الفاروق : عمو اس کی وباء 639ء /18ھ- علامہ شبلی نعمانی ؒ

 

عمو اس کی وباء 639ء 18ھ

اس سال شام، مصر اور عراق میں سخت وبا پھیلی اور اسلام کی بڑی بڑی یادگاریں خاک میں چھپ گئیں۔ وبا کا آغاز سنہ17ھ کے اخیر میں ہوا اور کئی مہینے تک نہایت شدت رہی۔ حضرت عمرؓ کو اول جب خبر پہنچی تو اس کی تدبیر اور انتظام کے لئے خود روانہ ہوئے۔ سرغ2؎ پہنچ کر ابو عبیدہ ؓ وغیرہ سے جو

1؎ دیکھو کتاب الخراج، قاضی ابو یوسف ص87اور تاریخ طبری صفحہ 25,27

2؎ طبری ، صفحہ25,28

3؎ایک مقام کا نام ہے۔

ان کے استقبال کو آئے تھے معلوم ہوا کہ بیماری کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ مہاجرین اول اور انصار کو بلایا اور رائے طلب کی۔ مختلف لوگوں نے مختلف رائیں دیں لیکن مہاجرین فتح نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عباسؓ کو حکم دیا کہ پکار دیں کہ کل کوچ ہے۔ حضرت ابو عبیدہؓ چونکہ تقدیر کے مسئلہ پر نہایت سختی کے ساتھ اعتقاد رکھتے تھے ان کو نہایت غصہ آیا اور طیش میں آ کر کہا:

افرار امن قدر اللہ

’’ یعنی اے عمر ! تقدیر الٰہی سے بھاگتے ہو‘‘

حضرت عمرؓ نے ان کی سخت کلامی کو گوارا کیا اور کہا:ـ

نعم افر من قضاء اللہ الی قضاء اللہ

’’ یعنی ہاں تقدیر الٰہی سے بھاگتا ہوں مگر بھاگتا بھی تقدیر الٰہی کی طرف ہوں‘‘

غرض خود مدینہ چلے آئے اور ابو عبیدہؓ کو لکھا کہ مجھ کو تم سے کچھ کام ہے۔کچھ دنوں کے لئے یہاں آ جاؤ۔ ابو عبیدہؓ کو خیال ہوا کہ وبا کے خوف سے بلایا ہے۔ جواب میں لکھ بھیجا کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو گا۔ میں مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے یہاں سے ٹل نہیں سکتا۔ حضرت عمرؓ خط پڑھ کر روئے اور لکھا کہ ’’ فوج جہاں اتری ہے وہ نشیب اور مرطوب جگہ ہے، اس لئے کوئی عمدہ موقع تجویز کر کے وہاں اٹھ جاؤ۔‘‘ ابوعبیدہؓ نے اس حکم کی تعمیل کی اور جابیہ میں جا کر مقام کیا جو آب و ہوا کی خوبی میں مشہور تھا۔

جابیہ پہنچ کر ابو عبیدہؓ بیمار پڑے۔ جب زیادہ شدت ہوئی تو لوگوں کو جمع کیا اور نہایت پر اثر الفاظ میں وصیت کی۔ معاذ بن جبلؓ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور چونکہ نماز کا وقت آ چکا تھا، حکم دیا کہ وہی نماز پڑھائیں۔ ادھر نماز ختم ہوئی، ادھر انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ بیماری اسی طرح زوروں پر تھی او رفوج میں انتشار پھیلا ہوا تھا۔ عمرو بن العاص ؓ نے لوگوں سے کہا کہ یہ وبا انہی بلاؤں سے ہے جو بنی اسرائیل کے زمانے پر مصر نازل ہوئی تھیں اس لئے یہاں سے بھاگ چلنا چاہئے۔ معاذؓ نے سنا تو منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھا اور کہا کہ یہ وباء بلا نہیں بلکہ اللہ کی رحمت ہے۔ خطبہ کے بعد خیمہ میں آئے تو بیٹے کو بیمار پایا۔ نہایت استقلال کے ساتھ کہا:

یا اینی الحق من ربک فلا تکونن من الممترین

یعنی ’’ اے فرزند! یہ اللہ کی طرف سے ہے، دیکھ شبہہ میں نہ پڑنا‘‘ بیٹے نے جواب دیا:

ستجدنی انشاء اللہ من الصابرین

یعنی ’’ اللہ نے چاہا تو آپ مجھ کو صابر پائیں گے‘‘ یہ کہہ کر انتقال کیا۔ معاذ بیٹے کو دفنا کر آئے تو خود بیمار پڑے عمرو بن العاصؓ کو خلیفہ مقرر کیا اور اس خیال سے کہ زندگی اللہ کے قرب کا حجاب تھی، بڑے اطمینان اور مسرت کے ساتھ جان دی۔

مذہب کا نشہ بھی عجیب چیز ہے۔ وبا کا وہ زور تھا اور ہزاروں آدمی لقمہ اجل ہوتے جاتے تھے لیکن معاذؓ اس کو اللہ کی رحمت سمجھا گئے اور کسی قسم کی کوئی تدبیر نہ کی لیکن عمرو بن العاصؓ کو یہ نشہ کم تھا۔ معاذؓ کے مرنے کے ساتھ انہوں نے مجمع عام میں خطبہ پڑھا اور کہا کہ وبا جب شروع ہوتی ہے تو آگ کی طرح پھیلتی جاتی ہے۔ اس لئے تمام فوج کو یہاں سے اٹھ کر پہاڑوں پر جا رہنا چاہیے۔ اگرچہ ان کی رائے بعض صحابہؓ کو جو معاذؓ کے ہم خیال تھے ناپسند آئی یہاں تک کہ ایک بزرگ نے علانیہ کہا ’’ تو جھوٹ کہتا ہے۔‘‘ تاہم عمروؓ نے اپنی رائے پر عمل کیا۔ فوج ان کے حکم کے مطابق ادھر ادھر پہاڑوں پر پھیل گئی اور وباء کا خطرہ جاتا رہا لیکن یہ تدبیر اس وقت عمل میں آئی کہ 25 ہزار مسلمان جو آدھی دنیا کے فتح کرنے کے لئے کافی ہو سکتے تھے، موت کے مہمان ہو چکے تھے۔ ان میں ابوعبیدہ، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان، حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو، عتبہ بن سہیلؓ بڑے درجے کے لوگ تھے۔ حضرت عمرؓ کو ان تمام حالات سے اطلاع ہوتی رہتی تھی اور مناسب احکام بھیجتے رہتے تھے۔ یزید بن ابی سفیان اور معاذؓ کے مرنے کی خبر آئی تو معاویہؓ کو دمشق کا اور شرجیل کو اردن کا حاکم مقرر کیا۔

اس قیامت خیز وباء کی وجہ سے فتوحات اسلام کا سیلاب دفعتہ رک گیا۔ فوج بجائے اس کے کہ مخالف پر حملہ کرتی خود اپنے حال میں گرفتارتھی۔ ہزاروں لڑکے یتیم ہو گئے۔ ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ جو لوگ مرے تھے ان کا مال و اسباب مارا مارا پھرتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ان حالات سے مطلع ہو کر شام کاقصد کیا۔ حضرت علیؓ کو مدینہ کی حکومت دی اور خود ایلہ کو روانہ ہوئے۔ برفا ان کا غلام اور بہت سے صحابہ ساتھ تھے۔ ایلہ کے قریب پہنچے تو کسی مصلحت سے اپنی سواری غلام کو دی اور خود اس کے اونٹ پر سوار ہو لئے۔ راہ میں جو لوگ دیکھتے تھے پوچھتے تھے کہ امیر المومنین کہاں ہیں؟ فرماتے کہ تمہارے آگے۔ اسی حیثیت سے ایلہ میں آئے اور یہاں دو ایک روز قیام کیا۔ گزی کا کرتہ جو زیب بدن تھا، کجاوے کی رگڑ کھا کر پیچھے سے پھٹ گیا تھا۔ مرمت کے لئے ایلہ کے پادری کو حوالہ کیا۔ اس نے خود اپنے ہاتھ سے پیوند لگائے اور کہا کہ اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے۔ ایلہ سے دمشق آئے اور شام کو اکثر اضلاع میں دو دو چار چار دن قیام کر کے مناسب انتظامات کئے۔ فوج کی تنخواہیں تقسیم کیں۔ جو لوگ وباء میں ہلاک ہوئے تھے ان کے دور و نزدیک کے وارثوں کو بلا کر ان کی میراث دلائی۔ سرحدی مقامات پر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں، جو اسامیاں خالی ہوئی تھیں، ان پر نئے عہدہ دار مقرر کئے۔(ان باتوں کی پوری تفصیل دوسرے حصے میں آئے گی) چلتے وقت لوگوں کو جمع کیا اور انتظامات کئے تھے، ان کے متعلق تقریر کی۔

اس سال عرب میں سخت قحط پڑا اور اگر حضرت عمرؓ نے نہایت مستعدی سے انتظام نہ کیا ہوتا تو ہزاروں، لاکھوں آدمی بھوکوں مر جاتے۔ اسی سال مہاجرین و انصار اور قبائل عرب کی تنخواہیں اور روزینے مقرر کئے۔ چنانچہ ان انتظامات کی تفصیل دوسرے حصے میں آئے گی۔

قیساریہ1؎ کی فتح شوال19ھ (640ئ)

یہ شہر بحر شام کے ساحل پر واقع ہے اور فلسطین کے اضلاع میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج ویران پڑا ہے لیکن اس زمانے میں بہت بڑا شہر تھا اور بقول بلاذری کے تین سو بازار آباد تھے۔ اس شہر پر اول اول 13ھ (635ئ) میں عمرو بن العاصؓ نے چڑھائی کی اور مدت تک محاصرہ کئے پڑے رہے لیکن فتح نہ ہو سکا۔ ابوعبیدہؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے یزید بن ابی سفیانؓ کو ان کی جگہ مقرر کیا تھا اور حکم دیا تھا کہ قیساریہ کی مہم پر جائیں۔ وہ 17ہزار کی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے اور شہر کا محاصرہ کیا لیکن سنہ 18 ھ (639ئ) میں جب بیمار ہوئے تو اپنے بھائی امیر معاویہؓ کو اپنا قائم مقام کر کے دمشق چلے آئے او ریہیں وفات پائی۔ امیر معاویہؓ نے بڑے سروسامان سے محاصرہ کیا۔ شہر والے کئی دفعہ قلعہ سے نکل نکل کر لڑے لیکن ہر دفعہ شکست کھائی۔ تاہم شہر پر قبضہ نہ ہو سکا۔ا یک دن ایک یہودی نے جس کا نام یوسف تھا، امیر معاویہؓ کے پاس آ کر ایک سرنگ کا نشان دیا جو شہر کے اندر اندر قلعہ کے دروازے تک گئی تھی۔ چنانچہ چند بہادروں نے اس کی راہ قلعہ کے اندر پہنچ کر دروازہ کھول دیا۔ ساتھ ہی تمام فوج ٹوٹ پڑی اور کشتیوں کے پشتے لگا دئیے۔ مورخین کا بیان ہے کہ کم سے کم عیسائیوں کی اسی (80)ہزار فوج تھی جس میں بہت کم زندہ بچی۔ چونکہ یہ ایک مشہور مقام تھا اس کی فتح سے گویا شام کا مطلع صاف ہو گیا۔

جزیرہ2؎ (637ئ)16ہجری

مدائن کی فتح سے دفعتہ تمام عجم کی آنکھیں کھل گئیں۔ عرب کو یا تو وہ تحقیر کی نگاہ سے دیکھتے تھے یا اب ان کو عرب کے نام سے لرزہ آتا تھا۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ ہر ہر صوبے نے بجائے خود عرب کے مقابلے کی تیاریاں شروع کیں۔

1؎ بلاذری

2؎ جزیرہ اس آبادی کا نام ہے جو دجلہ اور فرات کے بیچ میں ہے اس کی حدود اربعہ یہ ہیں۔ مغرب آرمیسیسہ کا کچھ حصہ اور ایشیائے کوچک جنوب شام، مشرقی عراق، شمال آرمیسیہ کے کچھ حصے۔ یہ مقام درج نقشہ ہے۔

سب سے پہلے جزیرہ نے ہتھیار سنبھالا کیونکہ اس کی سرحد عراق سے بالکل ملی ہوئی تھی۔ سعدؓ نے حضرت عمرؓ کو ان حالات سے اطلاع دی۔ وہاں سے عبداللہ بن المعم مامور ہوئے اور چونکہ حضرت عمرؓ کو اس معرکہ کا خاص خیال تھا اور افسروں کو بھی خود ہی نامزد کیا۔ چنانچہ مقدمتہ الجیش پر ربعی بن الافکل، میمنہ پر حارث بن حسان، میسرہ پر فرات بن حیان، ساقہ پر ہانی بن قیس مامور ہوئے۔ عبداللہ بن المعم پانچ ہزار کی جمعیت سے تکریت1؎ کی طرف سے بڑھے اور شہر کا محاصرہ کیا، مہینے سے زیادہ محاصرہ رہا اور 24 دفعہ حملے ہوئے۔ چونکہ عجمیوں کے ساتھ عرب کے چند قبائل یعنی ایاد، تغلب، نمر بھی شریک تھے عبداللہ نے خفیہ پیام بھیجا اور غیرت دلائی کہ تم عرب ہو کر عجم کی غلامی کیوں گوارا کرتے ہو؟ اس کا یہ اثر ہوا کہ سب نے اسلام قبول کیا اور کہلا بھیجا کہ تم شہر پر حملہ کرو، ہم عین موقع پر عجمیوں سے ٹوٹ کر تم سے آملیں گے۔ یہ بندوبست ہو کر تاریخ معین پر دھاوا ہوا۔ عجمی مقابلے کو نکلے تو خود ان کے ساتھ کے عربوں نے عقب سے ان پر حملہ کیا۔ عجمی دونوں طرف سے گھر کر بالکل پامال ہو گئے۔

یہ معکرہ اگرچہ جزیرہ کی مہمات میں شامل ہے لیکن چونکہ اس کا موقع اتفاقی طور سے عراق کے سلسلے میں آ گیا تھا، اس لئے مورخین اسلام جزیرہ کی فتوحات کو اس واقعہ سے شروع نہیں کرتے اور خود اس زمانے میں یہ معرکہ عراق کے سلسلے سے الگ نہیں خیال کیا جاتا تھا۔ سنہ 17ھ میں جب عراق و شام کی طرف سے اطمینان ہو گیا تو سعدؓ کے نام حضرت عمرؓ کا حکم پہنچا کہ جزیرہ پر فوجیں بھیجی جائیں۔ سعدؓ نے عیاض بن غنم کو پانچ ہزار کی جمعیت سے اس مہم پر مامور کیا۔ وہ عراق سے چل کر جزیرہ کی طرف بڑھے اور شہر ’’ ربا‘‘ کے قریب جو کسی زمانے میں رومن امپائر کا یادگار مقام تھا، ڈیرے ڈالے ۔ یہاں کے حاکم نے خفیف سی روک ٹوک کے بعد جزیہ پر صلح کر لی۔ ’’ رہا‘‘ کے بعد چند روز میں تمام جزیرہ اس سرے سے اس سرے تک فتح ہو گیا۔ جن جن مقامات پر خفیف خفیف لڑائیاں پیش آئیں، ان کے یہ نام ہیں۔ رقہ، حران، نصیبین، میارفارقین، سمساط، سروج، قرقیسیا، زوزان، عین الوردۃ۔

1؎ تکریت جزیرہ کا سب سے ابتدائی شہر ہے جس کی حد عراق سے ملی ہوئی ہے، دجلہ کے غربی جانب واقع ہے اور موصل سے چھ منزل پر ہے۔