گوشۂ شبلی ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
گوشۂ شبلی ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ : قادسیہ کی جنگ اور فتح - علامہ شبلی نعمانی ؒ

قادسیہ ۱؎ کی جنگ اور فتح

محرم ۱۴ ہجری (۶۳۵ء ) 

رستم اب تک لڑائی کو برابر ٹالتا جاتا تھا لیکن مغیرہ کی گفتگو نے ا س کو اس قدر غیر ت دلائی کہ اسی وقت کمربندی کا حکم دیا۔ نہر جو بیچ میں حائل تھی حکم دیا کہ صبح ہوتے ہوئے پاٹ کر سڑک بنا دی جائے۔ صبح تک یہ کام انجام کوپہنچا اور دوپہر سے پہلے پہلے فوج نہر کے اس پار آ گئی خود سامان جنگ سے آراستہ ہوا دہری زرہیںپہنیں سر پر خود رکھا‘ ہتھیار لگائے پھر اسپ خاصہ طلب کیا اور سواور ہو کر جوش میں کہا کہ کل عرب کو چکنا چور کر دوں گا۔ کسی سپاہی نے کہا کہ ہاں اگر اللہ نے چاہا بولا کہ اللہ نے نہ چاہا تب بھی۔

فوج نہایت ترتیب سے آراستہ کی۔ آگے پیچھے تیرہ صفیں قائم کیں۔ قلب کے پیچھے ہاتھیوں کا قلعہ باندھا ہود جوں اور عماریوں میںہتھار بند سپاہی بٹھائے۔ میمنہ و میسرہ کے پیچھے قلعہ کے طورپر ہاتھوں کے پرے جمائے۔ خر رسانی کے لیے  موقعہ جنگ سے پایہ تخت تک کچھ فاصلے پر آدی بٹھا دیے۔ جو واقعہ پیش آتا تھا موقع جنگ کاآدمی چلا کر کہتاتھا کہ اوردرجہ بدرجہ مدائن تک خبر پہنچ جاتی تھی۔

قادسیہ میں ایک قدیم شاہی محل تھا جو عین میدان کے کنارے پر واقع تھا۔ سعدؓ کو چونکہ النساء کی شکایت تھی اور چلنے پھرنے سے معذور تھے۔ اس لیے فوج میں شریک نہ ہوئے بالاخانے پر میدان کی طرف رخ کر کے تکیہ کے سہارے بیٹھے اورخالد بن عرطفہ کو اپنے بجائے سپہ سالار مقرر کیا تاہم فوج کو لڑاتے خود تھے یعنی جس وقت جو حکم دینا مناسب ہوتا تھا پرچو ں پر لکھکر اور گولیاں بنا کر خالد کی طرف پھینکتے تھے اورخالد انہی  روایتوں کے موافق موقع بموقع لڑائی کا اسلوب بدلتے جاتے تھے۔ تمدن کے ابتدائی زمانے میںفن جنگ کا اس قدر ترقی کرنا تعجب اور قابل ہے اور عرب کی تیزی طبع اورلیاقت جنگ کی دلیل ہے۔

۱؎  قادسیہ عرب کا مشہور شہر تھا اور مدائن سبعہ کے وسط میں تھا اب ویران پڑا ہوا ہے ہمارے نقشے میں اس شہر کو مدائن کے متصل سمجھنا چاہیے۔

فوجیں آراستہ ہو چکی تھیں۔ تو عرب کے مشہور شعراء اور خطیب صفوں سے نکلے اور اپنی آتش فشانی سے تمام فوج میں آ گ لگا دی۔ شعراء میں شماخ ‘ حطیتہ‘ اوس بن مغرا‘ عبدۃ بن الطیب‘ عمرو بن معدی کرب اور خطیبوں میں قیس بن ہبیرہ‘غالب‘ ابن الاہذیل الاسدی‘ بسر بن ابی رہم الجہمی‘ عاصم بن عمرو‘ ربیع سعدی ‘ ربعی بن عامر میدان میں کھڑے تقریریںکر رہے تھے۔ اور فوجکا یہ حال تھا کہ ان پر کوئی جادوکر رہاہے ان تقریروں کے جملے یاد رکھنے کے قابل ہیں:

ابن الہذیل الاسدی کے الفاظ یہ تھے:

یامعشر سعد ! اجعلو ا حصونکم السیف وکونوا علیھ کاسودا لاجم واد رعو العجاج وعضو ا الابصار فاذا کلت السیوف فارسلوا الجنادل فانھا یوذن لھا فیما لا یوذن للحدید

’’خاندان سعد! تلواروںکو قلعہ بنائو اوردشمنو ں کے مقابلے میں شیر بن جائو۔ گر کی زرہ پہن لو اور نگاہیں نیچی کر لو۔ جب تلواریں تھک جائیں تو تیروں کی باگ چھوڑ دو کیونکہ تیروں کو جہاں بار مل جاتاہے تلواروں کونہیںملتا‘‘۔

اس کے ساتھ قاریوںنے میدان میںنکل کر نہایت خوش الحانی اور جوش سے سورہ جہاد کی آیتیں پڑھتی شروع کیں۔ جس کی تاثیر سے دل دہل گئے اور آنکھیں سرخ ہو گئیںَ

سعدؓ نے قاعدے کے موافق نعرے لگائے اور چوتھے پر لڑائی شروع ہو گئی۔ سب سے پہے ایک ایرانی قدر انداز و دیبا کی قبا زیب تن کیے زری کمر بند سجائے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنے میدان میں آیاادھر سے عمرو معدی کرب اس کے مقابلے کو نکلے۔ اس نے تیر کمان میںجوڑا اور ایسا تا کر مارا کہ یہ بال بال بچ گئے انہوںنے گھوڑے کودابا اور قریب پہنچ کر کمر بند میں ہاتھ ڈال کر معلق اٹھا زمین پر دے پٹکا اور تلوار سے گردن اڑا کر فوج کی طرف مخاطب ہوئے کہ یوں لڑا کرتے ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ ہر شخص معدی کرب کیونکر ہو سکتاہے۔

اسا کے بعد اور بہادر دونوں طرف سے نکلے اور شجاعت کے جوہر دکھائے۔ پھر عام جنگ شروع ہوئی۔ ایرانیوںنے بحیلہ کے ررسالے پر جو سب سے ممتاز تھا ہاتھیوں کو ریلا۔ عرب کے تھوڑوںنے یہ کالے پہاڑ دیکھے تو دفعتہ بدکے اورمنتشر ہو گئے پیدل فوج ثابت قدمی سے لڑی لیک ہاتھیوں کے ریے میںان کے پائوں اکھڑجاتے تھے۔ سعدؓ نے یہ ڈھنگ دیکھ کر فوراً قبیہ سد کو حکم بھیجا کہ بحیلہ کو سنبھالو۔ طلیحہ نے جو قبیلہ کے سردار اور مشہوربہادر تھے ساتھوں سے کہا عزیزو سعدؓ نے کچھ سمجھ کر تم سے مدد مانگی ہے۔ تمام قبیلے نے جوش میںآکر باگیں اٹھائی اور ہاتھوں میں برچھیاں لے کر ہاتھوںپر حملہ آور ہوئ۔ ان کی پامردیی سے اگرچہ کالی آندھی ذر اتھم گئی لیکن ایرانیوں نے بحیلہ کو چھوڑ کر سارا زور اس طرف کر دیا۔ سعدؓ نے قبییہ تمیم کو جو قدر اندازی اورنیزہ بازی میںمشہور تھے کہلا بھیجا کہ تم سے ہاتھوں کی کچھ تدبیر نہیںہو سکتی؟ یہ سن کر وہ دفعتہ بڑھے اور اس قدر تیر برسائے کہ فی نشینوں کو گرا دیا پھر قریب پہنچ کر تمام ہود ے اورعماریاں الٹ دیںَ شام تک یہ ہنگامہ رہاجب بالکل تاریکی چھا گئی دونوں حریف میدان سے ہٹے۔ قادسیہ کا پہلا معرکہ تھا اور عربی میں اس کو (یوم الارماث ) کہتے ہیںَ

سعدؓ جس وقت بالا خانے پر بیٹھے فوج کو لڑا رہے تھے۔ ان کی بیوی سلمیٰؓ بھی ان کے برابر بیٹھی تھیں ایرانیوںنے جب ہتھوں کو ریلا تو مسلمان  پیچھے ہٹے تو سعدؓ غصے کے مارے بیتاب ہوئے جاتے تھے۔ اور بار بار کروٹیں بدلتے تھے۔ سلمیٰؓ یہ حالت دیکھکر بے اختیار چلا اٹھی کہ افسوس آ ج مثنیٰؓ نہ ہوا۔ سعدؓ نے اس کے منہ پر تھپڑ کھینچ مارا کہ مثنیٰؓ ہوتا تو کیا کر لیتا۔ سلمیٰؓ نے کہا سبحان اللہ بزدلی کے ساتھ غیرت بھی۔ یہ اس بات پر طعن تھا کہ سعدؓ خود لڑائی میں شریک نہتھے۔

اگلے دن سعدؓ نے سب سے پہلے میدان جنگ سے مقتولوںکی لاشیں اٹھو ا کر دفن کرائیں اور جس قدر زخمی تھے مرہم پٹی کے لیے عورتوں کے حوالے کیے۔ پھر فوج کو کمر بنی کا حکم دیا لڑائی ابھی شروع نہیںہوئی تھی کہ شام کی طرف سے غبار اٹھا۔ گرد پھٹی تو معلوم ہوا کہ ابوعبیدؓ نے شام سے جو امدادی فوجیں بھیجی تھیں وہ آ پہنچیں۔ حضرت عمرؓ نے جس زمانے می عراق پر حملے کی تیاریاں کی تھیںَ اسی زمانے میں ابوعبیدہؓ کو جو شام کی مہم پر مامور تھے لکھ بھیجا تھا کہ عراق کی جو فوج وہاں بھیجی گئی ہے اس کو حکم دو کہ سعدؓ کی فوج سے جا کر مل جائے۔ چنانچہ عین وقت پر یہ فوج پہنچی اور تائید غیبی سمجھی گئی۔ یہ چھ ہزار سپاہ تھے جن میں پانچ ہزار ربیعۃ و مضر اور ہزار خاص حجاز تھے ۔ ہاشم بن عتبہ (سعدؓ کے بھائی) سپہ سالار تھے ارو ہر اول قعقاع رکاب میںتھا۔ قعقاع نے پہنچتے ہی صف سے نکل کر پکارا کہ اے ایرانیوں میں کوئی بہادر ہوتو مقابلے پر آئے۔ ادھرسے بہمن نکلا۔ قعقاع جسر کا واقعہ یاد کر کے پکار اٹھے کہ لینا ابوعبیدہ کا قاتل جانے نہ پائے۔ دونوں حریف تلوار لے کر مقابل ہوئے اور کچھ دیر کی ردوبدل کے بعد بہمن مارا گیا۔ دیر تک دونوںطرف سے بہادر تنہا تنہا میدان میں نکل کر شجاعت کے جوہر دکھاتے رہے۔ سیستان کا شہزادہ براز اعور بن قطبہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ بزرجمہر ہمدانی جو ایک مشہور بہادر تھا قعقاع سے لڑ کر قتل ہوا۔ غرض ہنگاہ عام ہونے سے پہے ایرانی فوج نے اکثر اپنے نامور بہادر کھو دیے۔ تاہم بڑے زور و شور دونوںفوجیں حملہ آور ہوئیں۔

شام کی امدادی فوج کی قعقاع نے اس تدبیر سے روانہ کیا تھا کہ چھوٹے چھوٹے دستے کر دیے تھے اور جب ایک دستہ میدان جنگ میں پہنچ جاتاتھا تو دوسرا نمودار ہوتا تھا۔ اس طرح تمام دن فوجوں کا تانتا بندھا رہا اور ایرانیوںپر خوف چھاتا رہا۔ ہر دستہ اللہ اکبر کے نعرے مارتا ہوا آتا تھا اور قعقاع اس کے ساتھ ہو کر دشمن پر حملہ آور ہوتے تھے۔ ہاتھیوں کیلیے قعقاع نے یہ تدبیر کی کہ اونٹوں پر جھول اور برقع ڈال کر ہاتھوں کی طرح مہیب بنایا یہ مصنوعی ہاتھ یجس طرح رخ کرتے تھے ایرانیوںکے گھوڑے بدک کر سوارو ں کے قابو سے نکل جاتے تھے۔

عین ہنگامہ جنگ میں حضرت عمر ؓ کے قاصد پہنچے جن کے ساتھ نہایت بیش قیمت عربی گھوڑے اور تلواریں تھیںَان لوگوں نے فوج کے سامنے پکار کر کہا کہ امیر المومنین نے یہ انعام ان لوگوں کے لیے بھیجا ہے جو اس کا حق ادا کر سکیںَ چنانچہ قعقاع نے حمال بن مالک ربیل بن عمرو‘ طلیحہ بن خویلد‘ عاصم بن عمر‘ التمیمی کوتلواریں حوالہ کیں اور قبیلہ یربوع کے چار بہادروں کو گھوڑے عنایت کیے۔ ربیل نے فخر اور جوش میں آ کر فی البدیہہ یہ شرع پڑھا:

لقد علم الاقوام انا احقھم

اذا حصلوا بالمرھفات البوتر

’’سب لوگوں کو معلوم ہے کہ میں سب سے زیادہ مستحق ہوں جس وقت لوگوں نے کاٹنے والی نازک تلواریں پائیں‘‘۔

جس وقت لڑائی کا ہنگامہ گرم تھا۔ ابومحجن ثقفی جوایک مشہور بہادر اور شاعر تھے اور جن کو شراب پینے کے جرم پر سعدؓ نے قیدکر دیا تھا قید خانے کے دریچے سے لڑائی کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور شجاعت کے جوش میں بے اختیار ہوئے جاتے تھے۔ آخر ضبط نہ کر سکے سلمیٰؓ (سعدؓ کی بیوی) کے پاس گئے کہ اللہ کے لیے ا س وقت مجھ کو چھوڑ دو لڑاء سے جیتا بچا تو خود آ کر میںبیڑیاںپہن لوں گا۔ سلمیٰؓ نے انکار کیا یہ حسرت کیساتھ واپس آئے اور بار بار پردرد لہجہ  میں یہ اشعار پڑھتے تھے:

کفی حزنا ان تردی الخیل بالقنا

واترک مشدودا علی وثاقیا

’’اس سے بڑھ کر کیا غم ہوگاکہ سوار نیزہ بازیاں خر رہے ہیں اور میں زنجیروں میں بندھا پڑا ہوں‘‘۔

اذا قمت عنانی الحدید واغلقت

مصاریع من دونی تصم المنادیا

’’جب کھڑا ہوناچاہتاہوں تو زنجیر اٹھنے نہیں دیتی اور دروازے اس طرح بند کر دیے جاتے ہیں کہ پکارنے والا پکارتے پکارتے تھک جاتاہے‘‘َ

ان اشعار نے سلمیٰؓ کے دل پر یہ اثر کیا کہ خود آ کر بیڑیاں کاٹ ڈالیں۔ انہوںنے فوراً اصطبل میں جا کر سعدؓ کے گھوڑے پر جس کانام بلقاتھا زین کسی اور میدان جنگ میں پہنچ کر بھالے کے ہاتھ نکالتے ہوئے ایک دفعہ میمنہ سے میسرہ تک کا چکر لگایا اورپھر اس زور و شور سے حملہ کیا کہ جس طرح نکل گئے صف کی صف الٹ دی۔ تمام لشکر متحیر تھا کہ یہ کون بہادر ہے۔

سعدؓ بھی حیران تھے اور دل میںکہتے تھے کہ حملہ کا انداز ابومحجن کا ہے لیکن وہ تو قید خانے میں ہے شام ہوئی تو اابومحجن نے قید خانے میں آ کر خود بیڑیاں پہن لیںَ سلمیٰؓ نے یہ تمام حالات سعدؓ سے بیان کیے۔ سعدؓنے اسی وقت ان کو رہا کر دیا اور کہاالہ کی قسم مسلمانوں پر جو شخص یوں نثار ہو میں اس کوسزا نہیںدے سکتا۔

ابومحجن نے کہا واللہ میںبھی آج سے پھر کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگائوں گا ۱؎۔

خنساء جو عرب کی مشہور شاعرہ تھی ۲؎اس معرکے میں شریک تھی اور س کے چاروں بیٹے بھی تھے ڑائی جب شروع ہوئی تو اس نے بیٹوں کی رف سے خطاب کیا اور کہا:

الم تنب بکم البلاد ولم تفحکم السنۃ ثم جئتم بامکم عجوز کبیرۃ فوضعتموھا بین ایدی اہل فارس واللہ انکم لبنو رجل واحد کما انکم بنو امرء ہ واحدۃ ماخنت اباکم والا فضحت خاکم انطللقوا افاشھدوا اول القتال واخرۃ

’’پیارے بیٹو! تم اپنے ملک کو دو بھر نہ تھے نہ تم پر قحط پڑا تھا۔ باوجود اس کے تم اپنی کہن سال ماں کو یہاں لائے اور فارس کے آگے ڈال دیا اللہ کی قسم جس طرح تم ایک ماں کی اولاد ہو اسی طرح ایک باپ کی بھی ہو۔ میںنے تمہارے باپ سے بددیانتی نہیں کی نہ تمہارے ماموںکو رسوا کیا لوجائو اور اخیر تک لڑو‘‘۔

۱؎  کتاب الخراج: قاضی ابو یوسف صٖحہ۱۸

۲؎  خنساء کے واقعات نہایت دلچسپ ہیں اور عجیب و غریب ہیں۔ اس کادیوان بیروت میں چھپ گیا ہے اور اس کے مفصل حالات علامہ ابو الفرج اصفہانی نے کتاب الاغانی میں لکھے ہیں۔ اصناف شعرمیں مرثیہ گوئی میں اس کا کوئی نظیر نہیں گزرا۔ چنانچہ بازار عکاظ میں اس کے خیمے کے دروزے پر ایک علم نصب کیا جاتاتھا جس پر لکھا ہوتا تھا ارثی العرب یعنی تمام عرب میں سب سے بڑھ کر مرثیہ گو۔ وہ اسلام بھی لائی اور حضرت عمرؓ کے دربار میں حاضر ہوتی تھی۔

بیٹوںنے ایک ساتھ باگیںا ٹھائیں اور دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ جب نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو خنساء نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا کہ اے اللہ! میرے بیٹوں کو بچانا۔

اس د ن مسلمان دو ہزار اورایرانی دس ہزار مقتول و مجروح ہوئے۔ تاہم فتح و شکست کا کچھ فیص نہ ہوا یہ معرکہ اغواث کے نام سے مشہور ہے۔

تیسر ا معرکہ یوم العماس کے نام سے مشہورہے۔ اس میں قعقاع نے یہ تدبیر کی کہ رات کے وقت چند رسالوں اورپیدل فوجو ں کوحک دیا کہ پڑائو سیدور شام کی طرف نکل آئیں پو پھٹے سو سو میدان جنگ کی طرف گھوڑے اڑاتے آئیں اور رساے اسی طرح برابر آتے جائیں۔ چنانچہ صبح ہوتے ہوئے پہلا رسالہ  پہنچا۔ تما فوج نے اللہ اکبر کا نعرہ مارا اور غل پڑ گیا کہ نئی امدادی فوجیں آ گئیں ساتھ ہی حملہ ہوا۔ حسن اتفاق یہ کہ ہشام جن کوابوعبیدہنے شام سے مدد کے لیے بھیجا تھا عین موقع پر سات سو سواروں کے ساتھ پہنچ گئے۔ یزدگرد کو دم دم کی خبریں پہنچتی تھیں اور برابر فوجیںبھیجتا جاتا تھا۔ ہشام نے فوج کی طرف خطاب کیا اورکہا کہ تمہارے بھائیوں نے شام کو فتھ کر لیا۔ فارس کی فتح کاجو اللہ کی طرف سے وعدہ ہوا ہے وہ تمہارے ہاتھ سے پوار ہو گا۔ معمول کے موافق جنگ کا آغاز یوں ہوا کہ ایرانیوںکی فوج سے ایک پہلوان شیر کی طرح ڈکارتا میدان میں آیا۔ اس کا ڈیل ڈول دیکھ کر لوگ اس کے مقابلے سے جی چراتے تھے۔ لیکن ایک عجیب اتفا ق سے وہ ایک کمزور سپاہی کے ہاتھ سے مارا گیا۔ ایرانیوںنے تجربہ اٹھا کر ہاتھوں کے دائیں بائٰں پید ل فوجیں قائم کر دی تھیںَ عمر معدی کرب نے رفیقوںسے کہا کہ میں مقابل کے ہاتھی پر حملہ کرتاہوں تم ساتھ رہنا ورنہ عمرو معدی کرب مارا گیا تو پھر معدی کرب پیدا نہ ہو گا۔ یہ کہہ کر تلوار میان سے گھسیٹ لی اور ہاتھی پر حملہ  کیا لیکن پید ل فوجیں جو دائیںبائیںتھیں دفعتہ ان پر ٹوٹ پڑیں اور اس قدر گرد اٹھی کہ یہ نظروں سے چھپ گئے اوریہ دیکھ کر ان کی رکاب کی فوج حملہ آورہو ئی اور بڑے معرکے کے بعد دشمن پیچھے ہٹے۔ عمرو معدی کرب کا یہ حالتھا کہ تمام جسم خا ک سے اٹا ہوا تھا۔ بدن پر جا بجا برچھویں کے زخم تھے تاہم تلوار قبضے میں تھی اور ہاتھ چلتا جاتا تھا۔ اسی حالت میں ایک ایرانی سوار برابر سے نکلا انہوںنے اس کے گھوڑے کی دم پکڑ لی ایرانی نے بار بار مہمیز کیا لیکن گھوڑا جگہ سے ہل نہ سکا۔ آخر سوار اتر کر بھاگ نکلا اوریہ اچھل کر گھوڑے کی پیٹھ پر جا بیٹھے۔

سعدؓ نے یہ دیکھ کر کہ ہاتھی جس طرح رخ کرتے ہیں دل کا دل پھٹا جاتا ہے۔ ضخم و سلم وغیرہ کو جو پارسی تھے اور مسلمان ہو گئے تھے بلا کر پوچھا کہ اس بلائے سیاہ کا کیا علاج ہے؟ انہوںؤنے کہا کہ ان کی سونڈ اور آنکھیں بیکار کر دی جائیں۔ تمام غول میں دو ہاتھی نہایت مہیب  او رکوہ پیکر تھے اور گویا کہ ہاتھیوں کے سردار تھے۔ ایک ابیض اور دوسرا حب کے نا م سے مشہور تھا۔ سعدؓ نے قعقاع عاصم حمال ربیل کو بلا کر کہا کہ یہ مہم تمہارے ساتھ ہے۔ قعقاع نے کچھ سوار اور پیادے بھیج دیے کہ ہاتھوں کو نرغہ میںلیں پھر خود برچھا ہاتھ میں کے کر پیل سفید کی طرف بڑھے۔ عاصم بھی ساتھ تھے۔ دونو ںنے ایک ساتھ برچھے مارے کہ آنکھوں میں پیوست ہو گئے۔ ہاتھی جھرجھری ے کر پیچھے ہٹا۔ ساتھ ہی قعقاع کی تلوار پڑی اور سونڈ مستک سے الگ ہوگئی۔ ادھر ربیل اور جمال نے حرب پر حملہ کیا وہ زخم کھا کر بھاگا اور تمام ہاتھی اس کے پیچھے ہو لیے او دم کی دم می یہ سیاہ بادل بالک چھٹ گیال۔

اب بہادروں کو حوصلہ افزائی کا موقع ملا اور اس زور کا رن پڑا کہ نعروں کی گرج سے زمین دہل دہل پرتی تھی۔ چنانچہ اسی مناسبت سے اس معرکے کو لہلتہ الہریر کہتے ہیںَ ایرانیوں نے فوج نئے سرے سے ترتیب دی قلب میں اور دائیں بائیں تیرہ تیرہ صفیں قائم کیں مسلمانوںنے بھی تمام فوج کو سمیٹ کر یکجا کیا اور آگے پیچھے تین پرے جمائے۔ سب سے آگے سوارو ں کا رسالہ تھا ان ے بعد پیدل فوجیں اور سب سے پیچھے تیر انداز۔ سعدؓ نے حکم دیا تھا کہ تیسری تکبیر پر حملہ کیا جائے لیکن ایرانیوں نے جب تیر برسانے شروع کیے تو قعقاع سے ضبط نہ ہو سکا او راپنے رکاب کی فوج لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ فوجی اصول کے لحاظ سے یہ حرکت نافرمانی میں داخل تھی۔ تاہم لڑائی کا ڈھنگ اور قعقاع کا جوش دیکھ کر سعدؓ کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ اللھم اغفرلہ وانصرہ یعنی اے اللہ قعقاع کو معاف کرنا اور اسکا مددگا ر رہنا۔ قعقاع کو دیکھ کر بنو اسد اور بنو اسد کی دیکھادیکھی نحع بحیلہ کندہ سب ٹوٹ پڑے۔ سعدؓ ہر قبیلے کے حملے پر کہتے جاتے تھے کہ اللہ اس کو معاف کرنا اور اس کامددگار رہنا۔ اول اول سواروں کے رسالے نے حملہ کیا لیکن ایرانی فوجیں جو دیوار کی طرح کھڑی تھیں ا س ثابت قدمی سے لڑیں کہ گھوڑے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ دیکھ کر سب گھوڑوں سے کود پڑے اور پیادہ پا  حملہ آور ہوئے۔

ایرانیوں کا ایک رسالہ سرتاپا لوہے میں غرق تھا۔ قبیلہ حمیفہ نے اس پر حملہ کیا لیکن تلواریں زرہوں پر اچٹ اچٹ کر رہ گئیںَ سردار قبیلہ نے للکارا ۔ سب نے کہا زرہوں پر تلواریں کام نہیں دیتیں۔ اس نے غصے میں آ کر ایک ایرانی پر برچھے کا وار کیا کہ کمر توڑ کر نکل گیا۔ یہ دیکھ کر اوروں کو بھی ہمت ہوئی اور اس بہادری سے لڑے کہ رسالہ کا رسالہ برباد ہو گیا۔

تمام رات ہنگامہ کا رزار گر رہا لوگ لڑتے لڑتے تھک کر چورہو گئے اورنیند کے خمار میں ہاتھ پائوں بیکار ہوئے جاتے تھے۔ اس پر بھی جب فتح و شکست کا فیصلہ نہ ہوا تو قعقاع نے سرداران قبائل میںسے چند نامور بہادر انتخاب کیے اور سپہ سالارفوج(رستم) کی طرف رخ کیا۔ ساتھ ہی قیس‘ اشعث عمرو معدی کرب‘ ابن ذی البردین نے جو اپنے اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ ساتھیو ں کو للکارا کہ دیکھو یہ لوگ اللہ کی راہ میں تم سے آگے نہ نکلنے پائیں اور سرداروں نے بھی جو بہادری کے ساتھ زبان آو ر تھے اپنے قبیلوں کے سامنے کھڑے ہو کر اس جوش سے تقریریں کیں کہ تمام لشکر مین ایک آگ لگ گئی۔ سوار گھوڑوں سے کودپڑے۔ اور تیروکمان پھینک کر تلواریں گھسیٹ لیںَ اس جوش کے ساتھ تمام فوج سیلاب کی طرح بڑھی اور فیرزان اور ہرمز ان کو دباتے ہوئے رستم کے قریب پہنچ گئی۔ رستم تخت پر بیٹھا فوج کو لڑا رہا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر تخت سے کود پڑا اور دیر تک مردانہ وار لڑتا رہا۔ جب زخموںسے بالکل چور ہو گیا تو بھاگ نکلا۔ ہلال نام ایک سپاہی نے تعاقب کیا۔ اتفاق سے ایک نہر سامنے آ گئی۔ رستم کود پڑا کہ تیر کر نکل جائے ساتھ ہلال بھی کودے اور ٹانگیں پکڑ کر باہر کھینچ ائے پھر تلوار سے کام تمام کر دیا۔

ہلال نے لاش خچروں کے پائوں میں ڈال دی اورتخت پر چڑھ کر پکارے کہ رستم کا میںنے خاتمہ کر دیا ۱؎ ایرانیوں نے دیکھا تو تخت سپہ سالار سے خالی تھا۔ تمام فوج میں بھاگڑ مچ گئی۔ مسلمانوں نے دور تک تعاقب کیا اور ہزاروں لاشیں میدان میںبچھا دیںَ افسوس ہے کہ اس واقعہ کو ہمارے ملک الشعراء نے قومی جوش کے اثر سے بالکل غلط لکھاہے۔

برآمد خرد شے بکر دار رعد

زیک سوی رستم زیک سوے سعد

چودیدہ ای رستم بخون تیرہ گشت

جوان مرد تازی برو چیرہ گشت

ہمارے شاعر کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سعدؓ اس واقعہ میںشریک ہی نہ تھے۔

شکست کے بعد بھی چند نامور افسر جو ریاستوں کے مالک تھے میدان میں ثابت قدم رہے۔ ان میں سے شہریار‘ ابن الہربد‘ فرخان اہوازی‘ خسروشنوم ہمدانی‘ نے مردانہ وار جان دی لیکن ہرمزان اہود قارن موقع پا کر بھاگ نکلے۔ ایرانیوں کے کشتوں کا تو شمار نہ تھا مسلمان بھی کم و بیش چھ ہزار کام آئے۔

اس فتح میں چونکہ سعدؓ خود شریک جنگ نہ تھے فوج کو ان کی طرف سے بدگمانی رہی۔ یہاں تک کہ ایک شاعر نے کہا:

وقاتلت حتی انزل اللہ نصرہ

وسعد بباب القادسیۃ معصم

’’میں برابر لڑتا رہا یہاں تک کہ اللہ نے اپنی مدد بھیجی لیکن سعد قادسیہ کے دروازے سے لپٹے رہے‘‘۔

قابنا وقد امت نساء کثیرۃ

ونسوۃ سعد لیس فیھن ایم

’’ہم واپس پھرے تو سینکڑوں عورتیں بیوہ ہو چکی تھیںَ سعدؓ کی کوئی بیوی بیوہ نہیں ہوئی۔‘‘

۱؎؎  علامہ بلاذری نے لکھا ہے کہ رستم کے قاتل کا نام معلوم نہیںلیکن عمرو معدی کرب طلیحہ بن خویلد قرط بن جماع ان تینوںنے اس پر حملہ کیا تھا۔ میں نے جو روایت لکھی ہے وہ الاخبار الطوال کی روایت ہے۔

یہ اشعار اسی وقت بچے بچے کی زبان پر چڑھ گئے۔ یہاں تک کہ سعدؓ نے تام فوج کو جمع کر کے آبلوں کے زخم دکھائے اور معذوری ثابت کی۔

سعدؓ حضرت عمرؓ کو نامہ فتح لکھا اور دونوں طرف کے مقتولوں کی تفصیل لکھی۔ حضرت عمرؓ کا یہ حال تھا کہ جس دن سے قادسیہ کا معرکہ شروع ہوا تھا ہر روز آفتاب نکلتے مدینے جاتے اور قاصد کی راہ دیکھتے۔ ایک دن معمول کے مطابق نکلے ادھر سے ایک شتر سوار آ رہا تھا۔ بڑھ کر پوچھا کہ کدھر سے آتے ہو؟ وہ سعدؓ کا قاصدتھا اورمژد ہ فتح لے کر آیا تھا۔ جب معلوم وہا کہ سعدؓ کاقاصد ہے تو اس سے حالات پوچھنے شروع کیے اس نے کہا اللہ نے مسلمانوں کو کامیاب کیا۔ حضرت عمرؓ رکاب کے برابر دوڑے جاتے تھے اور حالات پوچھتے جاتے تھے شتر سوار شہرمیں داخل ہوا تو دیکھاکہ جو شخص سامنے سے آتا ہے ان کو امیر المومنین کے لقب سے پکارتاہے ڈر سے کانپ اٹھا کہ حضرت نے مجھ کو اپنا نام کیوںنہ بتایا میںاس گستاخی کا متکب نہ ہوتا۔ فرمایانہیںکچھ حرج نہیں تم سلسلہ کلام کو نہ توڑو چنانچہ اسی طرح اس کے رکاب کے ساتھ ساتھ گھر تک آئے مدینے میںپہنچ کر مجمع عام میں فتح کی خوشخبری سنائی اورایک نہایت پر اثر تقریر کی جس کا اخیر یہ فقرہ تھا کہ مسلمانو میںبادشاہ نہیںہوں تم کو غلام بنانا چاہتا ہوں میں خود اللہ کا غلام ہوں البتہ خلافت کا بار میرے سر پر رکھا گیا ہے ۔ اگرمیں اس طرح تمہارا کام کروں کہ تم چین سے گھروں میں سوئو تو میری سعادت ہے اور اگر میری یہ خواہش ہو کہ تم میرے درواز ے پر حاضری دو تو میری بدبختی ہے۔ میں تم کو تعلیم دینا چاہتا ہوں لیکن قول سے نہیں بلکہ عمل سے۔

قادسیہ کے معرکے میں جو عجم یا عرب مسلمانوں سے لڑے تھے ان میں سے ایسے بھی تھے جو دل سے لڑنا نہیں چاہتے تھے بلکہ زبردستی پکڑ کر لائے گئے تھے۔ بہت سے لوگ گھر چھوڑ کر نک گئے۔ فتح کے بعد یہ لوگ سعدؓ کے پاس آئے اور امن کی درخواست کی۔ سعدؓ نے دربار خافت کو لکھا۔ حضرت عمر ؓ نے صحابہؓ کو بلا کر رائے لی اور سب نے بالاتفاق منظور کر لیا۔ غرض تمام ملک کو امن دے  دیا گیا جو لوگ گھر چھوڑ کر نکل گئے تھے واپس آ آ کر  آباد ہوتے گئے ۔ رعایا کے ساتھ یہ ارتباط بڑھا کہ اکثر بزرگوں نے ا ن میں رشتہ داریاں کر لیں۔

ایرانیو ں نے قادسیہ سے بھاگ کر بابل میں قیام کیا تھا اورچونکہ یہ ایک محفوظ س مستحکم مقام تھا اطمیان کے ساتھ جنگ کے تمام سامان مہیا کر لیے اور فیروازان کو سردار لشکر قرار دیا تھا۔ سعدؓ نے ان کے استعصال کے لیے ۱۵ھ (۶۳۶ء ) میں بابل کا ارادہکیا اور چند سردار آگے روانہ کیے کہ راستہ صاف رکتے جائیں۔ چنانچہ مقام برس میں بصیری سد راہ ہوا اور میدان جنگ میں زخم کھا کر بابل کی طرف بھاگ گیا برس کے رئیس نے جس کانام بسطام تھا صلح کر لی اور بابل تک موقع بہ موقع پل تیار کردا دیے کہ اسلامی فوجیں بے تکلف گزر جائیں۔ بابل میں اگرچہ عجم کے بڑے بڑے سردار نحیر جان ہرمزان‘ مہران مہرجان وغیرہ جمع تھے لیکن پہلے ہی حملے  میں بھاگ نکلے۔ سعدؓ نے خود بابل میں قیام کیا اور زہرہ کی افسری میںکچھ فوجیں آگے روانہ کیںَ عجمی فوجیں بابل سے بھاگ کر کوثی میںٹھہری تھیں اور شہریار جو رئیس زادہ تھا ان کا سپہ سالار تھا۔ زہرہ کوثی سے گزرے تو شہریار نے آگے بڑھ کر مقابل ہوا اور میدان جنگ میں آ کر پکارا کہ جو بہادر تمام لشکر میںانتخاب ہو مقابلے کو آئے۔ زہرہ نے کہا کہ میںنے خود تیرے مقابلے کا ارادہ کیا تھا لیکن تیرا یہ دعویٰ ہے تو کوئی غلام تیرے مقابلے کو جائے گا۔ یہ کہہ کر ناب کو جو قبیلہ تمیم کاغلام تھا اشارہ کیا اس نے گھوڑا آگے بڑھایا شہریار دیو کا سا تن اور توش رکھتا تھا۔ نابل کو کمزور دیکھ کر نیزہ پھینک کر گردن میں ہاتھ ڈال کر زور سے کھینچا اور زمین پر گرا کر سینے پر چڑھ بیٹھا۔ اتفاق سے شہریار کا انگوٹھا نابل کے منہ میں آ گیا۔ ناب نے اس زور سے کاٹا کہ شہریار تلملاکے رہ گیا۔ نابل موقع پا کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور تلوار سے پیٹ چاک کر دیا۔ شہریار نہایت عمدہ لباس اور اسلحہ سے آراستہ تھا۔ نابل نے زرہ وغہرہ اس کے بدن سے اتار کر سعدؓ کے آگے لا کر رکھ دیں۔ سعدؓ نے عبرت کے لیے حکم دیا کہ نابل وہی لبا س اور اسلحہ سج کر آئے۔ چنانچہ شہریار کے زرق برق لباس اور اسلحہ سے آراستہ ہو کر وہ مجمع عام میں آیا تو لوگوں کی آنکھوںمیں زمانے کی نیرنگیوں کی تصویر پھر گئی۔

کوثی ایک تاریخی مقام ہے۔ حضرت ابراہیم کو نمرود نے یہیں قید رکھا تھا۔ چنانچہ قید خانے کی جگہ اب تک محفوظ تھی۔ سعدؓ اس کی زیارت کو گئے اور درود پڑھ کر یہ آیت پڑھی۔

تلک الایام نداولھا بین الناس (۳؍آل عمران : ۱۴۰)

کوثی سے آگے پائے تخت کے قریب بہرہ شیر ایک مقام تھا۔ یہاں ایک شاہی رسالہ رہتا تھا جو ہر روز ایک بار قسم کھا کر کہتا تھا کہ جب تک ہم ہیں سلطنت فارس پر کبھی زوال نہیں آ سکتا۔ یہاں ایک شیر پلا ہوا تھا جو کسریٰ سے بہت ہلا ہوا تھا اور اسی لیے اس شیر کو بحرہ شیر کہتے تھے۔ سعدؓ کا لشکر قریب پہنچا تو وہ تڑپ کر نکا لیکن ہاشم نے جو ہر اول کے افسر تھے اس صفائی سے تلوار ماری کہ وہیں ڈھر ہو کر رہ گیا۔ سعدؓ نے اس بہادری پر ان کی پیشانی چوم لی۔

آگے بڑھ کر سعدؓ نے بہرہ شیر کا محاصرہ کر لیا اور فوج نے ادھر ادھر پھیل کر ہزاروںآدمی گرفتار کر لیے شہرزاد نے جو ساباط کا رئیس تھا سعدؓ سے کہایہ معمولی کاشتکار ہیں ان کے ید کرنے سے کیا حاصل چنانچہ سعد ؓ نے ان کانام دفتر میں درج کر لیے اور چھوڑ دیا۔ آس پاس کے تمام رئیسوں نے جزیہ قبول کر لیا لیکن شہر پر قبضہ نہ ہوسکا۔ دو مہینے تک برابر محاصرہ رہا ایرانی کبھی کبھی قلعہ سے نکل کر معرکہ آراء ہوتے تھے۔ ایک دن بڑے جوش و خروش سے سب نے مرنے پرکمریں باندھیں اور تیر برساتے ہوئے نکلے۔ مسلمانوں نے بھی برابر کاجواب دیا۔ زہرہ جو ایک مشہور افسر تھے اور معرکوں میں سب سے آگے آگے رہتے تھے ان کی زرہ کی کڑیاں کہیں کہیں سے ٹوٹ گئیں۔ لوگوں نے کہا کہ ا س زرہ کو بدل کر نئی پہن لیجیے۔ بولے کہ میں ایسا خوش قسمت کہاں ہوں کہ دشمن کے تیر سب کو چھوڑ کر میری ہی طرف آئیں۔ اتفاق یہ کہ پہلا تیر انہی کو آ کر لگا۔ لوگوں نے نکالنا چاہا تو منع کیا کہ جب تک یہ بدن میں ہے اس وقت تک میں زندہ بھی ہوں۔ چنانچہ اسی حات میں حملہ کرتے بڑے اور شہر براز کو جو ایک نامی افسر تھا تلوار سے مارا۔ تھوڑی دیر لڑکر ایرانی بھاگ چلے اور شہر واولںنے صلح کا پھریرا اڑایا۔

بہرہ شیر اور مدائن میں صرف دجلہ ہائل تھا۔ سعدؓ بہرہ شیر سے بڑھے توآگے دجلہ تھا۔ ایرانیوںنے پہلے سے جہاں جہاں پل بندھے تھے توڑ کر بیکار کر دیے تھے۔ سعدؓ دجلہ کے کنارے پر پہنچے تو نہ پل تھا اورنہ کشتی۔ فوج کی طرف مخاطب ہو کر کہا برادران اسلام دشمن نے ہر طر ف سے ہو کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے۔ یہ مہم بھی سر کر لو تو پھر مطلع صاف ہے۔ یہ کہہ کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ ان کو دیکھ کر اوروں کو بھی ہمت ہوئی اوردفعتہ سب نے گھوڑے دریامیں ڈال دیے۔ دریا اگرچہ نہایت ذخار اور مواج تھا لیکن ہمت اور جوش نے طبیعتوں میںیہ استقلال پیداکر دیا تھا کہ موجیںبرابر گھوڑوں سے آ آ کرٹکراتی تھیںَ اور یہ رکاب سے رکاب ملا کر آپس میں باتیں کرتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ کریمین و یسارکی جو ترتیب تھی اس میںبھی  فرق نہ آیا۔ دوسرے کنارے پر ایرانی یہ حیرت انگیز تماشا دیکھ رہے تھے۔ جب فوج بالکل کنارے کے قریب آ گئی تو ان کو خیال ہوا کہ یہ آدمی نہیںجن ہیںَ چنانچہ دیواں آمدند دیواں آمدند ۱؎ کہتے ہوئے بھاگے۔ تاہم سپہ سالار خرز اد تھوڑی سی فوج کے ساتھ جما رہا اور گھا ٹ پر تیر اندازوں کے دستے متعین کیے۔ ایک گروہ دریا میں اتر کر سد راہ ہوا لیکن مسلمان سیلاب کی طرح بڑھتے چلے گئے اور تیر اندازوں کو خس و خاشاک کی طرح ہٹاتے پار نکل گئے۔ یزدگرد نے حرم اور خاندان شاہی کوپہلے ہی حلوان روانہ کر دیا تھا۔ یہ خبر سن کر خود بھی شہر چھوڑ کرنکل گیا سعدؓ مدائن میں داخل ہوئے تو ہر طرف سناٹا تھا۔ نہایت عبرت ہوئی اور بے  اختیار یہ آیتیں زبان سے نکلیں:

۱؎  تاریخ طبری میں بعینہ یہی الفاظ ہیں۔

کم ترکو ا من جنت وعیون و زروع ومقام کریم  و نعمۃ کانوا فیھا فکیھین  کذالک واورثنھا قوما اخرین

(۴۴؍الدخان: ۲۵‘۲۸)

ایوان کسریٰ میں تخت شاہی کی بجائے منصب منبر ہوا۔ چنانچہ جمعہ کی نماز اسی میں ادا کی گء اوریہ پہلا جمعہ تھا جو عراق میں ادا کیا گیا۔ ہمارے فقہاکو تعجب ہو گا کہ سعدؓ نے باوجودیکہ اکابر صحابہؓ می سے تھے اوربرسوں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہے تھے عالمگیر و محمود کی تقلید نہیں کی بلکہ ایوان میں جس قدر مجسم تصویریں تھیں سب برقرار رہنے دیں۔ ۱؎

دو تین دن ٹھہر کر سعدؓ  نے حکم دیا کہ ایوانات شاہی کا خزانہ اور نادرات لا کر یکجا کیے جائیںَ کیانی سلسلے سے لے کر نوشیرواں کے عہد تک کی ہزاروں یادگار چیزیںتھیں۔ خاقان چین‘ راجہ داہر‘ قیصر روم‘ نعمان بن منذر‘ سیائوش بہرام بوبیں کی زرہیں اور تلواریں تھیں کسریٰ ہرمز اور قباد کے خنجر تھے نوشیروان کا تاج زرنگار اور ملبوس شاہی تھا۔ سونے کا ایک گھوڑا تھا جس پر چاندی کا زین کسا ہوا تھا اور سینے پر یاقوت اور زمرد جڑے ہوء ے تھے چاندی کی ایک اونٹنی تھی جس پر سونے کی پالان تھی اور مہار میں بیش قیمت یاقوت اور زمرد جڑے ہوئے تھے۔ ناقہ سوار سر سے پائوں تک جواہرات سے مرصع تھا سب سے عجیب و غریب ایک فرش تھا جس کو ایرانی بہار کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ فرش اس غرض سے تیار کیا گیا تھا کہ جب بہار کا موسم نکل جاتا تو اسپر بیٹھ کر شراب  پیتے تھے۔ اس رعایت سے اس میں بہار کے تمام سامان مہیا کیے گئے تھے۔ بیچ میںسبزے کا چمن تھا۔ چارو ں طرف جدولیں تھیںَ ہر قسم کے درخت اور درختوں میں شگوفے اور پھول اور پھل تھے۔ طرہ یہ کہ جو کچھ تھا زروجواہرات کا تھا۔ یعنی سونے کی زمین زمرد کا سبزہ پکھراج کی جدولیں سونے چاندی کے درخت حریر کے پتے جواہرات کے پھل ۔

یہ تمام سامان فوج کی عام غارت گری میں ہاتھ آیاتھا لیکن اہل فوج ایسے راست باز اور دیانت دار تھے کہ جس نے جو چیزپائی تھی بجنسہ لاکر افسر کے پاس حاضر کر دی تھی۔چنانچہ جب سب سامان لا کر سجایا گیا تو دور دور تک میدان جگمگااٹھا تو خود سعدؓ کو حیرت ہوئی۔ بار بار تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جن لوگوںنے ان نادرات کوہاتھ نہیں لگایا بے شبہ انتہاکے دیانت دار ہیں۔

مال غنیمت حسب قاعدہ تقسیم ہو کر پانچواں حصہ دربار خلافت میں بھیجا گیا۔ فرش اور قدیم یادگاریں بجنسہ بھیجی گئیں کہ اہل عرب ایرانیوں کے  جاہ و جلال اور اسلام کی فتح و اقبال کا تماشا دیکھیں۔ حضرت عمرؓ کے سامنے جب یہ سامان چن گئے تو ان کو بھی فوج کی دیانت اوراستغناء پر حیرت ہوئی۔

۱؎  علامہ طبری نے جو بڑے محدث تھے تصریح کے ساتھ اس واقعہ کو لکھا ہے۔

محلم نامی مدینہ میں ایک شخص تھا جو نہایت موزوں قامت اورخوبصورت تھا۔ حضرت عمرؓ نے حکم دیا نوشیروان کے ملبوسات اس کو لا کر پہنائے جائیں۔ یہ ملبوسات مختلف حالتوں کے  تھے۔ سواری کا جدا دربار کا جدا‘ جشن کا جدا‘ تہنیت کا جدا‘ چنانچہ باری باری تمام ملبوسات محلم کو پہنائے گئے۔ جب ملبوس خاص اور تاج زرنگار پہنا تو تماشائیوں کی آنکھیںخیرہ ہو گئیں اور دیر تک لوگ حیرت سے تکتے رہے۔ فرش کی نسبت لوگوں کی یہ رائے تھی کہ تقسیم نہ کیا جائے خود حضرت عمرؓ کا بھی یہی منشا تھا لیکن حضرت علیؓ کے اصرا ر سے اس بہار پر بھی خزاں آئی اور دولت نوشیروانی کے مرقع کے پرزے اڑ گئے۔

یورپ کے موجودہ مذاق کے موافق یہ ایک وحشیانہ حرکت تھی لیکن ہر زمانے کا مذاق جداہے وہ مقدس زمانہ جس میں زخارف دنیوی کی عزت نہیں کی جاتی تھی۔ دنیاوی یادگاروں کی کیا پروا کر سکتا تھا۔

جلولاء ۱؎ ۱۶ ھ (۷۳۷ء )

یہ معرکہ فتوحات عراق کا خاتمہ تھا۔ مدائن کی فتح کے بعد ایرانیوں نے جلولاء میں جنگ کی تیاریاں شروع کیں اور ایک بڑی فوج جمع کرلی۔ خرزا د نے جو رستم کا بھائی اور سر لشکر تھا نہایت تدبیر سے کام لیا۔ شہر کے گرد خندق تیار کرائی اور راستوں اور گزرگاہوں پر گوکھرو بچھا دیے۔ سعد ؓ کو یہ خبر پہنچی تو حضرت عمرؓ کو خط لکھا۔ وہاں سے جواب آیا کہ ہاشم بن عتبہ بارہ ہزار فوج لے کر اس مہم پر جائیں اور مقدمتہ الجیش پر قعقاع‘ میمنہ پر مسعر بن مالک‘ میسرہ پر عمرو بن مالک‘ ساقہ پر عمرو بن مرہ مقرر ہوں۔ ہاشم مدائن سے روانہ ہو کر چوتھے دن جلولاء پہنچے اور شہر کا محاصرہ کیا۔ مہینوں محاصرہ رہا اور ایرانی وقتاً فوقتاً قلعہ سے نکل کر حملہ آور ہوتے تھے۔ اس طرح ۸۰ معرکے ہوئے لیکن ایرانیوں نے ہمیشہ شکست کھائی۔ تاہم چونکہ شہر میں ہر طرح کا ذخیرہ مہیا تھا اور لاکھوں کی جمعیت تھی۔ بے دل نہیں ہوتے تھے۔ ایک دن بڑے زور شور سے نکلے۔ مسلمانوںنے بھی جم کرمقابلہ کیا۔ اتفاق سے یہ کہ دفعتہ اس زور کی آندھی چلی کہ زمین و آسمان میں اندھیرا ہو گیا ایرانیوں نے یہ دیکھ کر جا بجا خندق کو پاٹ کر راستہ بنایا۔ مسلمانوں کو یہ خبر ہوئی تو انہوںنے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور حملے کی تیاریاں کیںَ ایرانیوں کو بھی دم دم کی خبریں پہنچتی تھیں۔

۱؎  جلولاء بغداد کے سواد میں ایک شہر ہے جو بسبب چھوٹے ہونے کے نقشے میں مندرج نہیںہے بغداد سے خراسان جاتے وقت راہ میں پڑتاہے۔

اسی وقت مسلمانوں کی آمد کے رخ گوکھرو بچھوا دیے اور فوج کو سروسامان سے درست کر کے قلعہ کے دروازے پر جما دیا۔ دونوں حریف اس طرح دل توڑ کر لڑے کہ گیلتہ الہریرکے سوا کبھی نہیں لڑے تھے۔ اول تیرو ں کا مینہ برسا ترکش خای ہو گئے تو بہاروں نے نیزے سنبھالے یہاں تک کہ نیزے بھی ٹوٹ گئے اور تیغ و خنجر کا معرکہ شروع ہوا۔ قعقاع بڑی دلیری سے لڑ رہے تھے اور برابر آگے بڑھتے جاتے تھے۔ یہاں تک  کہ قلعہ کے پھاٹک تک پہنچ گئے لیکن سپہ سالار فوج یعنی بنی ہاشم پیچھے رہ گئے اور فوج کا بڑا حصہ انہی کی رکاب میں تھا۔ قعقاع نے نقیبوں سے کہلوا دیا کہ سپہ سالار قلعہ کے دروازے تک پہنچ گیا ہے۔ فوج نے قعقاع کو ہاشم سمجھا اور دفعتہ ٹوٹ کر گی۔ ایرانی گھبرا کر ادھر ادھر بھاگے لیکن جس طرف جاتے گھکھرو بچھے ہوئے تھے۔ مسلمانوں نے بے دریغ قتل کرنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ مورخ طبعی کی روایت کے مطابق ایک لاکھ آدمی جان سے مارے گئے اورتین کروڑ غنیمت ہاتھ آئی۔

سعدؓ نے مژدہ فتح کے ااتھ پانچواں حصہ مدینہ بھجا زیاد نے جو مژدہ فتح لے کر گئے تھے فصاحت کے ساتھ جنگ کے حالات بیان کیے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ان واقعات کو کسی طرح مجمع عام میں بیان کر سکتے ہو؟ زیاد نے کہا میں کسی سے مرعوب نہیںہوتا تو آپ سے ہوتا۔ چنانچہ مجمع عام ہوا اور انہوںنے فصاحت و بلاغت سے تمام واقعات بیان کیے کہ معرکہ کی تصویر کھینچ دی۔ حضرت عمرؓ ؤبول اٹھے خطیب اس کو کہتے ہیں انہوں نے برجستہ کہا:

ا جندنا اطلقونا بالفعال لساننا

اس کے بعد زیاد نے غنیمت کا ذخیرہ حاضر کیا لیکن اس وقت شام ہو چکی تھی اس لیے تقسیم ملتوی کر دی اور صحن مسجد میں ان کا ڈھیر لگا دیا۔ عبدالرحمن بن عوف اور عبداللہ بن ارقمؓ نے رات بھر پہرہ دیا۔ صبح کو مجمع عام میں چادر ہٹائی گئ۔ درہم و دنار کے علاوہ انبار کے انبار جواہرات تھے۔ حضرت عمرؓ بے ساختہ روپڑے۔ لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ یہ رونے کا کیا محل ہے؟ فرمایا جہاں دولت کا قدم آتا ہے رشک و حسد بھی آتا ہے۔

یزدگر د کو جلولاء کی شکست کی خبر پہنچی تو حلوان چھوڑ کر رے کو روانہ ہو گیا اور خسرشنوم کو جو ایک معزز افسر تھا چند رسالوں کے ساتھ حلوان کی حفاظت کے لیے چھوڑ گیا۔ سعدؓ خود جلولاء میں ٹھہرے اور قعقاع کو حلوان کی طرف روانہ کیا۔ قعقاع قصر شیروان (حلوان سے تین میل پر ہے) کے قریب پہنچے تھے کہ خسروششنوم خود آگے بڑھ کر مقابل ہوا لیکن شکست کھا کر بھاگ نکلا۔ قعقاع نے حلوان پہنچ کر مقام کیا اور ہر طرف امن کی منادی کرا دی۔ اطراف کے رئیس آ آ کر جزیہ قبول کرتے جاتے تھے۔ اور اسلام کی حمایت کرتے جاتے تھے۔ یہ فتح عراق کی فتوحات کا خاتمہ تھی کیونکہ عراق کی حد یہاں ختم ہو جاتی ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ : خوزستان کی فتح - علامہ شبلی نعمانی ؒ

 خوزستان1؎

15ھ (636ئ) ہجری میں مغیرہ بن شعبہ بصرہ کے حاکم مقرر ہوئے اور چونکہ خوزستان کی سرحد بصرہ سے ملی ہوئی ہے، انہوں نے خیال کیا کہ اس کی فتح کے بغیر بصرہ میں کافی طور سے امن و امان قائم نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ 16ھ (637ئ) کے شروع میں اہوازپر جس کو ایرانی ہرمز شہر کہتے تھے، حملہ کیا۔ یہاں کے رئیس نے ایک مختصر سی رقم دے کر صلح کر لی۔ مغیرہ وہیں رک گئے۔ 17 ہجری (638ئ) میں مغیرہ معزول ہو کر ان کی جگہ ابو موسیٰ اشعری ؓ مقرر ہوئے۔ اس انقلاب میں اہواز کے رئیس نے سالانہ رقم بند کر دی اور اعلانیہ بغاوت کا اظہار کیا۔ مجبوراً ابو موسیٰؓ نے لشکر کشی کی اور اہواز کو جا گھیرا۔ شاہی فوج جو یہاں رہتی تھی، اس نے بڑی پامردی سے مقابلہ کیا لیکن آخر شکست کھائی اور شہر فتح ہو گیا۔ غنیمت کے ساتھ ہزاروں آدمی لونڈی غلام بن کر تقسیم کئے گئے، لیکن جب حضرت عمرؓ کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ سب رہا کر دئیے جائیں۔ چنانچہ وہ سب چھوڑ دیئے گئے۔ ابو موسیٰ ؓ نے اہواز کے بعد مناذر کا رخ کیا۔ یہ خود ایک محفوظ مقام تھا۔ شہر والوں نے بھی ہمت اور استقلال سے حملے کو روکا۔ اس معرکہ میں مہاجر بن زیاد جو ایک معزز افسر تھے، شہید ہوئے اور قلعہ والوں نے ان کو سرکاٹ کر برج کے کنگرہ پر لٹکا دیا۔

الفاروق : عمو اس کی وباء 639ء /18ھ- علامہ شبلی نعمانی ؒ

 

عمو اس کی وباء 639ء 18ھ

اس سال شام، مصر اور عراق میں سخت وبا پھیلی اور اسلام کی بڑی بڑی یادگاریں خاک میں چھپ گئیں۔ وبا کا آغاز سنہ17ھ کے اخیر میں ہوا اور کئی مہینے تک نہایت شدت رہی۔ حضرت عمرؓ کو اول جب خبر پہنچی تو اس کی تدبیر اور انتظام کے لئے خود روانہ ہوئے۔ سرغ2؎ پہنچ کر ابو عبیدہ ؓ وغیرہ سے جو

1؎ دیکھو کتاب الخراج، قاضی ابو یوسف ص87اور تاریخ طبری صفحہ 25,27

2؎ طبری ، صفحہ25,28

3؎ایک مقام کا نام ہے۔

ان کے استقبال کو آئے تھے معلوم ہوا کہ بیماری کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ مہاجرین اول اور انصار کو بلایا اور رائے طلب کی۔ مختلف لوگوں نے مختلف رائیں دیں لیکن مہاجرین فتح نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ کو حکم دیا کہ پکار دیں کہ کل کوچ ہے۔ حضرت ابو عبیدہؓ چونکہ تقدیر کے مسئلہ پر نہایت سختی کے ساتھ اعتقاد رکھتے تھے ان کو نہایت غصہ آیا اور طیش میں آ کر کہا:

افرار امن قدر اللہ

’’ یعنی اے عمر ! تقدیر الٰہی سے بھاگتے ہو‘‘

حضرت عمرؓ نے ان کی سخت کلامی کو گوارا کیا اور کہا:ـ

نعم افر من قضاء اللہ الی قضاء اللہ

’’ یعنی ہاں تقدیر الٰہی سے بھاگتا ہوں مگر بھاگتا بھی تقدیر الٰہی کی طرف ہوں‘‘

غرض خود مدینہ چلے آئے اور ابو عبیدہؓ کو لکھا کہ مجھ کو تم سے کچھ کام ہے۔کچھ دنوں کے لئے یہاں آ جاؤ۔ ابو عبیدہؓ کو خیال ہوا کہ وبا کے خوف سے بلایا ہے۔ جواب میں لکھ بھیجا کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو گا۔ میں مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے یہاں سے ٹل نہیں سکتا۔ حضرت عمرؓ خط پڑھ کر روئے اور لکھا کہ ’’ فوج جہاں اتری ہے وہ نشیب اور مرطوب جگہ ہے، اس لئے کوئی عمدہ موقع تجویز کر کے وہاں اٹھ جاؤ۔‘‘ ابوعبیدہؓ نے اس حکم کی تعمیل کی اور جابیہ میں جا کر مقام کیا جو آب و ہوا کی خوبی میں مشہور تھا۔

جابیہ پہنچ کر ابو عبیدہؓ بیمار پڑے۔ جب زیادہ شدت ہوئی تو لوگوں کو جمع کیا اور نہایت پر اثر الفاظ میں وصیت کی۔ معاذ بن جبلؓ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور چونکہ نماز کا وقت آ چکا تھا، حکم دیا کہ وہی نماز پڑھائیں۔ ادھر نماز ختم ہوئی، ادھر انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ بیماری اسی طرح زوروں پر تھی او رفوج میں انتشار پھیلا ہوا تھا۔ عمرو بن العاص ؓ نے لوگوں سے کہا کہ یہ وبا انہی بلاؤں سے ہے جو بنی اسرائیل کے زمانے پر مصر نازل ہوئی تھیں اس لئے یہاں سے بھاگ چلنا چاہئے۔ معاذؓ نے سنا تو منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھا اور کہا کہ یہ وباء بلا نہیں بلکہ اللہ کی رحمت ہے۔ خطبہ کے بعد خیمہ میں آئے تو بیٹے کو بیمار پایا۔ نہایت استقلال کے ساتھ کہا:

یا اینی الحق من ربک فلا تکونن من الممترین

یعنی ’’ اے فرزند! یہ اللہ کی طرف سے ہے، دیکھ شبہہ میں نہ پڑنا‘‘ بیٹے نے جواب دیا:

ستجدنی انشاء اللہ من الصابرین

یعنی ’’ اللہ نے چاہا تو آپ مجھ کو صابر پائیں گے‘‘ یہ کہہ کر انتقال کیا۔ معاذ بیٹے کو دفنا کر آئے تو خود بیمار پڑے عمرو بن العاصؓ کو خلیفہ مقرر کیا اور اس خیال سے کہ زندگی اللہ کے قرب کا حجاب تھی، بڑے اطمینان اور مسرت کے ساتھ جان دی۔

مذہب کا نشہ بھی عجیب چیز ہے۔ وبا کا وہ زور تھا اور ہزاروں آدمی لقمہ اجل ہوتے جاتے تھے لیکن معاذؓ اس کو اللہ کی رحمت سمجھا گئے اور کسی قسم کی کوئی تدبیر نہ کی لیکن عمرو بن العاصؓ کو یہ نشہ کم تھا۔ معاذؓ کے مرنے کے ساتھ انہوں نے مجمع عام میں خطبہ پڑھا اور کہا کہ وبا جب شروع ہوتی ہے تو آگ کی طرح پھیلتی جاتی ہے۔ اس لئے تمام فوج کو یہاں سے اٹھ کر پہاڑوں پر جا رہنا چاہیے۔ اگرچہ ان کی رائے بعض صحابہؓ کو جو معاذؓ کے ہم خیال تھے ناپسند آئی یہاں تک کہ ایک بزرگ نے علانیہ کہا ’’ تو جھوٹ کہتا ہے۔‘‘ تاہم عمروؓ نے اپنی رائے پر عمل کیا۔ فوج ان کے حکم کے مطابق ادھر ادھر پہاڑوں پر پھیل گئی اور وباء کا خطرہ جاتا رہا لیکن یہ تدبیر اس وقت عمل میں آئی کہ 25 ہزار مسلمان جو آدھی دنیا کے فتح کرنے کے لئے کافی ہو سکتے تھے، موت کے مہمان ہو چکے تھے۔ ان میں ابوعبیدہ، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان، حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو، عتبہ بن سہیلؓ بڑے درجے کے لوگ تھے۔ حضرت عمرؓ کو ان تمام حالات سے اطلاع ہوتی رہتی تھی اور مناسب احکام بھیجتے رہتے تھے۔ یزید بن ابی سفیان اور معاذؓ کے مرنے کی خبر آئی تو معاویہؓ کو دمشق کا اور شرجیل کو اردن کا حاکم مقرر کیا۔

اس قیامت خیز وباء کی وجہ سے فتوحات اسلام کا سیلاب دفعتہ رک گیا۔ فوج بجائے اس کے کہ مخالف پر حملہ کرتی خود اپنے حال میں گرفتارتھی۔ ہزاروں لڑکے یتیم ہو گئے۔ ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ جو لوگ مرے تھے ان کا مال و اسباب مارا مارا پھرتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ان حالات سے مطلع ہو کر شام کاقصد کیا۔ حضرت علیؓ کو مدینہ کی حکومت دی اور خود ایلہ کو روانہ ہوئے۔ برفا ان کا غلام اور بہت سے صحابہ ساتھ تھے۔ ایلہ کے قریب پہنچے تو کسی مصلحت سے اپنی سواری غلام کو دی اور خود اس کے اونٹ پر سوار ہو لئے۔ راہ میں جو لوگ دیکھتے تھے پوچھتے تھے کہ امیر المومنین کہاں ہیں؟ فرماتے کہ تمہارے آگے۔ اسی حیثیت سے ایلہ میں آئے اور یہاں دو ایک روز قیام کیا۔ گزی کا کرتہ جو زیب بدن تھا، کجاوے کی رگڑ کھا کر پیچھے سے پھٹ گیا تھا۔ مرمت کے لئے ایلہ کے پادری کو حوالہ کیا۔ اس نے خود اپنے ہاتھ سے پیوند لگائے اور کہا کہ اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے۔ ایلہ سے دمشق آئے اور شام کو اکثر اضلاع میں دو دو چار چار دن قیام کر کے مناسب انتظامات کئے۔ فوج کی تنخواہیں تقسیم کیں۔ جو لوگ وباء میں ہلاک ہوئے تھے ان کے دور و نزدیک کے وارثوں کو بلا کر ان کی میراث دلائی۔ سرحدی مقامات پر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں، جو اسامیاں خالی ہوئی تھیں، ان پر نئے عہدہ دار مقرر کئے۔(ان باتوں کی پوری تفصیل دوسرے حصے میں آئے گی) چلتے وقت لوگوں کو جمع کیا اور انتظامات کئے تھے، ان کے متعلق تقریر کی۔

اس سال عرب میں سخت قحط پڑا اور اگر حضرت عمرؓ نے نہایت مستعدی سے انتظام نہ کیا ہوتا تو ہزاروں، لاکھوں آدمی بھوکوں مر جاتے۔ اسی سال مہاجرین و انصار اور قبائل عرب کی تنخواہیں اور روزینے مقرر کئے۔ چنانچہ ان انتظامات کی تفصیل دوسرے حصے میں آئے گی۔

قیساریہ1؎ کی فتح شوال19ھ (640ئ)

یہ شہر بحر شام کے ساحل پر واقع ہے اور فلسطین کے اضلاع میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج ویران پڑا ہے لیکن اس زمانے میں بہت بڑا شہر تھا اور بقول بلاذری کے تین سو بازار آباد تھے۔ اس شہر پر اول اول 13ھ (635ئ) میں عمرو بن العاصؓ نے چڑھائی کی اور مدت تک محاصرہ کئے پڑے رہے لیکن فتح نہ ہو سکا۔ ابوعبیدہؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے یزید بن ابی سفیانؓ کو ان کی جگہ مقرر کیا تھا اور حکم دیا تھا کہ قیساریہ کی مہم پر جائیں۔ وہ 17ہزار کی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے اور شہر کا محاصرہ کیا لیکن سنہ 18 ھ (639ئ) میں جب بیمار ہوئے تو اپنے بھائی امیر معاویہؓ کو اپنا قائم مقام کر کے دمشق چلے آئے او ریہیں وفات پائی۔ امیر معاویہؓ نے بڑے سروسامان سے محاصرہ کیا۔ شہر والے کئی دفعہ قلعہ سے نکل نکل کر لڑے لیکن ہر دفعہ شکست کھائی۔ تاہم شہر پر قبضہ نہ ہو سکا۔ا یک دن ایک یہودی نے جس کا نام یوسف تھا، امیر معاویہؓ کے پاس آ کر ایک سرنگ کا نشان دیا جو شہر کے اندر اندر قلعہ کے دروازے تک گئی تھی۔ چنانچہ چند بہادروں نے اس کی راہ قلعہ کے اندر پہنچ کر دروازہ کھول دیا۔ ساتھ ہی تمام فوج ٹوٹ پڑی اور کشتیوں کے پشتے لگا دئیے۔ مورخین کا بیان ہے کہ کم سے کم عیسائیوں کی اسی (80)ہزار فوج تھی جس میں بہت کم زندہ بچی۔ چونکہ یہ ایک مشہور مقام تھا اس کی فتح سے گویا شام کا مطلع صاف ہو گیا۔

جزیرہ2؎ (637ئ)16ہجری

مدائن کی فتح سے دفعتہ تمام عجم کی آنکھیں کھل گئیں۔ عرب کو یا تو وہ تحقیر کی نگاہ سے دیکھتے تھے یا اب ان کو عرب کے نام سے لرزہ آتا تھا۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ ہر ہر صوبے نے بجائے خود عرب کے مقابلے کی تیاریاں شروع کیں۔

1؎ بلاذری

2؎ جزیرہ اس آبادی کا نام ہے جو دجلہ اور فرات کے بیچ میں ہے اس کی حدود اربعہ یہ ہیں۔ مغرب آرمیسیسہ کا کچھ حصہ اور ایشیائے کوچک جنوب شام، مشرقی عراق، شمال آرمیسیہ کے کچھ حصے۔ یہ مقام درج نقشہ ہے۔

سب سے پہلے جزیرہ نے ہتھیار سنبھالا کیونکہ اس کی سرحد عراق سے بالکل ملی ہوئی تھی۔ سعدؓ نے حضرت عمرؓ کو ان حالات سے اطلاع دی۔ وہاں سے عبداللہ بن المعم مامور ہوئے اور چونکہ حضرت عمرؓ کو اس معرکہ کا خاص خیال تھا اور افسروں کو بھی خود ہی نامزد کیا۔ چنانچہ مقدمتہ الجیش پر ربعی بن الافکل، میمنہ پر حارث بن حسان، میسرہ پر فرات بن حیان، ساقہ پر ہانی بن قیس مامور ہوئے۔ عبداللہ بن المعم پانچ ہزار کی جمعیت سے تکریت1؎ کی طرف سے بڑھے اور شہر کا محاصرہ کیا، مہینے سے زیادہ محاصرہ رہا اور 24 دفعہ حملے ہوئے۔ چونکہ عجمیوں کے ساتھ عرب کے چند قبائل یعنی ایاد، تغلب، نمر بھی شریک تھے عبداللہ نے خفیہ پیام بھیجا اور غیرت دلائی کہ تم عرب ہو کر عجم کی غلامی کیوں گوارا کرتے ہو؟ اس کا یہ اثر ہوا کہ سب نے اسلام قبول کیا اور کہلا بھیجا کہ تم شہر پر حملہ کرو، ہم عین موقع پر عجمیوں سے ٹوٹ کر تم سے آملیں گے۔ یہ بندوبست ہو کر تاریخ معین پر دھاوا ہوا۔ عجمی مقابلے کو نکلے تو خود ان کے ساتھ کے عربوں نے عقب سے ان پر حملہ کیا۔ عجمی دونوں طرف سے گھر کر بالکل پامال ہو گئے۔

یہ معکرہ اگرچہ جزیرہ کی مہمات میں شامل ہے لیکن چونکہ اس کا موقع اتفاقی طور سے عراق کے سلسلے میں آ گیا تھا، اس لئے مورخین اسلام جزیرہ کی فتوحات کو اس واقعہ سے شروع نہیں کرتے اور خود اس زمانے میں یہ معرکہ عراق کے سلسلے سے الگ نہیں خیال کیا جاتا تھا۔ سنہ 17ھ میں جب عراق و شام کی طرف سے اطمینان ہو گیا تو سعدؓ کے نام حضرت عمرؓ کا حکم پہنچا کہ جزیرہ پر فوجیں بھیجی جائیں۔ سعدؓ نے عیاض بن غنم کو پانچ ہزار کی جمعیت سے اس مہم پر مامور کیا۔ وہ عراق سے چل کر جزیرہ کی طرف بڑھے اور شہر ’’ ربا‘‘ کے قریب جو کسی زمانے میں رومن امپائر کا یادگار مقام تھا، ڈیرے ڈالے ۔ یہاں کے حاکم نے خفیف سی روک ٹوک کے بعد جزیہ پر صلح کر لی۔ ’’ رہا‘‘ کے بعد چند روز میں تمام جزیرہ اس سرے سے اس سرے تک فتح ہو گیا۔ جن جن مقامات پر خفیف خفیف لڑائیاں پیش آئیں، ان کے یہ نام ہیں۔ رقہ، حران، نصیبین، میارفارقین، سمساط، سروج، قرقیسیا، زوزان، عین الوردۃ۔

1؎ تکریت جزیرہ کا سب سے ابتدائی شہر ہے جس کی حد عراق سے ملی ہوئی ہے، دجلہ کے غربی جانب واقع ہے اور موصل سے چھ منزل پر ہے۔