انسان کی آرزوئے حسن، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

انسان کی آرزوئے حسن
حق کی محبت انسان کے اندر نمودار کر دی گئی ہے تاکہ انسان بھی خدا کے نصب العین کی تکمیل کے لئے اس کا شریک کار بن جائے اس نصب العین کی تکمیل انسان کی اپنی ہی تکمیل ہے اس طرح خدا اور انسان کا نصب العین بالاخر ایک ہی ہے گویا اگر انسان حق کا اتباع کرے تو کسی پر احسان نہیں کرے گا بلکہ اس میں اس کا اپنا ہی فائدہ ہو گا اور اس سے اسے اپنی ہی فطری محبت کی تشفی حاصل ہو گی۔
یایھا الناس قد جاء کم من ربکم فمن اھتدی فانما یھتدی لنفسہ
اے لوگو تمہارے پاس وہ تعلیم جو (حق کا عمل اور اظہار ہے اور لہٰذا) حق ہے پہنچ گئی ہے جو شخص اس سے مستفید ہو کر راستہ پائے گا اس کی ہدایت اپنی ہی جان کے لئے ہو گی۔
تخلیق کی اولین صورت
جب خداوند تعاولیٰ نے اپنے تصور حسن یعنی انسانیت کاملہ کے تصور کو قول کن کہا تو خارج میں انسانیت کاملہ کی اولین صورت جو وجود میں آئی وہ ایک قسم کے نور کی شکل میں تھی جو ایک خاص قسم کی برقی لہروں پر مشتمل تھی جنہیں اب سائنس دان کاسمک شعاعوں یا کائناتی شعاعوں کا نام دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نور ہے نور خدا کے اسماء حسنی میں ایک ہے اور نور سے جو چیز سر زد ہو وہ نوری ہو سکتی ہے۔ لیکن خدا کے نور میں اور اس نور میں فرق یہ ہے کہ خدا کا نور روحانی اور غیر مادی اور غیر مخلوق اور بے مثل ہے وہ زندہ ہے بلکہ خود زندگی یا خودی یا حیات یا روح ہے اور اسے ہم ان آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے اور یہ نور مادی اور مخلوق ہے اور اس کا خالق اس کی مماثل صفات رکھنے والا کوئی اور نور بھی پیدا کر سکتا ہے۔
چونکہ نور سب سے پہلی مادی چیز ہے جو خدا نے پیدا کی لہٰذا نور مادی اشیاء میں سب سے زیادہ خدا کے قریب ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ان اشیاء میں سب سے زیادہ لطیف ہے یہاں تک کہ کوئی مادی چیز نہیں جو اپنی حرکت میں نور سے بڑھ کر رفتار حاصل کر سکے۔ اقبال لکھتے ہیں:
’’ جدید طبیعیات کی تعلیم یہ ہے کہ نور کی رفتار سے زیادہ رفتار کسی چیز کی نہیں ہو سکتی اور یہ رفتار تمام مشاہدہ کرنے والوں کے لئے یکساں رہتی ہے اس بات سے قطع نظر کہ ان کی اپنی حرکت کس نظام سے تعلق رکھتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نور مادی تغیرات کی اس دنیا میں ہستی مطلق سے قریب ترین چیز ہے۔‘‘
پھر جوں جوں یہ ابتدائی نور مادی طور پر پیچیدہ اور ترقی یافتہ ہوتا گیا وہ اپنے مصدر حقیقی سے دور ہوتا گیا اور ا س میںکثافت آتی گئی یہاں تک کہ وہ مٹٰ بن گیا اور مٹی کی حالت میں آ کر وہ زندگی یا روح جو اس کے اندر مخفی تھی آشکار ہونے لگی لہٰذا وہ حیوان کی صورت میں آیااور پھر اپنی حیوانی ترقی کی انتہا پر انسان کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ انسان کے نیچے کے تمام حیوانات (جن میں خودی اتنی آزاد یا ترقی یافتہ نہیں کہ وہ خدا کے زندہ مقدس فوق الطبیعاتی یا روحانی نور کو سمجھ کر اس کے لئے کشش محسوس کر سکیں اور جن کے شعور میں کائنات کی ہر چیز کی طرح خدا کی محبت چھپی ہوئی ہے) مادی نور کے لئے ایک نہ ایک رنگ میں کشش محسوس کرتے ہیں اگر پروانہ شمع کے نور پر فدا ہے تو چکور چاند کے نور پر جان چھڑکتی ہے پرندے سمندروں میں روشنی کے میناروں کے ارد گرد رات بھر چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ زندگی خدا کے نور کو مادی نور سے اس وقت ممیز کرنے لگتی ہے جب وہ انسان کی صورت میں خود شعر اور خود نگر ہو جاتی ہے اس مادی نور میں جو انسانیت کاملہ کی اولین صورت تھی خدا کا نور خدا کی محبت کی صور میں بطور جان کے چھپا ہوا موجود تھا اس لئے خدا نے اپنے آپ کو کائنات کا نور کہا ہے:
اللہ نور السموات ولارض
(اللہ کائنات کا نور ہے)
تخلیق اور حرکت

خدا کے قول کن میں خدا کی محبت ہی نہیں بلکہ اس کے ارادہ تخلیق کی قوت اور اس کے حکم کا زور بلکہ اس کی تمام صفات جمال و جلال پوشیدہ تھیں خدا کی اسی ارادہ یا حکم کے زور کی وجہ سے یہ مادی نور برقی لہروں کی صورت میں اپنے ارتقاء کی منزل مقصود یعنی تکمیل انسانیت کی منزل کی طرف متحرک ہوا۔ اس مخلوق نور میں حرکت اس لئے تھی کہ وہ خدا کے ارادہ تخلیق کا مظہر تھا اور خدا کے ارادہ تخلیق کا مقصد یہ تھا کہ تخلیق کی ابتدائی حالت کو حرکت دے کر اس کی انتہائی حالت یا حالت کمال تک جو اس ارادہ نے اس کے لئے معین کر رکھی تھی پہنچائے لہٰذا حرکت شروع سے ہی عمل تخلیق کی ضروری علامت کے طور پر رونما ہوئی طبیعات کا ایک مسلم اصول ہے کہ حرکت بغیر قوت کے نہیں ہوتی اس ابتدائی مادی نور کی حرکت کا باعث خدا کے قول کن کی بے پناہ قوت تھی جو مادی نہیں بلکہ ارادی قوت تھی۔ اب بھی یہی قوت اپنی مختلف حالتوں سے گزرتی ہوئی کائنات کی تخلیق اور نشو و ارتقاء کے لئے کار پرداز ہے چونکہ یہ قوت خدا کی تمام صفات جمال و جلال کی حامل ہے اور خدا کی تمام صفات اس کے اندر کار فرما ہیں لہٰذا یہ قوت زندگی اور خودی سے الگ ہونے کے باوجود خود زندگی اور خودی ہے اگر اس قوت کی صفات جمال براہ راست اور بلا واسطہ تخلیق و ارتقاء کے مقاصد کے لئے کام کرتی ہیں تو اس کی صفات جلال تخلیق و ارتقاء کی رکاوٹوں کو دور کر کے بالواسطہ ان ہی مقاصد کی پیش برو کے لئے کام کرتی ہیں۔