ساختیاتی وپس ساختیاتی فکریات اور گوپی چند نارنگ ۔ پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ

ساختیاتی و پس ساختیاتی فکريات اور گوپی چند نارنگ
اردو میں گذشتہ تین دہائیوں سے ساختیاتی وپس ساختیاتی مباحث کا سلسلہ جاری ہے، اور جن دانشوروں اور نقادوں نے ان مباحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے ان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کا نام سرِ فہرست ہے۔ پروفیسر نارنگ اردو میں اسلوبیاتی نقاد کی حیثیت سے اپنا لوہا پہلے ہی منوا چکے ہیں۔ ان کی زیرِ نظر تصنیف ’ساختیات، پس سا ختیات اور مشرقی شعریات‘ (دہلی : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۱۹۹۳ء) کی اشاعت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ساختیاتی مفکر و نقاد کی حیثیت سے بھی ان کا مرتبہ نہایت بلند ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے بہت پہلے سے وہ اس موضوع پر لکھتے رہے ہیں اور ساختیاتی وپس ساختیاتی فکریات کو اردو داں طبقے سے متعارف کرانے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ اسلوبیات سے ساختیات تک کا سفرانھوں نے کچھ یوں ہی طے نہیں کیا ہے، بلکہ ادب، تنقید، لسانیات، معنیات اور نشانیات (Semiotics) سے گہرا شغف رکھنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے نئی ادبی تھیوری کا بھی نہایت غائر مطالعہ کیا ہے۔ ہمارے ادبی نقاد مغربی مفکرین سے پہلے بھی استفادہ کرتے رہے ہیں، لیکن نئی ادبی تھیوری، بالخصوص ساختیات و پس ساختیات کے حوالے سے گوپی چند نارنگ نے اردو کی ادبی تنقید کو جو نیا موڑ دیا ہے وہ کوئی دوسرا نقاد نہیں دے سکا۔ اسی لیے اگر متذکرہ تصنیف کو ادبی تنقید کا ایک تاریخ ساز کارنامہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ’ساختیات‘ کا لسانیات سے بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ساختی لسانیات (Structural Linguistics) کا ارتقا فرڈی نینڈ ڈی سسیلور (۱۸۵۷ تا ۱۹۱۳ء) سے ہوتا ہے۔ جس طرح سسیور کو لسانیاتِ جدید یا ساختی لسانیات کا ابو الآبا تسلیم کیا گیا ہے، اسی طرح ساختیاتی فکر کا بھی اسے امام مانا گیا ہے۔ گوپی چند نارنگ نے بجا طور پر اپنی اِس کتاب میں یہ تسلیم کیا ہے کہ ’’ساختیات کے بنیادی اصول سسیور کے خیالات پر مبنی لسانیات سے ماخوذ ہیں ‘‘ (ص ۵۹)۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ساختیاتی فکر کا سر چشمہ بہر حال لسانیاتی ماڈل ہے جس نے اپنی ترغیباتِ ذہنی بنیادی طور پر سوِس ماہرِ لسانیات سسیور۔ ۔ ۔ سے حاصل کیں ‘‘ (ص ۳۸)۔ یہ بات بدیہی ہے کہ ساختیات پر گفتگو کرتے وقت فرڈی نینڈڈی سسیور کے لسانیاتی افکار یا اس کے فلسفۂ لسان سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ سسیور کی کتاب نے، جو فرانسیسی زبان میں Course de Linguistique Generaleکے نام سے اس کی وفات کے تین سال بعد ۱۹۱۶ء میں شائع ہوئی (جس کا انگریزی میں ترجمہ ویڈبیسکن نے Course in General Linguistics کے نام سے کیا)، لسانیات کی دنیا میں ایک انقلابِ عظیم برپا کر دیا۔ ساختیاتی فکر کی بیش تر بنیادی باتیں سسیور کی اسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔

بیسویں صدی کے وسط میں فرانس میں باقاعدہ طور پر ساختیات کا ارتقا عمل میں آیا، اس سے پھر پس ساختیات کے سوتے پھوٹے اور رد تشکیلی نظریے کو فروغ حاصل ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواہ وہ ساختیات ہو یا پس ساختیات یا نظریۂ ردِ تشکیل، فرانسیسی مفکرین ہی ان کے فروغ میں پیش پیش رہے ہیں۔ چنانچہ ان نظریات کا ذکر رولاں بارت، ژاک لاکاں، مشل فوکو، ژاک دریدا اور جولیا کر سیٹوا کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ گوپی چند نارنگ نے اپنی متذکرہ کتاب میں ان مفکرین پر الگ الگ باب قائم کیے ہیں اور بڑی جامعیت اور علمی بصیرت کے ساتھ ان کی فکریات سے بحث کی ہے۔

پروفیسر نارنگ کی قابلِ قدر زیرِ نظر تصنیف ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات ‘ تین حصوں میں منقسم ہے۔ ہر حصے کو ’کتاب ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ چنانچہ پہلی کتاب ’’ساختیات‘‘، دوسری کتاب ’’پس ساختیات ‘‘ اور تیسری کتاب ’’مشرقی شعریات اور ساختیاتی فکر‘‘ کے نام سے موسوم کی گئی ہے۔ ہر حصے یا ’کتاب‘ میں کئی کئی ابواب شامل کیے گئے ہیں۔ پہلا حصہ یعنی کتاب۔ اجسے ’’ساختیات‘‘ کا نام دیا گیا ہے پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کے پہلے باب میں ساختیات اور ادب کے حوالے سے چند ابتدائی باتیں کہی گئی ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ عام ادبی نظریات کو ساختیات نے کس طرح چیلنج کیا ہے، اور کس طرح ایک ذہنی تحریک کے طور پر ساختیات کا ارتقا عمل میں آیا ہے۔ کتاب -۱ کے دوسرے باب میں ساختیات کی لسانیاتی بنیادوں سے بحث کی گئی ہے اور سسیور کے فلسفۂ لسان سے ساختیات کا رشتہ استوار کیا گیا ہے۔ ساختیات کے فروغ میں روسی ہیئت پسندوں (Russian Formalists) کے افکار و خیالات کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ روسی ہیئت پسندی پر ایک علاحدہ باب قائم کر کے ان کے نظریات سے مفصل بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب-۱ کا تیسرا باب ہے جس میں رومن جیکب سن، شکلوو سکی، بورس توما شیوسکی، وغیرہ کے حوالوں سے شعری زبان، ادب کی ادبیت (Literariness) اور ادب کے معروضی و تجزیاتی، نیز سائنٹفک مطالعے سے متعلق باتیں کہی گئی ہیں۔ اسی باب میں روسی ہیئت پسندوں کی فکشن کی شعریات کا بھی ذکر آگیا ہے۔

کتاب -۱ کا چوتھا باب فکشن کی شعریات اور ساختیات سے متعلق ہے جس میں فکشن کی شعریات کا رشتہ ساختیات سے استوار کیا گیا ہے اور ولادمیر پروپ، لیوی اسٹراس، نارتھروپ فرائی، گریما، تو دو روف اور ژنیت جیسے مفکرین کے حوالوں سے بات آگے بڑھائی گئی ہے۔ گوپی چند نارنگ کایہ خیال بجا ہے کہ ساختیاتی طریقِ کار بیانیہ (Narrative) کے مطالعے کے لیے خاص طور پر موزوں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساختیات کا اطلاق سب سے زیادہ بیانیہ ہی پر ہوا ہے۔ بیانیہ فکشن کا ایک وسیع میدان ہے جس میں مِتھ، اساطیر یا دیومالا، نیز کتھا کہانی اور لوک روایتوں سے لے کر ناول، افسانہ، ڈرامہ اور ایپک (Epic) تک شامل ہے۔ بقول نارنگ فکشن کی ان تمام اصناف کا ساختیاتی مطالعہ بہ خوبی کیا جا سکتا ہے۔ ولادمیر پروپ نے جوروسی ہیئت پسندتھا، روسی لوک کہانیوں کا ساختیاتی مطالعہ پیش کیا جس کے بارے میں نارنگ لکھتے ہیں کہ ’’پروپ نے جس طرح روسی لوک کہانیوں کے فارم کی گرہیں کھولیں اور ان کی ساختوں کو بے نقاب کیا، اس نے آگے چل کر بیانیہ کے ساختیاتی مطالعے کے لیے ایک روشن مثال کا کام کیا‘‘ (ص۱۰۷)۔ فرانسیسی ماہرِ بشریات لیوی اسٹراس نے فرانسیسی لوک کہانیوں کے فارم کو دیکھنے کے بجائے ان کی اصل (Roots)کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ چنانچہ نارنگ اس کے اِس قول سے متفق نظر آتے ہیں کہ ’’کسی بھی ثقافت کی جڑیں اس کی متھوں میں دیکھی جا سکتی ہیں ‘‘ (ص ۱۱۴)۔ فکشن کی شعریات کے حوالے سے ساختیاتی فکر کو آگے بڑھانے والوں میں نارتھروپ فرائی کا نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے، چنانچہ نارنگ نے اس کی تصنیف Anatomy of Criticism (1957)کے حوالے سے اس کے تنقیدی نظریات سے بڑی مدلل بحث کی ہے اور اس نے ادب کی شعریات کا نظام وضع کرنے کی جو کوشش کی تھی اسے ہر اعتبار سے’’حوصلہ مند اور قابلِ قدر‘‘ بتایا ہے۔ فکشن کی شعریات سے مزید سیر حاصل بحث کرتے ہوئے نارنگ نے اس باب میں گریما، تودو روف اور ژنیت کے افکار و نظریات کا بھی اسی طرح تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔

کتاب- ۱ کا پانچواں اور آخری باب ’’شعریات اور ساختیات‘‘ ہے جس میں گوپی چندر نارنگ نے رومن جیکب سن، اور جو نتھن کلر کے فکری حوالوں سے ساختیاتی شعریات سے بحث کی ہے۔ انھوں نے رومن جیکب سن کو، جو فرڈی نینڈ ڈی سسیورسے گہرے طور پر متاثر تھا، ساختیاتی شعریات کے بنیاد گزاروں میں شمار کیا ہے۔ جیکب سن نے سسیور کے لسانی تصورات کے شعریات پر اطلاق ہی سے ہی ساختیات شعریاتی کی تشکیل کی۔ سسیورنے زبان کے افقی(Syntagmatic) اور عمودی (Paradigmatic) رشتوں کا تصور پیش کیا تھا۔ جیکب سن نے اس تصور کو نہ صرف ساختیاتی شعریات کے بنیادی اصول کے طور پر برتا، بلکہ اس میں توسیع پیدا کی۔ اب یہ تصور بعض انسانی رویوں اور ثقافتی نظام کو بھی سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔

زیرِ نظر کتاب کے دوسرے حصے کو کتاب-۲کا نام دیا گیا ہے اور اس کا عنوان ’’پس ساختیات ‘‘رکھا گیا ہے۔ یہ حصہ چھے ابواب پر مشتمل ہے۔ اس حصے یعنی کتاب-۲ کے پہلے باب میں پس ساختیاتی فکر سے مفصل بحث کی گئی ہے جس کا وجود ساختیات سے ’’گریز‘‘ کے طور پر ساتویں دہائی کے اواخر میں عمل میں آیا۔ گوپی چند نارنگ نے بجا طور پر فرانسیسی مفکر اور نظریہ ساز رولاں بارت کو پس ساختیات کا’’ پیش رو‘‘ قرار دیا ہے۔ اُس کی اس فکر ک ے پیچھے جوفلسفیانہ بصیرت کام کر رہی ہے اور اس نظریے کی تشکیل میں جو نشانیاتی (Semiological) ادراک شامل ہے اس کو سمجھے بغیر رولاں بارت کے پس ساختیاتی تصورِ ادب کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ نارنگ نے اس باب میں رولاں بارت کے پس ساختیاتی نظامِ فکر کی تمام بنیادی باتوں کا بڑی خوبی کے ساتھ احاطہ کیا ہے اور جا بہ جا اس کی تصانیف کے حوالے اورقتباسات پیش کیے ہیں۔ وہ رولاں بارت کو فرانس کے ساختیاتی مفکروں اور نقادوں میں ’’سب سے زیادہ دل چسپ، نکتہ رس اور بے باک‘‘ نظریہ ساز قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ’’زبان و ادب اور ثقافت کے بارے میں روایتی تصورات کی بت شکنی اس کی سرشت کا حصہ تھی، اور اس میں وہ ایسی لذت محسوس کرتا تھا جو اکثر اوقات تخلیق کی اعلیٰ ترین حدوں کو چھو لیتی ہے‘‘ (ص ۱۵۹)۔ رولاں بارت کی فکر سے بحث کرتے ہوئے نارنگ نے اس بات کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ وہ معنی کی وحدت یا متعینہ معنی کے سخت خلاف تھا۔ اس کا سارا زور معنی خیزی(Signification)پرتھا، محض معنی پر نہیں۔ وہ زبان کو صاف ستھرایاشفاف میڈیم تصور نہیں کرتا تھا۔ اس کے خیال میں زبان جو ادب کا میڈیم ہے، اس میں معنی کی اتنی پرتیں ہوتی ہیں کہ کوئی بھی ادیب اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کے ذریعے وہ سچائی یا حقیقت کو جوں کاتوں بیان کر سکتا ہے۔ اسی لیے نارنگ نے ’کثیرالمعنیت‘ کو رولاں بارت کی فکر میں بنیادی حیثیت دی ہے۔ وہ رولاں بارت کو فرانس کے ساختیاتی ادبی نقادوں میں سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ’’موجودہ عہد میں ادب کے بارے میں کسی مفکر نے اتنی بحثیں نہیں اٹھائیں جتنی رولاں بارت نے‘‘(ص۱۶۰)۔

رولاں بارت کے بعد پس ساختیاتی فکر کو فروغ دینے والوں میں ژاک لاکاں، مشل فوکو، جولیا کرسیٹوا اور ژاک دریدا کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ چنانچہ گوپی چند نارنگ نے کتاب۔ ۲کے دوسرے، تیسرے اور چوتھے باب میں ان پس ساختیاتی مفکرین کے خیالات اور ان کے علمی کارناموں سے مفصل بحث کی ہے۔ دوسرے باب میں ژاک لاکاں، مشل فوکو اور جولیا کرسیٹوا کاذکر تفصیل سے ملتا ہے۔ تیسراباب ژاک دریدا کے لیے مختص ہے اور چوتھے باب میں اس کے نظریۂ ردِ تشکیل کو بحث کا موضوع بنایا گیا ہے۔

پس ساختیاتی مفکرین میں ژاک لاکاں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ، لیکن وہ فلسفی کے بجائے، تربیت کے لحاظ، سے ماہرِ تحلیلِ نفسی(Psychoanalyst)اور ذہنی امراض کا ماہر(Psychiatrist)تھا۔ لاکاں نے فرائیڈ کی ’تحلیلِ نفسی‘ کو نئی معنویت دی اور ’فرائیڈیت‘(Friedism) کی نئی قرأت پیش کر کے اسے یکسر بدل دیاجسے لاکاں کی نوفرائیڈیت‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس سے ادب کی افہام و تفہیم میں دور رس نتائج مرتب ہوئے۔ لاکاں نے فرائیڈ کے نظریۂ شعور سے بھی بحث کی اور کہا ہے کہ فرائیڈ نے نہ صرف لاشعور کو دریافت کیا اور اس کے وجود کو ثابت کر دکھایا، بلکہ یہ نظریہ بھی پیش کیا کہ لاشعور ’ساخت‘ رکھتا ہے۔ نارنگ کا خیال ہے کہ یہ ساخت ہمارے اعمال و افعال کو اس طور پر متاثر کرتی ہے کہ اس کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے‘‘(ص ۱۸۳)۔ مشل فوکو کی حیثیت ایک فلسفی کی ہے جس نے پس ساختیاتی نظریے کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ فوکو اپنے نظریۂ ’متینت‘ (Textuality) اور’ڈسکورس‘ (Discourse)کے لیے مشہور ہوا۔ ان اصطلاحات کا استعمال اس کے یہاں خالص فلسفیانہ انداز میں ہوا ہے جس کا سمجھنا خاصا مشکل کام ہے۔ نارنگ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ’’ فوکو اپنے نظریۂ ڈسکورس کے ذریعے جرمن فلسفی نطشے کی نئی تعبیر پیش کر رہا ہے‘‘(ص ۱۹۴)۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’فوکو ڈسکورس کو ذہنِ انسانی کی مرکزی سرگرمی قرار دیتا ہے، ایک عام آفاقی متن کے طور پر نہیں بلکہ ’معنی خیزی‘ کے ایک وسیع سمندر کے طور پر‘‘(ص۱۵۹)۔ جولیا کرسٹیوابھی پس ساختیاتی مفکرین میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ اس کا اصل میدان ادب و تنقید بالخصوص و ادبی معنیات‘ ہے۔ اس نے شعری زبان کا اپنا ایک نظریہ بھی پیش کیا ہے جو تحلیلِ نفسی پر مبنی ہے۔ نارنگ اس کے نظریے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ وہ ان ذہنی رویوں کا سراغ لگانا چاہتی ہے جن کے باعث ہر وہ چیز جو معقول اور منظم سمجھی جاتی ہے، غیر معقولیت اور انتشار کے خطرے سے دو چار رہتی ہے‘‘(ص۲۰۰) نارنگ نے جولیا کرسیٹوا کے شعری زبان کے تصور اور شاعری میں آوازوں کے زیر و بم اور آہنگ کے بارے میں اس کے خیالات سے بھی دلائل کے ساتھ بحث کی ہے۔

گوپی چند نارنگ نے کتاب-۲کا تیسرا اور چوتھا باب ممتاز پس ساختیاتی مفکر ژاک دریدا اور اس کے نظریۂ ردِ تشکیل کے لیے مختص کیا ہے۔ فوکو کی طرح دریدا بھی ایک فلسفی تھا جس نے ردِ تشکیل کا نظریہ پیش کر کے پس ساختیاتی فکر کو ایک نئی جلا بخشی اور ایک نئی جہت سے روشناس کرایا۔ دریدا متن(Text)کے متعینہ معنی کو تسلیم نہیں کرتا تھا اور معنیاتی وحدت کے خلاف تھا۔ متن کے متعینہ معنی کی اسی بے دخلی کو وہ وردِ تشکیل‘ (Deconstruction)سے تعبیر کرتا ہے۔ پس ساختیاتی تنقید میں ردِ تشکیل کی مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہیں جو بے حد پیچیدہ ہیں، لیکن نارنگ نے اس کی جو تعریف پیش کی ہے وہ نہایت سادہ اور عام فہم ہے۔ ان کے نزدیک ’’ردِ تشکیل سے مراد متن کے مطالعے کا وہ طریقۂ کار ہے جس کے ذریعے نہ صرف متن کے متعینہ معنی کو بے دخل(Undo) کیا جا سکتا ہے، بلکہ اس کی معنیاتی وحدت کو پارہ پارہ بھی کیا جا سکتا ہے‘‘(ص۲۰۴)۔ نارنگ نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ رد تشکیلی طریقۂ کار کا رواج پہلے پہل فرانس کے Tel Quelگروپ کے لکھنے والوں میں ہوا، لیکن اس کو فلسفیانہ طور پر دریدا نے ہی قائم کیا، اور اب یہ اسی سے منسوب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رد تشکیلی نظریے کا ’’بنیادی سروکار‘‘ معنی ہی سے ہے، لیکن یہ نظریہ اس بات پر، بقول نارنگ، سختی سے زور دیتا ہے کہ ’’زبان کی ساخت اس نوع کی ہے کہ معنی کی حتمیت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ معنی ہمیشہ عدم قطعیت کا شکار ہے‘‘(ص۲۲۱)۔

کتاب-۲ کے پانچویں باب کا عنوان ’’مارکسیت، ساختیات اورپس ساختیات‘‘ ہے۔ اس باب میں پانچ مارکسی دانشوروں اور نظریہ سازوں کے افکار و خیالات سے بحث کی گئی ہے جن کے نام ہیں : لوسی این گولڈ من (رومانیہ)، پیئرماشیرے (فرانس)، لوئی آلتھیوسے (فرانس)، ٹیری ایگلٹن(برطانیہ)، اور فریڈرک جیمس(امریکہ)۔ ان مفکرین کے فکری رویوں میں گوپی چند نارنگ نے مارکسیت اور ساختیات وپس ساخیتات کا اشتراک تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہ مفکرین ہیں جنھوں نے ادبی تنقید کو گہرے طور پر متاثر کیا ہے۔

کتاب-۲ کا چھٹا باب ’’قاری اساس تنقید‘‘ ہے جس میں ’قاری اساس تنقید‘ (Reader – Response Criticism)کے آغاز و ارتقا اور موقف سے بحث کی گئی ہے۔ یہ تنقید ساتویں دہائی کے اواخر میں شروع ہوئی جسے گوپی چند نارنگ ’’انقلابی تنقیدی قوت‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ’’ یہ تنقید مصنف کے جبر کو رد کرتے ہوئے۔ ۔ ۔ معنی کی بوقلمونی کی تعبیر و تشکیل میں قاری کو شریک کرتی ہے‘‘ (ص ۲۷۱)۔ انھوں نے آئی۔ اے۔ رچرڈز اور نار تھروپ فرائی کو قاری اساس تنقید کا پیش روتسلیم کیا ہے۔ اسی باب میں انھوں نے تفہیمیت(Hermeneutics) اور مظہریت (Phenomenology) سے بھی بحث کی ہے۔ تفہیمیت کو وہ صدیوں پرانا فلسفہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا تعلق صرف ادبی مطالعے سے نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی خاص طریقۂ کار اور ضابطۂ عمل ہے جس کی پابندی ضروری ہو۔ ان کا یہ خیال بجا ہے کہ’’ تفہیمیت کا آغاز قدیم متون کو پرکھنے اور ان کے حقیقی معنی جاننے کے لیے ہوا تھا، آج اسے مختلف علوم میں تفہیم کاری کے کام کے لیے برتا جاتا ہے، اور اس کا چلن مذہبیات کے علاوہ تاریخ، سماجیات، قانون اور علوم انسانیہ کے مختلف شعبوں میں ہو رہا ہے‘‘(ص ۲۸۷)۔ مظہریت کے سلسلے میں نارنگ کا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک فلسفیانہ رویہ ہے جسے جرمن فلسفی ایڈمنڈ ہوسرل نے قائم کیا۔ مظہریت کا انسانی شعور سے گہرا تعلق ہے، چنانچہ ہوسرل کا یہ خیال توجہ طلب ہے کہ جو مظاہر (Phenomena) ہمارے شعور میں ہیں، انھی کے ذریعے ہم اشیاء کی اصل اور ان کی صفات کا تعین کرتے ہیں (بہ حوالہ نارنگ، ص ۲۹۴)مظہریت کو تنقیدی رویے کے طور پر بھی برتا جاتا ہے، چنانچہ نارنگ کہتے ہیں کہ’’ مظہریاتی تنقید کے نزدیک ادب شعور کی ایک فارم ہے، اور تنقید کا کام اس فارم کا تجزیہ کرنا ہے اور اس میں مصنف کے تہ نشین شعور کی نشان دہی کرنا ہے‘‘(ص ۲۹۴)۔

زیرِ نظر کتاب کے تیسرے حصے یعنی کتاب۔ ۳میں گوپی چند نارنگ نے ’’مشرقی شعریات اور ساختیاتی فکر‘‘ سے بحث کی ہے۔ کتاب کا یہ حصہ بھی پچھلے دو حصوں کی طرح بڑی۔ دو ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کے پہلے باب میں سنسکرت شعریات اور دوسرے باب میں عربی فارسی شعریات کا نہایت مفصل اور عالمانہ محاکمہ کیا گیا ہے۔ نارنگ نے سنسکرت شعریات کی صدیوں کی روایت کا ساختیاتی فکر کی روشنی میں ازسر نو جائزہ لیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’’مغرب میں جو نکات اب ساختیاتی وپس ساختیاتی اور رد تشکیل فکر کے تحت بیان کیے جا رہے ہیں ان سے ملتے جلتے نکات ہندوستانی فکر وفلسفے بالخصوص بودھ فلسفے میں صدیوں پہلے زیرِ غور رہے ہیں ‘‘ (ص ۳۳۸)۔ انھوں نے بودھی نظریۂ اپوہ نیز شونیہ، سپھوٹ اور دھونی سے متعلق نظریات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، اور ان نظریات میں اورساختیاتی وپس ساخیتاتی فکر اور نظریۂ رد تشکیل میں اشتراک اور مماثلتوں کی نشان دہی کی ہے جو بلاشبہ لائقِ داد وتحسین ہے۔ اسی طرح انھوں نے اس حصۂ کتاب میں عربی فارسی شعریات سے بھی اپنی گہری واقفیت کا ثبوت فراہم کیا ہے اور یہ خیال پیش کیا ہے کہ ’’مشرق میں لسان و لغت اور بیان و بلاغت پر غور فکر کی جو قدیم روایات رہی ہیں ان میں بعض ایسے نکات بھی ہیں جو جدید فلسفۂ لسان یاساختیات کے پیش رو معلوم ہوتے ہیں، بھلے ہی ان کی منطقی تحلیل اس درجہ نہ کی گئی ہو‘‘(ص۴۸۶)۔

گوپی چند نارنگ نے ’’صورتِ حال‘ مسائل اور امکانات‘‘ کے عنوان سے زیرِ نظر کتاب کا ’اختتامیہ‘ بھی تحریر کیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ تھیوری یعنی نظریہ سازی پر اتنی توجہ کیوں صرف کی گئی ہے۔ پس ساختیاتی فکر کے اہم نکات کو پھر سے بیان کیا گیا ہے یا ان کی تلخیص پیش کی گئی ہے۔ دریدا اور مارکسیت پر بھی اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ رولاں بارت، لاکاں، فوکو، جولیا کرسیٹوا، آلتھیوسے، ٹیری ایگلٹن، وغیرہ کے خیالات کا اعادہ کیا گیا ہے، اور دل چسپ بات یہ ہے کہ اسی اختتامیہ میں ’مابعد جدیدیت‘ کو متعارف کرایا گیا ہے جو ایک نئی ادبی صورتِ حال ہے اور جس کا ارتقا ہمارے یہاں جدیدیت کے ردِ عمل کے طور پر عمل میں آیا، لیکن مغرب میں صورتِ حال مختلف تھی۔ اختتامیہ کے آخر میں اردو تنقید کی موجود ہ صورتِ حال کو بھی بیان کیا گیا ہے جوان کے نزدیک زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔

تقریباً چھے سوصفحات پر مشتمل کتاب’ساختیات‘ پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ کی تسویدکے دوران پروفیسرگوپی چند نارنگ کا یہ طریقِ کار رہا ہے کہ صفحہ در صفحہ الگ الگ حوالے اور حواشی (References) دینے کے بجائے انھوں نے اس کتاب کے ہر حصے کے آخر میں ’ مصادر‘ کے تحت ہر باب سے متعلق ان تمام کتابوں کے نام (مصنفین و مرتبین کے ناموں اور ناشرین کے حوالوں نیز مقام وسنہِ اشاعت کے ساتھ) درج کر دیے ہیں جوا ن کے زیرِ مطالعہ رہی ہیں یا جن سے انھوں نے استفادہ کیا ہے۔ اس طرح متعلقہ موضوعات پر شائع شدہ تقریباً دوسو مستند کتابوں کی تفصیلات مہیا کرا دی گئی ہیں جو قارئین کے لیے کسی بیش قیمت علمی خزانے سے کم نہیں۔ پروفیسر نارنگ لائقِ مبارک باد ہیں کہ انھوں نے ایک ایسے موضوع پر قلم اٹھایا جسے اردو نے اپنی بے بضاعتی کے باعث اپنی پوری ادبی تاریخ کے دوران کبھی مس نہیں کیا تھا۔ وہ ساختیاتی، پس ساختیاتی اور رد تشکیلی نظریوں کے بنیاد گزار نہ سہی، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ان معاصر تنقیدی رویوں اور فکری مباحث کو اردو میں متعارف کرانے کا سہرا انھی کے سر ہے اور یہ کام انھوں نے اپنی تمام تر علمی، ادبی، تنقیدی اور دانشورانہ صلاحیتوں کو بروئے عمل لاتے ہوئے بہ حسن و خوبی انجام دیا ہے۔ چوں کہ یہ نظریات اور فکری میلانات مغرب سے ہمارے یہاں آئے ہیں، اس لیے مغربی مصنفین و مفکرین کی تصانیف سے اخذواستفادہ ان کے لیے ناگزیر تھا، ورنہ اردو میں ایسی کتاب کے معرض وجود میں آنے کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔

(بشکریہ بزم اردو لائبریری )