قرآن حکیم کا نظریہ تخلیق اور خودی، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

قرآن حکیم کا نظریہ تخلیق اور خودی
تخلیق کائنات کے متعلق اقبال کا یہ نظریہ کہ اس کا بنیادی سبب خدا کی صفت محبت کا اظہار ہے قرآن حکیم کے ارشادات کے مطابق ہے قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ خدا نے کائنات کو بالحق پیدا کیا ہے۔ ایک کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔
1 ۔ "ما خلقنا السموات والارض وما بینھما لا عبین ما خلقنا ھما الا بالحق ولا کن اکثر بہم لا یعلمون"
(ہم نے کائنات کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ ہم نے اسے بالحق پیدا کیا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے)
2۔ "خلق السموات والارض بالحق ان فی ذالک لا یتہ للمومنین"
(خدا نے کائنات کو بالحق پیدا کیا ہے بے شک اس حقیقت کے اندر اس پر ایمان لانے والوں کے لئے خد اکا ایک نشان ہے)
3۔ "وخلق اللہ السموات والارض بالحق، لتجزی کل نفس بما کسبت وہم لا یظلمون"
(اور خدا نے کائنات کو بالحق پیدا کیا ہے تاکہ ہر جان کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے اور ان پر کوئی ظلم نہ کیا جائے گا)
بعض قدیم و جدید مفسرین نے بالحق سے مراد یہ لی ہے کہ کائنات کی تخلیق بے مقصد نہیں بلکہ یہ کسی ’’ نظام اور قانون‘‘ کسی’’ ضبط اور ترتیب‘‘ اور کسی’’ حکمت اور مصلحت‘‘ کے مطابق ہے لیکن جب ہم اوپر کی آیات میں سے آیت نمبر ایک کی روشنی میں اس بات پر غور کرتے ہیں کہ قرآن حکیم کے نزدیک بالحق کا جو مفہوم بھی ہے وہ کھیل یا لعب کے برعکس ہے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے تو بالحق کی یہ تفسیر قرآن حکیم کے مفہوم کو پوری طرح سے ادا نہیں کرتی۔
لعب اور تخلیق میں فرق
کیونکہ اگر ہم کسی کھیل پر مثلاً فٹ بال، کرکٹ یا شطرنج وغیرہ پر غور کریں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہر کھیل کا بھی ایک مقصد یا نصب العین ہوتاہے مثلاً فٹ بال کھیلنے والی ٹیم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ رکاوٹوں کے باوجود زیادہ سے زیادہ گول سے جیتے و علی ہذا القیاس اور پھر ہر کھیل کے عمل کے لئے کھیل کے مقصد کے ماتحت اور اس کے تنگ دائرہ کے اندر بھی ایک ’’ نظام اور قانون‘‘ ایک’’ ضبط اور ترتیب‘‘ اور ایک ’’ حکمت اور مصلحت‘‘ کا وجود ہوتا ہے۔ دراصل ایک کھیل اور سنجیدہ عمل میں فرق یہ نہیں کہ ایک کا مقصد نہیں ہوتا اور دوسرے کا مقصد ہوتا ہے۔ بلکہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ کھیل کا مقصد نقلی اور فرضی اور بناؤٹی ہوتا ہے جس کا خودی کی فطرت کے سچے تقاضوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا اس کے برعکس سنجیدہ عمل کا مقصد خودی کی غیر مبدل فطرت اور اس کے نصب العین کی محبت سے پیدا ہوتا ہے اور خودی کی آرزوئے حسن کی تشفی کرتا ہے حق خدا کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک ہے۔ خدا حق ہے کیونکہ قائم بالذات لازوال اور ثابت اور انمٹ ہے۔
"فذالکم اللہ ربکم الحق"
(یہ تمہارا پروردگار ہے جو حق ہے)
"فتعالی اللہ الملک الحق"
(پس بلند ہے اللہ جو بادشاہ ہے برحق)
خدا کی ذات کی مرکزی صفت محبت بھی حق ہے اور اس کے سلسلہ میں اس کے شوؤں اور کوائف کے طور پر اظہار پانے والی جملہ صفات جلال و جمال بھی حق ہیں اسی طرح سے خدا کی محبت اور جملہ صفات جمال و جلال کا مقصود اور مطلوب یعنی خدا کا نصب العین (یا آئندہ زمانہ میں حالت کمال کو پہنچنے والی کائنات یا نوع انسانی) بھی حق ہے کیونکہ وہ خدا کی صفات حقہ سے پیدا ہوتا ہے اور ان کا مرجع اور مظہر ہے۔
اک تو ہے کہ حق ہے اس جہاں میں
باقی   ہے  فقط  نمود   سیمیائی
تخلیق بالحق کا مطلب
لہٰذا تخلیق بالحق کا مطلب ہے ایسی تخلیق جو خدا کی صفات حقہ کے اظہار کے لئے عمل میں آئی ہو اور جس میں خدا کی صفات حقہ کا اظہار ہو رہا ہو۔ کائنات کی تخلیق تخلیق بالحق ہے کیونکہ یہ خدا کی صفات کے اظہار کے لئے عمل میں آئی ہے اور اس میں خدا کی صفات جلوہ گر ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے کائنات کی تخلیق بالحق کو خدا کی ہستی اور صفات کاا ور نیز اس بات کا کہ خدا پر ایمان لانا ضروری ہے ایک نشان یا ثبوت کہا ہے۔
"خلق السموات والارض بالحق ان فی ذالک لایہ للمومنین۔"
(خدا نے کائنات کو بالحق پیدا کیا ہے بے شک اس حقیقت پر ایمان لانے والوں کے لئے اس کے اندر خدا کا ایک نشان یا ثبوت موجود ہے)
تخلیق بالحق میں نشان راہ
کائنات کی تخلیق بالحق ایک نشان اس لئے ہے کہ اول جو اس پر ایمان لائے گا اسے یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ اسے حق کی حمایت اور باطل کی مخالفت کرنا ہے ورنہ وہ باطل کے ساتھ خود بھی پس جائے گا۔
دوئم: چونکہ کائنات کی تخلیق تخلیق بالحق ہے وہ خدا کی صفات کی جلوہ گاہ ہے اور لہٰذا خدا کی معرفت کا ذریعہ ہے۔ اگر کائنات کی تخلیق بالحق نہ ہوتی تو اس میں خدا کی مرکزی صفت محبت کا اظہار نہ ہوتا یعنی اس کا مقصد خدا کا کوئی سچا اور محبوب نصب العین نہ ہوتا اور اگر ا س میں صفت محب کا اظہار نہ ہوتا تو اس میں ربوبیت یعنی تدریجی تربیت اور تکمیل بھی نہ ہوتی اور چونکہ خدا کی تمام صفات ربوبیت کے عمل میں اظہار پاتی ہیں لہٰذا اس صورت میں کائنات کے اندر خدا کی صفات جمال و جلال کا اظہار نہ ہو سکتا۔ پھر اس تخلیق کا مشاہدہ اور مطالعہ ہمارے لئے معرفت حق کا سبب نہ بن سکتا لیکن چونکہ کائنات کی تخلیق بالحق ہے کائنات خدا کی ہستی اور صفات کا نشان اور خدا پر ایمان لانے کی ضرورت کا ثبوت اور خدا کی معرفت کا ذریعہ ہے۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کائنات کی تخلیق بالحق نہ ہوتی تو ہم ایمان لانے کے لئے مکلف اور جزا اور سزا کے مستحق نہ ٹھہرتے یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے ارشاد فرمایا ہے:
وخلق اللہ السموات والارض بالحق لتجزی کل نفس بما کسبت وہم لا یظلمون
(اللہ نے آسمانوں اور زمین کو بالحق پیدا کیا ہے تاکہ ہر جان کو اس کے عمل کی جزا یا سزا ملے اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا)
فرضی نصب العین اور غلط نصب العین میں فرق نہیں
کھیل کے نقلی بناوٹی اور فرضی نصب العین سے جو عمل سر زد ہوتا ہے وہ انسان کو اس کے فطری مقصود حیات کی طرف ایک قدم بھی آگے نہیں لے جاتا چونکہ غلط نصب العین بھی فرضی نصب العین کی طرح انسان کو اس کے فطری مقصود کی طرف بڑھنے نہیں دیتا لہٰذا غلط نصب العین کا معتقد بھی فرضی نصب العین کے پرستار کی طرح ایک بیکار مشغلہ یا کھیل میں مصروف رہتا ہے اگر ایسے شخص کو اس دنیا کی زندگی میں سفلی خواہشات کی بے لگام تشفی کی وجہ سے ایک گونہ عارضی مسرت یا راحت نصیب ہو جائے تو اس پر اترانے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ اس کا انجام خدا کا وہ عذاب ہے جو انسان کو اپنے فطری تقاضوں کو روکنے، دبانے یا نظر انداز کرنے کی وجہ سے جھیلنا پڑتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ غلط نصب العینوں کی پیروی کرنے والوں کے متعلق قرآن حکیم کا ارشاد یہ ہے کہ ان کا دین لہو و لعب ہے کیونکہ ان کا نصب العین دنیاوی زندگی کا تعیش ہے خدا نہیں۔
وذر الذین اتخذو دینھم لعبا وغرتھم الحیوۃ الدنیا وذکربیہ ان تبسل نفس بما کسبت(6:70)
(اور جن لوگوں نے کھیل اور تماشا کو اپنا دین بنا رکھا ہے اور دنیا کی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال دیا ہے۔ ان سے کوئی سروکار نہ رکھئے اور قرآن سے ان کو ڈراتے رہئے تاکہ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کوئی جان اپنے کئے کی وجہ سے ہلاک ہو)
لعب اور تخلیق میں دوسرا فرق
کھیل اور سنجیدہ عمل میں دوسرا فرق یہ ہے کہ کھیل کے نتیجہ کے طور پر فریقین میں سے کوئی بھی ہار سکتا ہے اور پھر اس میں نہ ہارنے کی کوئی اصلی اور حقیقی سزا ہے اور نہ جیتنے کا کوئی اصلی اور حقیقی انعام ہے۔ اگر کوئی سزا یا انعام ہے تو وہ بھی نقلی اور بناوٹی ہے اور کھیل ہی کا ایک حصہ ہے اس کے برعکس سنجیدہ عمل کے نتیجہ کے طور پر ہمیشہ ایک فریق کی فتح ہوتی ہے اور وہ اہل حق کا گروہ ہوتا ہے اور ہمیشہ دوسرے فریق کی ناکامی اور رسوائی ہوتی ہے اور وہ اہل باطل کا گروہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر خدا نے کوئی کھیل کھیلنا ہوتا تو وہ اس کائنات کی صورت میں نہ ہوتا جو حق و باطل کی رزم گاہ ہے اور جس میں حق ہمیشہ باطل کا سر کچل دیتا ہے باطل ہمیشہ حق سے مار کھاتا ہے اور جو اس بناء پر کھیل کے ہر وصف سے خالی ہے بلکہ خدا کا کھیل کہیں اس کی اپنی فرشتوں کی مجلس میں قائم ہوتا جہاں باطل نہ موجود ہوتا نہ کچلا جاتا۔ لیکن اس کائنات میں باطل کا جو انجام ہونے والا ہے اس کے پیش نظر انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس سے علاقہ نہ رکھے۔ اس مضمون کو قرآن حکیم نے یوں بیان فرمایا ہے:
وما خلقنا السماء والارض وما بینہما لا عبین لو اردنا ان تتخذلھوا لا خذنا من لدنا ان کنا فعلین بل نقذف بالحق علی الباطل فید مغہ فاذا ھوا زاھن ولکم الویل مما تصفون (21:16)
(اور ہم نے آسمان اور زمین اور ان کی درمیانی مخلوقات کو بطور ایک کھیل کے نہیں بنایا اور اگر ہم کوئی کھیل قائم کرنا چاہتے تو اپنے قریب کی فرشتوں کی مجلس میں قائم کر لیتے بشرطیکہ ہم یہ چاہتے بلکہ یہ کائنات حق و باطل کا میدان کار زار ہے جہاں ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں اور حق باطل کو سر کچل دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مٹ جاتا ہے جو کچھ تم کہتے ہو اس کے لئے تم پر افسوس ہے)
 تخلیق بالحق کے مضمرات
اگر کائنات ایک کھیل کے طور پر بنتی ہے تو اس کے لاتعداد نصب العین ممکن تھے کیونکہ فرضی اور بناوٹی نصب العینوں کی کوئی حد نہیں ہو سکتی لیکن سچا نصب العین جس کا تقاضا خودی کی فطرت کی مضمر ہے فقط ایک ہی ہو سکتا ہے جب نصب العین خودی کی فطرت کے مطابق ہو یعنی حق ہو تو جو وجود نصب العین بنتا ہے وہ بھی حق ہوتا ہے اور حق کی خوبیوں اور قوتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے لہٰذا اس وجود کو جہاں تک ممکن ہو خود بھی اپنی نصب العینی صورت کی جانب بدلنا اور ڈھلنا پڑتا ہے اور اس غرض کے لئے ہر قسم کی رکاوٹوں اور مشکلوں کا سامنا کر کے ان کو راستہ سے ہٹانا پڑتا ہے اگر وہ وجود اپنی نصب العینی صورت میں نہ ڈھل سکے اور کاوٹوں اور مشکلوں کے ساتھ تعاون کرے تو خدا کا جلال اس کو ان رکاوٹوں اور مشکلوں کے سمیت برباد کر کے خدا کے سچے نصب العین کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے اسی بنا پر قرآن حکیم نے بھی یہ دعا سکھائی ہے:
"ربنا ما خلقت ھذا باطلافقنا عذاب النار"
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار تو نے یہ کائنات (بالحق پیدا کی) بالباطل پیدا نہیں کی لہٰذا (اگر ہم کائنات کے سچے نصب العین کے مطابق خود ڈھل نہ سکیں تو ہماری مدد فرمائیے اور) ہمیں آگ کے عذاب سے بچائیے۔
مختصر یہ کہ ہر وہ چیز جو خدا کی صفات جمال و جلال کے عمل اور اظہار کی (یا دوسرے لفظوں میں خدا کے نصب العین کی) ممد و معاون ہے حق ہے اور ہر وہ چیز جو خدا کی صفات جمال و جلال کے عمل و اظہار کی (یا خدا کے نصب العین کی) ممد و معاون نہیں باطل ہے۔
قائما بالقسط کا مطلب
خدا کا نصب العین جو برحق ہے خدا کی صفات برحق کا تقاضا ہے اور خدا کی صفات کے اظہار سے ہی عالم وجود میں آ سکتاہے۔ لہٰذا اس کی تخلیق اور تکمیل ان خاص قوانین اور ضوابط کے ماتحت ہوتی ہے جو خدا کی صفات کے اندر بالقوہ موجود ہیں اور اس کے نصب العین کے مطابق ہیں۔ کائنات اپنی سطح پر خواہ وہ مادی ہوں یا حیوانی یا انسانی خدا کے حکم سے ان قوانین و ضوابط پر چلنے کے لئے مجبور ہے ان ہی قوانین و ضوابط کو قرآن مجید نے قسط (عدل) کہا ہے جس کو خدا نے اپنی کائنات میں قائم کر رکھا ہے کہ وہ ایک خاص نصب العین کی سمت میں جو حق ہے اور جس کا پا لینا اس کے لئے ضروری ہے آگے بڑھ رہی ہے۔ بسا اوقات انسان چاہتا ہے کہ حق کے مقتضیات سے بے پرواہ ہو کر اپنی خواہشات کی تکمیل کرے اور اس کی خواہشات حق کے تابع نہ ہوں بلکہ حق اس کی خواہشات کے تابع ہو جائے لیکن ایسا نہ ہو سکتا ۔ حق تابع نہیں بلکہ متوع ہے اگر ایسا ہو سکتا ہے تو کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہو جات اکیونکہ یہ نظام اپنے مقصد یا نصب العین پر قائم ہے اور اس صوت میں کائنات کا کوئی مقصد یا نصب العین باقی نہ رہ سکتا ۔
"لواتبع الحق اھوا ئہم لفسدت السموات ولارض ومن فیھن۔"
اگر حق ان کے تابع ہو جائے تو آسمان اور زمین میں اور جو مخلوقات ان کے درمیان بس رہی ہے ان میں فساد برپا ہو جائے۔
یہی مطلب قرآن حکیم کے اس ارشاد کا ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوقات خدا کے تابع فرمان ہیں۔
"لہ اسلم من فی السموات والارض"
آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات خدا کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔
تمام قوتیں جو کائنات کے نصب العین کی مخالف ہیں اور لہٰذا حق نہیں بلکہ باطل ہیں ان قوتوں کے سامنے ٹھہر نہیں سکتیں جو کائنات کے نصب العین کی معاون ہیں اور لہٰذا باطل نہیں بلکہ حق ہیں قرآن حکیم کی تعلیم وہ قوت ہے جو حق ہے اس کے ظہور کے بعد آخر کار تمام باطل تعلیمات کا مٹ جانا ضروری ہے۔
"قل جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا"

(کہہ دیجئے کہ وہ تعلیم جو حق تھی آ گئی اور وہ تعلیمات جو باطل تھیں مٹ گئیں بیشک باطل اپنی فطرت کی وجہ سے مٹ جانے والا ہے)