اقبال کی شاعری کے ارتقائی منازل ۔ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اقبال کی شاعری کے ارتقائی منازل ، ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم 
جس شخص کو ملکہ شاعری ودیعت کیا گیا ہو وہ بچپن ہی میں کچھ نہ کچھ مصرعے موزوں کرنے لگتا ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ پندرہ سولہ برس کی عمر یعنی مدرسے کی تعلیم کے اختتام کے زمانے میں اچھی خاصی نظمیں لکھ سکتا ہے، خود ان کا انداز تقلیدی یا مشقی ہی ہو، لیکن اس زمانے کی ابتدائی شاعرانہ کوششیں نہ اقبال نے محفوظ رکھنے کے قابل سمجھیں اور نہ ان کے قدر دانوں کو اس کے نمونے مل سکے۔ اقبال نے ایف اے کا امتحان مشن کالج سیالکوٹ سے پاس کیا تھا، اس زمانے میں ان کو ایک یگانہ روزگار صاحب بصیرت استاد سے حصول فیضان کا نادر موقع ملا۔ مولانا میر حسن اردو، فارسی اور عربی کے جید عالم تھے اور اسلامیات پر کامل عبور رکھنے کے باوجود خشک ملا نہ تھے، سرسید علیہ الرحمتہ کے مداحوں میں سے تھے، راسخ الاعتقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی وسعت مشرب سے غیر مسلم طلباء بلکہ مشنری پادری اساتذہ بھی متاثر تھے۔ 

معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اقبال نے اردو اور فارسی اساتذہ کا کلام کثرت سے مطالعہ کیا اور مولانا میر حسن شعر کا صحیح ذوق پیدا کرنے میں اس نو خیز شاعر کے معاون ہوئے۔ مولانا میر حسن کا تبحر علمی اور ان کے اخلاق کچھ اس انداز کے تھے کہ اقبال آخر عمر تک ان کو علم و اخلاق میں اسوۂ حسنہ اور اپنا محسن گردانتے تھے۔ اس معاملے میں اقبال شروع سے خوش قسمت رہے کہ ان کو اعلیٰ درجے کے استاد تعلیم کی ہر منزل میں میسر آئے۔ ان کی خوش بختی پیدائش ہی سے ان کی ہم عنان تھی۔ ان کے سب سے پہلے اور فطری اساتذہ ان کے والدین تھے۔ راقم الحروف کو ان کے والد ماجد شیخ نور محمد صاحب سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا، جس زمانے میں علامہ اقبال انار کلی میں رہتے تھے۔ وہ در حقیقت اسم با مسمیٰ تھے، نور محمدی ان کے چہرے پر متجلی تھا۔ ایک محمدی کیفیت ا ن میں یہ بھی تھی کہ وہ نبی امی کی طرح نوشت و خواند کے معاملے میں امی تھے، وہ خدا رسیدہ صوفی تھے۔ پاکیزہ اسلامی تصوف کا ذوق اقبال کو باپ سے ورثے میں ملا ۔ مولانا روم نے ایک شعر میں بلند مقامات پر پہنچے ہوئے عارفوں کے متعلق بڑے جوش سے کہا ہے کہ وہ شکاری ہوتے ہیں، اپنی جسمانی ہوا و ہوس کو اسیر فتراک کر چکنے کے بعد بھی ان کا ذوق صیادی تسکین نہیں پاتا۔ اس کے بعد وہ ملائکہ پر اپنا جال ڈالتے ہیں، اس کے بعد پیمبرانہ صفات کے حصول کے لیے انبیاء کا شکار کرتے ہیں اور آخر میں جب تک خدا بھی ان کی لپیٹ میں نہیں آ جاتا تب تک ان کی صیادی باقی رہتی ہے:
بزیر کنگرؤ کبریاش مردانند
فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر
اسی مضمون کو اقبال نے ذرا سے تصرف کے ساتھ اپنے شعر میں دہرایا ہے:ـ
در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
اب میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اقبال کے عارف باپ کے ذکر میں مولانا روم کا یہ شعر کیوں یاد آ گیا۔ پہلی ہی ملقات میں شیخ نور محمد صاحب نے اقبال کی پیدائش کا ایک دلچسپ قصہ مجھ سے بیان کیا، فرمانے لگے کہ اقبال ابھی ماں کے پیٹ میں تھا کہ میں نے ایک عجیب خواب دیکھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت خوش نما پرندہ سطح زمین سے تھوڑی بلندی پر اڑ رہا ہے اور بہت سے لوگ ہاتھ اٹھا کر اور اچھل کر اس کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ کسی کی گرفت میں نہیں آیا۔ میں بھی ان تماشائیوں میں کھڑا تھا اور خواہش مند تھا کہ غیر معمولی جمال کا یہ پرندہ میرے ہی ہاتھ آ جائے وہ پرندہ یک بیک میری آغوش میں آ گرا، میں بہت خوش ہوا اور دوسرے منہ تکتے رہ گئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے اس خواب کی تعبیر القا ہوئی کہ پرندہ عالم روحانی میں میرا پیدا ہونے والا بچہ ہے جو صاحب اقبال ہو گا۔ اقبال کے حصول کمال اور اس کی شہرت کے بعد مجھے اپنی تعبیر کے درست ہونے کا یقین ہو گیا۔ عالم مثال میں ارواح پرندوں کی طرح متمشل ہوتی ہیں۔ انجیل میں ہے کہ روح القدس فاختہ کی صورت میں زمین پر اترتی ہوئی دکھائی دی۔ شیخ نور محمد کو عالم ارواح میں سے ایک نادر روح بطور شکار ہاتھ آئی۔ عارف رومی نے بجا فرمایا تھا کہ روحانی ترقی کے ایک خاص درجے پر پہنچ کر اسی قسم کے شکار عارفوں کے ہاتھ آتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ایک روز مجھ سے فرمایا کہ والد مرحوم کو غیر معمولی روحانی مشاہدات بھی ہوتے تھے۔ فرمایا کہ والدہ مرحومہ کا بیان ہے کہ اندھیری رات تھی، کمرے میں بھی چراغ روشن نہیں تھا، آنکھ کھلی تو دیکھا کہ کمرہ تمام روشن ہے حالانکہ نہ باہر چاندنی تھی اور نہ چراغ تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کے دماغ کی پرورش تو طویل سلسلہ تعلیم میں ہوتی رہتی لیکن غذائے روح ان کو شروع ہی سے جسمانی رزق کے ساتھ باپ سے ملتی رہی۔ والدہ ماجدہ کی اچھی تربیت کا اندازہ اس مرثیے سے ہو سکتا ہے جس میں بڑھاپے کے قریب پہنچے ہوئے اقبال نے کس سوز و گداز سے ماں کو یاد کیا ہے اور اپنے جوہر کمال کو اس کا مرہون منت قرار دیا ہے۔ اقبال آخر عمر میں فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اپنا نظریہ حیات فلسفیانہ جستجو سے حاصل نہیں کیا، زندگی کے متعلق ایک مخصوص زاویہ نگاہ ورثے میں مل گیا تھا، بعد میں میں نے عقل و استدلال کو اسی کے ثبوت میں صرف کیا ہے۔ انسان کے سب سے پہلے اساتذہ اس کے ماں باپ ہی ہوتے ہیں اور ماں سے شعوری اور غیر شعوری طور پر جو کچھ حاصل کیا جاتا ہے اس کے نقوش نہایت گہرے اور ان مٹ ہوتے ہیں۔ والدین کے ساتھ ساتھ ان کو مولانا میر حسن جیسا علمی، ادبی، اخلاقی استاد ملا اس استاد کی سیرت اور بصیرت کے خط و خال بھی اقبال کی فطرت کا جزو بن گئے۔ شعر فہمی اور سخن میں یقینا مولانا میر حسن سے ان کو غیر معمولی فیض حاصل ہوا۔
سیالکوٹ میں ایف اے کے زمانے میں ضرور اقبال نے بہت کچھ مشق سخن کی ہو گی لیکن اس کو محفوظ رکھنے کے لائق نہ سمجھا بی اے کی تعلیم کے لیے وہ لاہور گورنمنٹ کالج میں آ گئے، یہاں کی صحبتوں میں ان کی شاعری کا نخل شگوفہ و ثمر پیدا کرنے لگا۔ ان کی شاعری کا چرچا ہم جماعتوں سے نکل کر خاص احباب کے حلقوں میں ہونے لگا۔ اس زمانے میں لاہور میں مشاعروں کا رواج ہو گیا تھا، حالی اور آزاد نے لاہور کے ہونہار نوجوانوں میں شعر کا چسکا پیدا کر دیا تھا۔ا رشد گورگانی بھی کچھ عرصہ لاہور میں رہے، وہ پر گو اور بدیہہ گو شاعر تھے مگر ان کی زبان ٹکسالی تھ، خود بھی اچھے شعر برجستہ کہتے تھے اور شعر کے اچھے نقاد بھی تھے۔ لاہور کے کشمیریوں نے بھی ایک مجلس مشاعرہ قائم کی تھی جس کے کرتا دھرتا محمد دین فوق تھے جو اخبار کشمیری کے ایڈیٹر اور کشمیر کے متعلق متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں اقبال پہلے پہل اسی کشمیری مشاعرے میں نظر آتے ہیں۔ اقبال نے کشمیر کے متعلق یہ رباعی اسی مشاعرے کی ایک مجلس میں پڑھی:
سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر
چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر
در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں
مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر
یہ وہی زمانہ ہے کہ مرزا داغ کے مراسلتی شاگرد تمام ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے اور مرزا داغ نے گھر میں شاعری کا ایک محکمہ کھول رکھا تھا، اصلاح کے لیے غزلیں ڈاک میں پہنچتی تھیں اور اصلاح و تنقید کے بعد واپس کر دی جاتی تھیں۔ اقبال نے داغ کی شاگردی چند ہی روز کی۔ سنا گیا ہے کہ داغ نے ان کو چند غزلوں کی اصلاح کے بعد لکھ بھیجا کہ اب تمہارے کلام کو اصلاح کی ضرورت نہیں۔ داغ کی شاعری کا موضوع تو عشق کی بجائے ہوس ہی تھا، لیکن اردو زبان میں اس سے بہتر استاد ملک میں کوئی نہ تھا، داغ کا یہ دعویٰ ثابت اور مسلم تھا:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
داغ کی وفات پر اس کے سینکڑوں شاگردوں نے مرثیے لکھے جن کا اب کہیں نام و نشان نہیں، لیکن اقبال نے جو مرثیہ لکھا وہ داغ کے کمالات کی صحیح تصویر ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال داغ کے کلام سے کس قدر متاثر تھا۔ اقبال عشق مجازی کا شاعر نہ تھا لیکن محض مشق سخن کے طور پر مصنوعی عاشقی کی کچھ غزلیں اقبال نے کہیں، جنہیں بعد میں انہوں نے خود حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ اس ابتدائی زمانے ہی میں اقبال کو یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ دلی اور لکھنو کی شاعری کے حدود و قیود سے آزاد ہو کر اپنے مخصوص انداز میں کمال پیدا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے مشاعرے ہی میں اقبال نے جو غزل پڑھی اس کا مقطع یہ تھا:
اقبال لکھنو سے نہ دلی سے ہے غرض
ہم تو اسیر ہیں خم زلف کمال کے
اس ابتدائی زمانے کی یادگار کچھ غزلیں بانگ درا میں موجود ہیں۔ ان غزلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جابجا داغ کی زبان کی مشق کر رہے ہیں، موضوع بھی وہی داغ والے ہیں، کہیں کہیں داغ کے انداز کے شعر نکال لیتے ہیں، زبان کے معاملے میں ایک آدھ جگہ ٹھوکر بھی کھا جاتے ہیں:
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
اہل زبان کے ہاں عار مذکر ہے۔
اس سے آگے تین اشعار ایسے ہیں جو داغ کی غزل میں رکھے جا سکتے ہیں:
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی


بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی


تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی
لیکن اس دور عشق و تقلید میں بھی اس اقبال کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں جس کا آفتاب کمال بہت جلد افق سے ابھرنے والا تھا اس دور کی شاعری کو اقبال کی شاعری کی صبح کاذب کہنا چاہیے جس کی روشنی طلوع آفتاب کا پیش خیمہ ہوتی ہے، غزل کے روایتی مضامین میں سر راہ حکمت و فلسفہ کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں۔ ایک غزل کے مطلع اور مقطع میں واعظ پر چوٹ کی ہے جو صدیوں سے رند اور صوفی شعراء کا ایک تفریحی مضمون ہے:
عجب واعظ کی دینداری ہے یا رب
عداوت ہے اسے سارے جہاں سے


بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں
لرز جاتا ہے آواز اذاں سے
لیکن اس مختصر سی غزل میں دو حکیمانہ اشعار بھی ہیںـ:
کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں
کہاں جاتا ہے آتا ہے کہاں سے


وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے
چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے
ان چند غزلیات میں بھی جو بانگ درا میں درج ہیں ارتقائے فن کی رفتار خاصی تیز معلوم ہوتی ہے، بعض غزلوں میں فکر کی گہرائی اور فن کی پختگی نمایاں ہے۔ ان میں کچھ عشق مجازی کی آمیزش ہے، کچھ روایتی متصوفانہ مضامین ہیں لیکن ان کے ساتھ ملے جلے حکیمانہ اشعار بھی ہیں۔ انداز بیان میں انوکھا پن ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شاعر روایتی تغزل سے رفتہ رفتہ الگ ہو رہا ہے:
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیوں کر ہوا
اور اسیر حلقہ دام ہوا کیوں کر ہوا


جاے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیوں کر ہوا


کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلہ کیوں کر ہوا


ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا
مرغ دل دام تمنا سے رہا کیوں کر ہوا
موسیٰ و طور کے قصے کا مندرجہ بالا شعر دیکھئے اور پھر آخر میں پیغمبر خودی اقبال کا یہ شعر پڑھیے:
کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثل کلیم
اپنی ہستی ہے عیاں شعلہ سینائی کر
تو اس کا کچھ اندازہ ہو گا کہ اقبال اپنے ارتقائے فکر میں رفتہ رفتہ کہاں سے کہاں پہنچا ہے:
وہی اقبال جو آخر میں نفس انسانی کی بقاء کا قائل اور شدت سے آرزو مند ہے، تصوف کے روایتی نظریہ فنا کے زیر اثر ابتدائی دور میں یہ کہہ جاتا ہے:
نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے
ٹھہر جا اے شرر ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں
وہی اقبال جو بعد میں یہ تلقین کرنے لگا کہ آفاق اور اس کے مظاہر کو آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے کیونکہ خدا کا جلوہ جیسا بطون میں ہے ویسا شہود میں بھی ہے ’’ ھو الظاہر ھو الباطن‘‘ وہ شروع میں یہ کہہ رہا تھا:
ہو وید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
متصوفین کے فلسفہ فنا کا یہ ایک مسلمہ مضمون تھا کہ نفس کی انفرادیت ایک دھوکا ہے، نمود حق کے بعد یہ فریب ادراک مٹ جاتا ہے اور اس کے بعد پھر وہی ازلی حقیقت ’’ لا موجود الا اللہ‘‘ رہ جاتی ہے۔ غالب کے ہاں یہ متصوفانہ افکار بہت ملتے ہیںـ:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
اقبال بھی تصوف کے زیر اثر فرماتے ہیں:
میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی
جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں
یا ایک دوسری غزل میں کہتے ہیںـ:
میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ
اٹھ گیا بزم سے میں پردۂ محفل ہو کر
اقبال نے اپنے ترقی یافتہ دور میں اسی فلسفہ فنا کے خلاف زور شور سے جہاد کیا، تاہم ابھی غزلوں میں تحقیق کا شائق اور تقلید سے گریز کرنے والا اقبال بھی دکھائی دیتا ہے:
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے


مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر
یگانہ شے پہ نارش بے جا بھی چھوڑ دے
اسی غزل میں ایک اور شعر بھی تھا جو انتخاب کرتے ہوئے اقبال نے نکال دیاـ:
مینار دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ
یہ انتظار مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے
یہ شعر غالباً اس لیے نکال دیا کہ مہدی و عیسیٰ کے متعلق مسلمانوں کے عام عقائد کو اس سے ٹھیس لگتی تھی، خواہ مخواہ ہدف تکفیر بننے سے فائدہ؟ لیکن آخر تک اقبال کا عقیدہ یہی تھا کہ کسی نجات دہندہ کا انتظار شکست خوردہ قوموں کا عقیدہ ہے؟ ہر مسلمان کی نجات اور ملت اسلامیہ کی نجات و فلاح عرفان نفس اور خودی کے استحکام میں ہے۔
۱۹۰۵ء تک اقبال ایک علی الاطلاق شاعر ہے زندگی اور فطرت کے جس منظر اور جن حوادث سے متاثر ہوتا ہے ان کو اپنے حسن بیان کا جامہ پہنا دیتا ہے، تقلیدی اور روایتی شاعری سے اس نے بہت جلد چھٹکارا حاصل کر لیا، جہاں تک فن کا تعلق ہے اس نے کمال پیدا کر لیا، کہیں داغ سے فیض یاب ہے اور کہیں غالب کے تخیل کا قدر دان:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
فن کے لحاظ سے اقبال ہر استاد سے کچھ نہ کچھ لیتے گئے، یہاں تک کہ فرماتے تھے کہ میں نے ناسخ سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔
آزاد، حالی اور شبلی کے ہاں اردو شاعری اگر قدیم ڈگر سے بٹنا شروع ہوئی تو یہ مغربی افکار کا نتیجہ تھا۔ اس کا احساس غالب کو بھی ہو گیا تھا کہ جدید تہذیب اور علوم و فنون ہو انگریزوں کے ساتھ مغرب سے آئے ہیں، ان کی بدولت زندگی کے اقدار اور انسان کا زاویہ نگاہ بدل گیا ہے یا بدل جانا چاہیے۔ چنانچہ سید احمد خاں نے جب ’’ آئین اکبری‘‘ کا تصحیح کردہ ایڈیشن شائع کیا اور غالب کو تقریظ کے لیے بھیجا تو غالب نے اپنے دوست سید احمد کا کچھ لحاظ نہ کیا اور سخت مخالفانہ تنقید اس پر کی جو غالب کے کلیات فارسی میں شامل ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ قابل غور اب صرف نئے آئین و قوانین ہیں، تہذیب و تمدن کی ترقی نے پرانے قاعدوں کو منسوخ کر دیا ہے، اب ان پر دماغ سوزی کرنا محض مردہ پرستی ہے جو سید جیسے مصلحین قوم کے شایان شان نہیں۔ لیکن غالب کی شاعری پر اس جدت پسندی کا کچھ اثر نہ پڑا اس لیے کہ جب اس کو یہ احساس پیدا ہوا، اس وقت وہ اپنی شاعری ختم کر چکا تھا اور وہ اپنے فن کے عمر بھر کے تیار کردہ اور پختہ سانچوں کو توڑ کر نئے سانچے تیار نہ کر سکتا تھا، پیری، ناداری اور بیماری نے اس کی قوتوں کو مضمحل کر دیا تھا ورنہ وہ آخر ایام میں سید احمد خاں اور ان کے رفقا سے کم تجدید کا تمنائی نہ تھا۔
حالی کو فطری اور قومی شاعری کی طرف سید احمد خاں لائے۔ حالی انگریزی داں نہ تھے اور نہ ہی سید احمد خاں انگریزی داں تھے اگرچہ اکبر نے سید صاحب کے متعلق بہت خوب کہا ہے کہ تم انگریزی داں ہو وہ انگریز داں تھا۔ علی گڑھ میں انگریزی تعلیم کا چرچا ہو گیا تھا، مغربی علوم و فنون کا سواد تعلیم میں داخل تھا، انگریز اور انگریزی داں ہندوستانی علی گڑھ میں جمع تھے۔ سید صاحب اور ان کے رفقاء ان سے ہر طرح معلومات حاصل کرتے تھے اور ان کے زیر اثر اپنے افکار میں ثروت پیدا کرتے تھے یا ان کا رخ بدلتے تھے ۔ غدر کے بعد محمد حسین آزاد ہجرت کر کے لاہور آ گئے تھے اور گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ہو گئے تھے وہ بھی انگریزی داں نہ تھے، علی گڑھ کی تحریک سے انہوں نے بھی مغربی انداز کی جدید شاعری شروع کر دی اور گل و بلبل کی شاعری کو خیر باد کہا۔ اقبال کی گورنمنٹ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں یہ نمونے موجود تھے اور جدید اثرات کام کر رہے تھے۔ سید صاحب ہوں یا حالی یا شبلی یا مولانا نذیر احمد افکار کماحقہ ان کی گرفت سے باہر تھے اور وہ اس کی کمی کو تاسف کے ساتھ محسوس کرتے تھے۔ آزاد نے نیرنگ خیال میں یہ پیش گوئی کی کہ آئندہ بلند درجے کا ادب وہی لوگ پیدا کر سکیں گے جن کے ہاتھوں میں مغرب اور مشرق دونوں کے خزینہ افکار کی کنجیاں ہوں گی۔
یہ سب زبردست عالم او رادیب تھے اور انگریزی دانوں کی اعانت سے بعض اوقات ایسی چیزیں لکھ جاتے تھے جو اب تک مستند شمار ہوتی ہیں چنانچہ مولوی نذیر احمد کا انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ تعزیرات ہند جدید قانون میں اصطلاح سازی کا ایک شاہکار ہے، یہ کام کسی خالی انگریزی داں سے سر انجام نہ پا سکتا۔ اسی طرح دہلی کالج کے سلسلے میں مولوی ذکاء اللہ نے درجنوں علوم و فنون جدیدہ کی کتابوں کو اردو زبان میں منتقل کر دیا۔
اپنے غیر معمولی کمال کے باوجود یہ سب بزرگ جس کمی کو محسوس کر رہے تھے وہ کمی اقبال نے پوری کی اقبال جتنی قدرت اردو اور فارسی پر رکھتے تھے اتنی ہی دسترس ان کو انگریزی زبان پر بھی حاصل تھی، مغربی افکار کا تمام سرمایہ اقبال کو براہ راست ہاتھ آیا اور مشرق و مغرب کا قرآن السعد بن اقبال ہی میں ظہور پذیر ہوا، آزاد کی تمنا اقبال میں مجسم ہو گئی۔بطور نمونہ موجود تھی، اعلیٰ جذبات تو درکنار ادنیٰ شہوات کا انداز بھی غیر فطری ہو گیا تھا، زن و اردو زبان مسلمانوں کے دور انحطاط کی پیداوار ہے۔ اردو شاعری کے سامنے جو نمونہ تھا وہ متاخرین کی فارسی شاعری تھی۔ قصیدہ گوئی اور ہوس پرستی کے تغزل دور از کار تخیل اور مضمون آفرینی نے اس کو خلوص اور حقیقت سے کوسوں دور کر دیا تھا اور جذبات عالیہ کا اس میں فقدان تھا، دیرینہ تقلید سے وہ اپنی خامیوں میں پختہ ہو گئی تھی، کوئی داخلی محرکات اصلاح و تجدید کے اس کے اندر سے پیدا نہ ہو سکتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی سیاسی غلبے نے مشرق کی آنکھیں کھول دیں اور اس کو اپنے احتساب پر مجبور کیا۔
اقبال کے سامنے اردو اور فارسی کی شاعری کے علاوہ انگریزی شاعری کے بہترین نمونے موجود تھے۔ انگریزی شاعری ایک آزاد قوم کی شاعری ہے یہ قوم طرح طرح کے سیاسی انقلابات میں سے گزری اور اس کی تاریخ میں شروع سے آخر تک حریت کی جدوجہد نظر آتی ہے۔ اس میں اچھے اور برے، مطلق العنان اور پابند آئین و دستور ہر طرح کے بادشاہ اور حکمران گزرے ہیں لیکن اس قوم میں کبھی غلامانہ ذہنیت پیدا نہیں ہوئی۔ اگر کوئی بادشاہ دستور شکن اور مستبد معلوم ہوا تو اس کی گردن کاٹ دی گئی۔ کسی نے مذہبی استبداد کی کوشش کی تو اس کے خلاف بھی لوگ جہاد پر آمادہ ہو گئے۔ مسلمانوں کو اسلام نے یہ تعلیم دی تھی کہ حکومت علما و صلحا اور رموز شناس مملکت کے مشورے سے ہونی چاہیے لیکن طلوع اسلام کے چند سال بعد ہی وہ حکمت و حریت کے تمام سبق بھول گئے، اس کا جو نتیجہ ہوا وہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک المناک پہلو ہے۔
عربوں کی اپنی قوی اور طبعی شاعری میں بہت زیادہ تخیل او رمضمون آفرینی تو نہ تھی لیکن حقیقت اور خلوص تھا۔ عجم اسلام کا سیاسی طور پر تو مطیع و مسخر ہو گیا لیکن شاہ پرستی کی عجمی روایات نے اسلامی خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا افراد مملکت، مسلم ہوں یا غیر مسلم حریت و مساوات سے بیگانہ ہو گئے۔ اس کا بہت برا اثر شاعری پر پڑا عجم میں پہنچ کر پہلے عربی زبان میں قصیدہ گوئی شروع ہوئی اور اس کے بعد فارسی میں بادشاہوں اور امراء کی جھوٹی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے۔ شاعروں نے جب دیکھا کہ دروغ ہی سے فروغ ہوتا ہے تو دروغ بافی اور مبالغہ آرائی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی روحانیت اور اخلاقیات شاعری میں سے عنقا ہو گئے، فطری اور سچے جذبات کو خلوص سے بیان کرنے والا کوئی نہ رہا۔ رندی، شراب خواری اور ہوس پرستی شاعری کا موضوع بن گئی، رود کی سے لے کر قاآنی تک اس بد روی میں ترقی ہوتی گئی۔ چند بلند پایہ، صالح الفکر اور صوفی شعراء کو چھوڑ کر باقی سب کا یہ حال ہے ادب کی یہی مسخ شدہ صورت اردو شاعروں کے سامنے مرد کی محبت کی جگہ امرد پرستی نے لے لی۔ اس لغو قسم کی مشق سخن میں زبان میں لطافت اور نکتہ آفرینی نے تو ترقی کی لیکن موضوع سخن زیادہ تر بیہودہ ہی رہا۔
تصوف جس کا حقیقی وظیفہ عرفان نفس سے عرفان الٰہی کی طرف رہنمائی کرنا تھا، وہ بھی غیر اسلامی تخریبی عناصر کی بدولت جادۂ صداقت سے ہٹ گیا۔ کچھ غلامانہ اور عیاشانہ زندگی نے اور کچھ تشکیک آفرین فلسفے نے ایمان و عمل کی بنیادیں متزلزل کر دیں، ہر قسم کے استبداد نے لوگوں میں اختیار کی بجائے جبر کے عقیدے کو استوار کر دیا عوام کو یہ تلقین کی گئی کہ رموز مملکت فقط بادشاہ جانتے ہیں، گدائے گوشہ نشیں کو خواہ مخواہ اعتراض اور احتجاج نہیں کرنا چاہیے، جو کچھ ہوتا ہے وہ خدا کی مرضی سے ہوتا ہے، مومن کا فرض ہے کہ وہ تن بہ تقدیر تسلیم و رضا کا شیوہ اختیار کرے، اگر بادشاہ دن کو رات کہے تو سننے والا اس کی تائید میں یہ اقرار کرے کہ ہاں مجھے تارے نظر آ رہے ہیں۔ زاہد اور زہد اور عاصی کا عصیان، عابد کی عبادت اور فاسق کا فسق سب مشیت الٰہی ہے جس کے آگے دم مارنا مومن کا کام نہیں، زاہد کے زہد سے اور فاجر کے فجور سے عبادت و کائنات کے لامتناہی کارخانے میں کون سا فرق پڑتا ہے:
بیا کہ رونق این کارخانہ کم نشود
ز زہد ہمچو توئی، و ز فشق ہمچو منے


حافظ بخود نپوشید این خرقہ مے آلود
اے شیخ پاک دامن معذور دار مارا


در کوے نیک نامی مارا گذر ندادند
گر تو نمی پسندی تغیر کن قضا را
زندگی بھی کسی کی سمجھ میں آنے کی چیز نہیں:
اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
اب جب کچھ سمجھ میں نہیں آ سکتا تو کیا کیا جائے سوائے اس کے کہ گاؤ بجاؤ، پیو پلاؤ اور خوش رہو:
حدیث از مطرب و مے گو و راز دہر کمتر جو
کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را
متصوفانہ افکار کے ساتھ ان تمام خیالات کی اس طرح آمیزش ہوئی کہ تمام عقائد اور زوایاے نگاہ دین بن گئے حقیقی فلسفہ، آزادی فکر سے حقیقت کی جستجو کا نام ہے اور یہ جستجو اس اذعان و یقین کے ساتھ کی جاتی ہے کہ خدا نے عقل اس لیے دی ہے کہ مشاہدے اور تفکر سے وجود حقیقی کی ذات اور صفات کو حتیٰ الامکان معلوم کیا جائے اور پھر اس دریافت شدہ حکمت کے مطابق اعمال کو ڈھالا جائے۔ تصوف کا کام اس سے بھی زیادہ عرفان اور تزکیہ قلب تھا لیکن مسلمانوں کی شاعری میں حکمت اور تصوف دونوں نے زیادہ تر تعمیر حیات کی بجائے تخریب ہی کا کام کیا، شاعری، نہایت ادنیٰ سطح پر فن برائے فن رہ گئی یا فن برائے زرانہ وزی و جاہ طلبی۔
یہ جو کچھ کہا گیا ہے فارسی کی تمام شاعری پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، آخر سعدی و رومی اور سنائی و عطار بھی شاعر ہیں، اعلیٰ درجے کی حکیمانہ باتیں بھی بعض شعراء میں منتشر طور پر ملتی ہیں، لیکن شاعری کے طوفان بے تمیزی میں یہ گوہر کہیں نایاب اور کہیں کمیاب ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اقبال نے عجمی شاعری سے فائدہ نہیں اٹھایا یا ساز عجم کے نغمے اس کے اشعار میں نہیں ہیں لیکن ساز کے ہم رنگ و ہم آہنگ ہونے کے باوجود اقبال کے ہاں نغموں کا موضوع اور تاثر بہت کچھ الگ ہو گیا۔ اقبال نے اردو اور فارسی کی تمام شاعری کے طومار کو سامنے رکھ کر ’’ خذما صفا و دع ما کدر‘‘ سے کام لیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شروع میں اقبال کی شاعری کا رخ مغرب کے اثرات نے بدلا؟ اردو اور فارسی میں مناظر فطرت کی شاعری نہ ہونے کے برابر تھی، فارسی میں گلزار کوہسار کے متعلق جو کچھ ملتا ہے وہ محاکات نہیں بلکہ تخیل ہے، ایران اچھی آب و ہوا اور باغ و بہار کا ملک ہے لیکن انگریزی شاعری کے مقابلے میں اس موضوع پر اس کا سرمایہ شعر عشر عشیر بھی نہیں، وطن اور قوم کی محبت کی شاعری بھی مفقود ہے، اس لیے کہ نہ کسی شاعر میں حب وطن تھی اور نہ جذبہ ملت۔ قدیم عربی شعراء میں قبیلوی عصبیت شدت سے موجود تھی اس لیے وہ جائز یا ناجائز طور پر اپنے قبیلے کے جذبات کو ابھار کر افراد قبیلہ کی ہمت افزائی کر سکتے اور ان کو عمل و ایثار اور جانبازی پر آمادہ کر سکتے تھے۔ یہ جذبہ انگریزی شاعری میں ملتا ہے۔ فارسی شاعری کو گل و بلبل کی شاعری کہا جاتا ہے لیکن ایرانی شعراء نے گل و بلبل کو فقط اپنی جھوٹی عاشقی کے بیان میں تمثیل و استعارہ کے طور پر استعمال کیا۔ پھولوں کی رنگینی اور پرندوں کی خوش نوائی سے جو اثر طبیعت پر ہوتا ہے اس کابیان کہیں ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ انگریزی شاعر حقیقت کو نمایاں کرنے کے لیے تخیل سے کام لیتا ہے، اس کے ہاں تخیل ایک پاور ہوا عنکبوت کا تانا بانا نہیں۔ اقبال کی ۱۹۰۵ء تک کی نظموں میں انگریزی شاعری کا اثر غالب ہے کئی نظمیں انگریزی نظموں کا آزاد اور دلکش ترجمہ ہیں، کئی نظمیں ایسی ہیں جو ترجمہ تو نہیں لیکن انداز تاثر و تفکر اور اسلوب بیان انگریزی ہے۔ ہمالیہ جیسا عظیم الشان سلسلہ کوہسار جس کے جلال و جمال کی مثال کرۂ ارض اور کہیں نہیں ملتی، کیا وجہ ہے کہ اقبال سے پہلے کسی شاعر نے اس سے متاثر ہو کر ایک شعر بھی نہ کہا؟ اسی طرح بادل کے مضمون کو لیجئے، اردو اور فارسی میں کوئی نظم ابر پر بحیثیت ابر نہیں ملتی، البتہ محرک شراب نوشی قرار دے کر بادلوں کے متعلق بہت سے اشعار ملتے ہیںـ:
بدلی آتی ہے بدل جاتی ہے نیت میری


کی فرشتوں کی راہ ابر نے بند
جو گنہ کیجئے ثواب ہے آج
مکڑے اور مکھی اور پہاڑ اور گلہری پر اردو اور فارسی روایات کا پابند شاعر، کاہے کو کوئی نظم لکھتا۔
مغربی شاعری کا سب سے اچھا اثر اقبال پر یہ ہوا کہ وہ مصنوعی اور بے حقیقت شاعری سے بچ گیا۔ کوئی اچھا انگریزی شاعر بغیر گہرے ذاتی تاثر کے محض صناعی اور اظہار کمال کے لیے نظم نہیں لکھتا۔ اقبال بھی ایسی فطرت کا شاعر ہے اس نے کئی مرتبہ احباب سے بیان کیا کہ میں دوسروں کے تقاضے سے شعر نہیں کہتا جب تک کوئی زبردست داخلی یا خارجی محرک میری طبیعت میں سے نغمہ یا نالہ پیدا نہ کرے۔ غالب کو بھی فطرت نے شاعر بنایا تھا لیکن وہ بہت کچھ غلط روایات شعری کا شکار ہو گیا، ایک خط میں کہتا ہے کہ شاعری قافیہ پیمائی نہیں بلکہ مضمون آفرینی ہے۔ ایک دوسری جگہ اپنے متعلق کہتا ہے کہ ’’ نگویم اگر نغز نباشد‘‘ لیکن اقبال کے ہاں شاعری نہ قافیہ پیمائی ہے اور نہ مضمون آفرینی اور نہ نغز گوئی ہے۔ اچھا شعر شاعر کی فطرت کے باطنی تقاضے سے پیدا ہوتا ہے، یہ تقاضا خود بخود قافیہ پیمائی بھی کرتا ہے اور مضمون آفرینی بھی اور جو شعر اس آمد سے نکلتا ہے وہ نغز بھی ہوتا ہے۔ مولانا روم اپنے متعلق فرماتے ہیں:
من نہ دانم فاعلات فاعلات
شعر مے گویم بہ از آب حیات
ایسی شاعری وہ شخص کر سکتا ہے جس کے اندر آب حیات کا چشمہ ہو اور جو ادھر ادھر کے نالوں یا پرنالوں سے اپنا تالاب نہ بھرتا ہو۔
۱۹۰۵ء تک کی شاعری کو اقبال اپنی سخن گوئی کا دور اول قرار دیا ہے۔ اس سن کو حد فاضل اس لیے بنایا کہ ۱۹۰۵ء میں اقبال یورپ چلے گئے یورپ مینان کے مطالعے اور مشاہدے اور تفکر نے ان کی طبیعت کا رنگ بہت کچھ بدل گیا فرنگ کی دنیا ایشیا کی دنیا سے بے حد مختلف تھی، اس نئی دنیا نے اقبال کی طبیعت میں نئے تاثرات پیدا کیے جس کا تجزیہ ہم اس کے بعد کریں گے۔ ۱۹۰۵ء میں اقبال کی عمر قریباً تیس سال تھی اس عمر تک کسی ذہین و فطین انسان کے افکار و جذبات کے سانچے میں بہت کچھ بن چکتے ہیں اور اس عمر کے بعد شاذ و نادر ہی کسی شخص میں کوئی بنیادی تبدیلی ہوتی ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اس عمر تک لگے ہوئے بعض پودے بعد میں مزید نشوونما سے نخل بلند و بالا بن جائیں اور ان میں کثرت سے برگ و بار اور شگوفہ و اثمار نکلیں، یا یہ کہ اس کی عمر تک بعض باتیں طبیعت کی زمین میں ابھی خاک پوش تخم کی طرح موجود ہوں اور آگے چل کر وہ کھلی فضا میں پھلیں اور پھولیں۔ اس سن تک اقبال کا کلام سو سے کچھ زائد صفحات پر بانگ درا میں ملتا ہے، اس میں ہر طرح کی نظمیں ہیں، ان نظموں میں ابھی شاعری جزو پیغمبری نہیں بنی، شاعر جس چیز سے متاثر ہوتا ہے اس پر شعر کہہ دیتا ہے لیکن ان نظموں میں بھی افکار کی وسعت، گہرائی اور تنوع موجود ہے اور وہ افکار اور تاثرات بھی جا بجا موجود ہیں جو آگے چل کر اقبال کا مخصوص پیغام اور اس کی امتیازی خصوصیت بن گئے ان نظموں میں بھی وہ اقبال ملتا ہے جو دل کی بصیرت اور وجدان کو حسی ادراک اور استدلالی عقل پر مرحج سمجھتا ہے۔ جابجا خودی بھی ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے، طبیعت میں وہ اضطراب اور تپش بھی موجود ہے جو بڑھتے بڑھتے بعد میں کوہ آتش فشاں بن جائے گی ذوق انقلاب و ارتقاء بھی ناپید نہیں، وطن کی محبت شدت سے موجود ہے لیکن وہ عالم گیر انسانی ہمدردی اور ہمہ گیر اخوت کے راستے میں حارج نہیں، تصوف کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ اپنا مخصوص حیات پرور عرفان بھی جا بجا جھلکتا ہے، اقبال جو کچھ بعد میں بنا اس کی داغ بیل ان نظموں میں بھی موجود ہے۔
مثال کے طور پر لیجئے۔عقل و دل کا تضاد یا تصادم اور ان کی باہمی موافقت یا مخالفت زندگی کی ادنیٰ سطحوں پر ہر وقت موجود رہتی ہے، ادنیٰ درجے کی ہوس یا اعلیٰ درجے کا عشق، یہ کشمکش کسی نہ کسی صورت میں ضرور پائی جاتی ہے، اس کی ادنیٰ صورت یہ ہے:
دل یہ کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
اور اعلیٰ صورت پیکار یہ ہے کہ عقل تشکیک میں گرفتار رہتی ہے اور دل ایمان کا طالب ہوتا ہے، عقل نفع و ضرر اور تنگ و نام کے پیمانوں سے سوچتی اور احتیاط برتنے کی تلقین کرتی ہے اور عشق پروانے کی طرح شمع پر گرتا ہے۔ا گر ہمیشہ عقل ہی کی رہبری تسلیم کریں تو ان میں مہم وری غائب ہو جانے برنارڈ شا نے اپنے مخصوص انداز بیان میں کیا خوب کہا ہے کہ انسانی زندگی میں بڑے بڑے انقلابات اور ترقیاں نامعقولوں کی بدولت ظہور میں آئی ہیں، انہوں نے جو کچھ کہنا یا کرنا چاہا، ہر محتاط عاقل نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کسی کی نہ سنی۔ عقل و عشق کا تضاد صوفیہ کا خاص مضمون ہے، مولانا روم کے ہاں سینکڑوں اشعار اس مضمون کے ملتے ہیں کہ:
عقل در شرحش چو خر در گل بخفت
شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت
اقبال نے اپنی پیغمبرانہ شاعری میںآگے چل کر اس کو اس طرح اپنایا اور گرمایا ہے کہ وہ تنوع بیان اور نکتہ آفرینی میں تمام صوفیہ اور عشاق کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اقبال نے ابتدائی نظموں میں ایک مرتبہ تو ذرا جھجک کر اور کسی قدر احتیاط برت کر کہا ہے کہـ:
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
لیکن جو سادہ اور سلیس نظم عقل و دل کے عنوان سے لکھی ہے، اس میں عقل و دل کا مکالمہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہتر چند اشعار میں نہ عقل کی ماہیت کو کوئی پیش کر سکتا ہے اور نہ دل کی مخصوص حیثیت کو بعد میں اقبال نے سینکڑوں اشعار اس مضمون پر لکھے ہیں لیکن وہ سب انہی سادہ اشعار کی شرح ہیں:
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں


ہوں زمین پر، گزر فلک پہ مرا
دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں


کام دنیا میں رہبری ہے مرا
مثل خضر خجستہ پا ہوں میں


ہوں مفسر کتاب ہستی کی
مظہر شان کبریا ہوں میں


بوند اک خون کی ہے تو لیکن
غیرت لعل بے بہا ہوں میں


دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے
پر مجھے بھی تو دیکھ، کیا ہوں میں


راز ہستی کی تو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں


ہے تجھے واسطہ مظاہر سے
اور باطن سے آشنا ہوں میں


علم تجھ سے، تو معرفت مجھ سے
تو خدا جو، خدا نما ہوں میں


علم کی انتہا ہے بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں
شمع تو محفل صداقت کی
حسن کی بزم کا دیا ہوں میں


تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائر سدرہ آشنا ہوں میں


کس بلندی پہ ہے مقام مرا
عرش رب جلیل کا ہوں میں
اقبال نے عقل اور عشق کے موازنے اور معاملے میں اردو اور فارسی میں سینکڑوں بلیغ اشعار کہے ہیں۔ یہ مضمون اس کی طبیعت میں بار بار ہزار رنگ میں ابھرتا ہے اور ہر بار اس میں نیا جوش اور طرز بیان میں جدت ہوتی ہے لیکن اس تمام عرفان وجدان اور تمام فلسفے میں اساسی طور پر کوئی ایک نکتہ نہیں جو اس چھوٹی سی نظم میں موجود نہ ہو، اقبال کی نظموں میں یہ نظم سادہ گوئی کا ایک شاہکار ہے۔ فارسی نظموں میں اقبال نے عقل و خرد کی بہت تذلیل و تحقیر کی ہے اور جیسا کہ ایک نقاد نے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال عقل کے پیچھے لٹھ لیے پھرتا ہے کہ جب بھی موقع ملے ایک ضرب رسید کر دے لیکن اس اردو نظم میں بڑا اعتدال اور نہایت منصفانہ توازن ہے۔ عقل نے اپنی فضیلت اور کار گزاری میں جو کچھ کہا وہ سچ ہے، اس لیے دل نے اس کی تردید نہیں کی، دل نے صرف اس کے حدود و قیود کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اپنی غرض و غایت کے لحاظ سے تو حق بجانب ہے لیکن ہستی حقیقی یا وجود مطلق صرف اتنا ہی نہیں جتنا کہ تجھ کو ادراک ہوتا ہے۔ عقل کی رسائی میں کس کو شک ہے؟ وہ زمین کے جماد و نبات ہی نہیں بلکہ فلکیات کی بھی محاسب ہے، خدا چونکہ عاقل ہے اس لیے عقل کا یہ دعویٰ کہ میں مظہر شان کبریا ہوں بجا اور درست لیکن سمجھنے اور دیکھنے میں فرق ہے، عین الیقین کا درجہ علم الیقین سے بڑھا ہوا ہے، عقل کا کام علم الیقین تک پہنچانا ہے، اس کی رہبری یہاں پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے:
عقل گو آستان سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
حکمت، سائنس یا فلسفے کا کام مظاہر فطرت کا مطالعہ ہے تاکہ یہ کثرت، آئین کی وحدت میں پروئی جائے لیکن کنہ وجود تک اس کی رسائی نہیں، عقل کی بینائی مظاہر کی سطح تک خوب کام کرتی ہے۔ لیکن عین وجود میں غوطہ زنی اس کا کام نہیں۔ عقلی ادراک ہمیشہ بالواسطہ ہوتا ہے، استدلال کی کئی کڑیاں ایک نتیجے پر منتج ہوتی ہیں۔ اگر استدلال کے زینے میں سے کوئی ایک پایہ ٹوٹ جائے تو نتیجے تک پہنچنا محال ہو جائے۔ عقل میں شک اور گمان کا شائبہ ہمیشہ باقی رہتا ہے لیکن براہ راست مشاہدے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی:
راز ہستی کو تو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
عقل و دل کا یہ مکالمہ بو علی سینا اور ابو سعید ابو الخیر کی ملاقات میں بھی ملتا ہے۔ حضرت ابو سعید کے سوانحی حیات میں یہ لکھا ہے کہ حکیم بو علی سینا سے ان کی ملاقات ہوئی اور عالم روحانی کی بابت بو علی نے نہایت عمدہ استدلال سے اس عالم کی کیفیات کا اثبات کیا اور کہا کہ ازروئے حکمت انسان ان نتائج پر پہنچتا ہے۔ حضرت ابو سعید نے سب کچھ سن کر فقط یہ فرمایا کہ ’’ ہر چہ می دانی من می بینم‘‘ جو کچھ تو جانتا ہے میں اس کو چشم دل یا دیدۂ باطن سے دیکھتا ہوں۔ استدلال اور مشاہدے یا دانش و بینش کا فرق ہے۔ حقیقت رسی کے معاملے میں علم کا تذبذب کبھی ختم نہیں ہوتا۔ عقل اپنے نتائج حسی ادراک کے مواد سے اخذ کرتی ہے اور تمام حسی مظاہر زمان و مکان کے سانچوں میں ڈھل کر عقل کے لیے قابل ادراک ہوتے ہیں، اس لیے جو حقیقت نہ زمانی ہے نہ مکانی، وہ عقل کی گرفت سے لازماً باہر رہے گی۔ صوفیہ کشف و وجدان سے اس حقیقت پر پہنچے کہ دل کے مشاہدات اور احوال زمانی او رمکانی نہیں ہوتے اور یورپ کا سب سے بڑا فلسفی کانٹ بڑے طویل اور دقیق استدلال سے اس نتیجے پر پہنچا کہ زمان و مکان کوئی مستقل اور لا محدود حقائق وجود نہیں بلکہ عقل و ادراک کے سانچے میں خدا اور روح کی حقیقت ان سے ماوریٰ ہے عقل کا وظیفہ مطالعہ مظاہر اور علت و معلول کے روابط تلاش کرنا ہے، ہستی کی حقیقت تک اس کی رسائی نا ممکن ہے، عقل بے کار چیز نہیں لیکن جب وہ اپنی حد سے باہر قدم رکھنا چاہتی ہے تو سوخت ہو جاتی ہے:
اگر یک سر موے بر تر پرم
فروغ تجلی بسوز د پرم
اسی دور کی نظموں میں ایک نظم دل کے عنوان سے دل کی ردیف میں لکھی ہے، اس نظم میں بھی خودی اور عشق کے مضامین دلکش انداز میں بیان کیے ہیں، دل کی لامتناہی صلاحیتوں کا ذکر ہے:
قصہ دار و رسن بازی طفلانہ دل
التجاے ارنی سرخی افسانہ دل


یا رب اس ساغر لبریز کی مے کیا ہو گی
جادۂ ملک بقا ہے خط پیمانہ دل


ابر رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یا رب
جل گئی مزرع ہستی تو اگا دانہ دل


حسن کا گنج گرانمایہ تجھے مل جاتا
تو نے فرہاد نہ کھودا کبھی ویرانہ دل
مقطع میں کہتے ہیں:
عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے
برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے
اقبال کی شاعری آخری میں دل کی حقیقت کی شاعری بن گئی اسی دل کی حقیقت شناسی نے عشق کا راگ الاپا، اسی نے خودی کے تحقق اور استحکام کو شد و مد کے ساتھ پیش کیا، اسی دل نے عقل پر تنقید کی، اسی نے مقصود حیات متعین کیا، اسی نے اپنے اندر سے خدا کی طرف جانے کا دروازہ کھولا، اسی نے انسان کی موجودہ بے بسی پر آنسو بہائے، اسی نے انسان کو محدود سے لامحدود ہونے کے طریقے سمجھائے۔ اقبال کے نزدیک دل ہی ہے جو لامتناہی قوتوں کا سر چشمہ اور لا محدود بصیرت کا آئینہ ہے جس نے اس کی حقیقت نہیں پہچانی وہ محض جسم ہے، مادہ ہے، غلام عقل و حواس ہے اور بندۂ حرص و ہوا ہے۔
شیخ عبدالقادر مرحوم نے جو ایک بلند پایہ نقاد سخن اور ادب نواز و ادیب پرور ہونے کے علاوہ علامہ اقبال کے عمر بھر کے مخلص دوست بھی تھے، بانگ درا پہ دیبا چہ لکھا، اس دیباچے کی ابتداء میں وہ غالب اور اقبال کی مماثلت پر رقمطراز ہیں:
’’ کسے خبر تھی کہ غالب مرحوم کے بعد ہندوستان میں پھر کوئی ایسا شخص پیدا ہو گا جو اردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے گا اور جس کی بدولت غالب کا بے نظیر تخیل اور نرالا انداز بیان پھر وجود میں آئیں گے اور ادب اردو کے فروغ کا باعث ہوں گے مگر زبان اردو کی خوش اقبالی دیکھئے کہ اس زمانے میں اقبال سا شاعر اسے نصیب ہوا جس کے کلام کا سکہ ہندوستان بھر کی اردو داں دنیا کے دلوں پر بیٹھا ہے اور جس کی شہرت روم و ایران بلکہ فرنگستان تک پہنچ گئی ہے۔
غالب اور اقبال میں بہت سی باتیں مشترک ہیں اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا اسد اللہ خاں غالب کو اردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا اس نے ان کی روح کو عدم میں جا کر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسد خاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے اور اس نے پنجاب کے ایک گوشے میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں، دوبارہ جنم لینا اور محمد اقبال نام پایا۔‘‘
ایک مختصر دیباچے میں اس خیال کے ثبوت میں شیخ صاحب دونوں کے کلام کے نمونے پیش نہ کر سکتے تھے جن سے یہ مماثلت واضح ہو جاتی۔ اس کتاب میں بھی زیادہ تفصیلی موازنے اور مقابلے کی گنجائش نہیں لیکن شیخ صاحب کے خیال کی وضاحت کے لیے کچھ نہ کچھ لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اگر کوئی شاعر کسی دوسرے شاعر کا صمیم قلب سے جوش و خروش کے ساتھ مداح ہو تو از روئے نفسیات یہ لازم آتا ہے کہ ماوح اور ممدوح میں کوئی گہری مشابہت ضروری ہے۔ ہر انسان اپنے ممدوح کی غیر شعوری طور پر تقلید بھی کرتا ہے اور انداز نگاہ طرز کلام میں خود بخود کم و بیش مماثلت پیدا ہو جاتی ہے۔ اقبال کے ابتدائی کلام میں مرزا غالب پر ایک مستقل نظم ملتی ہے جس کا پہلا بند ہے:
فکر انسان پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا


تہا سراپا روح تو، بزم سخن پیکر ترا
زیب محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا


دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے
ایک بند میں غالب کو جرمنی کے یگانہ روزگار مفکر و شاعر گوئٹے کا ہم نوا قرار دیا ہے۔ ایک عرصے بعد پیام مشرق کے تمہیدی اشعار میں خود اپنا اور گوئٹے کا مقابلہ کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح کا مفکر اور صاحب بصیرت و وجدان شاعر ہوں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ:
من دمیدم از زمین مردۂ
میں ایک مردہ قوم میں پیدا ہوا جو فقدان حیات کی وجہ سے میری قدر شناس نہیں اور تو نے ایک زندہ قوم میں جنم لیا۔ اگر غالب اور اقبال دونوں گوئٹے کے مماثل اور اس کے ہم نوا ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ دونوں بھی باہم ہم رنگ و ہم آہنگ ہوں گے۔ اقبال کی مماثلت غالب سے کس چیز میں ہے، وہ اسی نظم کے ایک بند سے واضح ہو جاتی ہے:
لطف گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں


ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں
آہ! اے نظارہ آموز نگاہ نکتہ بیں


گیسوے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے
اچھی شاعری کے لیے خالی پرواز تخیل کافی نہیں، اس کے ساتھ فکر حقیقت رس بھی ہونا چاہیے۔ یہ دونوں چیزیں غالب میں ہم آغوش پائی جاتی ہیں اور نہی دو صفات کی دل کش آمیزش نے اقبال کے کلام میں دل رسی پیدا کی ہے۔ انسانی روح کو گرمانے والی ایک تیسری چیز بھی ہے جس کے لیے کبھی درد دل اور کبھی سوز قلب اور کبھی عشق کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور یہ کیفیت ترقی کر کے جنون کی ہم رنگ ہو جاتی ہے۔ غالب کے ہاں یہ چیز بہت نمایاں نہیں لیکن اس کے جن اشعار میں یہ ملتی ہے وہ فکر و تخیل کے ساتھ مل کر روح انسانی میں کبھی ہیجان و بے تابی اور کبھی سوز و گداز پیدا کرتے ہیں، عشق حقیقی میں سرمست صوفیہ کے ہاں اس کا بہت غلبہ ہوتا ہے۔ مولانا روم کے دیوان موسوم بہ دیوان شمس تبریز مین جو وجد و حال سے لبریز غزلیں ہیں وہ صاحب حال صوفی ہی کے قلب سے نکل سکتی ہیں۔ اس بارے میں غالب کے ہاں جو کمی ہے وہ اقبال کے کلام میں بہت کچھ پوری ہو جاتی ہے اور بہت سی غزلوں اور قطعات مینوہ سنائی و عطار و رومی کی صف میں دوش بدوش کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں تک عشق مجازی کا تعلق ہے ان صوفیائے کبار نے یا تو اس میں قدم ہی نہیں رکھا یا بقول عارف رومی کردے و گذشتے کے اصول کے مطابق جلد مجاز سے حقیقت کی طرف عبور کر گئے ہیں۔ المجاز قنطرۃ الحقیقتہ غالب کے ہاں آخر تک مجاز و حقیقت کی آمیزش چلی گئی ہے اور جہاں تک عشق حقیقی کا تعلق ہے وہ صوفی نہیں بلکہ متصوف ہے جو بربناے تفکر تصوف کا دلدادہ اور بحیثیت نظریہ حیات وحدت وجود کا قائل ہے۔ اقبال کے شباب میں رندی اور عشق مجازی کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں لیکن اس نے کبھی ہوس محبت کو اپنے نفس پر مسلط نہیں ہونے دیا، خود ہی اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ دل بکسے نہ باختہ اقبال نے شروع سے آخر تک عشق کے جوگن گائے ہیں اس کی مثال شاید دنیا کے کسی ادب میں نہ ملے لیکن یہ عشق حیات و کائنات کی ایک اساسی اور نفسیاتی کیفیت ہے، یہ حیات علی الاطلاق کا عشق ہے جو افراد و اشیاء سب پر پھیلا ہوا ہے، لیکن کوئی ایک فرد اس کا مرکز یا مطمح نظر نہیں۔ اس کا عشق فرد سے گزر کر ملت کا عشق بن جاتا ہے، اس کے بعد وہ تمام نوع انسان پر بلا امتیاز مذہب و ملت پھیل جاتا ہے۔ آخر میں تمام حیات و کائنات اس میں غرق ہو جاتی ہے، مجاز سے حقیقت کی طرف ترقی نفوس عالیہ میں اسی اندازکی ہوتی ہے۔ عشق کی اس حالت میں کائنات کی ہر چیز زندہ اور حسن و عشق سے مرتعش معلوم ہوتی ہے، احترام حیات، احترام کائنات بن جاتا ہے۔ میر درد کا یہ شعر اسی لطیف احساس کو بیان کرتا ہے:
آہستہ سے چل میان کوہسار
ہر سنگ دکان شیشہ گر ہے


آتے ہیں مری نظر میں سب خوب
جو عیب ہے پردۂ ہنر ہے
غالب کے ہاں بھی بعض اشعار ملتے ہیں جن میں کائنات کے تمام ذرے نفوس اور عشاق کے قلوب دکھائی دیتے ہیں:
ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے
دیدۂ مجنوں بہ چشمکہاے لیلیٰ آشنا


از مہر تا بہ ذرہ، دل و دل ھے آئنہ
طوطی کوشش جہت میں مقابل ہے آئنہ


اے تو کہ ہیچ ذرہ را جز بہ رہ تو روئے نیست
در طلبت تواں گرفت بادیہ را بہ رہبری
اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ شاعری کے بعض پہلوؤں میں غالب اور اقبال میں مماثلت پائی جاتی ہے، لیکن اقبال کے کلام میں اور بھی بہت کچھ ہے جو غالب میں نہیں مل سکتا اور اگر کہیں ملتا ہے تو وہ تفکر اور تاثر کی ہلکی سی لہر ہوتی ہے جو تلاطم خیز نہیں ہو سکتی، یا تخیل کی پرواز ہوتی ہے جو شاخ سدرہ تک نہیں پہنچتی۔ اقبال داغ کی تقلید سے تو بہت جلد گزر گیا لیکن غالب کا اثر زیادہ دیر پا تھا۔ افسوس ہے کہ اقبال کا وہ کلام جس میں غالب کا انداز تخیل تھا بانگ درا میں شامل نہیں کیا گیا، جس طرح کہ غالب نے وہ اشعار اردو دیوان میں شامل نہیں کیے تھے جن میں بیدل کے پیچ در پیچ تخیلات کی بھول بھلیاں تھیں۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں انہوں نے جو نظمیں پڑھیں ان میں جا بجا غالب کا انداز تخیل اور اسلوب بیان پایا جاتا ہے۔ الفاظ، بندشیں، ترکیبیں، اضافتیں غالب سے بہت کچھ مماثل معلوم ہوتی ہیں:ـ
نہیں منت کش تاب شنیدن داستان میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زبان میری
یا نالہ یتیم کا یہ بند جو ۱۸۹۹ء میں انجمن کے جلسے میں پڑھی گئی:
آمد بوے نسیم گلشن رشک رام
ہو نہ مرہون سماعت جس کی آواز قدم
لت رقص شعاع آفتاب صبحدم
یا صداے نغمہ مرغ سحر کا زیر و بم
رنگ کچھ شہر خموشاں میں جما سکتے نہیں
خفتگان کنج مرقد کو جگا سکتے نہیں
حضرت اقبال آخر تک غالب کے مداح رہے اور وہ اس لیے کہ وہ بھی اقبال کی طرح ایک مفکر شاعر تھا، روایتی اور تقلیدی شاعری کے پیچ میں وہ عرفی کی طرح یا فیضی کی طرح بلند حکیمانہ باتیں کہہ جاتا، اقبال جیسے کائناتی عشق کی تڑپ اس میں بھی کہیں کہیں ملتی ہے، اگرچہ وہ آخر تک سفلی اور علوی جذبات کی کشمکش میں مبتلا رہا اور اپنی آرزوؤں میں کوئی ہم آہنگی پیدا نہ کر سکا، اس کی آخر تک یہی کیفیت رہی:
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے


ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے


سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی
عبارت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
اقبال کے لیے بھی حیات، عشق و شوق و آرزو ہے لیکن وہ بہت جلد اسفل سے اعلیٰ کی طرف صعود کر گیا اور وحدت نظریہ حیات کی آرزوؤں کی کثرت میں بھی وحدت پیدا کر دی۔ اضطراب تمنا کے باوجود اس کو اطمینان حاصل ہو گیا کہ اس قدم جادۂ حقیقت پر ہے۔ غالب کے ہاں بھی آرزو کی نفسیات اور اس کا گہرا فلسفہ جا بجا ملتا ہے۔ ایک شعر جو اس کے منتخب دیوان میں درج نہیں لیکن بھوپال والے نسخے میں موجود ہے، ایسا کہا گیا ہے کہ اقبال بھی اس پر وجد کرنے لگے۔ اقبال نے اپنا یہ خیال کئی اشعار میں بیان کیا ہے کہ عالم آزروئے حیات ہی کی پیداوار اور تمنائے وجود کا مظہر ہے۔ یہ نبات و جماد و نجوم کا جہان کا مخلوقات نہیں او رنہ ہی آخر تک کا کوئی ایک معین عالم ہے۔ خلاق فطرت کے ضمیر میں لامتناہی عالم مضمر ہیں اور انسان کی خودی بھی اسی لامتناہی تمنائے حیات سے بہرہ اندوز ہو کر کئی اور عوالم پیدا کر سکتی اور کئی دیگر عوالم میں قدم رکھ سکتی ہے، جس کا کوئی وہم و گمان انسان کو موجودہ حالت میں نہیں ہو سکتا۔ دیکھیے اسی خیال کو غالب نے کس بلیغ انداز میں پیش کیا ہیـ:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
غالب کی اسی انداز کیش اعری تھی جس سے اقبال متاثر ہوا، لیکن غالب میں اسی انداز کا جو تفکر و تخیل ہے وہ اقبال میں نہایت درجہ ا رتقا یافتہ صورت میں ملتا ہے۔ پھولوں کے رنگ و بو میں مماثلت ہے لیکن غالب کے ہاں کے گلدستے اقبال کے کلام میں سدا بہار گلزار بن گئے ہیں۔
اقبال کی شاعری میں ابتدائی دور میں جو محرکات و اثرات نظر آتے ہیں وہ گوناگوں ہیں، جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے مغربی انداز فکر نے اچھے نتائج پیدا کیے ہیں، کئی نظمیں انگریزی شعراء کے ترجمے میں لیکن ترجمے ایسے ہیں کہ ترجمے معلوم نہیں ہوتے۔ کسی زبان کی نظم نفسیات میں غوطہ لگا سکے، اس کے خم میں اپنا ساغر ڈبونے اور پھر اس کو اپنے کوثر میں ڈال کر نکالے:
راہے ز کنج دیر بہ مینو کشودہ ام
از خم کشم پیالہ و در کوثر افگنم
انگریزی زبان میں شیلے جیسے شاعر نے بھی گوئٹے کی بعض نظموں کے ترجمے کیے ہیں اور لانگ فیلو کے کلیات میں بھی گوئٹے کے علاوہ دوسری زبانوں کے شعراء کے بعض شاہکاروں کے ترجمے ملتے ہیں، اور یہ سب ترجمے ایسے ہیں جو شاعری میں ایک مستقل حیثیت بھی رکھتے ہیں، ان میں دو اعلیٰ درجے کے شاعروں کی طبیعتوں کے دو ساز ہم آہنگ ہو کر بجتے ہیں جس سے نغمے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ فٹنر جیرالڈ کا عمر خیام کی رباعیوں کا ترجمہ انگریزی شاعری میں ادب عالیہ میں داخل ہو گیا ہے۔ اقبال کے ہاں ترجمے زیادہ نہیں ملتے لیکن جتنے بھی ہیں نہایت روانا اور سلیس ہیں، جہانصرف فکر کے سانچے لیے ہیں ان کو بھی بڑی خوبی سے اپنایا ہے۔ داغ کے مرثیے کا آغاز بعنیہ و یسا ہے جیسا کہ میتھیو آرنلڈ کے ورڈز ورتھ کے مرثیے کا ہے، جہاں وہ دو تین اور تازہ مرحوم شاعروں کی نوحہ گری کے بعد کہتا ہے کہ آج ہم ورڈز ورتھ کی قبر پر کھڑے ہیںـ:
عظمت غالب ہے اک مدت سے پیوند زمیں
مہدی مجروح ہے شہر خموشاں کا مکیں
توڑ ڈالی موت نے غربت میں میناے امیر
چشم محفل میں ہے اب تک کیف صہباے امیر
آج لیکن ہم نوا سارا چمن ماتم میں ہے
شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
اسی طرح گرے کی مشہور ایلیجی نظم کا ایک بند ہے جس میں زندگی کی گہما گہمی اور ہنگامہ و شورش کو بیان کر کے کہتا ہے کہ شہر خموشاں کے سونے والوں کو اب کسی قسم کا ہنگامہ خواب سے بیدار نہیں کر سکتا۔ اقبال نے اس کو اس طرح ڈھالا ہے:
شورش بزم طرب کیا عود کی تقریر کیا
درد مندان جہاں کا نالہ شب گیر کیا
خون کو گرمانے والا نعرۂ تکبیر کیا
اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں
سینہ ویراں میں جان رفتہ آ سکتی نہیں
مغربی شاعری کے اثر کے علاوہ بہت کچھ روایتی تصوف اور وحدت وجود بھی موجود ہے۔
شمع کے عنوان سے ایک متصوفانہ اور فلسفیانہ نظم لکھی ہے:
یک بین تری نظر صفت عاشقان راز
میری نگاہ مایہ آشوب امتیاز


کعبے میں، بتکدے میں ہے یکساں تری ضیا
میں امتیاز دیر و حرم میں پھنسا ہوا


ہاں آشناے لب نہ ہو راز کہن کہیں
پھر چھڑ نہ جائے قصہ دار و رسن کہیں
جگنو والی نظم اردو شاعری کا ایک شاہکار ہے، اس کے پہلے بند میں جگنو کے متعلق نادر تشبیہات ملتی ہیں۔ یہ اپنے اندر سے روشنی پیدا کرنے والا چھوٹا سا کرمک شب تاب آخر تک اقبال کے لیے روح انسانی کی نور طلبی اور نور آفرینی کی تمثیل اور علامت بنا رہا۔ فارسی میں بھی جگنو پر اقبال نے بڑے دلکش اشعار لکھے ہیں۔ اردو کی یہی نظم دوسرے بند میں وحدت و کثرت کا مضمون بن گئی ہے اور تیسرے بند میں فطرت کی بو قلمونی میں وحدت وجود نمایاں ہو گئی ہے:
جسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے


یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے


انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوے بلبل بو پھول کی چہک ہے


کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے


یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو؟
ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشی ازل ہو
۱۹۰۵ء سے پہلے کا اقبال آٹھ دس برس کے قلیل عرصے میں تمام اردو داں ہندوستان میں مقبول خاص و عام ہو گیا۔ اس سریع السیر شہرت کے کئی اسباب تھے، ایک یہ کہ غالب کے بعد سے اردو زبان نے کوئی مفکر شاعر پیدا نہ کیا تھا جس میں ہوس کی غزل سرائی اور محض قافیہ بندی اور دور از حقیقت مضمون آفرینی اور ادنیٰ درجے کے فن برائے فن سے پوری طرح رو گردانی کر کے ایک شاعر قلب انسانی کی آواز اور فطرت کے دل کی دھڑکن بن گیا ہو اور جس کی طبیعت میں وطن و ملت اور انسانی زندگی کے حقیقی اور ابدی مسائل پر سوز اظہار کے لیے بیتاب ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے میں بیداری، غلامی سے بیزاری اور آزادی کی طلب انگڑائیاں لینے لگی تھی، یہ طلب انگریزی تعلیم اور مغربی تہذیب سے تصادم کا نتیجہ تھی، نئے تعلیم یافتہ گروہ نے دیکھا کہ انگریزوں نے اور مغرب کی دیگر اقوام نے حب الوطنی اور وطن پرستی کے جذبے سے ترقی کی ہے، کیا وجہ ہے کہ یہ قومیں آزاد ہیں اور ہم غلام ہیں؟ آؤ ہم بھی وہی جذبہ پیدا کریں اور ان کی طرح آزاد اور ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہو جائیں، لیکن اس مسئلے کا حل اتنا آسان نہیں تھا، ہندوستان ایک وسیع ملک بلکہ ایک بر کبیر تھا جس میں مختلف مذاہب رکھنے والے او رمختلف طریق معاشرت پر زندگی بسر کرنے والے ایک دوسرے سے متغائر گروہ اور ملتیں موجود تھیں، انگلستان کی طرح یہاں ایک قوم ایک مذہب اور ایک زبان سے مربوط و منسلک ملت ناپید تھی اور مغرب کے انداز کا وطن کا تصور اور اس کے ساتھ وابستہ جذبہ یہاں تاریخ کے کسی دور میں بھی موجود نہ تھا، مغربی اقوام نے اپنے لیے جو حل تلاش کیا تھا وہ یہاں قابل اطلاق نہ تھا، یہاں صرف ہندو اور مسلمان ہی دو مختلف العقائد اور مختلف المعاشرت گروہ نہ تھے، ہندوؤں میں سینکڑوں مذہبی فرقے موجود تھے اور کوئی عقیدہ بھی ایسا نہ تھا جو ان سب میں مشترک ہو۔ تمام ہندوستان کا بحیثیت وطن کوئی ایک نام بھی نہ تھا، یہاں تک کہ ہندو مذہب کا بھی کوئی نام نہ تھا۔ ہندوستان اور ہندو کے الفاظ باہر سے آنے والے مسلمانوں کے وضع کردہ ہیں، دریائے سندھ کو ہند کہہ کر یہ اصطلاحیں وضع ہوئی تھیں، مسلمانوں میں دینی اور لسانی وحدت بہت زیادہ موجود تھی اور اس لحاظ سے تمام ملک کے مسلمان ایک قوم یا ملت کہلا سکتے تھے لیکن مذہبی تنگ نظری نے یہاں بھی فرقے بنا رکھے تھے جو ملت کے اندر کوئی پائدار وحدت پیدا کرنے میں مانع تھے۔ اس قسم کا انتشار غیر ملکی ملوکیت کو بہت راس آتا ہے، ملوکیت ہمیشہ اقوام کے تفرقے سے فائدہ اٹھا کر غلامی کا جو ان کی گردن پر رکھتی رہی ہے۔ انگریزوں کو اس ملک میں تفرقہ اندازی کی ضرورت نہ تھی کیوں کہ یہاں ہزاروں برس سے انسانی گروہوں کے درمیان ناقابل عبور خلیجیں حائل تھیں، ایسی حالت میں غیر ملکی حکومت اور استحصال کرنے والی ملوکیت سے نجات ہو تو کس طرح ہو۔ آزادی طلب نوجوانوں کی سمجھ میں پہلے یہی بات آئی کہ ہم بھی انگریزوں کی طرح ایک قوم بن جائیں اور تمام ملک کو اپنا وطن قرار دے کر اس کے متعلق جذبہ وطنیت کو ابھاریں، مذہبی اختلافات کو غیر اصلی قرار دیا جائے اور وطن کی عظمت کے گیت گائے جائیں تاکہ غیر ملکی حکومت نے جو احساس کمتری پیدا کر دیا ہے اس کے خلاف ایک زبردست رد عمل ہو، پرانے دیوتاؤں کی پوجا کو باطل قرار دے کر وطن کے بڑے بت کی پوجا کی جائے۔ اسی حال اور اسی جذبے کے ماتحت نوجوان اقبال کا حساس قلب وطن کے ترانے گانے لگا۔ چونکہ ہندو قوم کا وطن اور اس کا مذہب گوناگوئی کے باوجود باہم وابستہ ہیں، اس لیے وطن پرستی کی تحریک ہندوؤں میں مسلمانوں سے قبل پیدا ہوئی، لیکن ہندو قوم کوئی ایسا شاعر پیدا نہ کر سکی جو اس کے اس جذبے کو ابھار سکے اور اس کے قلوب کو گرما سکے۔ ہندو قوم کے پاس وطنیت کا کوئی ترانہ موجود نہیں تھا۔ اقبال نے جب اپنے شاعرانہ کمال کو وطنیت کی خدمت کے لیے وقف کیا تو مسلمانوں کے علاوہ، بلکہ ان سے زیادہ ہندو اس سے متاثر ہوئے:ـ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگا، بعض ہندو مدارس میں مدرسہ شروع ہونے سے قبل تمام طالب علم اس کو ایک کورس میں گاتے تھے۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے وقت آزاد ہندوستان کی تاسیس میں نصف شب کے بعد آزادی کی شراب سے سرشار ہندوؤں نے جناگن کس ساتھ ساتھ یہی ترانہ گایا اور یہ بات بھول گئے کہ یہ ترانہ پاکستان کے نظریاتی بانی کا لکھا ہوا ہے۔ گاندھی جی کی راکھ جب گنگا جی میں ڈالی جا رہی تھی تو دیوان چمن لعل اردو میں ریڈیو پر ’’ رواں بیاں‘‘ کر رہے تھے اور یہ شعر نشرکر رہے تھے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
یہ ایک جملہ معترضہ تھا، یہاں فقط یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ ہندوستان میں وطنیت کے جذبے کو جس شاعر نے پہلے گرمایا وہ اقبال باکمال تھے۔ ہندوستان اگر ایک وطن اور ایک قوم بن سکتا تو اقبال کا وطنیت کا کلام اس کے لیے الہامی صحیفہ ہوتا۔ لیکن ملک کے حالات ایسے تھے کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
یورپ سے واپس ہونے کے بعد اقبال اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندوستان ایک مختلف الملل بر اعظم ہے، اس کے مسائل کا حل مغربی انداز کی جمہوریت نہیں بلکہ ایک نظام سیاست ہے جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو اپنے اپنے زاویہ نگاہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کا موقع حاصل ہو اور ملک کے جس حصے میں جس قوم کی اکثریت ہے اس کو وہاں کامل دینی اور معاشرتی آزادی حاصل ہو۔ کوئی ملت دوسری ملت پر ناجائز غلبہ حاصل نہ کر سکے اور عادلانہ طور پر فیڈریشن کا انتظام ہو سکے۔ پاکستان کا مطالبہ اقبال نے سب سے پہلے اسی انداز میں پیش کیا۔ اس سیاسی ادھیڑ بن سے بہت پہلے ہی اسلام اور مسلمانوں سے متعلق اقبال کے خیالات میں ایک تغیر عظیم واقع ہوا تھا، اقبال نے مغرب میں جغرافیائی، نسلی اور لسانی قومیت کے تاریک پہلو کا بھی بغور مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ مغربی انداز کی نیشنلزم انسانیت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان مصنوعی ملتوں کو ایک دوسرے کی جانی دشمن بنا رہی ہے، یہ تنازع للبقا کی بھیانک صورت ہے، علوم و فنون اور جذبہ وطنیت نے ان قوموں میں جو قوتیں پیدا کر دی بینان کا انجام یہی ہو گا کہ کمزور قوموں کو لوٹنے اور مغلوب کرنے میں ان کی سعی مسابقت سب کو ایک عالم گیر جنگ میں جھونک دے۔ جنگ عظیم سے کوئی پچاس سال قبل انگلستان کے ایک دیدہ ور اور عارف ادیب نے پیش گوئی کی تھی کہ اگر انگلستان اسی روش پر گامزن رہا تو کوئی نصف صدی کے عرصے میں اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد میں نے ایک روز علامہ اقبال سے کار لائل کی اس پیش گوئی اور اس کے پورا ہونے کا ذکر کیا تو فرمایا کہ کار لائل بڑی گہری روحانی بصیرت کا شخص تھا، اپنی قوم کی معاشرت اور سیاست کے رخ کو دیکھ کر اس کا یہ پیش گوئی کرنا کوئی تعجب خیز بات نہیں۔
اقبال اس نتیجے پر پہنچے کہ جغرافیائی، نسلی، لسانی معاشیاتی وحدت مصنوعی چیز ہے، اصلی وحدت فکری اور نظریاتی وحدت ہے، اس لحاظ سے تمام دنیا کے مسلمان ایک وحدت ہیں۔ وطن کی محبت ایک فطری اور لازمی چیز ہے، چنانچہ وطنیت کے خلاف جہاد کرنے کے بعد بھی یہ جذبہ ان میں موجود تھا لیکن حب وطن، وطن پرستی سے الگ چیز ہے، اس وطن پرستی سے لوگوں نے وطن کو معبود بنا لیا ہے اور اس جھوٹے معبود کے مذبح پر انسانوں کو بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ آخری دور میں وطن کی محبت اقبال کے دل سے نکل گئی تھی بالکل باطل ہے۔ ہندوستان اور اس کے رہنے والوں سے اس کا رشتہ قلبی آخر تک نہیں ٹوٹا، اقبال ہندوستان کی زبوں حالی اور غلامی پر آخر تک آنسو بہاتا رہا اور اس ملک کے ساتھ غداری کرنے والوں کا عالم عقبیٰ میں کیا حشر ہوا، اس کا نقشہ اقبال نے جاوید نامہ میں کس قدر بھیانک کھینچا ہے:
’’ ارواح رذیلہ کہ با ملک و ملت غداری کردہ و دوزخ ایشاں را قبول نکردہ‘‘ ان ارواح خبیثہ کو ایسے سیارے میں پھینکا ہے جس کی عقوبت کا یہ حال ہے کہ:
صد ہزار افرشتہ تندر بدست
قہر حق را قاسم از روز الست


درہ پیہم می زند سیارہ را
از مدارش بر کند سیارہ را


منزل ارواح بے یوم النشور
دوزخ از احراق شاں آمد نفور


جعفر از بنگال و صادق از دکن
تنگ آدم تنگ دیں تنگ وطن
اور دیکھئے ہندوستان کی عرفانی عظمت کس قدر اقبال کے دل میں جا گزیں ہے، فرماتے ہیں:
می ندانی خطہ ہندوستان
آں عزیز خاطر صاحبدلاں


خط ہر جلوہ اش گیتی فروز
درمیان خاک و خوں غلطد ہنوز
اقبال کشمیری الاصل تھے، ان کے اجداد کشمیر سے ترک وطن کر کے پنجاب میں سیالکوٹ کے شہر میں آباد ہو گئے تھے لیکن عرصہ دراز گزرنے کے بعد بھی کشمیر سے ان کی والہانہ محبت کبھی کبھی ان سے نہایت جذباتی اشعار نکلواتی تھی۔ وہ ابھی تک اپنے کالبد خاکی کو کشمیر ہی کی گلزار آفریں خاک کا پتلا سمجھتے تھے:
تم کلے ز خیابان جنت کشمیر
دل از حریم حجاز و نوا ز شیراز است
زندگی کے تمام ادوار میں کشمیر اور اہل کشمیر سے اقبال کی محبت، اور ان کی غلامی اور کس مپرسی پر اقبال کی جگر کاہی مسلسل قائم رہی۔ ارمغان حجاز میں ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض اقبال کا اپنا بیاض قلب ہے، اس میں کشمیر کے متعلق اقبال کا جذبہ اور اضطراب اس کے فلسفہ حیات کی آمیزش سے نہایت درد و گداز کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔ اگرچہ اقبال جاہلانہ اور متعصبانہ وطن پرستی کے خلاف آواز بلند کرتا ہوا کہتا ہے کہ:
پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعان تیرا
لیکن وہ اپنے قلب کی گہرائیوں میں اپنے آپ کو کشمیر ہی کے کنعان کا گم گشتہ یوسف سمجھتا تھا:
پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب
اے وادی لولاب
اقبال کو اس جنت میں چشموں اور مرغان سحر کی نواؤں میں بھی تڑپ محسوس ہوتی ہے، لیکن اس خطے کے جلوہ گران منبر و محراب کے قلوب میں اس کو کوئی ہنگامہ نظر نہیں آتا۔ یہاں کے ملا و صوفی کے لیے دین فقط افیون بن کر رہ گیا ہے:
گر صاحب ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب
دیں بندۂ مومن کے لیے مومن ہے یا خواب
اے وادی لولاب


ملا کی نظر نور فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخانہ صوفی کی مے ناب
اے وادی لولاب
اس کے دل میں یہ تمنا شعلہ فگن ہے کہ یہ خطہ کوئی درویش قائد پیدا کرے جو حضرت موسیٰ ؑ کی طرح اس قوم کو غلامی سے نجات دلوائے:
بیدار ہوں دل جس کی فغان سحری سے
اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب
اے وادی لولاب
دیکھئے اپنے آبائی وطن کی حالت پر وہ کیسی درد ناک اور حسرت انگیز آہیں کھینچتا ہے:
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر


سینہ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر


کہ رہا ہے داستان بیدردی ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقان پیر


آہ یہ قوم نجیب و  چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خداے دیر گیر
ملک خدا اور انسانوں کو مال تجارت سمجھ کر خریدنا بیچنا ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاجرانہ ملوکیت میں جائز تھا، چنانچہ کمپنی کو جب روپے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ایک کروڑ روپے سے کم میں کشمیر اور اہل کشمیر کو گلاب سنگھ ڈوگرے کے ہاتھ بیچ دیا:
دہقان و کشت و جوے و خیابان فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
کشمیر پر اقبال کی عاشقانہ غزل کیسی وجد انگیز ہے:
رخت بہ کاشمر کشا کوہ و تل و دمن نگر
سبزہ جہاں جہاں ببیں لالہ چمن چمن نگر


باد بہار موج موج مرغ بہار فوج فوج
صلصل و صار زوج زوج بر سر نارون نگر
ہندوستان کی روحانیت نے جو برگزیدہ انسان پیدا کیے ہیں اقبال نے ان پر نہایت خلوص، فراخ دلی اور وسیع المشربی سے نظمیں لکھی ہیں۔ ہندوستانی بچوں کے قومی گیت مینوہ پہلے ہی شعر کے دو مصرعوں میں چشتی علیہ الرحمتہ اور نانک دونوں کو پیامبران توحید و حق قرار دے کر کہتے ہیں:
چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
بابا گرونانک پر اقبال کی یک مستقل نظم بھی ہے جو اس وقت کہی گئی ہے جب وہ زیادہ تر اسلامی نظمیں لکھ رہے تھے۔ اس نظم کے پہلے شعر میں گوتم بدھ کو بھی پیغمبر قرار دیا ہے:
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
بابا گرونانک کی شان میں کہتے ہیں:
بتکدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نور ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا


پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
بانگ درا میں نہایت خلوص کے ساتھ شری رام چندر جی کی توصیف میں کچھ اشعار لکھے ہیں۔ ہندو تو مبالغہ کر کے اس برگزیدہ انسان کو اوتار مانتے ہیں، جیسے حضرت مسیح کو بلند پایہ پیغمبر کی بجائے عیسائیوں نے خداے مجسم سمجھ لیا، لیکن اقبال ان کو ہندوستان کا امام یا پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ ہندوستان نے مختلف زمانوں میں نہایت عمیق الفکر مفکر اور صاف باطن پیدا کیے ہیں۔ اقبال نہایت فراخدلی اور وسیع المشربی سے اس کا اقرار کرتا ہے۔ اس کا دل نہ ہندوستان سے برداشتہ ہے اور نہ وہ ہندو قوم سے نفرت کرتا یا اس کی تحقیر کرتا ہے۔ بلند پایہ نفوس کا یہ شیوہ نہیں ہے کہ وہ دوسری ملتوں کے مذہبی پیشواؤں کی تذلیل کریں اور اپنی متعصبانہ ملت پرستی میں دوسری ملتوں کے دینی اور تہذیبی کارناموں کی داد نہ دیں:
لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند
سب فلسفی ہیں خطہ مغرب کے رام ہند


یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر
رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند


اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت
مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ہند


ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند


اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی
روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند


تلوار کا دہنی تھا شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا
پنجاب کے مشہور ہندو صوفی سوامی رام تیرتھ، اقبال کے ہم عصر اور لاہور کالج میں پروفیسر تھے، انہوں نے تزکیہ قلب سے عالم روحانی میں ایک بلند مقام حاصل کر لیا تھا، پنجاب والے اور تمام اہل ہند ان کی روحانیت سے متاثر ہوئے، وہ اچھے اہل قلم بھی تھے، ان کی وفات دریا میں غرق ہونے سے واقع ہوئی۔ اقبال نے اس اہل دل پر بھی بہت اچھے اشعار کہے جو بانگ درا میں درج ہیں:
ہم بغل دریا سے ہے اے قطرۂ بیتاب تو
پہلے گوہر تھا بنا اب گوہر نایاب تو


نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا

لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کاا