خوزستان1؎
15ھ (636ئ) ہجری میں مغیرہ بن شعبہ بصرہ کے حاکم مقرر ہوئے اور چونکہ خوزستان کی سرحد بصرہ سے ملی ہوئی ہے، انہوں نے خیال کیا کہ اس کی فتح کے بغیر بصرہ میں کافی طور سے امن و امان قائم نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ 16ھ (637ئ) کے شروع میں اہوازپر جس کو ایرانی ہرمز شہر کہتے تھے، حملہ کیا۔ یہاں کے رئیس نے ایک مختصر سی رقم دے کر صلح کر لی۔ مغیرہ وہیں رک گئے۔ 17 ہجری (638ئ) میں مغیرہ معزول ہو کر ان کی جگہ ابو موسیٰ اشعری ؓ مقرر ہوئے۔ اس انقلاب میں اہواز کے رئیس نے سالانہ رقم بند کر دی اور اعلانیہ بغاوت کا اظہار کیا۔ مجبوراً ابو موسیٰؓ نے لشکر کشی کی اور اہواز کو جا گھیرا۔ شاہی فوج جو یہاں رہتی تھی، اس نے بڑی پامردی سے مقابلہ کیا لیکن آخر شکست کھائی اور شہر فتح ہو گیا۔ غنیمت کے ساتھ ہزاروں آدمی لونڈی غلام بن کر تقسیم کئے گئے، لیکن جب حضرت عمرؓ کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ سب رہا کر دئیے جائیں۔ چنانچہ وہ سب چھوڑ دیئے گئے۔ ابو موسیٰ ؓ نے اہواز کے بعد مناذر کا رخ کیا۔ یہ خود ایک محفوظ مقام تھا۔ شہر والوں نے بھی ہمت اور استقلال سے حملے کو روکا۔ اس معرکہ میں مہاجر بن زیاد جو ایک معزز افسر تھے، شہید ہوئے اور قلعہ والوں نے ان کو سرکاٹ کر برج کے کنگرہ پر لٹکا دیا۔
ابو موسی ؓ نے مہاجر کے بھائی ربیع کو یہاں چھوڑا اور خود سوس کو
روانہ ہوئے۔ ربیع نے مناذر کو فتح کر لیا اور ابو موسیٰ ؓ نے سوس کا محاصرہ کر کے
ہر طرف سے رسد بند کر دی۔ قلعہ میں کھانے پینے کا سامان ختم ہو چکا تھا۔ مجبوراً
رئیس شہر نے اس شرط پر صلح کی درخواست کی کہ اس کے خاندان کے سو آدمی زندہ چھوڑ
دئیے جائیں۔ ابو موسیٰ ؓ نے منظور کیا۔ رئیس ایک ایک آدمی کو نامزد کرتا جاتا تھا
اور اس کو امن دے دیا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے شمار میں رئیس نے خود اپنا نام نہیں
لیا تھا۔ چنانہ جب سو کی تعداد پوری ہو گئی تو ابو موسیٰؓ نے رئیس کو جو شمار سے
باہر تھا قتل کرا دیا سوس کے بعدرامہرز کا محاصرہ کیا اور آٹھ لاکھ سالانہ پر صلح
ہو گئی۔ یزد گرد اس وقت قم میں مقیم تھا اور خاندان شاہی کے تمام ارکان ساتھ تھے۔
ابو موسیٰؓ کی دست درازیوں کی خبریں اس کو برابر پہنچتی تھیں۔ ہرمزان نے جو شیرویہ
کا ماموں اور بڑی قوت و اقتدار کا سردار تھا، یزدگرد کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض
کی کہ اگر اہواز و فارس میری حکومت میں دے دئیے جائیں تو میں عرب کے سیلاب کو آگے
بڑھنے سے روک دوں۔
1؎ خوزستان اس حصہ آبادی کا نام ہے جو عراق اور
فارس کے درمیان و اقع ہے۔ اس میں 14 بڑے شہر ہیں جس میں سب سے بڑا اہواز ہے جو
نقشہ میں بھی درج کر دیا گیا ہے۔
یزد گرد نے اسی وقت فرمان حکومت عطا کر کے ایک جمعیت عظیم ساتھ کر
دی۔ خوزستان کا صدر مقام شوستر تھا اور شاہی عمارات اور فوجی چھاؤنیاں جو کچھ
تھیں یہیں تھیں۔ ہرمزان نے وہاں پہنچ قلعہ کی مرمت کرائی اور خندق اور برجوں سے
مستحکم کیا۔ اس کے ساتھ ہر طرف نقیب اور ہرکارے دوڑا دئیے کہ لوگوں کو جوش دلا کر
جنگ کے لئے آمادہ کریں۔ اس تدبیر سے قومی جوش جو افسردہ ہو گیا تھا، پھر تازہ ہو
گیا اور چند روز میں ایک جمعیت اعظم فراہم ہو گئی، ابو موسیٰؓ نے دربار خلافت کو
نامہ لکھا اور مدد کی درخواست کی، وہاں سے عمار بن یاسر ؓ کے نام جو اس وقت کوفہ
کے گورنر تھے حکم آیا کہ نعمان بن مقرن کو ہزار آدمی کے ساتھ بھیجیں لیکن غنیم
نے جو سروسامان کیا تھا، اس کے سامنے یہ جمعیت بیکار تھی۔ ابو موسیٰ نے دوبارہ
لکھا جس کے جواب میں عمارؓ کو حکم بھیجا کہ عبداللہ بن مسعود کو آدھی فوج کے ساتھ
کوفہ میں چھوڑ دو اور باقی فوج لے کر خود ابو موسیٰؓ کی مدد کو جاؤ۔ ادھر جریر
بجلیؓ ایک بڑی فوج لے کر جلولا پہنچا ابو موسیٰ نے اس سروسامان سے شوستر کا رخ کیا
اور شہرکے قریب پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ ہرمزان کثرت فوج کے بل پر خود شہر سے نکل کر
حملہ آور ہوا۔ ابو موسیٰ ؓ نے بڑی ترتیب سے صف آرائی کی۔ میمنہ براء بن مالک کو
دیا (یہ حضرت انسؓ مشہور صحابی کے بھائی تھے) میسرہ پر براء بن عازبؓ انصاری کو
مقرر کیا۔ سواروں کا رسالہ حضرت انسؓ کی رکاب میں تھا۔ دونوں فوجیں خوب جی توڑ کر
لڑیں۔ براء بن مالک مارتے دھاڑتے شہر پناہ کے پھاٹک تک پہنچ گئے ۔ ادھر ہرمزان
نہایت بہادری کے ساتھ فوج کو لڑا رہا تھا۔ عین پھاٹک پر دونوں کا سامنا ہوا۔ براء
مارے گئے، ساتھ ہی مخبراۃ بن ثور نے جو میمنہ کو لڑا رہے تھے، بڑھ کر وار کیا لیکن
ہرمزان نے ان کا بھی کام تمام کر دیا ۔ تاہم میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ عجمی ایک
ہزار مقتول اور چھ سو زندہ گرفتار ہوئے۔ ہرمزان نے قلعہ بند ہو کر لڑائی جاری
رکھی۔
ایک دن شہر کا ایک آدمی چھپ کر ابو موسیؓ کے پاس آیا اور کہا کہ
اگر میرے جان و مال کو امن دیا جائے تو میں شہرپر قبضہ کرا دوں۔ ابوموسیؓ نے منظور
کیا۔ اس نے ایک عرب کو جس کا نام اشرس تھا، ساتھ لیا اور نہرد جیل سے جو دجلہ کی
ایک شاخ ہے اور شوشتر کے نیچے بہتی ہے پار اتر کر ایک تہہ خانے کی راہ شہر میں
داخل ہوا اور اشرس کے منہ پر چادر ڈال کر کہا کہ نوکر کی طرح میرے پیچھے پیچھے چلے
آؤ۔ چنانچہ شہر کے گلی کوچوں سے گزرتا ہوا خاص ہرمزان کے محل میں آیا۔ ہرمزان
رئیسوں اور درباریوں کے ساتھ جلسہ جمائے بیٹھا ہوا تھا، شہری نے ان کو تمام عمارت
کی سیر کرائی اور موقع کے نشیب و فراز دکھا کر ابو موسیٰؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ
میں اپنا فرض ادا کر چکا، آگے تمہاری ہمت اور تقدیر ہے۔ اشرس نے اس کے بیان کی
تصدیق کی اور کہا کہ دو سو جانباز میرے ساتھ ہوں تو شہر فوراً فتح ہو جائے۔ ابو
موسیؓ نے فوج کی طرف دیکھا۔ دو سو بہادروں نے بڑھ کر کہا کہ اللہ کی راہ میں ہماری
جان حاضر ہے۔ اشرف اسی تہہ خانے کی راہ شہر پناہ کے دروازے پر پہنچے اور پہرہ
والوں کو تہہ تیغ کر کے اندر کی طرف سے دروازے کھول دئیے۔ ادھر ابو موسیٰؓ فوج کے
ساتھ موقع پر موجود تھے۔ دروازہ کھلنے کے ساتھ تمام لشکر ٹوٹ پڑا اور شہر میں ہلچل
پڑ گئی۔ ہرمزان نے بھاگ کر قلعے میں پناہ لی۔ مسلمان قلعہ کے نیچے پہنچے تو اس نے
برج پر چڑھ کر کہا کہ میرے ترکش میں اب بھی سو تیر ہیں اور جب تک اتنی ہی لاشیں
یہاں نہ بچھ جائیں میں گرفتار نہیں ہو سکتا۔ تاہم میں اس شرط پر اتر آتا ہوں کہ
تم مجھ کو مدینہ پہنچا دو اور جو کچھ فیصلہ ہو، عمرؓ کے ہاتھ سے ہو۔ ابو موسیؓ نے
منظور کیا اور حضرت انسؓ کو مامور کیا کہ مدینہ تک اس کے ساتھ جائیں۔ ہرمزان بڑی
شان و شوکت سے روانہ ہوا۔ بڑے بڑے رئیس اور خاندان کے تمام آدمی رکاب میں لئے۔
مدینہ کے قریب پہنچ کر شاہانہ ٹھاٹھ سے آراستہ ہوا۔ تاج مرصع جو آذین کے لقب سے
مشہور تھا سر پر رکھا۔ دیبا کی قبا زیب بدن کی اور شاہان عجم کے طریقے کے موافق
زیور پہنے۔ کمر سے مرصع تلوار لگائی۔ غرض شان و شوکت کی تصویر بن کر مدینے میں
داخل ہوا اور لوگوں سے پوچھا کہ امیر المومنین کہاں ہیں؟ وہ سمجھتا تھا کہ جس شخص
کے دبدبہ نے تمام دنیا میں غلغلہ ڈال رکھا ہے، اس کا دربار بھی بڑے سروسامان کا ہو
گا۔ حضرت عمرؓ اس وقت مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور فرش خاک پر لیٹے ہوئے تھے۔
ہرمزان مسجد میں داخل ہوا تو سینکڑوں تماشائی ساتھ تھے جو اس کے زرق
برق لباس کو بار بار دیکھتے تھے اور تعجب کرتے تھے۔ لوگوں کی آہٹ سے حضرت عمرؓ کی
آنکھ کھلی تو عجمی شان و شوکت کا مرقع سامنے تھا۔ اوپر سے نیچے تک دیکھا اور
حاضرین کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ ’’ یہ دنیائے دوں کی دل فریبیاں ہیں۔‘‘ اس کے
بعد ہرمزان کی طرف مخاطب ہوئے، اس وقت تک مترجم نہیں آیا تھا۔ مغیرہ بن شعبہؓ کچھ
کچھ فارسی سے آشنا تھے، اس لئے انہوں نے ترجمانی کی۔ حضرت عمرؓ نے پہلے وطن
پوچھا۔ مغیرہؓ وطن کی فارسی نہیں جانتے تھے، اس لئے کہا کہ از کدام ارضی؟ پھر اور
باتیں شروع ہوئیں۔ قادسیہ کے بعد ہرمزان نے کئی دفعہ سعدؓ سے صلح کی تھی اور ہمیشہ
اقرار سے پھر پھر جاتا تھا۔ شوستر کے معرکے میں دو بڑے مسلمان افسر اس کے ہاتھ سے
مارے گئے تھے۔ 1؎ حضرت عمرؓ کو ان باتوں کا اس قدر رنج تھا کہ انہوں نے ہرمزان کے
قتل کا پورا ارادہ کر لیا تھا۔ تاہم اتمام حجت کے طور پر عرض معروض کی اجازت دی۔ اس
نے کہا کہ عمرؓ! جب تک اللہ ہمارے ساتھ تھا تم ہمارے غلام تھے، اب اللہ تمہارے
ساتھ ہے اور ہم تمہارے غلام ہیں۔
1؎ ان واقعات کو طبری نے نہایت تفصیل سے لکھا
ہے۔
یہ کہہ کر پینے کا پانی مانگا۔ پانی آیا تو پیالہ ہاتھ میں لے کر
درخواست کی کہ جب تک پانی نہ پی لوں مارا نہ جاؤں۔ حضرت عمرؓ نے منظور کیا۔ اس نے
پیالہ ہاتھ سے رکھ دیا اور کہ میں پانی نہیں پیتا اور اس لئے شرط کے موافق تم مجھ
کو قتل نہیں کر سکتے۔ حضرت عمرؓ اس مغالطے پر حیران رہ گئے۔ ہرمزان نے کلمہ توحید
پڑھا اور کہا میں پہلے ہی اسلام لا چکا تھا لیکن یہ تدبیر اس لئے کی کہ لوگ یہ نہ
کہیں کہ میں نے تلوار کے ڈر سے اسلام قبول کیا۔ 1؎ حضرت عمرؓ نہایت خوش ہوئے اور
خاص مدینہ میں رہنے کی اجازت دی۔ اس کے ساتھ دو ہزار سالانہ روزینہ مقرر کر دیا۔
حضرت عمرؓ فارس وغیرہ کی مہمات میں اکثر اس سے مشورہ لیا کرتے تھے۔
شوستر کے بعد جندی سابور پر حملہ ہوا جو شوستر سے 24میل ہے۔ کئی دن
تک محاصرہ رہا۔ ایک دن شہر والوں نے خود شہر پناہ کے دروازے کھول دئیے اور نہایت
اطمینان کے ساتھ تمام لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہوئے۔ مسلمانوں کو ان کے اطمینان
پر تعجب ہوا اور اس کا سبب دریافت کیا۔ شہر والوں نے کہا۔ ’’ تم ہم کو جزیہ کی شرط
پر امن دے چکے، اب جھگڑا کیا رہا۔‘‘ سب کو حیرت تھی کہ امن کس نے دیا؟ تحقیق سے
معلوم ہوا کہ ایک غلام نے لوگوں سے چھپا کر امن کا رقعہ لکھ دیا ہے۔ ابو موسیٰ ؓ
نے کہا ایک غلام کی خود رائی حجت نہیں ہو سکتی۔ شہر والے کہتے تھے کہ ہم آزاد اور
غلام نہیں جانتے۔ آخر حضرت عمرؓ کو خط لکھا گیا۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ
مسلمانوں کا غلام بھی مسلمان ہے اور جس کو اس نے امان دے دی تمام مسلمان امان دے
چکے۔ اس شہر کی فتح نے تمام خوزستان میں اسلام کا سکہ بٹھا دیا اور فتوحات کی
فہرست میں ایک اور نئے ملک کا اضافہ ہو گیا۔
عراق عجم2؎ (641ئ) 21ہجری
جلولا کے بعد جیسا کہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں یزدگرد رے چلا گیا لیکن
یہاں کے رئیس آبان جادویہ نے بے وفائی کی۔ اس لئے رے سے نکل کر اصفہان اور کرمان
ہوتا ہوا خراسان پہنچا۔ یہاں پہنچ کر مرد میں اقامت کی۔ آتش پارسی ساتھ تھی، اس
کے لئے آتش کدہ تیار کرایا اور مطمئن ہو کر پھر سلطنت و حکومت کے ٹھاٹھ لگا دئیے۔
1؎ عقد الفرید لابن عبدربہ، باب المکیدۃ فی
الحرب
2؎ سر زمین عراق دو حصوں پر منقسم ہے۔ مغربی حصے
کو عراق عرب کہتے ہیں اور مشرقی حصے کو عراق عجم۔ عراق عجم کی حدود اربعہ یہ ہیں
کہ شمال طبرستان، جنوب میں شیراز، مشرقی میں خوزستان اور مغرب میں شہر مراغہ واقع
ہے۔ اس وقت اس کے بڑے شہر اصفہان، ہمدان اور رے سمجھے جاتے تھے۔ اس وقت رے بالکل
ویران ہو گیا اور اسی کے قریب طہران آباد ہو گیا ہے جو شاہان قاچار کا دار السلطنت
ہے۔
یہیں خبر ملی کہ عربوں نے عراق کے ساتھ خوزستان بھی فتح کر لیا اور
ہرمزان جو سلطنت کاز ور بازو تھا، زندہ گرفتار ہو گیا۔ یہ حالات سن کر نہایت طیش
میں آیا۔ اگرچہ سلطنت کی حیثیت سے اس کا وہ پہلا رعب و داب باقی نہیں رہا تھا،
تاہم تین ہزار برس کا خاندانی اثر دفعتہ نہیں مٹ سکتا تھا۔ ایرانی اس وقت تک یہ
سمجھے تھے کہ عرب کی آندھی سرحد مقامات تک پہنچ کر رک جائے گی۔ اس لئے ان کو اپنی
خاص سلطنت کی طرف سے اطمینان تھا لیکن خوزستان کے واقعہ سے ان کی آنکھیں کھلیں۔
ساتھ ہی شہنشاہ کے فرامین اور نقیب پہنچے۔ اس سے دفعتہ طبرستان، جرجان، نہاوند،
رے، اصفہان، ہمدان سے گزر کر خراسان اور سندھ تک تلاطم مچ گیا اور ڈیڑھ لاکھ کا
ٹڈی دل قم میں آ کر ٹھہرا۔ یزد گرد نے مروان شاہ کو (جو ہرمز کا فرزند تھا) سر
لشکر مقرر کر کے نہاوند کی طرف روانہ کیا۔ اس معرکہ میں درفش کا دیانی جس کو عجم فال
ظفر سمجھتے تھے، مبارک فالی کے لحاظ سے نکالا گیا۔ چنانچہ مروان شاہ جب روانہ ہوا
تو اس مبارک علم کا پھریرا اس پر سایہ کرتا جاتا تھا۔ عمار بن یاسرؓ نے جو اس وقت
کوفہ کے گورنر تھے، حضرت عمرؓ کو ان حالات سے اطلاع دی۔ حضرت عمرؓ عمارؓ کا خط لئے
ہوئے مسجد نبوی میں آئے اور سب کو سنا کے کہا کہ گروہ عرب! اس مرتبہ تمام ایران
کمربستہ ہو کر چلا ہے کہ مسلمانوں کو دنیا سے مٹا دے۔ تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟
طلحہ بن عبید اللہؓ نے اٹھ کر کہا کہ ’’ امیر المومنین! واقعات نے آپ کو تجربہ
کار بنا دیا ہے۔ ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے کہ آپ جو حکم دیں، بجا لائیں۔‘‘
حضرت عثمان ؓ نے کہا کہ ’’ میری رائے ہے کہ شام، یمن اور بصرہ کے افسروں کو لکھا
جائے کہ اپنی اپنی فوجیں لے کر عراق کو روانہ ہوں اور آپ خود اہل حرم کو لے کر
مدینہ سے اٹھیں۔ کوفہ میں تمام فوجیں آپ کے علم کے نیچے جمع ہوں اور پھر نہاوند
کی طرف رخ کیا جائے۔‘‘ حضرت عثمانؓ کی اس رائے کو سب نے پسند کیا لیکن حضرت علیؓ
چپ تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان کی طرف دیکھا۔ وہ بولے کہ شام اور بصرہ سے فوجیں ہٹیں تو
ان مقامات پر سرحد کے دشمنوں کا قبضہ ہو جائے گا اور آپ نے مدینہ چھوڑا تو عرب
میں ہر طرف قیامت برپا ہو جائے گی اور خود اپنے ملک کا تھامنا مشکل ہو گا۔ میری
رائے ہے کہ آپ یہاں سے نہ ہلیں اور شام، یمن اور بصرہ وغیرہ میں فرمان بھیج دئیے
جائیں کہ جہاں جہاں جس قدر فوجیں ہیں، ایک ایک ثلث ادھر روانہ کر دی جائیں۔ حضرت
عمرؓ نے کہا میری بھی یہی رائے تھی لیکن میں تنہا اس کا فیصلہ کرنا نہیں چاہتا تھا
۔ اب یہ بحث آئی کہ ایسی بڑی مہم میں سپہ سالار بن کر کون جائے؟ لوگ ہر طرف خیال
دوڑاتے تھے لیکن اس درجہ کا کوئی شخص نظر نہیں آتا تھا۔ جو لوگ اس منصب کے قابل
تھے وہ اور مہمات میں مصروف تھے۔
حضرت عمرؓ کے مراتب کمال میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انہوں نے ملک کے
حالات سے ایسی واقفیت حاصل کی تھی کہ قوم کے ایک ایک فرد کے اوصاف ان کی نگاہ میں
تھے۔ چنانچہ اس موقع پر حاضرین نے خود کہا کہ اس کا فیصلہ آپ سے بڑھ کر کون کر
سکتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے نعمان بن مقرنؓ کو منتخب کیا اور سب نے اس کی تائید کی۔
نعمانؓ تیس ہزار کی جمعیت لے کر کوفہ سے روانہ ہوئے۔ اس فوج میں بڑے صحابہ ؓ شامل
تھے جن میں سے حذیقہ بن الیمان، عبداللہ بن عمر، جریر بجلی، مغیرہ بن شعبہ، عمرو
معدی کرب ؓ زیادہ مشہور ہیں۔ نعمانؓ نے جاسوسوں کو بھیج کر معلوم کیا کہ نہاوند تک
راستہ صاف ہے۔ چنانچہ نہاوند تک برابر بڑھتے چلے گئے۔ نہاوند سے نو میل ادھر ’’
اسپد ہاں‘‘ ایک مقام تھا، وہاں پہنچ کر پڑا کیا۔ ایک بڑی تدبیر حضرت عمرؓ نے یہ کی
کہ فارس میں جو اسلامی فوجیں موجود تھیں، ان کو لکھا کہ ایرانی اس طرف سے نہاوند
کی طرف بڑھنے نہ پائیں۔ اس طرح دشمن ایک بہت بڑی مدد سے محروم رہ گیا۔
عجم نے نعمانؓ کے پاس سفارشات کے لئے پیغام بھیجا۔ چنانچہ مغیرہ بن
شعبہ ؓ جو پہلے بھی اس کام کو انجام دے چکے تھے، سفیر بن کر گئے۔ عجم نے بڑی شان
سے دربار آراستہ کیا۔ مروان شاہ کو تاج پہنا کر تخت زر پر بٹھایا۔ تخت کے دائیں
بائیں ملک ملک کے شہزادے، دیبائے زرکش کی قبائیں، سر پر تاج زر، ہاتھوں میں سونے
کے کنگن پہن کر بیٹھے۔ ان کے پیچھے دور دور تک سپاہیوں کی صفیں قائم ہوئیں، جن کی
برہنہ تلواروں سے آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں۔ مترجم کے ذریعے سے گفتگو شروع ہوئی۔
مروان شاہ نے کہا، اہل عرب! سب سے زیادہ بدبخت، سب سے زیادہ فاقہ مست، سب سے زیادہ
ناپاک جو قوم ہو سکتی ہے تم ہو! یہ قدر انداز جو میرے تخت کے گرد کھڑے ہیں،ا بھی
تمہارا فیصلہ کر دیتے لیکن مجھ کو یہ گوارا نہ تھا کہ ان کے تیر تمہارے ناپاک خون
میں آلودہ ہوں۔ اب بھی اگر تم یہاں سے چلے جاؤ تو میں تم کو معاف کر دوں گا۔
مغیرہؓ نے کہا ہاں ہم لو گ ایسے ہی ذلیل و حقیر تھے لیکن اس ملک میں آ کر ہم کو
دولت کا مزہ پڑ گیا اور یہ مزے ہم سے اسی وقت چھوٹیں گے جب ہماری لاشیں خاک پر بجھ
جائیں۔ غرض سفارت بے حاصل ہو گئی اور دونوں طرف جنگ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔
نعمانؓ نے میمنہ اور میسرہ حذیفہؓ اور سوید بن مقرن کو دیا۔ مجردہ پر قعقاع کو
مقرر کیا، ساقہ پر مجاشع متعین ہوئے۔ ادھر میمنہ پر زروک اور میسرہ پر بہمن تھا۔
عجمیوں نے میدان جنگ میں پہلے سے ہر طرف کو کھروبچھا دئیے تھے۔ جس کی وجہ سے
مسلمانوں کو آگے بڑھنا مشکل ہوتا تھا۔ اور عجمی جب چاہتے تھے شہر سے نکل کر حملہ
آور ہوتے تھے۔ نعمانؓ نے یہ حالت دیکھ کر افسروں کو جمع کیا اور سب سے الگ الگ
رائے لی۔ طلیحہ بن خالد الاسدی کی رائے کے موافق فوجیں آراستہ ہو کر شہر سے چھ
سات میل کے فاصلہ پر ٹھہریں اور قعقاع ؓ کو تھوڑی سی فوج دے کر بھیجا کہ شہرپر
حملہ آور ہوں۔ عجمی بڑے جوش سے مقابلہ کو نکلے اور اس بندوبست کے لئے کہ کوئی شخص
پیچھے نہ ہٹنے پائے، جس قدر بڑھتے آتے تھے، پیچھے کو کھرو بچھاتے آتے تھے۔ قعقاع
ؓ نے لڑائی چھیڑ کر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ عجمی برابر بڑھتے چلے
آئے۔ یہاں تک کہ گو کھروکی سرحد سے نکل آئے۔ نعمانؓ نے جو ادھر فوجیں جما رکھی
تھیں، موقع کا انتظار کر رہی تھیں۔ جونہی عجمی زور پر آئے، انہوں نے حملہ کرنا
چاہا لیکن نعمانؓ نے روکا۔ عجمی جو برابر تیر برسا رہے تھے، اس سے سینکڑوں ہزاروں
مسلمان کام آئے لیکن افسر کی یہ اطاعت تھی کہ زخم کھاتے تھے اور ہاتھ روکے کھڑے
تھے۔ مغیرہؓ بار بار کہتے تھے کہ فوج بیکار ہوئی جاتی ہے اور موقع ہاتھ سے نکلا
جاتا ہے لیکن نعمانؓ اس خیال سے دوپہر کے ڈھلنے کا انتظار کر رہے تھے کہ رسول اللہ
ؐ جب دشمن پر حملہ کرتے تھے تو اسی وقت کرتے تھے۔ غرض دوپہر ڈھلی تو نعمانؓ نے
دستور کے موافق تین نعرے مارے۔ پہلے نعرہ پر فوج اپنے سامان سے درست ہو گئی۔ دوسرے
لوگوں نے تلواریں تول لیں اور تیسرے پر دفعتہ حملہ کیا اور اس بے جگری سے ٹوٹ کر
گرے کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ میدان میں اس قدر خون بہا کہ گھوڑوں کے پاؤں پھسل
پھسل جاتے تھے۔ چنانچہ نعمانؓ کا گھوڑا پھسل کر گرا، ساتھ ہی خود بھی گرے اور
زخموں سے چور ہو گئے۔ ان کا امتیازی لباس جس سے وہ معرکے میں پہچانے جاتے تھے کلاہ
اور سفید قبا تھی۔ جونہی وہ گھوڑے سے گرے، نعیم بن مقرن ان کے بھائی نے علم کو
جھپٹ کر تھام لیا اور ان کی کلاہ اور قبا پہن کر ان کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ اس
تدبیر سے نعمانؓ کے مرنے کاحال کسی کو معلوم نہ ہوا اور لڑائی بدستور قائم رہی۔ اس
مبارک زمانے میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے جو ضبط و استقلال دیا تھا، اس کا
اندازہ ذیل کے واقعہ سے ہو سکتا ہے ۔ نعمانؓ جس وقت زخمی ہو کر گرے تھے اعلان کر
دیا کہ میں مر بھی جاؤں تو کوئی شخص لڑائی کو چھوڑ کر میری طرف متوجہ نہ ہو۔ا
تفاق سے ایک سپاہی ان کے پاس سے نکلا۔ دیکھا تو کچھ سانس باقی ہے اور دم توڑ رہے
ہیں۔ گھوڑے سے اتر کر ان کے پاس بیٹھنا چاہا کہ ان کا حکم یاد آ گیا۔ اسی طرح
چھوڑ کر چلا گیا۔ فتح کے بعد ایک شخص سرہانے گیا۔ انہوں نے آنکھیں کھولیں اور
پوچھا کہ کیا انجام ہوا؟ اس نے کہا ’’ مسلمانوں کی فتح ہوئی‘‘ اللہ تعالیٰ کا شکر
ادا کر کے کہا کہ فورا عمرؓ کو اطلاع دو۔
رات ہوتے ہوتے عجمیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے
ہمدان تک تعاقب کیا، حذیفہ بن الیمانؓ نے جو نعمان ؓ کے بعد سر لشکر مقرر ہوئے
نہاوند پہنچ کر مقام کیا، یہاں ایک مشہور آتش کدہ تھا، اس کا موبد حذیفہؓ کی خدمت
میں حاضر ہوا کہ مجھ کو امن دیا جائے تو میں ایک متاع بے بہا کا پتہ دوں۔ چنانچہ
کسریٰ پرویز کے نہایت بیش بہا جواہرات لا کر پیش کئے جس کو کسریٰ نے مشکل وقتوں کے
لئے محفوظ رکھا تھا۔ حذیفہ ؓ نے مال غنیمت کو تقسیم کیا اور پانچواں حصہ مع
جواہرات کے حضرت عمرؓ کی خدمت میں بھیجا۔ حضرت عمرؓ کو ہفتوں سے لڑائی کی خبر نہیں
پہنچی تھی۔ قاصد نے مژدہ سنایا تو بے انتہا خوش ہوئے لیکن جب نعمان ؓ کا شہید ہونا
سنا تو بے اختیار رو پڑے اور دیر تک سر پر ہاتھ رکھ کر روتے رہے۔ قاصد نے اور
شہداء کے نام گنائے اور کہا کہ بہت سے اور لوگ بھی شہید ہوئے جن کو میں نہیں
جانتا۔ حضرت عمرؓ پھر روئے اور فرمایا کہ عمرؓ نہ جانے تو نہ جانے لیکن اللہ
تعالیٰ ان کو جانتا ہے۔ جواہرات کو دیکھ کر غصہ سے کہا کہ فوراً واپس لے جاؤ اور
حذیفہؓ سے کہو کہ بیچ کر فوج میں تقسیم کر دیں۔ چنانچہ یہ جواہرات چار کروڑ درہم
میں فروخت ہوئے۔
اس لڑائی میں قریباً تیس ہزار عجمی لڑ کر مارے گئے۔ اس معرکہ کے بعد
عجم نے پھر کبھی زور نہیں پکڑا۔ چنانچہ عرب نے اس فتح کانام فتح الفتوح رکھا۔
فیروز جس کے ہاتھ پر حضرت فاروقؓ کی شہادت لکھی تھی اسی لڑائی میں گرفتار ہوا تھا۔