جامع مجموعہ قرار دیتے ہیں ۔ وہ مولانا محمد محدث جونا گڑھی(1890ء-1941ء) کی تالیف'خطباتِ محمدی' ہے۔ پیش نظر نسخہ مکتبہ قدوسیہ لاہور کی طرف سے جون 1992ء میں شائع ہوا۔ سر ورق کی تحریر کے مطابق خطباتِ نبویؐ کا یہ'مستند ترین مجموعہ' پانچ حصوں پر مشتمل ہے اور 'اردو زبان میں اپنی نوعیت کی واحد کتاب' ہے،جس میں کائنات کے خطیب ِاعظم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے تقریباً ایک ہزار خطبات کی بہترین ترجمانی و تشریح کی گئی ہے۔''ص 33
جلد اوّل میں رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کے 183 خطبات 65 صحابہ کرام ؓ کی روایات اور حدیث کی ۵۰ مستند کتابوں سے لیے گئے ہیں ، جلد دوم میں 265 خطبات 80 صحابہ کرام ؓ کی روایات اور حدیث و تفسیر کی پچاس مستند کتابوں سے لیے گئے ہیں ، جلد سوم میں دو سو بیس خطبات 75صحابہ کرام ؓ کی روایات اور حدیث و تفسیر کی چالیس مستند کتابوں سے لیے گئے ہیں ۔ جلد چہارم میں ایک سو نواسی خطبات 72 صحابہ کرام ؓ کی روایات اور حدیث و تفسیر کی 60 مستند کتابوں سے لیے گئے ہیں جبکہ جلد پنجم میں ایک سو چالیس خطبات، 60 صحابہ کرام ؓ کی روایات اور حدیث و تفسیر کی 35 مستند کتابوں سے نقل کر کے عربی متن اور سلیس اردو ترجمہ کے ساتھ دو کالمی شکل میں پیش کیے گئے ہیں ۔ اصل کتاب'خطباتِ محمدی'مؤلف مولانا محمدجوناگڑھی پر تبصرہ ص 135 تا 139 تک کیا۔ ص 34
خطبات کا ایک مختصر مجموعہ نقوش کے رسول نمبر کی جلد ہشتم میں 100صفحات پر مشتمل ہے جس کو ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی نے مرتب کیا ہے۔ یہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کل 69 خطبات ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں :
''خطباتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کایہ مجموعہ اس قبیل کی مؤلفات میں اختصار کے باوجود قابل ذکر مقام کا حامل ہے۔'' ص 35
ایک اہم کام مولانا محمد ادریس کی'خطبات النبی صلی اللہ علیہ وسلم'(قرآن محل،کراچی)اور احمد زکی صفوت کی جمھرة خطب العرب جز اوّل،عصر جاہلی اور صدرِ اسلام پر مشتمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ۱۴خطبات ہیں ۔ ہر خطبہ کے آخر میں مصادر ہیں ۔ ص 36
'سیرت نگاری ؛ قرآنِ کریم کی روشنی میں 'کے عنوان کے تحت ایک مقالہ پر بریگیڈئر گلزار احمد مرحوم کی تصنیف 'ثناے خواجہ صلی اللہ علیہ وسلم'کا ذکر ہے۔ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآنِ مجید کی عملی تفسیر تھی۔ حضرت عائشہؓ کا ارشاد: فإن خلق نبي اﷲ ﷺ کان القرآن(رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق عین قرآن تھا) اس موضوع پر اعجاز وبلاغت کا شاہ کار قراردیا ہے۔ ص 37
ڈاکٹر صاحب قرآنِ مجید کی رو سے سیر تِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرتب کرنا دشوار قرار دیتے ہیں ۔ص 38اس لحاظ سے بعض دیگر کئی کتب کا ذکرفرمایا: سید محمد رضوان اللہ اور انتظام اللہ شہابی کی سیرت الرسول ﷺ من القرآن کا بھی ذکرکیا۔ یہ نسخہ دائرة المعارف القرآنیہ ،کراچی 1963ء ، میں شائع ہوا جس کے 454 صفحات ہیں ۔مؤلفین کے مطابق اس انداز سے کسی نے سیرت نہیں لکھی۔ ص 39 لیکن اس دعویٰ کے باوجود اس کتا ب کی ترتیب میں بھی تاریخ اور سیرت کے مآخذ سے ہی استفادہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ حسب ِموقع قرآنی آیات سے استشہاد کیا گیا ہے۔ ص 40
غلام احمدپرویز(1903ء-11985ء)کی کتاب' معراجِ انسانیت'یعنی قرآنِ کریم کی روشنی میں مرتب کردہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ(ادارہ طلوع اسلام،لاہور1968ء ،طبع دوم) ۴۶۱صفحات پر مشتمل ہے۔ ص 41 ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں :
کتاب کی تدوین میں احادیث وسیرت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ واقعہ اِفک سے مضحکہ خیز نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں واقعہ بیان کیا گیا ہے اور وہاں حضرت عائشہؓ کا نام مذکور نہیں ،لہٰذا اس واقعہ کو ان سے منسوب کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ٍ ص 42
پرویز صاحب معروف منکر ِحدیث ہیں ، اس لیے ڈاکٹر صاحب نے اس کے بارے میں اشارہ کردیا۔
سید ابوالخیر کشفی کی کتاب 'حیات محمدیؐ؛ قرآنِ حکیم کے آئینے میں 'دادا بھائی فاؤنڈیشن کراچی،1990ء سے شائع ہوئی جو 319 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں بھی آیات کے ساتھ احادیث اور کتب سیرت سے استفادہ کیا گیا ہے۔ َ ص 43
عبدالعزیز عرفی کی کتاب 'جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم'سیرتِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی روشنی میں بہ ترتیب ِنزولی ہے۔ ص 44
بعض دیگرکتب میں محمدعزہ دروزہ کی کتاب 'سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم' ہے۔ اس میں سیرت کی بعض تصاویر کے خدوخال قرآن کی روشنی میں واضح کیے گئے ہیں ۔اُنہوں نے بھی آیات کے ساتھ تاریخ وسیرت سے استفادہ کیا ہے۔ ص 45
حسن کامل ملطاوی کی کتاب رسول اﷲ ﷺ في القرآن الکریم دائرة المعارف سے دوسری مرتبہ 1979ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب بھی مکمل سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے ۔بلکہ بعض موضوعات اور مسائل پر قرآن کی روشنی میں تبصرہ ہے۔ ص 46
محمدشریف قاضی کی تالیف 'اُسوئہ حسنہ؛قرآن کی روشنی میں 'مکتبہ تعمیرانسانیت،لاہورکی طرف سے۱۴۰۱ھ میں شائع ہوئی۔ ص 47
مولانا عبدالماجد دریابادی رحمة اللہ علیہ کی 'سیرتِ رسول؛ قرآن کی روشنی میں ' اس موضوع پر پڑھی گئی ہے جو اس عنوان پرکمالِ حسن ولطافت کے ساتھ پوری اُترتی ہے۔ ص 48
ڈاکٹر غلام مصطفی خان کی کتاب 'ہمہ قرآن در شانِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم' کا عنوان دراصل مولانا عبدالرحمن جامی کے ارشاد 'ہمہ قرآن در شانِ محمد' سے ماخوذ ہے۔ ص 49  ساری کتاب میں قرآن کا خلاصہ ہے۔ سیرت سے اس کا تعلق کم ہی ہے۔ص 50
ڈاکٹر صاحب آخر میں فرماتے ہیں :
اس مختصر جائزہ کا یک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ ان مشکلات کا اندازہ ہوجائے جو قرآنِ کریم کی روشنی میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قلم اٹھانے والے کو درپیش ہوتی ہیں اور صرف قرآنِ کریم کے متن سے سیرت کی مکمل کتاب کی تالیف کہاں تک ممکن ہے۔ اس بحث کے پیش منظر میں محترم بریگیڈئیر گلزار احمد کا کاوش بعنوان 'ثنائے خواجہ' کا بہتر اور زیادہ قرین انصاف محاکمہ ممکن ہوگا۔'' ص 51
بریگیڈیر صاحب کی کتاب 'غزواتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم' پر بھی تبصرہ ہے۔ص 52 ڈاکٹرصاحب فرماتے ہیں :
جنگی حکمت کے تناظرمیں اُنہوں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قائدانہ کارناموں پر جس منفرد انداز میں نئی روشنی ڈالی ہے، وہ انہیں کا حصہ ہے۔ ص 53
عزیز ملک کی کتاب 'تذکارِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم' کی تعارفی تقریب میں یہ ایک مختصر، لیکن جامع مقالہ پڑھا گیا۔مصنف عزیزملک نے 'تذکارِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم'میں قرآن کی آیت کی روشنی میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے کو ایک نیا موضوع قرار دیا ہے۔ص 54 ڈاکٹر صاحب نے لکھا:
''مؤلف کی مرادیہ تھی کہ قرآنی آیات کی روشنی میں سیرتِ طاہرہ کی تدوین ایک نئی کوشش ہوگی تو یہ خیال درست نہیں تھا۔''ص 55
اس موضوع پر بہت سی کتب لکھی گئی۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ
''نہ ہی یہ راستہ کوئی آسان اور سہل تھا۔''ص 56
مثلاً 'ولادت باسعادت' کے عنوان سے آیت {قَدْ جَآءَكُم مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌ‌ وَكِتَـٰبٌ مُّبِينٌ ﴿١٥﴾...سورۃ المائدہ}کا عنوان ہے مگرسارا مواد انہیں معروف روایات سے ماخوذ ہے جن پرسیرت کا ہر مؤلف تکیہ کرتا ہے۔ص 57
تذکارِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تبصرہ لکھنے سے پہلے کہا ہے کہ
''اس جائزے میں مخلصانہ تنقیدی ملاحظات بھی ملیں گے اور تعریف کے سچے کلمات بھی۔مصنف کی خدمت میں خصوصی اور قارئین کی خدمت میں عمومی درخواست ہے کہ تنقید کو تنقیص پر اور تعریف کو تقریظ پر محمول نہ فرمائیں ۔ ان گزارشات میں زبان وبیان کا، فہم وشعور کا قصور ہوسکتاہے،نیت کا فتور بفضلہ سبحانہ ہرگز نہیں ۔''ّ58
ان جملوں میں اخلاص جھلکتا نظر آتا ہے ۔ جائزہ میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں :
یوں لگتا ہے کہیں کہیں فاضل مصنف کو عربی متون کے صحیح فہم میں تسامح ہوا ہے۔ کتاب کھولتے ہی جو چیز ایک محتاط قاری کو فی الفور کھٹکے گی، وہ قرآنِ مجید کی اس آیت کریمہ (45:29) کا اُردو ترجمہ ہے جو سرورق کی زینت ہے۔ {هَـٰذَا كِتَـٰبُنَا يَنطِقُ عَلَيْكُم بِٱلْحَقِّ...﴿٢٩﴾...سورۃ الجاثیہ}کا ترجمہ ''اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم! ہماری یہ کتاب آپ کے بارے میں حق کے ساتھ بولتی ہے۔'' ہرگز درست نہیں ہے۔ اوّل تو علیکم کا ترجمہ اس متن کے اندر''آپ کے بارے میں ''درست نہیں بلکہ ''تمہارے مقابلہ'' میں صحیح ہے۔ ایسا مقصود ہوتا تو عربی زبان کے محاورہ کا تقاضا تھا کہ علیکم کی بجائے فیکم استعمال ہوتا۔مگر ستم یہ ہے کہ قرآنی سیاق وسباق میں اس آیت کے مخاطب جناب رسول امین علیہ الصلوٰة والتسلیم ہیں ہی نہیں بلکہ وہ گنہگار ہیں جنہیں یومِ حساب میں ان کے نامۂ اعمال کی طرف بلایا جارہا ہے۔ سورة الجاثیہ کی آیت نمبر 28،29 کا ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے:
''اور (اس روز) آپ ہر فرقہ کو دیکھیں گے کہ (مارے خوف کے) زانو کے بل گرپڑیں گے۔ ہر فرقہ اپنے (نامۂ اعمال) کے حساب کی طرف بلایا جائے گا۔ آج تم کو تمہارے کیے کا بدلہ ملے گا۔کہا جائے گا کہ یہ (نامۂ اعمال) ہمارا دفتر ہے جو تمہارے مقابلہ میں ٹھیک ٹھیک بول رہا ہے۔ اور ہم دنیا میں تمہارے اعمال کو لکھواتے جاتے تھے۔''ص 59
عربی الفاظ کلمات کی اور غلطیوں کی بھی نشان دہی فرمائی۔ قرآنِ مجید کے غلط کی اصلاح فرمائی ہے۔ْص 60 بعض خامیوں کی خوبصورت انداز میں نشاندہی کرکے لکھتے ہیں :
''اس گفتگو کا حسن ختام کتاب کے محاسن پر ایک طائرانہ نظرسے ہو، یہی انصاف اور معروضیت کا تقاضا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ فاضل مصنف نے 240 صفحات کی مختصر کتاب میں سیرت طاہرہ کے بارے میں چھوٹی چھوٹی فصلیں باندھ کر کلیدی معلومات جس حسن کے ساتھ جمع کردی ہیں ، وہ انہیں کا حصہ ہے۔ ''،ص 61
کتاب کا آخری حصہ 'اُردو سیرت پر چند حالیہ تصنیفات' کے عنوان سے ہے۔ اس میں تین ذیلی عنوانات'نقوش، رسول نمبر'،'الامین' اور 'ازواجِ مطہرات اور مستشرقین' پر تبصرہ اور تنقیدی جائزہ شامل ہے۔ یہ تینوں کتب سیرت لٹریچر میں ایک خاص درجہ اور مقام کی حامل ہیں ۔ نقوش 'رسول نمبر' کو محمد طفیل نے مرتب کیا ہے۔ فاضل مصنف اس حوالہ سے لکھتے ہیں
قرین انصاف ہو گا، اگر تنقیدی جائزے کی ابتداء مدوّن(ایڈیٹر) کے اس باہمت کارنامے کے محاسن سے کی جائے۔ معلومات کی وسعت وجامعیت اور عنوانات کے تنوع (Diversity) کے ساتھ انتخاب کی خوبی داد کی مستحق ہے۔اکثر مقالات مستند ہیں اورمشاہیر کے قلم سے ہیں ۔''ص 62
مصنف نے اس حصہ میں 'نقوش' پر بے لاگ تبصرہ کیا ہے۔ جہاں اس کے محاسن کے معترف ہیں ، وہاں اس میں پائی اور محسوس کی جانے والی بعض خامیوں اور مباحث کی عدم شمولیت کی نشان دہی کی ہے۔ مثلاً ڈاکٹرمحمد حمید اﷲرحمة اللہ علیہ کی مشہور کتاب 'محمد رسول اﷲ' کے متعلق لکھتے ہیں :
''مترجم نذیر حق صاحب ہیں مگر افسوس ہے کہ ترجمے میں اصل پر کسی مفید اضافے کی بجائے Fore word حرفِ تقدیم اور انڈکس خارج کر دیئے گئے ہیں جس سے ترجمے کی افادیت خاصی کم ہو گئی ہے۔ص 63
مزید لکھتے ہیں کہ رسول نمبر دوسری جلد میں سید سلمان ندویرحمة اللہ علیہ کی 'سیرة النبی' کی جلد ہفتم شامل ہے، مگر اس کتاب کے پہلے 66 صفحات موجود نہیں ہیں ۔ص 64
اسی طرح اس حصہ میں چند ادارتی خامیوں کی نشان دہی کی ہے۔ لکھتے ہیں :
ادارتی لحاظ سے میرے نزدیک اس سلسلہ کی اہم خامی یہ ہے کہ مختلف جلدوں میں شامل مقالات کے بارے کہیں یہ وضاحت موجود نہیں کہ وہ اوّلاً کب اور کہاں طبع ہوئے؟ مصادر میں حوالہ جات بھی موجود نہیں ۔ص 65
ایک اہم بات جس کی نشاندہی ضروری ہے اور مصنف نے بھی اس کا اظہار بھر پور انداز میں کیا ہے کہ
''پورے سلسلہ میں کہیں یہ ذکر یا اعتراف موجود نہیں کہ مطبوعہ مضامین مصنّفین یا ناشرین کی اجازت سے دوبارہ چھاپے گئے ہیں اور نہ یہ صراحت ہے کہ وہ خاص طور پر نقوش کے لیے لکھے گئے ہیں ۔ص 66 یہاں پر مصنف نے چند مضامین کی فہرست بھی شامل کی ہے جو اُردو مجلہ 'فکر و نظر' سے نقل کیے گئے ہیں ۔''ص 67
محترم ڈاکٹر صاحب نے ایک تجویز بھی شامل تصنیف کی ہے کہ ان دس جلدوں کا ایک مکمل اشاریہ مستقل جلد کی صورت میں شائع کر دیا جائے جس میں اسمائ، اَماکن، آیاتِ قرآنی، احادیث، الٰہیات وغیرہ کی فہارس شامل کر دی جائیں ۔ص 68
جب مقالہ لکھا گیا تو اس وقت دس جلدیں شائع ہوچکی تھی یعنی بعد ازاں کے افسانے کا بھی مؤلف نے اس کتاب میں ذکر کردیا ہے۔ اس عنوان کے آخر میں مصنف صاحب نے 'نقوش 'کے رسول نمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ جلدوں پر الگ الگ تبصرہ بھی کیا ہے، اس طرح یہ عنوان ۱۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ص 69
دوسرا جز جو محمد رفیق کی کتاب الأمین پر تبصرہ ہے۔ فاضل مصنف لکھتے ہیں :
تین جلدوں اور 1820 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے مندرجات اور فہرست کا احاطہ کرنا مقصود نہیں ۔ مطمع نظر یہ ہے کہ سیرت پر لکھی لا تعداد کتابوں ، بالخصوص اُردو ادب کے حوالے سے اس نئے اور گراں قدر اضافہ کے مقام کا تعین کیا جائے اور دیکھا جائے کہ اس کا تعلق سیرت نگاری کی کس قبیل سے ہے۔ اور اس لحاظ سے اس کی افادیت کیا ہے ۔ص 70
13 صفحات کے اس مضمون؍مقالہ میں ڈاکٹر صاحب نے جہاں اس کتاب کے محاسن اور عصری خوبیوں کا ذکر کیا ہے، وہاں اس میں موجود خامیوں اور اغلاط کی نشاندہی بھی فرمائی ہے۔ص 71 آخر میں لکھتے ہیں کہ
''اگر مصنف ان تینوں اجزا کا جامع خلاصہ ایک جلد میں پیش کرنے پر سنجیدگی سے غور فرمائیں تو یہ نہایت مفید کاوش ہرگھر میں پہنچ سکے گی۔ اور اس ایڈیشن میں اغلاط کی تصحیح بھی کی جا سکتی ہے۔ص 72
اس عنوان کا تیسرا جز'ازواجِ مطہرات اور مستشرقین' جو ظفر علی قریشی کے ایک انگریزی مقالہ کا اُردو ترجمہ ہے۔اس سلسلہ میں فاضل مصنف رقمطراز ہیں کہ
ایک قابل غور سوال یہ ہے کہ یہودی اور مسیحی تاریخ میں تعددِ ازواج کے اثبات کا اس موضوع یعنی 'ازواج مطہرات اور مستشرقین' سے کیا براہِ راست تعلق ہے؟ص 73
کتاب کے محاسن کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ
''کتاب کے آخر میں 133 حواشی و حوالہ جات ہیں جن میں تاریخ کے طالب علم کے لیے نہایت مفید قدیم و جدید مآخذ کی طرف راہ نمائی ملتی ہے۔ کتاب کا ترجمہ بالعموم با محاورہ اور موزوں ہے۔''۔ص 74 اس سلسلہ میں اُنہوں نے ایک مفید مشورہ بھی لکھا ہے کہ محتاط نظر ثانی سے ترجمہ کو مزید بہتربنانے کی گنجائش موجود ہے۔ص 75
نقوشِ سیرت کے آخر میں اشاریہ میں اسماء الرجال، اسماء اماکن اور اسماء کتب درج ہیں ۔ اس طرح یہ کتاب اپنی افادیت اور اہمیت کے اعتبار سے ایک عمدہ کاوش ہے اور مصنف جناب ڈاکٹر صاحب اس سیرتی ادب میں اس مختصر مگر ٹھوس علمی کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں ۔



( بحوالہ ، مجلس التحقیق الاسلامی، پاکستان کے زیر اھتما م ، محدث میگزین،  تاریخ اشاعت فروری 2009ء)

کتابوں کے میلے میں

کتابوں کے میلے میں 



کتابوں کے میلوں یعنی بک فیسٹیویلز کا رواج ہمارے علاقوں کی حد تک کوئی زیادہ پرانا نہیں لیکن کتاب کے حوالے سے یہ واحد چیز ہے جس میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے کہ عمومی سطح پر یہ تصور عام ہے کہ لائبریریاں ہوں یا کتاب خریدنے اور پڑھنے کی عادت۔ ہر طرف ایک زوال اور انتشار کا سا منظر ہے بالخصوص گزشتہ دو دہائیوں میں جب سے ساری دنیا سمٹ کر موبائل فون کی ایک کلک پر آن ٹھہری ہے۔
کتاب کی وہ صورت جس سے ہم اور ہماری کئی گزشتہ نسلیں مانوس تھیں اور جس کا آغاز پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے ساتھ اور اس کے باعث ہوا تھا آیندہ چند برسوں میں شاید ایک ماضی کی یاد گار بن کر رہ جائے کہ اب کتاب کا متن ہو یا اس کی جلد‘ سرورق اور اندرونی صفحات یا اس کو رکھنے کے لیے میز‘ دراز اور لائبریری کی الماریوں کے شیلف‘ مستقبل کے پڑھنے والوں کو ان سب چیزوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی کہ مطلوبہ کتاب اور اس سے منسلک ہر طرح کی معلومات نہ صرف ہمہ وقت آپ کی دسترس میں رہتی ہیں بلکہ آپ اس کا جو حصہ ’باب‘ صفحہ یا ریفرنس ڈھونڈنا چاہیں اس کے لیے بھی صرف آپ کی انگلی کی حرکت ہی کافی ہے اور اگر آپ اپنی آنکھوں کو تھکائے بغیر اس سے استفادہ کرنا چاہیں تو بہت عمدہ طرز ادا کے حامل خدمت گار بھی اسی ایک پل میں مہیا کیے جا سکتے ہیں اور یہ سب ابھی ابتدا ہے، آگے چل کر کتاب‘ قاری اور مطالعے کی یہ تکون کیا شکل اختیار کر سکتی ہے اس کا شاید اس وقت ہم ٹھیک سے اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔

اس تبدیلی کا بظاہر سب سے زیادہ اثر سوشل سائنسز یعنی عمرانیات اور شعر و ادب سے متعلق کتابوں کی اشاعت اور تعداد فروخت پر پڑا ہے (جس کی ایک وجہ کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی بتائی جاتی ہیں جو اس لیے بہت کمزور ہے کہ قیمتیں ایمان اور انسانیت کے علاوہ ہر چیز کی بڑھ رہی ہیں) کتابوں کی دکانیں تیزی سے کم ہو رہی ہیں یا یہ گفٹ شاپس کا حصہ بنتی جا رہی ہیں کہ اب صرف کتابوں کی فروخت سے متعلقہ دکانداروں کا گزارہ نہیں ہوتا کسی حد تک یہ عمل ترقی یافتہ ممالک اور وہاں کی بک انڈسٹری اور بک شاپس پر بھی ہوا ہے کہ وہاں بھی کئی اشاعتی ادارے بند اور کتابوں کی دکانوں کی مشہورChains اور سلسلے کاروباری مندے کے شکار ہیں لیکن غور سے دیکھا جائے تو ان سب معاملات کا تعلق کتاب کی روایتی ہیئت اور مطالعے کے ایک مخصوص انداز اور طریق کار کی تبدیلی سے ہی جا کر ملتا ہے یعنی بدلی ہوئی شکلوں سے قطع نظر اب بھی کتابیں تقریباً پہلے ہی کی طرح لکھی‘ پڑھی‘ بیچی اور خریدی جا رہی ہیں۔


ایک محتاط اندازے کے مطابق سائنس ٹیکنالوجی علوم اور تدریس سے متعلق کتب اب بھی بہت حد تک اپنی پرانی شکل کو قائم رکھے ہوئے ہیں کہ ان کا براہ راست تعلق مستقبل کے ان معاشی فوائد سے ہے جن کی تحصیل کے لیے ان سے رابطہ ضروری ہے جب کہ تاریخ‘ سوشل سائنسز یا شعر و ادب سے متعلق کتابوں کا تعلق چونکہ ذوق اور شخصیت کی اندرونی تربیت سے ہونے کی وجہ سے نسبتاً اور بظاہر کم منافع بخش ہے اس لیے یہ ترجیحات میں نیچے کے نمبروں پر چلی گئی ہیں، البتہ ہمارے ملک میں روحانیات اور مذہبی عقائد اور مسالک سے متعلق کتابوں پر اس تبدیلی کا اثر غالباً اس لیے کم پڑا ہے کہ ان کے ساتھ ’’آخرت کے فوائد‘‘ اپنے اپنے انداز میں جڑے ہوئے ہیں۔

6سے 9 اپریل تک اسلام آباد میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے زیراہتمام منعقد کیے جانے والے نویں کتاب میلے میں اور بہت سی باتوں کے ساتھ اس صورت حال پر بھی رسمی اور غیررسمی دونوں حوالوں سے بہت گفتگو رہی، چاروں طرف کتابوں کے اسٹالز‘ ان کی خریدوفروخت‘ موضوعات کی ورائٹی اور بہت بڑے ہجوم اور شائقین کتب کی دلچسپی کو دیکھ کر سچی بات ہے نہ صرف بہت خوشی ہوئی بلکہ یہ احساس بھی مزید گہرا ہوا کہ اور بہت سے معاملات کی طرح یہاں بھی ہم سب نے مل کر بہت جلد اور بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اگر واقعی روایتی کتاب کا زمانہ لد گیا ہے تو اس بڑے میلے سمیت ملک بھر میں یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں کے زیراہتمام لگائے جانے والے یہ بے شمار میلے کس طرح سے نہ صرف قائم ہیں بلکہ ایک روایت اور تحریک کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں اور ٹیکنالوجی کی ہم سے کئی گنا زیادہ ترقی کے باوجود دنیا بھر میں ان کو کیوں اور کیسے فروغ مل رہا ہے۔

جہانگیر بکس کے عزیزی نواز اور سنگ میل پبلی کیشنز کے برادرم افضال احمد جب بھی کسی عالمی کتاب میلے میں شرکت کے بعد آتے ہیں، یہی بتاتے ہیں کہ وہاں کتاب کی صنعت‘ ضرورت اور اہمیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ کہ کتاب کا سب سے پہلا اور بنیادی تعلق شرح خواندگی اور اس کے بعد نظام تعلیم اور انسان کے معاشرتی حقوق سے ہے، جہاں جہاں ان کی صورت حال بہتر ہو گی وہاں کتاب اور مطالعے کی عادت کو فروغ ہو گا کہ کولڈ پرنٹ میں اور کاغذ پر چھپی ہوئی کتاب کی جگہ اگر کسی حد تک کمپیوٹر اور جدید ٹیکنالوجی لے بھی لے تب بھی اس کی موجودہ حیثیت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کہ اصل مسئلہ قاری کی دلچسپی‘ ذوق و شوق اور رابطہ ہے۔ یہ تینوں چیزیں اگر قائم اور برقرار رہیں گی تو ’’کل اور کسی روپ میں آ جائیں گے ہم لوگ‘‘ کے مصداق کتاب بھی زندہ اور موجود رہے گی۔

اس بہت عمدگی اور سلیقے سے ترتیب دیے گئے کتاب میلے میں کتاب سے متعلق متعدد نشستوں اور تقریبات میں شرکت کے ساتھ ساتھ کئی اشاعتی اداروں کے اسٹالز اور ان میں رکھی ہوئی طرح طرح کی خوب صورت اور خیال افروز کتابوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ بک کارنر جہلم کے برادران امر اور گگن شاہد سمیت بہت سے احباب نے اتنی کتابیں تحفے میں دیں کہ اٹھانا مشکل ہو گیا۔ برادرم عرفان صدیقی کی سرپرستی میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور ان کی ٹیم نے چار دن کے لیے اس میلے کو شہر کے سب سے توجہ طلب اور مثبت اثرات کے حامل واقعے کی شکل دے دی جس کے لیے یہ سب اور کتاب سے محبت اور تعلق رکھنے والے وہ سب لوگ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے کسی بھی طرح سے اس میں حصہ لیا کہ کتاب کلچر کا فروغ اور مطالعے کی عادت وہ سدا بہار پھول ہیں جو ہر موسم کو موسم بہار اور ہر آنکھ کو وہ ’’ذوق نظر‘‘ فراہم کرتے ہیں جو بات کے اندر کی بات کا ادراک کر سکتا ہے۔

کتاب میلے کی یہ ’’حکایت لذیذ‘‘ اتنی بڑھ گئی کہ پی ٹی سی ایل کے برادران سید مظہر حسین اور احمد جلال کی سجائی ہوئی محفلمشاعرہ اور فاطمہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین کی اس تقریب کا حال بیچ میں ہی رہ گیا جہاں مجھے نئی نسل سے پرانے لوگوں کیکچھ ہمیشہ نئی رہنے والی باتیں پھر سے شیئر کرنے کا موقع ملا ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم نے مکالمے‘ مذاکرے اور کتاب میلے کایہ سلسلہ تسلسل اور ذمے داری سے جاری رکھا تو انشاء اللہ کتاب بھی زندہ رہے گی اور اس سے کسب فیض کرنے والے قاریاور صاحبان ذوق بھی۔

( امجد اسلام امجد ، مشہور شاعر ،کالم نگار  روزنامہ ایکسپریس ، تاریخ اشاعت : 12اپریل 2018) 

بارش ، کافی اور کتاب

بارش ، کافی اور کتاب 


اس دن اسلام آباد کا آسمان بادلوں سے گھرا ہواتھا۔شام ڈھلتے ہی ہلکی پھوار کا آغاز ہوگیاتھا جو جلد ہی موسلادھاربارش میں بدل گئی۔ میںنے کمرے کی کھڑکی سے پردہ ہٹاکردیکھاتو درخت تیز ہوائوں سے دہرے ہوئے جارہے تھے میں بارش کی جلترنگ میں گم تھا کہ فون کی گھنٹی بجی، رئوف کلاسرا کا فون تھاکسی تمہیدی گفتگو کے بغیر وہ بولا ''میں ایک کافی ہائوس میں بیٹھاہوں آپ بھی آ جائیں کافی بھی پئیں گے گپ شپ بھی ہوگی‘‘۔ رئوف کلاسراسے میری ملاقات تقریباً تین برس پہلے سرِراہ ہوئی بغیر کسی پیشگی پروگرام کے لیکن جمیزریڈ فیلڈ اپنی کتابCelestine Prophecy میں لکھتا ہے کوئی بھی چیز یونہی، خود بخود، سرراہ نہیںہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں ہونے والے سارے واقعات پہلے سے طے شدہ ہیں۔ ہم بظاہریہ سمجھتے ہیں ہماری اتفاقیہ ملاقات اصل میں کائنات کے پہلے سے طے شدہ پروگرام کاحصہ ہوتی ہے۔ رئوف کلاسراسے پہلی ملاقات میںمجھے یوں لگاجیسے اسے مدتوںسے جانتا ہوں۔ ہم میں تین چیزیں مشترک تھیں، انگریزی ادب کی باقاعدہ تعلیم، شکیل عادل زادہ کا سب رنگ اورکتابوں سے عشق۔ کتابوں سے عشق بھی عجیب عشق ہے ہمیشہ جوان رہتا ہے۔ جس کو یہ چٹک اوائل عمری میں لگی پھر وہ آخری دم تک ساتھ رہتی ہے۔ فارسی کے عظیم شاعر حافظ شیرازی کے خواب کی تکمیل ''فراغتے وکتابے و گوشۂ چمنے‘‘ سے ممکن ہے یعنی فراغت کے کچھ پل، چمن کاایک گوشہ اور کتاب۔ اسی طرح عصر حاضرکے منفردشاعر افتخار عارف اپنی ''محبت کی ایک نظم‘‘ میں کتاب کواپنی زندگی کااہم جزو بتاتے ہیں۔
''مری زندگی میں بس اک کتاب ہے اک چراغ ہے
ایک خواب ہے اورتم ہو‘‘
ترقی یافتہ ممالک میں کتاب بینی کا کلچرسکول کے ابتدائی درجوں سے متعارف کرایاجاتاہے۔ مجھے یاد جب میں پی ایچ ڈی کے لیے یونیورسٹی آف ٹورنٹومیںزیرتعلیم تھا، میری بیٹی ہاجرہ نے اپنی ابتدائی تعلیم کاآغاز ٹورنٹوکے ایک سکول سے کیا ۔ اس کے سکول میںکتب بینی(Book Reading) پرخاص توجہ دی جاتی تھی۔ ہر طالب علم کے لیے ایک Reading Logرکھی جاتی اور اس میں ان کتابوں کا اندراج ہوتا جووالدین یااساتذہ بچے کو پڑھ کرسناتے یا بچے خود پڑھتے ۔سال کے آخر میں جب ہمیں سکول بلایاگیا اورہاجرہ کی کے جی2 کی ٹیچر مسز کورٹنی نے ہمیں ہاجرہ کیReading Logدی تومجھے مسرت بھری حیرت ہوئی اس کے مطابق ایک سال میں اس نے 110کتابوں کی کہانیاں سنی یا پڑھی تھیں۔ یہ ہے وہ مضبوط بنیاد جو بچوں کوتعلیمی سفر کے ابتداہی میں فراہم کردی جاتی ہے۔
ونڈسکرین پرتیز بارش کی بوچھاڑ مجھے واپس اسلام آباد کی سڑکوں پر لے آئی۔ سڑکوں اورجگہوں کے بارے میں میری معلومات قابلِ رشک نہیں لیکن بھلاہو گوگل میپ کا جس کی مددسے میں دیئے ہوئے ایڈریس پرکافی شاپ پہنچ گیا۔ بارش کی وجہ سے اوپن ایئر میں بیٹھنے کے امکانات ختم ہوچکے تھے۔ میں کافی شاپ میں داخل ہوا تو لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ایک کونے کی میزپررئوف کلاسرا بیٹھا تھا، جلدہی ہماری گفتگومیں کافی کی مہک شامل ہوگئی۔ ہم جب بھی ملتے ہیں ہماری گفتگوکامحورادب ہوتاہے۔ ایسے میںوہ Netflixپردیکھی ہوئی تازہ ترین فلموں یا Seasonکے بارے میں بھی میرے علم کو Updateکرتا ہے۔ہم ایک دوسرے کو آنے والی نئی کتابوں کی خبردیتے ہیں۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے وہ اخبار کے لیے باقاعدگی سے کالم بھی لکھتا ہے۔ٹی وی کے لیے شوبھی کرتا ہے، دوستوں سے ملتابھی ہے، خوشی غمی میں اپنے دورافتادہ گائوں جیسل کلاسرہ بھی جاتا ہے۔ Netflix پر تازہ ترین فلمیں بھی دیکھتا ہے پھراس کے پاس کتابیں پڑھنے کاوقت کہاں سے آجاتاہے۔مثلاً آج جب ہم Construction of Realityپرگفتگو کررہے تھے تواس نے ایک کمال فلم Vantage Pointکاحوالہ دیاجس میں ایک واقعہ سے منسلک مختلف کردار اپنے اپنے زاویہ نظرسے اس واقعے کوبیان کرتے ہیں اورہرایک کی Realityمختلف ہے۔ ہمیں باتیں کرتے ایک گھنٹہ گزر گیا۔ ہم اٹھ کھڑے ہوئے، دروازہ کھولاتوبارش اسی رفتارسے جاری تھی۔ ہماری اگلی منزل سعیدبک بنک تھی۔ گاڑی سے اترکربک شاپ تک پہنچتے پہنچتے بارش نے اپنارنگ دکھا دیا۔ وہ تو بھلا ہودکان کے مالک احمدسعید صاحب کا جوہمیشہ کی طرح لپک کرآئے، حال احوال پوچھا اور فوراً کافی کاآرڈر دیا۔ اب ہمارے چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں، بہت دیرتک ہم کتابوں کودیکھتے ، الٹتے پلٹتے رہے اور پھر بہت سی کتابیں خریدلیں۔ رئوف کلاسرا نے اپنا پسندیدہ ناولThe Readerمجھے گفٹ کیا،اس ناول پرفلم بھی بن چکی ہے۔ ناول کی ہیروئن لکھناپڑھنانہیں جانتی لیکن اسے لکھنے پڑھنے کی اہمیت کااحساس ہے۔بالکل اس کی والدہ کی طرح جنہوں نے کسی سکول سے تعلیم توحاصل نہیں کی تھی لیکن تعلیم کی اہمیت سے آشناتھیں اوراپنی بیٹی سے اخبار کے کالم اوررسالوںسے کہانیاں سنتی تھیں اورجنہوں نے ساری عمر خودمحنت اورمشقت کی اوراپنے بچوں کوتعلیم سے آراستہ کیا۔ کہتے ہیںاچھا ادب زمان ومکاں کی پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے۔ قاری کو اچھا ادب پڑھتے ہوئے ایک Pleasure of Recognitionمحسوس ہوتی ہے ''میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔ ہم نے بہت ساری کتابیں خریدکر گاڑی کی پچھلی سیٹ پررکھ لیں۔ بارش تھی کہ لگاتار برس رہی تھی۔ ہماری اگلی منزل ایک Pizza Shopتھی۔ تیزبارش اورتاریکی میں ڈرائیونگ مشکل تھی اورپھر پارکنگ کے لیے جگہ کی تلاش۔ آخر ایک خالی جگہ نظرآئی جہاں گاڑی پارک کی گئی۔ کتابوں کاایک شاپراٹھایا اور ریسٹورنٹ کی اوپروالی منزل پربیٹھ کرہم نے میزپرنئی کتابیں پھیلادیں۔نئی کتابوں کی اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ دورِحاضرمیں ڈیجیٹل کتابوں کا رواج عام ہوگیا ہے۔ کتابیں Kindle IPad پرپڑھی جارہی ہیں خاص کر ہمارے بچے اوربچیاں سکرین پرکتابیں زیادہ سہولت سے پڑھتے ہیں لیکن ہماری نسل کے لوگ کتابوں کے لمس اور خوشبو کے بغیر کتاب خوانی کوادھورا سمجھتے ہیں۔گلزار کی نظم ''کتابیں‘‘ اسی کھوئے ہوئے رومانوی تجربے پرلکھی گئی ہے جو ڈیجیٹل کتابوں کی نذرہوگیاہے۔
''کتابوں سے جوذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پر رکھ کر لیٹ جاتے تھے
کبھی گھٹنوں کواپنے رحل کی صورت بناکر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے
چھوتے تھے جبیں سے‘‘
ہماری نئی خریدی جانے والی کتابوں میں ایک ہندوستان میں برطانوی حکومت کے عہدریلوے کے حوالے سے تھی۔ اس کے جستہ جستہ اقتباسات پڑھے گئے۔ نئی کتابوں کی مہورت کے بعد ہم نے کتابوں کودوبارہ شاپرمیں ڈالا اور برستی بارش میں گاڑی تک پہنچے۔
واپسی پر ہم یہی بات کرتے رہے کہ ہم اپنے بچوں میں مطالعے کی عادت کوکیسے فروغ دے سکتے ہیں، اس میں سارے سماجی ادارے، خاندان، سکول، میڈیا اپنا کرداراداکرسکتے ہیں جس گھر میںکتابیں ہوں گی والدین مطالعے کی حوصلہ افزائی کریں گے وہاں بچے کتاب کی طرف مائل ہوں گے۔یونہی سکول میںاساتذہ اپنے طلباء میں مطالعے کاشوق پیداکرسکتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ خود بھی مطالعے کی عادت پیداکریں‘ اسی طرح میڈیاپر کتابوں اورکتب بینی کے حوالے سے پروگرام ہونے چاہئیں۔اس روز میں گھر پہنچا توبارش کاسلسلہ ہنوز جاری تھا میں نے کافی کاکپ تیار کیا، کھڑکی کاپردہ ہٹایا اورThe Readerناول کا پہلا صفحہ کھولا۔ بارش، کافی اورکتاب۔ میرے خواب کے تینوں رنگ یکجاہوگئے تھے۔

(شاہد صدیقی ،   روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت : 10 اپریل 2018)