انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثرمولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی سب سے مشہور اور اثر انگیز کتاب ہے اس کا عربی نام ہے "ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين" ( مسلمانوں کے تنزل سے دنیا کو کیا نقصان پہونچا؟ مصر کے نامور اہل قلم سید قطب نے اس پر اہم مقدمہ اور جامع تبصرہ لکھا ہے وہ یہاں نقل کیا جاتا ہے اس سے مقدمہ نگار کی سلامت فکر اور مصنف کتاب کے بارے میں ان کے تاثرات کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ۔
"عصر حاضر کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں میں خود اعتمادی پیدا کی جائے، ان میں ماضی پر اعتماد مستقبل کے بارہ میں امید اور حوصلہ پیدا ہو، اس دین پر ان کا ایمان و یقین تازہ اور زندہ ہوجائے جس کا نام تو وہ لیتے ہیں، لیکن اس کی حقیقت سے نا آشنا ہیں، ان کا تعلق اس دین سے زیادہ تر نسلی اور موروثی ہے، اور انہوں نے اس کو بہت کم سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
اس موضوع پر تمام قدیم وجدید لٹریچر میں بہترین کتابیں جو میری نظر سے گزری ہیں، ان میں مولانا ابو الحسن علی ندوی کی جدید تصنیف "ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين" ( مسلمانوں کے تنزل سے دنیا کو کیا نقصان پہونچا؟ اردو کتاب کا نام " انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ) خاص مقام رکھتی ہے۔
اسلام کی تعلیم سروری وجہانبانی کی تعلیم ہے، اس کی ایک اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ دین اپنے ماننے والوں میں بغیر کسی شائبہ تکبّر کے خودداری، بغیر کسی فریبِ نفس کے اعتماد و یقین، اور بغیر دوسرے پر اعتماد اور ضعف کے یقین وتوکل کی روح پھونکتا ہے، یہ عقیدہ انہیں متنبہ کرتا ہے کہ ان کے کاندھوں پر پوری انسانیت کے ذمہ داری ہے، روئے زمین پر بسنے والی انسانی جماعت کی تولیت (TRUSTEESHIP) ان کے سپرد ہے، اور ان کا فرض منصبی ہے کہ وہ بھٹکے ہوئے انسانی گلہ کی پاسبانی کریں اور انسانوں کو دینِ مُحکم اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کا فرضانجام دیں، اور اس روشنی اور ہدایت کے ذریعہ جو ان کو خدا کی طرف سے عطا ہوئی ہے، تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائیں:
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ:
(سورة آل عمران_١٠)
تم لوگ بہترین جماعت ھو جولوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہےہے تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اوربرائی سےروکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ھو_
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا
(سورة بقره١٤٣)
اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک معتدل امت بنا دیا ہے تاکہ تم گواہ رہو لوگوں پر اور رسول گواہ رہیں تم پر _
پیش نظر کتاب اپنے ناظرین کے دل میں انہی تمام احساسات کو ابھارتی ہے، اور ان تمام حقائق کو دل میں اتارتی چلی جاتی ہے لیکن کتاب کا اسلوب یہ نہیں ہے کہ صرف جذبات ابھار دے یا عصبیت کا جوش پیدا کردے،اس میں اپنے دعویٰ کے ثبوت میں ٹھوس علمی حقائق سے کام لیا گیا ہے جو بیک وقت وجدان و شعور اور فکر و نظر دونوں کو اپیل کرتے ہیں، تاریخی واقعات اور اس عصرکےماحول و متعلقات ایسے منصفانہ طریقے پر پیش کیے گئے ہیں جس میں مصنف کی روشن دماغی صاف جھلکتی ہے، پھر فیصلہ واقعیت و صداقت اور قلب و ضمیر کی بصیرت کے سپرد کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے کتاب کے مباحث کی تمام کڑیاں مربوط اور ایک دوسرے سے پیوست نظر آتی ہیں، اور کہیں بھی کسی مسئلہ میں مقدمات سے نتائج اخذ کرنے میں غیر واقفیت یا تکلف کا ثبوت نہیں ملتا، یہ اس کتاب کی اوّلین خصوصیت ہے۔
اسلام سے پہلے اس دنیا کا کیا حال تھا، مشرق ومغرب، شمال وجنوب کا کیا نقشہ تھا چین و عرب اور ہند سے لے کر روم و فارس تک معاصر و دنیا کا عقلی و فکری مزاج کیا تھا، اس وقت کی سوسائٹی کا کیا رنگ تھا؟ جن مذاہب پر دینِ سماوی کا پر تو تھا، مثلاً یہودیت و نصرانیت، یا جو بت پرست مذاہب تھے، مثلاً ہندومت، آتش پرست ان کا کیا حال تھا؟ ان تمام باتوں کی اس کتاب میں مختصر لیکن بہت جامع اور واضح تصویر کشی کی گئی ہے، اور یہیں سے کتاب شروع ہوتی ہے۔
درحقیقت یہ بہت ہی جامع مرقع ہے، جو خطہ ارضی کے صحیح خدوخال نمایاں کرتا ہے، اس مرقع کی ترتیب میں مؤلف نے کسی خودرائی اور ضد کا مظاہرہ نہیں کیا ہے بلکہ وہ اپنے جلو میں غیر مسلم قدیم و جدید مصنفین کو بھی لئے ہوئے ہیں، جو قدرتاً اسلام کے معاند اور اس عہد کو بدنما کرکے پیش کرنے والے ہیں جو اسلام کی طرف منسوب ہے، مؤلف اس دنیا کی تصویر پیش کرتے ہیں جس پر جاہلی روح مسلط تھی اور اس وقت انسانی ضمیر گندہ اور روح متعفن ہو چکی تھی، معیار اور قدریں بگڑ چکی تھیں غلامی اور ظلم کا دور دورہ تھا، اور انسانیت کی جڑ ایک طرف مجرمانہ عشرت پسندی اور دوسری طرف نامراد محرومی کے ہاتھوں کھوکھلی ہو رہی تھی، مزید برآں کفر و جہالت اور ظلمت و ضلالت کے بادل سر پر منڈلا رہے تھے، مذاہب لاچار و بے بس تھے، ادیانِ سماوی پہلے ہی سے تحریف کا شکار ہو چکے تھے اور ان کو گھن لگ چکا تھا، دلوں سے ان کی عظمت نکل چکی تھی، یہ مذاہب (خصوصاً نصرانیت) مذہب کے ڈھانچے رہ گئے تھے، جن میں نہ کوئی روح تھی، نہ کوئی زندگی صرف چند بے جان، بے روح مراسم کا نام مذہب رہ گیا تھا۔
زمانہ جاہلیت کے اس نقشے کو پیش کرنے کے بعد مؤلف نے دکھایا ہے کہ تعمیرِ انسانیت کے سلسلہ میں اسلام نے کیا کارنامہ انجام دیا اور جب اس کو کچھ کرنے کا موقع ملا تو کس طرح انسانی روح کو اوہام و خرافات سے نجات دلائی، ذلت و غلامی سے کس طرح انسانیت کی گلو خاصی کرائی، مرض و فساد ناپاکیوں اور گندگیوں، کمزوریوں اور ناتوانیوں سے کس طرح انسان کو نکالا اور اپنے وقت میں اسلام نے کس طرح انسانی معاشرے کو ظلم و سرکشی اور انسانی تہذیب کو انتشار اور تباہی سے بچایا،سماجی طبقہ واریت سے سلاطین کے جور و ستم سے اور مذہبی طبقہ (PRIEST HOOD) اور مہنتوں کی غلامی سے آزاد کیا، اسلام نے نئی بنیادوں پر دنیا کی تعمیر کی، عقیدہ اخلاق و ضمیر کو طہارت و پاکیزگی عطا کی، تعمیر و ایجاد کی بلند قدریں بخشیں، حریت پسندی اور اختراعی صلاحتیں پیدا کیں، یقین و معرفت وثوق و اعتماد، عدل و انصاف اور خودداری عطا کی، اور دنیا کے صحیح نشو و نما اور متوازن ارتقا کے لئے عملِ پیہم اور سعی مسلسل پر آمادہ کیا کہ زندگی کی پوشیدہ طاقتیں بروئے کار آئیں اور پھولیں پھلیں، صحیح مردم شناسی سے کام لے کر دنیا کی تعمیر و ترقی کے کام میں ہر ایک کو اس کے صحیح مقام پر رکھا اور اس سے وہ کام لیا جس کے لئے وہ بنایا گیا تھا۔
یہ سب اس وقت کی بات ہے، جب کہ عالم کی زمامِ کار اسلام کے ہاتھوں میں تھی، اس کو اپنی مرضی کے مطابق اور اپنے ڈھنگ سے کام کرنے کا موقع حاصل تھا اور واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے جوہر اسی وقت کھلتے ہیں جب اس کے ہاتھ میں قیادت ہو، اس لئے کہ اسلام کا عقیدہ سروری و جہانی کا عقیدہ ہے، وہ قیادت کا ایک نظام ہے، وہ انسانی قافلے کی سربراہی کرسکتا ہے کسی کا دریوزہ گر نہیں بن سکتا۔
اس کے بعد وہ وقفہ آتا ہے، جب زمامِ قیادت اسلام کے ہاتھوں سے نکل گئی جس کا سبب یہ تھا کہ خود مسلمانوں میں زوال آگیا اور وہ اس عالمی قیادت سے دستبردار ہو گئے جس کی ذمہ داری ان پر اسلام کی طرف سے عائد ہوتی تھی، اور انسانیت کی تولیت (TRUSTEESHIP) اور ان ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے جو زندگی کے ہر موڑ پر ان کی ذات سے وابستہ تھیں۔
اس جگہ مؤلف نے اس روحانی و مادی زوال کے اسباب بیان کئے ہیں اور ان نقصانات کو واضح کیا ہے، جو خود مسلمانوں کو اٹھانے پڑے جب کہ وہ اپنے دین کے اصول سے منحرف ہو گئے اور اس کی ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہونے لگے، پھر اس مبارک قیادت سے محروم ہونے اورپہلی جاہلیت کی زندگی اختیار کرلینے کے بعد دنیاپر کیاگزری؟ یہاں مؤلف نے اس ہولناک پستی کی نشاندہی کی ہے جس کے مہیب غارمیں انسانیت اپنے سرکے بل گری بدقسمتی سے اس پستی کا زمانہ وہی زمانہ ہے جس میں علم وفن کی راہیں کھلیں اورانسانیت نے مادی میدان میں بڑی ترقی حاصل کی، مؤلف محترم نے اس پستی کی نشاندہی کرنے میں آتش بیانی یاسنسنی پیداکرنے والاطرز نہیں اختیار کیا ہے بلکہ بحث ونظرسے کام لیا ہے، وہ خود ہرطرح کی مبالغہ آرائی اور رنگ آمیزی سے بے نیازہیں۔
اس تاریخی جائزہ کے وقت کتاب کا پڑھنے والابڑی شدت سے محسوس کرتاہے کہ موجودہ قیادت بدلنے کی سخت ضرورت ہے ۔اور اس بات کی ضرورت ہے کہ انسانیت کو پھراسی سرچشمہ ہدایت پر لاکرکھڑا کر دیا جائے جس ہدایت کا مدعا ہی یہ تھا کہ انسان کوتاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف اور جاہلیت سے نجات دلاکر علم ومعرفت کی طرف لائے، اس کتاب کے پڑھنے والے کواندازہ ہوتاہے کہ اس قیادت کی عالمگیر اہمیت ہے ، اور اسے کھو کر انسانیت کو کتنا بڑا خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے۔اور اس خسارہ میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا شریک ہے ، یہ اتنا وسیع خسارہ ہے جوماضی وحال اور مستقبل قریب و بعید سب پر حاوی ہے اس کے ساتھ ہی مسلمان کے دل میں ندامت وشرمندگی کا احساس بھی پیداہوتاہےکہ اس نے کیسی مجرمانہ کوتاہی اورغفلت کا ارتکاب کیا، دوسری طرف اس کے اندریہ احساس بھی ابھرتاہے کہ اسے کیسی عظیم الشان صلاحیتیں بخشی گئی ہیں ،پھر اس عالمی قیادت کو دوبارہ حاصل کرنے کی تڑپ بھی پیدا ہوتی ہے، جو اس نے اپنی غفلت و ناقدری سے کھو دی ہے۔
اس کتاب کی ایک قابل تعریف بات یہ ہے کہ مؤلف جہاں کہیں انسانیت کی پستی کا ذکر کرتے ہیں ( وہ پستی جو تمام انسانوں پر محض اس وجہ سے آئی کہ مسلمان ان کی قیادت سے قاصر رہے) وہاں مؤلف اس پستی کو جاہلیت سے تعبیر کرتے ہیں ، یہ اسلوب بیان بہت خوبی کے ساتھ مؤلف محترم کے انداز فکر کو واضح کرتا ہے کہ ان کے نزدیک اسلامی روح اور اس مادہ کی روح ( جو اسلام سے قبل دنیا پر چھائی ہوئی تھی ، اور اسلام کی قیادت سے دستبرداری کے بعد آج بھی چھائی ہوئی ہے ) کے درمیان کیا فرق ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ جاہلیت اپنے مزاج اور روح کے اعتبار سے ایک ہی ہے جاہلیت کسی محدود زمانہ کے کسی خاص وقفہ کا نام نہیں ہے بلکہ عقل وفکر کی ایک خاص اورمتعین ساخت کا نام ہے ، وہ فکری ساخت اس وقت ابھرتی ہے جب کہ انسانی زندگی کے وہ حدود اور وہ معیار باقی نہیں رہتے جو خدا نے مقرر کئے ہیں اور ان کی جگہ بنائے ہوئے وہ مصنوعی معیار آجاتے ہیں جن کی بنیاد وقتی خواہشات پر ہوتی ہے جس کو آج دنیا اپنے ارتقائی دور میں بھی اسی طرح جھیل رہی ہے جس طرح اپنے بریریت اور جہالت کے ابتدائی زمانہ میں جھیل رہی تھی فاضل مؤلف کتاب کے آخری باب میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’عالم اسلامی کا پیغام اللہ رسول اور اسکی قیادت پر ایمان لانے کی دعوت دیتاہے اس کا صلہ یہ ملے گا کہ تاریکیوں سے نکل کر روشنی کی طرف انسان کی عبادت سے نجات پا کر اللہ کی عبادت کرطرف دنیا کی تنگنائی سے نکل کر عالم کی وسعت کی طرف مذاہب کے جو روستم سے بچ کر عدل اسلامی کی طرف آنا نصیب ہو گا اس پیغام کی اہمیت سامنے آچکی ہے اور اس زمانہ میں اس کا سمجھنا دوسرے زمانے کی نسبت زیادہ آسان اورسہل ہے آج جاہلیت سر بازار رسوا ہو چکی ہے اس کے چھپے ڈھکے عیب نگاہوں کے سامنے آگئے ہیں دنیا اس سے عاجز آچکی ہے لہذا جاہلی قیادت کو چھوڑ کر اسلامی قیادت کی طرف منتقل ہونے کا یہ خاص وقت ہے بشرطیکہ عالم اسلامی اس کے لئے کھڑا ہو اور اس پیغام کو پورے عزم و اخلاص اور جرات و ہمت کے ساتھ اپنا لے اور اس پیغام کو دنیا کا نجات دہندہ باور کرے اور یقین کرے کہ پستی و تباہی سے دنیا کو صرف یہی پیغام نجات دلا سکتا ہے۔"
اس کتاب کی نمایاں خصوصت یہ ہے کہ مصنف نے اسلام کے اصول و کلیات کو ان کے وسیع دائرہ کے اندر اور اسلام کی صحیح روح کے مطابق سمجھا ہے۔ اس بنا پر نہ صرف یہ کتاب دینی و اجتماعی تحقیق علمی کا نمونہ ہے، بلکہ اس کا بھی نمونہ ہے کہ اسلامی زاویہ نگاہ سے تاریخ کو کس طرح مرتب کرنا چاہیے۔
علمائے مغرب نے دنیا کی تاریخ مغربی نقطہ نظر سے لکھی ہے۔ اور وہ قدرتاً اپنی مادی تربیت، مادی فلسفے اور پھر مذہبی و قومی تعصب کے اثرات سے خالی نہیں تھے، چنانچہ دانستہ یا نادانستہ ان کی تاریخ میں اغلاط اور جابجا بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں، کیونکہ انہوں نے انسانی زندگی کی بہت سی اہم قدروں کو فراموش کر دیا ہے، حالانکہ انسانی زندگی کی تاریخ ان کے بغیر مکمل ہی نہیں ہو سکتی، اور نہ ان قدروں کے جانے بغیر واقعات کی صحیح توجیہ ممکن ہے، اور نہ نتائج اخذ کرنا درست ہو سکتا ہے، نیز یوروپین مورخین عموماً اپنے قومی و مذہبی تعصب کی بنا پر دنیا کا مرکز یورپ ہی کو سمجھ لیتے ہیں، اور زندگی کے دوسرے اہم مؤثرات اور محرکات کو صرف اس لئے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یورپ ان کا ماخذ نہیں ہے یا کم از کم بہت گھٹا کر اور ان کی اہمیت کو کم کر کے پیش کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہم لوگ عرصہ سے اس کے عادی چلے آ رہے ہیں، کہ جس طرح دوسری اشیاء یوروپ سے منگاتے ہیں، اسی طرح تاریخ بھی یوروپ ہی کے ہاتھوں حاصل کریں اور ان تمام کمزوریوں کے ساتھ اس کو جوں کا توں لے لیں، حالانکہ ان کا طریقہ تصنیف اور طریق فکری سرے سے ناقص اور پُر از اغلاط ہے، کیونکہ انہوں نے انسانی زندگی کو ایک محدود زاویہ سے دیکھا ہے، اور اس غلط اور محدود زاویہ نگاہ سے وہ غلط نتائج کا شکار ہوئے ہیں، اور یہ ظاہر ہے، جب مقدمات ہی درست نہ ہوں گے تو نتیجہ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔
پیشِ نظر کتاب تاریخ کا ایک ایسا نمونہ ہے جس میں ان تمام امور پر نگاہ رکھی گئی ہے اور تمام محرکات اور مختلف قدروں کا لحاظ رکھا گیا ہے، کتاب کے پڑھنے والے غالباً اس کے متوقع نہ ہوں گے کہ ایک صاحبِ ایمان مؤلف جو اسلام کی روحانی طاقت پر یقینِ کامل رکھتے ہیں اور عالمی قیادت کو اسلام کے سپرد کرنے کا پر جوش جذبہ ان کے دل میں موجزن ہے، جہاں قیادت کی صلاحیتوں پر گفتگو کریں گے وہاں روحانی قوت کے ساتھ ساتھ صنعتی و حربی صلاحیت کا بھی تذکرہ کریں گے اور جدید تعلیمی نظام اور اقتصادی و تجارتی خود کفالتی پر بھی سیر حاصل بحث کریں گے، لیکن مَسرت کی بات ہے کہ انھوں نے اس پہلو کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا۔
بلا شبہ اس کتاب میں انسانی زندگی پر اثر ڈالنے والے تمام عوامل کا ایک مربوط اور منظم تصور ہے، اسی مربوط و منظم تصور کے ساتھ تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے، اور امتِ اسلامیہ کو ایسا مشورہ دیا گیا ہے جس میں پورا اعتدال اور تناسب پایا جاتا ہے اور اسی خصوصیت کی بنا پر یہ کتاب تاریخ نویسی کا ایک کامیاب نمونہ ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کو یورپ کے اسلوبِ نگارش سے بے نیاز ہو کر ( جس میں ارتباط و توازن، مؤرخانہ انصاف اور علمی تحقیق کی بالعموم کمی ہوتی ہے) تاریخی مباحث پر کس طرح قلم اٹھانا چاہیئے اور کس انداز سے اس کو مرتب کرنا چاہیئے۔
میری خوش قسمتی ہے کہ پیشِ نظر کتاب کے بارہ میں اپنے ان تاثرات کے اظہار کا موقع ملا اور بڑی مسرت ہے کہ مجھے اس کتاب کا مطالعہ عربی زبان میں نصیب ہوا، اس لیے کہ فاضل مؤلف نے اسی زبان کو اپنی تصنیف کے لیے اختیار کیا ہے، اور آج دوسری بار مصر میں اس کے شائع ہونے کی نوبت آ رہی ہے۔
" إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيد"
"بے شک اس میں ان لوگوں کے لئے یاددہانی ہے جن کے پاس دل ہو یا یا جو توجہ سے بات کو سنے"
"بے شک اس میں ان لوگوں کے لئے یاددہانی ہے جن کے پاس دل ہو یا یا جو توجہ سے بات کو سنے"
سید قطب (شہیدؒ)
حُلوان (مصر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخوز " انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر" ص 23 - 30، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )